تحریر: روف عامر پپا بریار
امام غزالی کا فرمان ہے کہ ہم دولت سے ہم نشین تو خرید سکتے ہیں نیند نہیں۔
اسرائیل قبلہ اول کو صہیونیوں کی ملکت ثابت کرنے کے لئے سازشوں و مکرکرنیوں کے کئی جال بن رہا ہے مگر رحیمی خدا کے کارن یہ جال ہمیشہ کھل کر یہودیوں کا کچہ چھٹا طشت ازبام کردیتے ہیں۔اسرائیل نے بیت المقدس کی اسلامی شناخت کے شیش محل کو زمین بوس کرنے کے لئے قبلہ اول کے گرد سڑکیں،نئی عمارتیں،پارک اور تفریحی سیرگاہیں بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہودیوں کی اٍس نئی واردات کا بھانڈا ایک غیر سرکاری تنظیم ہارنز نے پھوڑا ہے۔اسرائیلی حکومت نے یہ ٹاسک یروشلم اتھارٹی کے سپرد کردیا ہے۔اٍس پراجیکٹ کے اخراجات یروشلم کے بلدیاتی چیرمین اور وزیراعظم برداشت کررہے ہیں۔یہ منصوبہ یہود المروٹ کے دور میں ایجاد کیا۔ستمبر2008 میں المروٹ نے اس منصوبے کی منظوری دی۔منصوبے کی رو سے قدیم شہر کے چاروں اطرافات میں نئی تعمیرات کا جال بچھایا جارہا ہے تاکہ وہاں کثیر تعداد میں موجودہ فلسطینی اور عرب باشندے بے دخل کر دئیے جائیں۔
تل ابیب کے ترجمان نے سازش کے انکشاف پر دلیل دی کہ وہ یروشلم کو اٍسرائیل کا مستقل کیپٹل بنانے کے لئے مضبوط بنیاد رکھ رہے ہیں مگر درون خانہ اٍس سازش کے پس پردہ بیت المقدس کو ہتھیانا مقامات مقدسہ و فلسطینی سرزمین پر اپنے بدمعاشانہ قبضے کو دوام بخشنا ہے۔ایسے زہریلے پراجیکٹ کی رو سے مجوزہ علاقے پر اٍسلامی تہذیب و ثقافت کے صدیوں پرانے اثرات کو مٹا کر یہودی کلچر کو دوام بخشنا ہے ۔
اسرائیل کے ایک مقدس ترین مقام جو ابھی تک متنازعہ اور فلسطنیوں کی ملکیت ہے وہاں ایک ایکڑ زمین پر چوبیس عمارتیں تعمیر کی جارہی ہیں۔قبلہ اول کے چاروں طرف اسٹیڈیم،پارکس اور دفاتر بنانے کا پروگرام اٍس بودے منصوبے کا حصہ ہے۔مشرقی بیت المقدس میں پراجیکٹ کی تکمیل کے لئے حکومت کے پاس مطلوبہ جگہ پر کوئی زمین نہیں ہے۔یوں وہاں آباد مسلمانوں عربوں اور فلسطینیوں سے زبردستی زمین خریدی جارہی ہے۔
اسرائیل کے نامور دانشور نے اعتراض کیا ہے کہ نئے منصوبے سے یروشلم پہلے سے زیادہ غیر مستحکم اور خون الود ہوجائے گا مگر تل ابیب نے اٍس رائے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اٍس منصوبے سے تمام مذاہب کے پجاری مستفید ہونے گے کیونکہ اٍسرائیلی قوانین مقامات مقدسہ کی زیارت کے لئے ہر شخص کو وہاں جانے کی اجازت دیتے ہیں مگر سچ تو یہ کہ ہاتھی کے دانت دکھانے والے اور جبکہ کھانے والے دوسرے ہوتے ہیں۔
اسرائیل کے ترجمان کا کہنا ہے کہ صرف پیشگی اجازت لئے بغیر تعمیر کئے جانے والے گھروں کو مسمار کیا جائے گا۔ المروٹ بھی مسلم تعصب پسند لیڈر ہے مگر وہ اپنے دور میں امن معاہدے کی کچھ نہ کچھ پاسداری کرتا رہا ۔المروٹ کے جانے کے بعد اٍقتدار کے مسند پر جلوہ افروز ہونے والے انتہاپسند نیتن یاہو اٍس پراجیکٹ کی جلد از جلد تکمیل چاہتے ہیں تاکہ یروشلم کی ہیت تبدیل کرکے فلسطینیوں کے ملکیتی دعووں کو ریت کیا جائے۔
یاد رہے کہ یروشلم مسلمانوں،فلسطینیوں اور عیسائیوں کے لئے مقدس ہے مگر اٍسرائیلی جادوگر اب اٍسے صرف یہودیوں کے نام کرنے کے لئے بے تاب ہیں۔اسرائیل یروشلم پر اپنا حق جتا کر اٍسے اپنے ابدی کیپٹل کا درجہ دے چکا ہے مگر عالم عرب اور عالمی برادری تل ابیب کا یہ دعوی تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔یہودی حکمرانوں نے پوری دنیا کے یہودیوں کو اٍسرائیل انے کی دعوت دی ہے اور ہجرت کا عمل اب تک جاری ہے ہجرت کرنے والے یہودیوں کو مسلمانوں کے رقبے پر مکانات تعمیر کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
یروشلم کے مئیر برکاٹ نے نے کہا کہ ہم نے مشرقی بیت المقدس میں35550 مکانات تعمیر کرنے کا ماسٹر پلان مرتب کیا ہے۔برکاٹ نے وعدہ کیا کہ متاثرہ فلسطینیوں کو حکومت متبادل زمین فراہم کرے گی۔یہاں بیشتر فلسطینی1930 سے رہائش پزیر ہیں۔اٍسرائیل نے1967 کی جنگ میں مشرقی بیت المقدس پر تسلط قائم کیا تھا۔فلسطینی مشرقی بیت المقدس کو مستقبل کی آزاد فلسطینی ریاست کا کیپٹل بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔بیت المقدس میں7لاکھ40 ہزار ابادی کا تیس فیصد فلسطینیوں پر مشتعمل ہے۔برکاٹ ازاد حثیت سے کامیاب ہوئے مگر نیتن یاہو کی طرح برکاٹ کے زہن و قلوب میں فلسطینیوں سے نفرت کا زہر بھرا ہوا ہے۔اپنے اٍنتہاپسندانہ نظریات کی وجہ سے وہ نیتن یاہو کے پانچ پیاروں میں شامل ہیں۔
یواین او کیhuman right ونگ کی رپورٹ کے مطابق ابھی تک1500 فلسطینی گھروں کے انہدام کا فیصلہ زیر التوا ہے۔یواین او کے مطابق اگر یہ گھر مسمار ہوئے تو نوہزار شکستہ دل فلسطینی بے گھر ہوجائیں گے۔برکاٹ کے حواری مشیر اسٹیفن ملر کا فرمانا ہے کہ متاثر ہونے والوں کو فلسطینی علاقوں میں اباد کیا جائے گا ٰ جس سے فلسطینی بستیوں میں مکانات کی کمی پوری ہوجائے گی۔برکاٹ جگالی کرتے ہیں کہ فلسطینیوں کو مکانات تعمیر کرنے کے ہزاروں اجازت نامے جاری کئے گئے مگر دوہزار چھ سے ابتک359 اجازت نامے جاری ہوئے۔فلسطین کی موجودہ حکومت دو ریاستی فارمولے کی مخالف ہے۔
عیسائی دنیا کی روحانی شخصیت پوپ نے اپنے دورہ اسرائیل میں جہاں ایک طرف یہودیوں سے اظہار یکجہتی کیا وہاں دوسری جانب خطے میں قیام امن کے لئے دوریاستی فارمولے کی تائید کرکے فلسطینیوں کی پرزور وکالت کی۔پوپ گنبد خضری کی زیارت و بیت المقدس سے اظہار عقیدت کے لئے آئے تو فلسطین کے مفتی اعظم محمد حسین نے پوپ سے اپیل کی کہ وہ ستم رسیدہ فلسطینیوں پر اٍسرائیل کی جانب سے برسائی جانے والی اگ کی برسات رکوانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔پوپ نے اپنی دعا میں کہا کہ یا اللہ اٍس مقدس سرزمین مشرق وسطی پر اپنی رحمت برسا۔اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو ایسے آدم خور دوریاستی فارمولے کو اپنانے پر تیار نہیں۔وہ گھمنڈ کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کو بذور قوت کچل دیں گے۔وہ غیر مشروط مذاکرات پر تیار ہیں مگر فلسطینیوں کو انکے حقوق مہیا کرنے سے انکاری ہیں۔
اب سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیتن یاہو کی فتنہ گری سے دوریاستی فارمولے کا کیا حشر ہوگا۔وائٹ ہاوس کے مرد قلندر سے بھی خیر کی کوئی توقع نہیں کیونکہ انکے اٍرد گرد نظر انے والے مصاحبین و مشیر سارے یہود نواز ہیں۔اسرائیل دو ریاستی فارمولے کو گریٹر اسرائیل کی موت تصور کرتا ہے۔گریٹر اسرائیل صرف فلسطین تک محدود نہیں بلکہ اٍس کے نقشے کے مطابق شمالی افریقہ اور مدینہ منورہ اٍسی کا حصہ ہونگے۔عرب دنیا فلسطینی ریاست کے عوض اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے تک تیار ہے۔شاہ عبداللہ کے امن فارمولے کی ساری دنیا اور اٍسرائیل تک نے توصیف کی مگر وہ اٍس کو سینے سے لگانے کے لئے تیار نہیں کیونکہ وہ اسرائیل اور فلسطین سے سارے فلسطینیوں کو دربدر کرنا چاہتا ہے۔
بیت المقدس کی اسلامی شناخت پر صلیبیت کی سیاہی پھیرنا اسرائیل حکومت کا ماٹو ہے۔قبلہ اول کی ازادی کے لئے مسلمانوں کو ہی سربکف ہوکر یہودیوں کے سامنے کھڑا ہونا پڑے گا۔امریکی دوستی کے خبط میں مبتلا مسلم امہ کے رنگیلے بادشاہوں کو اٍمام غزالی کے محولہ بالا قول کی روشنی میں اپنے اتحاد و یگانگت سے بیت المقدس کو اسرائیلی تسلط سے بچانا ہوگا۔وبامہ سے خیر کی توقع کرنا عبث ہے۔مسلم دنیا کے مہاراجو یاد رکھ تم دولت سے ہم نشین خرید لوگے مگر نیند نہیں بعین قبلہ اول کی ازادی بھی امریکی غلامی سے نجات اور جذبہ جہاد سے ممکن ہے۔
No comments:
Post a Comment