Tuesday, June 9, 2009

طالبان، طالبان، طالبان



تحریر: پرواز رحمانی، انڈیا

طالبان۔ معمولی اردوداں بھی جانتاہے کہ یہ ’’طالب ‘‘کی پشتو جمع ہے ۔جیسے عربی میں طلباء ، طلبہ ،فارسی میں دانش جویاں ،انگریزی میں اسٹوڈینٹس یا ہندی میں ودیارتھی ۔ان سب کا مطلب ہے علم حاصل کرنے والے ۔لیکن آج کل یہ لفظ ایک خاص مفہوم میں بولا اور سنا جارہا ہے ۔’’سفاک اور ظالم مسلمان‘‘ ،جنونی ،پسماندہ ذہنیت کے علماء ،اور سب سے بڑھ کر ’’اسلامی دہشت گرد ۔‘‘لیکن اس بحث سے پہلے کہ لفظ طالبان کو یہ مفہوم کس نے اور کیوں دیا۔

آئیے دیکھیں کہ طالبان کون تھے اور یہ لفظ چلا کہاں سے ۔قصہ یہ ہواکہ افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے خاتمے کے بعد جب وہاں آزادحکومت کی تشکیل کا سوال آیا تو وہ مسلم تنظیمیں، جنہوں نے سوویت یونین کے خلاف جہاد چھیڑ کر اسے بھاگنے پر مجبور کیا تھا ،آپس میں دست و گریباں ہوگئیں ۔امریکہ ،جس نے اپنی غرض کے لیے اور اپنے ایجنڈے کے تحت ان تنظیموں کی بھرپور مدد مال اور اسلحہ سے کی تھی ،پریشان تھا۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہاں اسلام پسندوں کی کوئی مضبوط حکومت قائم ہو۔

گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی کی حکومت تو اسے ہرگز منظورنہیں تھی ۔ایک بار اس نے پاکستان ،ایران اور سعودی عرب کی سرگرم مددسے ایسی حکومت کا نقشہ تیار کرکے اسے منظور بھی کرالیا تھا جس میں حزب اسلامی شامل نہیں تھی۔لیکن وہ چلی نہیں۔ تینوں مسلم ملکوں نے بھی امریکی عزائم کو بھانپ لیا تھا ۔


اُس وقت کا امریکی موقف

تنظیموں کی یہ باہمی کشمکش جاری ہی تھی کہ اچانک طالبان کا نام سناجانے لگا۔ یہ لوگ دینی مدارس کے اساتذہ اور بالائی درجات کے طلباء تھے، اور جلال آباد سے اٹھے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے افغانستان کے بڑے حصے پر چھا گئے۔ حیرت انگیز طور پر امریکہ نے کوئی تعرض نہیں کیا۔ بلکہ طالبان کے اقتدار کو عملاً قبول کرلیا۔

امریکہ کے اِس موقف کا عقدہ بعد میں یوں کھلا کہ اُس کے خیال میں طالبان غیر منظم، ناتجربہ کار اور جذباتی لوگ ہیں، اپنی حرکات کی بنا پر جلد ہی بکھر جائیں گے۔ مگر امریکی اندازہ غلط ثابت ہوا۔ طالبان روز بروز مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جارہے تھے۔ اب امریکہ پریشان ہوگیا۔ پریشانی دو باتوں کی تھی۔ ایک تو طالبان کی حکومت شرعی قوانین کے نفاذ کے ذریعے اُن سنگین اور روایتی جرائم پر قابو پانے میں کامیاب ہورہی تھی، جو افغانستان کے اکثر قبائلی علاقوں میں عام تھے۔ دوسرے طالبان نے پوست کی تمام کاشت تباہ کرکے اس کی آئندہ پیداوار ختم کردی تھی۔ منشیات کایہ کاروبار جرائم پیشہ قبائلیوں کا بہت بڑا کاروبار تھا مگر اس سے اصل فائدہ مغربی ملکوں کے تاجروں اور اسمگلروں کو تھا، جواربوں ڈالر سالانہ کماتے تھے۔

اس لئے امریکہ نے اپنے گیارہ ستمبر کے آپریشن کے بعد بن لادن کی سپردگی کو بہانہ بنا کر افغانستان پر فوج کشی کردی۔ طالبان کو ایک سُپر پاور سے ٹکرانے کا انجام معلوم تھا، لیکن وہ جدید تاریخ اقوام کی پہلی حکومت تھی جس نے میدانِ جنگ میں شکست کھانا قبول کرلیا مگر ایک ظالم وجابر طاقت کا بے جا مطالبہ منظور نہیں کیا۔


کردارکشی کامقصد

امریکی جارحیت کے بعد ایک عرصے تک خاموشی رہی لیکن اس دوران امریکہ طالبان کو بدنام کرنے کی زور دار مہم چلاتارہا۔ مگر اب طالبان ، افغانستان کے طالبان نہیں بلکہ وہ تمام باعمل، باوضع اور غیرت مند مسلمان ہیں جو اسلامی نظام حیات کو دنیا کا بہترین نظام حیات سمجھتے ہیں۔

کردار کشی کی اس مہم میں امریکہ کے پرانے حلیف اور نئے وفادار بھی اس کا ساتھ دیتے آرہے ہیں۔ دنیا بھر میں دینی مدارس کو خاص طور سے نشانہ بنایاگیا۔ افغان طالبان سے ملتے جلتے لوگ چونکہ پاکستان کے صوبے سرحد اور شمالی قبائلی علاقوں میں بھی موجود ہیں اس لئے امریکہ نے انہیں ختم کرنے کے لئے اب پاک افغان سرحد کو اپنا باقاعدہ اڈا بنالیا ہے۔ بڑی تعداد میں امریکی فوج وہاں موجود ہے جس میں، بعید نہیں کہ سی آئی اے اور موساد کے ایجنٹ بھی ہوں۔

یہ امریکی واسرائیلی ایجنٹ پاکستانی علاقوں میں بلا روک ٹوک پھرتے ہیں جس کی وجہ سے وہاں جرائم کی صورت حال سنگین ہوگئی تھی۔ اسی لئے تحریک نفاذ شریعت محمدیؐ کے سربراہ صوفی محمد اور ان کے ساتھیوں کا مطالبہ تھا کہ سوات میں قوانین شریعت نافذ کئے جائیں۔ چنانچہ صوبہ سرحد اور وفاقی حکومت کے ساتھ مفاہمت کے بعد نظام عدل ریگولیشن جاری ہوا۔ اس کے بعد جرائم میں تیزی سے کمی آرہی تھی، عوام میں تحفظ کا احساس پیدا ہورہا تھا ۔یہ بات امریکی اندیشوں کے مطابق تھی اس لئے اس نے اپنے پہلے دن کے اعلان کے مطابق معاہدہ توڑنے کے لئے اپنی وفادار حکومت پاکستان سے ایسے اقدامات کروائے کہ معاہدہ عملاً ختم ہوگیا۔



اصل ہدف کون ہے؟

اِس وقت صورت یہ ہے کہ سوات اور دوسرے قبائلی اور سرحدی علاقوں کے دیندار لوگ پاکستان میں امریکی ریشہ دوانیوں اور پاکستانی حکومت کی امریکہ نوازی کے خلاف مہم چلارہے ہیں۔ ان میں وہ جرائم پیشہ لوگ بھی شامل ہوگئے ہیں، جن کے خلاف صوفی محمد کارروائی چاہتے تھے۔ اِن سب کو دنیا طالبان کہہ رہی ہے جب کہ وہ خود کو طالبان نہیں کہتے۔

کچھ لوگ ہیں جو طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں لیکن سب نہیں ہیں۔ ان سب کو طالبان کا نام دے کر بدنام کرنے کی سازش امریکہ کی ہے۔ کیونکہ ’طالبان‘ کے نام سے امریکہ نے اپنا ایک نیا فرضی دشمن وضع کرلیا ہے۔

آج ’’طالبان‘‘ کا لفظ ایک گالی اور ایک علامت بن گیا ہے۔ ان لوگوں کو امریکہ نے پہلے بمباری کرکے خود مارنے کی کوشش کی، مگر اب حکمت عملی بدل دی ہے۔ اب یہ کام وہ پاکستان کی حکومت سے لے رہا ہے۔ اس کام کے لئے اسے خطیر رقم دی ہے۔ ادھر امریکہ کے وفادار ’’صدر پاکستان‘‘ نے بھی اعلان کردیا ہے کہ طالبان پاکستان کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہیں اور ان کے خلاف فوجی کارروائی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ان کا صفایا نہیں ہوجاتا۔

لیکن ظاہر ہے کہ کسی دشمن کو ختم کرنے کے لئے پہلے اسے بدنام کرنا ضروری ہے۔ اس لئے ان کے تعلق سے طرح طرح کی خبریں پھیلائی جارہی ہیں۔ ہوسکتا ہے ان میں کچھ ان کی بھی نادانیاں ہوں۔

لیکن یاد رہناچاہئے کہ امریکہ کا آخری ہدف دنیا کے تمام دیندار اور غیور مسلمان ہیں۔ آغاز پاکستان کے قبائلی علاقوں سے ہوا ہے۔

2 comments:

  1. I am just surprised to see this un parallel support and arguments in favor of Taliban.
    I guess the person who has written it is only a drawing room columist.
    it is even shameful to call them "Deendar" tell me what good way they have served the Islam? the fact is that they are only deteriorating true Image of Islam. killing ur own muslim brothers, slaughtering them and publishing their videos to horrify people.... do u really think this can be a khidmant of Islam by these deen dar people???

    Pls wake up.

    Naz

    ReplyDelete
  2. i believe that writer gave true image but Naz has just brain washed by secular media.....

    ReplyDelete