تاریخ بڑے لوگوں کے حالات زندگی کا نام ہے ۔ جو لوگ اپنی اہلیتیوں اور قابلیتیوں کی بنا پر حالات کو فطری انداز سے تبدیل کرکے اپنی پسند کے دھارے میں ڈھالتے ہیں وہ بلاشبہ بڑے لوگ ہوتے ہیں ۔ اگر ہم ایسے ہی لوگوں کا اسلامی تاریخ سے جائزہ لیں تو ان کا تعارف شیخ عبداللہ عزام یوں کرواتے نظر آتے ہیں۔
’’وہ بہت کم افراد ہیں جو اسلام کی مبادیات اٹھانے والے ہیں ۔ اور وہ ان میں سے بھی تھوڑے ہیں جو ان مبادیات کی تبلیغ کیلئے دنیا بھر میں نکلتے ہیں۔پھر ان میں سے بھی وہ بھت کم ہیں جو ان مبادیات کی تائید میں اپنا خون اور اپنی جان تک پیش کر دیتے ہیں ۔اور یہی لوگ جو قلیل میں سے قلیل میں سے قلیل افراد ہیں ان کے راستے سے سواکسی اور راستے سے بزرگی اور شرف حاصل کرنا ممکن نہیں اور یہی واحد راستہ ہے ‘‘۔
اگر ہم تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کریں تو بہت کم اسلام کے ان ابطال کا تذکرہ ہمارے سامنے آئے گا جنہوں نے جہد اسلامی کے ان تمام پہلوؤں کو پورا کیا ہو۔ لیکن ان قلیل ابطال میں سے ایک نام اسلام کے اس بطل جلیل کا آئے گا جسے پوری دنیاامیر ابن الخطاب شہید کے نام سے جانتی ہے ۔
ابن الخطاب 1969میں سعودی عرب کے شمال سرحدی علاقے عرعر میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد سعودی عرب سے تھے جبکہ والدہ ترکی سے تعلق رکھتی تھیں ۔ چنانچہ انہوں نے ایک نسبتاً بہتر دولت مند اور تعلیم یافتہ گھرانے میں پرورش پائی اور بڑے ہوکر بہادر اور تنو مند نوجوان بنے جنہیں نڈر اور بے خوف سمجھا جاتا تھا۔ وہ سکول میں انتہائی لائق اور ذہین طالبعلم شمار ہوتے تھے اور انہوں نے سیکنڈری سکول امتحان میں 94%نمبر حاصل کئے ۔بعد ازاں انگلش زبان میں ماسٹرز کرنے کے بعد انہوں نے1987میں ایک امریکن انسٹیٹیوٹ میں داخلہ لے لیا اور مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔
یہ وقت تھاجب افغانستان پر چڑھائی کرنے والی سوویت یونین کے خلاف جہاد اپنے عروج پر تھا۔ پوری دنیا سے مسلمان نوجوان‘ الشیخ عبداللہ عزام(شہید1989) ٬الشیخ تمیم عدنانی (وفات1988) اور الشیخ اسامہ بن لادن جیسی جہادی شخصیات کی پکار پر لبیک کہنے کیلئے افغانستان کا رخ کر رہے تھے ۔ مجاہدین کے دلیرانہ کارناموں اور بے باک شجاعتوں کے ورطئہ حیرت میں ڈال دینے والے واقعات دنیا بھر کے مسلمانوں کے کانوں تک پہنچ رہے تھے ۔ لہٰذا خطاب کیلئے بھی جب امریکہ میں نئی تعلیمی زندگی کی ابتدا کرنے کا وقت آیا تو انہوں نے امریکہ کی بجائے ؛اپنے بہت سے دوستوں اور رشتہ داروں کی طرح افغان جہاد میں شریک ہونے کا فیصلہ کیا۔ جس دن 1987کے اواخر میں وہ اپنے والدین اور خاندان والوں سے رخصت ہوئے تو اس کے بعد وہ اپنے گھر واپس نہیں آئے۔
ان کے ایک مجاہد ساتھی نے اُس نو عمر‘ خطاب ۔ ۔ ۔ جو اپنے پہلے تربیتی کیمپ جلال آباد پہنچا ۔ ۔ ۔ کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات کاحال بیان کرتے ہوئے کہا’’ جلال آباد کے نزدیک یہ تربیتی کیمپ ان مجاہد ساتھیوں سے بھرا ہوا تھا جو کہ تقریباً روزانہ نئے پہنچتے اور ٹریننگ حاصل کرکے چلے جاتے ۔ ہم ان دنوں روسیوں کے خلاف ایک بڑے حملے کی تیاری کر رہے تھے ۔ وہ مجاہد جو اپنی تربیت مکمل کر چکے تھےاپنے اپنے پیک تیار کرنے کے بعد فرنٹ لائن پر پہنچنے کیلئے روانہ ہو رہے تھے ۔ ہم بھی تربیت کے بعد فرنٹ لائن پر پہنچنے کیلئے کیمپ چھوڑنے کی تیاری کر رہے تھے کہ نئے بھائیوں کا ایک گروپ آپہنچا ۔میں نے اس گروپ میں لمبے بالوں اور کشادہ پیشانی والے 16-17سال کی عمر کے ایک نوجوان کا جائزہ لیا۔ اس نوجوان کو جونہی فرنٹ لائن پر جانے والے ہمارے قافلے کا علم ہوا تو یہ نوجوان تربیتی کیمپ کے کمانڈر کے پاس چلا گیا ۔ اور اس سے التجا کرنے لگ گیا کہ اسے بھی فرنٹ لائن پہ جانے والے اس گروپ کے ساتھ جانے کی اجازت دی جائے ۔ لیکن کمانڈر نے بغیر تربیت کے اسے فرنٹ لائن پر بھیجنے سے یکسر انکار کر دیا ۔ میں اس نوجوان سے بہت متاثر ہوا،اسکے پاس گیا اور اسے تھپتھپا کر حوصلہ دیا ۔ میں نے اس سے اس کا نام دریافت کیا ۔ اس نے جواب دیا ’’ابن الخطاب‘‘۔
خطاب اس کیمپ میں اپنی تربیت مکمل کرنے کے بعد فرنٹ لائن پرچلے گئے۔معسکر میں ان کے اساتذہ میں سے ایک حسن الصریحی تھے [یہ جدہ کے نواحی ایک حراستی کیمپ میں 1996سے زیر حراست ہیں] جواس معسکرکے امیربھی تھے انہوں نے 1987میں جاجی کے محاذ پر افغان اور پاکستانی مجاہدین کے ساتھ شیخ اسامہ کی کمان میں زندگی اور موت کا ایساشاندار معرکہ سر کیاتھاجو آج عسکری تاریخ کا سنہری باب بن چکا ہے ۔ ایسے قابل قدر اساتذہ سے تربیت پانے کے بعد خطاب آئندہ چھے سالوں میں مجاہدین کے منتخب بہادر اور تجربہ کار کمانڈروں کی صف میں شامل ہو چکے تھے جنہوں نے دشمن کو ناکوں چنے چبوائے ۔ اور ہر محاذ پر روسی افواج کو ہزیمت سے دوچار کیا ۔ وہ روسی افواج کے خلاف ایمبش اورحملوں سے لے کر قریباً ہر بڑے آپریشن فتح جلال آباد ، فتح خوست اور فتح کابل میں شامل رہے ۔
خطاب میدان جہاد میں بسا اوقات موت کے ہاتھوں بال بال بچے ،کہ ابھی وہ وقت مقررہ نہیں آیا تھا۔ ایک دفعہ ان کے پیٹ میں 12.7mmہیوی مشین گن کی گولی لگ گئی (یاد رہے کہ یہ گن بکتر بند گاڑیوں کو نقصان پہنچانے اور دشمن کی مضبوط مورچہ بندیوںکو کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے) چنانچہ ان کے دوست نے یہ واقعہ بتلاتے ہوئے کہاکہ ’’ ایک آپریشن کے دوران ہم چند ساتھی خط ثانی پر ایک مکان میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ یہ شام کے دھندلکے کا وقت تھا اور خط اول پر لڑائی شدت سے جاری تھی ۔ اسی اثناء میں خطاب کمرے میں داخل ہوا ۔ اس کا چہرہ زرد دکھائی دے رہا تھا ۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ نارمل ہونے کی کوشش کر رہا ہو۔ وہ دیوار کے ساتھ چلتا ہوا ہما رے سامنے بیٹھ گیا۔اور خلاف معمول دیرتک خاموش بیٹھا رہا ۔ساتھیوں نے محسوس کیاکہ اس کے ساتھ کوئی گڑ بڑ ہو گئی ہے ۔ ہم نے اس سے پوچھا کہ کہیں وہ زخمی تو نہیں ہوگیا ۔ ’’نہیں ‘‘ اس نے مختصر سا جواب دیا۔اس نے مزید بتایا کہ ’’ آج صبح خط اول پرلڑائی کے دوران معمولی فائر لگ گیا تھا جو زیادہ خطرناک نہیں ہے‘‘ ۔ بھائیوں نے خطاب سے کہا کہ وہ انہیں زخم دکھائے ۔لیکن خطاب نے زخم دکھانے سے انکار کر دیا۔ جب ایک بھائی کے مزید اصرار پر اس نے اپنا زخم دکھایا تو ہم نے دیکھا کہ فائر لگنے سے جسم پھٹ چکا تھا اور کپڑے خون میںبھیگ رہے تھے ۔ تب ہم نے ایک گاڑی کا انتظام کرکے اسے جلدی سے نزدیکی فیلڈ ہسپتال میں پہنچایا جبکہ وہ مسلسل کہے جارہا تھا کہ فائر معمولی ہے اور زخم زیادہ خطرناک نہیں ہے ‘‘۔
اسی طرح خطاب اس وقت افغانستان میںہی تھے جب ایک مقامی طور پر تیار کردہ ہینڈ گرنیڈ پھینکتے ہوئے ان کے دائیں ہاتھ کی دو انگلیاں اڑ گئیں ۔ گرینڈ ان کے ہاتھ میں ہی پھٹا اوراس نے دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں کو اڑا دیا ۔ خطاب اس دھماکے میں بال بال بچ گئے ۔ مجاہدین نے ان کے علاج پر توجہ دینے کیلئے اُنہیں پشاور جانے پر قائل کرنا چاہا مگر وہ مصر رہے کہ زخم پر شہد لگانے سے ہی یہ ٹھیک ہو جائیگا اور اس کیلئے پشاور جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ چنانچہ پشاور جانے سے انہوں نے قطعاً انکار کر دیا ۔ اس کے بعد ان کی یہ انگلیاں پٹی میں بندھی رہتیں ۔
چیچن جہاد میں بھی وہ کئی مرتبہ دشمن کے ہاتھوں دھوکے سے شہید ہونے سے بچے ۔ ایک مرتبہ وہ مال غنیمت میں ملنے والی 4ٹن وزنی روسی گاڑی چلا کر لارہے تھے ۔ گاڑی میں روسیوں نے دھوکے سے ٹائم بم نصب کیا ہوا تھا ۔ اچانک راستے میں گاڑی دھماکے سے پھٹ گئی ۔ گاڑی میں سوار مجاہدین کے اعضاء دور تک جا بکھرے ۔ لیکن خطاب کو اللہ کے فضل سے خراش تک نہ آئی اور وہ بچ گئے ۔
افغانستان سے روسی افواج کے پسپا ہونے کے بعد، جب ان کے حمایتی کمیونسٹ بھی مجاہدین کے ہاتھوں شکست کھا گئے تو خطاب اور ان کے دوستوں نے ایک مرتبہ دوبارہ جہاد کی آواز سنی اور یہ آواز اس مرتبہ تا جکستان سے آئی تھی ۔ اپنے ساتھیوں کے چھوٹے سے گروپ کے ہمراہ انہوں نے تاجکستان کیلئے رخت سفر باندھا ۔ وہ مناسب گولہ و بارود اور اسلحہ کی شدید قلت کے باوجود تاجکستان کے برفانی پہاڑی سلسلوں میں روسیوں کے خلاف مسلسل2 سال تک بر سر پیکار رہے۔جہاد تا جکستان میں دو سال تک حصہ لینے کے بعد وہ 1995کے آغاز میں دوبارہ افغانستان واپس آگئے ۔ روس اس وقت چیچنیا کے خلاف اپنی پہلی جنگ کا آغاز کر چکا تھا ۔چیچنوں کے اسلام سے والہانہ لگاؤ اور دینی وابستگی کی وجہ سے ہر کوئی اس جنگ سے مضطرب نظر آ رہا تھا۔
خطاب نے ایک شام ، سٹلائیٹ ٹیلیویژن پر چیچنیا جنگ کے متعلق خبریں دیکھیں توانہیں اس جنگ کے بارے میں تفصیلاً علم ہوا۔ بعد میں انہوں نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے بتلایا ،’’ جب میں نے ایک چیچن گروپ کو پیشانیوں پر لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ وا لی پٹیاں باندھے اور تکبیر کے نعرے لگاتے جاتے ہوئے دیکھا تو میں نے فیصلہ کیا کہ چیچنیا میں بھی جہاد جاری ہے، مجھے لازماًوہاں پہنچنا چاہئے ‘‘ ۔ خطاب نے بتایا کہ وہ اس سے قبل چیچنیا کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے تھے ماسوا کہ ان کے پاس امام شامل اور ان کی تحریک کے بارے میں سرسری سی معلومات تھیں ۔
چنانچہ افغا نستان سے خطاب اپنے آٹھ ساتھیوں کے ہمراہ چیچنیا کیلئے روانہ ہوئے اور 1995کے موسم بہار میں چیچنیا پہنچے ۔جہاد چیچنیا میں شرکت کے ابتدائی چار سالوں کے دوران خطاب نے شجاعت و دلیری کے وہ کارنامے سر انجام دئیے کہ ان کے افغانستان اور تاجکستان جہاد کے کار ہائے نمایاں ہیچ معلوم ہونے لگے ۔ روسی حکومت کی ایک سرکاری دستاویز کے مطابق ان چار سالوں میں چیچنیا میں اس قدر روسی فوجی مارے گئے کہ دس سالہ افغان جنگ میں اتنے روسی فوجی نہیں مارے گئے تھے۔
ابن الخطاب جب چیچنیا پہنچے تو ان کے مزید کچھ ساتھی بھی چیچنیا چلے آئے۔ اور انہوں نے مل کر چیچنوں کی جنگی تربیت اوردینی رہنمائی کیلئے ایک تربیتی کیمپ کی بنیاد رکھی ۔ ان مجاہدین نے چیچنیا میںروس کے خلاف کئی ایک خطرناک ترین کاروائیاں کیں مثلاً آپریشن خرتاشوئی 1995 ،آپریشن شاتوئی 1996، آپریشن یشمردے 1996 اور روس کے اندرکیا جانے والا داغستان آپریشن 1999,1997۔
امیر ابن الخطاب کی ایک انتہائی دلیرانہ کاروائی 16اپریل 1996کو کیا جانے والا آپریشن شاتوئی تھا ۔ اس کاروائی میں انہوں نے صرف 50مجاہدین کے ہمراہ چیچنیا سے روس جانے والے ایک فوجی قافلے پر گھات لگا کرحملہ کیا۔ روسی فوجیوں کا یہ قافلہ50 گاڑیوں ا ور مع سازوسامان کے واپس جا رہا تھا ۔ جو نہی قافلہ گھات میں آیا ، مجاہدین قافلے پر ٹوٹ پڑے اور انہوں نے ہلکے وبھاری ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے سینکڑوں روسی فوجی موت کے گھاٹ اتار دئیے ۔ حملہ اس قدر تیز اور شدید تھا کہ کسی روسی فوجی کو سنبھلنے کا موقع نہ مل سکا اور سبھی اپنی 50کے قریب گاڑیوں سمیت اڑگئے ۔ ان کی لاشیں دور دور تک بکھری پڑی تھیں ۔ روسی فوجی ترجمان کے مطابق اس حملے میں 223روسی فوجی مارے گئے جن میں 26سینئر آفیسر بھی شامل تھے ۔ اس آپریشن میں صرف 5جانباز شہید ہوئے ۔ مجاہدین نے اس تمام آپریشن کو فلما لیا اور اسے انٹرنیٹ پر چھوٹے چھوٹے ویڈیوز اور تصاویر کی شکل میں محفوظ کر دیا جسے www.azzam.comکے فوٹو لائبریری سیکشن میں دیکھا جا سکتا ہے ۔ اس آپریشن کی وجہ سے دو یا تین روسی جنرلوں کو نوکری سے نکالا گیا۔ اور روس کے صدر بورس یلسن کو پارلیمنٹ میں اس حملے کی تفصیلات سنانی پڑیں ۔
اس آپریشن کے کچھ ماہ بعد ہی ان کے گروپ نے ایک مرتبہ پھر روسی آرمی کی ایک چھاؤنی پر حملہ کیا اور چھاؤنی میں موجود گن شپ ہیلی کاپٹروں کو AT-3 sagger wire guidedeاینٹی ٹینک میزائلوں سے نشانہ بنایا ۔ اس کے علاوہ ان کے زیر تربیت جانبازوں نے 1996میں شامل بسایوف کی قیادت میں بھی گروزنی پر کئے گئے ایک مشہور حملے میں حصہ لیا ۔
1996کے موسم خزاں میں روسی فوج کی چیچنیا سے پسپائی کے بعد باضابطہ طور پر انہیں چیچنیا کا قومی ہیرو تسلیم کرنے کا اعلان کیا گیا اور ایک تقریب میں جس میں چیچن جہاد کے انتہائی نامور اور تجربہ کار کمانڈر شامل بسایوف اور سلمان رادیوف شہید موجود تھے انہیں ایک میڈل پہنایا گیا اور فوج میں جنرل کے عہدے پر فائز کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں چیچن جانبازوں کے مرکزی تربیتی کیمپ کا کمانڈر بھی مقرر کیا گیا۔ وہ مجلس شوریٰ میں اشکیریا اور داغستان کے مجاہدین کے نمائندہ تھے جبکہ امیر مجلس شوریٰ شامل بسایوف کے نائب اور انٹرنیشنل اسلامک بریگیڈ کے امیر بھی ۔
27دسمبر 1997کو وہ دوبارہ منظر عام پر آئے جب ان کی کمان میں ایک سو کے قریب چیچن اور غیر ملکی مجاہدین نے روس کے اندر 100کلومیٹر تک پیش قدمی کرتے ہوئے روسی فوج کے 136موٹرائزڈ رائفل بریگیڈ کے ہیڈ کوارٹر کو نشانہ بنایا ۔ اس حملے میں روسی فوج کی تین سو کے قریب گاڑیاں تباہ ہوئیں اور سینکڑوں کی تعداد میں روسی فوجی مارے گئے ۔ جبکہ صرف دو مجاہدین شہید ہوئے جن میں سے ایک خطاب کے جہاد افعانستان کے سینئر کمانڈر ابوبکر عقیدہ تھے ۔
بہت سے چیچن انہیں ان کی شجاعت و بہادری کی وجہ سے اپنے دور کے اپنے دور کے خالد بن ولید سے تشبیہ دیتے تھے ۔ وہ موت پر پختہ یقین رکھتے تھے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ مجھے موت اسی وقت آئے گی جو اللہ نے میرے لئے لکھ دیا ہے ۔ کوئی اسے آگے پیچھے نہیں کر سکتا ۔
ابن خطاب میڈیا وار پر نہ صرف یقین رکھتے تھے بلکہ اس پر زور دیتے تھے ۔ وہ کہتے تھے ،’’ جس طرح یہ ملحد اور دہریہ قسم کے لوگ اپنے میڈیا اور پروپیگنڈے کے ذریعے ہم سے لڑائی کرتے ہیں اسی طرح ہمیں بھی اپنے میڈیا اور پروپیگنڈے کے ساتھ ان کا جواب دینا چاہئے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے کہ جس طرح وہ (کافر) لوگ تم سے لڑائی کرتے ہیں تم بھی اسی طرح ان کے خلاف لڑائی کرو ‘‘۔ ان کا خیال تھا کہ دشمن کے غلط پروپیگنڈے کا جواب صرف الفاظ سے نہیں دیا جا سکتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ویڈیو کاروائی دشمن کے پروپیگنڈے کا زیادہ مؤثراور بہترین جواب دے سکتی ہے ۔یہی وجہ تھی کہ ان کی کمان میں کئے جانے والے ہر مشن اور کاروائی کو فلمایا گیا اور اسے منظر عام پر لایا گیا تاکہ دشمن کے پروپیگنڈے کا مؤثر توڑ کیا جا سکے ۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس افغانستان، تاجکستان اور چیچنیا کی کاروائیوں کی سینکڑوں ویڈیوز ایک لائبریری کی صورت میں محفوظ تھیں ۔ اگست 1997میں ان کی زیر قیادت کئے گئے داغستان آپریشن میں مجاہدین نے بے شمار اور سینکڑوں کی تعداد میں روسی فوجیوں کو واصل جہنم کیا ۔ اس مشن کی پوری کاروائی ایک طویل ویڈیو کی صورت میں ان کے پاس محفوظ تھی ۔ جب روس نے یہ دعویٰ کیا کہ اس حملے میں اس کے صرف 40فوجی ہلاک ہوئے ہیں تو جواباً چیچن ٹی وی نے اس مشن کی مکمل ویڈیو نشر کردی جس میں سینکڑوں روسی فوجیوں کی لاشوں کو جنگل میں دور دور تک بکھرے دکھا یا گیا تھا ۔ اس ویڈیو کے نشر ہونے سے روس میں کہرام مچ گیا اور پورا روس سوگ میں ڈوب گیا ۔ یہ ویڈیو بھی عزام پبلیکیشنر کی ویب سائٹ کے چیچن جہاد سیکشن میںد یکھی جاسکتی ہے ۔
ایک مرتبہ دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے ایک پیغام میں کہا’’ بنیادی چیز جو تمام مسلمانوں کو جہاد میں شامل ہونے سے روکتی ہے وہ ان کے گھرانے ہیں ۔ ہم سب لوگ جو یہاں آئے ہیں اپنے گھر بار والوں کی اجازت کے بغیر ہی آئے ہیں ۔ اگر ہم ان کی بات مان لیں اور واپس چلے جائیں تو کو ن یہ کام کرے گا اور اسے آگے بڑھائے گا ۔ پچھلے 12سال سے میں نے اپنی والدہ کو نہیں دیکھا ۔ اکثر و بیشتر میں اپنی والدہ کو فون کرتا ہوں اور اب بھی وہ مجھ سے واپس آجانے کو کہتی ہیں ۔لیکن اگر میں واپس چلا جاؤں تو کون اس جدوجہد کو جاری رکھے گا ‘‘۔
وہ انتہائی ذہین ،جرات مند ،زیرک اور مضبوط شخصیت کے مالک تھے اور اپنے زیر کمان مجاہدین میں بہت مقبول تھے ۔ لیکن قطعاً اس طرح بھی نہیں کہ آزادانہ ان سے ہنسی مذاق کیا جاسکے۔ و ہ باقاعدگی کے ساتھ اپنے مجاہدین سے ملاقات کرتے اور ان کی مشکلات حتیٰ کی ذاتی مسائل تک کے حل میں ان کی مدد کرتے ۔اور اپنی طرف سے انہیں پیسے دیتے تاکہ وہ بازار سے اپنی ضرورت کی اشیاء خرید سکیں ۔ ان کے پاس انتہائی تربیت یافتہ،مستعد اور تجربہ کار کمانڈروں کا گروپ موجود تھا جن میں سے ہر کمانڈر اس قدر باصلاحیت تھا کہ ان کی شہادت کی صورت میں ان کی ذمہ داریاں سنبھال سکے ۔
خطاب کا مشن روس سے اس وقت تک لڑائی کرتے رہنا تھا جب تک وہ قفقاز سے لے کر وسطی ایشیا تک کی ریاستوں کے مسلم خطے کا چپہ چپہ خالی نہ کردے ۔ انہوں نے بارہا اس بات کو دہرایا کہ،’’ ہم روسی فوجیوں کی تربیت اوران کی چالوں کواچھی طرح پہچانتے ہیں۔ ہم ا ن کی کمزوریوں سے بھی بخوبی آگاہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دوسروںکی نسبت ہمیں ان سے لڑنا زیادہ آسان ہے ‘‘۔
ابن الخطاب روسیوں کیلئے موت کا پیغام تھے اور روسی فوج کیلئے ان کا نام خوف کی علامت بن چکا تھا ۔ میدان جہاد میں انہوں نے روسیوں کو ناکوں چنے چبوائے اور ہمیشہ اسے ہزیمت اٹھانے پر مجبور کیا ۔ روسی فوج اور ان کی خفیہ ایجنسیوں نے انہیں دھوکے سے شہید کروانے کی کئی مرتبہ کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکیں ۔ آخر کار ان کی ایک کوشش رنگ لے آئی اورروس کی ایک خفیہ ایجنسی FSBنے ایک شخص ابراہیم الاؤری ۔ ۔ ۔ جو بک چکا تھا ۔ ۔ ۔ کے ذریعے انہیں جانے والا ایک خط حاصل کیا اور اسے کیمیکل لگا کر اس زرخرید شخص کے ہاتھ دوبارہ روانہ کر دیا ۔ جب الاؤری نے یہ خط انہیں دیا تووہ اپنی مصروفیت کے باعث اسے نہ پڑھ سکے اور رکھ دیا ۔ بعد ازاں جب انہوں نے اسے پڑھنے کیلئے کھولا تو خط پر زہریلا کیمیکل لگنے سے ان کی طبیعت بگڑنے لگی ۔ اور مجاہدین کے پاس ناکافی طبی وسائل اور زہر کا تریاق نہ ہونے کی وجہ سے ان کی حالت مزیدخراب ہوتی چلی گئی ۔ اور آخر کار ان کا یہ جانباز کمانڈر اسی حالت میں ان کے سامنے موت کی آغوش میں جاپہنچا ۔ ان کی شہادت کے بعد روسی خفیہ ایجنٹوں کے حملے سے بچنے کیلئے سخت حفاظتی حصار میں انہیں چیچنیا کے ایک پہاڑی سلسلے میں دفن کیا گیا اور قبر کے نشانات کو چھپا دیا گیا ۔اور ان کی تدفین کے وقت صرف ان کے قریبی دوست اور مجاہدین کی چند ذمہ دار شخصیات موجود تھیں ۔ اور عام افراد کو بھی قبر کے بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا ۔ اس طرح وہ نوعمر مجاہد جو کہ سعودی عرب سے صرف سترہ سال کی عمر میں جہاد کیلئے نکلا اور چودہ سال تک ملحدوں ،دہریوں اور مشرکوں کیلئے موت کا کوڑا بن کر برستا رہا ،عبداللہ بن ابی اور ابن علقمی کے ایک وارث ہاتھوں شہادت کے بعد چیچنیا کے ایک ویران پہاڑی سلسلے میں محو راحت ہے ۔
بنا کر دندخوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کنند ایں عاشقان پاک طینت را
ابن الخطاب نے چیچنیا میں ایک داغستانی خاتون سے شادی کی جس سے اُن کے دو بیٹے ہیں ۔
Tuesday, June 9, 2009
چیچن کمانڈر ابن الخطاب شہید ابن الخطاب
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment