مسجد اقصٰی کے نیچے کھدائیوں اور نام نہاد تعمیراتی کام کے خلاف جب امت مسلمہ بالخصوص جانباز فلسطینی مسلمانوں کا دباؤ بڑھا تو پھر اسرائیلی وزیر اعظم ایہود المرٹ نے اعلان کیا کہ تعمیراتی کام تو فی الحال بند کیا جاتا ہے لیکن کھدائی کا کام بحرحال جاری رکھا جائے گا اور اس سلسلے میں کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لایا جائیگا۔ کھدائیوں کے مسئلہ پر اسرائیلی وزیر اعظم نے ترک وزیر اعظم طیب اردگان کو بھی شیشے میں اتارنے کی کوشش کی اور انھیں کھدائی کی کچھ نام نہاد تصاویر دکھا کر مطمئن کرنا چاہا لیکن غیرت مند ترک نے تصاویر دیکھ کر مکمل عدم اطمینان کا ظاہر کیا اور پھر انھوں نے اپنے ماہرین مسجد اقصٰی بھیجنے کا مطالبہ کیا جسے اسرائیلی وزیر اعظم کو نہ چاہتے ہوئے بھی قبول کرنا پڑا۔ تاہم تاریخی اور عالمی شاطر یہودی ان ترک ماہرین کے ساتھ کیا ہاتھ دکھاتے ہیں آنیوالے دنوں میں اسکا بھی پتہ چل جائیگا۔ لیکن سردست ایک بات معمولی سی عقل و فہم رکھنے والے ہر شخص کیلئے ناقابل حل معمہ ہے کہ آخر مسجد اقصٰی کے نیچے کونسے �عجائبات� ہیں جن کی تلاش کیلئے یہاں کھدائیاں ہو رہی ہیں۔ اس سوال کا اسرائیلی میڈیا اور حکام کہیں بھی کوئی جواب نہیں دے رہے ہیں۔
دراصل یہود کا صدیوں سے یہ عقیدہ رہا ہے کہ انکا گمشدہ ہیکل سلیمانی بیت المقدس خصوصا مسجد اقصٰی کے نیچے ہے۔ یہ بات مسلمانوں کے بہت کم علم میں ہے کہ بیت المقدس کی جو تصویر ہم عمومی طور پر دیکھتے ہیں ہم اسی کو مسجد اقصٰی سمجھ لیتے ہیں حالانکہ یہ قبتہ الصخرۃ کی تصویر ہے جسے اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان (692ء تا 705ء) نے بنوایا تھا۔ مسجد اقصٰی کی موجودہ عمارت بھی انھوں نے ہی بنوائی تھی۔ قبتہ الصخرۃ ایک اونچی چٹان پر بنا ہوا ایک گنبد ہے جہاں سے ہمارے پیارے نبیﷺ نے براق پر سفر معراج کا آغاز کیا ۔ اسکے نزدیک مغربی دیوار کو اسی وجہ سے دیوار براق کہتے ہیں۔ جسے یہودی دیوار گریہ کہتے ہیں اور اس سے لگ کر روز اپنے گناہوں کی نام نہاد معافی مانگتے اور ان پر ندامت کا اظہار کرتےہیں۔ مسجد اقصٰی اور قبتہ الصخرۃ اگرچہ ایک ہی احاطہ میں واقع ہیں اور اس پورے احاطے کو ہی بیت المقدس یا اقصٰی کہا جاتا ہے۔ لیکن بحر حال قبتہ الصخرۃ اور مسجد اقصٰی دونوں ایک ہی احاطے میں الگ الگ کچھ فاصلہ پر واقع ہیں۔ یہودیوں کا زیادہ یقین ہے کہ انکا ہیکل سلیمانی مسجد اقصٰی کے نیچے واقع ہے چنانچہ انکا ہدف معاذاللہ مسجد اقصٰی کا انہدام ہے۔ اسی لئے وہ اب تک تمام کھدائیاں مسجد اقصٰی کے گردا گرد ہی کرتے رہتے ہیں۔ کل کلاں اگر ان ملعونوں نے مسجد اقصٰی کو شہید کر دیا تو قبتہ الصخرۃ کو دکھا کر ہی مسلمانوں کو یقین دلانے کی کوشش کرینگے کہ اصل جگہ تو محفوظ ہے اور ہم نے تو دوسری جگہ منہدم کی ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کے لئے تو یہ پوری جگہ ہی مقدس ہے اور مسجد اقصٰی تو سب سے زیادہ مقدس ہے کیونکہ یہ رسول پاکﷺ کے فرمان کے مطابق ان تین مقامات میں سے ایک ہے جن کی زیارت کیلئے خصوصی سفر افضل ہے۔ پہلی جگہ بیت اللہ، دوسری مسجد نبویﷺ اور تیسری مسجد اقصٰی ہے۔ مسجد اقصٰی تو مسلمانوں کا قبلہ اول بھی رہی ہے جسکی طرف منہ کر کے اسلام کے ابتدائی دور میں پیغمبر اسلامﷺ اور جانباز صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نماز پڑھا کرتے تھے اس لحاظ سے یہ ہمارا حرم بھی ہے۔
بد طنیت اور سازشی یہودیوں نے 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ جیتنے کے بعد جب سے مسجد اقصٰی پر قبضہ کیا ہے اسے مستقل ہدف بنایا ہوا ہے۔ 1967ء میں اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس پر قبضہ کیا تو اسکے فوری بعد اسرائیلی فوج کے چیف ربّی جنرل شلومو گورین نے قبضہ کرنیوالی فوج کے کمانڈر یوزی نرکیس کو تجویز دی کہ مسجد اقصٰی کو شہید کرنیکا (معاذاللہ) یہ سنہری موقع ہے اور مسجد کو آگ لگا دی جائے۔ تاہم اللہ کے فضل سےاس نے بات ماننے سے انکار کردیا جسکی ظاہری وجہ شائدعالم اسلام کے شدید ردعمل کا ڈر یا اسکا اپنا ایسے فعل بد کی ذمہ داری نہ لینا تھا۔
لیکن 1969ء میں آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے ایک مسیحی صہیونی مائیکل ڈینس روحان نے مسجد کے اندرونی حصوں کو آگ لگا دی اس کیلئے اس نے اتش گیر مادہ استعمال کیا جسکی وجہ سلطان صلاح الدین کا تاریخی منبر جل کر خاکستر ہو گیا۔ اب حال ہی میں اسکی جگہ اردن سے تیار شدہ نیا اسی طرح کامنبر بنا کر فروری 2007ء کو رکھا گیا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ مسجد اقصٰی کے گرد کھدائی کا سلسلہ بھی عرصہ دراز سے جاری ہے۔
1970ء میں اسرائیلی قابض انتظامیہ نے مسجد کے مغربی اور جنوبی حصوں کے نیچے کھدائی شروع کی۔ کھدائی کا کام جاری رہا اور خواتین کے نماز پڑھنے والے حصے میں ایک بڑی خندق کھود دی گئی۔
مشرق سے مغرب کی طرف ایک بڑی خندق 1979ء میں کھودی گئی۔
29 مارچ 1984ء کو اسرائیلی وزارت مذہبی امور کے شعبہ آثار قدیمہ نے ایک میٹر طویل اور دو میٹر چوڑی سرنگ کھودی۔ یہ سرنگ دس میٹر گہری تھی اور اسے بھی مسجد اقصٰی کے مغربی حصے کے نزدیک ہی کھودا گیا جہاں آج بھی کھدائی کا کام جاری ہے اور اس سےمسجد کے مجلس حصہ کو نقصان پہنچا ہے۔
ستمبر 1996ء میں اسرائیلی قابض فوج نے حرم الشریف کے نزدیک ماضی کی پرانی سرنگ کو دوبارہ کھول دیا جس سے مغربی کنارے میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ان مظاہروں میں 57 مظاہرین شہیداور 16 اسرائیلی مارے گئے۔
مسجد الاقصٰی اور قبۃالصخرۃ کے خلاف اب تک بہت سی کاروائیاں ہو چکی ہیں لیکن ہم یہاں صرف کھدائیوں کا ذکر کر رہے ہیں۔
اب 7 فروری 2007ء اسرائیلی بلڈوزروں نےپھر اس باب المغاربہ (مسجد کے نزدیک مغربی مراکشی دروازہ)کے نزدیک کھدائی شروع کردی جہاں وہ پہلے بھی کئی بار کھدائی کر چکے ہیں۔ یہاں دو کمروں کو بھی گرا دیا گیا۔
9فروری2007ء کو اسرائیل نے مسلمانوں کو مسجدالاقصٰی میں داخل ہونے سے روک دیا ۔ لیکن چند ہزار فلسطینی اپنی جانوں پر کھیل کر مسجد الاقصٰی میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے اور انھوں نے کھدائی کے خلاف مظاہرہ کیا اور یوں دنیا اور عالم اسلام کی توجہ اس نازک مسئلے کی طرف مبذاول کرانے میں کامیاب ہو گئے۔
افسوسناک بات تو یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت نے مسلمانوں کے احتجاج پر تعمیراتی کام تو روک دیا لیکن کھدائی جاری رکھی ہے اور بہانہ یہ ہے کہ ہم آثار قدیمہ دریافت کر رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ آثار قدیمہ تلاش نہیں کر رہے بلکہ ان کو مسلسل مٹا رہے ہیں کیونکہ یہاں جو آثار بھی ہیں سب کے سب اسلامی ہیں۔ مسجد اقصٰی کے اندر یا باہر نیچے حتٰی کہ ہر طرف سے آثار مٹانے کی کی مہم اور دوسرے نمبر پر اس کھدائی کا مقصد مصنوعی طور پر یہودی آثار پیدا کرنا، خاص طور پر ہیکل سلیمانی کے آثار پیدا کرناہے۔ یہودیوں نے بیت المقدس پر قبضہ ہی اس یقین کیساتھ کیا تھا کہ مسجد اقصٰی کے نیچے انکا ہیکل دفن ہے لیکن 1967ء سے اب تک چالیس سالوں میں ان کھدائیوں اور حتٰی کہ امریکہ کے سیٹلائیٹس کی مدد سے بھی وہ اس ہیکل سلیمانی کے آثار کی تلاش میں وہ بری طرح ناکام ہوئے ہیں اور اس مقصد کیلئے انھوں نے مسجد الاقصٰی اور قبۃالصخرۃ کے ارد گرد شائد ہی کوئی کونا کھدرا چھوڑا ہو جسے انھوں نے نہ ٹٹولا ہو۔ انھوں نے ہر اس جگہ کھدائی کی جس جگہ پر انھیں معمولی سا شائبہ بھی گزرا لیکن ہیکل نہ وہاں تھا نہ ملا۔ جب یہاں ہیکل ہے ہی نہیں تو یہودی وہاں کھدائی کیوں کر رہے ہیں؟ اسکا جواب فلسطینی رہنما یاسر عرفات نے 5اکتوبر 2002ء کو اپنی ایک تقریر میں واشگاف الفاظ میں کر دیا تھا۔ انھوں نے کہا�گزشتہ 34 سال سے اسرائیلی بیت المقدس کے نیچے سرنگیں کھود رہے ہیں لیکن اس دوران وہ ایک پتھر بھی نہیں دکھا سکے جس سے یہ ثابت کیا جاسکے کہ ہیکل سلیمانی کبھی وہاں موجود تھا کیونکہ تاریخی طور پر ہیکل کبھی فلسطین میں تھا ہی نہیں۔ انھیں صرف ایک رومی بادشاہ ہیروڈHerod کی قبر کے کچھ آثار ملے ہیں۔ اب وہ کوشش کر رہے ہیں کہ وہ یہاں کچھ پتھر لا کر رکھ دیں جس سے وہ یہ ثابت کر سکیں کہ وہ لوگ یہاں تھے یہ ایک گھٹیا حرکت ہے میں انھیں چیلنج کرتا ہوں کہ وہ ہیکل سلیمانی کا ایک بھی پتھر لا کر دکھا دیں�
غرض کھدائی کے کام کی آڑ میں دراصل مسجد اقصٰی کے نیچے ہیکل سلیمانی کی مصنوعی نشانیاں پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ مسجد الاقصٰی کو ان کھدائیوں کے ذریعے اتنا کمزور کردینا مقصود ہے کہ کسی بھی زلزلہ یا ہلچل کی صورت میں مسجد الاقصٰی خود بخود (معاذاللہ)شید ہو جائے۔
اب مرکز اطلاعات فلسطین نے انکشاف کیا ہے کہ صہیونی حکومت نے مسجد الاقصٰی کے ایک دروازے کے قریب قبۃالصخرۃ کے بالمقابل یہودی معبد بنانے کا ایک منصوبہ بنایا ہے۔ بیت المقدس کی بلدیہ نے ایک انتہا پسند یہودی تنظیم کو معبد کی تعمیر کیلئے این او سی جاری کر دیا ہے۔ یہ یہودی معبد دو سو مربع فٹ پر مشتمل ہوگا جو مسجد الاقصٰی سے صرف پچاس فٹ کے فاصلہ پر ہے۔ مرکز اطلاعات فلسطین کی ایک دوسری اطلاع کے مطابق حال ہی میں اسرائیلی صدر موشے کتساف نے مسجد الاقصٰی کے نیچے تعمیر ہونیوالے یہودی معبد کا افتتاح کیا ہے۔ مرکز کے مطابق اس معبد کے دو ہال ہیں۔ ایک مردوں اور دوسرا ہال عورتوں کیلئے مخصوص ہے اور اس معبد کی تعمیر گزشتہ دس سال سے جاری تھی۔ ان کھدائیوں کی آڑ میں دراصل معبد کی تعمیر بھی جاری تھی اور اب اسے آہستہ آہستہ نام نہاد ہیکل سلیمانی میں بدل دیا جائیگا۔ دوسری طرف کھدائیوں سے مسجد الاقصٰی کو اس قدر کمزور کر دیا گیا ہے کہ کوئی بھی حادثہ اسکو شدید نقصان پہنچا دے اور پھر وہ اسکے نیچے سے ہیکل سلیمانی کی نشانیاں دریافت کر کے لوگوں کو دکھا سکیں۔ اسرائیلی حکومت بھی اس بات کا اعلان کر چکی ہے کہ کوئی زلزلہ وغیرہ مسجد الاقصٰی کو نقصان پہنچا سکتی ہے، یعنی وہ پہلے ہی سے لوگوں کو اس بات پر ذہنی طور پر تیار کر رہے ہیں۔
اسرائیلی روزنامہ اخبار ہارٹس نے ایک دفعہ قتبۃ الصخرٰی کی تصویر لگا کر اوپر جلی قلم سے لکھا کہ �تم اچانک ایک دھماکہ کی گونج سنو گے۔� گویا یہ سب باتیں ایک اشارہ ہیں کہ وہ مسجد الاقصٰی کے درپے ہیں۔ دوسری جانب مقبوضہ بیت المقدس کو یہودیوں کیلئے فلسطینیوں کی زمین غصب کر کے اس پر یہودیوں کو مسلسل آباد کیا جارہا ہے۔ یہودی آبادی معالیہ ادومیم کی جا چکی ہے۔ حال ہی میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے پرانے شہر کی دیواروں کے نیچے چار منزلہ پارکنگ کی تعمیر کا منصوبہ زیر تعمیر بنایا ہے اسکے علاوہ تجارتی مراکز اور ہوٹل تعمیر کئے جائیں گے۔ جسکا رقبہ اٹھارہ ہزار مربع میٹر ہوگا۔
اسرائیلی حکام نے حالیہ کھدائی کے بارے میں یہ عذر لنگ تراشا ہے کہ فروری 2006ء میں زلزلہ اور برفباری میں مسجد کو پہنچنے والے نقصان کو ٹھیک کرنے اور دروازے سے مغربی دیوار تک راستہ محفوظ بنانے کیلئے تعمیراتی کام شروع کیا گیا ہے۔ تاکہ مسجد میں آنیوالے محفوظ ہو سکیں یہ عذر لنگ سے یوں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلیوں سے زیادہ شائد ہی کوئی مسلمانوں کا کوئی ہمدرد ہو اور اسرائیلی فوجی جو روزانہ فلسطینیوں کے خون سے جو ہولی کھیلتے ہیں تو یہ خبریں محض دشمنوں کی اڑائی لگتی ہیں۔ لیکن اسکے ساتھ پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسرائیلی حکومت فلسطینی مسلمانوں کی اتنی ہمدرد ہے تو اس نے 18 اپریل 2005ء سے اب تک چالیس سال سے کم عمر افراد پر مسجد الاقصٰی میں داخلے کی پابندی کیوں عائد کر رکھی ہے۔ اسکے علاوہ ایک طرف اسرائیلی حکام ایک طرف تو کھدائی کی ویڈیو بھی جاری کر رہے ہیں اور ترکی کے ماہرین کو معائنہ کی اجازت بھی دے دی ہے لیکن عالمی میڈیا کو اسکی کوریج کی اجازت نہیں دی۔ غرض یہ سب حقائق و معاملات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کھدائی کی آڑ میں مسجد الاقصٰی کی بنیادوں کو کھوکھلا کیا جا رہا ہے۔ تاکہ یہ خود بخود(معاذاللہ)منہدم ہو جائے اور اسکے ساتھ ساتھ وہ اصل ہیکل سلیمانی کے آثار کی تلاش میں ناکامی کے بعد اب وہ مسجد الاقصٰی کے نیچے نقلی ہیکل سلیمانی تیار کر رہے ہیں تاکہ مسجد الاقصٰی کے شہید ہوتے ہی ہیکل کو اسکی جگہ سامنے لے آئیں۔
یہودی اکثر یہ بات پھیلاتے رہتے ہیں کہ ہیکل کی تعمیر عیسائیوں اور یہودیوں دونوں کے عقائد کے مطابق ضروری ہے۔ انکے مطابق ہیکل کی تعمیر کے بعد ہی یہودیوں اور عیسائیوں کے مسیح کا نزول ہونا ہے۔ پھر سب سے بڑی آخری جنگ الملحمۃالکبرٰی(Armegadon)ہوگی۔ اگرچہ عیسائیوں اور یہودیوں کا مسیح الگ الگ شخصیت ہیں لیکن یہودی فی الحال عیسائیوں کو ساتھ رکھنے کیلئے یہ پراپیگنڈہ جاری رکھے ہوئے ہیں کہ ہیکل کی تعمیر مسیح کے نزول کیلئے ضروری ہے اسلئے عیسائی دنیا کو عمامی طور پر شدید سے شدید مظالم اور نا انصافیوں پر بھی کم ہی اعتراض ہوتا ہے۔ دونوں اپنے اپنے مقاصد کیلئے ہیکل کی تعمیر پر متفق ہیں۔ حالانکہ اصل مسیح تو وہ ہوگا جو آکر شریعت محمدیﷺ کی اتباع کریگا اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کی قیادت میں دجّال کو قتل کرینگے اور پھر ایک ایک یہودی کا بھی خاتمہ ہوگا اور پھر پوری دنیا میں امن ہوگا۔ بحر حال عیسائیوں کو ورغلا کر یہودی دیدہ دلیری سے ہیکل کی تعمیر اور مسجد الاقصٰی کی شہادت کے ناپاک مشن پر سرعت سے عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن یہود کو یہ معلوم نہیں کہ جس کام کو انھوں نے بہت آسان سمجھ رکھا ہے وہ اسقدر آسان بھی نہیں ہے۔ اس ناپاک مشن کیلئے انھیں لاکھوں مسلمانوں کے خون کا سمندر عبور کرنا ہوگا اس میں کوئی شک نہیں کہ آج امت مسلمہ بالخصوص انکے حکمران دینی حمیت و غیرت سے دور اور حد درجہ بے حسی کا شکار ہیں۔ ذاتی اور مادی مفادات نے انھیں قوم و ملت کے اجتماعی مسائل سے غافل کر دیا ہے۔ مغربی اور امریکی ایجنڈہ انکا ایمان، دین اور ضمیر بن چکا ہے۔ لیکن اس گئی گزری حالت میں اب بھی امت مسلمہ میں لاکھوں کروڑوں با حمیت غیرت مند اور روشن ضمیر موجود ہیں۔
ذاتی اور مادی مفادات نے انھیں قوم و ملت کے اجتماعی مسائل سے غافل کر دیا ہے۔ مغربی اور امریکی ایجنڈہ انکا ایمان، دین اور ضمیر بن چکا ہے۔ لیکن اس گئی گزری حالت میں اب بھی امت مسلمہ میں لاکھوں کروڑوں با حمیت غیرت مند اور روشن ضمیر موجود ہیں۔ دنیا ان پر جو چاہے الزام لگائے۔ چاہے سیکولر حلقے انھیں دہشت گرد انتہا پسند، تاریک خیال یا بنیاد پرست قرار دیں لیکن وہ ان الزامات سے گھبرانے والے نہیں انکا ضمیر روشن، انکا دل منور اور انکا عزم راسخ ہے۔ امت مسلمہ کیلئے دہرے معیار رکھنے والے کفار کا علاج وہ جانتے ہیں۔ مسجد الاقصٰی انکے ایمان کا حصہ، انکا قبلہ اول، انکے ہادی و رہبر اور محسن انسانیتﷺکی وہ سجدہ گاہ ہے جہاں انﷺکی اقتداء میں تمام انبیاء نے نماز کی ادائیگی کا شرف حاصل کیا یہ وہ جگہ ہے جسے خلیفہ دوئم سیدنا عمر فاروقؓ 636ہجری میں بغیر خون خرابے کے فتح کیا اور جب صلیبی دہشت گردوں نے 1099ء میں بیت المقدس میں دوبارہ قبضہ کیا اور ہزاروں مسلمانوں کے خون سے اس جگہ کو رنگین کر دیا۔ پھر مرد مجاہد صلاح الدین ایوبی نے 2اکتوبر1187ء کو جہادی ضرب سے اسطرح آزاد کرایا کہ اسکے حسن سلوک کی آج بھی عیسائی مثالیں دیتے ہیں آج اس بیت المقدس کا ایک ایک چپہ صلاح الدین کی یادوں سے معمور ہے۔
اگرچہ 1967 ء یہودیوں کا بیت المقدس پر یہودیوں کا قبضہ ہوگیا تاہم مسجد الاقصٰی کیلئے صلاح الدین ایوبی کے بنائے ہوئے منبر سے لیکر بیت المقدس میں اسکا بسایا ہوا ایک ایک محلہ اس مرد مجاہد کی داستان جرات کا حدی خواں ہے۔ آج امت مسلمہ کے مجاہدین اپنے ان سالاروں کے نقوش قدم کیسے بھلا سکتے ہیں۔ وہ تو آج بھی انھیں نقوش پا پر چلنا اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔
ہیکل سلیمانی اور تابوت سکینہ
حضرت موسٰی علیہ السلام کی وفات کے چار سو برس کے بعد تک یہودیوں نے اپنا باقاعدہ کوئی معبد نہیں بنایا تھا کیونکہ اس فتنہ پرور قوم کو باہمی جھگڑوں، انتشار، لاقانونیت اور شرک و شر نے اسکی مہلت ہی نہ دی تھی۔ یہودی عموماً کسی بھی جگہ اپنے آگے کوئی پتھر اپنے آگے رکھ کر عبادت کر لیتے تھے جس طرح کہ مسلمانوں کو کھلی جگہ پر سترہ رکھ کر نماز پڑھنے کا حکم ہے۔ موسٰی علیہ السلام جب اس نا فرمان قوم کو فرعون سے نجات دلا کر صحرائے سینا میں لے گئے تو یہاں موسٰی علیہ السلام نے انھیں صندوق شہادت، قبہ عبادت دیں اور قربان گاہ بنانے کا حکم دیا۔ بقول تورات ایک چلتا پھرتا ہیکل تیار کیا گیا جو �یہواہ� (اللہ) کا گھر کہلاتا۔ اسی میں یہ تمام چیزیں بھی موجود ہوتیں۔ تاہم جو ہیکل، ہیکل سلیمانی کے نام سے معروف ہے وہ باقاعدہ طور پر 1000 قبل از مسیح سلیمان علیہ السلام کے دور ہی میں بنا جو چالیس سال (927 سے 967قبل مسیح) تک قائم رہا جسے بابیلون (بابل، موجودہ شمالی عراق)کے بادشاہ بخت نصر نے چھٹی صدی قبل عیسوی میں تباہ کر دیا۔
بخت نصر نے ہیکل سلیمانی کو جس طرح مسمار کیا اس کا کمال یہ ہے کہ پندرہ مربع فٹ کے وہ پتھر جن سے ہیکل تعمیر ہوا تھا سرے سے ناپید ہو گئے اور گزشتہ دو ہزار برس کی تاریخ انکے وجود کو ہی نہ پاسکی۔ اس تباہی کے بعد یہود اپنے عہد زریں کو یاد کر کے رویا کرتے تھے، لیکن اس ناپید شدہ ہیکل سلیمانی کا ڈرامہ یہودی آج بھی رچائے ہوئے ہیں۔ دوسرا ہیکل تقریباً ستّر سال بعد بنا۔ اس ہیکل کو 70قبل مسیح میں ٹائیٹس نامی رومی بادشاہ نے حملہ کر کے تباہ کردیا۔ اس سے قبل اور اسکے بعد بھی بے شمار چھوٹے موٹے ہیکل بنے اور مختلف بادشاہوں اور حملہ آوروں کے ہاتھوں تباہ ہوتے رہے اور یہودی پوری دنیا میں دربدر ہوتے رہے، جسکی ایک الگ لمبی تاریخ ہے۔ لیکن یہودی عام طور پر انھیں دو ہیکلوں کی تباہی کا ذکر کر کے روتے اور اب وہ اپنے تیسرے ہیکل کی تیاری کیلئے پر تولے ہوئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پہلا اور دوسرا ہیکل بیت المقدس میں ہی تھا اسلئے اب تیسرا ہیکل بھی اسی جگہ تعمیر ہونا چاہیئے۔ انکی بھرپور کوشش یہی ہے کہ کسی طرح ہیکل سلیمانی کے آثار بیت المقدس کے نیچے کھدائی کر کے دریافت کر لیں تاکہ وہ یہاں اپنے ہیکل کی تعمیر کا جواز پیدا کر سکیں لیکن اس میں ناکامی سے وہ پھر بھی پریشان نہیں ہوئے۔ انکا خیال ہے کہ اگر یہاں انھیں ہیکل کی تعمیر کے آثار نہیں بھی ملتے تب بھی وہ ہیکل یہاں ضرور بنائیں گے چاہے انھیں مصنوعی آثار پیدا کر کے ہی ثابت کرنا پڑے کہ یہاں ہیکل تھا۔
یہ بھی یاد رہے کہ یہودی ہیکل کا سنگ بنیاد 2001ء میں رکھ چکے ہیں اب سوال یہ ہے کہ یہودی ہر حال میں بیت المقدس میں ہی ہیکل کیوں بنانا چاہتے ہیں۔
یہودیوں کا اپنی تحریف شدہ تورات کے مطابق عقیدہ ہے کہ ہیکل انکے ربّ کا گھر ہے۔ اللہ سبحان و تعالٰی کی ناراضگی ان پر اسی لئے ہے کیونکہ انھوں نے اپنے ربّ کا گھر نہیں بنایا۔ ان کے نظریہ کے مطابق اسرائیل اور ہیکل لازم و ملزوم ہیں اور مسیح کا نزول بھی ہیکل کی تعمیر کے بعد ہی ہوگا۔ پہلے انھوں نے 2000ء اور پھر 2005ء میں مسیح کے نزول کا امکان ظاہر کیالیکن انکی پیشین گوئیاں دھری کی دھری رہ گئیں۔ انکے نزدیک ہیکل کی تعمیر اللہ کا حکم تھا جس پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے عمل کیا، جیسا کہ انکی شرک سے بھرپور تحریف شدہ تورات میں لکھا ہے کہ
Behold a son Shall be born to you, who Shall be a man of Rest, His name shall be solomon, for I will give peace & quiteness to israel in his days. HE SHALL BUILD A HOUSE OF MY NAME. and he shall be my son and I will be his father and I will establish the throne of his kingdom over Israel forever (Chron 22:9-10)
�دیکھو تم میں ایک لڑکا پیدا ہو گا جو امن پیدا کرنیوالا ہوگا۔جس کا نام سلیمان ہوگا۔ میں اسکے عہد میں اسرائیل کو امن اور سکون بخشوں گا۔ وہ میرے نام پر ایک گھر بنائے گا۔ وہ میرا بیٹا اور میں اسکا باپ ہونگا اور میں ہمیشہ کیلئے اسرائیل پر اسکی سلطنت کا تاج رکھوں گا(کرانیکل 10-22:9)
21 دسمبر 2004ء کو یہودی گروپوں نے تعمیر ہیکل سوئم کے سلسلے میں کانفرنس منعقد کی اور اس میں کھلم کھلا مسجد الاقصٰی کو شہید کرنے اور نام نہاد ہیکل کی تعمیر کرنے کا ذکر ہوا۔ اس میں یہودیوں کی طرف سے قرار دیے گئے �ربّ کے خاص بندے� یسرائیل ایریل نے یہودی مصائب کیوجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ہم ہیکل کی تعمیر سے غافل ہو چکے ہیں۔ اس نے سوالیہ انداز میں کہا کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہمیں روحانی سکون اور اطمینان حاصل ہو حالانکہ سالوں پر سال گزرتے جا رہے ہیں اور ہم نے بیت الربّ یعنی ہیکل کی تعمیر کیلئےکچھ نہ کیا۔ ربّ ہم سے یہی چاہتا ہے کہ ہم کام شروع کریں�
ہیکل کی تعمیر کے مشن کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے کچھ یہودی گروپ �میسرۃ الابواب� (دروازوں کا پیغام) نامی مجلس ہر عبرانی مہینے کے آخر میں منعقد کرتے ہیں۔ وہ دیوار برّاق کے احاطے میں جمع ہوتے ہیں جو مسجد الاقصیٰ کی فصیل اور مرکزی دروازوں کے ارد گرد ہے۔ انکی تعداد کبھی سینکڑوں اور کبھی ہزاروں تک پہنچ جاتی ہے وہ اپنی مجلس کے دوران یہ نعرے سر عام بلند کرتے ہیں �ہیکل بناؤ..... مسجد گراؤ..... ہیکل بناؤ..... مسجد گراؤ� غرض ہیکل کی تعمیر یہودیوں کا سب سے بڑا مشن ہے اور اسرائیلی حکام بھی اسکا سرعام اعتراف کرنے سے نہیں چوکتے۔
�ہیکل سلیمان علیہ السلام کی تعمیر نو� کے عنوان سے چلنے والی ویب سائٹ کے مطابق ہیکل کی تعمیر اسلئے ضروری ہے کہ یہ اسرائیل کا مذہبی مرکز ہوگا۔ اس میں موسیٰ علیہ السلام کے دس احکامات(جن پر یہودی دین کی بنیاد ہے) کی تختیوں والا معاہدہ نصب ہوگا۔ اگر یہ نہ بھی مل سکا(اگرچہ ویب سائیٹ کے مطابق یہ مل سکتا ہے، جس کی توقع یہودی بیت المقدس کے احاطہ میں نیچے کھدائی سے کر رہے ہیں)تو بھی ہیکل کی تعمیر کر دی جائیگی۔ یہودیوں کے مطابق ہیکل کی تعمیر ہی سے یہودیوں، صہیونیوں، عیسائیوں اور اسرائیل کے گناہ معاف ہو سکتے ہیں۔
اس ویب سائیٹ کے مطابق ہیکل کی تعمیر اسلئے بھی ضروری ہے کہ اس سے ہم وہ خاص خدائی قوت یعنی شکینہ(Shakina)حاصل کریں گے جو انسان کو خدائی صورت میں ملتی ہے۔اسے وہ قرآن پاک کی سکنیت اور ہندوؤں کی شکتی سے بھی تعبیر کرتے ہیں حالانکہ قرآن پاک کی سکنیت ان سے الگ ہے۔ یہ صرف اللہ سبحان و تعالٰی کی رحمت و مدد کے معنوں میں ہے نہ کہ خدا کے انسانی صورت میں دھلنے کا نام ہے جیسا کہ غیر مسلموں کا عقیدہ ہے۔ یہودیوں کے نزدیک جب تک انھیں یہ شکینہ انھیں حاصل نہیں ہوگی، انھیں خدائی برکتیں نصیب نہیں ہو سکتیں اور انکے نزدیک شکینہ سب سے زیادہ خدا کے گھر کے نزدیک ہوتی ہے اسی لئے ہیکل کا بننا بہت ضروری ہے۔ یہ یاد رہے کہ تفسیر ابن کثیر اور دیگر تفاسیر کے مطابق موسٰی علیہ السلام کو اللہ سبحان و تعالٰی کی طرف سے ایک تابوت(صندوق) ملا جسے تابوت سکینہ کہا جاتا ہے اور اس میں انھوں نے تورات اور دس احکامات والی تختیاں رکھی ہوئی تھیں۔ بعض کے مطابق یہ سونے کا تھا۔ اس میں دیگر تبرکات بھی تھے۔ لڑائی کے وقت بنی اسرائیل اسے میدان جنگ میں پہنچا کر بڑی جانفشانی سے لڑتے جس سے فتح یقینی ہو جاتی۔ فرعون سے نجات دلا کر جب موسٰی علیہ السلام نے انھیں مصر سے نکالا اور صحرائے سینا میں لائے تو پھر فلسطین کی فتح کیلئے انھیں جہاد کرنے کو کہا ۔ جس پر بنی اسرائیل نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ موسٰی علیہ السلام جانیں اور انکا ربّ ۔ جس پر سزا کے طور پر بنی اسرائیل صحرائے سینا میں چالیس سال تک بھٹکتے رہے۔ اسکے بعد حضرت یوشع علیہ السلام کی قیادت میں تائب ہو کر انھوں نے جہاد کر کے فلسطین حاصل کیا اور آہستہ آہستہ پھر بدراہ اور منتشر ہو گئے۔ قبائل کا باہمی اتحاد ختم ہو گیا۔ انکی بد اعمالیوں کی وجہ سے یہ تابوت بھی مخالفوں نے چھین لیا۔ جب بنی اسرائیل پھر تائب ہوئے تو انھوں نے حضرات شمعون علیہ السلام سے ایک بادشاہ کی خواہش ظاہر کی تاکہ جہاد کرکے فلسطین کو دوبارہ حاصل کرلیں۔ چنانچہ حضرت شمعون علیہ السلام نے انھیں طالوت بادشاہ کی خبر دی اور اسکی نشانی یہ بتائی کہ تابوت سکینہ تمھارے پاس واپس آ جائیگا۔ یہ تابوت انھیں واپس مل گیا جسے یہود عہد نامہ کا صندوق بھی کہا جاتا ہے۔ طالوت کی قیادت میں حضرت داؤد علیہ السلام نے فلسطین پر جالوت کو شکست دی۔ بعد میں حضرت داؤد علیہ السلام اور پھر انکے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام بادشاہ بنے اور پھر یہود کی بد اعمالیوں کی وجہ سے ہیکل بھی تباہ ہوا اور تابوت سکینہ بھی غائب ہوگیا۔ جسکی وجہ سے یہودی عقیدہ کے مطابق یہودی شکینہ(خدائی طاقت)سے محروم ہو گئے۔
اب اسی شکینہ کے متعلق یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ یہ وضو والے حوض(El-Kas Fontain) کے گردسب سے زیادہ ہے جو کہ قبۃالصخرٰی اور مسجد الاقصٰی کے درمیان ہے۔ اسی حوض کے گرد انکے خیال میں وہ سب سے مقدس جگہ(Holy of Holles) ہے جہاں حضرت موسٰی علیہ السلام کی تختیاں تھیں اور یہیں یہودیوں کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسحٰق علیہ السلام(یہود حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بجائے حضرت اسحٰق علیہ السلام کے ذبح ہونے کیلئے تیار ہونے پر یقین رکھتے ہیں )کو ذبح کرنے کیلئے لائے تھے۔ چنانچہ یہودیوں کا خیال ہے کہ قبۃ الصخرٰی کے جنوب اور مسجد الاقصٰی کے درمیان حوض والی جگہ کے گرد ہی ہیکل سلیمانی تھا اور یہیں شکینہ سب سے زیادہ ہے۔ یہودی ویب سائیٹ کے مطابق چونکہ فی الحال عالمی صورت حال کی وجہ ہیکل کی تعمیر مشکل ہے اسلئے انھوں نے اس کیلئے ایک عارضی حل یہ بھی نکالا ہے کہ چونکی مقصد شکینہ (خدائی طاقت) کا حصول ہے تو اس طاقت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اس طریقے سے اگر بیت المقدس کے احاطے اور اسکے باہر کے علاقہ پر ایک بڑا بیضہ کھینچا جائے تو بیضے کے اندر ایک جگہ یا نکتہ یعنی شکینہ والی جگہ کی نظری خصوصیات(Optical Properties)کو بیضے کے اندر دوسری جگہ یا نکتہ پر منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اس کیلئے باقاعدہ ایک نقشہ بھی بنایا گیا ہے۔ یہ اگرچہ ایک خیال ہے یا عارضی منصوبہ ہے لیکن یہودیوں کا ناپاک منصوبہ یہی ہے کہ مسجد الاقصٰی اور قبۃ الصخرٰی کے درمیان ہی ہیکل بنایا جائے۔ جس کے سدّباب کیلئے یقیناً اب امت مسلمہ کو اپنا جہادی کردار ادا کرنا ہوگا۔
اگرچہ 1967 ء یہودیوں کا بیت المقدس پر یہودیوں کا قبضہ ہوگیا تاہم مسجد الاقصٰی کیلئے صلاح الدین ایوبی کے بنائے ہوئے منبر سے لیکر بیت المقدس میں اسکا بسایا ہوا ایک ایک محلہ اس مرد مجاہد کی داستان جرات کا حدی خواں ہے۔ آج امت مسلمہ کے مجاہدین اپنے ان سالاروں کے نقوش قدم کیسے بھلا سکتے ہیں۔ وہ تو آج بھی انھیں نقوش پا پر چلنا اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔
ہیکل سلیمانی اور تابوت سکینہ
حضرت موسٰی علیہ السلام کی وفات کے چار سو برس کے بعد تک یہودیوں نے اپنا باقاعدہ کوئی معبد نہیں بنایا تھا کیونکہ اس فتنہ پرور قوم کو باہمی جھگڑوں، انتشار، لاقانونیت اور شرک و شر نے اسکی مہلت ہی نہ دی تھی۔ یہودی عموماً کسی بھی جگہ اپنے آگے کوئی پتھر اپنے آگے رکھ کر عبادت کر لیتے تھے جس طرح کہ مسلمانوں کو کھلی جگہ پر سترہ رکھ کر نماز پڑھنے کا حکم ہے۔ موسٰی علیہ السلام جب اس نا فرمان قوم کو فرعون سے نجات دلا کر صحرائے سینا میں لے گئے تو یہاں موسٰی علیہ السلام نے انھیں صندوق شہادت، قبہ عبادت دیں اور قربان گاہ بنانے کا حکم دیا۔ بقول تورات ایک چلتا پھرتا ہیکل تیار کیا گیا جو �یہواہ� (اللہ) کا گھر کہلاتا۔ اسی میں یہ تمام چیزیں بھی موجود ہوتیں۔ تاہم جو ہیکل، ہیکل سلیمانی کے نام سے معروف ہے وہ باقاعدہ طور پر 1000 قبل از مسیح سلیمان علیہ السلام کے دور ہی میں بنا جو چالیس سال (927 سے 967قبل مسیح) تک قائم رہا جسے بابیلون (بابل، موجودہ شمالی عراق)کے بادشاہ بخت نصر نے چھٹی صدی قبل عیسوی میں تباہ کر دیا۔
بخت نصر نے ہیکل سلیمانی کو جس طرح مسمار کیا اس کا کمال یہ ہے کہ پندرہ مربع فٹ کے وہ پتھر جن سے ہیکل تعمیر ہوا تھا سرے سے ناپید ہو گئے اور گزشتہ دو ہزار برس کی تاریخ انکے وجود کو ہی نہ پاسکی۔ اس تباہی کے بعد یہود اپنے عہد زریں کو یاد کر کے رویا کرتے تھے، لیکن اس ناپید شدہ ہیکل سلیمانی کا ڈرامہ یہودی آج بھی رچائے ہوئے ہیں۔ دوسرا ہیکل تقریباً ستّر سال بعد بنا۔ اس ہیکل کو 70قبل مسیح میں ٹائیٹس نامی رومی بادشاہ نے حملہ کر کے تباہ کردیا۔ اس سے قبل اور اسکے بعد بھی بے شمار چھوٹے موٹے ہیکل بنے اور مختلف بادشاہوں اور حملہ آوروں کے ہاتھوں تباہ ہوتے رہے اور یہودی پوری دنیا میں دربدر ہوتے رہے، جسکی ایک الگ لمبی تاریخ ہے۔ لیکن یہودی عام طور پر انھیں دو ہیکلوں کی تباہی کا ذکر کر کے روتے اور اب وہ اپنے تیسرے ہیکل کی تیاری کیلئے پر تولے ہوئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پہلا اور دوسرا ہیکل بیت المقدس میں ہی تھا اسلئے اب تیسرا ہیکل بھی اسی جگہ تعمیر ہونا چاہیئے۔ انکی بھرپور کوشش یہی ہے کہ کسی طرح ہیکل سلیمانی کے آثار بیت المقدس کے نیچے کھدائی کر کے دریافت کر لیں تاکہ وہ یہاں اپنے ہیکل کی تعمیر کا جواز پیدا کر سکیں لیکن اس میں ناکامی سے وہ پھر بھی پریشان نہیں ہوئے۔ انکا خیال ہے کہ اگر یہاں انھیں ہیکل کی تعمیر کے آثار نہیں بھی ملتے تب بھی وہ ہیکل یہاں ضرور بنائیں گے چاہے انھیں مصنوعی آثار پیدا کر کے ہی ثابت کرنا پڑے کہ یہاں ہیکل تھا۔
یہ بھی یاد رہے کہ یہودی ہیکل کا سنگ بنیاد 2001ء میں رکھ چکے ہیں اب سوال یہ ہے کہ یہودی ہر حال میں بیت المقدس میں ہی ہیکل کیوں بنانا چاہتے ہیں۔
یہودیوں کا اپنی تحریف شدہ تورات کے مطابق عقیدہ ہے کہ ہیکل انکے ربّ کا گھر ہے۔ اللہ سبحان و تعالٰی کی ناراضگی ان پر اسی لئے ہے کیونکہ انھوں نے اپنے ربّ کا گھر نہیں بنایا۔ ان کے نظریہ کے مطابق اسرائیل اور ہیکل لازم و ملزوم ہیں اور مسیح کا نزول بھی ہیکل کی تعمیر کے بعد ہی ہوگا۔ پہلے انھوں نے 2000ء اور پھر 2005ء میں مسیح کے نزول کا امکان ظاہر کیالیکن انکی پیشین گوئیاں دھری کی دھری رہ گئیں۔ انکے نزدیک ہیکل کی تعمیر اللہ کا حکم تھا جس پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے عمل کیا، جیسا کہ انکی شرک سے بھرپور تحریف شدہ تورات میں لکھا ہے کہ
Behold a son Shall be born to you, who Shall be a man of Rest, His name shall be solomon, for I will give peace & quiteness to israel in his days. HE SHALL BUILD A HOUSE OF MY NAME. and he shall be my son and I will be his father and I will establish the throne of his kingdom over Israel forever (Chron 22:9-10)
�دیکھو تم میں ایک لڑکا پیدا ہو گا جو امن پیدا کرنیوالا ہوگا۔جس کا نام سلیمان ہوگا۔ میں اسکے عہد میں اسرائیل کو امن اور سکون بخشوں گا۔ وہ میرے نام پر ایک گھر بنائے گا۔ وہ میرا بیٹا اور میں اسکا باپ ہونگا اور میں ہمیشہ کیلئے اسرائیل پر اسکی سلطنت کا تاج رکھوں گا(کرانیکل 10-22:9)
21 دسمبر 2004ء کو یہودی گروپوں نے تعمیر ہیکل سوئم کے سلسلے میں کانفرنس منعقد کی اور اس میں کھلم کھلا مسجد الاقصٰی کو شہید کرنے اور نام نہاد ہیکل کی تعمیر کرنے کا ذکر ہوا۔ اس میں یہودیوں کی طرف سے قرار دیے گئے �ربّ کے خاص بندے� یسرائیل ایریل نے یہودی مصائب کیوجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ہم ہیکل کی تعمیر سے غافل ہو چکے ہیں۔ اس نے سوالیہ انداز میں کہا کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہمیں روحانی سکون اور اطمینان حاصل ہو حالانکہ سالوں پر سال گزرتے جا رہے ہیں اور ہم نے بیت الربّ یعنی ہیکل کی تعمیر کیلئےکچھ نہ کیا۔ ربّ ہم سے یہی چاہتا ہے کہ ہم کام شروع کریں�
ہیکل کی تعمیر کے مشن کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے کچھ یہودی گروپ �میسرۃ الابواب� (دروازوں کا پیغام) نامی مجلس ہر عبرانی مہینے کے آخر میں منعقد کرتے ہیں۔ وہ دیوار برّاق کے احاطے میں جمع ہوتے ہیں جو مسجد الاقصیٰ کی فصیل اور مرکزی دروازوں کے ارد گرد ہے۔ انکی تعداد کبھی سینکڑوں اور کبھی ہزاروں تک پہنچ جاتی ہے وہ اپنی مجلس کے دوران یہ نعرے سر عام بلند کرتے ہیں �ہیکل بناؤ..... مسجد گراؤ..... ہیکل بناؤ..... مسجد گراؤ� غرض ہیکل کی تعمیر یہودیوں کا سب سے بڑا مشن ہے اور اسرائیلی حکام بھی اسکا سرعام اعتراف کرنے سے نہیں چوکتے۔
�ہیکل سلیمان علیہ السلام کی تعمیر نو� کے عنوان سے چلنے والی ویب سائٹ کے مطابق ہیکل کی تعمیر اسلئے ضروری ہے کہ یہ اسرائیل کا مذہبی مرکز ہوگا۔ اس میں موسیٰ علیہ السلام کے دس احکامات(جن پر یہودی دین کی بنیاد ہے) کی تختیوں والا معاہدہ نصب ہوگا۔ اگر یہ نہ بھی مل سکا(اگرچہ ویب سائیٹ کے مطابق یہ مل سکتا ہے، جس کی توقع یہودی بیت المقدس کے احاطہ میں نیچے کھدائی سے کر رہے ہیں)تو بھی ہیکل کی تعمیر کر دی جائیگی۔ یہودیوں کے مطابق ہیکل کی تعمیر ہی سے یہودیوں، صہیونیوں، عیسائیوں اور اسرائیل کے گناہ معاف ہو سکتے ہیں۔
اس ویب سائیٹ کے مطابق ہیکل کی تعمیر اسلئے بھی ضروری ہے کہ اس سے ہم وہ خاص خدائی قوت یعنی شکینہ(Shakina)حاصل کریں گے جو انسان کو خدائی صورت میں ملتی ہے۔اسے وہ قرآن پاک کی سکنیت اور ہندوؤں کی شکتی سے بھی تعبیر کرتے ہیں حالانکہ قرآن پاک کی سکنیت ان سے الگ ہے۔ یہ صرف اللہ سبحان و تعالٰی کی رحمت و مدد کے معنوں میں ہے نہ کہ خدا کے انسانی صورت میں دھلنے کا نام ہے جیسا کہ غیر مسلموں کا عقیدہ ہے۔ یہودیوں کے نزدیک جب تک انھیں یہ شکینہ انھیں حاصل نہیں ہوگی، انھیں خدائی برکتیں نصیب نہیں ہو سکتیں اور انکے نزدیک شکینہ سب سے زیادہ خدا کے گھر کے نزدیک ہوتی ہے اسی لئے ہیکل کا بننا بہت ضروری ہے۔ یہ یاد رہے کہ تفسیر ابن کثیر اور دیگر تفاسیر کے مطابق موسٰی علیہ السلام کو اللہ سبحان و تعالٰی کی طرف سے ایک تابوت(صندوق) ملا جسے تابوت سکینہ کہا جاتا ہے اور اس میں انھوں نے تورات اور دس احکامات والی تختیاں رکھی ہوئی تھیں۔ بعض کے مطابق یہ سونے کا تھا۔ اس میں دیگر تبرکات بھی تھے۔ لڑائی کے وقت بنی اسرائیل اسے میدان جنگ میں پہنچا کر بڑی جانفشانی سے لڑتے جس سے فتح یقینی ہو جاتی۔ فرعون سے نجات دلا کر جب موسٰی علیہ السلام نے انھیں مصر سے نکالا اور صحرائے سینا میں لائے تو پھر فلسطین کی فتح کیلئے انھیں جہاد کرنے کو کہا ۔ جس پر بنی اسرائیل نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ موسٰی علیہ السلام جانیں اور انکا ربّ ۔ جس پر سزا کے طور پر بنی اسرائیل صحرائے سینا میں چالیس سال تک بھٹکتے رہے۔ اسکے بعد حضرت یوشع علیہ السلام کی قیادت میں تائب ہو کر انھوں نے جہاد کر کے فلسطین حاصل کیا اور آہستہ آہستہ پھر بدراہ اور منتشر ہو گئے۔ قبائل کا باہمی اتحاد ختم ہو گیا۔ انکی بد اعمالیوں کی وجہ سے یہ تابوت بھی مخالفوں نے چھین لیا۔ جب بنی اسرائیل پھر تائب ہوئے تو انھوں نے حضرات شمعون علیہ السلام سے ایک بادشاہ کی خواہش ظاہر کی تاکہ جہاد کرکے فلسطین کو دوبارہ حاصل کرلیں۔ چنانچہ حضرت شمعون علیہ السلام نے انھیں طالوت بادشاہ کی خبر دی اور اسکی نشانی یہ بتائی کہ تابوت سکینہ تمھارے پاس واپس آ جائیگا۔ یہ تابوت انھیں واپس مل گیا جسے یہود عہد نامہ کا صندوق بھی کہا جاتا ہے۔ طالوت کی قیادت میں حضرت داؤد علیہ السلام نے فلسطین پر جالوت کو شکست دی۔ بعد میں حضرت داؤد علیہ السلام اور پھر انکے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام بادشاہ بنے اور پھر یہود کی بد اعمالیوں کی وجہ سے ہیکل بھی تباہ ہوا اور تابوت سکینہ بھی غائب ہوگیا۔ جسکی وجہ سے یہودی عقیدہ کے مطابق یہودی شکینہ(خدائی طاقت)سے محروم ہو گئے۔
اب اسی شکینہ کے متعلق یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ یہ وضو والے حوض(El-Kas Fontain) کے گردسب سے زیادہ ہے جو کہ قبۃالصخرٰی اور مسجد الاقصٰی کے درمیان ہے۔ اسی حوض کے گرد انکے خیال میں وہ سب سے مقدس جگہ(Holy of Holles) ہے جہاں حضرت موسٰی علیہ السلام کی تختیاں تھیں اور یہیں یہودیوں کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسحٰق علیہ السلام(یہود حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بجائے حضرت اسحٰق علیہ السلام کے ذبح ہونے کیلئے تیار ہونے پر یقین رکھتے ہیں )کو ذبح کرنے کیلئے لائے تھے۔ چنانچہ یہودیوں کا خیال ہے کہ قبۃ الصخرٰی کے جنوب اور مسجد الاقصٰی کے درمیان حوض والی جگہ کے گرد ہی ہیکل سلیمانی تھا اور یہیں شکینہ سب سے زیادہ ہے۔ یہودی ویب سائیٹ کے مطابق چونکہ فی الحال عالمی صورت حال کی وجہ ہیکل کی تعمیر مشکل ہے اسلئے انھوں نے اس کیلئے ایک عارضی حل یہ بھی نکالا ہے کہ چونکی مقصد شکینہ (خدائی طاقت) کا حصول ہے تو اس طاقت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اس طریقے سے اگر بیت المقدس کے احاطے اور اسکے باہر کے علاقہ پر ایک بڑا بیضہ کھینچا جائے تو بیضے کے اندر ایک جگہ یا نکتہ یعنی شکینہ والی جگہ کی نظری خصوصیات(Optical Properties)کو بیضے کے اندر دوسری جگہ یا نکتہ پر منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اس کیلئے باقاعدہ ایک نقشہ بھی بنایا گیا ہے۔ یہ اگرچہ ایک خیال ہے یا عارضی منصوبہ ہے لیکن یہودیوں کا ناپاک منصوبہ یہی ہے کہ مسجد الاقصٰی اور قبۃ الصخرٰی کے درمیان ہی ہیکل بنایا جائے۔ جس کے سدّباب کیلئے یقیناً اب امت مسلمہ کو اپنا جہادی کردار ادا کرنا ہوگا۔
No comments:
Post a Comment