بسم اﷲ الرحمن الرحیم
حضرت دحیہ کلبی ؓایک وجیہ شخصیت کے مالک تھے،بلندوبالا قد،چوڑا چکلہ سینہ، لمبے لمبے بال اور سرخ و سفیدرنگت کے باعث آپ پوری محفل میں جدانظر آتے تھے، ان شخصی خصوصیات کے پیش نظر آپ ؓ کوسفیررسول ﷺ مقررکیاگیا چنانچہ دوسرے ملکوں کے بادشاہوں کے پاس آپ ﷺ کے دعوتی خطوط حضرت دحیہ کلبی ہی لے کرگئے۔قیصرروم جس کااپنانام ”ہرقل“تھاجو مذہباَ عیسائی تھااور گزشتہ آسمانی کتب کا عالم تھادربار کے برخواست ہونے پرحضرت دحیہ کلبی ؓ کو اپنے محل کے ایک خاص کمرے میں لے گیا جس کی دیواروں پر بہت سی شبیہیں لٹکی تھیں،اس نے کہاکہ ان میں سے اپنے نبی کی شبیہ پہچانو، ایک پر انگلی رکھ کر حضرت دحیہ کلبی نے کہا یہ ہمارے نبی ﷺ کی شبیہ مبارک ہے۔
ہرقل نے پوچھا اس کے دائیں بائیں کن کی شبیہیں ہیں،حضرت دحیہ کلبی ؓنے کہا کہ ان میں سے ایک حضرت ابوبکرؓاور دوسری حضرت عمرؓ کی ہے۔ ہرقل نے کہاکہ ہماری کتب میں لکھاہے کہ اﷲ تعالی ان دو بزرگوں سے آخری نبی ﷺ کی مدد فرمائے گا۔ اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے اول دونوں خلفائے راشدین کا ذکر گزشتہ کتب میں بھی کتنی تفصیل کے ساتھ مذکور تھا۔
محسن انسانیت ﷺ نے مدینہ آمد کے ساتھ ہی اسلامی ریاست کی تاسیس فرمائی اور خود اس کے اولین حکمران بنے، حضرت ابوبکر صدیقؓاس ریاست کے دوسرے حکمران اور آپ ﷺ کے اولین سیاسی جانشین بنے۔ مردوں میں آپ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا،متعددمسلمان غلاموں کو خرید کر آزاد کیا۔
سفرمعراج کی سب سے پہلے تصدیق کر کے ”صدیق“کا لقب حاصل کیا،سفرہجرت میں ہمنشینی نبی ﷺ کا شرف بھی آپ کو حاصل ہوا،نبی ﷺ کے سسر بننے کی سعادت سے بہرہ ور ہوئے،ہر غزوہ میں نبی ﷺ کے شانہ بشانہ رہے،غزوہ تبوک میں گھرکاکل اثاثہ خدمت اقدسﷺ میں پیش کیا،فتح مکہ کے بعد والے حج میں امیرحج مقرر ہوئے، علالت نبوی ﷺ کے دوران مسلمانوں کی امامت کراتے رہے اوروصال نبی ﷺ پر آپ نے مسلمانوں کو سہارادیا اور انکے تازہ زخم پرمرہم رکھا۔مسلمانوں نے آپ کو باہمی مشورے سے اپنا حکمران چن لیااگلے دن جب آپ کی خلافت کااعلان کیاگیاتو آپ کھڑے نہ ہوئے تب دو مسلمانوںنے آپ ؓ کو کندھوں سے پکڑ کر اٹھایااور ممبررسول ﷺ تک لے گئے۔
ممبر کی تین سیڑھیاں ہوتی ہیں،آپ ﷺ تیسری پر تشریف رکھتے تھے اور دوسری پر اپنے قدمین مبارک دھرتے تھے،حضرت ابوبکر احترام نبوی میںوہاں بیٹھے جہاں قدمین ہوتے تھے،آج تک علماءممبر کی آخری سیڑھی پر نہیں بیٹھے کہ یہ مقام نبوی ﷺ ہے اور دوسری سیڑھی پر ہی بیٹھتے ہیں کہ یہ سنت صدیقی ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓکے زمام اقتدار سنبھالتے ہی متعدد نئے مسائل نے سراٹھانا شروع کردیا۔ان میں سے سب سے اہم فتنہ ارتدادتھا۔ارتدادکامطلب پلٹ جانا ہے،یعنی وصال نبویﷺ کے بعد عرب قبائل کی اکثریت کفروشرک کی طرف پلٹ گئی،انہوں نے کھلم کھلااسلام سے بغاوت کردی،
اپنے قبیلے کے لوگوں کو بھی اسلام چھوڑ دینے پر مجبورکیااور جنہوں نے نہ چھوڑنا چاہا ان پر تشددکیااور بعض کو قتل بھی کیا،زکوة دینے سے انکارکردیا،کچھ نے نبوت کادعوی بھی کردیااورکچھ سرکش قبائل مدینہ پر چرحائی کرنے کی تیاریاں بھی کرنے لگے۔ان قبائل کی وجہ ارتداد پر سب سے پہلے تو خود قرآن نے سورة حجرات میں تبصرہ کردیاتھا کہ اسلام ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا،عرب کے بدوی قبائل مکہ پر قبضہ کے باعث مسلمان تو ہوگئے لیکن اسلام کے عملی تقاضوں کو نبھا نہ سکے۔
پس جب تک آپ ﷺ موجود رہے ان کی نبوت وشخصیت کے سامنے تو دبے رہے لیکن ان کے بعد فوراََ سر اٹھا لیا۔قبائلی تعصب ایک اوروجہ ارتداد تھی جسے ایک زمانہ بعد تک بھی ختم نہ کیاجاسکا،سرداروں کی شوریدہ سری اور جنگجووں کی طالع آزمائیاں اور شوق اقتدار و شہرت و حصول دولت وغیرہ سمیت متعدد دیگروجوہات ہیں جنہیں تاریخ کے نقادوں نے ارتداد کے پس منظر میں سمیٹاہے۔
اکثر قبائل نے زکوة کو تاوان سمجھ لیااور کہاکہ نبی علیہ السلام کو تو ہم ادا کر دیا کرتے تھے لیکن ان کے خلفا کو زکوة ادانہیں کریں گے۔بنوعبس،بنوذیبان اور بنوبکر اس انکار میں سرفہرست تھے۔منکرین زکوة کاایک وفد خلیفہ وقت کے ساتھ مزاکرات کے لیے ندینہ بھی آیااور عرض کی کہ ہم نماز پڑھتے ہیں لیکن زکوة سے ہمیں رخصت دے دی جائے ،حالات اس حد تک بگڑ چکے تھے شہرمدینہ صحرامیں بھیگی ہوئی تنہابکری کی مانند ہوچکاتھا چنانچہ صحابہ کی اکثریت نے اس وفد کے موقف کی تائید کی جبکہ حضرت عمر ؓجیسے جید کی صحابی کی رائے بھی منکرین کے حق میں تھی لیکن حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایاکہ زکوة کی ایک رسی کے لیے بھی مجھے جنگ لڑنی پڑی تو میں لڑوں گا۔
اس وقت اگر خلیفہ اول زکوة میں رعایت دے دیتے تو اسکو جواز بناکر آج کہاجاسکتاتھاکہ مصروفیت کے باعث پانچ کی بجائے تین نمازیں پڑھ لیناکافی ہے،مہنگائی کے باعث اپنے ہی علاقے میں مناسک حج اداکرلیناکافی ہے وغیرہ لیکن حضرت ابو بکرؓ کی ایک ”ناں“ نے قیامت تک کیے تحریف دین کے دروازے بند کر دیے۔
منکرین زکوة اس حد تک دلیر ہوچکے تھے کہ انہوں نے مدینہ پر چڑھائی کر دی چنانچہ مسلمانوں کے لشکر نے اپنے خلیفہ کی قیادت میں انہیں شکست دی اور انکے قبائل تک انکا تعاقب کیا۔
طلحہ بن خویلد اورمسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعوی کر دیا،ان کا خیال تھا کہ مکہ سے ایک فردنے نبوت کادعوی کر کے تو اقتدار،شہرت اور افواج اکٹھی کرلی ہیں چلو قسمت آزمائی ہم بھی کرتے ہیں۔طلحہ نے اپنے قبیلہ بنواسد کو اپنے گرد اکٹھاکر لیااور شکست خوردہ منکرین زکوة بھی اس کے ساتھ آن ملے اور یوں یہ مرتدین اکٹھے ہوکر ایک جتھے کی شکل اختیارکرگئے۔
حضرت ابوبکر ؓنے خالد بن ولید کی سالاری میں ایک لشکر ان کی سرکوبی کے لیے بھیجا”بزاخہ“کی وادی میں گمسان کا رن پڑا ،مرتدین کو شکست فاش ہوئی اور طلحہ اپنی بیوی سمیت فرارہوگیا۔بعد کے ادوار میں طلحہ نے توبہ کرلی اور مسلمان ہوگیااور دورفاروقی میں ایران و عراق کی مہمات میں بہت بہادری کے ساتھ جہاد کرتارہا۔مسیلمہ دراصل بنوحنیفہ کا سردارتھااور یمامہ کا رہنے والا تھا۔
اس نے دورنبوت میں ہی نبی علیہ السلام کے ساتھ گستاخیاں شروع کر دی تھیں جس کے باعث دربار نبویﷺ سے اسے ”کذاب“ کا لقب مل چکاتھا۔ مرکزخلافت مدینہ منورہ سے شرجیل بن حسنہ اور عکرمہ بن ابوجہل الگ الگ دستے دے کرمسیلمہ کی سرکوبی کے لیے روانہ کیاگیادونوں نے ہزیمت اٹھائی اس کے بعد خالد بن ولید اپنا لشکر لے کر پہنچے اور مرتدین کا پتہ کاٹنے کے لیے فیصلہ کن حملہ کی تیاریاں شروع کر دیں۔
مسیلمہ کے ساتھ چالیس ہزار کا لشکر تھا لیکن اس کے باوجود بھی وہ مسلمانوں کا ڈٹ کر مقابلہ نہ کرسکا اور ایک باغ میں محصور ہوگیا،مسلمان مجاہدین باغ کی دیواروں سے کود گئے اور اس کاکام تمام کردیا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ جس ”وحشی“نے جنگ احد میں حضرت امیرحمزہ ؓکا قتل کیاتھا اسی نے اپنے بھالے کو اس طرح نشانے پر پھینکاکہ وہ مسیلمہ کذاب کے سینے سے آرپار ہوگیا۔
بحرین کے لوگ بھی مرتد ہو گئے اور انکے دیکھادیکھی ان کے قریب کے دیگرقبائل بھی ارتداد کی طر ف مائل ہوئے اور دین حق کو خیرآباد کہ دیاان میں عمان،یمن اور حضرموت کے لوگ بھی شامل تھے۔یہ علاقہ یمامہ کے قریب ہی واقع تھاچنانچہ مسیلمہ کذاب کی شکست سے یہ لوگ خوفزدہ تو ہوئے لیکن جہالت کے باعث ابھی بھی آمادہ بغاوت ہی تھے۔ان میں سے ایک سردار جارود بن معلی عبدی اسلام پر قائم رہااور اس نے اپنے قبیلے بنوعبدالقیس کوبھی تبلیغ و ترہیب کے ذریعے اسلام پر قائم رکھا۔مرتدین نے سابقہ شاہی خاندان کے ایک شہزادے کو اپنا بادشاہ بنا لیاتھااور سلطنت اسلامیہ کے گورنر علاء حضرمی کو علاقہ بدر کردیاتھا۔ حضرت ابوبکر نے مرتدین کی سرکوبی کے لیے وہیں کے نکالے ہوئے گورنرعلاءحضرمی کو لشکر کا کماندار مقررکیا۔
دشمن کی تعداد بہت زیادہ تھی چنانچہ مسلمان افواج نے خندقیں کھود کر ان میں چھپ کر اپنا دفاع بھی کیااوردشمن پر حملے بھی کرتے رہے۔ایک ماہ کی طویل کشمکش کوئی نتیجہ برآمد نہ کرسکی اور یہ جنگ عسکری مقابلے کی بجائے اعصابی مقابلے کی صورت اختیار کر گئی۔ایک رات جب مرتدین شراب کے نشوں میں دھت غل غپارہ اور طوفان بدتمیزی برپاکر رہے تھے تو مسلمانوں نے موقع غنیمت جان کر بھرپوروار کیا،یہ حملہ کارگر ہوا اور دشمن کا اتنانقصان ہوا کہ انہیں میدان جنگ میں ہزیمت اٹھانا پڑی اور مسلمان افواج فتح مند ہوئے۔
اسو دعنسی ایک اور جھوٹامدعی نبوت تھااور اس نے دور نبوت میں ہی یہ دعوی کررکھاتھا،اسکاتعلق یمن سے تھا۔اسود عنسی نے اپنے بہت سے پیروکاروں کو اکٹھا کر رکھاتھا اور اسلامی حکومت کے عمال کو وہاں سے نکال کر اپنی حکومت قائم کررکھی تھی۔کم و بیش چار ماہ تک اس نے یہ ڈراما رچائے رکھااور وصال نبوی ﷺ سے ایک رات قبل راگ رنگ کی محفل میں اسی کے ایک چاہنے والے نے اسے ذبح کردیا۔اس کے بعد بھی یہ فتنہ ارتداد ختم نہ ہوااور عمروبن معدی کرب اورقیس بن عبد یغوث نے ان باغیوں کی قیادت سنبھال لی۔حضرت ابوبکر ؓنے عکرمہ اور مہاجر کو ان لوگوں کی بغاوت کچلنے کے لیے روانہ کیا۔مدنی افواج کے آنے سے اہل یمن بری طرح گھبراگئے اور ان میں پھوٹ پڑ گئی ۔
عمرو بن معدی کرب مسلمانوں سے مل گیااور اس نے قیس بن عبد یغوث کو گرفتار کرادیااور یوں یہ بغاوت بھی فروہوگئی۔عمرو بن معدی نے بعد کے دور فاروقی میں ایران اسلام جنگ میں بہادری کے خوب جوہر دکھائے۔
حضرت دحیہ کلبی ؓایک وجیہ شخصیت کے مالک تھے،بلندوبالا قد،چوڑا چکلہ سینہ، لمبے لمبے بال اور سرخ و سفیدرنگت کے باعث آپ پوری محفل میں جدانظر آتے تھے، ان شخصی خصوصیات کے پیش نظر آپ ؓ کوسفیررسول ﷺ مقررکیاگیا چنانچہ دوسرے ملکوں کے بادشاہوں کے پاس آپ ﷺ کے دعوتی خطوط حضرت دحیہ کلبی ہی لے کرگئے۔قیصرروم جس کااپنانام ”ہرقل“تھاجو مذہباَ عیسائی تھااور گزشتہ آسمانی کتب کا عالم تھادربار کے برخواست ہونے پرحضرت دحیہ کلبی ؓ کو اپنے محل کے ایک خاص کمرے میں لے گیا جس کی دیواروں پر بہت سی شبیہیں لٹکی تھیں،اس نے کہاکہ ان میں سے اپنے نبی کی شبیہ پہچانو، ایک پر انگلی رکھ کر حضرت دحیہ کلبی نے کہا یہ ہمارے نبی ﷺ کی شبیہ مبارک ہے۔
ہرقل نے پوچھا اس کے دائیں بائیں کن کی شبیہیں ہیں،حضرت دحیہ کلبی ؓنے کہا کہ ان میں سے ایک حضرت ابوبکرؓاور دوسری حضرت عمرؓ کی ہے۔ ہرقل نے کہاکہ ہماری کتب میں لکھاہے کہ اﷲ تعالی ان دو بزرگوں سے آخری نبی ﷺ کی مدد فرمائے گا۔ اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے اول دونوں خلفائے راشدین کا ذکر گزشتہ کتب میں بھی کتنی تفصیل کے ساتھ مذکور تھا۔
محسن انسانیت ﷺ نے مدینہ آمد کے ساتھ ہی اسلامی ریاست کی تاسیس فرمائی اور خود اس کے اولین حکمران بنے، حضرت ابوبکر صدیقؓاس ریاست کے دوسرے حکمران اور آپ ﷺ کے اولین سیاسی جانشین بنے۔ مردوں میں آپ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا،متعددمسلمان غلاموں کو خرید کر آزاد کیا۔
سفرمعراج کی سب سے پہلے تصدیق کر کے ”صدیق“کا لقب حاصل کیا،سفرہجرت میں ہمنشینی نبی ﷺ کا شرف بھی آپ کو حاصل ہوا،نبی ﷺ کے سسر بننے کی سعادت سے بہرہ ور ہوئے،ہر غزوہ میں نبی ﷺ کے شانہ بشانہ رہے،غزوہ تبوک میں گھرکاکل اثاثہ خدمت اقدسﷺ میں پیش کیا،فتح مکہ کے بعد والے حج میں امیرحج مقرر ہوئے، علالت نبوی ﷺ کے دوران مسلمانوں کی امامت کراتے رہے اوروصال نبی ﷺ پر آپ نے مسلمانوں کو سہارادیا اور انکے تازہ زخم پرمرہم رکھا۔مسلمانوں نے آپ کو باہمی مشورے سے اپنا حکمران چن لیااگلے دن جب آپ کی خلافت کااعلان کیاگیاتو آپ کھڑے نہ ہوئے تب دو مسلمانوںنے آپ ؓ کو کندھوں سے پکڑ کر اٹھایااور ممبررسول ﷺ تک لے گئے۔
ممبر کی تین سیڑھیاں ہوتی ہیں،آپ ﷺ تیسری پر تشریف رکھتے تھے اور دوسری پر اپنے قدمین مبارک دھرتے تھے،حضرت ابوبکر احترام نبوی میںوہاں بیٹھے جہاں قدمین ہوتے تھے،آج تک علماءممبر کی آخری سیڑھی پر نہیں بیٹھے کہ یہ مقام نبوی ﷺ ہے اور دوسری سیڑھی پر ہی بیٹھتے ہیں کہ یہ سنت صدیقی ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓکے زمام اقتدار سنبھالتے ہی متعدد نئے مسائل نے سراٹھانا شروع کردیا۔ان میں سے سب سے اہم فتنہ ارتدادتھا۔ارتدادکامطلب پلٹ جانا ہے،یعنی وصال نبویﷺ کے بعد عرب قبائل کی اکثریت کفروشرک کی طرف پلٹ گئی،انہوں نے کھلم کھلااسلام سے بغاوت کردی،
اپنے قبیلے کے لوگوں کو بھی اسلام چھوڑ دینے پر مجبورکیااور جنہوں نے نہ چھوڑنا چاہا ان پر تشددکیااور بعض کو قتل بھی کیا،زکوة دینے سے انکارکردیا،کچھ نے نبوت کادعوی بھی کردیااورکچھ سرکش قبائل مدینہ پر چرحائی کرنے کی تیاریاں بھی کرنے لگے۔ان قبائل کی وجہ ارتداد پر سب سے پہلے تو خود قرآن نے سورة حجرات میں تبصرہ کردیاتھا کہ اسلام ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا،عرب کے بدوی قبائل مکہ پر قبضہ کے باعث مسلمان تو ہوگئے لیکن اسلام کے عملی تقاضوں کو نبھا نہ سکے۔
پس جب تک آپ ﷺ موجود رہے ان کی نبوت وشخصیت کے سامنے تو دبے رہے لیکن ان کے بعد فوراََ سر اٹھا لیا۔قبائلی تعصب ایک اوروجہ ارتداد تھی جسے ایک زمانہ بعد تک بھی ختم نہ کیاجاسکا،سرداروں کی شوریدہ سری اور جنگجووں کی طالع آزمائیاں اور شوق اقتدار و شہرت و حصول دولت وغیرہ سمیت متعدد دیگروجوہات ہیں جنہیں تاریخ کے نقادوں نے ارتداد کے پس منظر میں سمیٹاہے۔
اکثر قبائل نے زکوة کو تاوان سمجھ لیااور کہاکہ نبی علیہ السلام کو تو ہم ادا کر دیا کرتے تھے لیکن ان کے خلفا کو زکوة ادانہیں کریں گے۔بنوعبس،بنوذیبان اور بنوبکر اس انکار میں سرفہرست تھے۔منکرین زکوة کاایک وفد خلیفہ وقت کے ساتھ مزاکرات کے لیے ندینہ بھی آیااور عرض کی کہ ہم نماز پڑھتے ہیں لیکن زکوة سے ہمیں رخصت دے دی جائے ،حالات اس حد تک بگڑ چکے تھے شہرمدینہ صحرامیں بھیگی ہوئی تنہابکری کی مانند ہوچکاتھا چنانچہ صحابہ کی اکثریت نے اس وفد کے موقف کی تائید کی جبکہ حضرت عمر ؓجیسے جید کی صحابی کی رائے بھی منکرین کے حق میں تھی لیکن حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایاکہ زکوة کی ایک رسی کے لیے بھی مجھے جنگ لڑنی پڑی تو میں لڑوں گا۔
اس وقت اگر خلیفہ اول زکوة میں رعایت دے دیتے تو اسکو جواز بناکر آج کہاجاسکتاتھاکہ مصروفیت کے باعث پانچ کی بجائے تین نمازیں پڑھ لیناکافی ہے،مہنگائی کے باعث اپنے ہی علاقے میں مناسک حج اداکرلیناکافی ہے وغیرہ لیکن حضرت ابو بکرؓ کی ایک ”ناں“ نے قیامت تک کیے تحریف دین کے دروازے بند کر دیے۔
منکرین زکوة اس حد تک دلیر ہوچکے تھے کہ انہوں نے مدینہ پر چڑھائی کر دی چنانچہ مسلمانوں کے لشکر نے اپنے خلیفہ کی قیادت میں انہیں شکست دی اور انکے قبائل تک انکا تعاقب کیا۔
طلحہ بن خویلد اورمسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعوی کر دیا،ان کا خیال تھا کہ مکہ سے ایک فردنے نبوت کادعوی کر کے تو اقتدار،شہرت اور افواج اکٹھی کرلی ہیں چلو قسمت آزمائی ہم بھی کرتے ہیں۔طلحہ نے اپنے قبیلہ بنواسد کو اپنے گرد اکٹھاکر لیااور شکست خوردہ منکرین زکوة بھی اس کے ساتھ آن ملے اور یوں یہ مرتدین اکٹھے ہوکر ایک جتھے کی شکل اختیارکرگئے۔
حضرت ابوبکر ؓنے خالد بن ولید کی سالاری میں ایک لشکر ان کی سرکوبی کے لیے بھیجا”بزاخہ“کی وادی میں گمسان کا رن پڑا ،مرتدین کو شکست فاش ہوئی اور طلحہ اپنی بیوی سمیت فرارہوگیا۔بعد کے ادوار میں طلحہ نے توبہ کرلی اور مسلمان ہوگیااور دورفاروقی میں ایران و عراق کی مہمات میں بہت بہادری کے ساتھ جہاد کرتارہا۔مسیلمہ دراصل بنوحنیفہ کا سردارتھااور یمامہ کا رہنے والا تھا۔
اس نے دورنبوت میں ہی نبی علیہ السلام کے ساتھ گستاخیاں شروع کر دی تھیں جس کے باعث دربار نبویﷺ سے اسے ”کذاب“ کا لقب مل چکاتھا۔ مرکزخلافت مدینہ منورہ سے شرجیل بن حسنہ اور عکرمہ بن ابوجہل الگ الگ دستے دے کرمسیلمہ کی سرکوبی کے لیے روانہ کیاگیادونوں نے ہزیمت اٹھائی اس کے بعد خالد بن ولید اپنا لشکر لے کر پہنچے اور مرتدین کا پتہ کاٹنے کے لیے فیصلہ کن حملہ کی تیاریاں شروع کر دیں۔
مسیلمہ کے ساتھ چالیس ہزار کا لشکر تھا لیکن اس کے باوجود بھی وہ مسلمانوں کا ڈٹ کر مقابلہ نہ کرسکا اور ایک باغ میں محصور ہوگیا،مسلمان مجاہدین باغ کی دیواروں سے کود گئے اور اس کاکام تمام کردیا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ جس ”وحشی“نے جنگ احد میں حضرت امیرحمزہ ؓکا قتل کیاتھا اسی نے اپنے بھالے کو اس طرح نشانے پر پھینکاکہ وہ مسیلمہ کذاب کے سینے سے آرپار ہوگیا۔
بحرین کے لوگ بھی مرتد ہو گئے اور انکے دیکھادیکھی ان کے قریب کے دیگرقبائل بھی ارتداد کی طر ف مائل ہوئے اور دین حق کو خیرآباد کہ دیاان میں عمان،یمن اور حضرموت کے لوگ بھی شامل تھے۔یہ علاقہ یمامہ کے قریب ہی واقع تھاچنانچہ مسیلمہ کذاب کی شکست سے یہ لوگ خوفزدہ تو ہوئے لیکن جہالت کے باعث ابھی بھی آمادہ بغاوت ہی تھے۔ان میں سے ایک سردار جارود بن معلی عبدی اسلام پر قائم رہااور اس نے اپنے قبیلے بنوعبدالقیس کوبھی تبلیغ و ترہیب کے ذریعے اسلام پر قائم رکھا۔مرتدین نے سابقہ شاہی خاندان کے ایک شہزادے کو اپنا بادشاہ بنا لیاتھااور سلطنت اسلامیہ کے گورنر علاء حضرمی کو علاقہ بدر کردیاتھا۔ حضرت ابوبکر نے مرتدین کی سرکوبی کے لیے وہیں کے نکالے ہوئے گورنرعلاءحضرمی کو لشکر کا کماندار مقررکیا۔
دشمن کی تعداد بہت زیادہ تھی چنانچہ مسلمان افواج نے خندقیں کھود کر ان میں چھپ کر اپنا دفاع بھی کیااوردشمن پر حملے بھی کرتے رہے۔ایک ماہ کی طویل کشمکش کوئی نتیجہ برآمد نہ کرسکی اور یہ جنگ عسکری مقابلے کی بجائے اعصابی مقابلے کی صورت اختیار کر گئی۔ایک رات جب مرتدین شراب کے نشوں میں دھت غل غپارہ اور طوفان بدتمیزی برپاکر رہے تھے تو مسلمانوں نے موقع غنیمت جان کر بھرپوروار کیا،یہ حملہ کارگر ہوا اور دشمن کا اتنانقصان ہوا کہ انہیں میدان جنگ میں ہزیمت اٹھانا پڑی اور مسلمان افواج فتح مند ہوئے۔
اسو دعنسی ایک اور جھوٹامدعی نبوت تھااور اس نے دور نبوت میں ہی یہ دعوی کررکھاتھا،اسکاتعلق یمن سے تھا۔اسود عنسی نے اپنے بہت سے پیروکاروں کو اکٹھا کر رکھاتھا اور اسلامی حکومت کے عمال کو وہاں سے نکال کر اپنی حکومت قائم کررکھی تھی۔کم و بیش چار ماہ تک اس نے یہ ڈراما رچائے رکھااور وصال نبوی ﷺ سے ایک رات قبل راگ رنگ کی محفل میں اسی کے ایک چاہنے والے نے اسے ذبح کردیا۔اس کے بعد بھی یہ فتنہ ارتداد ختم نہ ہوااور عمروبن معدی کرب اورقیس بن عبد یغوث نے ان باغیوں کی قیادت سنبھال لی۔حضرت ابوبکر ؓنے عکرمہ اور مہاجر کو ان لوگوں کی بغاوت کچلنے کے لیے روانہ کیا۔مدنی افواج کے آنے سے اہل یمن بری طرح گھبراگئے اور ان میں پھوٹ پڑ گئی ۔
عمرو بن معدی کرب مسلمانوں سے مل گیااور اس نے قیس بن عبد یغوث کو گرفتار کرادیااور یوں یہ بغاوت بھی فروہوگئی۔عمرو بن معدی نے بعد کے دور فاروقی میں ایران اسلام جنگ میں بہادری کے خوب جوہر دکھائے۔
No comments:
Post a Comment