Saturday, June 27, 2009

یورپ انسانی آزادیوں کا قاتل




یورپ اپنے تئیں اٍنسانی حقوق کی پاسداری کرنے کا ہمیشہ واویلہ کرتا رہتا ہے۔مغرب میں ہی اٍسلام کو متشدد دین سے تشبیہہ دیکر سادہ لوح گوروں کو مسلمانوں اور دین اٍسلام سے متنفر کرنے کے بودے منصوبے تخلیق کئے جاتے ہیں۔یورپین جمہوریت کو دنیا میں رول ماڈل کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے مگر حقیقت اٍس سے بہت دور رہتی ہے۔مغربی جمہوریت کا تازہ ترین شاہکار یورپ کے حقیقی چہرے کو طشت ازبام کرتا ہے۔ترک نژاد مسلم خاتون ماہ نور زاد میر نے بلجیم میں منعقد ہونے والے پارلیمانی الیکشن میں برسلز کے حلقے سے فتح کا تاج حاصل کیا حالانکہ الیکشن سے قبل انکی شکست کے تجزئیے و قیافے میڈیا میں شائع ہوتے رہے مگر شکست کے تمام تر دعووں و اندازوں کے باوجود ماہ نور نے تاریخ ساز کامیابی سمیٹی۔

ماہ نور مسلم روایات کی پیروی کرتی ہیں اور اپنے سر پر سکارف اوڑھتی ہیں مگر بلجییم کے اربابٍ اٍختیار کی انکھوں میں سکارف کانٹا بن کر چھبتا ہے۔وہ کسی صورت میں پارلیمنٹ میں سکارف کو برداشت کرنے پر تیار نہیں۔سرکاری عہدیداروں نے اعلان کردیا ہے کہ ماہ نور تقریب حلف برادری میں سکارف اٍستعمال نہیں کرسکتی۔دوسری طرف ماہ نور ثابت قدم ہے اسکا موقف ہے کہ وہ نہ صرف سکارف پہن کر حلف اٹھائیں گی بلکہ وہ سرکاری امور کی انجام دہی کے دوران سکارف کا اٍستعمال کریں گی۔

ماہ نور بلجیم کی تاریخ میں پہلی مسلم خاتون ہیں جس نے پارلیمنٹ تک رسائی حاصل کی۔مسلم تعصب پسند سیاسی جماعتیں اب ماہ نور کو ریاستی آئین کی ایک شق کے استعمال سے نااہل قرار دلوانے کی سازشیں کررہی ہیں۔یوں حجاب کے استعمال پر طرفین کے درمیان مقابلہ روز بروز شدت اختیار کررہا ہے۔بلجیم کے سرکاری تعلیمی اداروں میں سکارف اوڑھنے پر پابندی ہے۔بلجیم کے چند گنے چنے پرائیویٹ اداروں میں مسلمان بچیوں کو سکارف پہننے کی اجازت ہے۔مشہور عربی اخبار الشرق اوسط کے برسلز میں مقیم نمائندے نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ انہوں نے ووٹنگ سے ایک روز پہلے ماہ نور کو بازار میں سکارف پہنے دیکھا۔بازار کی بھیڑ میں وہ واحد خاتون تھیں جس نے سکارف اوڑھ رکھا تھا۔نمائندے کے اس سوال پر کہ اگر وہ جیت گئیں تو انہیں سکارف چھوڑنا ہوگا مگر ماہ نور نے عزم صمیم کے انداز میں جواب دیا کہ لوگوں کو انکے کا م و کارکردگی کو دیکھنا چاہیے۔

ماہ نور کی جیت کے بعد بلجیم کے مسلم اور سیکولر طبقوں کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوگیا ہے۔ماہ نور کو نااہل کروانے والا روشن خیال یورپی ٹولہ ٹرٹراہٹ کرتا ہے کہ ماہ نور ہماری ثقافت کو برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ بلجیم مغربی یورپ میں واقع یورپی یونین کا اہم حصہ ہے۔آن لائن انسائیکلوپیڈیا کے مطابق بلجیم میں کیتھولک چرچ کے پیروکار موجود ہیں۔ بلجیم میں پچاس لاکھ مسلمان اباد ہیں جو بلجیم کی کل ابادی کا تین فیصد ہیں۔ ماہ نور نے بلجیم کی سیاست میں حصہ لیا تو قدم قدم پر مصائب و مشکلات کی چٹانوں کو سر کرنا پڑا۔ انکی سیاسی جماعت ڈیموکریٹ اینڈ ہیومنسٹک نے سکارف کی مخالفت کی۔

وہ کافی عرصے سے اٍس جماعت میں کام کررہی ہیں۔وہ پہلے کونسلر کا معرکہ بھی سر کرچکی ہیں۔ یوں انکی پارٹی خدمات کے کارن جماعت نے ماہ نور کے سامنے سرنڈر کیا۔مارچ میں ڈیموکریٹ پارٹی نے امیدواروں کی لسٹ و تصاویر شائع کیں تو ماہ نور کے سر سے حجاب غائب تھا۔۔ماہ نور نے پارٹی اجلاس میں اس مسئلے پر غوغہ ارائی کی تو پارٹی نے اٍسے پرنٹر کی غلطی کہہ کر جان چھڑوائی۔ماہ نور کی مخالف سوشلسٹ جماعت نے اودھم مچارکھا ہے کہ ماہ نور کے پاس صرف دوہی راستے ہیں کہ یا تو وہ سکارف اتار کر ممبر پارلیمنٹ کا حلف اٹھائے یا پھر وہ مستعفی ہوجائے۔

شوشلسٹ پارٹی کی حجاب مخالف مہم کو پورے یورپ میں پذیرائی مل رہی ہے۔ترکی کے مشہور اخبار دی ورلڈ بلیٹن کے مطابق ماہ نور نے برسلز یونیورسٹی سے ہیومین ریسورز پروگرام میں گریجوئیشن کی ہے۔وہ پہلے اپنی سیاسی جماعت کے چیرمین کے اسٹنٹ کے طور پر کام کررہی تھیں بعد میں وہ اٍسی جماعت میں شامل ہوگئیں۔ماہ نور نے2861 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی۔ انکی کامیابی کی خبر منٹوں میں یورپی یونین کے کونوں تک پہنچ گئی۔سوشلسٹ پارٹی کی خاتون رکن صفیہ بوعرفہ کا کہنا ہے کہ انہیں ماہ نور کے مستقبل کے متعلق خدشات ہیں۔وہ حجاب بھی پہننا چاہتی ہے اور پارلمینٹرین کا کام بھی کرنا چاہتی ہے جو دو متصادم راستے ہیں۔

ماہ نور کے سکارف پہننے سے بلجیم کے کسی قانون کو زک نہیں پہنچتی۔ یہ تو شخصی ازادی کا مسئلہ ہے مگر بلجیم و یورپئین لوگ اٍس نقطے پر غور نہیں کرتے۔ رکن اسمبلی صفیہ بوعرفہ کا موقف حقیقت بر مبنی ہے مگر کوئی اٍسے سمجھنے و پرکھنے کی زحمت نہیں کرتا۔الشرق الاوسط جریدے سے بات چیت کرتے ہوئے ماہ نور اپنی منصوبہ بندی کو یوں آشکار کرتی ہیں کہ وہ ایوان میں جاکر حجاب پر پابندی ختم کروائیں گی۔عید پر جانوروں کی قربانی کرنے کی اجازت دینے کا قانون پاس کروائیں گی۔

بلجیم کی حکومت نے مسلمانوں پر عطیات اکٹھے کرنے پر پابندی عائد کررکھی ہے ماہ نور اٍس پابندی کے خلاف اعلان جنگ کرچکی ہیں۔ ماہ نور کے حجاب پر جسطرح یورپ میں اتھل پتھل مچایا جارہا ہے۔ سکارف اوڑھنے کی بنا پر اسکی نااہلی پر سوچ و بچار ہورہی ہے۔ ان معاملات کی عرق ریزی کرنے سے یہ سچائی سامنے اتی ہے کہ یورپ کے حکمران طبقات اٍسلامی روایات کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ ماہ نور کے ناقابل لغزش جذبات پر پوری امہ کو فخر کرنا چاہیے۔

مغرب میں سکارف کے خلاف جاری پراپگنڈہ مہم سے مسلم دنیا کو سبق حاصل کرنا چاہیے کہ جب یورپ ہماری مسلمان بیٹیوں کو سر ڈھانپنے کی اجازت دینے پر تیار نہیں تو پھر ہم کیوں مغربی تہذیب کی پیروکاری یورپی خیالات کی ترجمانی اور اخلاقی گراوٹوں سے لبریز مغربی ثقافت کی نقالی کیوں کرتے ہیں؟ کیا مسلم تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے لئے یہ ضروری نہیں کہ مسلم امہ بھی یورپی روایات کو پائے حقارت سے مسترد کردے۔یورپی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے۔

بلجیم کے سرکاری اداروں نے سکارف کے خلاف جس بھونڈے طرز عمل کا اظہار کیا ہے وہ جمہوری روایات اور شخصی و مذہبی اقدار پر شب خون مارنے کے مترادف اور انسانی حقوق کا قتل ہے۔کسی مغربی شاعر نے درست ہی کہا تھا کہ مشرق مشرق ہے اور مغرب مغرب ہے جو کبھی بھی ایک نہیں ہوسکتے۔ مسلم امہ کے یہود نواز بادشاہوں کو اٍس جملے پر غور و فکر کرنا چاہیے۔ یوں ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ یورپ ہی دنیا میں شرف اٍنسانیت احترام آدمیت اور حقوق اٍنسانی کا سب سے بڑا قاتل ہے۔

No comments:

Post a Comment