Wednesday, June 3, 2009

سری لنکا کے ہاتھوں بھارت کی شکست

تحریر: عمران چنگیزی

سری لنکن فوج نے سری لنکا پر قبضے کی بھارتی کوششیں اور ”را “ کی سازشیں ناکام بنادیں۔

امریکی حمایت یافتہ علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیم لبریشن ٹائیگرز آف تامل کا صفایا۔

باغیوں نے ہتھیار ڈال دیئے۔
25
سال سے”را “ کےلئے سری لنکا میں علیحدگی پسندی اور دہشت گردی کی خدمات انجام دینے والا تامل ٹائیگرز کا بانی ویلوپئی پربھا کرن ہلاک

توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کی خاطر خطے میں موجود ممالک میں دہشتگردی کو فروغ دینے والا بھارت 25سالہ سازشوں کے باجود بھی سری لنکا کو شکست و ریخت سے دوچار کرنے میں ناکام رہا

بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ”را “ خطے میں موجود تمام ممالک میں انتشار کے فروغ کےلئے دہشت گردی کو جنم دے رہی ہے جس سے پوری دنیا کا امن برباد ہونے کا خطرہ ہے
” را “ پر عالمی سطح پر پابندی لگاکر اس کا خاتمہ نہیں کیا گیا تو ”را “ کی سازشوں کی وجہ سے پھوٹنے والا دہشت گردی کا طوفان کسی دنیا کو ایٹمی جنگ کے خطرے سے دوچار کردے گا ۔


سری لنکا میں بھارت کو اس وقت شدید ہزیمت اور شکست کا سامنا کرنا پڑا جب بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی کی پیدا کردہ با غی تنظیم ”ایل ٹی ٹی ای ) لبریشن ٹائیگرز آف تامل نے سری لنکا کی فوج کے ساتھ جاری اپنی مسلح جھڑپوں میں شکست تسلیم کرتے ہوئے ہتھیا ر ڈالنے کا اعلان کردیا اور ایل ٹی ٹی ای کا بانی و سری لنکا میں ”را “ کا ایجنٹ ویلو پلئی پربھا کرن کے سرکاری فوج کے ہاتھوں مارے جانے کی اطلاعات کے بعد ایل ٹی ٹی ای کے بین الاقوامی امور کے سربراہ سلوراجہ پدما بھن نے شکست کا اعتراف کرتے ہوئے جنگ بندی اورہتھیار ڈالنے کا اعلان کردیا ۔

سری لنکا میں تامل ٹائیگرز کا خاتمہ اور ”را “ کے ایجنٹ پربھاکرن کی ہلاکت یقینا بھارت کےلئے کسی بہت بڑے صدمے سے کم نہیں ہے کیونکہ کشمیر سمیت پاکستان ‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دے کر اکھنڈ بھارت کے خواب کی تکمیل کےلئے بھارت ہمیشہ سے اپنے پڑوسی ممالک کے خلاف چانکیائی سازشوں میں مصروف عمل رہا ہے اور بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ”را “ کا قیام بھی اسی لئے عمل میں آیا تھا کہ وہ ان ممالک میں اندرونی خلفشار و انتشار پیدا کرکے انہیں اندرونی طور پر اس قدر کمزور کردے کہ بھارت جب چاہے آسانی سے ضرب لگاکر ان پر قبضے کی اپنی چانکیائی خواہش کو عملی جامع پہنا سکے ۔

اور اپنے اس مقصد میں ”را “ نے ابتدائی کامیابی اسی وقت حاصل کرلی تھی جب ایک سازش کے تحت مشرقی پاکستان میں علیحدگی کا بیج بوکر یہاں پاکستان مخالف جذبات کو فروغ دے کر ”مکتی باہنی “ کے ذریعے علیحدگی کا بیج بویا گیا جس کے نتیجے میں 1971ءمیں پاکستان سقوط جےسے سانحہ سے دوچار ہوا جبکہ سری لنکا پر سرخ لکیر بھی ”را “ نے اسی دور میں کھینچی تھی جب بھارت نے اپنی فضائی حدود میں پاکستانی جہازوں کی پرواز پر پابندی لگادی تھی اور جہاز مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان جانے کےلئے کولمبو کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوئے اور سری لنکا نے نہ صرف پاکستانی جہازوں کو اپنی فضائی حدود کے استعمال کی اجازت دی بلکہ کولمبو میں انہیں ری فیولنگ کی سہولت بھی مہیا کی۔

بس پاکستان کے ساتھ سری لنکا کا یہ برادرانہ برتاو بھارت کو قطعاً پسند نہیں آیا اور ”را “ نے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کرنے کی سازشوں کے ساتھ ساتھ سری لنکا کے خلاف بھی سازشوں کا جال بننا شروع کردیا ۔ 1971 ءمیں پاکستان کوسقوط کے سانحہ سے دوچار کرنے کے بعد بھارتی آنجہانی وزیراعظم اندرا گاندھی نے 18مئی 1974ءکو 15کلوٹن پلوٹینم ڈیوائس کا ایٹمی دھماکہ کرکے ساری دنیا کو چونکادیا اور شدت پسند ہندووں کےلئے ”دیوی “ کا روپ اختیار کرلیا۔

اندرا گاندھی کو اپنا دیوی کا یہ روپ اس قدر بھایا کہ وہ بھارت کے سدت پسند ہندووں سے اپنی پرستش کرانے کےلئے اس جنون میں مبتلا ہوگئی کہ بھارت کے گرد موجود ممالک پر قبضہ کرکے انہیں بھارت میں شامل کرلیا جائے تاکہ عوام حقیقی معنوں میں اندرا گاندھی کی پوجا و پرستش شروع کردیں اور واقعی ایک دیوی کی طرح پوجا جانے لگے۔

اس مقصد کی تکمیل کےلئے اس مقصد کےلئے اندرا گاندھی نے ”را “ سے تعلق رکھنے والے اپنے دو خاص معتمدوں آر این کا اور پارتھا سارتھی کو سری لنکا کو کمزور کرکے بھارت میں شامل کرنے کا مشن سونپا اور وہی کھیل کھیلنے کی کوشش کی جس کی مدد سے اس نے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کیا تھا ۔

”را“ نے سری لنکا میں اپنے پہلے آپریشن کا آغاز اندرا گاندھی کے پہلے دورِ حکومت میں1976-77 ءمیں شروع کےا اور ایک خصوصی و خفیہ مشن کے تحت سری لنکا میں تامل نوجوانوں کو سری لنکا کے حکومتی نظام کے خلاف بھڑکایا اور ان میں احساس محرومی پیدا کیا جانے لگا اور ورغلائے گئے نوجوانوں کو بھارتی تربیتی کیمپوں میں پہنچایا جاتا جہاں انہیں تربیت کی فراہمی کے بعد اسلحہ دے کر سری لنکن آرمی کے خلاف گوریلا جنگ میں اُتار دیا جاتا یوں ”را “ نے آہستہ آہستہ سری لنکا میں ”تامل ٹائیگرز نامی “ علیحدگی پسند فورس کی تشکیل شروع کردی یا دوسرے لفظوں میں غداروں کے ٹولے کو جنم دینا شروع کردیا بالکل اسی طرح جس طرح بنگلہ دیش میں ”مکتی باہنی “ قائم کی گئی تھی ۔

یوں بھارتی انٹیلی جنس ”را “ نے سری لنکا کو بھی مشرقی پاکستان جیسے علیحدگی پسند جذبات و نظریات سے دوچار کرکے فوج اور باغیوں کے درمیان ایک ایسی جنگ کا آغاز کرایا جو پچیس سال جاری رہی اور ایک محتاط اندازے کے مطابق سری لنکا کے بجٹ کا 65فیصد حصہ ہرسال اس علیحدگی پسندی سے نمٹنے میں صرف ہوتا رہا اور سری لنکا کی ترقی کی رفتار منجمد ہوکر رہ گئی ۔ ان پچیس برسوں میں اس جنگ میں علیحدگی پسندوں، سری لنکن فوجی جوانوں اور عام شہریوں سمیت سات لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے اور ان ہلاک شدگان کی ہلاکتوں کی تمام تر ذمہ داری ”را “ اور بھارتی حکومت کے سر جاتی ہے جس نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی خاطر خطے میں موجود ممالک میں شدت پسندی اور دہشت گردی کو فروغ دے کر خطے کا امن برباد کررہی ہے اور انسانی جانوں کے اتلاف کے اسباب پیدا کررہی ہے مگر اقوام متحدہ سمیت دنیا کا کوئی ایسا پلیٹ فارم یا فورم نہیں ہے جہاں بھارت اور ”را “ کی اس جارحیت پر مذمت کی جائے یا بھارت اور ”را “ کو طالبان و القاعدہ کی طرح خطرناک قرار دے کر ان کے خلاف تادیبی کاروائی کی جائے ۔


سری لنکا مین علیحدگی پسندی کے نظریات کو فروغ دینے اور تخربی سرگرمیوں سمیت بغاوت پیدا کرنے کے بعد ”را “ نے 1983ءمیں سری لنکا اور بھارتی صوبے تامل ناڈو کے مختلف تامل گروپوں اور تخریب کاروں کو ملاکر ”ٹی یو ایل ایف فرنٹ “ بنادیا تاکہ سری لنکا کے خلاف ایک منظم باغی تحریک چلائے جاسکے ۔ جون 1983ءمیں تامل ناڈو کے اراکین اسمبلی نے ”را “ کی ہدایت پر سری لنکن تامل لیڈروں کی اندرا گاندھی سے ملاقات کا اہتمام کیا۔

جس کے بعد سری لنکا پر دباو ڈالنے اور تامل گوریلوں کو بھارتی سپورٹ کا ثبوت فراہم کرنے کےلئے اندرا گاندھی کے حکم پر وزارت خارجہ نے سری لنکا کے ہائی کمشنر کو بلاکر ڈانٹ ڈپٹ کی کہ سری لنکا میں بھارتی مفادات کو زک پہنچانے کےلئے تاملوں پر تشدد کی پالیسی اپنائی گئی ہے جس کا فوری خاتمہ کیا جائے ۔ یہ سری لنکا کی اندرونی معاملات مین بھارت کی جانب ے پہلا کھلا مظاہرہ تھا جس نے سری لنکا میں موجود سنہالیوں اور تاملوں کے درمیان باقاعدہ نفرت کی دیواریں کھڑی کردیں اور تامل گوریلوں نے ”را “ کی رہنمائی اور پلاننگ میں سنہالیوں اور سری لنکن آرمی پر منظم حملوں کا آغا زکردیا جس کے لئے اسلحہ و گولہ بارود سمیت، تربیت و وسائل کی فراہمی ”را “ کے ذریعے بھارتی حکومت کی جانب سے کی گئی ۔جس کے جواب میں سری لنکا کے نواحی قصبوں میں موجود کچھ سنہالیوں کو خرید کر ”را “ نے تاملوں پر جوابی حملے کی ڈبل گیم کھیلی اور تامل کی املاک و جائیداداور ٹرانسپورٹ کو سنہالیوں کے ہاتھوں تباہ کرایا اس طرح سری لنکا میں تاملوں اور سنہالیوں کے فسادا ت کا آغاز ہوگیا۔

تین روز جاری رہنے والے ان فسادات میں و خونریزی ہوئی اس کی تمام تر ذمہ داری بھارت اور اس کی انٹیلی جنس ایجنسی کے سر جاتی ہے اور یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ بھارتی ایجنسی ”را “ نے اے مزید وسعت دینی شروع کردی اس مقصد کےلئے ”را “ نے جولائی1983ءکے بعد سے تامل گوریلوں کے گروپوں کے خصوصی تعلقات تامل ناڈو کی لیڈر شپ سے کرائے گئے بھارتی ریاست تامل ناڈو میں قائم ”را “ کے تربیتی کیمپوں میں تامل گوریلوں کو تربیت فراہم کی جانے لگی جس کے باعث 1984 ءسے تربیت یافتہ تامل گروپوں نے سری لنکن فوج کے تمام کیمپوں اور نقل و حمل پر نظر رکھنی شروع کردی اور رابطے کےلئے ”را “ کی جانب سے مہیا کردہ جدید طرز کے وائرلیس سیٹس اور واکی ٹاکی کا استعمال کیا جانے لگا پھر ”را “ کی ہدایت پر تامل ٹائیگرز نے سری لنکن آرمی پر مسلح حملوں کے آغاز کے ساتھ ساتھ بارودی سرنگوں کے ذریعے فوجی کانوائے اڑانے کا کام بھی شروع کردیا جو یقینی طور پر سری لنکا کے خلاف بغاوت تھی جسے بھارت نے جنم دیا تھا ۔

”را “ کے تربیت یافتہ تامل گوریلے سری لنکن آرمی کی پٹرولنگ پارٹیوں پر گرنیڈ پھینکنے لگے اور لسانی فسادت و حالت جنگ کی سی کیفیت نے اس پرسکون جزیرے کے امن و امان کو تہہ و بالا کرنا شروع کردیا اور تامل مہاجروں کے قافلے سری لنکا سے بھارت منتقل ہونے لگے جہاں ان میں موجود نوجوانوں میں احساس کمتری کو ابھارکر ان میں بغاوت کے جراثیموں کے آبیاری کے بعد تربیت کے ذریعے مزید تامل دہشت گرد پیدا کئے جانے لگے سری لنکا سے ملحق بھارتی سرحدی علاقوں میں ”را “ تربیتی کےمپ قائم کرکے تامل شدت پسندوں کو تربیت ‘ اسلحہ اور فوجی کمک فراہم کرنی شروع کردی ۔

سری لنکا میں بڑھتی ہوئی علیحدگی پسندی اور مضبوط ہوتی ہوئی تامل ٹائیگرز کی قوت کے پےچھے موجود بھارتی جارحیت اور ”را“ کی سازشوں کے پیش نظر مارچ 1985ءمیں سری لنکن صدر جے وردھنے نے اس وقت کے بھارتی وزیراعظم آنجہانی راجیو گاندھی سے سری لنکا میں پھیلائی گئی ” دہشت گردی “ کے خاتمے کےلئے مدد طلب کی یہ وہ وقت تھا جب سری لنکن آرمی تامل باغیوں پر قابو پانے کے نزدیک تھی اور تامل علیحدگی پسندوں کی پسپائی ”را “ کی شکست کا سبب بن رہی تھی اسلئے ”را “ نے بڑی چالاکی سے چانکیائی سیاست کا مطاہرہ کرتے ہوئے 18جون 1985ءکو بھارتی حکومت کی مداخلت کے ذریعے سری لنکن آرمی اور تامل گوریلوں کے درمیان ”سیز فائر “ کرادیا۔ جس کا بنیادی مقصد تامل گوریلوں کی ازسرِ نو تنظیم سازی کےلئے وقت حاصل کرنا تھا جس میں ”را “ مکمل طور پر کامیاب رہی اور اس نے ’‘سیزفائر “ کا فائدہ اٹھاکر نہ صرف تامل گوریلوں کی ری گروپنگ کی بلکہ انہیں بھاری و جدید اسلحہ اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرکے انتہائی خطرناک بھی بنادیا۔

نتیجتاًجافنا اور بٹی کلا کے گنجان جنگلوں میں تامل گوریلوں کے ہیڈ کوارٹرز قائم ہوگے اور سری لنکا کے درودیوار ان کی وحشت انگیز کاروائیوں سے کانپنے لگے ۔ ”را “ نے انتہائی مہارت سے سری لنکن آرمی و انٹیلی جنس کے مخبروں کے بارے میں معلومات حاصل کرکے تامل باغیوں کو فراہم کرنی شروع کردی جس کی مدد سے تاملوں نے مخبروں کو چن چن کر ہلاک کیا اور سری لنکن انٹیلی جنس و آرمی تاملوں کی نقل و حرکت کی خبر رسانی سے محروم ہوگئی دوسری جانب بھارتی حکومت اور ” را “ کی جانب سے فراہم کردہ جدید مواصلاتی آلات و نظام کی اور ”را “ کی فراہم کردہ معلومات و رہنمائی کے ذریعے ایسا نظام ترتیب دیا کہ سری لنکن فوج کے ہر کانواءکی موومنٹ کی اطلاعات اس تک پہنچنے لگیں اور انہوں نے مسلح حملوں کے ذریعے سری لنکن آرمی کو جو نقصان پہنچایا اس کی نظیر نہیں ملتی ۔

حتیٰ کہ بھارتی سرمائے اور اسلحہ سے تامل ٹائیگرز اتنے مضبوط ہوگئے کہ انہوں نے جافنا میں باقاعدہ بھرتی مراکز کھول لئے جہاں بہترین مراعات و معاوضے کے عوض تامل نوجوانوں کو سری لنکن آرمی سے لڑنے کےلئے بھرتی کیا جانے لگا ۔ بھارت اور ” را “ کی سری لنکا کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی اور تامل گوریلوں کی پشت پناہی کے بیشمار ثبوت منظر عام پر آنے اور سری لنکن حکومت کی جانب سے اس معاملے پر اعترضات اٹھائے جانے کے باوجود بھی نہ تو کبھی ان اعتراضات کو درخور اعتنا سمجھا اورنہ ہی کبھی عالمی برادری نے کسی بھی فورم پر سری لنکا میں جاری بھارتی مداخلت و جارحیت کی کوئی مذمت کی ۔

سری لنکا کے ہاتھوں بھارت کی شکست
اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کےلئے بھارت نے سری لنکا میں دہشت گردی اور تخریب کاری کا جو بازار گرم کیا دنیا میں اس کی نظیر نہیں ملتی


جون 1987ءمیں بھارت نے سری لنکا پر بحری اور فضائی حملے کی تمام تیاریاں مکمل کرلیں تھیں مگر امریکہ اور مغرب کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی سری لنکن خارجہ پالیسی نے بھارت کو حملے سے باز رکھا۔

سری لنکا میں بھارتی فوج کو امن کے نام پر مسلط کرنے کےلئے بھارتی ایجنسی ” را “ نے انتہائی کامیابی سے سری لنکا کے امن کو تباہ کرکے ایسے حالات پیدا کئے کہ بھارت اپنی ڈیڑھ لاکھ فوج سری لنکا بھیجنے میں کامیاب ہوگیا۔

تامل باغیوں کے خلاف آپریشن کی آڑ میں بھارتی امن فوج نے سری لنکا کے تمام شمال مشرقی علاقوں اور دیہات پرقبضہ کرکے بھارتی عملداری قائم کردی تھی۔

دوسال تک سری لنکا کے عوام پر زبردستی مسلط رہنے والی بھارتی فوج نے اس مختصر سے عرصہ میں تامل باغیوں کی سرکوبی کی نام پردولاکھ سے زائد افراد کو ہلاک کیا جبکہ بھارت کے 1300فوجی ہلاک اور 3000 سے زائد زخمی ہوئے۔

29جولائی 1987ءکو قیام امن کے نام پر قبضے کی خواہش کے تحت سری لنکا میں بھیجی جانے والی بھارتی فوج دسمبر1989ء میں انتہائی ہزیمت و ذلت کے ساتھ سری لنکا سے واپسی پر مجبور ہوئی ۔


اس دوران ”را “ نے یو پی کے تربیتی مراکز میں تامل چھاپہ ماروں کو زمین سے فضا میں مار کرنے والے سام میزائل کے استعمال کی تربیت فراہم کی اور ایسے دس کیڈر تیار کردیئے جو اس کام میں مہارت کے حامل تھے اس کے بعد ان دس کیڈروں کو جافنا بھیج دیا گیا تاکہ وہ سری لنکن آرمی کی جانب سے تامل چھاپہ ماروں پر فضائی حملوں کی صورت میں سری لنکن طیاروں کو سام میزائلوں کی مدد سے مار گرائیں ۔

مئی 1987ءمیں انڈین ڈائریکٹر آف ملٹری آپریشن نے آرمی ہیڈ کوارٹر میں سری لنکا میں تخریب کاری کو منظم کرنے کےلئے ایک باقاعدہ سیل ائم کردیا اور جون 1987ءمیں بھارت کے ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز پی پی جوشی نے سری لنکا کی المیت کے خلاف ایک سازش تیار کی جسے ” آپریشن پون “ کا نام دیا گیا جس کے تحت لیفٹننٹ جنرل وپندر سنگھ کو سری لنکا پر حملے کےلئے حملہ آور فوج کی کمان سونپ کر 36انفنٹری ڈویژن ‘ 54انفنٹری ڈویژن ‘ 2آرمڈ بریگیڈ اور 340 انڈیپنڈنٹ انفنٹری بریگیڈ گروپ کو فرسٹ کور ہیڈ کوارٹر کی مشترکہ کمان کے تحت مدراس میں اس کی کمان قائم کردی گئی ۔

انڈین نیوی کے 5فریگیٹ ‘ لوڈنگ شپ ٹینکس ‘ 6آبدوزیں ‘ بارہ پٹرول بوٹس 12چھوٹے جہاز اور 9ہوائی جہازوں پر مشتمل ایک بحری بیڑہ تیار کیا گیا اور ایئر فورس کے 6جیگوار ‘ 6کینبرا ‘ 4لیوشن ‘76اے این آئی ‘ گیارہ 30اے این ‘بتیس 7اے ایچ 748ایم آئی اور ہیلی کاپٹروں پر مشتمل ایئر فروس کا بیڑہ الگ سے تیار کیا گیا یہ ساری کی ساری فوج سری لنکا پر حملے کی تیاری مکمل کرچکی تھی اور سری لنکا پر بھارتی ترنگا لہرانے کےلئے بیتاب تھی مگر بھارتی ارادوں کو بھانپتے ہوئے سری لنکا نے اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی اور امریکہ و مغرب سے رابطے بڑھانے شروع کردیئے جس نے بھارت کے ارادوں پر خاک پھیر دی اور ”را “ نے بھارتی وزیراعظم کو رپورٹ پیش کی کہ موجودہ حالات میں سری لنکا پر حملہ بھارت کی اپنی سالمیت کےلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے یہی وجہ تھی کہ نومبر 1987ءمیں بنگلور میں ہونے والی سارک سربراہی کانفرنس میں بھارتی وزیراعظم راجیوگاندھی نے سری لنکا کے جے وردھنے سے رابطے بڑھانے کی بھرپور کوشش کی جسے سارک سربراہوں نے بھی محسوس کیا۔

بھارتی پالیسی میں تبدیلی کی بڑی وجہ تامل گوریلوں کا بھارتی ریاست میں بڑھتا ہوا اثرو رسوخ تھا اور جنوبی بھارت کی ریاستوں میں راجیوگاندھی کی مقبولیت انتہائی تیزی سے بڑھ رہی تھی ایسے میں سری لنکا پر حملہ یا سری لنکا کی جانب سے تامل گوریلوں کے خلاف فوجی کاروائی تامل ناڈو کے بھارت سے علیحدگی کے اسباب پیدا کرسکتی تھی اسلئے ”را “ کی رپورٹ پر بھارت نے سری لنکا پر حملے کے منصوبے کو موخر کرتے ہوئے سری لنکا سے راہ و رسم بڑھانے شروع کردیئے تاکہ سری لنکن حکومت پر اخلاقی دباو کے ذریعے اس سے اپنی مرضی کے فیصلے کرائے جاسکیں ۔ یہ بھی بھارت کی منافقانہ اور چانکیائی سیاست کا ایک اہم رخ ہے کہ جب بھارتی قوت سے کسی پر قابض نہیں ہوسکتے تو اس سے دوستی کرتے ہیں اور دوستی کی آڑ میں موقع پاکر ایک روز پیٹھ میں چھرا گھونپ دیتے ہیں۔

مگر سری لنکا کے صدر جے وردھنے نے بھار ت اور ”را “ کی سیاسی چالوں کو ان پر ہی پلٹاتے ہوئے 26مئی1987ءکو آرمی ‘ نیوی اور ایئر فورس کی مدد سے ”آپریشن لبریشن “ کا آغاز کردیا اور آٹھ ہزار فوجیوں کی مدد سے جافنا کے علاقے دادا ماراشی سیکٹر میں واقع تامل ہیڈ کوارٹر پر کئے جانے والے اس فل اسکیل فوجی حملے کے حوالے سے سری لنکن صدر جے وردھنے کا کہنا تھا کہ ”جنگ کسی ایک فریق کے خاتمے تک جاری رہے گی چاہے ہم جیتیں یا ہاریں “ ۔ گوکہ اس آپریشن کے خلاف بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی نے جے وردھنے کے نام بھیجے گئے اپنے ایک پیغام میں اس فوجی آپریشن کو روکنے اور ایسا کرنے کی صورت میں سری لنکا پر حملہ کرنے کی دھمکی بھی دی تھی مگر جے وردھنے نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی حملے کی دھمکی کے ناکام ہونے کے بعد سری لنکا پر عالمی دباو بڑھانے کی غرض سے بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی نے 28مئی کو نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں سری لنکن حکومت پر کیچڑ اچھالنے کے ساتھ ساتھ باغیوں کے خلاف فوجی آپریشن کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے سری لنکا کو دھمکانے کی کوشش کی اور با لآخر بھارت کی مسلسل دھمکیوں اور تامل باغیوں کی فوجی معاونت کے ساتھ ساتھ ”را “ کی جانب سے سری لنکا میں انجام دی جانے والی تخریبی سرگرمیوں نے سری لنکن حکومت کو جافنا پر فوجی کاروائی کے خاتمے پر مجبور کردیا۔

دراصل آپریشن روکنے کی بنیادی وجہ بھارت کی وہ دھمکی تھی جس میں راجیو گاندھی نے جے وردھنے سے کہا تھا کہ اگر جافنا پر فوجی کاروائی نہ روکی گئی تو بھارت تامل ٹائیگرز کو زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل سام 6 اور 7دے دیگا ۔
یوں سری لنکا کو دھونس و دھمکیوں کے ذریعے تامل ٹائیگرز کے خلاف آپریشن سے دستبردار کرانے کے بعد بھارت نے بہت تیزی سے باغیوں کو مضبوط کرنا شروع کردیا اور بھارت کی پشت پناہی کے سبب جافنا سمیت سری لنکا کے دیگر کئی علاقوں میں تامل باغیوں نے وحشت و بربریت کی وہ داستانیں رقم کیں کہ روح چنگیزی بھی کانپ اُٹھے۔

ہزاروں افراد کو ذبح کیا گیا، خواتین کی آبرو ریزی ‘ دہشت گردی ‘ تشدد اور لاقانونیت کے ساتھ ساتھ فوجی کانوائے پر حملوں کے تسلسل نے سری لنکا کو مجبور کردیا کہ وہ بھارت کی بات مان لے یوں جولائی 1987ءمیں سری لنکا و بھارت کے درمیان ہونے والے متنازعہ امن معاہدے کا آغاز ہو ااور29جولائی 1987ءکو راجیو گاندھی نے کولمبو میں اس معاہدے پر دستخط کردیئے چونکہ معاہدے کے متن کو مکمل طور پر خفیہ رکھا گیا تھا اسلئے ہر فریق شک و بہ کا شکار تھا۔

تامل گوریلوں پر یہ بات واضح نہیں تھی کہ یہ معاہدہ ان کے حق میں ہوا ہے یا ان کے خلاف جبکہ سنہالیوں نے اس معاہدے کو سری لنکا کی سالمیت کے صریحاً خلاف قرار دیا کسی کو بھی علم نہیں تھا کہ یہ معاہدہ بھارت کی جانب سے سری لنکا کے اندرونی معاملات میں فوجی مداخلت ہے یا اس معاہدے کے ذریعے انہیں مداخلت کی دعوت دی گئی ہے۔

بہر کیف 5اگست 1987ءکو ایک تقریب میں تامل گوریلوں نے اپنے ہتھیار سری لنکن حکومت کے حوالے کردیئے اور قایم امن کے نام پر بھارت نے ایک بڑی فوج سری لنکا بھیج دی چونکہ یہ سارا ڈرامہ بھارت کا رچایا ہوا تھا جس کا مقصد سری لنکا میں اپنی فوجیں اتارنا تھا اسلئے اس مقصد کی تکمیل کےلئے بھارت اور ”را “ نے تامل باغیوں کی تنظیم ایل ٹی ٹی ای کو اعتماد میں لیا تھا مگر امن معاہدے کے بعد ایل ٹی ٹی ای اور بھارت کے درمیان اعتماد کا فقدان پیدا ہوگیا اور دونوں کے درمیان فاصلے اس قدر بڑھ گئے کہ ایل ٹی ٹی ای اور سری لنکا میں موجود بھارتی فوج کے درمیان مسلح تصادم ہوا جس کے نتیجے میں بھارتی حکومت نے سری لنکا میں موجود اپنی فوج کو حکم دیا کہ ایل ٹی ٹی ای پر کریک ڈاون کا منصوبہ بنایا جائے اور انہیں جافنا سے باہر دھکیل دیا جائے۔

بھارت نے سری لنکا میں اپنی فوجی مداخلت کا جواز پیدا کرنے اور اپنی فوجیں سری لنکا میں بھیجنے کےلئے ایل ٹی ٹی ای قائم کی اسے مضبوط و منظم کیا اور جب بھارت کو اس کا گوہر مقصود حاصل ہوگیا تو اب ایل ٹی ٹی ای اس کے لئے ایک فاضل بوجھ بن گئی جس کا صفایا ہی اس کی چانکیائی سیاست کا بہترین سے بہترین اصول قرار پاتا ہے ۔

نومبر1987ءتک بھارتی فوج سری لنکا میں اپنے قدم انتہائی مضبوطی سے جماچکی تھی اسلئے فروری 1988ءمیں فیصلہ کیا گیا کہ تامل گوریلوں کے خلاف کاروائی کو وسعت دی جائے تاکہ بھارت کی بحالی امن فوج کو سری لنکا میں پھلنے اور مزید علاقوں میں اپنے قدم جمانے کا موقع مل سکے یوں بھارتی احکامات کے تحت سری لنکا میں موجود بھارتی فوج نے شمال مسرقی سری لنکا پر اپنا تسلط قائم کرلیا گوکہ اس حوالے سے سری لنکن صدر جے وردھنے نے شمال مشرقی سری لنکا میں بھارتی فوج کے بڑھتے ہوئے تسلط پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا مگر بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی نے اس پر توجہ دینے کی بجائے مارچ 1988ءمیں سری لنکا میں مزید ایک لاکھ بھارتی فوج بھیج دی۔

دسمبر1988ءمیں ہونے والے انتخابات میں پریما داساسری لنکا کے صدر منتخب ہوئے جو بھارت کے بارے میں بہت زیادہ شکوک و شبہات رکھتے تھے اور بھارت کو بھارت ہی کے انداز سے شکست دینے کےلئے 2اپریل 1989ءکو انہوں نے تامل گوریلوں کے خلاف عارضی جنگ بندی کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ ایل ٹی ٹی ای کے رہنماوں کے ساتھ رابطے بھی استوار کئے بھارت پر جب ایل ٹی ٹی ای اور صدر پریما داسا کے درمیان خفیہ رابطوں کا انکشاف ہوا تو سری لنکا میں موجود بھارتی فوج نے ایل ٹی ٹی ای پر اپنے حملوں میں مزید شدت پیدا کردی تاکہ ایل ٹی ٹی ای اور سری لنکن حکومت کسی متفقہ نتیجے پر نہ پہنچ سکیں مگر سری لنکن حکام اور ایل ٹی ٹی ای کے درمیان ہونے والی گفت و شنید کا بنیادی نکتہ ہی یہی تھا کہ بھارتی فوج کو اب سری لنکا سے رخصت ہوجانا چاہئے۔

جس کے اتباع میں سری لنکن صدر پریما داسا نے یکم جون 1989ءکو بھارتی فوج کی واپسی کا اعلان کرکے سری لنکن عوام کو ہی نہیں بلکہ بھارت کو بھی حیران کردیا ۔ اپنے اعلان میں انہوں نے کہا کہ ”جولائی 1989ءکا مہینہ ختم ہوگا تو بھارتی امن فوج کی سری لنکا میں آمد کو دوسال پورے ہوجائیں گے۔ بھارتی حکومت سے میری درخواست ہے کہ وہ جس قدر جلد ہو جولائی کے آخر تک تمام بھارتی امن دستوں کی واپسی کے عمل کو تکمیل تک پہنچادے ۔ میں جولائی کے اوخر تک بھارتی فوج کے آخری سپاہی کو سری لنکا سے واپس جاتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں “ ۔

بھارتی امن فوج کی سری لنکا سے واپسی کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے دہلی نے نہ صرف تامل گوریلوں کے خلاف جنگ میں شدت لانے اور سری لنکا میں لسانی فسادات کی آگ کے شعلوں کو تیز کرنے کی ہدایت کردی بلکہ سری لنکا پر حملے کی منصوبہ بندی کے تحت بھارت کا نیول فلیگ شپ ” آئی این ایس ویرات “ کولمبو کے قرب و جوار میں گشت کرنے لگا ۔

سری لنکا کی صورتحال کو مکمل طور پر بھارت کے کنٹرول میں لانے کےلئے ”را “ نے سہہ جہتی پروگرام ترتیب دیاجس میں امن فوج کی واپسی کے سری لنکن حکام کے اعلان کے خلاف مظاہرے کرانا اور حکام کے خلاف بغاوت کو جنم دینا ‘ سری لنکن حکومت پر اس الزام کو ثابت کرنا کہ وہ تامل گوریلوں سے نمٹنے میں ناکام رہی ہے اور ان سے نمٹنے کی اہل نہیں اسلئے بھارتی فوج کی سری لنکا میں موجودگی ازحد ضروری ہے ۔

سری لنکا میں ایک ایسی سٹیزن والنٹری فورس کی تشکیل و تربیت کی جائے جو بھارتی نگرانی و کنٹرول کے تحت سری لنکا میں بھارتی مفادات کے لئے لڑ سکے ۔اس مقصد کےلئے جافنا صوبے کے چھ اضلاع میں سے ہر ضلع میں پانچ ہزار تامل نوجوانوں کو بھرتی فوج میں بھرتی کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ۔اسی طرح ”را “ نے تامل نیشنل آرمی کو بھی منظم کرنا شروع کردیا تاکہ مختصر سی مدت میں ایک بہترین فورس اسے حاصل ہوسکے ۔

تامل باغیوں کے خلاف بھارتی فوج کی کاروائی اور سری لنکا میں ”را “ کی سازشوں کے ساتھ ساتھ ایل ٹی ٹی ای کی اپوزیشن میں تامل نیشنل آرمی کی تنظیم سازی نے ایل ٹی ٹی ای کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ بھارت سے زیادہ سری لنکن صدر پریما داسا تاملوں کے مسئلے کو حل کرنے کےلئے سنجیدہ و دیانتدار ہیں نتیجتاً سری لنکا میں بھارت افواج کے خلاف وہ تبدیلی پیدا ہونی شروع ہوگئی جس کے باعث 18ستمبر کو کولمبو میں بھارتی ہائی کمشنر سری لنکا کے خارجہ سیکریٹری کے ہمراہ یہ اعلان کرنے پر مجبور دکھائی دیئے کہ 20ستمبر 1989ءکو بھارتی امن فوج اپنے تمام آپریشنز روک دیگی اور دسمبر1989ءتک سری لنکا سے بھارتی فوجیں واپس چلی جائیں گی ۔


یوں 1300فوجی جوان ہلاک کرانے اور 3000سے زائد فوجیوں کو زخمی کرانے کے بعد ہزیمت کے ساتھ بھارتی فوج سری لنکا سے واپس آگئی مگر جتنا عرصہ بھارتی فوج سری لنکا میں رہی اس نے قیام امن کے نام پر اپنی کاروائیوں میں پانچ لاکھ سے زائد افراد کو ہلاک کیا ۔

سری لنکا سے بھارتی فوج کا انخلا تو ہوگیا مگر جو آگ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ” را “ نے بھارت کے توسیع پسندانہ عازئم کی تکمیل کےلئے سری لنکا میں لگائی تھی اس کے نتیجے میں سری لنکا قیام امن سے محروم رہا گوکہ بھارتی فوج کی واپسی کے بعد ایل ٹی ٹی ای اور سری لنکا حکومت کے درمیان جولائی 1990ءمیں ایک ایسا معاہدہ ہوا جس سے کچھ عرصہ کےلئے سری لنکا میں امن قائم ہوگیا مگر پھر ” را “ کی سازشوں سے ایل ٹی ٹی ای اپنے معاہدے سے منحرف ہوگئی اور سری لنکا آگ و خون میں جلتا رہا۔

اس دوران بے شمار مواقع پر یہ شواہد سامنے بھی آئے کہ تامل باغیوں کو آج بھی بھارتی حکومت کی مکمل معاونت و سپورٹ حاصل ہے اور بھارتی حکومت تامل باغیوں کو تربیت کے ساتھ ساتھ اسلحہ و گولہ بارود بھی فراہم کررہی ہے مگر دنیا کے کسی بھی پلیٹ فارم پر بھارت کی اس جارحیت کی مذمت کی گئی نہ دنیا کے امن کے ٹھیکیداروں نے سری لنکا کے امن کو برباد کرنے کی بھارتی سازشوں کا کبھی کوئی نوٹس لیا ۔

سری لنکا میں بھارت کا گھناونا کردار آج بھی بھارتی عوام کےلئے سوالیہ نشان ہے ۔ بھارت ایک کثیر القومی ‘ کثیر المذہبی اور کثیرالسانی ملک ہے ‘ سیاسی اعتبار سے بھارت بھارت اُلجھا ہوا ‘ معاشی اعتبار سے کمزور اور ثقافتی طور پر گوناگوں حیثیت کا حامل ہے ۔ بھارت کی یکجہتی کانچ کی طرح نازک ہے اور اگر عالمی رجحان کے تحت قومیتوں کو حق خود اختیاری دینے پر عملدرآمد شروع ہوگیا تو بھارت ٹکڑوں میں بٹ جائے گا ۔

یہی وجہ ہے کہ اپنی سلامتی کو برقراررکھنے کےلئے بھارت اپنے پڑوسی ممالک کے خلاف ہمہ وقت سازشوں میں مصروف ہے اور اپنے ہمسایوں کو مسلسل غیر مستحکم کرنے میں لگا ہوا ہے ۔ اس سلسلے میں بھارت نے نہ صرف شمال مشرقی سری لنکا بلکہ مالدیپ ‘ نیپال ‘ چین ‘ بھوٹان ‘ بنگلہ دیش اور پاکستان میں بھی تخریبی کاروائیوں اور سازشوں کو جنم دیا ہے۔

1990ءمیں سری لنکا سے بھارتی فوجوں کی واپسی کے بعد ایل ٹی ٹی ای کو”را “ نے اس قدر امداد فراہم کی کہ ا نے سری لنکا کے شمالی شہر جافنا پر قبضہ کرلیا اور پھر1991ءمیں ”را “ اور راجیو گاندھی کے اختلافات کے باعث ”را “ نے ایل ٹی ٹی ای کو استعمال کرتے ہوئے ایک تامل خاتون کے ذریعے بھارتی وزیراعظم ”راجیو گاندھی “ کو خود کش حملے میں ہلاک کرادیا 1993ءمیں ہی ایل ٹی ٹی ای کے ایک خود کش حملے میں سری لنکا کے صدر رانا سنگھے پریما داسا کو بھی نشانہ بنایا گیا جس کے بعد نئے منتخب ہونے والے صدر چنریکا کمار تنگے نے ایل ٹی ٹی ای کے باغیوں سے جنگ بندی کا معاہدہ کیا مگر تامل ٹائیگرز نے سری لنکن بحریہ کے جنگی جہاز کو ڈبوکر تیسری تامل جنگ چھیڑ دی جس میں سری لنکن فوج نے پوری قوت سے تامل باغیوں کو کچلتے ہوئے جافنا شہر کو تاملوں کے قبضے سے آزاد کرالیا مگر جنگ کا یہ سلسلہ 2001ءتک چلتا رہا جس میں تامل باغیوں کی قوت ”را “ کی مددسے شمال مشرقی علاقوں تک پھیلتی چلی گئی ۔

2002ءمیں ناروے ثالثی کے باعث سری لنکن حکومت اور تامل باغیوں میں تاریخی جنگ بندی ہوئی مگر مہندر راج پکشے کے صدر بننے کے بعد سری لنکا ایک بار پھر 2006ءمیں چوتھی تامل جنگ سے دوچار ہوگیا اور جنیوا مذاکرات کی ناکامی کے بعد سری لنکن فوجوں نے ایل ٹی ٹی ای کے قبضے والے علاقوں پر یلغار کرکے انہیں پسپا کرنا شروع کردیا اور 2008ءکے آغاز کے ساتھ ہی تامل باغیوں کے ساتھ جاری سرکاری جنگ میں شدت آتی چلی گئی اور قیام امن کےلئے سری لنکن حکومت نے ہر خطرے سے نبردآزما ہونے کے عہد کے ساتھ ہی تامل باغیوں کا صفایا کرنا شروع کردیا۔

2 جنوری 2009ءکو سرکاری فوجوں نے ایل ٹی ٹی ای کے مرکز کلپنوچی پر قبضہ کیا تو ایل ٹی ٹی ای کا سربراہ پربھا کرن سری لنکا سے فرارہوکر بھارت آگیا جہاں اسے سرکاری مہمان کی حیثیت سے غیر ملکی صدور و وزیراعظم جیسی پذیرائی دی گئی خوب مہمان نوازی کی گئی مگر جب پربھا کرن کی غیر موجودگی کے باعث ایل ٹی ٹی ای 16اپریل کو یکطرفہ اعلان جنگ بندی کرنے پر مجبور ہوئی اور سرکاری فوجوں نے اس جنگ بندی کو ماننے سے انکار کردیا تو ”را “ نے شکست کے خوف کے پیش نظر ایک بار پھر پربھا کرن کو اس جنگ کا ایندھن بنانے کےلئے سری لنکا واپس بھیج دیا تاکہ اس کی موجودگی تامل ٹائیگرز کے حوصلے کا سبب بنے اور ایل ٹی ٹی ای مکمل شکست سے محفوظ رہے مگر 16مئی کو سری لنکا کی سرکاری فوجوں نے سمندری راستوں کا محاصرہ کرکے باغیوں کی راہ فرار کی تمام راہیں مسدود کرنے کے بعد ان کے خلاف ’‘آپریشن فائنل “ کا آغاز کیا تو باغیوں کے حوصلے پست ہوگئے اور جنوبی ایشیا میں خود کش حملوں کی موجودہ اور سری لنکا میں تین دہائیاں دہشت گردانہ و تخریب کارانہ کاروائیوں سے اپنی وحشت و بربریت کا راج قائم کرنے والی یزیدانہ تنظیم تامل ٹائیگرز 16مئی کو اپنے منطقی انجام تک پہنچ گئی۔

سری لنکن میڈیا کی رپورٹ کے مطابق سری لنکا کے شمالی ساحلوں کے جنگلات میں تنظیم کے خونخوار اور وحشی درندے پربھاکرن اپنے بیٹے بیوی اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ ایمبولینس میں فرار ہونے کی کوشش میں سری لنکن فوج کی گولہ باری میں کا نشانہ بن کر ہلاک ہوگیا ۔

یوں ایک درویش فلسفی کی یہ کہاوت سچ کے روپ میں تازیانہ عبرت بنکر صد فیصد درست ثابت ہوئی کہ دہشت گرد فرعون کی شکل میں ہو یا وہ بش کی صورت میں تہذیب یافتہ دور کا قاتل اعظم ہو یا بیت اللہ محسود کی صورت میں مذہبی فتنہ گر یہ سارے انسانیت کے دشمن اور خدا کے باغی ہوتے ہیں اور ان ساروں کی بربریت کچھ عرصہ تک اپنی دھاک تو بٹھا کر واہ واہ کے ڈونگرے حاصل کرتی ہے مگران باغیان خدا اور غداران انسانیت کا انجام ہمیشہ ذلت آمیز اور بھیانک ہوتا ہے۔

یوں چھاپہ مار جنگ میں خود کش حملوں کو بطور ہتھیاراستعمال کرنے کا آغاز کرنے والی”را “ کی پیدا کردہ دہشت گرد جماعت کا عہد ظلمت بھی ختم ہوگیا۔سری لنکا کے شمال اور مشرق میں اپنی علیحدہ ریاست ایلام کے ظہور کے لئے تامل ٹائیگرز کی یہ لڑائی جنوبی ایشیا کی طویل ترین جنگ تھی جس میں چھاپہ مار ایک طرف خود کش حملوں‘ اغوا برائے تاوان‘ قتل و غارت اور جبر و ستم کا جنگ و جدال سجائے ہوئے تھے تو دوسری طرف دہشت گرد بحری اور فضائی حملوں سے بھی معصوم انسانوں اور مخالفین کا خون بہاتے تھے۔

پربھاکرن نے15ہزار جانثاروں پر مشتمل نجی ملیشیا قائم کررکھی تھی جنہوں نے خود کش حملوں کا ظالمانہ ہتھکنڈہ ایجاد کرکے سری لنکن تاریخ کا دھارا بدل دیا۔تامل ٹائیگرز کا دعویٰ تھا کہ وہ سری لنکا میں سنہالی اکثریت کے ستائے ہوئے اقلیتی باشندوں تامل کے حقوق کی جنگ کررہے ہیں مگر آزاد زرائع حقیقت کا دوسرا رخ پیش کرتے ہیں۔

سری لنکا میں جاری تامل جنگ کا اگر بغور مشاہدہ کےا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ تامل قبیلہ جنوبی ہندوستان میں آباد تھا جنہیں نوآبادیاتی دور میں بھارت سے چائے کی کاشت کے لئے سری لنکا بھیجا گیا تھا۔تامل سری لنکا کی معیشت پر چھائے تھے اور سنہالی اکثریت تامل ساہوکاروں کی معاشی بیڑیوں میں جکڑی ہوئی تھی۔1948 میں سری لنکا کو آزادی ملی تو سنہالی اکثریت اقتدار میں آگئی جو تاملوں کو ٹھنڈے پیٹوں ہضم نہ ہوسکی۔

طرفین کے درمیان مذہبی فرقہ واریت بھی وجہ تصادم تھی۔سنہالی بدھ مت جبکہ تامل ہندو مت کے پجاری تھے۔سری لنکن فوج اور تامل ٹائیگرز کے درمیان خونی کشا کش کا آغاز1984 میں ہوا جب بھارت کی ایماء و مدد سے پربھاکرن نے جافنا اور اسکے گرد و نواح میں تاملوں کی نمائندگی کرنے والے تمام گروہوں کو اپنی سالاری میں متحد کیا اور پھر سری لنکن فوج کو جافنا سے مار بھگایا۔ پربھاکرن نے اپنی فوج میں بچوں و عورتوں کو بھرتی کیا جن کے گلے میں ایک زہریلے مواد سائنائیڈ کی گولی لٹکی ہوتی تھی جو گرفتاری کے خدشے سے بچنے کے لئے منہ میں ڈال کر اپنی جان ختم کرلینے کے لئے استعمال ہوتی تھیں۔

تامل ٹائیگرز نے سری لنکن فوج پر پہلا خود کش حملہ1987 ءمیں کیا جس میں چار درجن فوجی اگلے جہان کو سدھار گئے۔ بھارتی حکومت نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل اور سری لنکا پر قبضے کےلئے پربھا کرن کے سر پر دست شفقت رکھ کر نہ صرف اس کی بھرپور مالی معاونت کی بلکہ تامل ٹائیگرز کو فوجی تربیت اور اسلحہ سمیت فضا سے زمین پر مار کرنے والے میزائل اور جدید کمیونیکیشن سسٹم کی فراہمی کے ذریعے انہیں ناقابل شکست بناکر سری لنکا میں دہشت و بربریت کا بازار گرم کرکے قیام امن کے نام پر وہاں اپنی فوج تعینات کرنے میں کامیابی بھی حاصل کرلی مگر پھر تامل ٹائیگرز نے طاقت کے زعم میں بھارت کو بھی آنکھیں دکھانی شروع کردیں جس کے نتیجے میں بھارتی فوج اور تامل ٹائیگرز کے درمیان رنجش کا بازار گرم ہوگیا جسکا بھیانک نتیجہ1991 میں راجیو گاندھی کی موت کی شکل میں سامنے آیا۔ راجیو کو ایک تامل خود کش حملہ آور خاتون نے ہلاک کردیا اور پھر خود کش حملوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوگیا جس میں سری لنکا کے کئی اعلیٰ حکومتی عہدیدار موت کی وادیوں میں اتار دئیے گئے۔سری لنکن صدر پریماداسا بھی اٍسی وحشیانہ جبلت کا شکار ہوئے۔2001 ءجولائی میں تامل ٹائیگرز نے کولمبو کے ہوائی اڈے پر خود کش حملوں کی ایسی سیریز منعقد کی جس کی خونی باولنگ نے درجنوں انسانوں کو فنا کے گھاٹ اتار دیا۔اس سیریز میں26 جہاز بھی آگ و خون میں کلین بولڈ ہوئے۔

نائن الیون کے بعد دنیا کا نقشہ ہی تبدیل ہوگیا۔پربھاکرن بھی حکمت عملی تبدیل کرنے پر مجبور ہوگیا اور مذاکرات پر آمادہ ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ پربھاکرن نے اس صدارتی الیکشن میں بائیکاٹ کرکے سیاسی غلطی کی جس میں راجہ پکشے کے مقابلے میں وکرما سنگھے تھے جنہوں نے تامل ٹائیگرز کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا۔

پربھاکرن وکرما سنگھے کی حمایت کرکے اسے جتوا سکتے تھے مگر بائیکاٹ کی وجہ سے وکرما سنگھے کی جیت کا ستارہ شکست کے بلیک ہول میں غرق ہوگیا۔

راجہ پکشے نے تامل ٹائیگرز کا قلع قمع کرنے کا منشور پیش کیا تھا جسے عوامی پذیرائی نصیب ہوئی۔اگست2005 میں سری لنکن وزیرخارجہ لکشمن کدیر گمار تامل ٹائیگرز کی سفاکیت کی غذا بنے تو یورپی یونین کے32 ملکوں سمیت عالمی برادری نے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ”را “ کی پیدا کردہ اس جماعت تامل ٹائیگرز کو دہشت گرد ٹولہ قرار دیا۔

سری لنکن فوج کے سربراہ جنرل سارتھ فونسا پر قاتلانہ حملہ ہوا تو راجہ پکشے اور سری لنکن فوج کا پارہ چڑھ گیا اور انہوں نے عالمی برادری سے مدد طلب کی۔ہندوستان کی تامل آبادی کسی دور میں پربھاکرن کی حمایتی تھی مگر راجیو گاندھی کے قتل کے بعد یہ صورتحال بدل گئی تھی۔یوں تامل ٹائیگرز کو بھارتی سائیڈ سے کوئی حمایت نہ ملی۔سری لنکن فوج نے فائنل معرکہ کےلئے جنگی قوت میں اضافہ کیا۔جدید بحری جہاز گن شپ ہیلی کاپٹرز اور جدید فوجی آلات کی خریداری پر177ارب خرچ کئے گئے۔ فوج نے پہلی کامیاب کاروائی میں تامل ٹائیگرز کے انتظامی ہیڈ کوارٹر کیلی نوچی کو تباہ کرکے علاقے کو اپنے کنٹرول میں کیا اور پھر بحریہ نے تامل بحریہ کے جہازوں کو تباہ کیا۔سری لنکن فوج ایک مشن کے تحت آگے بڑھتی رہی جبکہ پربھاکرن شمال کی چھوٹی ساحلی پٹی تک محدود ہوگیا اور پھر سری لنکن فوج کے فائنل معرکے میں وہ اہل و عیال سمیت ہلاک ہوگیایوں سری لنکا میں بھارتی دہشت گردی کے ایک مستحکم کردار کا خاتمہ ہوگیا مگر اپنی تمام تر سازشوں کے باوجود بھارت سری لنکا کو پاکستان کی طرح سقوط کے سانحہ سے دوچار کرنے میں ناکام رہا۔

اس کی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ ایک ایسے موقع پر جب سری لنکا میں تامل باغیوں کے خلاف سری لنکن آرمی پوری قوت سے مصروف تھی تو بھارت اور اس کی انٹیلی جنس ایجنسی کی توجہ تامل باغیوں سے ہٹ کر پاکستان میں موجود طالبان کی جانب مبذول ہوچکی تھی اور وہ پاکستان کو ایک بار پھر سقوط کے سانحہ سے دوچار کرنے کےلئے پاکستان کے پختون علاقوں میں وہی کھیل کھیل رہا تھا جو اس نے سری لنکا کے تامل علاقوں میں شروع کےا تھا اور پاک افغان سرحد کے ساتھ موجود 26بھارتی سفارتخانے ان طالبان کی اسی طرح تربیت و مدد کررہے تھے جس طرح تامل ناڈو میں تامل گوریلوں کی کی گئی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان بھی بھارت اور ”را “ کی سازشوں کے طفیل اپنے ہی ہم وطنوں سے جنگی معرکے کا شکار ہوچکا ہے اور طالبان و ان کے ہمنواوں نے بھارتی ایماء پر غیر ملکی اسلحہ ‘ تربیت اور پیسے کے بل بوتے پر سوات۔لوئر دیر اور مالا کنڈ میں اپنی خود ساختہ شریعت نافذ کرنے کے چکر میں سینکڑوں سیکیورٹی اہلکاروں اور معصوم انسانوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بنا یا ہے جبکہ یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ جس طرح بنگلہ دیش میں مکتی باہنی اور سری لنکامیں ایل ٹی ٹی ای (تامل تائیگرز ) کی پشت پر بھارت موجود تھا اسی طرح پاکستانی طالبان کو بھی بھارتی امداد حاصل ہے جو افغانستان میں پاکستان کی سرحد کے ساتھ قائم 26 بھارتی سفارتخانوں کے ذریعے کچھ پاکستانی غداروں کی مدد سے پاکستان میں موجود طالبان تک باقاعدگی سے پہنچ رہی ہے کیونکہ بھارت پاکستان کو ایک بار پھر دولخت کرنے کےلئے اب کی بار مشرق سے نہیں بلکہ شمال سے حملہ آور ہوا ہے۔

اس بار اس کا شکار بنگالی اور مشرقی پاکستان نہیں بلکہ پختون اور سرحد کے بیشتر علاقے ہیں اس حوالے سے جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ کا کہنا ہے کہ بھارت سرحد میں پختون مکتی باہنی تیار کررہا ہے ۔ جس کی وجہ سے مسلح افواج کو پاکستان کی سلامتی کی خاطر ان طالبان کے خلاف آپریشن کرنا پڑا گوکہ اس آپریشن میں حکومت اور مسلح افواج کو قوم کی بھرپور حمایت حاصل ہے مگر اس کے باوجود کچھ بھارتی واسرائیلی وظیفہ خوار سیاستدان اس آپریشن کی بھرپور مخالفت کرکے اسے سنگین غلطی قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں ایسے عاقبت نا اندیشوں کو سری لنکا کے حالات کا تجزیہ کرنا چاہئے کہ ایسے ہی عسکریت پسندوں نے 25سال تک سری لنکا کو کس طرح جہنم بنائے رکھا تھا اور اگر سری لنکن حکومت ان کا صفایا کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی تو وہ پورے سری لنکا میں پھیل کر نہ صرف سری لنکا کی عوام کو انسانی حقوق سے محروم کردیتے بلکہ پھر ان کے قدم کہیں رکتے نہیں اور وہ سری لنکا سے نکل کر مزید آگے کی جانب پیشرفت بھی یقینی طور پر کرتے ۔

سری لنکا میں جاری تامل جنگ اور پاکستان میں جاری طالبانائزیشن کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو پربھاکرن اور صوفی محمدکے کردار اور عسکریت پسندوں و تامل ٹائیگرز کے درمیان بڑی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں نے اپنے مقاصد کے لئے اپنے مسالک کے دین کو ڈھال بنایا۔ دونوں اپنی افواج اور قوم کے لئے وبال جان ثابت ہوئے۔ خود کش حملے دونوں کے نزدیک قابل اعجاز ہیں۔ کیا انسانیت کو صدموں سے دوچار ہونے والوں کو انسان کہنا درست ہوگا؟تامل ٹائیگرز کی کاروائیوں سے لاکھوں لوگ لقمہ اجل بنے۔ طالبان کی درفطنیوں سے بیس لاکھ پاکستانی اپنے ملک میں دربدر ہوگئے۔دونوں نے انسانیت کو ایذارسانی پہنچائی۔

دوسری جانب پربھاکرن نے جو غلطی صدارتی الیکشن کے بائیکاٹ کی شکل میں کی تھی وہی مولانا صوفی محمد اور ان کے پیروکاروں نے نظام عدل سے انحراف کرکے کی۔سری لنکن فوج کی طرح پاک فوج بھی کامیابی سے ہمکنار ہوگی۔یوں مولانا صوفی محمد اور نام نہاد شریعت محمدی کے مسلح لشکر کو تامل ٹائیگرز و پربھاکرن کے انجام سے سبق سیکھ کر ہتھیار ڈال دینے چاہئیں ورنہ انہیں بھی بہت جلد پربھاکرن کے انجام سے دوچار ہونے پڑے گا۔دونوں نے جہالت ‘ضد و انا سے کام لیا۔پربھاکرن اور مولانا صوفی محمد مولانا فضل اللہ ایسی خونی سوچ اور متعصب رویوں کے حامیوں کے لئے حضرت قطب الدین کا یہ قول فکر آموز ہے۔آپ نے کہا تھا انسانی جبلت میں دانائی کی نسبت جہالت زیادہ بھری ہوئی ہے اسے دور کرکے انسانیت کا درجہ حاصل کرنا چاہئے ۔

No comments:

Post a Comment