Thursday, June 4, 2009

مشعل راہ: صدام حسین کی موت.....مسلمانوں کیلئے لمحہ فکریہ


تحریر: محمد فیصل

لندن، رات چار بجکر پچیس منٹ پر میرے موبائیل فون کی گھنٹی بجی۔ قاہرہ سے موصول ہونیوالی اس کال میں مجھے بتایا گیا کہ اب سے چند منٹ قبل عراق کے معزول صدر صدام حسین کو پھانسی دے دی گئی۔ یہ خبر میرے لئے کسی حیرانی کا باعث نہیں تھی کیونکہ میں جانتا تھا کہ موت تو بحرحال صدام حسین کا مقدر تھی لیک امریکہ بہادر صدام حسین کو راستے سے ہٹانے کیلئے کسی خاص موقع کا انتظار کر رہا تھا۔ ایک ایسا موقع جس سے اسکے چند دیگر اہداف بھی مکمل ہو سکیں۔ بڑی طاقتوں اور انکے خفیہ اداروں کا ہمیشہ سے یہ طرّہ امتہاز رہا ہے کہ وہ ایک تیر سے کئی شکار کرتے ہیں۔ تاکہ اگر ایک ہدف پورا نہ ہو تو دوسرا ہو سکے۔ایسا ہی کچھ کام بش انتظامیہ نے بھی کیا۔ جیسا کہ میں کئی بین الاقوامی فورموں میں واضح کر چکا ہوں کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ یا عراق پر حملہ مسلمانوں کے وسائل پر قبضہ کرنے اور انھیں کمزور کرنے کی عالمی سازش ہے۔

کیونکہ صدام حسین کا القاعدہ نامی تنظیم کا کوئی تعلق ثابت نہیں ہو سکا اور نہ ہی وہاں سے ایٹمی ہتھیار یا کیمیکل ہتھیار بنانے کا کوئی پلانٹ ملا، جس کا خود امریکہ کو اعتراف کرنا پڑا۔امریکی حکّام نے جب یہ محسوس کر لیا کہ عراقی صدر صدام حسین امریکی اطاعت میں ایک مقررہ حد سے بڑھنے کیلئے تیار نہیں (ایسی اطاعت جس سے عراقی وسائل امریکی قبضہ میں آ جائیں) تو انھوں نے عراقی صدر کے پر کاٹنے شروع کر دیے۔ جس کے نتیجہ میں عراق پر سیاسی اور عالمی دباؤ کی مد میں اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں گئیں۔ اسوقت امریکہ کا خیال تھا کہ اس دباؤ کے آگے صدام حسین گھٹنے ٹیک دیں گے۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا کیونکہ صدام حسین ماضی میں امریکہ کے قریبی آلہ کار رہ چکے تھے اور جس طریقہ سے انھوں نے 1979ء میں امریکہ کیلئے خدمات انجام دی تھیں، امریکی طریقہ واردات کو بخوبی سمجھنے لگے تھے۔ لہٰذا انھوں نے امریکہ کے آگےگھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا۔ یہی وہ وقت تھا جب امریکہ نے طاقت کے ذریعے عراق پر جنگ مسّلط کر کے مسلمانوں کے وسائل پر عملی طاقت کے مظاہرہ کے ذریعے قبضہ کا فیصلہ کیا۔ اس حوالہ سے صدام پرنہ صرف القاعدہ سے براہ راست تعلق اور دہشت گردی کے دیگر الزامات لگائے گئے بلکہ خطرناک بیالوجیکل ہتھیاروں کی تیّاری اور کثیر تعداد میں موجودگی کا بھی ڈھونگ رچایا گیا۔

اس حوالہ سے عالمی برادری کے سامنے شواہد بھی لائے گئے جن میں ہتھیاروں کی نقل و حمل کے ثبوت بھی پیش کیے گئے اور یہ تمام کام اسلئے کیے گئے کہ عراق پر امریکی حملہ کی راہ ہموار ہو سکے۔ کیونکہ امریکہ کا خیال تھا کہ عراق پر گرفت کے بعد وہ وہاں اپنا مرکز بنانے میں کامیاب ہوجائیگا جس سے دو فوائد ہونگے۔ پہلا یہ کہ عراقی تیل کی دولت خود بخود امریکہ کے قبضہ میں آ جائیگی اور دوسرا مشرقِ وسطٰی میں بحالی جمہوریت کے بہانے امریکی اثر و رسوخ بڑھایا جائیگا۔ لیکن یہ بش انتظامیہ کی سب سے بڑی نااہلی تھی کہ اس نے افغانستان پر بغیر کسی نتیجہ سے پہلے ہی اور عراق کی جغرافیائی صورتحال کو سمجھے بغیر ہی عراق پر چڑھائی کردی عراق میں موجود صدام مخالف وہ قوتیں جو امریکہ کو اپنی حمایت کا یقین دلایا کرتی تھیں، صدام حکومت کے خاتمے کے بعد ہی اپنی آزادی کیلئے دوسری طاقتوں کی جانب جھک گئیں اور وہ عراق جو ایک مملکت نظر آتا تھا اب تین حصّوں میں بٹتا نظر آرہا ہے۔ تقسیم کے لحاظ سے یہ کیفیت تو امریکہ کیلئے بہترین تھی لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ کوئی فریق بھی عراق میں امریکہ کو ?اپّر ہینڈ(Upper Hand)? دینے پر راضی نہ ہوا۔ گزشتہ سال اس حوالے سے میری کرد، سنّی اور چند شیعہ رہنماؤں سے گفتگو ہوئی۔ باوجود باہمی اختلاف وہ سب ایک بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ امریکہ کو یہاں سے رخصت ہونا ہوگا۔

یہ ایک ایسا مسئلہ بن گیا تو امریکہ کیلئے شدید تکلیف دِہ تھا۔ اس سے بچنے کیلئے امریکہ نے کیا حکمت عملی اختیار کی میں اس بحث میں پڑے بغیر واپس صدام حسین کی طرف آؤں گا کہ امریکہ صرف صدام حکومت کا خاتمہ نہیں چاہتا تھا وگرنہ دنیا میں کئی ایسے ممالک ہیں جو عراق سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں مگر وہاں کی حکومتیں امریکی اشارے کی منتظر اور محتاج ہیں۔ جس وقت صدام کے بیٹوں کو مارا گیا، اسی وقت صدام حسین کو بھی مارنا آسان تھا تاہم اسطرح ان قوتوں کے ایک زیادہ عزائم کی تکمیل نہ ہوتی جو مسلمانوں کو اس دنیا کی کمزور اور اطاعت گزار قوم بنانا چاہتے ہیں۔ عراق، افغانستان اور لبنان میں ہونیوالے حالیہ جانی و مالی نقصانات نے ایک بات مسلم دشمن قوتوں پر واضح کردی کہ مسلمانوں سے براہِ راست مخاصمت بہتر نہیں لہٰذا ایک بار پھر استعماری قوتوں نے ?لڑاؤ اور حکومت کرو? کے آزمودہ نخسہ سے کام لیا۔ ایک مخصوص عرصہ تک صدام حسین کو نمائشی مقدمہ میں الجھاکر عراق میں فرقہ وارانہ تشدد اور نفرت کو ہوا دی گئی اور جب یہ نفرت حد سے بڑھ گئی اور مسلماناِ عراق تین واضح فرقوں میں بٹ گئے تو اسے عراق سے نکال کر پورے مشرقِ وسطیٰ میں پھیلانے کا منصوبہ بنایا گیا کیونکہ یہ ہوا ہی ایک طریقہ کار تھا جس کے ذریعے پورے عالمِ اسلام کو دو حصوں یعنی سنّی اور شیعہ میں تقسیم کر دیا جائے لہٰذا ایک مذموم مقاصدکے تحت صدام حسین کو ایسے شرمناک طریقہ سے پھانسی دی گئی جس نے نہ صرف عراق کے سنّی مسلمانوں کو مشتعل کیا بلکہ دیگر ممالک کے سنّی افراد نے بھی اس پر شدید احتجاج کیا۔

اس دوران ایرانی قیادت نے ایک سیاسی غلطی یہ کردی کہ صدام حسین کی پھانسی پر سیاسی ردّ عمل دیتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا، جس نے ایران کو سنّی عرب اور عجم دونوں سے دور کردیا۔ اسی وقت کا امریکہ کو انتظار تھاکہ ایران کو کسی طرح تنہا کردیا جائے تاکہ اس کے ساتھ معرکہ آرائی کرنے کا موقعہ مل سکے۔ صدام حسین تو بالآخر اپنے انجام کو پہنچ گئے لیکن اپنے سفرِآخرت کے کچھ ایسے اثرات چھوڑ گئے ہیں جس سے مشرقِ وسطیٰ کے علاوہ جنوب ایشیا بھی متاثر ہوسکتا ہے۔ ان کی پھانسی کیلئے جس دن کا انتخاب کیا گیا وہ بھی مسلمانوں کیلئے سب سے بڑے تہوار کا دن تھا اور یہ محض اتفاق نہیں بلکہ سو ارب سے زائد مسلمانوں کیلئے واضح پیغام تھا کہ تمھارے مقدّس ایّام یا خوشیاں ہمارے فیصلوں کے آگے کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ یہ نوشتہ دیوار ہے عالم اسلام کیلئے۔
مسلمانوں کے درمیان فروعی بنیادوں پر جو فضاء تیار کی گئی ہے اس سے عراق کے تقسیم ہونے کی ابتداء اور ایشیاء میں تقسیم کی راہ ہموار ہونے لگی ہے۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ عراق کے بعد پاکستان اور افغآنستان کے ٹکڑے کیے جائیں جس کے بارے میں میں نے 1997ء میں ہی بتا دیا تھا۔

گریٹر بلوچستان کا قیام اسی تقسیم کا حصہ ہے جو کہ ایران پر حملہ کے بعد عمل میں لایا جا سکتا ہے۔ جس کے تحت ایران اور پاکستان کے چند علاقوں پر ایک آزاد بلوچ اکثریت ریاست بنائی جاسکتی ہے۔ اس سے امریکہ کی نہ صرف وسطِ ایشیا کی ان ریاستوں تک رسائی با آسانی ہوسکتی ہے جہاں گیس کے ذخائر ہیں بلکہ ایران پاکستان اور افغانستان سمیت پورے آبنائے ہرمز پر گرفت ہو سکتی ہے۔ اس تناظر میں مسلم دنیا پر یہ ذمّہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فوری طور پر تمام فروعی اختلافات کو بھلا کر متفق ہو جائیں اور اس طرح کی حکمتِ عملی اختیار کریں کہ ایران کی سلامتی کو پاکستان کی بقاء اور پاکستان کی بقاء کو عرب کی سلامتی تصور کیا جائے۔ اس حکمتِ عملی کو عملی جامہ پہنانے کیلئے روس اور چین سے مدد لی جاسکتی ہے۔ ورنہ آئندہ چند سالوں میں ہونیوالی جغرافیائی تبدیلیوں سے مسلمانوں کو ناقابلِ تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔ (واللہِ العالم باالصّواب)‌

بشکریہ: یو،این،این ۔انڈیا


No comments:

Post a Comment