Thursday, June 4, 2009

اسرائیل: ایک تاریخی جائزہ


پس منظر
آسٹروی یہودی تھیوڈور ہرستل یا تیفادار ہرستل سیاسی صیہونیت کا بانی ہے ۔ وہ بڈاپسٹ میں پیدا ہوا اور ویانا میں تعلیم پائی۔ اس کا اصلی نام بن یامین بتایا جاتا ہے ۔ اس نے جرمن زبان میں ایک کتاب � ڈر جوڈن شٹاٹ� یعنی یہودی ریاست لکھی جس کا انگریزی ترجمہ اپریل 1896 میں ہوا۔ اس ریاست کے قیام کے لئے ارجنٹائن یا مشرق وسطی کا علاقہ تجویز کیا گیا تھا۔ برطانوی حکومت نے ارجنٹائن میں یہودی ریاست قائم کرنے کی سخت مخالفت کی اور اسے فلسطین میں قائم کرنے پر زور دیا۔ لارڈ بیلفور نے 1905ء میں جب وہ برطانیہ کا وزیرِ اعظم بنا تو برطانیہ میں یہودیوں کا داخلہ روکنے کے لئے ایک قانون منظور کرایا اور اُس کے بعد برطانیہ نے مندرجہ ذیل ڈکلیئریشن منظور کی۔

ترجمہ: حکومتِ برطانیہ اِس کی حمائت کرتی ہے کہ فلسطین میں یہودیوں کا وطن بنایا جائے۔

اس کے بعد باسل، سوئٹزرلینڈ میں صیہونی کانگریس کا اِجلاس ہوا جس میں فلسطین میں خالص صیہونی ریاست بنانے کی منظوری دی گئی اور ساتھ ہی بین الاقوامی صیہونی تنظیم بنائی گئی تاکہ وہ صیہونی ریاست کا قیام یقینی بنائے۔ اس ریاست کا جو نقشہ بنایا گیا اس میں دریائے نیل سے لے کر دریائے فرات تک کا سارا علاقہ شامل دِکھایا گیا یعنی مصر کا دریائے نیل سے مشرق کا علاقہ بشمول پورٹ سعید ۔ مکمل فلسطین ۔ اردن اور لبنان، شام اور عراق کا دو تہائی علاقہ اور سعودی عرب کا ایک چوتھائی علاقہ۔
فلسطین میں یہودی ریاست بنانے کے لئے وہاں بڑی تعداد میں یہودی داخل کرنا مندرجہ بالا پروگرام کا اہم حصہ تھا اور اس کے لئے مسلمانوں کو فلسطین سے باہر دھکیلنا بھی ضروری قرار پایا ۔ 1895ء میں تھیوڈور ہرستل نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا:

ترجمہ: ہم فلسطین کے غریب عوام کو فلسطین سے باہر ملازمت دِلانے کا چکمہ دینے کی کوشش کریں گے اور ساتھ ہی اُن کو فلسطین میں ملازمت نہیں کرنے دیں گے۔

باقی صیہونیوں نے راست اقدام کا منصوبہ بناتے ہوئے مندرجہ ذیل فیصلہ کیا:

ترجمہ: جونہی ہماری تعداد فلسطین میں زیادہ ہو گی ہم زمینوں پر قبضہ کر لیں گے ۔ ہم طاقتور ہو جائیں گے پھر ہم دریائے اُردن کے بائیں طرف کے علاقہ کی خبر لیں گے اور فلسطینیوں کو وہاں سے بھی نکال دیں گے ۔ وہ جائیں عرب مُلکوں کو۔

نظریہ یہ تھا کہ جب اس طرخ کافی یہودی آباد ہو جائیں گے تو اس وقت برطانیہ فلسطین میں حکومت یہودیوں کے حوالے کر دے گا ۔ مگر ہوا یہ کہ شروع‏ میں کچھ فلسطینی عربوں نے اپنی زمین یہودیوں کے ہاتھ فروخت کی مگر باقی لوگوں نے ایسا نہ کیا جس کے نتیجہ میں باون سال گذرنے کے بعد 1948ء میں فلسطین کی صرف 6 فیصد زمین یہودیوں کی ملکیت تھی ۔ یہودیوں نے 1886ء سے ہی یورپ سے نقل مکانی کر کے فلسطین پہنچنا شروع کر دیا تھا جس سے 1897ء میں فلسطین میں یہودیوں کی تعداد دو ہزار سے تجاوز کر گئی تھی ۔ اُس وقت فلسطین میں مسلمان عربوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد تھی۔ 1903ء تک یورپ اور روس سے ہزاروں یہودی فلسطین پہنچ گئے اور ان کی تعداد 25000 کے لگ بھگ ہوگئی ۔ 1914 تک مزید چالیس ہزار کے قریب یہودی یورپ اور روس سے فلسطین پہنچے ۔


خفیہ معاہدہ
لارڈ بیلفور نے 1905ء میں جب وہ برطانیہ کا وزیرِ اعظم تھا تو اِس خیال سے کہ کہیں روس میں قتلِ عام کی وجہ سے یہودی برطانیہ کا رُخ نہ کر لیں ۔ برطانیہ میں یہودیوں کا داخلہ روکنے کے لئے ایک قانون منظور کرایا اور پھر کمال عیّاری سے متذکّرہ بالا ڈیکلیریشن منظور کرائی ۔ مصر میں برطانیہ کے ہائی کمشنر ہنری میک موہن نے 1916ء میں وعدہ کیا کہ عربوں کے وہ علاقے جو سلطنت عثمانیہ میں شامل تھے آزاد کردیئے جائیں گے مگر برطانیہ نے عیّاری برتتے ہوۓ ایک خفیہ معاہدہ "سائیکس پِیکاٹ" کیا جس کی رو سے برطانیہ اور فرانس نے عربوں کے علاقہ کو اپنے مشترکہ اِنتظام کے تحت تقسیم کر لیا

چنانچہ مصر سے بدعہدی کرتے ہوۓ انگریزوں نے پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر 1918ء میں فلسطین پر قبضہ کر لیا ۔ جمعیت الاقوام (لیگ آف نیشنز) نے 25 اپریل 1920 کو فلسطین پر انگریزوں کے قبضہ کو جائز قرار دے دیا ۔ برطانیہ نے مزید عیّاری یہ کی کہ 1917ء میں برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھر بیلفور نے برطانیہ کی طرف سے لارڈ راتھ شِلڈ نامی صیہونی لیڈر کو ایک خط لکھا جس میں فلسطین میں یہودی ریاست بنانے کی یقین دہانی کرائی


يہوديوں کی نقل مکانی
یورپ سے مزید یہودی آنے کے باعث 1918ء میں فلسطین ميں ان کی تعداد 67000 کے قریب تھی ۔ برطانوی مردم شماری کے مطابق (جو کہ عربوں کے حق میں نہیں ہو سکتی تھی) 1922ء میں یہودیوں کی تعداد 11 فیصد تک پہنچ گئی تھی ۔ یعنی 667500 مسلمان تھے اور 82500 یہودی تھے ۔ 1930ء تک برطانوی سرپرستی میں مزید 300000 سے زائد یہودی یورپ اور روس سے فلسطین پہنچائے گئے جس سے عربوں میں بے چینی پیدا ہوئی ۔ اگست 1929 میں یہودیوں اور فلسطینی مسلمانوں میں جھڑپیں ہوئیں جن میں سوا سو کے قریب فلسطینی اور تقریبا اتنے ہی یہودی مارے گئے ان جھڑپوں کی اِبتداء صیہونیوں نے کی تھی لیکن برطانوی پولیس نے صیہونیوں کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا ۔ برطانیہ کے رائل کمشن جس کا سربراہ لارڈ پیل تھا نے 1937ء میں تجویز دی کہ فلسطین کو تقسیم کر کے تیسرا جصہ یہودیوں کو دے دیا جاۓ جبکہ اس وقت فلسطین میں یہودیوں کی اِ ملاک نہ ہونے کے برابر تھی ۔ فلسطینی اس کے خلاف دو سال تک احتجاج کرتے رہے ۔ وہ چاہتے تھے کہ تقسیم نہ کی جائے اور صرف اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے ۔ اس پر برطانیہ سے مزید فوج منگوا کر فلسطینیوں کے احتجاج کو سختی سے کچل دیا گیا ۔ 1939ء میں دوسری جنگ عظیم شروع ہو گئی اور فلسطین کا معاملہ پسِ منظر چلا گیا مگر صیہونیوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ یورپ سے فلسطین کی طرف نقل مکانی جاری رکھی۔


بندر بانٹ
فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کا مقصد ایک صیہونی اڈا بنانا تھا جو وہاں سے فلسطینیوں کے انخلاء اور ان کی جائیدادوں پر قبضے کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا تھا ۔ چنانچہ جوں جوں یورپ سے یہودی آتے گئے توں توں فلسطینیوں کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا جاتا رہا ۔ برطانیہ نے دوسری جنگ عظیم سے ہوش سنبھلنے کے بعد 1947ء میں فلسطین کا معاملہ اقوام متحدہ کے حوالے کر دیا ۔ اس وقت تک فلسطین میں یہودیوں کی تعداد ایک تہائی ہو چکی تھی لیکن وہ فلسطین کی صرف 6 فیصد زمین کے مالک تھے ۔ اقوام متحدہ نے ایک کمیٹی بنائی جس نے سفارش کی کہ فلسطین کےساڑھے 56 فیصد علاقہ پر صرف 6 فیصد کے مالک یہودیوں کی ریاست اسرائیل بنا دی جائے اور ساڑھے 43 فیصد علاقہ میں سے بیت المقدس کو بین الاقوامی بنا کر باقی تقریبا 40 فیصد فلسطین کو 94 فیصد فلسطین کے مالک مسلمانوں کے پاس رہنے دیا جائے ۔ 29 نومبر 1947 کو جنرل اسمبلی نے 13 کے مقابلہ میں 33 ووٹوں سے اس کی منظوری دے دی۔ 10 ممبر غیر حاضر رہے ۔ فلسطینیوں نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا اور صیہونیوں نے فلسطینی مسلمانوں پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیئے ۔


صیہونی دہشت گردی
صيہونيوں نے بیت المقدس میں کنگ ڈیوڈ ہوٹل اڑا دیا جس میں 91 آدمی مارے گئے اور بہت سے زخمی ہوئے ۔ ان میں برطانوی فوجی ۔ فلسطینی مسلمان ۔ عیسائی اور چند یہودی شامل تھے ۔ یہ دنیا میں پہلی بارودی دہشت گردی تھی ۔ برطانوی حکومت پہلے ہی مزید یہودیوں کو فلسطین میں بسانے کے امریکی دباؤ سے پریشان تھی برطانوی فوجیوں کی ہلاکت کی وجہ سے برطانیہ کے اندر حکومت پر فلسطین سے فوجیں نکالنے کا دباؤ پڑنے لگا ۔ چنانچہ برطانیہ نے اعلان کر دیا کہ وہ فلسطین میں اپنی حکومت 15 مئی 1948 کو ختم کر دے گا ۔ صیہونیوں نے جن کے لیڈر معروف دہشت گرد تھے فلسطینیوں پر حملے اور ان کا قتل تو پہلے ہی شروع کر دیا تھا لیکن 1948ء میں اچانک فلسطین کے مسلمانوں پر بڑے پیمانہ پر عسکری کمانڈو حملے کر کے یہودیوں نے بیت المقدّس کے مغربی حصہ اور کچھ دوسرے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور یہ سلسلہ جاری رہا ۔ امریکہ صیہونیوں کی پشت پناہ پر تھا اور ان کو مالی اور فوجی امداد مہیا کر رہا تھا ۔


صیہونی ریاست کے قیام کا اعلان
اسرائیل کا پہلا وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریان تل ابیب میں اسرائیل کے قیام کا باقاعدہ اعلان کرتے ہوئےاس طرح روس یورپ اور بالخصوص امریکہ کی مدد سے یہودیوں 14 مئی 1948 کو 4 بجے بعد دوپہر اپنی دو ہزار سال پرانی آرزو �یہودی ریاست اسرائیل� کا اعلان کر دیا اور مسلم عربوں کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کر کے اِسرائیلی ریاست بنالی ۔ یہ دراصل صیہونی ریاست تھی کیونکہ کئی یہودی مذہبی پیشواؤں نے اس کی مخالفت کی ۔ اگلے دن برطانیہ کے بقیہ فوجی بھی اپنی چھاؤنیاں صیہونیوں کے حوالے کر کے چلے گئے ۔ اس کے بعد مار دھاڑ روز کا معمول بن گیا ۔ صیہونی مسلح دستے مسلمان عربوں کی املاک پر قبضہ کرتے چلے گئے کیونکہ وہ دہشت گرد تنظیموں کے تربیت یافتہ کمانڈو تھے اور انہيں امریکہ اور برطانیہ کی امداد بھی حاصل تھی ۔ یہودیوں کی دہشت گرد تنظیموں کے نام بدلتے رہے کیونکہ وہ یورپ میں بھی دہشت گردی کرتی رہیں اور دہشت گرد قرار دی جاتی رہیں ۔ مشہور نام یہ ہیں ۔ ہاگانہ، اوردے ونگیٹ، ارگون، لیہی، لیکوڈ، ہیروت، مالیدت۔

چند مشہور دہشت گرد لیڈروں کے نام یہ ہیں: موشے دیان جو 1953 سے 1957ء تک اسرائیل کی مسلح افواج کا چیف آف سٹاف رہا ۔ مناخم بیگن جو 1977 میں اسرائیل کا وزیراعظم بنا ۔ یتزہاک شمیر جو 1983 میں وزیراعظم بنا ۔ ایریئل شیرون جو سابقہ وزیراعظم ہے ۔ موشے دیان کو دہشت گرد ہونے کے باوجود برطانوی فوج میں کسی خاص کام کے لئے کچھ عرصہ کے لئے بھرتی کیا گیا تھا ۔ وہ برطانوی فوج کی ملازمت چھوڑ کر پھر صیہونی دہشت گرد تنظیم میں شامل ہوا اور اس کا کمانڈر بن گیا ۔ عربوں کی املاک پر قبضہ کرنے کے لئے جو حملے کئے جاتے رہے ان کا کمانڈر موشے دیان ہی تھا ۔ ان دہشت گرد تنظیموں نے نہ صرف وہ علاقے زبردستی قبضہ میں لئے جو اقوام متحدہ یہودیوں کو دینا چاہتی تھی بلکہ ان علاقوں پر بھی قبضہ کیا جو اقوام متحدہ کے مطابق فلسطینیوں کے تھے ۔ قبضہ کے دوران جو فلسطینی مسلمان نظر آتا اسے قتل کر دیا جاتا ۔ مناخم بیگن اس دہشت گرد گروہ کا سربراہ تھا جس نے بیت المقدّس میں کنگ ڈیوڈ ہوٹل اڑایا تھا۔ صابرہ اور شتیلا کو گھیرے میں لے کر وہاں مقیم 4 ہزار نہتے فلسطینی مہاجرین کو قتل کرنے کا حکم دینے والا ایریئل شیرون ہی تھا جو اُن دنوں اسرائیل کا وزیر دفاع تھا ۔


صيہونی توسيعی پروگرام پر عملدرآمد
اسرائیل نے 1955ء میں غزہ اور اردن کی شہری آبادیوں پر چھاپہ مار حملے شروع کر دیئے ۔ جس سے فلسطینی مسلمان تو مرتے رہے مگر اسرائیل کو خاص فائدہ نہ ہوا ۔ 1956ء میں برطانیہ ۔ فرانس اور اسرائیل نے مصر پر بھرپور حملہ کر دیا جس میں مصر کے ہوائی اڈوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ۔ ان مشترکہ فوجوں نے سینا، غزہ اور مصر کی شمالی بندرگاہ پورٹ سعید پر قبضہ کر کے نہر سوئز کا کنٹرول سنبھال لیا جو حملے کی بنیادی وجہ تھی ۔ روس کی دھمکی پر اقوام متحدہ بیچ میں آ گئی اور جنگ بندی کے بعد سارا علاقہ خالی کرنا پڑا ۔

اسرائیل نے امریکہ اور دوسرے پالنہاروں کی پشت پناہی سے 5 جون 1967 کو مصر، اردن اور شام پر حملہ کر دیا اور غزہ، جزیرہ نما سینا، مشرقی بیت المقدّس، گولان کی پہاڑیوں اور دریائے اُردن کے مغربی علاقہ پر قبضہ کر لیا ۔ اس جنگ میں امریکہ کی مدد سے مصر ۔ اردن اور شام کے راڈار منجمد کر دیئے گئے اور اسرائیلی ہوائی جہازوں نے مصر کے ہوائی جہازوں کو زمین پر ہی تباہ کر دیا ۔ اقوام متحدہ نے ایک قرار داد 242 کے ذریعے اسرائیل کو تمام مفتوحہ علاقہ خالی کرنے کو کہا جس پر آج تک عمل نہیں کیا گیا ۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کے مطابق مزید پانچ لاکھ فلسطینیوں کو اپنے ملک فلسطین سے مصر ۔ شام ۔ لبنان اور اُردن کی طرف دھکیل دیا گیا ۔


جنگ یوم کپور 1973ء
مصری فوج کے ایک طبقہ پر 1967ء کی شکست نے گہرا اثر چھوڑا تھا ۔ انور سادات کے صدر بنتے ہی انہو ں نے اپنا صحراۓ سینا کا علاقہ اسرائیل سے واپس لینے کی تجاویز دینا شروع کر دیں ۔ اس وقت تک اسرائیل نے بلڈوزروں کی مدد سے نہر سوئز کے کنارے کنارے 20 میٹر اونچی ریت کی دیوار بنادی تھی ۔ مصری فوج دریاۓ نیل کے کنارے ایک ریت کی دیوار بنا کر اسے عبور کرنے کی مشقیں کرنے لگی ۔ ان کو بہت مایوسی ہوئی کیونکہ ہر قسم کے بم اور میزائل ریت کی دیوار میں شگاف ڈالنے میں ناکام رہے ۔ ہوتا یوں تھا کہ میزائل ریت کے اندر پھٹتا مگر دیوار کو خاص نقصان نہ ہوتا ۔

عام مشاہدہ کی بات ہے کہ ریت کا ڈھیر لگایا جاۓ تو ریت سرک کر زمین کے ساتھ زیادہ سے زیادہ 40 درجے کا زاویہ بناتی ہے ۔ اس طرح ریت کی 2 میٹراونچی دیوار کے لئے بنیاد یا قاعدہ ساڑھے پانچ میٹر چوڑا بنتا ہے جبکہ اوپر سے چوڑائی صفر ہو ۔ اگر 20 میٹر اونچی ریت کی دیوار بنائی جاۓ جس کی اوپر چوڑائی صرف 5 میٹر رکھی جائے تو زمین پر اس کی چوڑائی 60 میٹر یا 197 فٹ ہو گی ۔ اتنی چوڑی دیوار کو توڑنا ناممکن سمجھ کر ہی اسرائیل نے یہ دیوار بنائی ہو گی۔ ریت کو اگر کسی جگہ سے بھی ہٹائیں تو اس کے اوپر اور داہنے بائیں والی ریت اس کی جگہ لے لیتی ہے ۔

مصری فوج کا ایک میجر جو کہ مکینکل انجنیئر تھا ریت کی دیوار گرانے کے ناکام تجربے دیکھتا رہا تھا۔ ایک دن ڈویژن کمانڈر نے اس معاملہ پر غور کے لئے تمام افسران کا اجلاس طلب کیا ۔ اس میجر نے تجویز دی کہ ریت کی دیوار آتشیں اسلحہ کی بجاۓ پانی سے گرائی جا سکتی ہے مگر کمانڈر نے اس میجر کی حوصلہ افزائی نہ کی ۔ وہ میجر دُھن کا پکّا تھا اُس نے کہیں سے ایک پانی پھینکنے والا پمپ لے کر ایک کشتی پر نصب کیا اور ریت کی ایک چھوٹی سی دیوار بنا کر دریا نیل کا پانی اس پمپ سے نوزل کی مدد سے ریت کی دیوار پر ایک ہی جگہ پھینکتا رہا ۔ تھوڑی دیر میں ریت کی دیوار میں شگاف بن گیا ۔ اُس نے اپنے کمانڈر کو بتایا مگر کمانڈر نے پھر بھی حوصلہ افزائی نہ کی ۔

No comments:

Post a Comment