Sunday, June 21, 2009

دنیا میں مسلم آبادی




تحریر:خورشید الزماں عباسی

دنیا بھر میں مسلمانوں کی کل آبادی کتنی اور دنیا کے نقشے پر کتنے مسلمان ممالک موجود ہیں \۔ جبکہ دنیا بھر میں اقلیتی اور اکثر یتی مسلم اکثریت کے اعداد وشمار کی کیا صورتحال ہے ؟عالمی سطح پر جاری دہشت گردی کی جنگ اور عراق، افغانستان جنگوں میں مسلم آبادی کی ان گنت افرادی قوت کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کے باوجود بھی مسلمانوں کی نسل کشی کا کام کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے ۔کیا واقعی ہی مسلمانوں کی آبادی دنیا بھر میں کم ہو رہی ہے؟ یا اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔

یہ وہ بنیادی نوعیت کے سوالات ہیں جن کی معلومات کا ہونا فی الوقت ہر ذی شعور کے علمی اضافہ کا باعث بن سکتا ہے ۔امریکن سی آئی اے کے مطابق موجودہ وقت میں دنیا بھر میں مسلم آبادی 1.66 بلین ہے ۔جبکہ بعض دیگر ذرائع کے مطابق مسلمانوں کی یہ آبادی سال رواں کے آخر تک 1.82 بلین ہو جائے گی ۔دنیا میں لگ بھگ 48 اسلامی ممالک ہیںجبکہ مسلم آبادی بلحاظ فیصد تناسب کے انڈونیشیاء، چین اور انڈیا میں دنیا بھر سے زائد ہے۔

انڈونیشیاءمیں 206 ملین چین میں 28 ملین سے زائد جبکہ انڈیا میں کل آبادی کے 13.4 فیصد مسلمان آباد ہیں ۔بعض ذرائع انڈیا میں مسلم آبادی کو دو کروڑ سے زائد قرار دے رہے ہیں ۔اسی طرح دیگر ممالک میں بنگلہ دیش، پاکستان، مراکو، مصر، افغانستان، عراق، سعودی عرب، ترکی، الجیریا، روس جبکہ امریکہ، لندن اور کینڈا میں مسلمانوں کی آبادی میں قابل ذکر اضافہ ہو رہا ہے۔

امریکہ میں اس وقت دس ملین سے مسلمان آباد ہیں۔ موجودہ صدی میں عراق، افغانستان سے مسلم آبادی کا صفایا ایک قابل ذکر مثال ہے۔ دہشت گردی کے چکر میں مسلمانوں کی نسل کشی انتہائی تشویشناک صورتحال اختیار کر تی جارہی ہے اس صورتحال میں جہاں غیر مسلم سازشیں کار فرماہیں وہاں خود دہشت گردی کی راہ پر گامزن مسلمانوں کا وہ طبقہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ جو ان گھناﺅنی سازشوں کا شکار ہو کر اسلام جیسے پرامن مذہب کو بدنام کرنے میں دوسروں کا آلہ کار بنتے جارہے ہیں۔

دنیا میں موجودہ دہشت گردی کے آغاز کا سبب اگرچہ گیارہ ستمبر کا واقعہ ہے ۔مگر اس کے حقیقی حقائق پر خود امریکی کانگریس کے بعض ممبران کو بھی اعتراضات ہیں امریکی کانگریس مین DENNIS JKUCINICH کے اس بیان انداز ہ ہوتا ہے۔ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ عراق کے پاس کوئی ایٹمی آلات نہیں جن کے بل پروہ امریکہ پر حملہ آور ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو جبکہ گیارہ ستمبر کے واقع کے حوالہ سے انہوں نے کہا ہے کہ یہ صرف عراق پر حملہ آور ہونے کےلئے کہا گیا۔

انہوں نے کہا کہ نئی امریکی انتظامیہ نے افغانستان میں جاری جنگ کو جاری رکھنے کےلئے اس میں مزید اضافہ کردیا ہے ۔ جبکہ اہم ان جنگوں کو مزید جاری نہیں رکھ سکتے ۔ ان کے بقول جنگی بجٹ میں ٹریلین ڈالر کے اضافہ سے ہمارا گھر یلو بجٹ تباہ ہو کر رہ گیا ہے ۔ انہوں نے ان جنگوں کو جھوٹ پر مبنی اور دنیا بھر میں نفرت پھیلانے پر مبنی قرار دیا۔ جبکہ انہوں نے اپنی فوج کے جانی نقصان اور عراق میں مرنے والوں کو بے گناہ شہری قرار دیا اورافغانستان، پاکستان میں ہلاکتوں کو بھی انہوں نے کہا کہ ہماری حقیقی قوت کا انداز اسی وقت ہوگا۔ جب ہم جنگی امداد کےلئے فنڈنگ کا خاتمہ کرتے ہوئے سچ اور انصاف قائم کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ ہماری حقیقی طاقت کا بڑا امتحان یہ ہے کہ ہم یہ جنگیں ختم کر دیں۔

مسٹرKUCINNICH اور ان کے ساتھی کانگریس مین LYNN WOOSLEY مشترکہ طور پر عراق، افغانستان میں جاری جنگوں کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے ہم منصب کانگریس کے اراکین کو خط لکھ کر عراق ،افغانستان کےلئے جنگی بجٹ کے خلاف ووٹ دینے کی اپیل کرتے ہوئے موجودہ انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ ان جاری جنگوں دستبردار ہوتے ہوئے2010 تک فوج اورجنگی آلات کو عراق ، افغانستان سے واپس لایا جائے ان مذکورہ امریکی کانگریس کے نمائندگان کے ان بیانات میں کتنی صداقت ہے یا ان کے ان بیانات کے درپردہ کیا مقاصد ہیں؟ بظاہر امریکہ کی سابق اورموجودہ انتظامیہ سے وابستہ افراد کےلئے اورامریکی قوم کے لئے ضرور سبق آموز پیغام موجود ہے۔

بہرحال دہشت گردی کی جاری جنگ میں جہاں مسلم کشی ہو رہی ہے وہاں عالمی سطح پر مسلمانوں کی آبادی میں اسی تیز رفتاری سے اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ اس کی کئی مثالیں خود امریکہ کینڈا اور لندن میں عیسائی اور یہودیوں کے حلقہ بگوش اسلام سے عیاں ہو رہی ہیں۔ عراق جنگ میں کئی امریکی فوجی بھی حلقہ بگوش اسلام ہوئے جبکہ لندن میں ایک ڈسٹرکٹ جج کی قبول اسلام کے علاوہ بیشمار اور لا تعداد مثالیں سامنے آرہی ہیں۔

خود امریکہ میں مسلم آبادی10 ملین سے تجاوز کر چکی ہے ۔ مغربی میڈیا امریکہ ، لندن اور کینڈا میں اس تیز رفتار اضافہ کی از خود داستانیں سنا رہا ہے یوں مرنے والوں کی جگہ کئی غیر مسلم اسلام قبول کر کے ان کی جگہ لے رہے ہیں جبکہ 2025 تک یہ مسلم آبادی دنیا کی غالب اکثریت بن جائے گی۔

1 comment: