از ڈاکٹر ذاکر نائیک
جس موضوع ’’دہشت گردی‘‘پر بحث شروع کر رہا ہوں اس کی تفصیلات میں جانے سے پہلے خود اس لفظ کی تعریف کرنا چاہوں گا لیکن دہشت گردی کی تعریف یا ڈیفائن کرنا انتہائی مشکل کام ہے کیونکہ اس کی مختلف تعریفیں ہیں اور خاص بات یہ ہے کہ ان میں کئی اس لفظ کی صحیح تعریف واضح نہیں کرتی اور اس کے بالکل برعکس ہیں۔ اس لفظ کی تعریف / ڈیفینیشن بہت واضح نہیں ہے۔ جیسے جیسے جغرافیائی مقام تبدیل ہوتا ہے ویسے ویسے اس لفظ کی تعریف تبدیل ہوتی جاتی ہے لیکن آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق:
’’سیاسی مقاصد کے حصول یا کوئی بھی سرکاری کام کی پرزور انجام دہی کے لیے پرتشدد طاقت کا استعمال ‘‘
اس لفظ کا پہلی بار استعمال 1790 میں فرانسیسی انقلاب کے دوران کیا گیا تھا اور یہ لفظ ایک برطانوی شخص ایڈمنڈ برک نے فرانس کے جیکوبیئن دور کی حکومت کے لیے استعمال کیا تھا۔ 1793 اور 1794 کے درمیان اس ہی حکومت کو ’’دہشت کی حکومت‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس حکومت کو میکسیمیلن روبز پیئر چلا رہا تھا۔ جتنا عرصہ بھی اس نے حکومت کی اس نے ہزاروں لاکھوں معصوم لوگوں کو مروایا / گلوٹونائز کیا۔ تاریخی ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ روبز پیئر نے تقریباً پانچ لاکھ افراد کو گرفتار کرایا جس میں سے چالیس ہزار کو فوراً مروا دیا، دو لاکھ کو ملک بدر کیا گیا جبکہ دو لاکھ سے زائد کو جیلوں میں تشدد اور اذیتیں دے کر اور بھوکا رکھ کر ہلاک کیا گیا۔ تو بہرالحال لفظ دہشت یا دہشت گردی کا ابتدائی استعمال اس طرح کیا گیا۔
لیکن آج جب ہمارے پاس بین الاقوامی میڈیا موجود ہے، ایک بہت عام سا بیان اکثر و بیشتر خصوصاً سامنے آتا رہتا ہے یا یہ کہہ لیں کہ اس بیان کی اکثر بمباری کی جاتی ہے اور وہ بیان یہ ہے کہ:
’’تمام مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں لیکن تمام دہشت گرد مسلمان ہیں‘‘
All Muslims are not terrorists but
All Terrorists are Muslims
یہ تشریح یا تعریف ایک خاص مقصد سے شرق الاوسط اور دیگر ایشیائی ممالک میں پھیلائی گئی ہے۔ تو آیئے آج دیکھتے ہیں کہ تاریخی ریکارڈز کے مطابق دنیا میں دہشت گردی یا حملوں سے متعلق معلومات ہمیں کیا بتاتی ہے۔
جب ہم 19ویں صدی کی بات کرتے ہیں ہمیں پتا چلتا ہے کہ شاید ہی کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہو جس میں مسلمان ملوث ہوں۔
1881 میں روس کے زار الیگزینڈر دوئم کو قتل کردیا گیا۔ وہ سینٹ پیٹرز برگ (سابقہ لینن گراڈ) میں ایک بلٹ پروف گاڑی میں سفر کر رہے تھے کہ اچانک ایک بم پھٹا جس سے معصوم 22 لوگ مارے گئے۔ سر الیگزینڈر اپنی گاڑی سے باہر آتے ہیں کہ اچانک ایک اور بم پھٹا اور وہ مارے گئے۔ انہیں کسی مسلم نے نہیں بلکہ بیلاروس اور پولینڈ سے تعلق رکھنے والے شخص ایگنی ویرچی نامی غیر مسلم شخص نے مارا۔
1886 میں شکاگو (امریکا) کی ہے مارکیٹ اسکوائر میں لیبر ریلی کے دوران دھماکا ہوا جس میں ایک پولیس اہلکار سمیت 12 افراد مارے گئے جبکہ 7 زخمی ہونے والے پولیس اہلکار اسپتال میں جانبر نہ ہوسکے۔ اس واقعے میں ملوث افراد مسلم نہیں بلکہ غیر مسلم انارکسٹ تھے۔
اب آتے ہیں 20ویں صدی کی طرف۔
6 ستمبر 1901ء کو امریکی صدر ولیم میک کینلی کو ایک غیر مسلم انارکسٹ لیئون زولوگوس نے قتل کردیا۔ اس شخص نے امریکی صدر کو پستول کے دو فائر کرکے قتل کیا۔
یکم اکتوبر 1910ء کو امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمز کی عمارت میں ہوا جس میں 21 معصوم افراد مارے گئے۔ اس حملے میں ملوث دو افراد عیسائی تھے جن کے نام جیمز اور جوزف ہیں، دونوں یونین لیڈر تھے۔
28 جون 1914ء کو آسٹریا کے آرک ڈیوک فرانز فرڈیننڈ (رائل پرنس آف ہنگری اینڈ بوہیمیا) کو ان کی اہلیہ سمیت بوسنیا ہرزیگووینا کے دارالحکومت ساراجیوو میں قتل کردیا گیا جس کے نتیجے میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی۔ اس قتل میں ملوث افراد کا گروپ خود کو ’’ینگ بوسنیا یا نوجوان بوسنیا‘‘ کہلاتے تھے اور تمام کے تمام غیر مسلم سرب تھے۔
16 اپریل 1925ء کو بلغاریہ کے دارالحکومت سوفیا کے سینٹ نیڈیلیا چرچ میں بم دھماکا ہوا جس میں 150 سے زائد معصوم افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ 500 سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ بلغاریہ کی تاریخ میں سب سے بڑا حملہ تصور کیا جاتا ہے۔ حملے میں ملوث افراد غیر مسلم تھے اور بلغارین کمیونسٹ پارٹی کے ارکان تھے۔
9 اکتوبر 1934ء کو یوگوسلاویہ کے شاہ الیگزینڈر کو ایک بندوق بردار شخص ولاڈا جورجیف نے قتل کردیا جو غیر مسلم تھا۔
یکم مئی 1961 کو امریکی تاریخ کا پہلا طیارہ ایک عیسائی ریمریز آرٹیز نے ہائی جیک کیا۔ وہ شخص طیارے کو کیوبا لے گیا جس کے بعد اس نے وہاں پناہ حاصل کرلی۔
28 اگست 1968ء کو گوئٹے مالا میں امریکی سفیر کو ایک غیر مسلم نے قتل کردیا۔
30 جولائی 1969ء میں جاپان میں امریکی سفیر کو ایک غیر مسلم جاپانی شخص نے قتل کیا۔
3 ستمبر 1969ء کو برازیل میں امریکی سفیر کو اغواء کرلیا گیا جس میں ایک غیر مسلم ملوث تھا۔
19 اپریل 1995ء میں مشہور و معروف اوکلوہاما فیڈرل بلڈنگ میں ہونے والے دھماکے میں دھماکہ خیز اور آتشگیر مواد سے بھرے ایک ٹرک کو عمارت سے ٹکرا دیا گیا تھا، اس واقعے میں 166 معصوم افراد مارے گئے جبکہ سیکڑوں دیگر زخمی ہوئے۔ ابتدائی طور پر پریس میں جو بات سامنے آئی وہ تھی ’’مڈل ایسٹ کانسپائریسی‘‘۔ کئی دنوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ہفتوںتک بریکنگ نیوز چلتی رہی کہ یہ مڈل ایسٹ کانسپائریسی ہے، مسلم ملوث ہی، فلسطینی ملوث ہیں لیکن بعد میں تحقیقات سے پتا چلا یہ حملہ کرنے والے 2 بائیں بازو کی جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد تھے ، دونوں عیسائی تھے اور ان کے نام ٹموتھی اور ٹیری تھے۔ لیکن جب یہ بات پتا چلی کہ حملے میں عیسائی ملوث تھے تو میڈیا میں ایک دو روز تک یہ بات چلی لیکن اس کے بعد غائب ہوگئی۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد 1941ء سے 1948ء تک دنیا میں 259 دہشت گرد حملے ہوئے جس میں یہودی دہشت گرد اور کئی دیگر یہودی تنظیمیں جیسا کہ ارگون، اسٹن گینگ اور ہیگنا ملوث تھیں۔
22 جولائی 1946ء میں آج کے مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) کے کنگ ڈیوڈ ہوٹل کا بم دھماکا اس حوالے سے بہت معروف ہے اور اس میں یہودی تنظیم ارگون کا رکن مینکم بیگن ملوث تھا۔ واقعہ میں 91 معصوم افراد مارے گئے جس میں سے 28 برطانوی، 41 عرب، 17 یہودی اور 5 دیگر قومیتوں سے تعلق رکھتے تھے۔ حملے میں یہودیوں نے جو بدمعاشی کی تھی وہ یہ تھی کہ حملہ آوروں کو عرب شیوخ کے لباس میں بھیج کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ حملہ عرب قوم نے (فلسطینیوں) نے کرایا ہے۔ اس وقت تک یہ برطانوی مفادات پر سب سے بڑا حملہ تصور کیا جا رہا تھا۔ اس واقعہ کے بعد برطانوی حکومت نے مینکم بیگن کو اول نمبر کا دہشت گرد قرار دیا تھا۔ بعد میں کچھ سال بعد یہی بیگن اسرائیل کا وزیراعظم منتخب ہوجاتا ہے اور اس کے چند سال بعد اسے امن کا نوبل انعام دیا جاتا ہے۔ ذرا سوچیں! معصوم افراد کا قاتل وزیراعظم بن گیا اور نوبل پیس پرائز لے گیا اور یہی نام نہاد مغربی میڈیا، جو جھوٹے ہولوکاسٹ کو جھوٹا تک ثابت نہیں کرسکتا، بیگن کی تعریفوں کے گن گانے لگا۔ اسرائیلی وزیراعظم ایرئیل شیرون بھی معصوم لوگوں کے قتل عام میں ملوث ہیں۔ انہوں نے 1982ء میں جب وہ اسرائیل کے وزیر دفاع تھے، لبنان کے صابرہ اور شتیلا کیمپ میں تقریباً 3500 فلسطینی پناہ گزینوں کو لبنان کی عیسائی تنظیم لیبنیز میرونائٹ کرسچن ملیشیا کے ہاتھوں اور اسرائیلی فوجی ایجنٹس کے ذریعے مروا دیا۔ یہ ساری سازش فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے ان کارکنوں کو مارنے کے لیے کی گئی تو جو اسرائیل سے اپنی چھینی ہوئی زمین واپس لینے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔
اگر آپ 1945ء سے پہلے کا دنیا کا نقشہ دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ اسرائیل کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ مذکورہ بالا یہودی جنہیں مسلمانوں نے نہیں بلکہ برطانیہ نے دہشت گرد تنظیم کا نام دیا تھا، یہودی ریاست کے حصول کے لیے لڑ رہی تھیں۔ بعد میں طاقت کے دم پر انہوں نے زمین پر قبضہ کیا، فلسطینیوں کو وہاں سے لات مار کر بھگایا اور اب وہی لوگ جو اپنی زمین کے واپس حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں انہیں اسرائیل نے دہشت گرد قرار دیا ہوا ہے۔
ہٹلر نے یہودیوں کا قتل عام کرایا، وہ جرمنی سے یہودیوں کو بھگادیتا ہے تو وہ یہودی فلسطین میں کیوں گھسیں۔ یہ تو فلسطینیوں کی مہمان نوازی اور اخلاص تھا جنہوں نے ان یہودیوں کو موسیٰ کی اولاد سمجھ کر گلے لگایا اور رہنے کے لیے جگہ دی۔ اگر ان یہودیوں کو زمین چاہئے تو وہ واپس جرمنی جائیں یا پھر یورپ جائیں جہاں سے انہیں نکالا گیا ہے۔ دنیا میں خود کو انسانی حقوق کا علمبردار ماننے والے فرسٹ ورلڈ ممالک اسرائیل جیسے دہشت گردوں کا ساتھ دے رہے ہیں، اس کے خلاف اقوام متحدہ میں آنے والی قراردادوں کو ویٹو کر رہے ہیں اور جو معصوم ہیں ان کا پابندیوں کے نام پر دانہ پانی بند کرکے انہیں دہشت گرد قرار دے رہے ہیں۔ امام خمینی نے امریکا کے لیے بزرگ شیطان کا جو نام رکھا ہے وہ بالکل صحیح ہے۔
جرمنی میں 1968ء سے لے کر 1992ء تک بادر مین ہوف گینگ نامی تنظیم نے کئی معصوم انسانوں کا قتل کیا۔
اٹلی میں ریڈ بریگیڈ نامی تنظیم نے سیکڑوں معصوم لوگوں کا قتل کیا اور یہی تنظیم اٹلی کے وزیراعظم الڈو مورو کے اغوا میں بھی ملوث تھی اور 55 روز بعد اسے قتل بھی کردیا۔
جاپان میں بھی ایسی ہی ’’جاپنیز ایٹ آرمی‘‘ نامی تنظیم تھی جس کے ارکان بدھ مت سے تعلق رکھتے تھے۔ اس تنظیم نے ٹوکیو سب وے میں ہزاروں لوگوں کو ایک زہریلی گیس کے ذریعے ہلاک کرنے کی کوشش کی۔ خوش قسمتی سے ان کی سازش ناکام ہوئی اور صرف 12 لوگ مارے گئے لیکن 5 ہزار افراد زہریلی گیس کے اثرات سے شدید متاثر ہوئے اور کچھ زخمی بھی ہوئے۔
برطانیہ میں تقریباً 100 سال تک آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والی کیتھولک عیسائی ارکان پر مشتمل تنظیم آئی آر اے برطانوی مفادات کے خلاف حملے کرتے آئے لیکن انہیں کبھی کیتھولک دہشت گرد نہیں کہا گیا۔ اس تنظیم نے سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں دہشت گرد حملے کئے۔ 1972ء میں اس تنظیم نے تین دھماکے کرائے۔ پہلے میں سات، دوسرے میں 11 جبکہ تیسرے میں 9 مارے گئے۔ 1974ء میں تنظیم نے دو گلفورڈ پب (شراب خانہ) میں دھماکے کرائے 6 افراد مارے گئے جبکہ 45 سے زائد زخمی ہوئے۔ برمنگہم کے شراب خانے میں کئے جانے والے حملے میں 21 افراد مارے گئے جبکہ 162 زخمی ہوئے۔ 1996ء میں لندن میں ہونے والے دھماکے میں 2 افراد زخمی ہوئے اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔ 1996ء میں ہی مانچیسٹر کے شاپنگ ایریا میں دھماکے سے 206 افراد زخمی ہوئے۔ 1998ء میں بین برج بم دھماکے، جہاں ایک گاڑی میں 500 پائونڈ وزنی دھماکا خیز مواد ایک گاڑی میں رکھ کر تباہ کردیا گیا، جس سے 35 معصوم افراد زخمی ہوئے۔ اس ہی سال کے دوران اوماگ بم دھماکے میں آئی آر اے نے 500 پائونڈ وزنی دھماکا خیز مواد کو تباہ کرکے 25 افراد کو موت کی نیند سلادیا جبکہ 330 افراد زخمی ہوئے۔ یہ تمام کے تمام واقعات آئی آر اے نامی تنظیم کے کھاتے میں جاتے ہیں جنہیں کسی مسلم مورخ کی کتابوں سے نہیں بلکہ غیر مسلم مغربی میڈیا (ایمنسٹی انٹرنیشنل، بی بی سی وغیرہ وغیرہ۔ تفصیلات انٹرنیٹ پر سرچ کی جا سکتی ہیں) کی رپورٹس سے حاصل کیا گیا ہے۔
No comments:
Post a Comment