روئے زمین پر آباد انسانوں میں ہر پانچواں فردمسلمان ہے دنیا کے نقشے پر ایک اہم جغرافیائی بیلٹ مسلمانوں کی ہے، مراکش کے صحرا سے لے کر جاوا تک اہل اسلام کی قطار لگی ہوئی ہے، فار ایسٹ سے ویسٹ انڈیز تک کئی مسلم ریاستیں ہیں۔شرق الہند ہو یا غرب الہند ہر جگہ مسلمانوں کے قدموں کی دھمک ہے۔ تہذیب مسلم کے
کھنڈر بتا رہے کہ عمارت عظیم تھی
یہ عمارت کیسے عظیم بنی تھی اس کا ذکر پچھلے دنوں نارویجن رسالے الستریٹنے وتین سکاپ میں بڑی خوش اسلوبی سے شائع کیا۔ اس رسالے میں دیئے گئے اس تحقیقی مضمون سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کی علم وحکمت میں کی ہوئی کاوشوں کو اہل مغرب کتنا اہم مقام دیتے ہیں۔، ملاحظہ ہو آج کا مغرب عرب دنیا کو بنیاد پرستی سے منسوب کرتا ہے، لیکن ازمنہ وسطیٰ میں مغرب جب اندھیروں میں ڈوباہوا تھاتو اس وقت عرب علم و حکمت کا مرکز تھا۔ان کے نئے دین اسلام نے ان کو راغب کیا کہ وہ اللہ کی بنائی ہوئی کائنات کو سمجھیں۔
گیارہ سو عیسوی کے دوران ایک عرب طبیب کو عیسائی پادری نے اپنے خیمے میں بلا کر گھڑسوار کا علاج کرنے کو کہا ، جس کی ٹانگ پر ایک پھوڑا تھا ۔ عرب طبیب کے علاج سے جونہی مریض کو بہتری محسوس ہونا شروع ہوئی ، ایک فرانسیسی ڈاکٹر خیمے میں داخل ہوا، اس نے عرب طبیب کو ایک طرف دھکیل کر مریض سے مخاطب ہو کر پوچھا ؟ تمھارے لیے کیا بہترہے، ایک ٹانگ سے زندہ رہنا یا دو کے ساتھ مر نا؟ اور سا تھ ہی ایک بھاری ہتھو ڑے سے اس کی ٹانگ پر و ار کیا لیکن ایک وار سے کام نہ چلا۔دوسرے فیصلہ کن وار سے مریض کی ٹا نگ سے خون کے پھوارے پھوٹ پڑے اور وہ موقع پر ہلاک ہوگیا۔عربی طبیب جھنجلاکر خیمے سے با ہر نکل گیا اور بو لایہ ہے عیسائیوں کا علم اوران کی طبی صلاحتیں۔یہ ایک واقعہ ہی مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان پایا جانے والا فرق ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے۔
قرآن سب سے زیادہ زور علم،تحقیق اور کائنات کوجانچنے اورسمجھنے پر دیتاہے۔آج کامغرب عرب اور مسلمان دنیاکو قدامت پسندی اور مذہبی جنونیت سے تعبیر کرتا ہے۔
لیکن جب نویں صدی میں پورا یورپ جہالت کے اندھیروں میں چھپاہواتھا۔اس وقت عرب علم وحکمت، دانش کا مرکزتھا۔یاد رکھیے کہ آج کی دنیا کی تحقیق اورعلم اس وقت کی عربوں کی ہوئی تحقیق پر مبنی ہے۔
پانچویں چھٹی عیسوی میں عیسایوں اورمسلمانوں میں زبردست قسم کی سردجنگ جاری تھی ۔دونوں تہذیبیں ایک دوسرے کو گنوار، جا ہل اور حقیقی دنیا سے دور سمجھتی تھیں۔یورپ میں عرب کے بارے میں یہ مفروضہ تھا کہ وہ وحشی درندے ہیں، جبکہ عرب والے یورپ کے لوگوں کو ظالم انسانوں سے تعبیر کرتے تھے۔دونوں اطراف کے ایک دوسرے پر الزامات کافی حد تک غلط تھے،لیکن مسلمانوں نے جو مغرب کی تصویر کشی کی تھی وہ سچائی کے زیادہ قریب تھی۔
گیارہویں صدی عیسوی میں عرب مسلمان دنیا میں اپنے علم، طاقت، ثقافت کی بنا پر چھائے ہوے تھے۔ اسلام اس دور میں عرب سے لیکر ،شمالی افریقہ اور شمالی افریقہ سے لیکر یورپ تک پھیلاہوا تھا۔ےہ سنہری دور 900عیسوی سے لیکر 1300 تک جاری رہا۔ اس دور میں عرب سویلسیشن انتہائی ترقی یافتہ ، انتہائی ماڈرن اور سائنسی علوم پر مشتمل تھی ۔ یہ عرب ہی تھے جنھوں نے آج کی دنیا کے ہر علم کا پہلا دروازہ کھولا۔
پانچویں، چھٹی عیسوی میں علم صرف چرچ بالخصوص عیسائی پادریوں تک ہی محدود تھا ۔پادری علم کو عام انسان کے لیے شجر ممنوعہ قرار دیتے تھے ، لیکن دوسری طرف عرب مسلمانوں میں علم عام آدمی میں فروغ پارہا تھا ۔ اس وقت مسلمانوں نے طبعیات، ریاضی ، فلکیات اور کیمیا میں نئی راہیں ایجاد کیں۔ جن سے آج سارا مغرب اور پوری دنیا استفادہ کر رہی ہے، لیکن یہ الگ بات ہے کہ مغرب اپنے روایتی تعصّب کے باعث اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ عرب والوں کا علم 900عیسوی میں پوری آب وتاب سے چمکا، اس علم کی وجہ سے مسلمان ایک چھوٹے سے جزیرے لیکر مشرق میں دریائے سندھ اور مغرب میں شمالی اسپین تک جا پہنچے۔
مسلمانوں نے یہ حکومتیں جنگوں سے یا ہتھاروں سے نہیں جیتیں بلکہ ان کے پاس سب سے بڑا ہتھار اسلام میں علم کی اہمیت اور اسلام کی ثقافت کے فروغ میں تھا۔ دوسرے مذاہب کے برعکس اسلام ذات پات سے پاک ، امیر غریب کی تمیز سے مبرا اور انصاف پر مبنی ایک نظام تھا۔اسلام کے اس نظام میں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو عزت وحترام دیا جاتاتھا، ان کی بات سنی جاتی تھی ۔ لیکن اس وقت کے عیسائی دوسری سوچ رکھنے والے اور دوسرے مذاہب ماننے والوںکو سزائیں دیتے تھے بلکہ وہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو آگ میں ڈال دیتے تھے۔
جب طارق بن زیاد نے 711عیسوی میں اسپین میں قدم رکھا تو وہ بہت حیران ہوا کہ مقامی لوگوں نے کو ئی خاص مزاحمت نہ کی، کیونکہ مقامی لوگ اس وقت عیسائی مذہب ماننے والوں کے ظلم وستم سے تنگ آچکے تھے بلکہ بعض جگہ مسلمان فوج کو بڑی گرم جوشی سے خوش آمدید کہا گیا۔اسپین کی فتح نے مسلمانوں کی ترقی اورتجارت کے لیے نئی راہیں کھول دیں۔جس کی وجہ سے عرب معاشرہ میں دینی ودنیوی علوم کا تیزی سے فروغ ہونے لگا۔
مسلمانوں کے دور حکومت میں جنوبی اسپین کا علاقہ قر طبہ دنیا کا سب سے خوبصورت اور مثالی علاقہ تھا، 950 عیسوی میں یہ علاقہ 500000 نفوس پر مشتمل تھا ۔ اس علاقہ میں اس وقت 600 مساجد،ان گنت سرکاری غسل خانے ،اوران گنت کتب خانے (لائبریریاں)تھے، جس میں سب سے بڑی لائبریری خلیفہ کی تھی جہاں پرمختلف موضوعات پر مشتمل 400000 سے زیادہ کتابیں موجود تھیں ۔سارے شہروں کی گلیاں اورسرائیں رات کو روشنیوں سے لیس تھیں جہاں کبھی اندھیرا نہیں ہوتا تھا۔جبکہ دوسری طرف مغرب کے بڑے شہر لندن،پیرس اندھیروں میں ڈوبے ہوتے تھے۔
اس دور میں متمول سوداگروں، شہزادوں اور خلفاءکے اردگردہمیشہ علم وحکمت کی دنیا کے ماہر،مثلا بڑے بڑے فلاسفر اورسائنسدان ہوتے تھے۔ جس خلفیہ کے پاس یا اردگرد سب سے زیادہ علم وفلسفہ کے ماہر ہوتے تھے ،اسی کی معاشرے میں سب سے زیادہ عزت کی جاتی تھی ۔اس لیے آپ تاریخ پڑھیں تو اپ کو معلوم ہوگاکہ اس وقت بغداد علم و حکمت کی دنیا کا مرکز تھا۔جہاں پر سائنسدان ،علماء اور فلاسفر گھنٹوں،دنوں بلکہ مہنیوں مختلف ڈیروں ، مساجداور کتب خانوں میں سائنس، ریاضی ، طبیعات اورفلسفے پر بحث ومباحثے کرتے ، مقالے لکھتے اور تحقیق کرتے رہتے ۔
عربوں کے سنہری دور میں علم، عقل وشعور،ریشنل چیزوں کو دوسرے مذاہب کی طرح گناہ نہیں تصور کیا جاتا تھا،بلکہ اسلام ان چیزوں کو انسانیت کے لیے ایک بہت ضروری ہتھیار اور اوزار سمجھتا ہے، جن ہتھیاروں کو آپ استعمال کر کے کائنات اور اللہ کی قدرت کو صیح طریقے سے جان اور سمجھ سکتے اسلام نے مسلمانوں کوہمیشہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے بہتر سلوک ، ان کی عزت واحترام ، ان کو برداشت کر نے کا حکم دیتا ہے۔عرب کی اس سوچ نے اس دور میں عرب مملکتوں میں بڑے بڑے جیّد علما، فلسفی اور محقّق پیدا کئے۔ فلسفی اور محقّق عیسائیوں میں بھی پائے جاتے تھے جو مسلمانوں کے ساتھ مل کر منطق، فلسفہ، سائنس کو آگے بڑھاتے تھے ۔ حالانکہ اس وقت علم مختلف زبانوں میں پڑھایااور سکھایا جاتا تھا ۔ لیکن دوسری زبان کی کوئی نئی کتاب یا نئی تحقیق شائع ہوتی تو عربی زبان میں ترجمہ کی جاتی تھی کیونکہ اس دور میں دنیا میں عربی علم وحکمت کی زبان تھی۔ جیسا کہ آج کل انگر یزی ہے۔عربی زبان میں ساری تحقیق جمع ہونے کی وجہ سے علمی سوچ ،دانائی اورحکمت عرب کا اثاثہ بن گئی، جس کی وجہ سے عرب مسلمانوں نے علم اور تحقیق میں شاندار کارنامے سرانجام دیئے ،جس کا پھل آج ساری دنیا کھا رہی ہے۔
علم فلکیات سے نمازوں کے اوقات کا تعین ریاضی میںسب سے بڑی ایجاد 800عیسوی میں ہوئی جب مسلمان ریاضی دان خوارزمی نے ہندسوں کے بارے میںایک چھوٹی سی کتاب لکھی، اس نے ریاضی میں انقلاب برپا کر دیا۔اس نے صفر کاہندسہ ایجاد کیاجو کوئی چیزنہ ہونے کے برابر تھا۔ اس صفرکے ہندسے کی وجہ سے عرب مسلمان چیزوں کا حساب کتاب منٹوں میں لگا لیتے تھے جبکہ یورپ والے رومن ہندسوں سے دنوں، مہینوں میں لگاتے تھے۔ فلکیا ت کوسمجھنے میں ریاضی کا بہت بڑا ہاتھ ہے، ریاضی میں مسلمانوں کو اس وقت بہت دلچسپی تھی۔ نمازوں کے اوقات، کعبہ کی سمت کو جانچنے کے لیے ستاروں کا علم ضروری تھا۔ کعبہ کی سمت ڈھونڈتے ڈھونڈتے مسلمانوں نے فلکیات اورستاروںسے بہت زیادہ علم حاصل کیا۔خاص طور پر زمین کا خط استوا، زمین کا قطر عرب مسلمانوں کی کاوشوں کا مرہون منت ہے۔
مسلمانوں نے سب سے زیادہ تحقیق طبیعات میں کی ۔ 1000 عیسوی میں عرب ڈاکٹروں نے ناک اورکان کی ہڈیاں جوڑیں ، آنکھوں کی جھلّی صاف کی اور زخم صاف کیے۔ان کی مسلسل علمی جدوجہد ، کوششوں اورتجربات سے انسانی جسم کے مختلف اجزاء کو سمجھا اور ان کا علاج دریافت کیا۔اسی سنِ عیسوی میں الرازی نے خسرہ کی بیماری کو دریافت کیا اور اس کا علاج بھی دریافت کیا۔1200عیسوی میں جگر کا سسٹم دریافت کیا۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ آج کی ادویات کا سارا علم مسلمانوں کی کی ہوئی تحقیق وعلم پرمبنی ہے۔ اسلام کا ادویات میں سب سے بڑا فلاسفر ابن سینا تھا، جس نے ادویات کا علم مختلف زبانوں میں، مختلف ممالک سے حاصل کیااور اس کو ایک کتا ب میں جمع کیا ۔یہ کتاب اس وقت ادویات میں پوری دنیا میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتی تھی اور پوری دنیا کے سکولوں ،اوریونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی تھی، بلکہ آج بھی یہ کتاب پاکستان،ایران اور کئی دوسرے ممالک میں میڈسن کے نصاب میں شامل ہے۔
دوسر ی طرف علم کے ساتھ ساتھ مسلمان اس دور کے جدید دواخانے اور ہسپتال چلانے میں بھی ماہر تھے۔1100عیسوی میں بغدادکا الداؤدی ہسپتال دنیا کا سب سے بڑا ، مشہوراور جدید آلات سے لیس ہسپتال تھا ، جہاں پر ڈاکٹر ، حکیم اور میڈسن کے ماہرسینکڑوں بلکہ ہزاروں میلوں کی مسافت طے کر کے آتے اور میڈسن میں پڑھاتے اور تحقیق کرتے تھے۔اسی طرز کا ایک اور ہسپتال قاہرہ میں تھا، جہاں پر ہر قسم کی بیماری کا علاج کیا جاتا تھا۔ یہ ہسپتال 1000 بستروں پر مشتمل تھا جو کہ آج کے ناروے کے سب سے بڑے رکس ہسپتال سے دوگنا بڑا تھا۔عرب مسلمان اس وقت اسی طرح تحقیق کر تے، وہی سا ئنسی طریقے استعمال کرتے تھے جو آج کل مغرب کی یونیورسٹیوں اور ریسرچ سنٹروں میں رائج ہیں ۔1200 عیسوی میں اسپین میں دوبارہ عیسائی حکومت آنے کے بعد عربوں کا علم، تحقیق اور دانش عیسائیوں میں منتقل ہونا شرو ع ہو گئی ۔
پاپائیت ، مولویانہ سوچ اور جنونی سوچ نے مسلمانوں کی ذہنی آزادی پر مختلف طریقے سے پابندی لگانا شروع کردی۔ قرآن کا پیغام جس نے عربوں کو تحقیق اورڈھونڈنے کا تجسّس دیا،نے ساری دنیا کو علم کے خزانے دیئے لیکن اچانک ایک ابھرتی ہوئی مولویانہ سوچ نے ساری تحقیق کو روک دیا ، جس کا خمیازہ آج تک عرب اور مسلمان بھگت رہے ہیں۔ مثلاً گیارہویں صدی میں مسلمانوں کے مذہبی عالموں نے کہنا شروع کر دیاکہ جو آدمی ریاضی کے حساب سے ستاروں یا فلکیات کے متعلق جاننے لگے گا ، وہ دین اسلام سے خار ج ہو جائے گا، بلکہ حساب یا ریاضی ہے ہی ایمان کے خلاف۔
ناروے کے اخبار میں لکھے گئے اس تاریخی آرٹیکل سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ ہم مسلمان آج دنیا میں تیسرے مقام پرکیوں کھڑے ہیں۔مسلمان اس وقت تک دنیا میں چھائے رہے ، جہاں حکومتیں انصاف پر مبنی ہوتی تھیں ، جہاں وہ اہلیت اورعلم کو سب سے آگے رکھتے تھے۔ لیکن اگر آپ آج کل کے مسلم معاشرے پر نظر دوڑائیں تو سوائے مایوسیوں اور نا انصافیوں کے کچھ نظر نہیں آئے گا۔مسلم حکومتوں سے لے کر ، سماجی اداروں ، دینی اداروں اور معاشرے میں ہر طرف بے راہ روی اور غلط نظام کا دور دورہ ہے۔ جہاں عام لوگوں کو کچھ نہیں ملتا۔جہاں ہمیشہ صرف ایک مخصوص طبقہ ، اپنی منافقت، جھوٹ ، فوج، کالے قانون اور ڈنڈے کے زور پر وسائل پر قابض ہے۔ عام لوگوں ، عوام کو کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ یہ کیا ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ نا اہل قیادت، نااہل مشاورت، نااہل امامت اور تماش بین سیاست نے مسلمان معاشرے ، ملکوں اور اداروں کو تباہی و بربادی کے مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔
کسی دور میں علامہ اقبال نے مسلمانوں سے کہا تھا
سبق پھر پڑھ ، صداقت کا، شجاعت کا ، عدالت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
اور آج حالت یہ ہے کہ
سبق پڑھ ، ذاتی مفاد پرستی کا ، لالچ کا، نفاقت کا ، منافقت کا
تو لے گا کا م زبردستی مسلم ملکوں کی ، اداروں کی اما مت کا 800 عیسوی میں خلیفہ مشہورالمنصور نے بغداد کی بنیاد رکھی ۔جہاںپر عرب سائنسی بنیادوں پر مختلف مضامین میں ریسرچ کرتے ۔وہ یونانی علم، فلسفے کے تراجم عربی میں کرتے تھے اور پھر ان کواپنی قوم وعوام میں فروغ دیتے۔ انہی تراجم نے عرب کو علم و حکمت میں شاندار کارکردگی کی بنیاد فراہم کی ۔ یہ سارا علم یونانی سوچ کے عین مطابق تھا ، ان علوم کے ساتھ قرآن کی سمجھ اور اس کی ترقی پسند تشریح نے عالم انسانیت کی بھلائی کے لیے علم و دانش کی نئی راہیں کھول دیں ۔یہ قرآن ہی کہتا ہے کہ انسانو جاؤ، اللہ کی زمین میں فکرو تدّبر کرو، سوچواور ڈھونڈو کہ رب تعالیٰ نے تمھارے لیے کیا کیا اورکون کون سے خزانے کائنات میں چھپا رکھے ہیں۔
کھنڈر بتا رہے کہ عمارت عظیم تھی
یہ عمارت کیسے عظیم بنی تھی اس کا ذکر پچھلے دنوں نارویجن رسالے الستریٹنے وتین سکاپ میں بڑی خوش اسلوبی سے شائع کیا۔ اس رسالے میں دیئے گئے اس تحقیقی مضمون سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کی علم وحکمت میں کی ہوئی کاوشوں کو اہل مغرب کتنا اہم مقام دیتے ہیں۔، ملاحظہ ہو آج کا مغرب عرب دنیا کو بنیاد پرستی سے منسوب کرتا ہے، لیکن ازمنہ وسطیٰ میں مغرب جب اندھیروں میں ڈوباہوا تھاتو اس وقت عرب علم و حکمت کا مرکز تھا۔ان کے نئے دین اسلام نے ان کو راغب کیا کہ وہ اللہ کی بنائی ہوئی کائنات کو سمجھیں۔
گیارہ سو عیسوی کے دوران ایک عرب طبیب کو عیسائی پادری نے اپنے خیمے میں بلا کر گھڑسوار کا علاج کرنے کو کہا ، جس کی ٹانگ پر ایک پھوڑا تھا ۔ عرب طبیب کے علاج سے جونہی مریض کو بہتری محسوس ہونا شروع ہوئی ، ایک فرانسیسی ڈاکٹر خیمے میں داخل ہوا، اس نے عرب طبیب کو ایک طرف دھکیل کر مریض سے مخاطب ہو کر پوچھا ؟ تمھارے لیے کیا بہترہے، ایک ٹانگ سے زندہ رہنا یا دو کے ساتھ مر نا؟ اور سا تھ ہی ایک بھاری ہتھو ڑے سے اس کی ٹانگ پر و ار کیا لیکن ایک وار سے کام نہ چلا۔دوسرے فیصلہ کن وار سے مریض کی ٹا نگ سے خون کے پھوارے پھوٹ پڑے اور وہ موقع پر ہلاک ہوگیا۔عربی طبیب جھنجلاکر خیمے سے با ہر نکل گیا اور بو لایہ ہے عیسائیوں کا علم اوران کی طبی صلاحتیں۔یہ ایک واقعہ ہی مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان پایا جانے والا فرق ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے۔
قرآن سب سے زیادہ زور علم،تحقیق اور کائنات کوجانچنے اورسمجھنے پر دیتاہے۔آج کامغرب عرب اور مسلمان دنیاکو قدامت پسندی اور مذہبی جنونیت سے تعبیر کرتا ہے۔
لیکن جب نویں صدی میں پورا یورپ جہالت کے اندھیروں میں چھپاہواتھا۔اس وقت عرب علم وحکمت، دانش کا مرکزتھا۔یاد رکھیے کہ آج کی دنیا کی تحقیق اورعلم اس وقت کی عربوں کی ہوئی تحقیق پر مبنی ہے۔
پانچویں چھٹی عیسوی میں عیسایوں اورمسلمانوں میں زبردست قسم کی سردجنگ جاری تھی ۔دونوں تہذیبیں ایک دوسرے کو گنوار، جا ہل اور حقیقی دنیا سے دور سمجھتی تھیں۔یورپ میں عرب کے بارے میں یہ مفروضہ تھا کہ وہ وحشی درندے ہیں، جبکہ عرب والے یورپ کے لوگوں کو ظالم انسانوں سے تعبیر کرتے تھے۔دونوں اطراف کے ایک دوسرے پر الزامات کافی حد تک غلط تھے،لیکن مسلمانوں نے جو مغرب کی تصویر کشی کی تھی وہ سچائی کے زیادہ قریب تھی۔
گیارہویں صدی عیسوی میں عرب مسلمان دنیا میں اپنے علم، طاقت، ثقافت کی بنا پر چھائے ہوے تھے۔ اسلام اس دور میں عرب سے لیکر ،شمالی افریقہ اور شمالی افریقہ سے لیکر یورپ تک پھیلاہوا تھا۔ےہ سنہری دور 900عیسوی سے لیکر 1300 تک جاری رہا۔ اس دور میں عرب سویلسیشن انتہائی ترقی یافتہ ، انتہائی ماڈرن اور سائنسی علوم پر مشتمل تھی ۔ یہ عرب ہی تھے جنھوں نے آج کی دنیا کے ہر علم کا پہلا دروازہ کھولا۔
پانچویں، چھٹی عیسوی میں علم صرف چرچ بالخصوص عیسائی پادریوں تک ہی محدود تھا ۔پادری علم کو عام انسان کے لیے شجر ممنوعہ قرار دیتے تھے ، لیکن دوسری طرف عرب مسلمانوں میں علم عام آدمی میں فروغ پارہا تھا ۔ اس وقت مسلمانوں نے طبعیات، ریاضی ، فلکیات اور کیمیا میں نئی راہیں ایجاد کیں۔ جن سے آج سارا مغرب اور پوری دنیا استفادہ کر رہی ہے، لیکن یہ الگ بات ہے کہ مغرب اپنے روایتی تعصّب کے باعث اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ عرب والوں کا علم 900عیسوی میں پوری آب وتاب سے چمکا، اس علم کی وجہ سے مسلمان ایک چھوٹے سے جزیرے لیکر مشرق میں دریائے سندھ اور مغرب میں شمالی اسپین تک جا پہنچے۔
مسلمانوں نے یہ حکومتیں جنگوں سے یا ہتھاروں سے نہیں جیتیں بلکہ ان کے پاس سب سے بڑا ہتھار اسلام میں علم کی اہمیت اور اسلام کی ثقافت کے فروغ میں تھا۔ دوسرے مذاہب کے برعکس اسلام ذات پات سے پاک ، امیر غریب کی تمیز سے مبرا اور انصاف پر مبنی ایک نظام تھا۔اسلام کے اس نظام میں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو عزت وحترام دیا جاتاتھا، ان کی بات سنی جاتی تھی ۔ لیکن اس وقت کے عیسائی دوسری سوچ رکھنے والے اور دوسرے مذاہب ماننے والوںکو سزائیں دیتے تھے بلکہ وہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو آگ میں ڈال دیتے تھے۔
جب طارق بن زیاد نے 711عیسوی میں اسپین میں قدم رکھا تو وہ بہت حیران ہوا کہ مقامی لوگوں نے کو ئی خاص مزاحمت نہ کی، کیونکہ مقامی لوگ اس وقت عیسائی مذہب ماننے والوں کے ظلم وستم سے تنگ آچکے تھے بلکہ بعض جگہ مسلمان فوج کو بڑی گرم جوشی سے خوش آمدید کہا گیا۔اسپین کی فتح نے مسلمانوں کی ترقی اورتجارت کے لیے نئی راہیں کھول دیں۔جس کی وجہ سے عرب معاشرہ میں دینی ودنیوی علوم کا تیزی سے فروغ ہونے لگا۔
مسلمانوں کے دور حکومت میں جنوبی اسپین کا علاقہ قر طبہ دنیا کا سب سے خوبصورت اور مثالی علاقہ تھا، 950 عیسوی میں یہ علاقہ 500000 نفوس پر مشتمل تھا ۔ اس علاقہ میں اس وقت 600 مساجد،ان گنت سرکاری غسل خانے ،اوران گنت کتب خانے (لائبریریاں)تھے، جس میں سب سے بڑی لائبریری خلیفہ کی تھی جہاں پرمختلف موضوعات پر مشتمل 400000 سے زیادہ کتابیں موجود تھیں ۔سارے شہروں کی گلیاں اورسرائیں رات کو روشنیوں سے لیس تھیں جہاں کبھی اندھیرا نہیں ہوتا تھا۔جبکہ دوسری طرف مغرب کے بڑے شہر لندن،پیرس اندھیروں میں ڈوبے ہوتے تھے۔
اس دور میں متمول سوداگروں، شہزادوں اور خلفاءکے اردگردہمیشہ علم وحکمت کی دنیا کے ماہر،مثلا بڑے بڑے فلاسفر اورسائنسدان ہوتے تھے۔ جس خلفیہ کے پاس یا اردگرد سب سے زیادہ علم وفلسفہ کے ماہر ہوتے تھے ،اسی کی معاشرے میں سب سے زیادہ عزت کی جاتی تھی ۔اس لیے آپ تاریخ پڑھیں تو اپ کو معلوم ہوگاکہ اس وقت بغداد علم و حکمت کی دنیا کا مرکز تھا۔جہاں پر سائنسدان ،علماء اور فلاسفر گھنٹوں،دنوں بلکہ مہنیوں مختلف ڈیروں ، مساجداور کتب خانوں میں سائنس، ریاضی ، طبیعات اورفلسفے پر بحث ومباحثے کرتے ، مقالے لکھتے اور تحقیق کرتے رہتے ۔
عربوں کے سنہری دور میں علم، عقل وشعور،ریشنل چیزوں کو دوسرے مذاہب کی طرح گناہ نہیں تصور کیا جاتا تھا،بلکہ اسلام ان چیزوں کو انسانیت کے لیے ایک بہت ضروری ہتھیار اور اوزار سمجھتا ہے، جن ہتھیاروں کو آپ استعمال کر کے کائنات اور اللہ کی قدرت کو صیح طریقے سے جان اور سمجھ سکتے اسلام نے مسلمانوں کوہمیشہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے بہتر سلوک ، ان کی عزت واحترام ، ان کو برداشت کر نے کا حکم دیتا ہے۔عرب کی اس سوچ نے اس دور میں عرب مملکتوں میں بڑے بڑے جیّد علما، فلسفی اور محقّق پیدا کئے۔ فلسفی اور محقّق عیسائیوں میں بھی پائے جاتے تھے جو مسلمانوں کے ساتھ مل کر منطق، فلسفہ، سائنس کو آگے بڑھاتے تھے ۔ حالانکہ اس وقت علم مختلف زبانوں میں پڑھایااور سکھایا جاتا تھا ۔ لیکن دوسری زبان کی کوئی نئی کتاب یا نئی تحقیق شائع ہوتی تو عربی زبان میں ترجمہ کی جاتی تھی کیونکہ اس دور میں دنیا میں عربی علم وحکمت کی زبان تھی۔ جیسا کہ آج کل انگر یزی ہے۔عربی زبان میں ساری تحقیق جمع ہونے کی وجہ سے علمی سوچ ،دانائی اورحکمت عرب کا اثاثہ بن گئی، جس کی وجہ سے عرب مسلمانوں نے علم اور تحقیق میں شاندار کارنامے سرانجام دیئے ،جس کا پھل آج ساری دنیا کھا رہی ہے۔
علم فلکیات سے نمازوں کے اوقات کا تعین ریاضی میںسب سے بڑی ایجاد 800عیسوی میں ہوئی جب مسلمان ریاضی دان خوارزمی نے ہندسوں کے بارے میںایک چھوٹی سی کتاب لکھی، اس نے ریاضی میں انقلاب برپا کر دیا۔اس نے صفر کاہندسہ ایجاد کیاجو کوئی چیزنہ ہونے کے برابر تھا۔ اس صفرکے ہندسے کی وجہ سے عرب مسلمان چیزوں کا حساب کتاب منٹوں میں لگا لیتے تھے جبکہ یورپ والے رومن ہندسوں سے دنوں، مہینوں میں لگاتے تھے۔ فلکیا ت کوسمجھنے میں ریاضی کا بہت بڑا ہاتھ ہے، ریاضی میں مسلمانوں کو اس وقت بہت دلچسپی تھی۔ نمازوں کے اوقات، کعبہ کی سمت کو جانچنے کے لیے ستاروں کا علم ضروری تھا۔ کعبہ کی سمت ڈھونڈتے ڈھونڈتے مسلمانوں نے فلکیات اورستاروںسے بہت زیادہ علم حاصل کیا۔خاص طور پر زمین کا خط استوا، زمین کا قطر عرب مسلمانوں کی کاوشوں کا مرہون منت ہے۔
مسلمانوں نے سب سے زیادہ تحقیق طبیعات میں کی ۔ 1000 عیسوی میں عرب ڈاکٹروں نے ناک اورکان کی ہڈیاں جوڑیں ، آنکھوں کی جھلّی صاف کی اور زخم صاف کیے۔ان کی مسلسل علمی جدوجہد ، کوششوں اورتجربات سے انسانی جسم کے مختلف اجزاء کو سمجھا اور ان کا علاج دریافت کیا۔اسی سنِ عیسوی میں الرازی نے خسرہ کی بیماری کو دریافت کیا اور اس کا علاج بھی دریافت کیا۔1200عیسوی میں جگر کا سسٹم دریافت کیا۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ آج کی ادویات کا سارا علم مسلمانوں کی کی ہوئی تحقیق وعلم پرمبنی ہے۔ اسلام کا ادویات میں سب سے بڑا فلاسفر ابن سینا تھا، جس نے ادویات کا علم مختلف زبانوں میں، مختلف ممالک سے حاصل کیااور اس کو ایک کتا ب میں جمع کیا ۔یہ کتاب اس وقت ادویات میں پوری دنیا میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتی تھی اور پوری دنیا کے سکولوں ،اوریونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی تھی، بلکہ آج بھی یہ کتاب پاکستان،ایران اور کئی دوسرے ممالک میں میڈسن کے نصاب میں شامل ہے۔
دوسر ی طرف علم کے ساتھ ساتھ مسلمان اس دور کے جدید دواخانے اور ہسپتال چلانے میں بھی ماہر تھے۔1100عیسوی میں بغدادکا الداؤدی ہسپتال دنیا کا سب سے بڑا ، مشہوراور جدید آلات سے لیس ہسپتال تھا ، جہاں پر ڈاکٹر ، حکیم اور میڈسن کے ماہرسینکڑوں بلکہ ہزاروں میلوں کی مسافت طے کر کے آتے اور میڈسن میں پڑھاتے اور تحقیق کرتے تھے۔اسی طرز کا ایک اور ہسپتال قاہرہ میں تھا، جہاں پر ہر قسم کی بیماری کا علاج کیا جاتا تھا۔ یہ ہسپتال 1000 بستروں پر مشتمل تھا جو کہ آج کے ناروے کے سب سے بڑے رکس ہسپتال سے دوگنا بڑا تھا۔عرب مسلمان اس وقت اسی طرح تحقیق کر تے، وہی سا ئنسی طریقے استعمال کرتے تھے جو آج کل مغرب کی یونیورسٹیوں اور ریسرچ سنٹروں میں رائج ہیں ۔1200 عیسوی میں اسپین میں دوبارہ عیسائی حکومت آنے کے بعد عربوں کا علم، تحقیق اور دانش عیسائیوں میں منتقل ہونا شرو ع ہو گئی ۔
پاپائیت ، مولویانہ سوچ اور جنونی سوچ نے مسلمانوں کی ذہنی آزادی پر مختلف طریقے سے پابندی لگانا شروع کردی۔ قرآن کا پیغام جس نے عربوں کو تحقیق اورڈھونڈنے کا تجسّس دیا،نے ساری دنیا کو علم کے خزانے دیئے لیکن اچانک ایک ابھرتی ہوئی مولویانہ سوچ نے ساری تحقیق کو روک دیا ، جس کا خمیازہ آج تک عرب اور مسلمان بھگت رہے ہیں۔ مثلاً گیارہویں صدی میں مسلمانوں کے مذہبی عالموں نے کہنا شروع کر دیاکہ جو آدمی ریاضی کے حساب سے ستاروں یا فلکیات کے متعلق جاننے لگے گا ، وہ دین اسلام سے خار ج ہو جائے گا، بلکہ حساب یا ریاضی ہے ہی ایمان کے خلاف۔
ناروے کے اخبار میں لکھے گئے اس تاریخی آرٹیکل سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ ہم مسلمان آج دنیا میں تیسرے مقام پرکیوں کھڑے ہیں۔مسلمان اس وقت تک دنیا میں چھائے رہے ، جہاں حکومتیں انصاف پر مبنی ہوتی تھیں ، جہاں وہ اہلیت اورعلم کو سب سے آگے رکھتے تھے۔ لیکن اگر آپ آج کل کے مسلم معاشرے پر نظر دوڑائیں تو سوائے مایوسیوں اور نا انصافیوں کے کچھ نظر نہیں آئے گا۔مسلم حکومتوں سے لے کر ، سماجی اداروں ، دینی اداروں اور معاشرے میں ہر طرف بے راہ روی اور غلط نظام کا دور دورہ ہے۔ جہاں عام لوگوں کو کچھ نہیں ملتا۔جہاں ہمیشہ صرف ایک مخصوص طبقہ ، اپنی منافقت، جھوٹ ، فوج، کالے قانون اور ڈنڈے کے زور پر وسائل پر قابض ہے۔ عام لوگوں ، عوام کو کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ یہ کیا ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ نا اہل قیادت، نااہل مشاورت، نااہل امامت اور تماش بین سیاست نے مسلمان معاشرے ، ملکوں اور اداروں کو تباہی و بربادی کے مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔
کسی دور میں علامہ اقبال نے مسلمانوں سے کہا تھا
سبق پھر پڑھ ، صداقت کا، شجاعت کا ، عدالت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
اور آج حالت یہ ہے کہ
سبق پڑھ ، ذاتی مفاد پرستی کا ، لالچ کا، نفاقت کا ، منافقت کا
تو لے گا کا م زبردستی مسلم ملکوں کی ، اداروں کی اما مت کا 800 عیسوی میں خلیفہ مشہورالمنصور نے بغداد کی بنیاد رکھی ۔جہاںپر عرب سائنسی بنیادوں پر مختلف مضامین میں ریسرچ کرتے ۔وہ یونانی علم، فلسفے کے تراجم عربی میں کرتے تھے اور پھر ان کواپنی قوم وعوام میں فروغ دیتے۔ انہی تراجم نے عرب کو علم و حکمت میں شاندار کارکردگی کی بنیاد فراہم کی ۔ یہ سارا علم یونانی سوچ کے عین مطابق تھا ، ان علوم کے ساتھ قرآن کی سمجھ اور اس کی ترقی پسند تشریح نے عالم انسانیت کی بھلائی کے لیے علم و دانش کی نئی راہیں کھول دیں ۔یہ قرآن ہی کہتا ہے کہ انسانو جاؤ، اللہ کی زمین میں فکرو تدّبر کرو، سوچواور ڈھونڈو کہ رب تعالیٰ نے تمھارے لیے کیا کیا اورکون کون سے خزانے کائنات میں چھپا رکھے ہیں۔
No comments:
Post a Comment