تحریر: رؤف پپا بریار
ڈیگال نے نے کہا تھا قسمت ہمیشہ بہادر ملاحوں کا ساتھ دیتی ہے۔افغانستان میں جوں جوں ناٹوفورسزکےخلاف طالبان کی مزاحمت میں تیزی ارہی ہے توں توں پاکستان میں امریکی سرگرمیوں کا دائرہ کار وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔پاکستان اور سوات میں موجود شر پسندوں کے درمیان جس روز جنگی رسہ کشی کا آغاز ہوا تو اس وقت مغربی دنیا نے اپنے سفارتی عملے میں کمی کردی مگر حیرت تو یہ ہے کہ جب مغرب سفارتی عملے کی تعداد میں کمی کررہا تھا اسی روز امریکہ نے اپنے عملے اور ایجنٹوں کی تعداد میں اضافہ کردیا۔
امریکیوں کی پراٍسرار سرگرمیاں اہل وطن کو مضطرب کرردیتی ہیں۔ اٍنٹرنیٹ پر حال ہی میں شائع ہونے والی رپورٹ نے مزید خدشات کو ہوا دی۔ وائٹ ہاوس نے امریکی کانگرس سے پاکستان میں نئے سفارت خانے کی تعمیر کے لئے736 ملین ڈالر کی رقم طلب کی ہے ۔اٍنٹرنیٹ پر ریلیز ہونے والی امریکن رپورٹ کا نامIRAQ REDUX ہے جس میں درج ہے کہ اوبامہ سرکار نے جنوبی ایشیا میں اپنے طویل جنگی منصوبوں کے لئے اٍسلام اباد میں سپر ایمبیسی قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
نیو امریکی منصوبے میں ملازمین و امریکی وفود کے لئے محلات سے لگا کھانے والی رہائش گاہیں بھی تعمیر ہونگی۔ سفارتی ذرائع سپر ایمبیسی کو بغداد میں قائم موجودہ امریکی سفارت خانے کی دوسری کاپی کا درجہ دے رہے ہیں۔ یوں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ امریکہ نئی ایمبیسی بنا کر پاکستانی دار الخلافے میں نئی ریاست قائم کررہا ہے جہاں پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کی تمام امریکہ مخالف ریاستوں کے امور نپٹائے جائیں گے۔
وائٹ ہاوس نے توضیح کرتے ہوئے کہا کہ نئے سفارت خانے میں بیٹھ کر وہ اٍسلام اباد اور کابل کے سفارت خانوں کی سیکیورٹی کو مضبوط بنا کر شورش زدہ علاقوں میں دہشت گردوں سے نمٹیں گے۔امریکی پشاور میں فائیو سٹار ہوٹل کی خرید یا فوری تعمیر کے لئے بڑے بیقرار ہیں اٍس ہوٹل کو امریکی قونصلیٹ کا درجہ دیا جائے گا۔ امریکن پارلیمنٹ اٍس مقصد کے لئے ڈالروں کی منظوری دے چکے ہیں۔ اوبامہ اور امریکن پالیسی ساز طویل عرصے سے یہ لاف زنی کررہے ہیں کہ طالبان کی سرگرمیوں سے افغانستان اور پاکستان غیر مستحکم ہوجائیں گے جس کے لئے امریکہ کے سیکیورٹی خدشات میں اضافہ ہوجائے گا۔
اس دلیل کی آڑ میں افغانستان میں نئے فوجی دستے روانہ کئے گئے اور پاکستان میں سپر ایمبیسی کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ یہ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب پاکستانی اور افغانی امریکہ سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ امریکہ پاکستان میں اپنے پاوں پھیلا رہا ہے تاکہ وہ اپنے حلیف ملکوں کے تعاون سے جنوبی ایشیا میں اپنے مفادات کے ثمرات حاصل کریں۔ دانشور طبقہ سپر ایمبیسی کو عراق کا ری ایکشن پلے کہتے ہیں۔
سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ واشنگٹن کی پریس ریلیز میں منصوبے کے خدوخال بیان کئے گئے ہیں کہ اس پراجیکٹ پر تیزی سے کام شروع ہوگا اور مجموعی طور پر ایک سو گیارہ ملین ڈالر کی رقم سے تین سو ملازمین کے لئے دفاتر و علحیدہ ونگ تعمیر ہونگے۔ سپر ایمبیسی میں156 مستقل اور80 عارضی یونٹ بھی تعمیر کئے جائیں گے جن پر197 ملین ڈالر خرچ کئے جائیں گے۔450 ملین ڈالر کی خطیر رقم منتقلی کے کاموں پر صرف ہوگی۔
امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے نیویارک ٹائمز کو اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ پشاور میں پرل کانٹینیٹل ہوٹل کی خرید کے لئے امریکہ اور مالک کے درمیان بات چیت جاری ہے۔ پشاور میں ہمیشہ تین امریکی اہلکار ڈیوٹی دیتے تھے مگر اب یہ تعداد تین ہندسوں کو کراس کرچکی ہے۔ پشاور سرحدی علاقوں، قبائلی خطے اور افغانستان کے نزدیک ہے۔ اسی لئے امریکہ پشاور کو ترجیح دے رہا ہے۔
مجموعی طور پر امریکہ پاکستان میں نئے سفارتی مشن پر806 ملین ڈالر کی رقم خرچ کررہا ہے۔سینیٹر جوناتھن کا کہنا ہے کہ ہم پاکستان میں اپنے مقاصد کی تلاش کے لئے کسی ایسے پلیٹ فارم کے متمنی ہیں جہاں بیٹھ کر ہم بلا حیل و حجت اپنے سفارتی مشن کو مکمل کرسکیں۔وائٹ ہاوس نے پاکستان کی طرح کابل کو بھی نئے سپر سفارت خانے کا تحفہ دے رہا ہے جو پچاس ایکڑ پر محیط ہوگا جس پر87 ملین ڈالر خرچ ہونگے اور اسی کارخیر کے لئے امریکی ایوان نمائندگان نے دس ملین ڈالر کی رقم حکومتی اداروں کے حوالے کرچکے ہیں۔
عراق و افغانستان میں امریکہ کھربوں ڈالر جنگی جہنم کے ایندھن کے طور پر استعمال کرچکا ہے جس نے امریکی ریاست کے مضبوط ترین اقتصادی و مالیاتی نظام کی بنیادوں کو لرزا دیا مگر اٍس سب کے باوجود امریکہ پاکستان اور کابل میں نئے سفارت خانوں پر دھڑا دھڑ رقم فکس کرچکا ہے۔ یوں قرائن سے صاف الم نشرح ہے کہ امریکہ کے شاطر و یہودی مالیاتی فلاسفروں نے جنگی نقصان کو بھی جنوبی ایشیا کے خون سے نچوڑنے کا پروگرام فائنل کئے ہوئے ہے۔
جنرل مشرف نے امریکی عشق میں قبائلی علاقوں میں آئی ایس آئی کو محدود کرکے امریکی ایجنسیوں کو کھل کھیلنے کا موقع دیا تھا۔ بے حمیت مشرف کا شروع کردہ شیطانی کھیل ہماری سلامتی کے لئے سرخ فیتہ بن گیا۔ امریکہ پاکستانی فوج کو اپنے ہی ملک میں الجھانے کی خواہش رکھتا ہے تاکہ بھارت کو چین کے مقابل کھڑا کیا جاسکے۔
ان مشکلات کے نازک ترین دور میں پوری قوم کا فرض ہے کہ وہ ایک طرف سواتی مہاجرین کے ساتھ مالی و اخلاقی تعاون کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہ کرے تو دوسری طرف سترہ کڑوڑ پاکستانیوں کو حکومت اور پاک فوج کی حمایت کا نعرہ بلند کرے تاکہ جتنی جلدی ممکن ہو ریاست کو دہشت گردوں سے پاک کردیا جائے۔آخر میں سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر امریکی پاکستان میں نئی ایمبیسی کیوں قائم کرنا چاہتا ہے؟ فائیو سٹار ہوٹلوں میں قونصلیٹ کیوں بنائے جارہے ہیں؟اگر عسکریت پسندی نئے سفارتی مشنوں یا قونصلیٹوں سے ختم ہوجاتی تو پھر نائن الیون کے فوری بعد انکی تعمیر کیوں نہ ہوئی؟
ڈیگال نے کہا تھا کہ بہادر، بینا اور بصیرت افروز وہ ہے جو حقائق کو تسلیم کرنے میں کسی عجلت کا سہارا نہیں لیتا۔ ارباب اختیار ڈیگال کے جملے کی روشنی میں مندرجہ بالا سوالات کے سچے جوابات تلاش کرے اور سپر سفارتی مشن کے پس چلمن مقاصد کو بے نقاب کرے۔ کیا ایسی سازشوں،سفارتی مشنوں کے ذریعے امریکہ کی صہیونی لابی ہمارے جوہری اثاثوں کو جھٹکے دینے کا پروگرام تو فائنل نہیں کرسکی۔حکمران بہادر بنیں اور امریکہ کے نئے سفارتی مشن کے منصوبوں پر پابندی عائد کردے۔ ویسے یاد رکھنے کی بات تو یہ ہے کہ قسمت ہمیشہ بہادروں کا ساتھ دیتی آئی ہے۔ شائد اسی لئے ڈیگال نے یہ بصیرت آموز جملہ کہا تھا کہ سمندر کی بھپری ہوئی لہریں ہمیشہ بہادروں کا ساتھ دیتی ہیں۔
No comments:
Post a Comment