Sunday, June 28, 2009

امریکہ ٹوٹنے کے قریب



تحریر: محمد حنیف مسرور

اسلام مخالف جنگوں اور معاشی بد حالی کے نتائج



کئی ریاستیں ہمسایہ ممالک میں ضم ہونے کو تیار

امریکی و مغربی ذرائع ابلاغ کی رپورٹیں

امریکہ اور اسکے حاشیہ بردار ممالک، تھنک ٹینک ادارے اور شخصیات ایک عرصہ سے
پاکستان کیخلاف ایک پراپیگنڈہ وار یا نفسیاتی مہم چلا رہے ہیں۔ مختلف رپورٹوں اور بیانات میں تواتر سے یہ پیشین گوئیاں کی جارہی ہیں کہ پاکستان معاذاللہ بس چند دن یا چند برسوں کا مہمان ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان دنیا کے دو غیر فطری ممالک ہیں۔ کبھی ایسے نقشہ جات تیار کیے جاتے ہیں جن میں ان ممالک کو دوسرے ممالک میں ضم یا مدغم ہوتے دکھایا جاتا ہے۔

آجکل پاکستان کیخلاف اس پراپیگنڈہ وار میں انتہائی شدت آچکی ہے۔ پاکستان کے کسی بھی علاقے میں تھوڑی سی بھی بے چینی پیدا ہوجائے تو تو اسے ایک خوفناک طوفان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ بے چینی بھی اسی دشمن کی اپنی پیدا کردہ ہوتی ہے۔

اس سارے قضیے میں یہ بات حیران کن ہے کہ ان کافر طاقتوں خصوصاً امریکہ کو اپنی ناک کے عین نیچے دیکھنا گوارا نہیں ہے۔

اگر کوئی یہ کہے کہ امریکہ آئندہ برسوں یا 2025ء تک ٹوٹ جائیگا یا اسکی ریاستیں بکھر کر الگ ہوجائیں گی، یونائیٹڈ سٹیٹس میں یونائیٹڈ تو کیا امریکہ کا لفظ بھی نہیں بچے گا تو اس بات کو ایک دیوانے کی بڑ سے زیادہ نہیں سمجھا جائیگا۔

حقیقت یہ ہے کہ روس کے ٹوٹنے سے ایک دن پہلے تک بھی لوگوں کو یہ یقین نہ تھا کہ روس ٹوٹ جائیگا۔ وہ سوچتے تھے کہ اگر روس ٹوٹا بھی تو اسے ابھی کئی سو سال لگیں گے اور مستقبل قریب میں اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے۔

لیکن پھر دنیا نے دیکھا کہ ہفتوں مہینوں میں ہی روس کا نقشہ بدل گیا۔ اسکی کوکھ سے چودہ مسلم ریاستوں نے جنم لیا اور یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلک (USSR) میں صرف R یعنی روس یا رشیا رہ گیا۔

آج یہاں ہم حقائق پیش کرکے دنیا کو امریکہ میں تیزی سے ہونیوالی شکست و ریخت کا آئینہ دکھائیں گے۔

یہ بھی خیال رہے کہ ہم یہاں امریکہ کی تازہ معاشی بدحالی کے حوالے سے رپورٹیں پیش نہیں کر رہے۔ اگرچہ کہ یہ بدحالی بھی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اربن انسٹیٹیوٹ کی تازہ رپورٹ کیمطابق امریکہ میں عورتوں اور بچوں سمیت 35لاکھ شہری سڑکوں پر سوتے ہیں۔ رپورٹ کیمطابق امریکہ میں 35لاکھ شہری بے گھر ہیں۔ ان میں ساڑھے تیرہ لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔ صرف نیویارک میں 37ہزار افراد جن میں 16 ہزار بچے بھی شامل ہیں، روزانہ مارکیٹوں کے چھجوں کے نیچے سونے پر مجبور ہیں۔ اس سے پہلے امریکہ کی انتہائی دگرگوں معاشی صورتحال کے بارے میں یہ رپورٹیں منظر عام پر آچکی ہیں کہ کس طرح امریکہ کے برے بڑے بینک دیوالیہ ہوچکے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔

لیکن اس تمام خطرناک معاشی صورتحال سے قطع نظر آئیے دیکھیں کہ سیاسی طور پر امریکی ریاستوں میں کیسی خوفناک صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ دنیا کیلئے (اگرچہ کسی ملک کی تباہی کیلئے یہی واحد عنصر کافی ہوتا ہے جیسا کہ روس کیساتھ ہوا) یہ بات کس قدر حیرتناک ہوگی کہ ایک جانب امریکہ دنیا بھر میں مختلف اقوام اور ممالک کی آزادی چھیننے کیلئ فوجی کاروائیوں میں ملوث ہے تو دوسری جانب خود امریکہ میں ایسے درجنوں گروپ اور جماعتیں قائم ہوچکی ہیں جو امریکہ سے اپنی ریاستوں کی مکمل آزادی کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ اس سلسلے مین کئی جماعتوں نے امریکی وفاقی حکومت کے غیر معمولی اختیارات کے خاتمے اور امریکی ریاستوں کی مکمل آزادی اور علیحدگی کا حق دینے کیلئے قانون سازی کا مطالبہ کیا ہے۔

ان تنظیموں کا مؤقف یہ ہے کہ امریکہ کی وفاقی حکومت انکی ریاست سے جو ٹیکس وصول کرتی ہے اسکا بہت ہی کم حصہ ریاست کی فلاح و بہبود پر خرچ کرتی ہے جبکہ امریکی حکومت امریکی عوام کے ٹیکسوں کی آمدنی سے دنیا کے مختلف حصوں میں جو بھی فوجی کاروائیاں کررہی ہے اس کا بوجھ ٹیکسوں کی شکل میں امریکی عوام پر ہے اور انھیں شدید معاشی و اقتصادی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ایک امریکی مصنف جیرڈ ڈائمنڈ نے اپنی کتاب (The Collaps زوال) میں امریکہ میں علیحدگی پسند رحجانات کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اامریکہ میں سیاسی ٹوٹ پھوٹ شروع ہو گئی ہے اور امریکہ آئندہ پانچ سے دس سالوں میں سوویت یونین کی طرح بکھر جائیگا۔ جیرڈ ڈائمنڈ نے اسکی چار بڑی وجوہ بیان کی ہیں جن میں سرفہرست اقتصادی وجوہات ہیں۔ جیرڈ ڈائمنڈ کا کہنا ہے کہ امریکہ اقتصادی طور پر کھوکھلا ہوچکا ہے اور اسکی معیشت مندی کا شکار ہے۔ اسکی سرحدیں وسیع ہوچکی ہیں اور وہ اپنی ریاستی حدود میں مزید توسیع کیلئے وہی غلطیاں دہرا رہا ہے جو اس سے پہلے تباہ ہونیوالی سلطنتوں نے کیں۔

امریکی حکومت دنیا بھر میں ہونیوالی فوجی کاروائیوں میں ملوث ہے اور اسکے بجٹ کا ایک بڑا حصہ فوجی اخراجات پر مشتمل ہے۔ امریکی عوام شدید اقتصادی مشکلات کا شکار ہیں۔ انھیں ناانصافی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سمیت بدترین اقتصادی پریشانی کا سامنا ہے۔ لیکن ایلیٹ کلاس یعنی طبقہ اشرافیہ کو انکی کوئی پرواہ نہیں۔

امریکی سکالر اور کئی کتب کے مصنف کرک پیٹرک سیل نے اپنی کتاب

The Collapse of American Empire



پیٹرک سیل نے لکھا کہ اسوقت امریکی اداروں کا شمار دنیا کے انتہائی بدعنوان اداروں میں ہوتا ہے۔ عوام انصاف کے حصول کیلئے ترس رہے ہیں اور ساری دنیا کو انسانی حقوق کا درس پڑھانے والا امریکہ خود اپنے عوام کے بنیادی حقوق غصب کرنے کیلئے قانون سازی کررہا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ امریکہ کی صنعتی ترقی نمائشی ہے کیونکہ اسکی مجموعی قومی پیداوار میں صنعت کا حصہ صرف 13 فیصد ہے۔ امریکہ کو 13 ارب ڈالر کے خسارے کا سامنا ہے۔ اب وہ چین سے 83 ارب ڈالر کا قرض مانگ رہا ہے تاکہ اسکی ادائیگیوں کا توازن بہتر ہوسکے۔ دوسری جانب امریکی وفاقی بجت کو 700ارب ڈالر کے خسارے کا سامنا ہے۔ امریکہ جو ساری دنیا کو قرضہ دیتا تھا اب خود 10کھرب ڈالر کا مقروض ہے۔



کرک پیٹرک نے لکھا ہے کہ امریکہ پر دنیا بھر میں فوجی کاروائیوں کے اخراجات کا ایسا بوجھ ہے جو اسے تباہ کرنے کیلئے کافی ہے۔ اسوقت 4لاکھ 46 ہزار فوجی دنیا بھر میں 725 فوجی اڈوں پر تعینات ہیں اور یہ فوجی ادے دنیا کے 38ممالک میں واقع ہیں۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے امریکی بحری بیڑوں کی تعداد ایک درجن سے کم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی عوام کی پریشانیوں اور مشکلات میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے اور اسکے نتیجہ میں اب امریکی دانشور اور سکالر یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ کیا امریکہ دنیا بھر میں جو جنگیں لڑ رہا ہے کیا وہ اسکی سلامتی کیلئے ضروری ہیں بھی یا نہیں۔

چنانچہ گزشتہ دنوں دو امریکی اداروں زوگبی اور مڈل بری انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام مختلف امریکی ریاستوں میں یہ سروے کیا گیا کہ کیا امریکی ریاستوں کو وفاق سے الگ ہوجانا چاہیئے۔ سروے کے نےائج کیمطابق 22 فیصد رائے دہندگان نے رائے دی کہ ہر امریکی ریاست کو امریکہ سے علیحدگی کا حق حاصل ہے اور اگر وفاقی حکومت عوامی مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی تو پھر ہر ریاست کو اپنے عوام کی فلاح و بہبود اور اقتصادی بہتری کیلئے وفاق سے علیحدہ ہوجانا چاہیئے۔

کرک پیٹر کا کہنا ہے کہ اس موضوع پر ہرسال سروے ہوتا ہے اور گزشتہ سال کے دوران امریکہ سے علیحدگی کے حق میں رائے دہندگان کے تناسب میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
انھوں نے لکھا ہے کہ 1990ء کے عشرے میں صرف 5فیصد امریکی علیحدگی کے حامی تھے لیکن اب انکا تناسب بڑھ کر 22فیصد یعنی چار گنا تک ہو چکا ہے۔ کرک پیٹرک سیل کا کہنا ہے کہ قانونی طور پر صرف تین امریکی ریاستوں رہوڈز آئی لینڈ، نیویارک اور ورجینیا کو امریکی وفاق سے علیحدگی کا حق حاصل ہے۔ امریکی وفاق کی اہم ترین دستاویز یعنی دسویں ترمیم میں امریکہ میں شامل ہونیوالی ریاستوں کے علیحدہ ہونے کے بارے میں کوئی تذکرہ شامل نہیں ہے۔

جب جنوبی ریاستوں نے انیسویں صدی میں امریکہ سے علیحدہ ہونیکی کوشش کی تو یہ مسئلہ امریکی کانگریس میں اٹھا اور کانگریس نے علیحدگی پر پابندی لگا دی۔ لیکن امریکی آئینی ماہرین کانگریس کی اسی قرارداد کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ کانگریس اگر علیحدگی پر پابندی لگا سکتی ہے تو علیحدگی کی اجازت بھی دے سکتی ہے۔

کرک پیٹرک سیل کا کہنا ہے کہ اگر کوئی بھی امریکی ریاست مثال کے طور پر کیلیفورنیا وفاق سے الگ ہونیکی کوشش کرتی ہے تو کیا امریکی فوج اس ریاست کے عوام پر اسی طرح گولیاں چلا سکتی ہے جسطرح اس نے فلوجہ یا بغداد کے بے گناہ شہریوں پر چلائیں، یا جسطرح اس نے ویت نام اور افغانستان میں عام شہریوں کا قتل عام کیا۔

اسوقت کم از کم 17 امریکی ریاستیں ایسی ہیں جو وفاق کو ٹیکس ادا کرتی ہیں لیکن اس سے کہیں کم ان پر خرچ کیا جاتا ہے اور انھیں ریاستوں میں علیحدگی کے شدید جذبات موجود ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کیلیفورنیا امریکہ سے الگ ہوجاتا ہے تو اسکی ٹیکسوں کی آمدنی میں 232فیصد کا اضافہ ہوجائیگا۔

کرک پیٹرک نے اہنی کتاب میں ان تنظیموں کے نام بھی شائع کیے ہیں جو اپنی ریاستوں میں امریکہ سے علیحدگی کی مہم برے زور و شور سے چلا رہے ہیں۔ ان تمام جمعتوں، تنظیموں اور گروپس کی اپنی ویب سائیٹس بھی ہیں اور یہ گروپس اپنے رسائل، اخبارات اور ٹی وی چینل بھی چلاتے ہیں۔

ان میں سب سے بڑا گروپ امریکن سیکسیشن پراجیکٹ ہے جو آزاد الاسکا اور آزاد کیلیفورنیا کی مہم چلا رہا ہے۔ دوسرا بڑا گروپ مڈل بری انسٹیٹیوٹ ہے جو 2004ء میں نیویارک میں قائم ہوا اور اسکا مطالبہ ہے کہ اقوام متحدہ امریکہ کی 51 ریاستوں کو الگ الگ خودمختار ریاست تسلیم کرے اور انھیں رکنیت بھی دے۔ گروپ کا مطالبہ ہے کہ تمام امریکی ریاستوں کی علیحدگی کا حق آئینی طور پر تسلیم کیا جائے۔ تیسرا گروپ سویس کنفیڈریشن گروپ 2006ء میں قائم ہوا اور اسکا مطالبہ ہے کہ امریکہ کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بجائے ایک کنفیڈریشن قرار دیا جائے۔


مختلف ریاستوں کی علیحدگی پسند تنظیمیں

الاباما لیگ آف ساؤتھ سٹیٹ نامی تنظیم الاباما ریاست کی امریکہ سے علیحدگی کیلئے جدو جہد کررہی ہے۔

الاسکا انڈیپنڈنس پارٹ ریاست الاسکا کی آزادی کیلئے جدوجہد کررہی ہے۔ کیلیفورنیا کی آزادی کیلئے دو جماعتیں کام کررہی ہیں۔ ان میں ایک جماعت کیلیفورنیا ریپبلک ہے۔ اس جماعت پر امریکی حکومت نے پابندی لگا رکھی ہے۔ دوسری تنظیم کا نام کیلیفورنیز فار انڈیپنڈنس ہے۔ کساوڈیا کی آزادی کیلئے کام کرنیوالی ایک جماعت کا نام کساوڈیا انڈیپنڈنس پراجیکٹ ہے۔ یہ تین ریاستوں واشنگٹن، اوریگان اور برٹش کولمبیا کی آزادی کیلئے کام کر رہی ہے۔

جارجیا کی آزادی کیلئے تین گروپ کام کر رہے ہیں۔ ان میں جارجیا لیگ آف دی ساؤتھ، سدرن پارٹی آف جارجیا اور ڈکسی براڈکاسٹنگ شامل ہیں۔ ریاست ہوائی کی آزادی کیلئے پانچ گروپس کام کر رہے ہیں۔ ان میں فری ہوائی، ہوائی کنگڈوم، ہوائی نیشن، کالاہوئی ہوائی اور انسٹیٹیوٹ آف ہوائین افیرز شامل ہیں۔ لوزیانہ کی آزادی کیلئے کام کرنے والی تنظیم کا نام لوزیانہ لیگ آف دی ساؤتھ ہے۔ ریاست “مین“ کی آزادی کیلئے دو تنظیمیں کام کررہی ہیں جن میں فری مین اور سیکنڈ مین شامل ہیں۔

اسکے علاوہ جن امریکی ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں شروع ہو چکی ہیں، انکے نام یہ ہیں:

نیو انگلینڈ
نووا کاڈیا
لبرٹی
نیو ہیمپشائر
لانگ ائی لینڈ نیویارک
نارتھ کیرولینا
اوہائیو
پنسلوانیا
پورتو ریکو
ساؤتھ کنفڈریٹ ریجن
ساؤتھ کیرولینا
ٹیکساس
ورمونٹ
منی سوٹا
وسکنسن
مشی گن

حال ہی میں امور خارجہ کے ایک روسی سکالر آئی گورپینارن نے یہ پیشین گوئی کی ہے کہ امریکہ جلد ہی ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیگا۔ اس نئے عالمی منظر نامے کے بعد روس اور چین نئے عالمی لیڈر کے طور پر سامنے آئینگے۔

روسی وزارت دفاع کے خارجی معاملات کیلئے قائم ڈپلومیٹک اکیڈمی کے ڈین “آئی گور“ کے مطابق امریکہ کے حالات یکدم بہت زیادہ خراب ہونا شروع ہوجائینگے اور خانہ جنگی کی نوبت آ جائے گی۔ آئی گور کی حالیہ پیشین گوئی نے دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی ہے۔

معروف امریکی جریدے، وال سٹریٹ جرنل کو حال ہی میں دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ وہ امریکیوں کو ناپسند نہیں کرتے لیکن حقیقت بڑی تلخ ہے اور وہ یہی ہے کہ امریکہ کی بطور ایک فیڈرل ریاست صورتحال خراب ہوتی چلی جارہی ہے۔

آئی گور کیمطابق امریکہ 6نئی ریاستوں میں تبدیل ہوجائیگا جو مختلف ممالک کی دست نگر ہونگی۔ ان ریاستوں کے خدوخال کے بارے میں آئی گور کا خیال ہے کہ پہلی ریاست جمہوریہ کیلیفورنیا ہوگی جو چین کا حصہ یا اسکی دست نگر ہوگی۔ یہ ریاست کیلیفورنیا، واشنگٹن، ایریگن، نویڈا، ایریزونا اور اوہائیو پر مشتمل ہوگی۔

دوسری ریاست ٹیکساس ریپبلک کہلائے گی جوکہ ٹیکساس، نیو میکسیکو، اوکلاہوما، لوزیانہ، آرکنساس، مسی سپی، الاباما، چارجیا، اور فلوریڈا پر مشتمل ہوگی اور یہ روس کا حصہ یا اسکے ماتحت ہوگی۔

تیسری ریاست اٹلانٹک امریکہ کہلائے گیاور یہ ریاست یورپی یونین میں شمولیت اختیار کرسکتی ہے۔ یہ ریاست شمال مشرقی امریکہ، کنٹکی اور شمالی و جنوبی کیرولیناپر مشتمل ہوگی۔

آئی گور کیمطابق چوتھی ریاست شمالی وسطی امریکی ریاست ہے۔ یہ ریاست کینیڈا کا حصہ یا اسکے ماتحت کام کریگی۔ اس ریاست میں مڈ ویسٹ، مونتانا، یومنگ اور کلوراڈو شامل ہونگے۔

پانچویں ریاست الاسکا ہوگی جو کہ باضابطہ روس کے کنٹرول میں کام کریگی۔

چھٹی ریاست ہوائی چین یا جاپان کا حصہ ہوسکتی ہے۔

روسی سکالر آئی گور نے اپنی یہ پیشین گوئی حال ہی میں ماسکو میں اپنے ایک لیکچر کے دوران دہرائی۔ انھوں نے کہا کہ وہ یہ سارا عمل 2010ء تک ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ آئی گور کا کہنا ہے کہ وہ بذات خود امریکہ کے ٹوٹنے کیخلاف ہیں لیکن ایسا ہوتا صاف دکھائی دے رہا ہے۔

امریکہ کے بارے میں ایسی پیشین گوئیوں کا منظر عام پر آنا کوئی نئی بات نہیں۔ کئی عالمی تجزیہ نگار ایسی پیشین گوئیاں یا تجزیات کا اظہار کرچکے ہیں۔ آئی گور کی یہ پیشین گوئیاں ایسے وقت میں سامنے ائی ہیں جبکہ امریکہ میں انتخابات کے بعد نئے صدر اوبامہ حکومت سنبھال چکے ہیں۔ اور امریکی معیشت بھی شدید مندی کا شکار ہے۔ بینکنگ اور ہاؤسنگ کے شعبے بری طرح انحطاط کا شکار ہیں۔ کئی بڑے بینکوں اور مالیاتی اداروں کا دیوالیہ نکل چکا ہے۔ عراق جنگ نے امریکی معیشت کا بھرکس نکال دیا ہے۔ لیکن اب عراق سے اوبامہ فوجیں نکالنے کا عندیہ تو دے چکے ہیں لیکن انکا ابھی افغانستان سے نکلنے کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا۔ اور اسی لئے آئی گور یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان ہی امریکی افواج کا قبرستان ثابت ہوگا۔اور یہیں سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے توتنے کی بنیاد پڑیگی۔

مشہور مصنف محترم انور اقبال اپنے ایک مضمون، جسکا عنوان ہے

“2025ء تک امریکی عہد کا سورج غروب ہوچکا ہوگا“

میں لکھتے ہیں کہ امریکی حکومت کے ایک تحقیقی ادارے (نیشنل انٹیلیجنس کونسل) کی رپورٹ کیمطابق2025ء تک امریکہ دنیا کی سپر پاور کے طور پر نہیں رہ سکے گا بلکہ اسکی جگہ روس اور چین جیسے ممالک لے لینگے۔

غرضیکہ یہ امریکی اور مغربی رپورٹیں ہیں جو یہ چیخ چیخ کر بتا رہی ہیں آئندہ چند سالوں میں امریکہ سیاسی و معاشی طور پر زبردست ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونیوالا ہے۔ امریکہ کی تباہی کا آغاز تو اسی دن ہوگیا تھا جب اس نے مسلم دنیا کیخلاف صلیبی جنگ کا غیر اعلانیہ آغاز کیا تھا۔

نئے امریکی صدر اور صہیونی کٹھ پتلی اوبامہ نے اگرچہ عراق سے کچھ توبہ کرلی ہے اور وہاں سے افواج نکالنے کا عندیہ دیا ہے تاہم وہ افغانستان سے ابھی نکلنے کو ابھی تیار نہیں بلکہ اب امریکہ پاکستان پر حملے کیلئے بے چین ہے۔ اسکے لئے وہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان میں ایسے حالات پیدا کررہا ہے کہ جن کی آڑ میں وہ پہلے تو پاکستان کو بری طرح غیر مستحکم کریگ اور پھر عدم استحکام اور بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کا بہانہ بنا کر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کی کوشش کریگا لیکن امریکہ کا یہ خواب انشاء اللہ ایک خواب ہی رہیگا۔

جو ملک افغانستان جیسے ایک چھوٹے اور پسماندہ ملک پر قبضہ نہیں کرسکا وہ پاکستان جیسے ایک ایٹمی ملک پر کیسے قابض ہوگا۔

دراصل امریکہ کی پاکستان پر موجودہ یلغار اسلئے ہے کہ وہ خود اب چراغ سحری ہے اور جسطرح چراغ کا اپنے آخری دموں پر بھبھوکا بظاہر کچھ زیادہ ہوتا ہے لیکن اسکے بعد اسکی ہمیشہ کیلئے موت ہوتی ہے۔۔ یہی صورتحال امریکہ کی بن چکی ہے ۔ امریکی حکومت کو نوشتہ دیوار سامنے نظر آچکا ہے اور اب وہ اپنے آخری ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔

امریکہ کی اس قریب المرگ حالت کے بارے میں فی الحال کوئی بھی یقین کرنے کو تیار نہیں، نہ تو مسلمان اور نہ خود امریکی شہری۔
لیکن جس کو اپنا شک دور کرنا ہو تو امریکہ ہی کی ایک بڑی مالیاتی کمپنی کے سابق چیف ماہر معاشیات انتھونی کیری ڈاکس کا درج ذیل یہ بیان پڑھ لے جو کہ انٹرنیٹ کے ایک بلاگ

debtredutionformula.com



انتھونی لکھتے ہیں کہ: “عام امریکی اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں کہ کہ امریکی حکومت ایک مالی بحران میں داخل ہوچکی ہے۔ غالباً اسکی وجہ یہ ہے کہ عام شہری سچ نہیں سننا چاہتے ہ وہ اپنی لاعلمی سے لطف اندوز ہوتے ہیں یا پھر ایسا بھی ممکن ہے کہ جذبہ حب الوطنی سے انکی ذہن سازی ایسی کردی گئی ہے کہ امریکی معیشت ہمیشہ قوی رہیگی اور امریکہ عظمت کی ان بلندیوں تک پہنچ گیا ہے جہاں سے پستی ممکن نہیں۔ موجودہ امریکی مالی بحران کے نتیجے میں اجتماعی امریکی نفسیات کو متاثر کرنے میں کئی عوامل زیر گردش ہیں۔ عوام کا بیشتر طبقہ اس خوش فہمی میں ہے کہ آخر کار “خوش فہمی“ ہی انکا مقدر ہے۔ تاہم یہ صاف عیاں ہورہا ہے کہ ہم ایسے انجام تک پہنچ چکے ہیں اور قیامت ٹوٹنے والی پے“
ریاستوں میں علیحدگی کے رحجانات میں کئی گنا اضافہ میں لکھا کہ میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن جس تیزی سے اقتصادی حالات خراب ہورہے ہیں، لوگ زیادہ دن کھیل تماشے میں نہیں لگے رہیں گے۔ 2000ء کے بعد سے یورو کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قدر 30فیصد تک گرچکی ہے۔ اس وجہ سے لوگوں کا اعتبار امریکی ڈالر سے اٹھ گیا ہے اور انھوں نے امریکہ میں سرمایہ کاری کرنی چھوڑ دی ہے۔ اب وہ دن دور نہیں جب تیل پیدا کرنیوالے ممالک امریکی ڈالر میں قیمت وصول کرنے کی بجائے یورو یا چینی یوآن میں کاروبار شروع کردینگے۔ پر پڑھا جاسکتا ہے
25:

ناٹو بمقابلہ سسٹو - - - - - فتح کس کی؟





تحریر: روف عامر پپا بریار

امریکہ ناٹو تنظیم کے توسط سے سنٹرل ایشیا پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لئے کافی عرصے سے سرگرم عمل ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ روس کسی بھی صورت میں اٍس خطے میں امریکی بالادستی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔عالمی منظر میں حیران کن تبدیلیوں کے باعث یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ ناٹو کی بالادستی کا خواب چکنا چور ہوچکا ہے کیونکہ برفانی ریچھ خم ٹھونک کر ناٹو کے خلاف بے خطر آتش نمرود میں کودنے کا فیصلہ کرچکاہے۔

امریکہ نے جب کسی ملک سے خطرہ محسوس کیا تو امریکی قیادت نے اس پر ایٹمی ہتھیار رکھنے کا الزام تھوپ کر پابندیاں عائد کردیں۔ اس مقصد کے لئے استعماری طاقتوں نے ہمیشہ امریکہ کا ساتھ دیا۔ حال ہی میں امریکہ نے یہی حربہ روس کے خلاف استعمال کیا مگر اسے منہ کی کھانی پڑی۔ امریکہ نے روس کو ایٹمی ہتھیاروں میں کمی کا عندیہ دیا تھا مگر ماسکو نے امریکی پیشکش کو مسترد کردیا۔ ماسکو کے چیف اف ارمی سٹاف سکاروف نے کہا ہے کہ امریکہ ایک طرف جوہری ہتھیاروں میں کمی کا شوشہ چھوڑ رہا ہے مگر دوسری جانب وہ پولینڈ اور جمہوریہ چیک میں میزائل شیلڈ سسٹم نصب کر رہا ہے۔

امریکہ نے ناٹو اور یواین او کے ذریعے پوری دنیا میں لوٹ مار اور ظلم و جبر کا بازار گرم کررکھا ہے مگر عالمی مبصرین کی رائے ہے کہ حالات بڑی تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں جسکا اندازہ روس میں16 جون کو روس کے شہرYAKETRING BURG میں منعقد ہونے والے شنگھائی تنظیم کے کامیاب انعقاد سے کیا جاسکتا ہے۔ شنگھائی تنظیم نے اپنی کانفرنس میں ایسے فیصلے و معاہدے ہوئے جس نے عالمی مبصرین کو چونکا کر رکھ دیا اور انہیں مبصرین و تجزیہ نگاروں نے حتمی رائے قائم کی ہے کہ یہاں ناٹو کا مستقبل تاریک ہوچکا ہے۔

ماسکو میں ایک ہفتہ کے دوران تین ایسے اجلاس ہوئے جنکا براہ راست تعلق امریکہ و ناٹو سے ہے۔ 14 جون کو سسٹو کا اجلاس ہوا جس میں سنٹرل ایشیا کی حفاظت کے لئے جدید کیل کانٹوں سے لیس نئی فورس کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ 16 جون کو شنگھائی تنظیم کے اجلاس میں چین نے عالمی معاشی بحران سے نپٹنے اور اسکے مضر اثرات سے وسط ایشیا کو نکالنے کے لئے سات بلین یورو کی امداد کا اعلان کیا۔

17تا19 جون کو برک آرگنائزیشن کی میٹنگ ہوئی جس میں برک کے چاروں ممبر ملکوں انڈیا، چین، روس اور برازیل نے شرکت کی۔ چاروں نے ڈالر کے مقابلے میں نئی عالمی کرنسی کے موضوع پر کئی فیصلے کئے۔ امریکی ماہرین اقتصادیات پیشین گوئی کرتے ہیں کہ برک ممبران2050ء تک دنیا کی طاقتور معاشی قوتیں بن جائیں گی۔ پاکستان اور بھارت نے نہ صرف مبصر کی حثیت سے اجلاس میں شرکت کی بلکہ دونوں ملکوں کے صدور و وزراء اعظم زرداری اور منموہن سنگھ نے اجلاس سے خطاب میں شنگھائی تنظیم کے فیصلوں کو سراہا۔

زرداری نے اپیل کی کہ پاکستان کو شنگھائی تنظیم کی مستقل رکنیت دی جائے۔ مغربی میڈیا نے تجزیہ کیا ہے کہ شنگھائی تنظیم چین کی وہ کاوش ہے جس کے تحت بیچنگ دوست ممالک کی معاونت سے سنٹرل ایشیا سے امریکی اثر و رسوخ کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے اور چین بڑی حد تک اپنی کاوش میں کامیاب ہوچکا ہے۔ یورپ کے معروف اخبار یورو نیوز نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ2001ء میں قائم کی جانے والے شنگھائی آرگنائزیشن خطے میں امریکہ کے توسیع پسندانہ عزائم کو روکنے کے لئے قائم کی گئی ہے۔

اس تنظیم میں روس، چین، کرغیزستان، قازقستان، تاجکستان اور ازبکستان شامل ہیں جبکہ پاکستان بھارت ایران اور منگولیا کو مبصرین کا درجہ حاصل ہے۔ شنگھائی تنظیم بہت کم وقت میں ناٹو اور یواین او کے متبادل کے طور پر ابھری ہے۔ امریکی میڈیا چین کے سات بلین یوروز کے امدادی پیکج پر خوب واویلہ کررہا ہے کہ یہ رقم امریکہ و ناٹو کے خلاف استعمال ہوگی۔ اجلاس کی خاص بات یہ تھی کہ تنظیم کے مستقل اور مبصر کی حثیت سے شرکت کرنے والے ملکوں نے ایک ساتھ شرکت کی۔

اجلاس میں عالمی مالیاتی بحران، خطے میں دہشت گردی کے خاتمے، علاقائی سیکیورٹی کو مستحکم کرنے اور وسطی ایشیا کے قدرتی ذخائر سے متعلق کئی نادر فیصلے کئے گئے۔ شنگھائی تنظیم کے اجلاس سے قبل27مارچ میں ماسکو میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی تھی جسکا ایجنڈا افغانستان کی خانہ جنگی اور وہاں سے منشیات کی سمگلنگ کی روک تھام پر مبنی تھا۔ تخریب کاری اور دہشت گردانہ کاروائیوں کو روکنے کے لئے شنگھائی تنظیم کا ایک شعبہrates کے نام سے کام کررہا ہے جسے مزید فعال کرنے کے مسودے پر دستخط کئے گئے۔

ناٹو کو زیر کرنے کے لئے روس نےcolective securty treaty organization نام کی عسکری فوج تشکیل دی ہے۔ ماسکو سے شائع ہونے والے اخبارRUSSIAN DAILY NEWS کی ایک رپورٹ کے مطابق روسی صدر دمتری نے29 مئی کو اخباری نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا یہ عسکری تنظیم سسٹو ناٹو سے بھی زیادہ طاقتور ہوگی جو وسطی ایشیا کی سیکیورٹی کو یقینی بنائے گی اور کسی بھی قسم کی جارحیت و دہشت گردی کا فوری قلع قمع کرے گی۔ سسٹو نے روس کی نگرانی میں پانچ ملکوں قازقستان روس ازبکستان تاجکستان اور کرغیزستان میں فوجی اڈے قائم کرے گی۔ سسٹو اور شنگھائی تنظیم ایک دوسرے کے ساتھ دفاعی تعاون بھی کریں گے۔

سسٹو کے سیکریٹری جنرل نیکولائی نے رشین نیوز ایجنسی کو بتایا کہ انہیں شنگھائی تنظیم کی طرف سے ایک مسودہ موصول ہوا ہے کہ دونوں سسٹو اور شنگھائی تنظیم سنٹرل ایشیا کو درپیش مسائل کے حل کے لئے مشترکہ جدوجہد کریں گے۔ روس اور چین کے درمیان تین ارب ڈالر کے معاہدے ہوئے ہیں۔روس اور چین نے فیصلہ کیا ہے کہ دونوں ملک اپنی اپنی کرنسیوں میں تجارت کریں گے۔ شنگھائی تنظیم کے فیصلوں، سسٹو نام کی فوج کے قیام، ڈالر کی بجائے نئی عالمی کرنسی کے تصور اور امریکی توسیع پسندانہ عزائم کا مقابلہ کرنے اور وسطی ایشیا کی سیکیورٹی کے لئے روسی سیکیورٹی پلان اور بدلتے ہوئے عالمی حالات و واقعات پر غور کرنے سے یہ حقیقت عیاں ہوچکی ہے کہ خطے سے امریکی چل چلاو اظہر من التمش ہے۔

ناٹو زیادہ دیر جنوبی ایشیا میں ظلم کا بازار گرم نہیں رکھ سکتی۔ وائٹ ہاوس کی بھلائی اس نقطے میں پنہاں ہے کہ وہ جلد سے جلد افغانستان اور جنوبی ایشیا سے نکل جائے ورنہ انجام تو ذلالت کی صورت میں ساون کے اندھے کو بھی نظر آ رہا ہے۔

Saturday, June 27, 2009

یورپ انسانی آزادیوں کا قاتل




یورپ اپنے تئیں اٍنسانی حقوق کی پاسداری کرنے کا ہمیشہ واویلہ کرتا رہتا ہے۔مغرب میں ہی اٍسلام کو متشدد دین سے تشبیہہ دیکر سادہ لوح گوروں کو مسلمانوں اور دین اٍسلام سے متنفر کرنے کے بودے منصوبے تخلیق کئے جاتے ہیں۔یورپین جمہوریت کو دنیا میں رول ماڈل کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے مگر حقیقت اٍس سے بہت دور رہتی ہے۔مغربی جمہوریت کا تازہ ترین شاہکار یورپ کے حقیقی چہرے کو طشت ازبام کرتا ہے۔ترک نژاد مسلم خاتون ماہ نور زاد میر نے بلجیم میں منعقد ہونے والے پارلیمانی الیکشن میں برسلز کے حلقے سے فتح کا تاج حاصل کیا حالانکہ الیکشن سے قبل انکی شکست کے تجزئیے و قیافے میڈیا میں شائع ہوتے رہے مگر شکست کے تمام تر دعووں و اندازوں کے باوجود ماہ نور نے تاریخ ساز کامیابی سمیٹی۔

ماہ نور مسلم روایات کی پیروی کرتی ہیں اور اپنے سر پر سکارف اوڑھتی ہیں مگر بلجییم کے اربابٍ اٍختیار کی انکھوں میں سکارف کانٹا بن کر چھبتا ہے۔وہ کسی صورت میں پارلیمنٹ میں سکارف کو برداشت کرنے پر تیار نہیں۔سرکاری عہدیداروں نے اعلان کردیا ہے کہ ماہ نور تقریب حلف برادری میں سکارف اٍستعمال نہیں کرسکتی۔دوسری طرف ماہ نور ثابت قدم ہے اسکا موقف ہے کہ وہ نہ صرف سکارف پہن کر حلف اٹھائیں گی بلکہ وہ سرکاری امور کی انجام دہی کے دوران سکارف کا اٍستعمال کریں گی۔

ماہ نور بلجیم کی تاریخ میں پہلی مسلم خاتون ہیں جس نے پارلیمنٹ تک رسائی حاصل کی۔مسلم تعصب پسند سیاسی جماعتیں اب ماہ نور کو ریاستی آئین کی ایک شق کے استعمال سے نااہل قرار دلوانے کی سازشیں کررہی ہیں۔یوں حجاب کے استعمال پر طرفین کے درمیان مقابلہ روز بروز شدت اختیار کررہا ہے۔بلجیم کے سرکاری تعلیمی اداروں میں سکارف اوڑھنے پر پابندی ہے۔بلجیم کے چند گنے چنے پرائیویٹ اداروں میں مسلمان بچیوں کو سکارف پہننے کی اجازت ہے۔مشہور عربی اخبار الشرق اوسط کے برسلز میں مقیم نمائندے نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ انہوں نے ووٹنگ سے ایک روز پہلے ماہ نور کو بازار میں سکارف پہنے دیکھا۔بازار کی بھیڑ میں وہ واحد خاتون تھیں جس نے سکارف اوڑھ رکھا تھا۔نمائندے کے اس سوال پر کہ اگر وہ جیت گئیں تو انہیں سکارف چھوڑنا ہوگا مگر ماہ نور نے عزم صمیم کے انداز میں جواب دیا کہ لوگوں کو انکے کا م و کارکردگی کو دیکھنا چاہیے۔

ماہ نور کی جیت کے بعد بلجیم کے مسلم اور سیکولر طبقوں کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوگیا ہے۔ماہ نور کو نااہل کروانے والا روشن خیال یورپی ٹولہ ٹرٹراہٹ کرتا ہے کہ ماہ نور ہماری ثقافت کو برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ بلجیم مغربی یورپ میں واقع یورپی یونین کا اہم حصہ ہے۔آن لائن انسائیکلوپیڈیا کے مطابق بلجیم میں کیتھولک چرچ کے پیروکار موجود ہیں۔ بلجیم میں پچاس لاکھ مسلمان اباد ہیں جو بلجیم کی کل ابادی کا تین فیصد ہیں۔ ماہ نور نے بلجیم کی سیاست میں حصہ لیا تو قدم قدم پر مصائب و مشکلات کی چٹانوں کو سر کرنا پڑا۔ انکی سیاسی جماعت ڈیموکریٹ اینڈ ہیومنسٹک نے سکارف کی مخالفت کی۔

وہ کافی عرصے سے اٍس جماعت میں کام کررہی ہیں۔وہ پہلے کونسلر کا معرکہ بھی سر کرچکی ہیں۔ یوں انکی پارٹی خدمات کے کارن جماعت نے ماہ نور کے سامنے سرنڈر کیا۔مارچ میں ڈیموکریٹ پارٹی نے امیدواروں کی لسٹ و تصاویر شائع کیں تو ماہ نور کے سر سے حجاب غائب تھا۔۔ماہ نور نے پارٹی اجلاس میں اس مسئلے پر غوغہ ارائی کی تو پارٹی نے اٍسے پرنٹر کی غلطی کہہ کر جان چھڑوائی۔ماہ نور کی مخالف سوشلسٹ جماعت نے اودھم مچارکھا ہے کہ ماہ نور کے پاس صرف دوہی راستے ہیں کہ یا تو وہ سکارف اتار کر ممبر پارلیمنٹ کا حلف اٹھائے یا پھر وہ مستعفی ہوجائے۔

شوشلسٹ پارٹی کی حجاب مخالف مہم کو پورے یورپ میں پذیرائی مل رہی ہے۔ترکی کے مشہور اخبار دی ورلڈ بلیٹن کے مطابق ماہ نور نے برسلز یونیورسٹی سے ہیومین ریسورز پروگرام میں گریجوئیشن کی ہے۔وہ پہلے اپنی سیاسی جماعت کے چیرمین کے اسٹنٹ کے طور پر کام کررہی تھیں بعد میں وہ اٍسی جماعت میں شامل ہوگئیں۔ماہ نور نے2861 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی۔ انکی کامیابی کی خبر منٹوں میں یورپی یونین کے کونوں تک پہنچ گئی۔سوشلسٹ پارٹی کی خاتون رکن صفیہ بوعرفہ کا کہنا ہے کہ انہیں ماہ نور کے مستقبل کے متعلق خدشات ہیں۔وہ حجاب بھی پہننا چاہتی ہے اور پارلمینٹرین کا کام بھی کرنا چاہتی ہے جو دو متصادم راستے ہیں۔

ماہ نور کے سکارف پہننے سے بلجیم کے کسی قانون کو زک نہیں پہنچتی۔ یہ تو شخصی ازادی کا مسئلہ ہے مگر بلجیم و یورپئین لوگ اٍس نقطے پر غور نہیں کرتے۔ رکن اسمبلی صفیہ بوعرفہ کا موقف حقیقت بر مبنی ہے مگر کوئی اٍسے سمجھنے و پرکھنے کی زحمت نہیں کرتا۔الشرق الاوسط جریدے سے بات چیت کرتے ہوئے ماہ نور اپنی منصوبہ بندی کو یوں آشکار کرتی ہیں کہ وہ ایوان میں جاکر حجاب پر پابندی ختم کروائیں گی۔عید پر جانوروں کی قربانی کرنے کی اجازت دینے کا قانون پاس کروائیں گی۔

بلجیم کی حکومت نے مسلمانوں پر عطیات اکٹھے کرنے پر پابندی عائد کررکھی ہے ماہ نور اٍس پابندی کے خلاف اعلان جنگ کرچکی ہیں۔ ماہ نور کے حجاب پر جسطرح یورپ میں اتھل پتھل مچایا جارہا ہے۔ سکارف اوڑھنے کی بنا پر اسکی نااہلی پر سوچ و بچار ہورہی ہے۔ ان معاملات کی عرق ریزی کرنے سے یہ سچائی سامنے اتی ہے کہ یورپ کے حکمران طبقات اٍسلامی روایات کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ ماہ نور کے ناقابل لغزش جذبات پر پوری امہ کو فخر کرنا چاہیے۔

مغرب میں سکارف کے خلاف جاری پراپگنڈہ مہم سے مسلم دنیا کو سبق حاصل کرنا چاہیے کہ جب یورپ ہماری مسلمان بیٹیوں کو سر ڈھانپنے کی اجازت دینے پر تیار نہیں تو پھر ہم کیوں مغربی تہذیب کی پیروکاری یورپی خیالات کی ترجمانی اور اخلاقی گراوٹوں سے لبریز مغربی ثقافت کی نقالی کیوں کرتے ہیں؟ کیا مسلم تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے لئے یہ ضروری نہیں کہ مسلم امہ بھی یورپی روایات کو پائے حقارت سے مسترد کردے۔یورپی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے۔

بلجیم کے سرکاری اداروں نے سکارف کے خلاف جس بھونڈے طرز عمل کا اظہار کیا ہے وہ جمہوری روایات اور شخصی و مذہبی اقدار پر شب خون مارنے کے مترادف اور انسانی حقوق کا قتل ہے۔کسی مغربی شاعر نے درست ہی کہا تھا کہ مشرق مشرق ہے اور مغرب مغرب ہے جو کبھی بھی ایک نہیں ہوسکتے۔ مسلم امہ کے یہود نواز بادشاہوں کو اٍس جملے پر غور و فکر کرنا چاہیے۔ یوں ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ یورپ ہی دنیا میں شرف اٍنسانیت احترام آدمیت اور حقوق اٍنسانی کا سب سے بڑا قاتل ہے۔

Sunday, June 21, 2009

دنیا میں مسلم آبادی




تحریر:خورشید الزماں عباسی

دنیا بھر میں مسلمانوں کی کل آبادی کتنی اور دنیا کے نقشے پر کتنے مسلمان ممالک موجود ہیں \۔ جبکہ دنیا بھر میں اقلیتی اور اکثر یتی مسلم اکثریت کے اعداد وشمار کی کیا صورتحال ہے ؟عالمی سطح پر جاری دہشت گردی کی جنگ اور عراق، افغانستان جنگوں میں مسلم آبادی کی ان گنت افرادی قوت کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کے باوجود بھی مسلمانوں کی نسل کشی کا کام کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے ۔کیا واقعی ہی مسلمانوں کی آبادی دنیا بھر میں کم ہو رہی ہے؟ یا اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔

یہ وہ بنیادی نوعیت کے سوالات ہیں جن کی معلومات کا ہونا فی الوقت ہر ذی شعور کے علمی اضافہ کا باعث بن سکتا ہے ۔امریکن سی آئی اے کے مطابق موجودہ وقت میں دنیا بھر میں مسلم آبادی 1.66 بلین ہے ۔جبکہ بعض دیگر ذرائع کے مطابق مسلمانوں کی یہ آبادی سال رواں کے آخر تک 1.82 بلین ہو جائے گی ۔دنیا میں لگ بھگ 48 اسلامی ممالک ہیںجبکہ مسلم آبادی بلحاظ فیصد تناسب کے انڈونیشیاء، چین اور انڈیا میں دنیا بھر سے زائد ہے۔

انڈونیشیاءمیں 206 ملین چین میں 28 ملین سے زائد جبکہ انڈیا میں کل آبادی کے 13.4 فیصد مسلمان آباد ہیں ۔بعض ذرائع انڈیا میں مسلم آبادی کو دو کروڑ سے زائد قرار دے رہے ہیں ۔اسی طرح دیگر ممالک میں بنگلہ دیش، پاکستان، مراکو، مصر، افغانستان، عراق، سعودی عرب، ترکی، الجیریا، روس جبکہ امریکہ، لندن اور کینڈا میں مسلمانوں کی آبادی میں قابل ذکر اضافہ ہو رہا ہے۔

امریکہ میں اس وقت دس ملین سے مسلمان آباد ہیں۔ موجودہ صدی میں عراق، افغانستان سے مسلم آبادی کا صفایا ایک قابل ذکر مثال ہے۔ دہشت گردی کے چکر میں مسلمانوں کی نسل کشی انتہائی تشویشناک صورتحال اختیار کر تی جارہی ہے اس صورتحال میں جہاں غیر مسلم سازشیں کار فرماہیں وہاں خود دہشت گردی کی راہ پر گامزن مسلمانوں کا وہ طبقہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ جو ان گھناﺅنی سازشوں کا شکار ہو کر اسلام جیسے پرامن مذہب کو بدنام کرنے میں دوسروں کا آلہ کار بنتے جارہے ہیں۔

دنیا میں موجودہ دہشت گردی کے آغاز کا سبب اگرچہ گیارہ ستمبر کا واقعہ ہے ۔مگر اس کے حقیقی حقائق پر خود امریکی کانگریس کے بعض ممبران کو بھی اعتراضات ہیں امریکی کانگریس مین DENNIS JKUCINICH کے اس بیان انداز ہ ہوتا ہے۔ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ عراق کے پاس کوئی ایٹمی آلات نہیں جن کے بل پروہ امریکہ پر حملہ آور ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو جبکہ گیارہ ستمبر کے واقع کے حوالہ سے انہوں نے کہا ہے کہ یہ صرف عراق پر حملہ آور ہونے کےلئے کہا گیا۔

انہوں نے کہا کہ نئی امریکی انتظامیہ نے افغانستان میں جاری جنگ کو جاری رکھنے کےلئے اس میں مزید اضافہ کردیا ہے ۔ جبکہ اہم ان جنگوں کو مزید جاری نہیں رکھ سکتے ۔ ان کے بقول جنگی بجٹ میں ٹریلین ڈالر کے اضافہ سے ہمارا گھر یلو بجٹ تباہ ہو کر رہ گیا ہے ۔ انہوں نے ان جنگوں کو جھوٹ پر مبنی اور دنیا بھر میں نفرت پھیلانے پر مبنی قرار دیا۔ جبکہ انہوں نے اپنی فوج کے جانی نقصان اور عراق میں مرنے والوں کو بے گناہ شہری قرار دیا اورافغانستان، پاکستان میں ہلاکتوں کو بھی انہوں نے کہا کہ ہماری حقیقی قوت کا انداز اسی وقت ہوگا۔ جب ہم جنگی امداد کےلئے فنڈنگ کا خاتمہ کرتے ہوئے سچ اور انصاف قائم کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ ہماری حقیقی طاقت کا بڑا امتحان یہ ہے کہ ہم یہ جنگیں ختم کر دیں۔

مسٹرKUCINNICH اور ان کے ساتھی کانگریس مین LYNN WOOSLEY مشترکہ طور پر عراق، افغانستان میں جاری جنگوں کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے ہم منصب کانگریس کے اراکین کو خط لکھ کر عراق ،افغانستان کےلئے جنگی بجٹ کے خلاف ووٹ دینے کی اپیل کرتے ہوئے موجودہ انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ ان جاری جنگوں دستبردار ہوتے ہوئے2010 تک فوج اورجنگی آلات کو عراق ، افغانستان سے واپس لایا جائے ان مذکورہ امریکی کانگریس کے نمائندگان کے ان بیانات میں کتنی صداقت ہے یا ان کے ان بیانات کے درپردہ کیا مقاصد ہیں؟ بظاہر امریکہ کی سابق اورموجودہ انتظامیہ سے وابستہ افراد کےلئے اورامریکی قوم کے لئے ضرور سبق آموز پیغام موجود ہے۔

بہرحال دہشت گردی کی جاری جنگ میں جہاں مسلم کشی ہو رہی ہے وہاں عالمی سطح پر مسلمانوں کی آبادی میں اسی تیز رفتاری سے اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ اس کی کئی مثالیں خود امریکہ کینڈا اور لندن میں عیسائی اور یہودیوں کے حلقہ بگوش اسلام سے عیاں ہو رہی ہیں۔ عراق جنگ میں کئی امریکی فوجی بھی حلقہ بگوش اسلام ہوئے جبکہ لندن میں ایک ڈسٹرکٹ جج کی قبول اسلام کے علاوہ بیشمار اور لا تعداد مثالیں سامنے آرہی ہیں۔

خود امریکہ میں مسلم آبادی10 ملین سے تجاوز کر چکی ہے ۔ مغربی میڈیا امریکہ ، لندن اور کینڈا میں اس تیز رفتار اضافہ کی از خود داستانیں سنا رہا ہے یوں مرنے والوں کی جگہ کئی غیر مسلم اسلام قبول کر کے ان کی جگہ لے رہے ہیں جبکہ 2025 تک یہ مسلم آبادی دنیا کی غالب اکثریت بن جائے گی۔

Saturday, June 13, 2009

حضرت ابوبکر صدیق ؓ اورفتنہ ارتداد



بسم اﷲ الرحمن الرحیم


حضرت دحیہ کلبی ؓایک وجیہ شخصیت کے مالک تھے،بلندوبالا قد،چوڑا چکلہ سینہ، لمبے لمبے بال اور سرخ و سفیدرنگت کے باعث آپ پوری محفل میں جدانظر آتے تھے، ان شخصی خصوصیات کے پیش نظر آپ ؓ کوسفیررسول ﷺ مقررکیاگیا چنانچہ دوسرے ملکوں کے بادشاہوں کے پاس آپ ﷺ کے دعوتی خطوط حضرت دحیہ کلبی ہی لے کرگئے۔قیصرروم جس کااپنانام ”ہرقل“تھاجو مذہباَ عیسائی تھااور گزشتہ آسمانی کتب کا عالم تھادربار کے برخواست ہونے پرحضرت دحیہ کلبی ؓ کو اپنے محل کے ایک خاص کمرے میں لے گیا جس کی دیواروں پر بہت سی شبیہیں لٹکی تھیں،اس نے کہاکہ ان میں سے اپنے نبی کی شبیہ پہچانو، ایک پر انگلی رکھ کر حضرت دحیہ کلبی نے کہا یہ ہمارے نبی ﷺ کی شبیہ مبارک ہے۔

ہرقل نے پوچھا اس کے دائیں بائیں کن کی شبیہیں ہیں،حضرت دحیہ کلبی ؓنے کہا کہ ان میں سے ایک حضرت ابوبکرؓاور دوسری حضرت عمرؓ کی ہے۔ ہرقل نے کہاکہ ہماری کتب میں لکھاہے کہ اﷲ تعالی ان دو بزرگوں سے آخری نبی ﷺ کی مدد فرمائے گا۔ اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے اول دونوں خلفائے راشدین کا ذکر گزشتہ کتب میں بھی کتنی تفصیل کے ساتھ مذکور تھا۔

محسن انسانیت ﷺ نے مدینہ آمد کے ساتھ ہی اسلامی ریاست کی تاسیس فرمائی اور خود اس کے اولین حکمران بنے، حضرت ابوبکر صدیقؓاس ریاست کے دوسرے حکمران اور آپ ﷺ کے اولین سیاسی جانشین بنے۔ مردوں میں آپ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا،متعددمسلمان غلاموں کو خرید کر آزاد کیا۔

سفرمعراج کی سب سے پہلے تصدیق کر کے ”صدیق“کا لقب حاصل کیا،سفرہجرت میں ہمنشینی نبی ﷺ کا شرف بھی آپ کو حاصل ہوا،نبی ﷺ کے سسر بننے کی سعادت سے بہرہ ور ہوئے،ہر غزوہ میں نبی ﷺ کے شانہ بشانہ رہے،غزوہ تبوک میں گھرکاکل اثاثہ خدمت اقدسﷺ میں پیش کیا،فتح مکہ کے بعد والے حج میں امیرحج مقرر ہوئے، علالت نبوی ﷺ کے دوران مسلمانوں کی امامت کراتے رہے اوروصال نبی ﷺ پر آپ نے مسلمانوں کو سہارادیا اور انکے تازہ زخم پرمرہم رکھا۔مسلمانوں نے آپ کو باہمی مشورے سے اپنا حکمران چن لیااگلے دن جب آپ کی خلافت کااعلان کیاگیاتو آپ کھڑے نہ ہوئے تب دو مسلمانوںنے آپ ؓ کو کندھوں سے پکڑ کر اٹھایااور ممبررسول ﷺ تک لے گئے۔

ممبر کی تین سیڑھیاں ہوتی ہیں،آپ ﷺ تیسری پر تشریف رکھتے تھے اور دوسری پر اپنے قدمین مبارک دھرتے تھے،حضرت ابوبکر احترام نبوی میںوہاں بیٹھے جہاں قدمین ہوتے تھے،آج تک علماءممبر کی آخری سیڑھی پر نہیں بیٹھے کہ یہ مقام نبوی ﷺ ہے اور دوسری سیڑھی پر ہی بیٹھتے ہیں کہ یہ سنت صدیقی ہے۔

حضرت ابوبکر صدیق ؓکے زمام اقتدار سنبھالتے ہی متعدد نئے مسائل نے سراٹھانا شروع کردیا۔ان میں سے سب سے اہم فتنہ ارتدادتھا۔ارتدادکامطلب پلٹ جانا ہے،یعنی وصال نبویﷺ کے بعد عرب قبائل کی اکثریت کفروشرک کی طرف پلٹ گئی،انہوں نے کھلم کھلااسلام سے بغاوت کردی،

اپنے قبیلے کے لوگوں کو بھی اسلام چھوڑ دینے پر مجبورکیااور جنہوں نے نہ چھوڑنا چاہا ان پر تشددکیااور بعض کو قتل بھی کیا،زکوة دینے سے انکارکردیا،کچھ نے نبوت کادعوی بھی کردیااورکچھ سرکش قبائل مدینہ پر چرحائی کرنے کی تیاریاں بھی کرنے لگے۔ان قبائل کی وجہ ارتداد پر سب سے پہلے تو خود قرآن نے سورة حجرات میں تبصرہ کردیاتھا کہ اسلام ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا،عرب کے بدوی قبائل مکہ پر قبضہ کے باعث مسلمان تو ہوگئے لیکن اسلام کے عملی تقاضوں کو نبھا نہ سکے۔

پس جب تک آپ ﷺ موجود رہے ان کی نبوت وشخصیت کے سامنے تو دبے رہے لیکن ان کے بعد فوراََ سر اٹھا لیا۔قبائلی تعصب ایک اوروجہ ارتداد تھی جسے ایک زمانہ بعد تک بھی ختم نہ کیاجاسکا،سرداروں کی شوریدہ سری اور جنگجووں کی طالع آزمائیاں اور شوق اقتدار و شہرت و حصول دولت وغیرہ سمیت متعدد دیگروجوہات ہیں جنہیں تاریخ کے نقادوں نے ارتداد کے پس منظر میں سمیٹاہے۔

اکثر قبائل نے زکوة کو تاوان سمجھ لیااور کہاکہ نبی علیہ السلام کو تو ہم ادا کر دیا کرتے تھے لیکن ان کے خلفا کو زکوة ادانہیں کریں گے۔بنوعبس،بنوذیبان اور بنوبکر اس انکار میں سرفہرست تھے۔منکرین زکوة کاایک وفد خلیفہ وقت کے ساتھ مزاکرات کے لیے ندینہ بھی آیااور عرض کی کہ ہم نماز پڑھتے ہیں لیکن زکوة سے ہمیں رخصت دے دی جائے ،حالات اس حد تک بگڑ چکے تھے شہرمدینہ صحرامیں بھیگی ہوئی تنہابکری کی مانند ہوچکاتھا چنانچہ صحابہ کی اکثریت نے اس وفد کے موقف کی تائید کی جبکہ حضرت عمر ؓجیسے جید کی صحابی کی رائے بھی منکرین کے حق میں تھی لیکن حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایاکہ زکوة کی ایک رسی کے لیے بھی مجھے جنگ لڑنی پڑی تو میں لڑوں گا۔

اس وقت اگر خلیفہ اول زکوة میں رعایت دے دیتے تو اسکو جواز بناکر آج کہاجاسکتاتھاکہ مصروفیت کے باعث پانچ کی بجائے تین نمازیں پڑھ لیناکافی ہے،مہنگائی کے باعث اپنے ہی علاقے میں مناسک حج اداکرلیناکافی ہے وغیرہ لیکن حضرت ابو بکرؓ کی ایک ”ناں“ نے قیامت تک کیے تحریف دین کے دروازے بند کر دیے۔

منکرین زکوة اس حد تک دلیر ہوچکے تھے کہ انہوں نے مدینہ پر چڑھائی کر دی چنانچہ مسلمانوں کے لشکر نے اپنے خلیفہ کی قیادت میں انہیں شکست دی اور انکے قبائل تک انکا تعاقب کیا۔

طلحہ بن خویلد اورمسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعوی کر دیا،ان کا خیال تھا کہ مکہ سے ایک فردنے نبوت کادعوی کر کے تو اقتدار،شہرت اور افواج اکٹھی کرلی ہیں چلو قسمت آزمائی ہم بھی کرتے ہیں۔طلحہ نے اپنے قبیلہ بنواسد کو اپنے گرد اکٹھاکر لیااور شکست خوردہ منکرین زکوة بھی اس کے ساتھ آن ملے اور یوں یہ مرتدین اکٹھے ہوکر ایک جتھے کی شکل اختیارکرگئے۔

حضرت ابوبکر ؓنے خالد بن ولید کی سالاری میں ایک لشکر ان کی سرکوبی کے لیے بھیجا”بزاخہ“کی وادی میں گمسان کا رن پڑا ،مرتدین کو شکست فاش ہوئی اور طلحہ اپنی بیوی سمیت فرارہوگیا۔بعد کے ادوار میں طلحہ نے توبہ کرلی اور مسلمان ہوگیااور دورفاروقی میں ایران و عراق کی مہمات میں بہت بہادری کے ساتھ جہاد کرتارہا۔مسیلمہ دراصل بنوحنیفہ کا سردارتھااور یمامہ کا رہنے والا تھا۔

اس نے دورنبوت میں ہی نبی علیہ السلام کے ساتھ گستاخیاں شروع کر دی تھیں جس کے باعث دربار نبویﷺ سے اسے ”کذاب“ کا لقب مل چکاتھا۔ مرکزخلافت مدینہ منورہ سے شرجیل بن حسنہ اور عکرمہ بن ابوجہل الگ الگ دستے دے کرمسیلمہ کی سرکوبی کے لیے روانہ کیاگیادونوں نے ہزیمت اٹھائی اس کے بعد خالد بن ولید اپنا لشکر لے کر پہنچے اور مرتدین کا پتہ کاٹنے کے لیے فیصلہ کن حملہ کی تیاریاں شروع کر دیں۔

مسیلمہ کے ساتھ چالیس ہزار کا لشکر تھا لیکن اس کے باوجود بھی وہ مسلمانوں کا ڈٹ کر مقابلہ نہ کرسکا اور ایک باغ میں محصور ہوگیا،مسلمان مجاہدین باغ کی دیواروں سے کود گئے اور اس کاکام تمام کردیا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ جس ”وحشی“نے جنگ احد میں حضرت امیرحمزہ ؓکا قتل کیاتھا اسی نے اپنے بھالے کو اس طرح نشانے پر پھینکاکہ وہ مسیلمہ کذاب کے سینے سے آرپار ہوگیا۔

بحرین کے لوگ بھی مرتد ہو گئے اور انکے دیکھادیکھی ان کے قریب کے دیگرقبائل بھی ارتداد کی طر ف مائل ہوئے اور دین حق کو خیرآباد کہ دیاان میں عمان،یمن اور حضرموت کے لوگ بھی شامل تھے۔یہ علاقہ یمامہ کے قریب ہی واقع تھاچنانچہ مسیلمہ کذاب کی شکست سے یہ لوگ خوفزدہ تو ہوئے لیکن جہالت کے باعث ابھی بھی آمادہ بغاوت ہی تھے۔ان میں سے ایک سردار جارود بن معلی عبدی اسلام پر قائم رہااور اس نے اپنے قبیلے بنوعبدالقیس کوبھی تبلیغ و ترہیب کے ذریعے اسلام پر قائم رکھا۔مرتدین نے سابقہ شاہی خاندان کے ایک شہزادے کو اپنا بادشاہ بنا لیاتھااور سلطنت اسلامیہ کے گورنر علاء حضرمی کو علاقہ بدر کردیاتھا۔ حضرت ابوبکر نے مرتدین کی سرکوبی کے لیے وہیں کے نکالے ہوئے گورنرعلاءحضرمی کو لشکر کا کماندار مقررکیا۔

دشمن کی تعداد بہت زیادہ تھی چنانچہ مسلمان افواج نے خندقیں کھود کر ان میں چھپ کر اپنا دفاع بھی کیااوردشمن پر حملے بھی کرتے رہے۔ایک ماہ کی طویل کشمکش کوئی نتیجہ برآمد نہ کرسکی اور یہ جنگ عسکری مقابلے کی بجائے اعصابی مقابلے کی صورت اختیار کر گئی۔ایک رات جب مرتدین شراب کے نشوں میں دھت غل غپارہ اور طوفان بدتمیزی برپاکر رہے تھے تو مسلمانوں نے موقع غنیمت جان کر بھرپوروار کیا،یہ حملہ کارگر ہوا اور دشمن کا اتنانقصان ہوا کہ انہیں میدان جنگ میں ہزیمت اٹھانا پڑی اور مسلمان افواج فتح مند ہوئے۔

اسو دعنسی ایک اور جھوٹامدعی نبوت تھااور اس نے دور نبوت میں ہی یہ دعوی کررکھاتھا،اسکاتعلق یمن سے تھا۔اسود عنسی نے اپنے بہت سے پیروکاروں کو اکٹھا کر رکھاتھا اور اسلامی حکومت کے عمال کو وہاں سے نکال کر اپنی حکومت قائم کررکھی تھی۔کم و بیش چار ماہ تک اس نے یہ ڈراما رچائے رکھااور وصال نبوی ﷺ سے ایک رات قبل راگ رنگ کی محفل میں اسی کے ایک چاہنے والے نے اسے ذبح کردیا۔اس کے بعد بھی یہ فتنہ ارتداد ختم نہ ہوااور عمروبن معدی کرب اورقیس بن عبد یغوث نے ان باغیوں کی قیادت سنبھال لی۔حضرت ابوبکر ؓنے عکرمہ اور مہاجر کو ان لوگوں کی بغاوت کچلنے کے لیے روانہ کیا۔مدنی افواج کے آنے سے اہل یمن بری طرح گھبراگئے اور ان میں پھوٹ پڑ گئی ۔

عمرو بن معدی کرب مسلمانوں سے مل گیااور اس نے قیس بن عبد یغوث کو گرفتار کرادیااور یوں یہ بغاوت بھی فروہوگئی۔عمرو بن معدی نے بعد کے دور فاروقی میں ایران اسلام جنگ میں بہادری کے خوب جوہر دکھائے۔

Friday, June 12, 2009

جمہوریت اور خلافت




تحریر: ڈاکٹر منیب احمد ساحل


ژال پال سارتر نے اپنے ناول ”لاناوسی یا متلی“ میں نظریہ موجودیت پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”انسانی اقدار کی واحد بنیاد کامل آزادی ہے ۔انسان اپنے جذبات اور خیالات کا خود خالق ہے اور خود اپنے رویوں کا ذمہ دار ہے “۔ سارتر کے مطابق انسان کو زندگی گزارنے کےلئے ازخود قوانین بنانے چاہئیں اور ہر گزرتے عہد کےلئے عمران معاہدے کرنے چاہئیں ۔
سارتر کے فلسفے پر کام کرتے ہوئے فرانسیسی فلسفی ”روسو“ نے اپنی کتاب ”سوشل کنٹریکٹ“ میں جمہوریت کا نظریہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ روسو کے مطابق ہر شخص کو حکومتی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا حق ہونا چاہئے تا کہ ریاست شہریوں کی تمام ضروریات پوری کر سکے۔ آج دنیا بھر میں جو جمہوریت نافذ ہے اس کے بارنی سارتر اور روسو ہی تھے۔

آج عام مسلمان ممالک بھی اسی جمہوریت کا پرچار کر رہے ہیں اور اسی کے گن گا رہے ہیں اسلام اگر چہ عملی اعتبار سے جمہوریت کا مخالف نہیں ہے کیونکہ اسلام میں آزادی رائے اور شوری کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ مگر جمہوریت کی بنیاد حاکم جمہور کے نظریے پر قائم ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام کی اکثریت اگر اللہ کے حکم کے خلاف فےصلہ دے دے تو ملک کا قانون بنا کر اس فیصلے کو نافذ کر دیا جائے اس کی واضح مثال ہمیں اہل مغرب کے ہاں ملتی ہے جہاں اپنے دین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے انہوں نے ہم جنس پرستی، شراب اور سود کو حلال کر لیا ہے۔

اس لئے اسلام نظریاتی طور پر جمہوریت کے اقتدار اعلٰی نظریے کا شدید مخالف ہے۔ اسلام کے مطابق حاکمیت اعلٰی جمہور کا نہیں صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ اسلام کی نظر میں اللہ کے سوا کسی اور کا اقتدار اعلی تسلیم کرنا شرک ہے اور جہاں عائلی قوانین بنانے کا معاملہ آئے وہاں علماء کی رائے اور مشورے سے فیصلہ کیا جانا چاہئیے۔ جمہوریت میں 9 باکردار و عقلمند افراد کی رائے پر 10بے وقوفوں کی رائے زیادہ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ 10بے وقوفوں کو عددی برتی حاصل ہوتی ہے۔

جبکہ اسلام میں افراد کو گنا نہیں جاتا بلکہ ان کا کردار تولا جاتا ہے جو جتنا متقی ہو گا اس کی رائے اتنی ہی اہمیت کی حامل ہو گی۔

یہ ابلیسی جمہوریت کا شاخسانہ ہی ہے کہ آج دنیا بھر میں مسلمان ذلیل و خوار ہو رہے ہیں کونکہ وہ جمہوریت کے وطن پرستی کے نعرے میں آ کر وہ اپنی مرکزیت کھو چکے ہیں اور کوئی اس طرف توجہ بھی دینے کو تیار نہیں جس نظام میں آج امت مسلمہ اپنی فلاح ڈھونڈ رہی ہے وہ درحقیقت ببول کی باڑ ہے۔

آج اگر پاکستان میں عوام نان شبینہ کے محتاج ہیں تو اس کی وجہ صرف جمہوریت ہی ہے کیونکہ آج جمہوری نظام کے تحت قائم ہونےوالی پارلیمنٹ جو کہ عوام کی نمائندگی کا دعوی کرتی ہے درحقیقت عوام کی نمائندہ نہیں ہے۔ آج پاکستان کے پارلیمانی انتخابات سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار بن چکے ہیں۔ جس نے جتنی سرمایہ کاری کی تھی وہ اس سے ہزاروں گنا زیادہ کمانے کی فکر میں ہے اور رہے عوام تو عوام کی فکر کسے ہے؟

دہشتگردی کےخلاف جنگ ،امریکی ڈرون حملوں اور خود کش حملہ آوروں کے حملوں کا نشانہ بن کر سےنکڑوں خاک نشینوں کا لہو زرک خاک ہو چکا ہے اس پر تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے نہ صرف مذمتی بیان جاری کئے بلکہ احتجاجی مظاہرے بھی کئے مگر کسی نے آج تک غریب عوام کےلئے احتجاج نہیں کیا جو بجلی، گیس اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کے سبب بھوک، مفلسی اور تنگ دستی کے جہنم میں دھکیل دیے گئے ہیں، خیر پاکستان کے حالات کا تو کیا ہی کہنا مگر دنیا بھر میں مسلمان آج بری طرح مظالم کا شکار ہیں اور اس کے باوجود بھی دہشتگردی کا لیبل بھی مسلمانوں پر ہی چسپاں ہے۔

دنیا بھر میں سب سے زیادہ قدرتی و معدنی وسائل رکھنے والے مسلمان ممالک جن کے پاس ایٹمی قوت بھی ہے ان میں اتحاد اورمرکزی خلافت نہ ہونے کے سبب آج خون مسلم دنیا میں سب سے زیادہ ارزاں ہے، مسلمانوں کو شعور سے بے بہرہ رکھنے مےں بنےادی کردار مسلمان ممالک کے حکمرانوں کا ہے کہ انہوں نے اےسا نصاب تعلیم تشکیل دیا جس سے اچھے کلرک، اچھے انجینئر، اچھے ڈاکٹر وغیرہ تو پیدا ہو جائیں مگر اچھے و باکردار مسلمان پیدا نہ ہو سکیں اس کے علاوہ دینی مدارس کے علماء کا کردار بھی اس سلسلے میں انتہائی مایوس کن ہے، معاشرے میں بس ان کا یہی کام رہ گیا ہے کہ وہ مسجد میں نماز پڑھا دیں، کسی کے گھر میں ختم قران کروا دیں ،نکاح کروا دیں، جنازے یا بچے کی پیدائش کے وقت چند رسومات ادا کروا دیں۔

عملی زندگی میں ان کے کردار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ لوگ گھروں میں انتظار کرتے ہیں کہ کب مولوی صاحب خطبہ ختم کریں اور وہ کب مسجد میں جا کر نماز ادا کریں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اب لوگوں کو علماءکے وعظ و تقریروں میں کوئی دلچسپی نہیں رہی، انہی روایتی علماء میں سے بعض نے جدید علوم سے واققیت حاصل کر کے عصر حاضر کے زندہ مسائل کو اپنا ہدف بنایا ہے، عام روایتی علماءکی بہ نسبت ان کا اثر و نفوذ معاشرے میں بہت زیادہ ہے اور ان کی دعوت سننے والے افراد کی بھی کوئی کمی نہیں ۔

اس وقت جو لوگ دین کی خدمت کر رہے ہیں ان کا ہدف جامع وواضح نہےں ہے ،عام علماء اپنے روایتی ورثے کی حفاظت کر رہے ہیں۔ دینی جماعتوں نے اپنا ہدف سیاسی میدان میں تبدیلی تک محدود کرلیا ہے جبکہ تبلیغی جماعتوں کا ہدف لوگوں کو مخصوص دینی اعمال مثلا نوافل، درود و وظائف اور عبادات کی تلقین کرنا رہ گیا ہے ۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل ایمان سب سے پہلے اپنا ہدف متعین کریں، اسلامی تعلیمات کی اساس پر جدید دور کے تقاضوں کے مطابق سیاسی، معاشی و عمرانی معاہدے تیار کریں کیونکہ یہ حقیقت قابل افسوس ہے کہ مسلمان جمہوریت، کیپٹل ازم اور سیکولر ازم کے مقابلے میں اپنا مقدمہ لڑ ہی نہ سکے، امت مسلمہ کے دانشوروں کو چاہئے کہ وہ قران کریم کی روشنی میں اجتہادی بصیرت پیدا کریں، امید ہے کہ عمل کے میدان میں بھی جیت ہماری ہی ہو گی (انشاءاللہ)۔

Wednesday, June 10, 2009

جون کا مہینہ ۔ امریکی جہاز لبرٹی کی غرقابی





تحریر: مظفر سلطان لونگی


8 جون 1967ء کو امریکہ کا جاسوسی جہاز بحر ابیض میں تیر رہا تھا کہ اسرائیلی طیاروں نے اس پر حملہ کرکے تہہ نشین کر دیا۔ اس حملہ کے معا بعد اسرائیل نے خبر نشر کی کہ یہ حملہ ایک غلط فہمی کی بنیاد پر ہوا تھا کیونکہ اسرائیل اسے مصری جہاز سمجھا تھا۔ اس وقت اسرائیل نے یہ کہہ کر امریکہ سے معذرت کر لی لیکن بعد میں یہ حقیقت کھلی کہ حملہ جان بوجھ کر کیا گیا تھا۔

کیونکہ 5 جون سنہ 67 کی جنگ کے بعد اسرائیل نے مصری قیدیوں کو جس طرح سیناء میں غرق کیا تھا اس جہاز کا عملہ اس کا عینی شاہد تھا۔ لہاذا اسرائیل نے اپنے جرم کے چشم دید گواہ کو بھی ٹھکانے لگا دیا۔

اس واقعہ سے اسرائیل کی فطرت اور اس کی ذہنیت کو آشکارا ہو جاتی کہ کس طرح اپنا کام نکلنے کے بعد وہ اپنے مہروں کو خود ہی پٹوا دیتا ہے۔ اس حادثہ میں چالیس امریکی مارے گئے تھے۔

جون کا مہینہ ۔ فتح قسطنطنیہ


تحریر: مظفر سلطان لونگی


آج کا دن تاریخ کے آئینے میں۔ جون6 سنہ 1453 عیسوی


تم ضرور قسطنطنیہ فتح کرلو گے، پس بہتر امیر اس کا امیر ہوگا،اور بہتر لشکر وہ لشکر ہوگا۔ حدیث نبوی

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ان مبارک الفاظ کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لئے اسلامی تاریخ میں قسطنطنیہ پر کئی حملے ہوئے لیکن اللہ تعالی نے یہ اعزاز عثمانی سلطان محمد ثانی کی تقدیر میں رکھا تھا جنھیں اس فتح کے بعد محمد فاتح کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔

محاصرہ قسطنطنیہ
قسطنطنیہ فتح کر کے سلطان محمد ثانی نے اسلام کی نامور ہستیوں میں ایک ممتاز شخصیت کی حیثیت اختیار کر لی۔ قسطنطنیہ فتح ہوا اور زمانے نے دیکھا کہ باز نطینی سلطنت کے ہزار سالہ غرور اور تکبر کے بت اوندھے پڑے ہوئے ہیں اور قسطنطینہ کی فصیل کے نیچے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مقبرے پر ہلالی پرچم کا سایہ ہے۔ قسطنطینہ کی تسخیر عالم اسلام کے لئے مسلمانوں کی جرات و شجاعت کی یادگار ہے۔

بیزنطینی سلطنت کے عہد میں قسطنطنیہ کے کم از کم 24 محاصرے ہوئے۔ ان محاصروں میں دو مرتبہ قسطنطنیہ بیرونی افواج کے ہاتھوں فتح ہوا۔ ایک مرتبہ سنہ 1204 میں چوتھی صلیبی جنگ کے دوران صلیبیوں نے اس کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور دوسری مرتبہ سنہ 1453 میں سلطان محمد فاتح کی زیر قیادت عثمانی افواج نے اسے فتح کیا۔

مسلمانوں کے محاصرے
مسلمانوں نے اس شہر کا پہلا محاصرہ سنہ 674 عیسوی میں اموی خلیفہ حضرت امیر معاویہ کے دور میں کیا۔ شہر کی مضبوط فصیلوں اور سخت سرد موسم کے باعث مسلمان شہر کو فتح نہ کرسکے۔

دوسرا محاصرہ اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کے دور میں سنہ 717 عیسوی میں کیا گیا جس کی قیادت خلیفہ کے بھائی مسلمہ بن عبد الملک نے کی۔ اس ناکام محاصرے کو عیسائی مشہور جنگ ٹورس کی طرح سمجھتے ہیں کیونکہ اس میں ناکامی کے باعث اگلے 700 سال تک یورپ میں مسلمانوں کی پیش قدمی رکی رہی اور بنو امیہ کی فتوحات کو بھی زبردست دھچکا پہنچا۔ محاصرے کے دوران ہی سلیمان بن عبد الملک وفات پاگیا اور عمر بن عبدالعزیز نے تخت سنبھالا اور ان کے حکم پر شہر کا محاصرہ اٹھا لیا گیا۔ اس محاصرے میں مسلمانوں کا زبردست جانی نقصان ہوا۔

عثمانیوں نے اس شہر کے تین محاصرے کئے جن میں پہلا محاصرہ سنہ 1396 عیسوی میں کیا گیا جو سلطان بایزید یلدرم کی قیادت میں ہوا تاہم تیموری حکمران امیر تیمور کی سلطنت عثمانیہ کے مشرقی حصوں پر یلغار کے باعث بایزید کو یہ محاصرہ اٹھانا پڑا۔ تیمور اور بایزید کا ٹکراؤ انقرہ کے قریب ہوا جس میں بایزید کو شکست ہوئی۔
دوسرا محاصرہ سنہ 1422 عیسوی میں عثمانی سلطان مراد ثانی نے کیا تاہم بازنطینی شہر کا دفاع کرنے میں کامیاب رہے۔

تیسرا محاصرہ سلطان محمد فاتح نے کیا اور ایک محیر العقول کارنامے کے بعد 6 جون سنہ 1453 عیسوی کو یہ شہر فتح کر لیا۔

Tuesday, June 9, 2009

استعماری قوتیں پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کررہی ہیں۔


کچھ عرصہ قبل پاکستان کے ایک موقر روز نامے میں شائع ہونے والی بدنام زمانہ امریکن سی آئی اے کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ امریکن سی آئی اے نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کیلئے کام کرنے والے اپنے خصوصی شعبے پاکستان ویسٹرن ایسٹرن ونگ (PWE)کو پاکستان کی مزید تقسیم کیلئے ازسر نو بحال کردیا ہے اور امریکی کانگریس نے بھاری اکثریت سے اس منصوبے کیلئے ایک کھرب ڈالر کا خفیہ بجٹ بھی منظور کیا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان ویسٹرن ایسٹرن ونگ (PWE)کو 1969ءمیں قائم کیا گیا تھا جس کا مقصد مشرقی پاکستان کی علیحدگی کیلئے راستہ ہموار کرنا تھا ،بنگلہ دیش بن جانے کے بعد اس ونگ کو پاکستان ڈیسک میں ضم کردیا گیاتھا ،تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق دوبارہ اس ونگ کو فعال اور متحرک کرنے کا مقصد پاکستان میں لسانی، علاقائی اور صوبائی خودمختاری جیسے نازک معاملات کو ہوا دے کر علیحدگی پسند تحریکوں کو منظم کرنااور ان کیلئے ساز گار حالات پیدا کرنا ہے۔

امریکن سی آئی اے کی کوشش ہے کہ پاکستان کو چار صوبائی زون کے علاوہ اسے مزید آٹھ زون یا صوبوں میں تقسیم کرادیا جائے یا پنجاب،سندھ،سرحد،کشمیراور بلوچستان میں شکست و ریخت کے منصوبے بنائے جائیں،رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ جس طرح امریکن سی آئی اے 2001ءسے بلوچستان میں سمندری علاقوں پر مشتمل ایک مضبوط ریاست بنانے کیلئے سرگرم عمل ہے ، اسی طرح امریکن سی آئی اے 1995ءسے سندھ کو دو حصوں میں تقسیم کے منصوبے پر بھی عمل پیرا ہے امریکہ کی خواہش ہے کہ کراچی اور حیدرآباد پر مشتمل دونوں شہروں کو مستقبل میں وہ اپنی بزنس کالونی کے طور پر استعمال کرسکے۔

امریکن سی آئی اے کے اس ناپاک منصوبے میں بھارتی خفیہ ایجنسی را،اور اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد بھی شامل ہیں،امریکن خفیہ ادارے سی آئی اے کی اس رپورٹ کے تانے بانے 2006ءمیں امریکن آرمڈ فورسز جرنل کے سابق فوجی افسر اور دفاعی امور کے ماہر رالف پیٹرز کی
” Blood borders:How a better Middle East Would Look “ کے عنوان سے شائع ہونے والی تحریرسے ملتے ہیں جس میں اس نے مشرق وسطیٰ اور پاکستان کی تقسیم کو اس بنیاد پر ناگزیر قراردیا تھا کہ ان کی سرحدیں غیر فطری ہیں، رالف پیٹرز کے منصوبے کے مطابق عراق کی تین حصوں میں تقسیم کے علاوہ سعودی عرب سمیت خلیجی ریاستوں اور دیگر عرب ملکوں کی شیعہ آبادی پر مشتمل ایک عرب شیعہ ریاست اور ایک کرد ریاست کے قیام اور مشرق وسطیٰ کے نقشے میں مزید تبدیلیوں کے علاوہ پاکستان کے جغرافیہ کو تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

رالف پیٹرز کی اس اسکیم میں ایک آزاد بلوچستان کے قیام کو ناگریز قرار د ینے کے ساتھ صوبہ سرحد کی افغانستان میں اور افغانستان کے شیعہ آبادی والے صوبوں کو ایران میں شمولیت کی تجویر بھی پیش کی گئی ہے۔
امریکی خفیہ یجنسیوں کی رپورٹوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی Strategic ماہرین روس کے انتشار اور دیوار برلن کے انہدام کے بعد سے ایک ایسی عالمی حکمت عملی کے تانے بانے بننے میں مشغول تھے جس کے زریعے امریکہ 21ویں صدی کی واحد سپر پاور بن سکے اور دنیا میں امریکہ کا مقابلہ کرنے والی کوئی قوت باقی نہ رہے ،امریکہ چاہتا ہے کہ دنیا کے تمام اہم Strategic مقامات پر اس کے فوجی اڈے ہوں ،تیل گیس،اور خام مال کی رسد گاہیں اس کے کنٹرول میں رہیں،اس کی مصنوعات کیلئے عالمی منڈیاں بالخصوص عرب اور تیسری دنیا کے ممالک کی منڈیاں کھلی رہیں ،اور مشرق وسطیٰ کے ساتھ وسطی ایشیا کی حکومتوں کا سیاسی نقشہ اس طرح ترتیب دیا جائے کہ دونوں خطوں میں امریکی مفادات کے تحفظ کے ساتھ امریکہ کی ناجائز اولاد اسرائیل کی سلامتی بھی محفوظ رہے اور اسرائیل خطے میں امریکی مفادات کے حصول کیلئے کلیدی کردار ادا کرتا رہے۔

چنانچہ اس مقصد کے حصول کیلئے عراق کی کمر توڑنا،افغانستان میں قدم جمانا ،ایران کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنا،پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنا ،بھارت کے ساتھ جوہری تعاون کے زریعے علاقے میں اپنے اثرات بڑھانا، چین پر نظر رکھنے کے ساتھ اسے جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر ہراساں کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ عراق،پاکستان،افغانستان،کو علاقائی،فرقہ وارانہ عصبیتوں کی بنیاد پر ٹکڑے ٹکڑے کرکے کمزور کرنا امریکہ کے وہ کلیدی اہداف ہیں جن پر 1990ءکے عشرے سے کام ہورہا تھا ، ایک امریکی تھنک ٹینک کی رپورٹ Project for the new Americal Century کے مطابق ”ہمارا مقصد ایک ایسا بلیو پرنٹ تیار کرنا ہے جس کا مقصد عالمی سطح پر امریکہ کی برتری برقرار رکھنا ،کسی دوسری عظیم طاقت کے بطور حریف عروج کو روکنا،اور بین الاقوامی سلامتی کے نظام کو امریکی اصولوں اور مفادات کے مطابق تشکیل دینا ہے“ تھنک ٹینک کی رپورٹ میں امریکی پالیسی کے مقاصد بالکل واضح ہوکر سامنے آگئے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک عنوان اور نعرے کے سوا کچھ نہیں ہے۔

امریکہ کا اصل مقصد دنیا میں امریکی بالادستی ،مسلم اور دیگر ممالک میں اپنے مطلب کی حکومتوں کا قیام،تیل اور دوسرے وسائل پر قبضہ اور ان کا اپنے مفاد میں استعمال،دنیا میں احیائے اسلام کی تحریکوں کا راستہ روکنا،اسلامی بنیاد پرستی، اسلامی انتہا پسندی اور اسلامی دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کو اپنے ملکوں میں اسلام کو قوت بنانے سے روکنا اور اپنی سیاسی، معاشی، نظریاتی، عسکری، ثقافتی اور ذہنی غلامی میں جکڑنا ہے، استعماری قوتوں کا یہی وہ ایجنڈا ہے جس کے تحت عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان کے خلاف سازشیں گذشتہ کئی برسوں سے جاری ہیں۔

استعماری قوتیں مسلم ممالک کو کم زور کرنے اور امت مسلمہ کو تقسیم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اورنائن الیون کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادی مغربی ممالک کھل کر اعلانیہ طور پر مسلم ممالک کے خلاف صف آراءہوچکے ہیں، انہوں نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد عالمی جنگ کے نام پر عالم اسلام کے خلاف صلیبی جنگوں کا آغاز کردیا ہے جس کا اصل ہدف پاکستان اور بالخصوص وہ اسلامی ممالک ہیں جنہیں قدرت نے بے پناہ قدرتی وسائل اور معدنی دولت سے نوازاہے یا جو جغرافیائی محل و قوع کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔

یہاں اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد عالمی جنگ اپنے آغاز کے روز اوّل سے صرف مسلم ممالک کے خلاف لڑی جارہی ہے ،امریکہ اور اس کے اتحادی مغربی ممالک نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے نام پر اپنے جنگی جنون میں مبتلا ہوکر محض مفروضات کی بنیاد پر افغانستان اور عراق کو وحشیانہ طریقے سے اپنی بربریت کا نشانہ بناکر تخت و تاراج کردیا،جیتی جاگتی بستیوں کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا۔ لاکھوں چلتے پھرتے زندگی سے بھرپور انسانوں کو موت کی نیند سلادیا اور اب وہ جہاں ایک طرف ایران کے خلاف پابندیاں عائد کر رہے ہیں اور اسے دھمکیاں دے رہے ہیں وہاں دوسری طرف پاکستان کو جو اسکی نام نہاد عالمی جنگ کا اہم ترین اتحادی بھی ہے کے خلاف زہریلا منفی پروپیگنڈہ بھی جاری ہے۔

من گھڑت ،جعلی اور مفروضات پر مبنی رپورٹس کی بنیاد پر قبائلی علاقوں کو القاعدہ اور طالبان کی پناہ گاہ قرار دے کر وہاں اسامہ بن لادین سمیت القاعدہ کے اہم ترین رہنماوں کی موجودگی کے الزامات عائد کئے جارہے ہیں، پاکستان پر براہ راست حملے کی دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں ،ایک امریکی اخبار واشنگٹن ٹائمز نے تو یہاں تک دعویٰ کیا ہے کہ11ستمبر کے حملوں کے بعد افغانستان میں القاعدہ کے خلاف امریکہ کی جنگ کے دوران سابق بے غیرت آمر مشرف نے امریکہ کو اس بات کی اجازت دی تھی کہ اگر القاعدہ کے رہنمااسامہ بن لادن پاکستانی قبائلی علاقے میں موجود ہوں تو انہیں ڈرون طیارے کے ذریعے میزائل سے نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔

18فروری کے انتخابات کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ نئی حکومت عوامی منیڈیٹ کا سہارا لے کر مریکہ اور صدر مشرف کے مابین ان تمام خفیہ اور اعلانیہ معاہدوں کا کھوج لگاتی جن کی بنیاد پر امریکی فورسزجب چاہیں قبائلی علاقوں پر حملہ کردیتی ہیں،لیکن ایسا لگتا ہے کہ کچھ بھی نہیں بدلاسب کچھ وہی ہے،وہی آئین ہے وہی قانون ہے ،پیپلز پارٹی نے سابق صدر پرویز مشرف سے این آر او خرید کر اپنی آزادی کے ساتھ اپنی خودی بھی بیچ ڈالی ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ حکومت مشرف کا محاسبہ کرنے سے گریز کررہی ہے۔

آج پاکستان کا سیاسی منظر نامہ یہ ہے کہ 18فروری کے بھر پورعوامی مینڈیٹ کے باوجود پی سی او کا نفاذ ،کمزور پارلیمنٹ اور امریکی مداخلت کے تمام پتھر جو کے توں وہیں پڑے ہیں،جہاں 3نومبر 2007ءکے آمرانہ اقدام کے بعد ڈالے گئے تھے، قبائلی علاقوں میں امریکی حملوں کی صورت میں جس طرح کل قیامت توٹتی تھی آج بھی وہی حال ہے ،کل تک ہمارے حکمران امریکی حملے کو اپنی کاروائی قرار دیتے تھے جبکہ آج یہ حال ہے کہ موجودہ حکومت کے ان حملوں پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ، یوں لگتا ہے کہ نئی حکومت نے مشرف سے زیادہ امریکہ کی خدمت گاری اور کاسہ لیسی کرکے عوامی خواہشات اور مینڈیٹ کو مٹی میں ملانے کا تہیہ کرلیا ہے، یہ بات درست ہے کہ پاکستان ہمیشہ سے ہی امریکی مفادات کے تابع رہا ہے اور ہر حکمران نے امریکی خوشنودی کے حصول کیلئے وہ سب کچھ کیا جو امریکہ چاہتا تھا، لیکن نائن الیون کے بعد سے جس طرح پاکستان نے امریکہ کی جانب سے چلائی جانے والی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے کا فیصلہ کیا،وہ پوری قوم کیلئے حیران کن تھا۔

مشرف جو اس وقت فوجی سربراہ بھی تھا کے بقول ان کے پاس امریکہ حمایت کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھااور انہوں نے یہ فیصلہ ”سب سے پہلے پاکستان“ کو مدنظر رکھ کر کیا تھا ان کے بقول ان کو اسی فیصلے پر عمل درآمد کرنا تھا جو امریکہ نے انہیں تجویز کیا تھا،ورنہ دوسری صورت میں امریکہ ہمیں تورا بورا میں تبدیل کرسکتا تھا،حالانکہ نائن الیون سے قبل جنرل پرویز مشرف بیرونی دنیا بشمول امریکہ کو یہ باور کرواتے رہے کہ وہ دہشت گردی اور جہاد میں فرق سمجھیں اور دونوں کو ایک نظر سے نہ دیکھا جائے اور اسی طرح وہ طالبان کی حمایت بھی کرتے رہے لیکن نائن الیون کے بعد پاکستان اور جنرل پرویز مشرف کی جانب سے امریکی دباو پر یو ٹرن نے ملک کو ایک نئی صورت حال سے دوچار کردیا اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کیلئے امریکی جنگ میں پیش پیش پاکستان خود بھی دہشت گردی کا شکار ہوکر رہ گیا۔

آج یہ حال ہے کہ اپنا سب کچھ قربان کردینے کے باوجود پاکستان کو دنیا بھر میں دہشت گرد ملک کے طور پر پیش کیا جارہا ہے اورہمارا حال یہ ہے ہم اب بھی امریکی مفادات کی وہ جنگ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں لڑ رہے ہیں جونہ تو پاکستان کی جنگ ہے اور نہ ہی امت مسلمہ کے مشترکہ مفادات کی جنگ ہے بلکہ یہ تو صرف امریکہ کے استعماری عزائم کے حصول کی جنگ ہے،اس نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں آلہ کار بنے رہنا ایک اخلاقی ،سیاسی اور نظریاتی جرم ہے جس سے جلد ازجلد چھٹکارا پاکستان اور عالم اسلام کے مفاد میں ہے۔

پاکستان جو پہلے ہی بد ترین سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہے کیلئے ان حالات میں طاقت کے زریعے معاملات کو حل کرنے کی کوشش ملک و قوم کیلئے سنگین مسائل پیدا کرسکتی ہے اور زرا سی لغزش سے پاکستان کی حاکمیت، آزادی ،سلامتی،استحکام ، تشخص اور وجود کو داو پر لگ سکتی ہے،ماضی میں مشرقی پاکستان کے خلاف فوجی کاروائی کا انجام قوم کو عبرتناک شکست اور 90ہزار جنگی قیدیوں اور ڈھائی لاکھ محصور پاکستانیوں کی صورت میں بھگتنا پڑا ہے اس سے قبل بھی حکومت بلوچستان میں 1973,1958,1948اور 2005میں فوجی کاروائی کر چکی ہے جس کے نتائج غصہ ،نفرت ،بغاوت اور سوائے اپنے بھائیوں کے قتل کے اور کچھ حاصل نہیں ہوئے۔

حکمت اور داشمندی کا تقاضہ یہ تھا کہ صوبہ سرحد میں بدامنی کے اسباب معلوم کر کے اس کے سدباب کی جانب فوری توجہ دی جاتی، اس وقت صوبہ سرحد میں بدامنی کے دیگر کئی اسباب کے علاوہ سب سے بڑا سبب قبائلی علاقے میں جاری فوجی آپریشن ہے،جس کے خلاف قبائل سمیت صوبے کے عوام میں شدید ناراضی پائی جاتی ہے،اسی طرح دوسری جانب اتحادی اور امریکی افواج کی جانب سے درجنوں بے گناہ اور معصوم افغانوں کا قتل عام بھی صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں پائی جانے والی بد امنی کی اہم وجہ ہے۔

پاکستان کے سابقہ اور موجودہ حکمران چوں کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے ہراول دستے کا کردار ادا کررہے ہیں،جس کی وجہ سے صوبہ سرحد سمیت پورے ملک میں حکومت کی ان پالیسیوں کے خلاف سخت نفرت پائی جاتی ہے،جس کا اظہار سیکورٹی فورسز پر حملوں اور سیکورٹی و فوجی اہلکاروں کے اغوا ءاور قتل کی صورت میں سامنے آرہا ہے،قبائلی علاقوں میں جاری خانہ جنگی کی اس کیفیت نے سانحہ مشرقی پاکستان کی یاد تازہ کردی ہے،اس تباہی و بربادی سے صرف ایک خطہ ہی متاثر نہیں ہورہا بلکہ یہ آگ پھیل کر کسی بھی وقت پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

لہٰذا اب بھی وقت ہے کہ ہمارے حکمران اور فوجی و عسکری قیادت اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کر ے ،بصورت دیگر طاقت کے اندھا دھند استعمال سے سانحہ مشرقی پاکستان جیسی صورتحال دوبارہ جنم لے سکتی ہے،ان حالات میں محب وطن حلقوں کی اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کیا جاسکتا کہ ”استعماری طاقتیں پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کررہی ہیں اور پاکستان کو ایران سے زیادہ خطرات لاحق ہوسکتے ہیں کہ پاکستان ایک طرف اپنے جغرافیائی محل و قوع کی وجہ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے تو دوسری جانب عالم اسلام کی پہلی ایٹمی ریاست ہونے کے باعث استعماری طاقتوں کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں۔

سب سے اہم ترین بات یہ ہے کہ پاکستان نہ صرف واحد مسلم ایٹمی ہے بلکہ اسلامی ممالک میں سب سے بڑی باصلاحیت ،جدید دفاعی ہتھیاروں اور میزائل ٹیکنالوجی سے لیس تربیت یافتہ ،پیشہ ور فوج بھی اس کے پاس ہے اور پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جو عالم اسلام کے اتحاد کیلئے ہمیشہ کوشاں رہا ہے اور وہ اپنی تمام تر توانائیاں امت مسلمہ کے اتحاد پر صرف کررہا ہے اور یہی وہ بنیادی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے استعماری قوتیں پاکستان کو کسی بھی صورت مستحکم ،توانا،مضبوط ،پر امن اور خوشحال دیکھنا نہیں چاہتیں، اس نازک وقت میں پاکستان کا ہر ادارہ خواہ اس کا تعلق پارلیمنٹ سے ہو یا عدالت سے،فوج سے ہو یا سول نظام سے ،سیاسی جماعتوں سے ہو دینی اداروں سے یا پھر وہ میڈیا تعلق رکھتے ہوں یا عوام سے ہوں سب کی مشترکہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پاکستان کو اس ممکنہ تباہی و بربادی سے بچائیں جس کی آگ میں عالمی ایجنڈے کے تحت اسے جھونکا جارہا ہے۔

اسرائیل کا اعتراف اور یہودی




اسرائیل اگرچہ دنیا کے نقشے پر 1948ء سے ایک دہشت گرد ملک کے طور پر موجود ہے اور پسپا ہوتے ہوتے دنیا بھر کے ممالک آج اسے تسلیم کرنے کے لئے بے چین ہوئے جا رہے ہیں لیکن خود یہودیوں کی قابل لحاظ تعداد آج بھی اسرائیلی ریاست کے وجود کے خلاف ہے۔ ایسے افراد ہر دور میں قیام اسرائیل پر تنقید کرتے چلے آئے ہیں لیکن میڈیا پر چونکہ ان کی پروجیکشن نہیں ہو پاتی ہے۔ اس لئے ان کے خیالات عوام تک نہیں پہنچ پاتے۔
ذیل کی سطروں سے اندازہ ہو گا کہ لاتعداد یہودی آج بھی اسرائیل کے وجود کو تورات کے خلاف سمجھتے ہیں۔ امریکہ میں مقیم ایک اہم یہودی مذہبی پیشوا ” لیسرائیل “ نے اسرائیلی ریاست کو ایک غیر شرعی ریاست قرار دیا ہے۔ مڈل ایسٹ اسٹڈی سینٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق نیو یارک میں ایک پریس بریفنگ کے دوران انہوں نے کہا کہ اسرائیلی ریاست تورات کی رو سے غیر شرعی ہے کیونکہ ہماری شریعت میں کسی قومی اور یہودی سلطنت کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔ یہودی پیشوا نے کہا کہ فلسطین جائز طور پر مسلمانوں کا ملک ہے اور مسجد اقصیٰ انہی کی ہے۔ رہا ہیکل سلیمانی تو اب مٹ چکا ہے لہٰذا یہودیوں کو مسجد اقصیٰ کی زمین نہیں کریدنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہودیوں نے دنیا بھر سے یہودیوں کو مروانے کیلئے فلسطین پر مسلط کر دیا ہے۔ مذہبی پیشوا ایسرائیل جو ایک مذہبی یہودی تنظیم ” حرکت ناطوری “ کے سربراہ ہیں، نے کہا کہ ان کی جماعت اسرائیل کو بطور ایک ملک کبھی تسلیم نہیں کرے گی۔
اسرائیل میں یہودیوں کی ایک مذہبی تنظیم ” ہیریڈم “ مستقل طور پر صیہونیت کی شدید مخالفت کرتی ہے جس کا مقصد اسرائیل کا قیام اور اس کی توسیع ہے۔ ہیریڈم والے صیہونیت کی جو مخالفت کرتے ہیں اس کی بنیاد تالمود کی تعلیمات ہیں جن کے مطابق خدا نے یہودیوں سے تین عہد لئے تھے جن میں سے دو یہ ہیں (1) یہودیوں کو غیر یہودیوں کے خلاف بغاوت نہیں کرنی چاہئے اور (2) مسیح کی آمد سے پہلے فلسطین کی طرف اجتماعی نقل مکانی نہیں کرنی چاہئے۔ 1500 سالہ ماضی کے دوران روایت پسندانہ یہودیت کے ربیوں کی اکثریت نے مذکورہ دونوں عہدوں کی یہی تعبیر کی ہے کہ جلاوطنی ( دربدری، DIASPORA) یہودیوں پر لازمی ہے اور یہ دربدری خدا نے ان پر ان کے گناہوں کی وجہ سے عائد کر رکھی ہے۔ ( اسرائیل میں بنیاد پرستی۔ مصنف اسرائیل شحاک 53-52) ۔
ماضی میں ایک اسرائیلی یہودی اسکالر ” ایویا زریو “ نے لکھا تھا کہ تیرہویں صدی کے دوران جب کچھ ربی اور شاعر مذہبی وجوہات کے تحت فلسطین چلے گئے تو دنیا کے دوسرے حصوں میں موجود ربیوں نے اس عمل پر مذکورہ بالا تین عہدوں کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا تھا۔ اسی طرح وورٹز برگ جرمنی کے ایک مذہبی روحانی رہنما ربی ایلیاز موشے نے مذکورہ ہجرت کرنے والے یہودیوں کو انتباہ کیا تھا کہ وہ غلطی کر رہے ہیں اور خدا موت کی صورت میں انہیں اس کی سزا دے گا۔ تقریباً اسی زمانے میں اسپین کے ایک ربی ” ایذرا “ نے بھی کہا تھا کہ جو یہودی فلسطین کی طرف نقل مکانی کر جاتا ہے وہ خدا کو فراموش کر دیتا ہے۔ اسکالر ” ایویا زریو “ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ربیوں کی جانب سے انیسویں صدی تک عام طور پر ایسے ہی، بلکہ اس سے زیادہ انتہائی تصورات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ ممتاز جرمن ربی ” یہاناتھن “ نے اٹھارہویں صدی کے وسط میں لکھا کہ یہودیوں کی فلسطین کی جانب نقل مکانی مسیح ( دجال ) کی آمد سے پہلے ممنوع ہے خواہ اسے دنیا کی اقوام کی تائید ہی کیوں نہ حاصل ہو۔ اسی طرح انیسویں صدی کے اوائل میں جرمنی میں جدید آرتھوڈکس نظریات کے بانی ربی ” رافائیل ہرش “ نے (1837) میں لکھا کہ ” خدا نے یہودیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی کوششوں سے اپنی ریاست کبھی قائم نہ کریں “۔ اسی سال جب شمالی فلسطین میں ایک زلزلہ آیا اور وہاں منتقل ہونے والے بیشتر یہودی اس زلزلے سے ہلاک ہو گئے تو ہنگری کے ایک ممتاز ربی ” موشے ٹائیٹل بام “ نے اس حادثے کو یہودیوں کے لئے خدا کا عذاب قرار دیا۔ اس نے کہا کہ ” خدا کی رضا یہ نہیں ہے کہ ہم اپنی کوششوں اور ارادے سے سرزمین اسرائیل کی طرف جائیں “۔
ایک اور اہم ہیریڈم ربی یوسف نے 1989ء میں ایک صیہونیت مخالف کنونشن منعقد کیا جس میں اس نے اسرائیلی دہشت گرد تنظیم ” گش ایمونیم “ کے ربیوں کے اس نظریئے سے اختلاف کیا کہ نجات کا آغاز ہو چکا ہے اور خدا کا حکم ہے کہ ارض اسرائیل کو فتح کر لیا جائے اور یہ کہ نجات کا آغاز ہونے کی وجہ سے ارض اسرائیل کا کوئی حصہ غیر یہودیوں کو نہیں دینا چاہئے “۔ دوسرے الفاظ میں ربی یوسف اس بات کا قائل تھا کہ اسرائیل کی سرزمین میں غیر یہودیوں کو بھی آزادانہ طور پر بسایا جا سکتا ہے جس کی اس وقت اسرائیل میں پابندی ہے۔ ربی یوسف نے کنونشن میں بتایا کہ مسیح کا زمانہٴ نجات ابھی شروع نہیں ہوا ہے۔ اس نے کہا کہ ریاست اسرائیل گناہ گار یہودیوں سے بھری ہوئی ہے جن سے خدا ناراض ہے ( حوالہ کتاب: اسرائیل میں بنیاد پرستی۔ از اسرائیل شحاک ) ۔
تھیوڈ ور ہرزل نظریہٴ صیہونیت کا بانی ہے اور اسے یہودیوں میں ایک قومی فکر کی حیثیت حاصل ہے۔ اس نے 1897ء میں تحریک صیہونیت کی بنیاد رکھی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ دنیا بھر میں بکھرے ہوئے یہودیوں کے لئے ایک قومی وطن کا قیام ضروری ہے۔ تاہم فرانس اور لندن کے بعض بااثر یہودی صیہونیت کو یہودیت کے سیاسی مسئلے کا حل نہیں سمجھتے تھے۔ ( اس وقت تک امریکہ ابھر کر نمایاں طور پر سامنے نہیں آیا تھا )۔ ان کا خیال تھا کہ امریکہ اور یورپ میں رہ کر اور وہاں کے حکمرانوں سے بہتر تعلقات پیدا کر کے بھی یہودی پُر امن طور پر رہ سکتے ہیں۔ برطانیہ کا یہودی مفکر اسرائیل زینگول اسی نظریئے کا حامی تھا۔ ( حوالہ کتاب فری مسینری۔ از بشیر احمد امریکہ 187)۔
یہودیوں کی ایک نمائندہ تنظیم عالمی صیہونی آرگنائزیشن نے بھی عین 1948ء میں جبکہ اسرائیل کا قیام عمل میں آنے والا تھا، اسرائیل کی مخالفت کی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ اسرائیل کا قیام اس طرح بالجبر نہیں بلکہ پُر امن سفارتی مذاکرات کے ذریعے ممکن بنانا چاہیے۔ ( کتاب قومیں جو دھوکہ دیتی رہیں۔ ترجمہ راقم الحروف 78 )۔ مذہبی یہودیوں کی ایک تنظیم ” بنٹو رائی کارٹا “ کا اب بھی اسی عقیدے پر اعتقاد ہے کہ اسرائیل کا قیام زیادتی ہے۔ وہ لوگ دو ورقے وغیرہ نکالتے رہتے ہیں جن میں لکھا ہوتا ہے کہ ” تم لوگ خدائی احکامات کی خلاف ورزی کیوں کرتے ہو؟ جس مہم کو تم لوگ لے کر اٹھے ہو وہ ہر گز کامیاب نہ ہو گی “۔
ابتداء میں بیشتر مذہبی یہودیوں کا خیال تھا کہ اسرائیل کی سرزمین کی طرف ان کا لوٹنا اسی وقت ممکن ہے جبکہ خدا آسمان سے ان کے مسیحا ( جو ہمارے نزدیک دجال ہے ) کو نہ بھیج دے۔ اسرائیل کے جبری قیام کو خود صیہونی لیڈر بھی تسلیم کرتے تھے۔ مثال کے طور پر ڈیوڈ بن گوریان نے جو بعد میں اسرائیلی وزیراعظم بھی بنا، یہودی لیڈروں کے سامنے حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا کہ ” ہم باہر کی دنیا میں الفاظ کی جنگ کے ذریعے عربوں کی مخالفت کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہمیں اس سچائی کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم ہی ظالم اور جارح لوگ ہیں اور عرب لوگ صرف اپنا دفاع کر رہے ہیں “۔ ( قومیں جو دھوکہ دیتی ہیں۔ ترجمہ راقم الحروف )۔
معروف معتوب امریکی کانگریس فیمبر پال فنڈلے اپنی عظیم کتاب THEY DARE TO SPEAK OUT میں لکھتا ہے کہ ” کئی امریکی یہودی، اسرائیل کی سرکاری پالیسیوں کے ساتھ واضح اور حیران کن اختلاف رکھتے ہیں۔ امریکہ میں یہودیوں کی تنظیم ” امریکن فرینڈز سروس کمیٹی “ کے نمائندوں کو اینٹی سیمیٹک اور PLO کے دیوانے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اسرائیلی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتے اور فلسطینیوں کے لئے ایک آزاد اور معقول PROPER وطن کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ ایک شخص جس نے اسرائیل کے قیام میں بنیادی حصہ لیا اور پھر USA میں اس کے لئے حمایت پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا، بعدازاں وہ بھی اسرائیلی پالیسیوں کا نقاد بن گیا۔ اس شخص کا نام ہے ” ناہم گولڈ مین “ اور وہ کہتا تھا کہ اگرچہ اسرائیل کا قیام ضروری ہے لیکن یہودیوں کو اس طرح جبراً فلسطین پر قبضہ کرنے کی بجائےعربوں کے ساتھ باہمی مفاہمت کرنی چاہیے۔ اس کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے قیام کے بعد اصلی صیہونیت کے مقاصد سے روگردانی کی جا رہی ہے۔ اس نے صیہونیوں کے اس دعوے کو رد کر دیا کہ اسرائیل پر قبضے کا مطلب خدائی وعدے کی تکمیل ہے۔
امریکہ کے دو اور یہودی بُرجر اور الفریڈ بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو اسرائیلی ریاست کے وجود کے خلاف ہیں۔ انہوں نے ابتداء ہی میں پیش گوئی کی تھی کہ یہودی مملکت بننے سے یہودیت کو شدید خطرہ لاحق ہو گا۔ اسرائیل کے قیام اور UNO کی جانب سے تسلیم کئے جانے کے مدتوں بعد تک یہ دونوں یہودی، اسرائیل کے خلاف جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ برجر نے 1953ء میں اپنی وہ معروف کتاب لکھی تھی جس کا عنوان ہے WHAT PRICE ISRAEL? ( حوالہ کتاب DARE TO SPEAK OUT ۔ 378) مندرجہ بالا جائزے سے یہ بات بہت واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ بہت سے اہم یہودی افراد اسرائیل کے قیام پر آج بھی بے چین ہیں لیکن بد قسمتی سے صیہونیت کے علمبردار ان پر حاوی آ گئے ہیں اور ان کے نظریات کو پریس اور ٹی وی پر نہیں آنے دیتے۔
نوم چومسکی، مینرونسکی، اینتھونی لیوس، سیموئر ہرش، آنجہانی اسرائیل شحاک اور کلٹزنک کا شمار اسرائیل مخالفین میں ہوتا ہے لیکن ان کی آوازیں امریکی حکومت اور طاقتور صیہونی شخصیات کے شور و غوغا میں دب جاتی ہیں۔ یہ بات بھی واضح کرنی ضروری ہے کہ اسرائیل میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق ایک چوتھائی شہریوں کو آج بھی یقین نہیں ہے کہ اسرائیل ایک طویل عرصے کے لئے قائم رہ سکے گا۔ یہ سروے ایک مقامی اسرائیلی اخبار میں شائع ہوا تھا اور اسے بعض پاکستانی اخبارات نے 8-9-07 کو لفٹ کیا تھا لہٰذا ان حالات میں یہ سوال اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ کیا کسی مسلم ملک کو بھی اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے یا نہیں؟

دہشتگردی کیا ہے، کیا اس پر مسلمانوں کی اجارہ داری ہے؟




از ڈاکٹر ذاکر نائیک


جس موضوع ’’دہشت گردی‘‘پر بحث شروع کر رہا ہوں اس کی تفصیلات میں جانے سے پہلے خود اس لفظ کی تعریف کرنا چاہوں گا لیکن دہشت گردی کی تعریف یا ڈیفائن کرنا انتہائی مشکل کام ہے کیونکہ اس کی مختلف تعریفیں‌ ہیں اور خاص بات یہ ہے کہ ان میں کئی اس لفظ کی صحیح تعریف واضح نہیں کرتی اور اس کے بالکل برعکس ہیں۔ اس لفظ کی تعریف / ڈیفینیشن بہت واضح نہیں‌ ہے۔ جیسے جیسے جغرافیائی مقام تبدیل ہوتا ہے ویسے ویسے اس لفظ کی تعریف تبدیل ہوتی جاتی ہے لیکن آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق:
’’سیاسی مقاصد کے حصول یا کوئی بھی سرکاری کام کی پرزور انجام دہی کے لیے پرتشدد طاقت کا استعمال ‘‘
اس لفظ کا پہلی بار استعمال 1790 میں فرانسیسی انقلاب کے دوران کیا گیا تھا اور یہ لفظ ایک برطانوی شخص ایڈمنڈ برک نے فرانس کے جیکوبیئن دور کی حکومت کے لیے استعمال کیا تھا۔ 1793 اور 1794 کے درمیان اس ہی حکومت کو ’’دہشت کی حکومت‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس حکومت کو میکسیمیلن روبز پیئر چلا رہا تھا۔ جتنا عرصہ بھی اس نے حکومت کی اس نے ہزاروں لاکھوں معصوم لوگوں کو مروایا / گلوٹونائز کیا۔ تاریخی ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ روبز پیئر نے تقریباً پانچ لاکھ افراد کو گرفتار کرایا جس میں سے چالیس ہزار کو فوراً مروا دیا، دو لاکھ کو ملک بدر کیا گیا جبکہ دو لاکھ سے زائد کو جیلوں میں تشدد اور اذیتیں دے کر اور بھوکا رکھ کر ہلاک کیا گیا۔ تو بہرالحال لفظ دہشت یا دہشت گردی کا ابتدائی استعمال اس طرح کیا گیا۔
لیکن آج جب ہمارے پاس بین الاقوامی میڈیا موجود ہے، ایک بہت عام سا بیان اکثر و بیشتر خصوصاً سامنے آتا رہتا ہے یا یہ کہہ لیں کہ اس بیان کی اکثر بمباری کی جاتی ہے اور وہ بیان یہ ہے کہ:

’’تمام مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں لیکن تمام دہشت گرد مسلمان ہیں‘‘
All Muslims are not terrorists but
All Terrorists are Muslims

یہ تشریح یا تعریف ایک خاص مقصد سے شرق الاوسط اور دیگر ایشیائی ممالک میں پھیلائی گئی ہے۔ تو آیئے آج دیکھتے ہیں کہ تاریخی ریکارڈز کے مطابق دنیا میں دہشت گردی یا حملوں سے متعلق معلومات ہمیں کیا بتاتی ہے۔

جب ہم 19ویں صدی کی بات کرتے ہیں‌ ہمیں پتا چلتا ہے کہ شاید ہی کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہو جس میں مسلمان ملوث ہوں۔
1881 میں روس کے زار الیگزینڈر دوئم کو قتل کردیا گیا۔ وہ سینٹ پیٹرز برگ (سابقہ لینن گراڈ) میں ایک بلٹ پروف گاڑی میں سفر کر رہے تھے کہ اچانک ایک بم پھٹا جس سے معصوم 22 لوگ مارے گئے۔ سر الیگزینڈر اپنی گاڑی سے باہر آتے ہیں کہ اچانک ایک اور بم پھٹا اور وہ مارے گئے۔ انہیں کسی مسلم نے نہیں بلکہ بیلاروس اور پولینڈ سے تعلق رکھنے والے شخص‌ ایگنی ویرچی نامی غیر مسلم شخص نے مارا۔
1886 میں شکاگو (امریکا) کی ہے مارکیٹ اسکوائر میں لیبر ریلی کے دوران دھماکا ہوا جس میں ایک پولیس اہلکار سمیت 12 افراد مارے گئے جبکہ 7 زخمی ہونے والے پولیس اہلکار اسپتال میں‌ جانبر نہ ہوسکے۔ اس واقعے میں ملوث افراد مسلم نہیں بلکہ غیر مسلم انارکسٹ تھے۔
اب آتے ہیں 20ویں صدی کی طرف۔
6 ستمبر 1901ء کو امریکی صدر ولیم میک کینلی کو ایک غیر مسلم انارکسٹ لیئون زولوگوس نے قتل کردیا۔ اس شخص نے امریکی صدر کو پستول کے دو فائر کرکے قتل کیا۔
یکم اکتوبر 1910ء کو امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمز کی عمارت میں ہوا جس میں 21 معصوم افراد مارے گئے۔ اس حملے میں ملوث دو افراد عیسائی تھے جن کے نام جیمز اور جوزف ہیں، دونوں یونین لیڈر تھے۔
28 جون 1914ء کو آسٹریا کے آرک ڈیوک فرانز فرڈیننڈ (رائل پرنس آف ہنگری اینڈ بوہیمیا) کو ان کی اہلیہ سمیت بوسنیا ہرزیگووینا کے دارالحکومت ساراجیوو میں قتل کردیا گیا جس کے نتیجے میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی۔ اس قتل میں‌ ملوث‌ افراد کا گروپ خود کو ’’ینگ بوسنیا یا نوجوان بوسنیا‘‘ کہلاتے تھے اور تمام کے تمام غیر مسلم سرب تھے۔
16 اپریل 1925ء کو بلغاریہ کے دارالحکومت سوفیا کے سینٹ نیڈیلیا چرچ میں بم دھماکا ہوا جس میں 150 سے زائد معصوم افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ 500 سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ بلغاریہ کی تاریخ میں سب سے بڑا حملہ تصور کیا جاتا ہے۔ حملے میں ملوث افراد غیر مسلم تھے اور بلغارین کمیونسٹ پارٹی کے ارکان تھے۔
9 اکتوبر 1934ء کو یوگوسلاویہ کے شاہ الیگزینڈر کو ایک بندوق بردار شخص ولاڈا جورجیف نے قتل کردیا جو غیر مسلم تھا۔
یکم مئی 1961 کو امریکی تاریخ کا پہلا طیارہ ایک عیسائی ریمریز آرٹیز نے ہائی جیک کیا۔ وہ شخص‌ طیارے کو کیوبا لے گیا جس کے بعد اس نے وہاں پناہ حاصل کرلی۔
28 اگست 1968ء‌ کو گوئٹے مالا میں امریکی سفیر کو ایک غیر مسلم نے قتل کردیا۔
30 جولائی 1969ء میں جاپان میں امریکی سفیر کو ایک غیر مسلم جاپانی شخص نے قتل کیا۔
3 ستمبر 1969ء کو برازیل میں امریکی سفیر کو اغواء کرلیا گیا جس میں ایک غیر مسلم ملوث‌ تھا۔
19 اپریل 1995ء میں مشہور و معروف اوکلوہاما فیڈرل بلڈنگ میں ہونے والے دھماکے میں دھماکہ خیز اور آتشگیر مواد سے بھرے ایک ٹرک کو عمارت سے ٹکرا دیا گیا تھا، اس واقعے میں 166 معصوم افراد مارے گئے جبکہ سیکڑوں دیگر زخمی ہوئے۔ ابتدائی طور پر پریس میں جو بات سامنے آئی وہ تھی ’’مڈل ایسٹ کانسپائریسی‘‘۔ کئی دنوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ہفتوں‌تک بریکنگ نیوز چلتی رہی کہ یہ مڈل ایسٹ کانسپائریسی ہے، مسلم ملوث‌ ہی، فلسطینی‌ ملوث ہیں لیکن بعد میں تحقیقات سے پتا چلا یہ حملہ کرنے والے 2 بائیں بازو کی جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد تھے ، دونوں‌ عیسائی تھے اور ان کے نام ٹموتھی اور ٹیری تھے۔ لیکن جب یہ بات پتا چلی کہ حملے میں عیسائی ملوث تھے تو میڈیا میں ایک دو روز تک یہ بات چلی لیکن اس کے بعد غائب ہوگئی۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد 1941ء سے 1948ء تک دنیا میں 259 دہشت گرد حملے ہوئے جس میں یہودی دہشت گرد اور کئی دیگر یہودی تنظیمیں جیسا کہ ارگون، اسٹن گینگ اور ہیگنا ملوث تھیں۔
22 جولائی 1946ء میں آج کے مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) کے کنگ ڈیوڈ‌ ہوٹل کا بم دھماکا اس حوالے سے بہت معروف ہے اور اس میں‌ یہودی تنظیم ارگون کا رکن مینکم بیگن ملوث تھا۔ واقعہ میں 91 معصوم افراد مارے گئے جس میں سے 28 برطانوی، 41 عرب، 17 یہودی اور 5 دیگر قومیتوں سے تعلق رکھتے تھے۔ حملے میں یہودیوں نے جو بدمعاشی کی تھی وہ یہ تھی کہ حملہ آوروں کو عرب شیوخ کے لباس میں بھیج کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ حملہ عرب قوم نے (فلسطینیوں) نے کرایا ہے۔ اس وقت تک یہ برطانوی مفادات پر سب سے بڑا حملہ تصور کیا جا رہا تھا۔ اس واقعہ کے بعد برطانوی حکومت نے مینکم بیگن کو اول نمبر کا دہشت گرد قرار دیا تھا۔ بعد میں کچھ سال بعد یہی بیگن اسرائیل کا وزیراعظم منتخب ہوجاتا ہے اور اس کے چند سال بعد اسے امن کا نوبل انعام دیا جاتا ہے۔ ذرا سوچیں! معصوم افراد کا قاتل وزیراعظم بن گیا اور نوبل پیس پرائز لے گیا اور یہی نام نہاد مغربی میڈیا، جو جھوٹے ہولوکاسٹ کو جھوٹا تک ثابت نہیں کرسکتا، بیگن کی تعریفوں کے گن گانے لگا۔ اسرائیلی وزیراعظم ایرئیل شیرون بھی معصوم لوگوں‌ کے قتل عام میں ملوث ہیں۔ انہوں نے 1982ء میں‌ جب وہ اسرائیل کے وزیر دفاع تھے، لبنان کے صابرہ اور شتیلا کیمپ میں تقریباً 3500 فلسطینی پناہ گزینوں‌ کو لبنان کی عیسائی تنظیم لیبنیز میرونائٹ کرسچن ملیشیا کے ہاتھوں‌ اور اسرائیلی فوجی ایجنٹس کے ذریعے مروا دیا۔ یہ ساری سازش فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او)‌ کے ان کارکنوں کو مارنے کے لیے کی گئی تو جو اسرائیل سے اپنی چھینی ہوئی زمین واپس لینے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔
اگر آپ 1945ء سے پہلے کا دنیا کا نقشہ دیکھیں‌ تو پتہ چلے گا کہ اسرائیل کا نام و نشان تک نہیں‌ تھا۔ مذکورہ بالا یہودی جنہیں مسلمانوں نے نہیں بلکہ برطانیہ نے دہشت گرد تنظیم کا نام دیا تھا، یہودی ریاست کے حصول کے لیے لڑ رہی تھیں۔ بعد میں طاقت کے دم پر انہوں نے زمین پر قبضہ کیا، فلسطینیوں کو وہاں سے لات مار کر بھگایا اور اب وہی لوگ جو اپنی زمین کے واپس حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں انہیں‌ اسرائیل نے دہشت گرد قرار دیا ہوا ہے۔
ہٹلر نے یہودیوں کا قتل عام کرایا، وہ جرمنی سے یہودیوں کو بھگادیتا ہے تو وہ یہودی فلسطین میں کیوں گھسیں۔ یہ تو فلسطینیوں کی مہمان نوازی اور اخلاص تھا جنہوں نے ان یہودیوں کو موسیٰ کی اولاد سمجھ کر گلے لگایا اور رہنے کے لیے جگہ دی۔ اگر ان یہودیوں کو زمین چاہئے تو وہ واپس جرمنی جائیں یا پھر یورپ جائیں جہاں سے انہیں نکالا گیا ہے۔ دنیا میں خود کو انسانی حقوق کا علمبردار ماننے والے فرسٹ ورلڈ ممالک اسرائیل جیسے دہشت گردوں کا ساتھ دے رہے ہیں، اس کے خلاف اقوام متحدہ میں آنے والی قراردادوں کو ویٹو کر رہے ہیں اور جو معصوم ہیں ان کا پابندیوں کے نام پر دانہ پانی بند کرکے انہیں دہشت گرد قرار دے رہے ہیں۔ امام خمینی نے امریکا کے لیے بزرگ شیطان کا جو نام رکھا ہے وہ بالکل صحیح ہے۔
جرمنی میں 1968ء سے لے کر 1992ء تک بادر مین ہوف گینگ نامی تنظیم نے کئی معصوم انسانوں کا قتل کیا۔
اٹلی میں ریڈ بریگیڈ نامی تنظیم نے سیکڑوں معصوم لوگوں کا قتل کیا اور یہی تنظیم اٹلی کے وزیراعظم الڈو مورو کے اغوا میں بھی ملوث تھی اور 55 روز بعد اسے قتل بھی کردیا۔
جاپان میں بھی ایسی ہی ’’جاپنیز ایٹ آرمی‘‘ نامی تنظیم تھی جس کے ارکان بدھ مت سے تعلق رکھتے تھے۔ اس تنظیم نے ٹوکیو سب وے میں ہزاروں لوگوں کو ایک زہریلی گیس کے ذریعے ہلاک کرنے کی کوشش کی۔ خوش قسمتی سے ان کی سازش ناکام ہوئی اور صرف 12 لوگ مارے گئے لیکن 5 ہزار افراد زہریلی گیس کے اثرات سے شدید متاثر ہوئے اور کچھ زخمی بھی ہوئے۔
برطانیہ میں تقریباً 100 سال تک آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والی کیتھولک عیسائی ارکان پر مشتمل تنظیم آئی آر اے برطانوی مفادات کے خلاف حملے کرتے آئے لیکن انہیں کبھی کیتھولک دہشت گرد نہیں کہا گیا۔ اس تنظیم نے سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں‌ دہشت گرد حملے کئے۔ 1972ء میں اس تنظیم نے تین دھماکے کرائے۔ پہلے میں سات، دوسرے میں 11 جبکہ تیسرے میں 9 مارے گئے۔ 1974ء میں تنظیم نے دو گلفورڈ‌ پب (شراب خانہ) میں دھماکے کرائے 6 افراد مارے گئے جبکہ 45 سے زائد زخمی ہوئے۔ برمنگہم کے شراب خانے میں کئے جانے والے حملے میں 21 افراد مارے گئے جبکہ 162 زخمی ہوئے۔ 1996ء میں لندن میں ہونے والے دھماکے میں 2 افراد زخمی ہوئے اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔ 1996ء میں ہی مانچیسٹر کے شاپنگ ایریا میں دھماکے سے 206 افراد زخمی ہوئے۔ 1998ء میں بین برج بم دھماکے، جہاں ایک گاڑی میں 500 پائونڈ وزنی دھماکا خیز مواد ایک گاڑی میں رکھ کر تباہ کردیا گیا، جس سے 35 معصوم افراد زخمی ہوئے۔ اس ہی سال کے دوران اوماگ بم دھماکے میں آئی آر اے نے 500 پائونڈ وزنی دھماکا خیز مواد کو تباہ کرکے 25 افراد کو موت کی نیند سلادیا جبکہ 330 افراد زخمی ہوئے۔ یہ تمام کے تمام واقعات آئی آر اے نامی تنظیم کے کھاتے میں جاتے ہیں جنہیں کسی مسلم مورخ کی کتابوں سے نہیں بلکہ غیر مسلم مغربی میڈیا (ایمنسٹی انٹرنیشنل، بی بی سی وغیرہ وغیرہ۔ تفصیلات انٹرنیٹ پر سرچ کی جا سکتی ہیں) کی رپورٹس سے حاصل کیا گیا ہے۔


چیچن کمانڈر ابن الخطاب شہید ابن الخطاب



تاریخ بڑے لوگوں کے حالات زندگی کا نام ہے ۔ جو لوگ اپنی اہلیتیوں اور قابلیتیوں کی بنا پر حالات کو فطری انداز سے تبدیل کرکے اپنی پسند کے دھارے میں ڈھالتے ہیں وہ بلاشبہ بڑے لوگ ہوتے ہیں ۔ اگر ہم ایسے ہی لوگوں کا اسلامی تاریخ سے جائزہ لیں تو ان کا تعارف شیخ عبداللہ عزام یوں کرواتے نظر آتے ہیں۔
’’وہ بہت کم افراد ہیں جو اسلام کی مبادیات اٹھانے والے ہیں ۔ اور وہ ان میں سے بھی تھوڑے ہیں جو ان مبادیات کی تبلیغ کیلئے دنیا بھر میں نکلتے ہیں۔پھر ان میں سے بھی وہ بھت کم ہیں جو ان مبادیات کی تائید میں اپنا خون اور اپنی جان تک پیش کر دیتے ہیں ۔اور یہی لوگ جو قلیل میں سے قلیل میں سے قلیل افراد ہیں ان کے راستے سے سواکسی اور راستے سے بزرگی اور شرف حاصل کرنا ممکن نہیں اور یہی واحد راستہ ہے ‘‘۔
اگر ہم تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کریں تو بہت کم اسلام کے ان ابطال کا تذکرہ ہمارے سامنے آئے گا جنہوں نے جہد اسلامی کے ان تمام پہلوؤں کو پورا کیا ہو۔ لیکن ان قلیل ابطال میں سے ایک نام اسلام کے اس بطل جلیل کا آئے گا جسے پوری دنیاامیر ابن الخطاب شہید کے نام سے جانتی ہے ۔
ابن الخطاب 1969میں سعودی عرب کے شمال سرحدی علاقے عرعر میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد سعودی عرب سے تھے جبکہ والدہ ترکی سے تعلق رکھتی تھیں ۔ چنانچہ انہوں نے ایک نسبتاً بہتر دولت مند اور تعلیم یافتہ گھرانے میں پرورش پائی اور بڑے ہوکر بہادر اور تنو مند نوجوان بنے جنہیں نڈر اور بے خوف سمجھا جاتا تھا۔ وہ سکول میں انتہائی لائق اور ذہین طالبعلم شمار ہوتے تھے اور انہوں نے سیکنڈری سکول امتحان میں 94%نمبر حاصل کئے ۔بعد ازاں انگلش زبان میں ماسٹرز کرنے کے بعد انہوں نے1987میں ایک امریکن انسٹیٹیوٹ میں داخلہ لے لیا اور مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔
یہ وقت تھاجب افغانستان پر چڑھائی کرنے والی سوویت یونین کے خلاف جہاد اپنے عروج پر تھا۔ پوری دنیا سے مسلمان نوجوان‘ الشیخ عبداللہ عزام(شہید1989) ٬الشیخ تمیم عدنانی (وفات1988) اور الشیخ اسامہ بن لادن جیسی جہادی شخصیات کی پکار پر لبیک کہنے کیلئے افغانستان کا رخ کر رہے تھے ۔ مجاہدین کے دلیرانہ کارناموں اور بے باک شجاعتوں کے ورطئہ حیرت میں ڈال دینے والے واقعات دنیا بھر کے مسلمانوں کے کانوں تک پہنچ رہے تھے ۔ لہٰذا خطاب کیلئے بھی جب امریکہ میں نئی تعلیمی زندگی کی ابتدا کرنے کا وقت آیا تو انہوں نے امریکہ کی بجائے ؛اپنے بہت سے دوستوں اور رشتہ داروں کی طرح افغان جہاد میں شریک ہونے کا فیصلہ کیا۔ جس دن 1987کے اواخر میں وہ اپنے والدین اور خاندان والوں سے رخصت ہوئے تو اس کے بعد وہ اپنے گھر واپس نہیں آئے۔
ان کے ایک مجاہد ساتھی نے اُس نو عمر‘ خطاب ۔ ۔ ۔ جو اپنے پہلے تربیتی کیمپ جلال آباد پہنچا ۔ ۔ ۔ کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات کاحال بیان کرتے ہوئے کہا’’ جلال آباد کے نزدیک یہ تربیتی کیمپ ان مجاہد ساتھیوں سے بھرا ہوا تھا جو کہ تقریباً روزانہ نئے پہنچتے اور ٹریننگ حاصل کرکے چلے جاتے ۔ ہم ان دنوں روسیوں کے خلاف ایک بڑے حملے کی تیاری کر رہے تھے ۔ وہ مجاہد جو اپنی تربیت مکمل کر چکے تھےاپنے اپنے پیک تیار کرنے کے بعد فرنٹ لائن پر پہنچنے کیلئے روانہ ہو رہے تھے ۔ ہم بھی تربیت کے بعد فرنٹ لائن پر پہنچنے کیلئے کیمپ چھوڑنے کی تیاری کر رہے تھے کہ نئے بھائیوں کا ایک گروپ آپہنچا ۔میں نے اس گروپ میں لمبے بالوں اور کشادہ پیشانی والے 16-17سال کی عمر کے ایک نوجوان کا جائزہ لیا۔ اس نوجوان کو جونہی فرنٹ لائن پر جانے والے ہمارے قافلے کا علم ہوا تو یہ نوجوان تربیتی کیمپ کے کمانڈر کے پاس چلا گیا ۔ اور اس سے التجا کرنے لگ گیا کہ اسے بھی فرنٹ لائن پہ جانے والے اس گروپ کے ساتھ جانے کی اجازت دی جائے ۔ لیکن کمانڈر نے بغیر تربیت کے اسے فرنٹ لائن پر بھیجنے سے یکسر انکار کر دیا ۔ میں اس نوجوان سے بہت متاثر ہوا،اسکے پاس گیا اور اسے تھپتھپا کر حوصلہ دیا ۔ میں نے اس سے اس کا نام دریافت کیا ۔ اس نے جواب دیا ’’ابن الخطاب‘‘۔
خطاب اس کیمپ میں اپنی تربیت مکمل کرنے کے بعد فرنٹ لائن پرچلے گئے۔معسکر میں ان کے اساتذہ میں سے ایک حسن الصریحی تھے [یہ جدہ کے نواحی ایک حراستی کیمپ میں 1996سے زیر حراست ہیں] جواس معسکرکے امیربھی تھے انہوں نے 1987میں جاجی کے محاذ پر افغان اور پاکستانی مجاہدین کے ساتھ شیخ اسامہ کی کمان میں زندگی اور موت کا ایساشاندار معرکہ سر کیاتھاجو آج عسکری تاریخ کا سنہری باب بن چکا ہے ۔ ایسے قابل قدر اساتذہ سے تربیت پانے کے بعد خطاب آئندہ چھے سالوں میں مجاہدین کے منتخب بہادر اور تجربہ کار کمانڈروں کی صف میں شامل ہو چکے تھے جنہوں نے دشمن کو ناکوں چنے چبوائے ۔ اور ہر محاذ پر روسی افواج کو ہزیمت سے دوچار کیا ۔ وہ روسی افواج کے خلاف ایمبش اورحملوں سے لے کر قریباً ہر بڑے آپریشن فتح جلال آباد ، فتح خوست اور فتح کابل میں شامل رہے ۔
خطاب میدان جہاد میں بسا اوقات موت کے ہاتھوں بال بال بچے ،کہ ابھی وہ وقت مقررہ نہیں آیا تھا۔ ایک دفعہ ان کے پیٹ میں 12.7mmہیوی مشین گن کی گولی لگ گئی (یاد رہے کہ یہ گن بکتر بند گاڑیوں کو نقصان پہنچانے اور دشمن کی مضبوط مورچہ بندیوںکو کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے) چنانچہ ان کے دوست نے یہ واقعہ بتلاتے ہوئے کہاکہ ’’ ایک آپریشن کے دوران ہم چند ساتھی خط ثانی پر ایک مکان میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ یہ شام کے دھندلکے کا وقت تھا اور خط اول پر لڑائی شدت سے جاری تھی ۔ اسی اثناء میں خطاب کمرے میں داخل ہوا ۔ اس کا چہرہ زرد دکھائی دے رہا تھا ۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ نارمل ہونے کی کوشش کر رہا ہو۔ وہ دیوار کے ساتھ چلتا ہوا ہما رے سامنے بیٹھ گیا۔اور خلاف معمول دیرتک خاموش بیٹھا رہا ۔ساتھیوں نے محسوس کیاکہ اس کے ساتھ کوئی گڑ بڑ ہو گئی ہے ۔ ہم نے اس سے پوچھا کہ کہیں وہ زخمی تو نہیں ہوگیا ۔ ’’نہیں ‘‘ اس نے مختصر سا جواب دیا۔اس نے مزید بتایا کہ ’’ آج صبح خط اول پرلڑائی کے دوران معمولی فائر لگ گیا تھا جو زیادہ خطرناک نہیں ہے‘‘ ۔ بھائیوں نے خطاب سے کہا کہ وہ انہیں زخم دکھائے ۔لیکن خطاب نے زخم دکھانے سے انکار کر دیا۔ جب ایک بھائی کے مزید اصرار پر اس نے اپنا زخم دکھایا تو ہم نے دیکھا کہ فائر لگنے سے جسم پھٹ چکا تھا اور کپڑے خون میںبھیگ رہے تھے ۔ تب ہم نے ایک گاڑی کا انتظام کرکے اسے جلدی سے نزدیکی فیلڈ ہسپتال میں پہنچایا جبکہ وہ مسلسل کہے جارہا تھا کہ فائر معمولی ہے اور زخم زیادہ خطرناک نہیں ہے ‘‘۔
اسی طرح خطاب اس وقت افغانستان میںہی تھے جب ایک مقامی طور پر تیار کردہ ہینڈ گرنیڈ پھینکتے ہوئے ان کے دائیں ہاتھ کی دو انگلیاں اڑ گئیں ۔ گرینڈ ان کے ہاتھ میں ہی پھٹا اوراس نے دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں کو اڑا دیا ۔ خطاب اس دھماکے میں بال بال بچ گئے ۔ مجاہدین نے ان کے علاج پر توجہ دینے کیلئے اُنہیں پشاور جانے پر قائل کرنا چاہا مگر وہ مصر رہے کہ زخم پر شہد لگانے سے ہی یہ ٹھیک ہو جائیگا اور اس کیلئے پشاور جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ چنانچہ پشاور جانے سے انہوں نے قطعاً انکار کر دیا ۔ اس کے بعد ان کی یہ انگلیاں پٹی میں بندھی رہتیں ۔
چیچن جہاد میں بھی وہ کئی مرتبہ دشمن کے ہاتھوں دھوکے سے شہید ہونے سے بچے ۔ ایک مرتبہ وہ مال غنیمت میں ملنے والی 4ٹن وزنی روسی گاڑی چلا کر لارہے تھے ۔ گاڑی میں روسیوں نے دھوکے سے ٹائم بم نصب کیا ہوا تھا ۔ اچانک راستے میں گاڑی دھماکے سے پھٹ گئی ۔ گاڑی میں سوار مجاہدین کے اعضاء دور تک جا بکھرے ۔ لیکن خطاب کو اللہ کے فضل سے خراش تک نہ آئی اور وہ بچ گئے ۔
افغانستان سے روسی افواج کے پسپا ہونے کے بعد، جب ان کے حمایتی کمیونسٹ بھی مجاہدین کے ہاتھوں شکست کھا گئے تو خطاب اور ان کے دوستوں نے ایک مرتبہ دوبارہ جہاد کی آواز سنی اور یہ آواز اس مرتبہ تا جکستان سے آئی تھی ۔ اپنے ساتھیوں کے چھوٹے سے گروپ کے ہمراہ انہوں نے تاجکستان کیلئے رخت سفر باندھا ۔ وہ مناسب گولہ و بارود اور اسلحہ کی شدید قلت کے باوجود تاجکستان کے برفانی پہاڑی سلسلوں میں روسیوں کے خلاف مسلسل2 سال تک بر سر پیکار رہے۔جہاد تا جکستان میں دو سال تک حصہ لینے کے بعد وہ 1995کے آغاز میں دوبارہ افغانستان واپس آگئے ۔ روس اس وقت چیچنیا کے خلاف اپنی پہلی جنگ کا آغاز کر چکا تھا ۔چیچنوں کے اسلام سے والہانہ لگاؤ اور دینی وابستگی کی وجہ سے ہر کوئی اس جنگ سے مضطرب نظر آ رہا تھا۔
خطاب نے ایک شام ، سٹلائیٹ ٹیلیویژن پر چیچنیا جنگ کے متعلق خبریں دیکھیں توانہیں اس جنگ کے بارے میں تفصیلاً علم ہوا۔ بعد میں انہوں نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے بتلایا ،’’ جب میں نے ایک چیچن گروپ کو پیشانیوں پر لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ وا لی پٹیاں باندھے اور تکبیر کے نعرے لگاتے جاتے ہوئے دیکھا تو میں نے فیصلہ کیا کہ چیچنیا میں بھی جہاد جاری ہے، مجھے لازماًوہاں پہنچنا چاہئے ‘‘ ۔ خطاب نے بتایا کہ وہ اس سے قبل چیچنیا کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے تھے ماسوا کہ ان کے پاس امام شامل اور ان کی تحریک کے بارے میں سرسری سی معلومات تھیں ۔
چنانچہ افغا نستان سے خطاب اپنے آٹھ ساتھیوں کے ہمراہ چیچنیا کیلئے روانہ ہوئے اور 1995کے موسم بہار میں چیچنیا پہنچے ۔جہاد چیچنیا میں شرکت کے ابتدائی چار سالوں کے دوران خطاب نے شجاعت و دلیری کے وہ کارنامے سر انجام دئیے کہ ان کے افغانستان اور تاجکستان جہاد کے کار ہائے نمایاں ہیچ معلوم ہونے لگے ۔ روسی حکومت کی ایک سرکاری دستاویز کے مطابق ان چار سالوں میں چیچنیا میں اس قدر روسی فوجی مارے گئے کہ دس سالہ افغان جنگ میں اتنے روسی فوجی نہیں مارے گئے تھے۔
ابن الخطاب جب چیچنیا پہنچے تو ان کے مزید کچھ ساتھی بھی چیچنیا چلے آئے۔ اور انہوں نے مل کر چیچنوں کی جنگی تربیت اوردینی رہنمائی کیلئے ایک تربیتی کیمپ کی بنیاد رکھی ۔ ان مجاہدین نے چیچنیا میںروس کے خلاف کئی ایک خطرناک ترین کاروائیاں کیں مثلاً آپریشن خرتاشوئی 1995 ،آپریشن شاتوئی 1996، آپریشن یشمردے 1996 اور روس کے اندرکیا جانے والا داغستان آپریشن 1999,1997۔
امیر ابن الخطاب کی ایک انتہائی دلیرانہ کاروائی 16اپریل 1996کو کیا جانے والا آپریشن شاتوئی تھا ۔ اس کاروائی میں انہوں نے صرف 50مجاہدین کے ہمراہ چیچنیا سے روس جانے والے ایک فوجی قافلے پر گھات لگا کرحملہ کیا۔ روسی فوجیوں کا یہ قافلہ50 گاڑیوں ا ور مع سازوسامان کے واپس جا رہا تھا ۔ جو نہی قافلہ گھات میں آیا ، مجاہدین قافلے پر ٹوٹ پڑے اور انہوں نے ہلکے وبھاری ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے سینکڑوں روسی فوجی موت کے گھاٹ اتار دئیے ۔ حملہ اس قدر تیز اور شدید تھا کہ کسی روسی فوجی کو سنبھلنے کا موقع نہ مل سکا اور سبھی اپنی 50کے قریب گاڑیوں سمیت اڑگئے ۔ ان کی لاشیں دور دور تک بکھری پڑی تھیں ۔ روسی فوجی ترجمان کے مطابق اس حملے میں 223روسی فوجی مارے گئے جن میں 26سینئر آفیسر بھی شامل تھے ۔ اس آپریشن میں صرف 5جانباز شہید ہوئے ۔ مجاہدین نے اس تمام آپریشن کو فلما لیا اور اسے انٹرنیٹ پر چھوٹے چھوٹے ویڈیوز اور تصاویر کی شکل میں محفوظ کر دیا جسے www.azzam.comکے فوٹو لائبریری سیکشن میں دیکھا جا سکتا ہے ۔ اس آپریشن کی وجہ سے دو یا تین روسی جنرلوں کو نوکری سے نکالا گیا۔ اور روس کے صدر بورس یلسن کو پارلیمنٹ میں اس حملے کی تفصیلات سنانی پڑیں ۔
اس آپریشن کے کچھ ماہ بعد ہی ان کے گروپ نے ایک مرتبہ پھر روسی آرمی کی ایک چھاؤنی پر حملہ کیا اور چھاؤنی میں موجود گن شپ ہیلی کاپٹروں کو AT-3 sagger wire guidedeاینٹی ٹینک میزائلوں سے نشانہ بنایا ۔ اس کے علاوہ ان کے زیر تربیت جانبازوں نے 1996میں شامل بسایوف کی قیادت میں بھی گروزنی پر کئے گئے ایک مشہور حملے میں حصہ لیا ۔
1996کے موسم خزاں میں روسی فوج کی چیچنیا سے پسپائی کے بعد باضابطہ طور پر انہیں چیچنیا کا قومی ہیرو تسلیم کرنے کا اعلان کیا گیا اور ایک تقریب میں جس میں چیچن جہاد کے انتہائی نامور اور تجربہ کار کمانڈر شامل بسایوف اور سلمان رادیوف شہید موجود تھے انہیں ایک میڈل پہنایا گیا اور فوج میں جنرل کے عہدے پر فائز کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں چیچن جانبازوں کے مرکزی تربیتی کیمپ کا کمانڈر بھی مقرر کیا گیا۔ وہ مجلس شوریٰ میں اشکیریا اور داغستان کے مجاہدین کے نمائندہ تھے جبکہ امیر مجلس شوریٰ شامل بسایوف کے نائب اور انٹرنیشنل اسلامک بریگیڈ کے امیر بھی ۔
27دسمبر 1997کو وہ دوبارہ منظر عام پر آئے جب ان کی کمان میں ایک سو کے قریب چیچن اور غیر ملکی مجاہدین نے روس کے اندر 100کلومیٹر تک پیش قدمی کرتے ہوئے روسی فوج کے 136موٹرائزڈ رائفل بریگیڈ کے ہیڈ کوارٹر کو نشانہ بنایا ۔ اس حملے میں روسی فوج کی تین سو کے قریب گاڑیاں تباہ ہوئیں اور سینکڑوں کی تعداد میں روسی فوجی مارے گئے ۔ جبکہ صرف دو مجاہدین شہید ہوئے جن میں سے ایک خطاب کے جہاد افعانستان کے سینئر کمانڈر ابوبکر عقیدہ تھے ۔
بہت سے چیچن انہیں ان کی شجاعت و بہادری کی وجہ سے اپنے دور کے اپنے دور کے خالد بن ولید سے تشبیہ دیتے تھے ۔ وہ موت پر پختہ یقین رکھتے تھے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ مجھے موت اسی وقت آئے گی جو اللہ نے میرے لئے لکھ دیا ہے ۔ کوئی اسے آگے پیچھے نہیں کر سکتا ۔
ابن خطاب میڈیا وار پر نہ صرف یقین رکھتے تھے بلکہ اس پر زور دیتے تھے ۔ وہ کہتے تھے ،’’ جس طرح یہ ملحد اور دہریہ قسم کے لوگ اپنے میڈیا اور پروپیگنڈے کے ذریعے ہم سے لڑائی کرتے ہیں اسی طرح ہمیں بھی اپنے میڈیا اور پروپیگنڈے کے ساتھ ان کا جواب دینا چاہئے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے کہ جس طرح وہ (کافر) لوگ تم سے لڑائی کرتے ہیں تم بھی اسی طرح ان کے خلاف لڑائی کرو ‘‘۔ ان کا خیال تھا کہ دشمن کے غلط پروپیگنڈے کا جواب صرف الفاظ سے نہیں دیا جا سکتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ویڈیو کاروائی دشمن کے پروپیگنڈے کا زیادہ مؤثراور بہترین جواب دے سکتی ہے ۔یہی وجہ تھی کہ ان کی کمان میں کئے جانے والے ہر مشن اور کاروائی کو فلمایا گیا اور اسے منظر عام پر لایا گیا تاکہ دشمن کے پروپیگنڈے کا مؤثر توڑ کیا جا سکے ۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس افغانستان، تاجکستان اور چیچنیا کی کاروائیوں کی سینکڑوں ویڈیوز ایک لائبریری کی صورت میں محفوظ تھیں ۔ اگست 1997میں ان کی زیر قیادت کئے گئے داغستان آپریشن میں مجاہدین نے بے شمار اور سینکڑوں کی تعداد میں روسی فوجیوں کو واصل جہنم کیا ۔ اس مشن کی پوری کاروائی ایک طویل ویڈیو کی صورت میں ان کے پاس محفوظ تھی ۔ جب روس نے یہ دعویٰ کیا کہ اس حملے میں اس کے صرف 40فوجی ہلاک ہوئے ہیں تو جواباً چیچن ٹی وی نے اس مشن کی مکمل ویڈیو نشر کردی جس میں سینکڑوں روسی فوجیوں کی لاشوں کو جنگل میں دور دور تک بکھرے دکھا یا گیا تھا ۔ اس ویڈیو کے نشر ہونے سے روس میں کہرام مچ گیا اور پورا روس سوگ میں ڈوب گیا ۔ یہ ویڈیو بھی عزام پبلیکیشنر کی ویب سائٹ کے چیچن جہاد سیکشن میںد یکھی جاسکتی ہے ۔
ایک مرتبہ دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے ایک پیغام میں کہا’’ بنیادی چیز جو تمام مسلمانوں کو جہاد میں شامل ہونے سے روکتی ہے وہ ان کے گھرانے ہیں ۔ ہم سب لوگ جو یہاں آئے ہیں اپنے گھر بار والوں کی اجازت کے بغیر ہی آئے ہیں ۔ اگر ہم ان کی بات مان لیں اور واپس چلے جائیں تو کو ن یہ کام کرے گا اور اسے آگے بڑھائے گا ۔ پچھلے 12سال سے میں نے اپنی والدہ کو نہیں دیکھا ۔ اکثر و بیشتر میں اپنی والدہ کو فون کرتا ہوں اور اب بھی وہ مجھ سے واپس آجانے کو کہتی ہیں ۔لیکن اگر میں واپس چلا جاؤں تو کون اس جدوجہد کو جاری رکھے گا ‘‘۔
وہ انتہائی ذہین ،جرات مند ،زیرک اور مضبوط شخصیت کے مالک تھے اور اپنے زیر کمان مجاہدین میں بہت مقبول تھے ۔ لیکن قطعاً اس طرح بھی نہیں کہ آزادانہ ان سے ہنسی مذاق کیا جاسکے۔ و ہ باقاعدگی کے ساتھ اپنے مجاہدین سے ملاقات کرتے اور ان کی مشکلات حتیٰ کی ذاتی مسائل تک کے حل میں ان کی مدد کرتے ۔اور اپنی طرف سے انہیں پیسے دیتے تاکہ وہ بازار سے اپنی ضرورت کی اشیاء خرید سکیں ۔ ان کے پاس انتہائی تربیت یافتہ،مستعد اور تجربہ کار کمانڈروں کا گروپ موجود تھا جن میں سے ہر کمانڈر اس قدر باصلاحیت تھا کہ ان کی شہادت کی صورت میں ان کی ذمہ داریاں سنبھال سکے ۔
خطاب کا مشن روس سے اس وقت تک لڑائی کرتے رہنا تھا جب تک وہ قفقاز سے لے کر وسطی ایشیا تک کی ریاستوں کے مسلم خطے کا چپہ چپہ خالی نہ کردے ۔ انہوں نے بارہا اس بات کو دہرایا کہ،’’ ہم روسی فوجیوں کی تربیت اوران کی چالوں کواچھی طرح پہچانتے ہیں۔ ہم ا ن کی کمزوریوں سے بھی بخوبی آگاہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دوسروںکی نسبت ہمیں ان سے لڑنا زیادہ آسان ہے ‘‘۔
ابن الخطاب روسیوں کیلئے موت کا پیغام تھے اور روسی فوج کیلئے ان کا نام خوف کی علامت بن چکا تھا ۔ میدان جہاد میں انہوں نے روسیوں کو ناکوں چنے چبوائے اور ہمیشہ اسے ہزیمت اٹھانے پر مجبور کیا ۔ روسی فوج اور ان کی خفیہ ایجنسیوں نے انہیں دھوکے سے شہید کروانے کی کئی مرتبہ کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکیں ۔ آخر کار ان کی ایک کوشش رنگ لے آئی اورروس کی ایک خفیہ ایجنسی FSBنے ایک شخص ابراہیم الاؤری ۔ ۔ ۔ جو بک چکا تھا ۔ ۔ ۔ کے ذریعے انہیں جانے والا ایک خط حاصل کیا اور اسے کیمیکل لگا کر اس زرخرید شخص کے ہاتھ دوبارہ روانہ کر دیا ۔ جب الاؤری نے یہ خط انہیں دیا تووہ اپنی مصروفیت کے باعث اسے نہ پڑھ سکے اور رکھ دیا ۔ بعد ازاں جب انہوں نے اسے پڑھنے کیلئے کھولا تو خط پر زہریلا کیمیکل لگنے سے ان کی طبیعت بگڑنے لگی ۔ اور مجاہدین کے پاس ناکافی طبی وسائل اور زہر کا تریاق نہ ہونے کی وجہ سے ان کی حالت مزیدخراب ہوتی چلی گئی ۔ اور آخر کار ان کا یہ جانباز کمانڈر اسی حالت میں ان کے سامنے موت کی آغوش میں جاپہنچا ۔ ان کی شہادت کے بعد روسی خفیہ ایجنٹوں کے حملے سے بچنے کیلئے سخت حفاظتی حصار میں انہیں چیچنیا کے ایک پہاڑی سلسلے میں دفن کیا گیا اور قبر کے نشانات کو چھپا دیا گیا ۔اور ان کی تدفین کے وقت صرف ان کے قریبی دوست اور مجاہدین کی چند ذمہ دار شخصیات موجود تھیں ۔ اور عام افراد کو بھی قبر کے بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا ۔ اس طرح وہ نوعمر مجاہد جو کہ سعودی عرب سے صرف سترہ سال کی عمر میں جہاد کیلئے نکلا اور چودہ سال تک ملحدوں ،دہریوں اور مشرکوں کیلئے موت کا کوڑا بن کر برستا رہا ،عبداللہ بن ابی اور ابن علقمی کے ایک وارث ہاتھوں شہادت کے بعد چیچنیا کے ایک ویران پہاڑی سلسلے میں محو راحت ہے ۔
بنا کر دندخوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کنند ایں عاشقان پاک طینت را
ابن الخطاب نے چیچنیا میں ایک داغستانی خاتون سے شادی کی جس سے اُن کے دو بیٹے ہیں ۔

یہودی معبد کا افتتاح




اللہ کی مغضوب ترین قوم ایک بار پھر اپنی سرکشی، بغاوت،ظلم اور سازشوں کی انتہاء پر پہنچ رہی ہے۔ مسلمانوں کی مجموعی طور پر بے حسی اور بے کسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قبلہ اوّل پر وہ اپنے دانت پیوست کرنے کی پوری کوشش میں ہیں۔
مسجد اقصٰی کے نیچے کھدائیوں اور نام نہاد تعمیراتی کام کے خلاف جب امت مسلمہ بالخصوص جانباز فلسطینی مسلمانوں کا دباؤ بڑھا تو پھر اسرائیلی وزیر اعظم ایہود المرٹ نے اعلان کیا کہ تعمیراتی کام تو فی الحال بند کیا جاتا ہے لیکن کھدائی کا کام بحرحال جاری رکھا جائے گا اور اس سلسلے میں کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لایا جائیگا۔ کھدائیوں کے مسئلہ پر اسرائیلی وزیر اعظم نے ترک وزیر اعظم طیب اردگان کو بھی شیشے میں اتارنے کی کوشش کی اور انھیں کھدائی کی کچھ نام نہاد تصاویر دکھا کر مطمئن کرنا چاہا لیکن غیرت مند ترک نے تصاویر دیکھ کر مکمل عدم اطمینان کا ظاہر کیا اور پھر انھوں نے اپنے ماہرین مسجد اقصٰی بھیجنے کا مطالبہ کیا جسے اسرائیلی وزیر اعظم کو نہ چاہتے ہوئے بھی قبول کرنا پڑا۔ تاہم تاریخی اور عالمی شاطر یہودی ان ترک ماہرین کے ساتھ کیا ہاتھ دکھاتے ہیں آنیوالے دنوں میں اسکا بھی پتہ چل جائیگا۔ لیکن سردست ایک بات معمولی سی عقل و فہم رکھنے والے ہر شخص کیلئے ناقابل حل معمہ ہے کہ آخر مسجد اقصٰی کے نیچے کونسے �عجائبات� ہیں جن کی تلاش کیلئے یہاں کھدائیاں ہو رہی ہیں۔ اس سوال کا اسرائیلی میڈیا اور حکام کہیں بھی کوئی جواب نہیں دے رہے ہیں۔
دراصل یہود کا صدیوں سے یہ عقیدہ رہا ہے کہ انکا گمشدہ ہیکل سلیمانی بیت المقدس خصوصا مسجد اقصٰی کے نیچے ہے۔ یہ بات مسلمانوں کے بہت کم علم میں ہے کہ بیت المقدس کی جو تصویر ہم عمومی طور پر دیکھتے ہیں ہم اسی کو مسجد اقصٰی سمجھ لیتے ہیں حالانکہ یہ قبتہ الصخرۃ کی تصویر ہے جسے اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان (692ء تا 705ء) نے بنوایا تھا۔ مسجد اقصٰی کی موجودہ عمارت بھی انھوں نے ہی بنوائی تھی۔ قبتہ الصخرۃ ایک اونچی چٹان پر بنا ہوا ایک گنبد ہے جہاں سے ہمارے پیارے نبیﷺ نے براق پر سفر معراج کا آغاز کیا ۔ اسکے نزدیک مغربی دیوار کو اسی وجہ سے دیوار براق کہتے ہیں۔ جسے یہودی دیوار گریہ کہتے ہیں اور اس سے لگ کر روز اپنے گناہوں کی نام نہاد معافی مانگتے اور ان پر ندامت کا اظہار کرتےہیں۔ مسجد اقصٰی اور قبتہ الصخرۃ اگرچہ ایک ہی احاطہ میں واقع ہیں اور اس پورے احاطے کو ہی بیت المقدس یا اقصٰی کہا جاتا ہے۔ لیکن بحر حال قبتہ الصخرۃ اور مسجد اقصٰی دونوں ایک ہی احاطے میں الگ الگ کچھ فاصلہ پر واقع ہیں۔ یہودیوں کا زیادہ یقین ہے کہ انکا ہیکل سلیمانی مسجد اقصٰی کے نیچے واقع ہے چنانچہ انکا ہدف معاذاللہ مسجد اقصٰی کا انہدام ہے۔ اسی لئے وہ اب تک تمام کھدائیاں مسجد اقصٰی کے گردا گرد ہی کرتے رہتے ہیں۔ کل کلاں اگر ان ملعونوں نے مسجد اقصٰی کو شہید کر دیا تو قبتہ الصخرۃ کو دکھا کر ہی مسلمانوں کو یقین دلانے کی کوشش کرینگے کہ اصل جگہ تو محفوظ ہے اور ہم نے تو دوسری جگہ منہدم کی ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کے لئے تو یہ پوری جگہ ہی مقدس ہے اور مسجد اقصٰی تو سب سے زیادہ مقدس ہے کیونکہ یہ رسول پاکﷺ کے فرمان کے مطابق ان تین مقامات میں سے ایک ہے جن کی زیارت کیلئے خصوصی سفر افضل ہے۔ پہلی جگہ بیت اللہ، دوسری مسجد نبویﷺ اور تیسری مسجد اقصٰی ہے۔ مسجد اقصٰی تو مسلمانوں کا قبلہ اول بھی رہی ہے جسکی طرف منہ کر کے اسلام کے ابتدائی دور میں پیغمبر اسلامﷺ اور جانباز صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نماز پڑھا کرتے تھے اس لحاظ سے یہ ہمارا حرم بھی ہے۔
بد طنیت اور سازشی یہودیوں نے 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ جیتنے کے بعد جب سے مسجد اقصٰی پر قبضہ کیا ہے اسے مستقل ہدف بنایا ہوا ہے۔ 1967ء میں اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس پر قبضہ کیا تو اسکے فوری بعد اسرائیلی فوج کے چیف ربّی جنرل شلومو گورین نے قبضہ کرنیوالی فوج کے کمانڈر یوزی نرکیس کو تجویز دی کہ مسجد اقصٰی کو شہید کرنیکا (معاذاللہ) یہ سنہری موقع ہے اور مسجد کو آگ لگا دی جائے۔ تاہم اللہ کے فضل سےاس نے بات ماننے سے انکار کردیا جسکی ظاہری وجہ شائدعالم اسلام کے شدید ردعمل کا ڈر یا اسکا اپنا ایسے فعل بد کی ذمہ داری نہ لینا تھا۔
لیکن 1969ء میں آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے ایک مسیحی صہیونی مائیکل ڈینس روحان نے مسجد کے اندرونی حصوں کو آگ لگا دی اس کیلئے اس نے اتش گیر مادہ استعمال کیا جسکی وجہ سلطان صلاح الدین کا تاریخی منبر جل کر خاکستر ہو گیا۔ اب حال ہی میں اسکی جگہ اردن سے تیار شدہ نیا اسی طرح کامنبر بنا کر فروری 2007ء کو رکھا گیا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ مسجد اقصٰی کے گرد کھدائی کا سلسلہ بھی عرصہ دراز سے جاری ہے۔
1970ء میں اسرائیلی قابض انتظامیہ نے مسجد کے مغربی اور جنوبی حصوں کے نیچے کھدائی شروع کی۔ کھدائی کا کام جاری رہا اور خواتین کے نماز پڑھنے والے حصے میں ایک بڑی خندق کھود دی گئی۔
مشرق سے مغرب کی طرف ایک بڑی خندق 1979ء میں کھودی گئی۔
29 مارچ 1984ء کو اسرائیلی وزارت مذہبی امور کے شعبہ آثار قدیمہ نے ایک میٹر طویل اور دو میٹر چوڑی سرنگ کھودی۔ یہ سرنگ دس میٹر گہری تھی اور اسے بھی مسجد اقصٰی کے مغربی حصے کے نزدیک ہی کھودا گیا جہاں آج بھی کھدائی کا کام جاری ہے اور اس سےمسجد کے مجلس حصہ کو نقصان پہنچا ہے۔
ستمبر 1996ء میں اسرائیلی قابض فوج نے حرم الشریف کے نزدیک ماضی کی پرانی سرنگ کو دوبارہ کھول دیا جس سے مغربی کنارے میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ان مظاہروں میں 57 مظاہرین شہیداور 16 اسرائیلی مارے گئے۔
مسجد الاقصٰی اور قبۃالصخرۃ کے خلاف اب تک بہت سی کاروائیاں ہو چکی ہیں لیکن ہم یہاں صرف کھدائیوں کا ذکر کر رہے ہیں۔
اب 7 فروری 2007ء اسرائیلی بلڈوزروں نےپھر اس باب المغاربہ (مسجد کے نزدیک مغربی مراکشی دروازہ)کے نزدیک کھدائی شروع کردی جہاں وہ پہلے بھی کئی بار کھدائی کر چکے ہیں۔ یہاں دو کمروں کو بھی گرا دیا گیا۔
9فروری2007ء کو اسرائیل نے مسلمانوں کو مسجدالاقصٰی میں داخل ہونے سے روک دیا ۔ لیکن چند ہزار فلسطینی اپنی جانوں پر کھیل کر مسجد الاقصٰی میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے اور انھوں نے کھدائی کے خلاف مظاہرہ کیا اور یوں دنیا اور عالم اسلام کی توجہ اس نازک مسئلے کی طرف مبذاول کرانے میں کامیاب ہو گئے۔
افسوسناک بات تو یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت نے مسلمانوں کے احتجاج پر تعمیراتی کام تو روک دیا لیکن کھدائی جاری رکھی ہے اور بہانہ یہ ہے کہ ہم آثار قدیمہ دریافت کر رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ آثار قدیمہ تلاش نہیں کر رہے بلکہ ان کو مسلسل مٹا رہے ہیں کیونکہ یہاں جو آثار بھی ہیں سب کے سب اسلامی ہیں۔ مسجد اقصٰی کے اندر یا باہر نیچے حتٰی کہ ہر طرف سے آثار مٹانے کی کی مہم اور دوسرے نمبر پر اس کھدائی کا مقصد مصنوعی طور پر یہودی آثار پیدا کرنا، خاص طور پر ہیکل سلیمانی کے آثار پیدا کرناہے۔ یہودیوں نے بیت المقدس پر قبضہ ہی اس یقین کیساتھ کیا تھا کہ مسجد اقصٰی کے نیچے انکا ہیکل دفن ہے لیکن 1967ء سے اب تک چالیس سالوں میں ان کھدائیوں اور حتٰی کہ امریکہ کے سیٹلائیٹس کی مدد سے بھی وہ اس ہیکل سلیمانی کے آثار کی تلاش میں وہ بری طرح ناکام ہوئے ہیں اور اس مقصد کیلئے انھوں نے مسجد الاقصٰی اور قبۃالصخرۃ کے ارد گرد شائد ہی کوئی کونا کھدرا چھوڑا ہو جسے انھوں نے نہ ٹٹولا ہو۔ انھوں نے ہر اس جگہ کھدائی کی جس جگہ پر انھیں معمولی سا شائبہ بھی گزرا لیکن ہیکل نہ وہاں تھا نہ ملا۔ جب یہاں ہیکل ہے ہی نہیں تو یہودی وہاں کھدائی کیوں کر رہے ہیں؟ اسکا جواب فلسطینی رہنما یاسر عرفات نے 5اکتوبر 2002ء کو اپنی ایک تقریر میں واشگاف الفاظ میں کر دیا تھا۔ انھوں نے کہا�گزشتہ 34 سال سے اسرائیلی بیت المقدس کے نیچے سرنگیں کھود رہے ہیں لیکن اس دوران وہ ایک پتھر بھی نہیں دکھا سکے جس سے یہ ثابت کیا جاسکے کہ ہیکل سلیمانی کبھی وہاں موجود تھا کیونکہ تاریخی طور پر ہیکل کبھی فلسطین میں تھا ہی نہیں۔ انھیں صرف ایک رومی بادشاہ ہیروڈHerod کی قبر کے کچھ آثار ملے ہیں۔ اب وہ کوشش کر رہے ہیں کہ وہ یہاں کچھ پتھر لا کر رکھ دیں جس سے وہ یہ ثابت کر سکیں کہ وہ لوگ یہاں تھے یہ ایک گھٹیا حرکت ہے میں انھیں چیلنج کرتا ہوں کہ وہ ہیکل سلیمانی کا ایک بھی پتھر لا کر دکھا دیں�
غرض کھدائی کے کام کی آڑ میں دراصل مسجد اقصٰی کے نیچے ہیکل سلیمانی کی مصنوعی نشانیاں پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ مسجد الاقصٰی کو ان کھدائیوں کے ذریعے اتنا کمزور کردینا مقصود ہے کہ کسی بھی زلزلہ یا ہلچل کی صورت میں مسجد الاقصٰی خود بخود (معاذاللہ)شید ہو جائے۔
اب مرکز اطلاعات فلسطین نے انکشاف کیا ہے کہ صہیونی حکومت نے مسجد الاقصٰی کے ایک دروازے کے قریب قبۃالصخرۃ کے بالمقابل یہودی معبد بنانے کا ایک منصوبہ بنایا ہے۔ بیت المقدس کی بلدیہ نے ایک انتہا پسند یہودی تنظیم کو معبد کی تعمیر کیلئے این او سی جاری کر دیا ہے۔ یہ یہودی معبد دو سو مربع فٹ پر مشتمل ہوگا جو مسجد الاقصٰی سے صرف پچاس فٹ کے فاصلہ پر ہے۔ مرکز اطلاعات فلسطین کی ایک دوسری اطلاع کے مطابق حال ہی میں اسرائیلی صدر موشے کتساف نے مسجد الاقصٰی کے نیچے تعمیر ہونیوالے یہودی معبد کا افتتاح کیا ہے۔ مرکز کے مطابق اس معبد کے دو ہال ہیں۔ ایک مردوں اور دوسرا ہال عورتوں کیلئے مخصوص ہے اور اس معبد کی تعمیر گزشتہ دس سال سے جاری تھی۔ ان کھدائیوں کی آڑ میں دراصل معبد کی تعمیر بھی جاری تھی اور اب اسے آہستہ آہستہ نام نہاد ہیکل سلیمانی میں بدل دیا جائیگا۔ دوسری طرف کھدائیوں سے مسجد الاقصٰی کو اس قدر کمزور کر دیا گیا ہے کہ کوئی بھی حادثہ اسکو شدید نقصان پہنچا دے اور پھر وہ اسکے نیچے سے ہیکل سلیمانی کی نشانیاں دریافت کر کے لوگوں کو دکھا سکیں۔ اسرائیلی حکومت بھی اس بات کا اعلان کر چکی ہے کہ کوئی زلزلہ وغیرہ مسجد الاقصٰی کو نقصان پہنچا سکتی ہے، یعنی وہ پہلے ہی سے لوگوں کو اس بات پر ذہنی طور پر تیار کر رہے ہیں۔
اسرائیلی روزنامہ اخبار ہارٹس نے ایک دفعہ قتبۃ الصخرٰی کی تصویر لگا کر اوپر جلی قلم سے لکھا کہ �تم اچانک ایک دھماکہ کی گونج سنو گے۔� گویا یہ سب باتیں ایک اشارہ ہیں کہ وہ مسجد الاقصٰی کے درپے ہیں۔ دوسری جانب مقبوضہ بیت المقدس کو یہودیوں کیلئے فلسطینیوں کی زمین غصب کر کے اس پر یہودیوں کو مسلسل آباد کیا جارہا ہے۔ یہودی آبادی معالیہ ادومیم کی جا چکی ہے۔ حال ہی میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے پرانے شہر کی دیواروں کے نیچے چار منزلہ پارکنگ کی تعمیر کا منصوبہ زیر تعمیر بنایا ہے اسکے علاوہ تجارتی مراکز اور ہوٹل تعمیر کئے جائیں گے۔ جسکا رقبہ اٹھارہ ہزار مربع میٹر ہوگا۔
اسرائیلی حکام نے حالیہ کھدائی کے بارے میں یہ عذر لنگ تراشا ہے کہ فروری 2006ء میں زلزلہ اور برفباری میں مسجد کو پہنچنے والے نقصان کو ٹھیک کرنے اور دروازے سے مغربی دیوار تک راستہ محفوظ بنانے کیلئے تعمیراتی کام شروع کیا گیا ہے۔ تاکہ مسجد میں آنیوالے محفوظ ہو سکیں یہ عذر لنگ سے یوں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلیوں سے زیادہ شائد ہی کوئی مسلمانوں کا کوئی ہمدرد ہو اور اسرائیلی فوجی جو روزانہ فلسطینیوں کے خون سے جو ہولی کھیلتے ہیں تو یہ خبریں محض دشمنوں کی اڑائی لگتی ہیں۔ لیکن اسکے ساتھ پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسرائیلی حکومت فلسطینی مسلمانوں کی اتنی ہمدرد ہے تو اس نے 18 اپریل 2005ء سے اب تک چالیس سال سے کم عمر افراد پر مسجد الاقصٰی میں داخلے کی پابندی کیوں عائد کر رکھی ہے۔ اسکے علاوہ ایک طرف اسرائیلی حکام ایک طرف تو کھدائی کی ویڈیو بھی جاری کر رہے ہیں اور ترکی کے ماہرین کو معائنہ کی اجازت بھی دے دی ہے لیکن عالمی میڈیا کو اسکی کوریج کی اجازت نہیں دی۔ غرض یہ سب حقائق و معاملات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کھدائی کی آڑ میں مسجد الاقصٰی کی بنیادوں کو کھوکھلا کیا جا رہا ہے۔ تاکہ یہ خود بخود(معاذاللہ)منہدم ہو جائے اور اسکے ساتھ ساتھ وہ اصل ہیکل سلیمانی کے آثار کی تلاش میں ناکامی کے بعد اب وہ مسجد الاقصٰی کے نیچے نقلی ہیکل سلیمانی تیار کر رہے ہیں تاکہ مسجد الاقصٰی کے شہید ہوتے ہی ہیکل کو اسکی جگہ سامنے لے آئیں۔
یہودی اکثر یہ بات پھیلاتے رہتے ہیں کہ ہیکل کی تعمیر عیسائیوں اور یہودیوں دونوں کے عقائد کے مطابق ضروری ہے۔ انکے مطابق ہیکل کی تعمیر کے بعد ہی یہودیوں اور عیسائیوں کے مسیح کا نزول ہونا ہے۔ پھر سب سے بڑی آخری جنگ الملحمۃالکبرٰی(Armegadon)ہوگی۔ اگرچہ عیسائیوں اور یہودیوں کا مسیح الگ الگ شخصیت ہیں لیکن یہودی فی الحال عیسائیوں کو ساتھ رکھنے کیلئے یہ پراپیگنڈہ جاری رکھے ہوئے ہیں کہ ہیکل کی تعمیر مسیح کے نزول کیلئے ضروری ہے اسلئے عیسائی دنیا کو عمامی طور پر شدید سے شدید مظالم اور نا انصافیوں پر بھی کم ہی اعتراض ہوتا ہے۔ دونوں اپنے اپنے مقاصد کیلئے ہیکل کی تعمیر پر متفق ہیں۔ حالانکہ اصل مسیح تو وہ ہوگا جو آکر شریعت محمدیﷺ کی اتباع کریگا اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کی قیادت میں دجّال کو قتل کرینگے اور پھر ایک ایک یہودی کا بھی خاتمہ ہوگا اور پھر پوری دنیا میں امن ہوگا۔ بحر حال عیسائیوں کو ورغلا کر یہودی دیدہ دلیری سے ہیکل کی تعمیر اور مسجد الاقصٰی کی شہادت کے ناپاک مشن پر سرعت سے عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن یہود کو یہ معلوم نہیں کہ جس کام کو انھوں نے بہت آسان سمجھ رکھا ہے وہ اسقدر آسان بھی نہیں ہے۔ اس ناپاک مشن کیلئے انھیں لاکھوں مسلمانوں کے خون کا سمندر عبور کرنا ہوگا اس میں کوئی شک نہیں کہ آج امت مسلمہ بالخصوص انکے حکمران دینی حمیت و غیرت سے دور اور حد درجہ بے حسی کا شکار ہیں۔ ذاتی اور مادی مفادات نے انھیں قوم و ملت کے اجتماعی مسائل سے غافل کر دیا ہے۔ مغربی اور امریکی ایجنڈہ انکا ایمان، دین اور ضمیر بن چکا ہے۔ لیکن اس گئی گزری حالت میں اب بھی امت مسلمہ میں لاکھوں کروڑوں با حمیت غیرت مند اور روشن ضمیر موجود ہیں۔

ذاتی اور مادی مفادات نے انھیں قوم و ملت کے اجتماعی مسائل سے غافل کر دیا ہے۔ مغربی اور امریکی ایجنڈہ انکا ایمان، دین اور ضمیر بن چکا ہے۔ لیکن اس گئی گزری ‏حالت میں اب بھی امت مسلمہ میں لاکھوں کروڑوں با حمیت غیرت مند اور روشن ضمیر موجود ہیں۔ دنیا ان پر جو چاہے الزام لگائے۔ چاہے سیکولر حلقے انھیں دہشت گرد ‏انتہا پسند، تاریک خیال یا بنیاد پرست قرار دیں لیکن وہ ان الزامات سے گھبرانے والے نہیں انکا ضمیر روشن، انکا دل منور اور انکا عزم راسخ ہے۔ امت مسلمہ کیلئے دہرے ‏معیار رکھنے والے کفار کا علاج وہ جانتے ہیں۔ مسجد الاقصٰی انکے ایمان کا حصہ، انکا قبلہ اول، انکے ہادی و رہبر اور محسن انسانیتﷺکی وہ سجدہ گاہ ہے جہاں ‏انﷺکی اقتداء میں تمام انبیاء نے نماز کی ادائیگی کا شرف حاصل کیا یہ وہ جگہ ہے جسے خلیفہ دوئم سیدنا عمر فاروقؓ 636ہجری میں بغیر خون خرابے کے فتح کیا اور ‏جب صلیبی دہشت گردوں نے 1099ء میں بیت المقدس میں دوبارہ قبضہ کیا اور ہزاروں مسلمانوں کے خون سے اس جگہ کو رنگین کر دیا۔ پھر مرد مجاہد صلاح الدین ایوبی ‏نے 2اکتوبر1187ء کو جہادی ضرب سے اسطرح آزاد کرایا کہ اسکے حسن سلوک کی آج بھی عیسائی مثالیں دیتے ہیں آج اس بیت المقدس کا ایک ایک چپہ صلاح الدین کی ‏یادوں سے معمور ہے۔‏
‎ ‎اگرچہ 1967 ء یہودیوں کا بیت المقدس پر یہودیوں کا قبضہ ہوگیا تاہم مسجد الاقصٰی کیلئے صلاح الدین ایوبی کے بنائے ہوئے منبر سے لیکر بیت المقدس میں اسکا بسایا ہوا ‏ایک ایک محلہ اس مرد مجاہد کی داستان جرات کا حدی خواں ہے۔ آج امت مسلمہ کے مجاہدین اپنے ان سالاروں کے نقوش قدم کیسے بھلا سکتے ہیں۔ وہ تو آج بھی انھیں نقوش ‏پا پر چلنا اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔


ہیکل سلیمانی اور تابوت سکینہ
حضرت موسٰی علیہ السلام کی وفات کے چار سو برس کے بعد تک یہودیوں نے اپنا باقاعدہ کوئی معبد نہیں بنایا تھا کیونکہ اس فتنہ پرور قوم کو باہمی جھگڑوں، انتشار، ‏لاقانونیت اور شرک و شر نے اسکی مہلت ہی نہ دی تھی۔ یہودی عموماً کسی بھی جگہ اپنے آگے کوئی پتھر اپنے آگے رکھ کر عبادت کر لیتے تھے جس طرح کہ مسلمانوں کو ‏کھلی جگہ پر سترہ رکھ کر نماز پڑھنے کا حکم ہے۔ موسٰی علیہ السلام جب اس نا فرمان قوم کو فرعون سے نجات دلا کر صحرائے سینا میں لے گئے تو یہاں موسٰی علیہ ‏السلام نے انھیں صندوق شہادت، قبہ عبادت دیں اور قربان گاہ بنانے کا حکم دیا۔ بقول تورات ایک چلتا پھرتا ہیکل تیار کیا گیا جو �یہواہ� (اللہ) کا گھر کہلاتا۔ اسی میں یہ تمام ‏چیزیں بھی موجود ہوتیں۔ تاہم جو ہیکل، ہیکل سلیمانی کے نام سے معروف ہے وہ باقاعدہ طور پر 1000 قبل از مسیح سلیمان علیہ السلام کے دور ہی میں بنا جو چالیس سال ‏‏(927 سے 967قبل مسیح) تک قائم رہا جسے بابیلون (بابل، موجودہ شمالی عراق)کے بادشاہ بخت نصر نے چھٹی صدی قبل عیسوی میں تباہ کر دیا۔
بخت نصر نے ہیکل سلیمانی کو جس طرح مسمار کیا اس کا کمال یہ ہے کہ پندرہ مربع فٹ کے وہ پتھر جن سے ہیکل تعمیر ہوا تھا سرے سے ناپید ہو گئے اور گزشتہ دو ہزار ‏برس کی تاریخ انکے وجود کو ہی نہ پاسکی۔ اس تباہی کے بعد یہود اپنے عہد زریں کو یاد کر کے رویا کرتے تھے، لیکن اس ناپید شدہ ہیکل سلیمانی کا ڈرامہ یہودی آج بھی ‏رچائے ہوئے ہیں۔ دوسرا ہیکل تقریباً ستّر سال بعد بنا۔ اس ہیکل کو 70قبل مسیح میں ٹائیٹس نامی رومی بادشاہ نے حملہ کر کے تباہ کردیا۔ اس سے قبل اور اسکے بعد بھی بے ‏شمار چھوٹے موٹے ہیکل بنے اور مختلف بادشاہوں اور حملہ آوروں کے ہاتھوں تباہ ہوتے رہے اور یہودی پوری دنیا میں دربدر ہوتے رہے، جسکی ایک الگ لمبی تاریخ ہے۔ ‏لیکن یہودی عام طور پر انھیں دو ہیکلوں کی تباہی کا ذکر کر کے روتے اور اب وہ اپنے تیسرے ہیکل کی تیاری کیلئے پر تولے ہوئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پہلا اور دوسرا ‏ہیکل بیت المقدس میں ہی تھا اسلئے اب تیسرا ہیکل بھی اسی جگہ تعمیر ہونا چاہیئے۔ انکی بھرپور کوشش یہی ہے کہ کسی طرح ہیکل سلیمانی کے آثار بیت المقدس کے نیچے ‏کھدائی کر کے دریافت کر لیں تاکہ وہ یہاں اپنے ہیکل کی تعمیر کا جواز پیدا کر سکیں لیکن اس میں ناکامی سے وہ پھر بھی پریشان نہیں ہوئے۔ انکا خیال ہے کہ اگر یہاں انھیں ‏ہیکل کی تعمیر کے آثار نہیں بھی ملتے تب بھی وہ ہیکل یہاں ضرور بنائیں گے چاہے انھیں مصنوعی آثار پیدا کر کے ہی ثابت کرنا پڑے کہ یہاں ہیکل تھا۔‏
یہ بھی یاد رہے کہ یہودی ہیکل کا سنگ بنیاد 2001ء میں رکھ چکے ہیں اب سوال یہ ہے کہ یہودی ہر حال میں بیت المقدس میں ہی ہیکل کیوں بنانا چاہتے ہیں۔
یہودیوں کا اپنی تحریف شدہ تورات کے مطابق عقیدہ ہے کہ ہیکل انکے ربّ کا گھر ہے۔ اللہ سبحان و تعالٰی کی ناراضگی ان پر اسی لئے ہے کیونکہ انھوں نے اپنے ربّ کا ‏گھر نہیں بنایا۔ ان کے نظریہ کے مطابق اسرائیل اور ہیکل لازم و ملزوم ہیں اور مسیح کا نزول بھی ہیکل کی تعمیر کے بعد ہی ہوگا۔ پہلے انھوں نے 2000ء اور پھر ‏‏2005ء میں مسیح کے نزول کا امکان ظاہر کیالیکن انکی پیشین گوئیاں دھری کی دھری رہ گئیں۔ انکے نزدیک ہیکل کی تعمیر اللہ کا حکم تھا جس پر حضرت سلیمان علیہ ‏السلام نے عمل کیا، جیسا کہ انکی شرک سے بھرپور تحریف شدہ تورات میں لکھا ہے کہ‏
Behold a son Shall be born to you, who Shall be a man of Rest, His name shall be solomon, for I will give peace ‎& quiteness to israel in his days. HE SHALL BUILD A HOUSE OF MY NAME. and he shall be my son and I will be ‎his father and I will establish the throne of his kingdom over Israel forever (Chron 22:9-10)‎
‎�‎دیکھو تم میں ایک لڑکا پیدا ہو گا جو امن پیدا کرنیوالا ہوگا۔جس کا نام سلیمان ہوگا۔ میں اسکے عہد میں اسرائیل کو امن اور سکون بخشوں گا۔ وہ میرے نام پر ایک گھر بنائے ‏گا۔ وہ میرا بیٹا اور میں اسکا باپ ہونگا اور میں ہمیشہ کیلئے اسرائیل پر اسکی سلطنت کا تاج رکھوں گا(کرانیکل 10-22:9‏‎) ‎
‎21 ‎دسمبر 2004ء کو یہودی گروپوں نے تعمیر ہیکل سوئم کے سلسلے میں کانفرنس منعقد کی اور اس میں کھلم کھلا مسجد الاقصٰی کو شہید کرنے اور نام نہاد ہیکل کی ‏تعمیر کرنے کا ذکر ہوا۔ اس میں یہودیوں کی طرف سے قرار دیے گئے �ربّ کے خاص بندے� یسرائیل ایریل نے یہودی مصائب کیوجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ہم ہیکل کی تعمیر ‏سے غافل ہو چکے ہیں۔ اس نے سوالیہ انداز میں کہا کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہمیں روحانی سکون اور اطمینان حاصل ہو حالانکہ سالوں پر سال گزرتے جا رہے ہیں اور ‏ہم نے بیت الربّ یعنی ہیکل کی تعمیر کیلئےکچھ نہ کیا۔ ربّ ہم سے یہی چاہتا ہے کہ ہم کام شروع کریں‎�‎
ہیکل کی تعمیر کے مشن کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے کچھ یہودی گروپ �میسرۃ الابواب� (دروازوں کا پیغام) نامی مجلس ہر عبرانی مہینے کے آخر میں منعقد کرتے ‏ہیں۔ وہ دیوار برّاق کے احاطے میں جمع ہوتے ہیں جو مسجد الاقصیٰ کی فصیل اور مرکزی دروازوں کے ارد گرد ہے۔ انکی تعداد کبھی سینکڑوں اور کبھی ہزاروں تک پہنچ ‏جاتی ہے وہ اپنی مجلس کے دوران یہ نعرے سر عام بلند کرتے ہیں �ہیکل بناؤ..... مسجد گراؤ..... ہیکل بناؤ..... مسجد گراؤ� غرض ہیکل کی تعمیر یہودیوں کا سب سے بڑا ‏مشن ہے اور اسرائیلی حکام بھی اسکا سرعام اعتراف کرنے سے نہیں چوکتے۔‏
‎�‎ہیکل سلیمان علیہ السلام کی تعمیر نو� کے عنوان سے چلنے والی ویب سائٹ کے مطابق ہیکل کی تعمیر اسلئے ضروری ہے کہ یہ اسرائیل کا مذہبی مرکز ہوگا۔ اس میں ‏موسیٰ علیہ السلام کے دس احکامات(جن پر یہودی دین کی بنیاد ہے) کی تختیوں والا معاہدہ نصب ہوگا۔ اگر یہ نہ بھی مل سکا(اگرچہ ویب سائیٹ کے مطابق یہ مل سکتا ہے، ‏جس کی توقع یہودی بیت المقدس کے احاطہ میں نیچے کھدائی سے کر رہے ہیں)تو بھی ہیکل کی تعمیر کر دی جائیگی۔ یہودیوں کے مطابق ہیکل کی تعمیر ہی سے یہودیوں، ‏صہیونیوں، عیسائیوں اور اسرائیل کے گناہ معاف ہو سکتے ہیں۔
اس ویب سائیٹ کے مطابق ہیکل کی تعمیر اسلئے بھی ضروری ہے کہ اس سے ہم وہ خاص خدائی قوت یعنی شکینہ‎(Shakina)‎حاصل کریں گے جو انسان کو خدائی ‏صورت میں ملتی ہے۔اسے وہ قرآن پاک کی سکنیت اور ہندوؤں کی شکتی سے بھی تعبیر کرتے ہیں حالانکہ قرآن پاک کی سکنیت ان سے الگ ہے۔ یہ صرف اللہ سبحان و ‏تعالٰی کی رحمت و مدد کے معنوں میں ہے نہ کہ خدا کے انسانی صورت میں دھلنے کا نام ہے جیسا کہ غیر مسلموں کا عقیدہ ہے۔ یہودیوں کے نزدیک جب تک انھیں یہ شکینہ ‏انھیں حاصل نہیں ہوگی، انھیں خدائی برکتیں نصیب نہیں ہو سکتیں اور انکے نزدیک شکینہ سب سے زیادہ خدا کے گھر کے نزدیک ہوتی ہے اسی لئے ہیکل کا بننا بہت ‏ضروری ہے۔ یہ یاد رہے کہ تفسیر ابن کثیر اور دیگر تفاسیر کے مطابق موسٰی علیہ السلام کو اللہ سبحان و تعالٰی کی طرف سے ایک تابوت(صندوق) ملا جسے تابوت سکینہ ‏کہا جاتا ہے اور اس میں انھوں نے تورات اور دس احکامات والی تختیاں رکھی ہوئی تھیں۔ بعض کے مطابق یہ سونے کا تھا۔ اس میں دیگر تبرکات بھی تھے۔ لڑائی کے وقت ‏بنی اسرائیل اسے میدان جنگ میں پہنچا کر بڑی جانفشانی سے لڑتے جس سے فتح یقینی ہو جاتی۔ فرعون سے نجات دلا کر جب موسٰی علیہ السلام نے انھیں مصر سے نکالا ‏اور صحرائے سینا میں لائے تو پھر فلسطین کی فتح کیلئے انھیں جہاد کرنے کو کہا ۔ جس پر بنی اسرائیل نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ موسٰی علیہ السلام جانیں اور انکا ‏ربّ ۔ جس پر سزا کے طور پر بنی اسرائیل صحرائے سینا میں چالیس سال تک بھٹکتے رہے۔ اسکے بعد حضرت یوشع علیہ السلام کی قیادت میں تائب ہو کر انھوں نے جہاد ‏کر کے فلسطین حاصل کیا اور آہستہ آہستہ پھر بدراہ اور منتشر ہو گئے۔ قبائل کا باہمی اتحاد ختم ہو گیا۔ انکی بد اعمالیوں کی وجہ سے یہ تابوت بھی مخالفوں نے چھین لیا۔ جب ‏بنی اسرائیل پھر تائب ہوئے تو انھوں نے حضرات شمعون علیہ السلام سے ایک بادشاہ کی خواہش ظاہر کی تاکہ جہاد کرکے فلسطین کو دوبارہ حاصل کرلیں۔ چنانچہ حضرت ‏شمعون علیہ السلام نے انھیں طالوت بادشاہ کی خبر دی اور اسکی نشانی یہ بتائی کہ تابوت سکینہ تمھارے پاس واپس آ جائیگا۔ یہ تابوت انھیں واپس مل گیا جسے یہود عہد نامہ ‏کا صندوق بھی کہا جاتا ہے۔ طالوت کی قیادت میں حضرت داؤد علیہ السلام نے فلسطین پر جالوت کو شکست دی۔ بعد میں حضرت داؤد علیہ السلام اور پھر انکے بیٹے ‏حضرت سلیمان علیہ السلام بادشاہ بنے اور پھر یہود کی بد اعمالیوں کی وجہ سے ہیکل بھی تباہ ہوا اور تابوت سکینہ بھی غائب ہوگیا۔ جسکی وجہ سے یہودی عقیدہ کے مطابق ‏یہودی شکینہ(خدائی طاقت)سے محروم ہو گئے۔
اب اسی شکینہ کے متعلق یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ یہ وضو والے حوض‏‎(El-Kas Fontain) ‎کے گردسب سے زیادہ ہے جو کہ قبۃالصخرٰی اور مسجد الاقصٰی کے درمیان ‏ہے۔ اسی حوض کے گرد انکے خیال میں وہ سب سے مقدس جگہ‏‎(Holy of Holles) ‎ہے جہاں حضرت موسٰی علیہ السلام کی تختیاں تھیں اور یہیں یہودیوں کے مطابق ‏حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسحٰق علیہ السلام(یہود حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بجائے حضرت اسحٰق علیہ السلام کے ذبح ہونے کیلئے تیار ہونے پر یقین رکھتے ہیں ‏‏)کو ذبح کرنے کیلئے لائے تھے۔ چنانچہ یہودیوں کا خیال ہے کہ قبۃ الصخرٰی کے جنوب اور مسجد الاقصٰی کے درمیان حوض والی جگہ کے گرد ہی ہیکل سلیمانی تھا اور ‏یہیں شکینہ سب سے زیادہ ہے۔ یہودی ویب سائیٹ کے مطابق چونکہ فی الحال عالمی صورت حال کی وجہ ہیکل کی تعمیر مشکل ہے اسلئے انھوں نے اس کیلئے ایک عارضی ‏حل یہ بھی نکالا ہے کہ چونکی مقصد شکینہ (خدائی طاقت) کا حصول ہے تو اس طاقت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اس طریقے سے اگر بیت المقدس ‏کے احاطے اور اسکے باہر کے علاقہ پر ایک بڑا بیضہ کھینچا جائے تو بیضے کے اندر ایک جگہ یا نکتہ یعنی شکینہ والی جگہ کی نظری خصوصیات‎(Optical ‎Properties)‎کو بیضے کے اندر دوسری جگہ یا نکتہ پر منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اس کیلئے باقاعدہ ایک نقشہ بھی بنایا گیا ہے۔ یہ اگرچہ ایک خیال ہے یا عارضی منصوبہ ‏ہے لیکن یہودیوں کا ناپاک منصوبہ یہی ہے کہ مسجد الاقصٰی اور قبۃ الصخرٰی کے درمیان ہی ہیکل بنایا جائے۔ جس کے سدّباب کیلئے یقیناً اب امت مسلمہ کو اپنا جہادی کردار ‏ادا کرنا ہوگا۔