Thursday, June 4, 2009

عراق سے واپسی، کل سے بہتر آج!


تحریر: ٹیڈ کارپٹ، ترجمہ: فرخ صدیقی

عراق میں امریکہ کو ٹانگ پھنسائے اس سے بھی زیادہ عرصہ ہو گیا جتنا اسے دوسری جنگ عظیم میں ہوا تھا۔ 1941ء سے 1945ء کے چار سال کے عرصہ میں امریکہ نے اپنے اتحادیوں کو منظم کیا اور دنیا کی دو طاقتور افواج کو شکست دی۔ لیکن آج اتنے ہی عرصہ میں ایک چھوٹا سا ملک بغیر فوج کے امریکہ کو نہ ختم ہونے والے عرصہ کیلئےلوہے کےچنے چبوا رہا ہے۔

وہ ممالک جن کی شہہ پر امریکہ نے عراق پر شب خون مارا یا جن کی مدد سے عراق پر حملہ کیا گیا اب عراق کو ایک دلدل قرار دیتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم جس طرح بھی گزری لیکن ہمیں آج حقیقت کا سامنا کرنا ہو گا اور اس قسم کے بیانات کہ جب عراقی فوج اپنے دفاع کے قابل ہو جائیگی ہم تب وہاں سے نکلیں گے، ایک پاگل پن کے سوا کچھ نہیں۔ اب جب کہ ہم امریکی بحیثیت ایک قوم کے داؤ پر لگے ہیں تو ہر چیز کو حقیقت کی نظروں سے نقصان اور منافع کے ترازو میں تولنا ہوگا۔ عراق کی جنگ کا امریکہ کی سلامتی سے دور کا بھی لینا دینا نہیں۔ یہ جنگ ہم پر مسلّط نہیں تھی بلکہ ایک جان بوجھ کر کی گئی اور یہ ایک انتہائی غلط فیصلہ تھا۔ کتنی دیر تک ہم امریکی عراق پر مغلوب ہونے کیلئے اپنا خون پسینہ ایک کرینگے؟ اس وقت کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں جب عراق پر ہمارا مکمل غلبہ ہو گا۔

عراقی جنگ پر صرف ہونیوالے بے انتہا خرچ سے معیشت لڑکھڑا رہی ہے۔ اب تک ہم اس جنگ پر $340 بلین خرچ کر چکے ہیں اور آثار بتاتے ہیں کہ ہمیں مزید سات بلین ڈالر ہر ماہ خرچ کرنا ہونگے۔ جانوں کا ضیاع اس خرچ ہونیوالی رقم سےکہیں زیادہ تباہ کن ہے۔ 2900 سے زائد امریکی فوجی اس جنگ میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ عراقی حکومت کا کہنا ہے کہ اس قتلِ عام میں اسکے ڈیڑھ لاکھ سے زائد شہری جاں بحق ہوئے ہیں۔ صورتِ حال کسی کروٹ بھی صحیح ہوتی نظر نہیں آتی۔

دوسری جنگ عظیم میں چار سال میں حالات مکمل طور پر امریکہ کے قابو میں رہے اور بتدریج جرمنی اور اس کے اتحادی کو بھی شکست دی جاتی رہ تا آنکہ چار سال میں جنگ جیت لی گئی۔ جبکہ عراق کو دیکھیے تو آج حفاظتی انتظامات اس سے بھی بد تر ہیں جب موسم بہار 2003ء میں امریکی فوج نے عراق پر قبضہ کیا۔ صرف سنّی حلقہ کی امریکی فوج کیخلاف مزاحمت کو ہی لیا جائے تو انکی مزاحمت حالات کو بتدریج بگاڑ رہی ہے اور سنّی شیعہ لڑائی ایک علیٰحدہ مسئلہ بن چکا ہے جس نے ملک میں ایسی خانہ جنگی کی صورتحال بنادی ہے جسکا صرف اب اعلان ہونا باقی ہے۔ امریکی شہری بش اور اسکے جنگجومنتظمین سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ وہ کون سا وقت ہو گا جب امریکی حکومت یہ مان لے گی کہ جنگی خرچ اور حالات قابو سے باہر ہوگئے ہیں؟ کب تک فوج کو عراق میں رکھا جائیگا؟ دوسال؟ پانچ سال؟ دس سال؟ ٹیکس کی مدّ میں لئے گئے اور کتنے ڈالر وہ اس جنگ میں جھونکنا چاہتے ہیں؟ مزید $ 100 بلین؟ $ 300 بلین؟ $1ٹریلین؟ اور ان سب سے زیادہ ہولناک بات کہ مزید کتنی جانیں دی جانی چاہیئں؟ ایک ہزار فوجی مزید؟ پانچ ہزار مزید؟ یا دس ہزار؟

اس جنگ کو ترتیب دینے والی انتظامیہ اب ہر جگہ اور ہر موقع پر ان نا چاہے جانیوالے سوالوں کے جوابات دینے سے گریزاں ہے۔ شاید حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ڈھیٹ بن کر بیان بازی سے وہ یہ جنگ جیت لے گی۔حال ہی میں صدر بش نے مختصراً اس بات کا دوبارہ دعوٰی کیا کہ امریکہ عراق میں جنگ ضرور جیتے گا۔ یہ صرف خام خیالیاں اور وہ خطرناک دھوکہ ہے جو غیر ارادی یا ارادتاً امریکی حکومت اپنی عوام کودیے جا رہی ہے۔ جیت کی کوئی ضمانت موجود نہیں چاہے امریکہ کتنی ہے کوششیں کیوں نہ کر لے۔ عراق ایک لڑائی جھگڑے کی فطرت سے بھرپور علاقہ ہے اور اس میں خود بخود ٹھیک ہونے کی کوئی علامت نہیں۔ اگر ہم نے اپنی افواج واپس بلوائیں اور یہ بیان دے دیا کہ ہمارا مقصد ناکام و نامراد ہوا تو امریکہ دنیا کے نقشے پر ایک اہم ملک ہونے کی حیثیت کھو دیگا۔ عراق سے واپسی شاید ہمیں یہ سبق بھی دے کہ کسی قوم کی تعمیر کیلئے اس پر قابو پانا ایک خطرناک کھیل ہے۔ لیکن عراق سے آج کی واپسی آنے والے کل کی نسبت کچھ کم دردناک ہوگی۔ اب جب کہ وقت، پیسوں اور جانوں کے ضیاع نے ہمیں بہت کچھ سمجھا دیا ہے۔

بہتر ہو گا کہ اپنا اسلحہ واپس بیگ میں رکھیں اور اپنی افواج کو آج ہی واپس بلوائیں۔ اس سے پہلے کہ جنگ کا یہ عرصہ اور نقصان ویت نام کی جنگ کے عرصہ سے بھی آگے گزر جائے اور ویت نام کی جنگ کے سنگ میل سے دوبارہ کوئی امریکی نہیں گزرنا چاہتا
!

No comments:

Post a Comment