Thursday, June 4, 2009

تہذیبوں کا تصادم! مالیاتی نظام کی آخری ہچکیاں ؟


آج تہذیبوں کا تصادم نہیں بلکہ مالیاتی تہذیبوں کی موت کی آخیری ہجکیاں ہیں۔جو ہمشہ تکلیف دہ اورکربناک ہوتی ہیں۔

جس کا آغازصدر بش نے صلیبی جنگوں کے نعرے سے کیااور اسی تسلسل میں ڈنمارک کے حکمرانوں کی مسلمانوں کے خلاف بار بار کی اشتعال انگیزی،پوپ کا بیان،مسلم انتہا پسند تنظیموں کی کاروائیاں،سامراجی جنگیں،آج کے عالمی منظر نامے کوبڑا خونی بنا رہی ہیں۔
آج کے زیادہ تر لکھاری اور دانشوران بھی موجودہ حالات کو تہذیبوں کا تصادم قرار دے کر استحصالی طبقات کی خوب خدمت کر رہے ہیں۔مسلم اور غیر مسلم کی لڑائی بنا رہے ہیں۔جس کے لیے وہ عراق اور افغانستان پر امریکہ کے حملے اوراسرائیل کی لبنان کے خلاف جنگ،ایران،شام اور پاکستان کو تباہ کرنے کی دھمکیوں کو جواز کے طور پر پیش کرتے ہیں۔آج کے غیرمسلم ،مسلمانوں کو طاقت سے ختم کرنا چاہتے ہیں۔جس وجہ سے آج کئی اسلامی انتہا پسندتنظیمں ردعمل میں سرگرم ہوگی ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کے صرف یہ بیان اور پراپیگنڈاآج کے عالمی تناظر اور دنیا کو درپیش مسائل کا حل ہی نہیں ہے بلکہ ان پر پردہ پوشی اور عوام دشمنی بھی ہے۔جبکہ ہمیں آج کے عالمی معاشی،سماجی۔سیاسی ٹھوس حالات کی جانچ کر کے تجزیہ کرنے کی اشد ضرورت ہے نہ کے ہوا کے دوش پر ڈینگیں مارنے کئی۔
کیونکہ آج کا یہ تمام شور زادہ پراپیگنڈہ سامراج اور انکے ایجنٹوں کا پھیلایا ہوا ہے۔جو آج کے اصل اور حقیقی مسائل سے محنت کشو ں کی توجہ ہٹا کر انہیں اس تعصبی لڑائی میں الجھا کر اپنا مالیاتی استحصال جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کے ہر لڑائی کے پیچھے ایک بھوک ہوتی ہے۔اور یہ آج کا رجعتی تصادم بھی ایک عالمی بڑھتی بھوک میں طبقاتی تحریک کی عدم موجودگی سے بڑھاہے۔جو عالمی مالیاتی نظام میں بحران در بحران سے دنیا کا ترقی نہ کرنا،طبقات میں وسیع خلیج اور حکمرانوں کے اپنے شدید ترین تضادات کا واضح اظہار ہے۔
سرمایہ داری کے فرانس میں 1789 کے آخیری معرکہ کے بعد منڈی کی معشیت نے یورپی معاشروں کو ترقی کی نئی اور جدید منازل سے ھم کنار کیا۔اور یہ سرمایہ داری کا انقلاب کلیسااور پوپ کی حکمرانی کی تباہی اور خاتمہ کے بعد ہی تعمیر اور مکمل ہوا سکا تھا۔جس نے 1948ء سے 1973ء کے دوران آج تک کی تمام انسانی تاریخ میں عظیم ترین ترقی کی۔اور74- 1973ءکے تیل کے بحران کے بعد سماجی ارتقاءکی تاریخ میں اس کا وقت بھی ماضی کے نظاموں کی طرح پورا ہو گیا۔اوروقت نئے نظریے اور انقلاب کا تقاضہ کرنے لگا۔سرمایہ داری نے جب عالمی منڈی کے پھیلاو میں اپنی تمام تر ترقی کرنے کے بعدرجعت پرستی اور پسماندگی کے کردار کی حامل ہو گی۔معاشرتی ترقی دینے کی اہلیت اور صلاحیت کے خاتمے نے ماضی کے گھڑے مردے دوبارہ زندہ کردیئے۔
یہی وہ ٹھوس مادی حالات تھے کہ، جس بنیاد پرستی کو سرمایہ داری اپنی جوانی کے دور میں ختم اور دفن کر چکی ہے آج اپنے اپاہج پن کی وجہ سے اسے ہی پھر اپنی زندگی کے لیے بیساکھیاں بنا لیا ہے۔
سرد جنگ کے دوران تمام دنیا میں تمام بنیاد پرستی اوررجعت پرستی کی تعمیروترقی کس نے کی؟صدام کو قوم کا باپ کس نے کہا؟ اور پھر پھانسی کس نے دلائی امریکہ نے ۔اور ایرانی انقلاب کا قائد کہاں سے آیا تھا؟فرانس سے پاکستان میں گیارہ سال ضیاء کی بربریت اور خونریزی کی سر پرستی کس نے کی امریکہ کے علاہ کون ہے جس کو دنیا میں جمہوریت،آزادی،اور امن کا جنون سوار ہے یا کم از کم جعلی ڈھنڈورہ پیٹنے کا،
عالمی سرمایہ داری خود پسماندہ ہونے کی وجہ سے آج بنیاد پرستی کا اٹوٹ حصہ بن چکی ہے ان دونوں کا الگ کوئی وجود نہیں یہ ایک دوسرے کے لیے لازم وملزم اور یہ ایک دوسرے کی زندگی کی وجہ اور جواز ہیں۔
فرسودہ اور رجعتی تنظیمں اور نظریات، جدید معاشرہ میں عمل پذیز نہ ہوسکنے کی وجہ سے ،یہ ہمیشہ جبرکی بنیاد پر عوامی تحریک کے ٹھہراو اور عدم استحکام کے دور میں ہی اپنا وجود قائم رکھ سکتے ہیں۔اس وجہ سے آج دونوں کو جنگ یا جنگی کیفت اور عدم استحکام کی ضرورت ہے یا ضرورت بن گئی ہے۔ مذہبی اشتعال انگیزی کی سرپرستی جیسے پوپ کا بیان یا کارٹون کو سامراجی ریاستوں کی مکمل حمائت حاصل ہے۔
ان تمام بنیاد پرستوں اور سامراجیوں کے اپنے وجود اور بقا کے تمام جواز اور دلائل ختم ہو چکے ہیں یہ صرف ایک دوسرے کو استعمال کر کے ہی ظلم اور جبرسے زندہ ہیں اور عالمی عوام کا استحصال کررہے ہیں۔

روس کے خاتمہ کے بعد جو دنیا میں طاقت کا عدم توازن پیدا ہوگیا تھا یہ اسی کا نتیجہ ہے لیکن فطرت کبھی لمبا عرصہ غیر متوازن نہیں رہ سکتی وہ اسی تخریب میں اپنی تعمیر کر ے گئی جو یقینا وینزویلا سے شروع ہو چکی ہے۔
تہذیب انسانی بقاء کی حاصلات کا نام ہے۔جو بنیادی ضرویات زندگی کو پورا کرنے والے زرایع پیداوار کے با ہمی تعلقات کی نوعیت کا اظہار ہے۔
مسلمان آج امریکہ کی بھیانک یلغار کا صرف سائنس اور ٹیکنولوجی اور اپنے طبقاتی شعورکو بلند کر کے اورعالمی مزدور تحریک کا اٹوٹ انگ بن کر ہی کر سکتے ہیں اور ویسے بھی آج صرف چندافراداور تنظیموں کی انتہا پسندی کو تمام مسلمانوں کے سر نہیں تھوپا جا سکتا۔جو آج اپنی دوکانداری کے لیے مذہب کو سیاست کا رنگ دے رہے ہیں۔
امریکہ اور سامراج آج صرف تہذیبوں کے تصادم کا ہی نہیں بلکہ ہر تصادم جو غیر انسانی اور خونی ہے اس کا ذمہ دار اور سرپرست ہے۔ جبکہ میڈیا کے پراپیگنڈے میں آج صرف جھوٹ اور منافقت بھری پڑی ہے
لبنان اسرائیل کی جنگ میں حزب اللہ کی عوامی حمائت جو جنگ سے پہلے تئیس فیصد تھی جنگ کے دوران بیاسی فیصد ہو گی۔القاعدہ جو پہلے صرف افغانستان میں تھی اب پوری دنیا میں ہے۔حماس آج نہ صرف اقتدار میں ہے بلکہ اسکی سپورٹ بڑھ رہی ہے،آج اسی تہذیبوں کے تصادم کے نام پر ہر تعصب،بنیاد پرستی،جنونیت،نفرت،تفرقے بازی کو ہوا دے کر انسانوں کو،قوموں اور ملکوں کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنایا جا رہا ہے،اس سے نہ صرف اسلامی بنیاد پرستی بڑی ہے بلکہ ہندو،عیسائی،یہودی،بنیاد پرستی میں انتہا پرستی کے رجحان عود آئیں ہیں جس سے آج اس کے خلاف لڑنے والے ہی اس کے جنم داتا اور پھیلانے والے ہیں۔
تاریخ اور وقت آج ٹھہرا سا محسوس ہوتا ہے۔اس میں ایک خلا آ گیا ہے،کہتے ہیں سمندر جتنا خاموش اور ساکت ہو گا وہ اتنا ہی خوفناک اور خطرناک ہو گا کیونکہ یہ آنے والی طاقت ور اور بھیانک طغیانیوں کی پیش خیمہ ہوتی ہیں۔
سامراجی اور بنیاد پرستی کے ظلم اور بربریت کے اس کھیل میںاگراکثریتی محنت کش طبقہ خاموش ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کے وہ سب کچھ دیکھ اور محسوس نہیں کر رہا اس کی اس خاموشی کے نیچے موجودہ نظام کے خلاف پکتے اور ابلتے طوفان ہیںانقلابی قیادت اور پارٹی کی عدم موجودگی میں ان کو راستہ دیکھلانے والا اور سمیٹ کر اس کو اس کی منزل مقصود تک لے جانے والا لے کی کمی ہے جو ان کے راستہ میں ایک بڑی ورکاوٹ ہے لیکن یہ اس کے باوجود اپنی تبدیلی کی خواش کا اظہار کریں گئے اور وہ کر رہے ہیں،اس عالمی محنت کش عوام کے حا لات اتنے تنگ اورتباہ ہو چکے ہیں کہ یہ اب اپنے مسیحا کا انتظار نہیں کریں گئے بلکہ اپنی تقدیر کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے اٹھیں گئے،ونیوزویلا آج عالمی دنیا کے سامنے جیتی جاگتی زندہ مثال ہے جس کی تقلید میں پورا لاطینی امریکہ اٹھ کھڑا ہوا ہے جہاں امریکہ اور اس کے حواریوں کو شکست فاش ہو رہی ہے یہاں سامراج ماسوئے اپنی زبان اپنے دانتوں میں کٹنے کے کچھ نہیں کر سکتا اور کر رہا۔
اور اس کا تہذیب کے تصادم میں طبقاتی تصادم کو روکنے اور گمراہ کرنے کا کھلواڑ اور ڈرامہ کا اختتام چل رہا ہے۔
عالمی انسانیت آج ایک عوامی اور اشتراکی انقلاب کے دھانے پر کھڑی ہے جوکسی وقت بھی انسان کا مقدر بدل دے گی،اور انسان اپنے تسخیر کائنات کے مقصد کی طرف بڑھنا شروع کرے گا۔
لازم ہے ہم بھی دیکھیں گئے وہ دن
1989میں امریکہ کے سینٹ جیمز یونیورسٹی واشنگٹن کے پروفیسر اور سی،آئی،اے کے دانشوار فرانسس فوکویاما نے روس کی ٹوٹ کے بعد دنیا کے تناظر پر اپنا تھیسس لکھا جس کا نام تھا ،تاریخ کا اختتام، جس میں اس نے سرما یہ دارانہ نظام کو انسانیت کا آخیری اور اعلی نظام کے طور پر پیش کیا تھا، جو آج تاریخ اوروقت کے ہی ہاتھوں ذلیل ورسوا ہو کر اپنی موت خود مرچکا ہے، اور اب 1997 میںایک اور اسی یونیورسٹی کے پروفیسراور سی آئی اے کے دانشور سیمیول پی ہنگٹن Samuel Hutington نے فو کو یاما کے خلاف ایک مکا لمہ لکھا جو منظر عام پر تہذیبوں کا تصادم Clash of the Civillisation کے نام سے آیا۔جو امریکی اور عالمی حکمرانو ں کوموجودہ عالمی بحرانوں سے بچا نے ،مالیاتی استحصال کو، عالمی متحدہ مزدور تحریک کو مذہبی تفرقے سے تباہ کر کے جاری اور قائم رکھنے کے لیے پیش کیا گیا ہے جسکو موجودہ تمام عالمی حکمران بھرپور پراپیگنڈہ کر کے طبقاتی تحریک کو توڑنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشیش کر رہے ہیں۔ ١١ ستمبر کے کے بعد بش کا صلیبی جنگ کا بیان اور آج اسلامی فاشزم کا لفظ دنیا میں شر پسندی کو ابھا ر کر اسلامی سوچ میں جنونیت کو خونی کر رہا ہے اور شائد یہ حکمران چاہتے بھی یہی ہیں کیونکہ یہی آج کے نظام کی زندگی کی واحد ضمانت رہ گی ہے۔

No comments:

Post a Comment