Tuesday, November 24, 2009

تاریخ یہود اور مسئلہ فلسطین





تحریر: ڈاکٹر ساجد خاکوانی



بسم اﷲ الرحمن الرحیم

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوبیٹوں، حضرت اسم
اعیل علیہ السلام اور حضرت اسحق علیہ السلام کو منصب نبوت سے سرفراز کیا گیا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پہلے بیٹے حضرت اسمئیل علیہ السلام سے عرب اقوام نے جنم لیا اور دوسرے بیٹے حضرت اسحق علیہ السلام کے فرزند ارجمند جو اﷲ تعالی کے بڑے ہی برگزیدہ نبی ہوئے اور قرآن مجیدمیں انکا متعددبار تذکرہ کیا، انکا نام حضرت یعقوب علیہ السلام تھا۔

انہیں اﷲ تعالی نے ’’اسرائیل‘‘کا لقب عطا کیا جوعبرانی زبان کا لفظ ہے اور اسکا مطلب’’اﷲ تعالی کا بندہ‘‘ہے۔عربی میں ’’بن‘‘بیٹے کو کہتے ہیں اور ’’بنی‘‘ اسکی جمع ہے۔

حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے جن سے انکی نسل چلی ان بیٹوں کو اور انکی نسل کو قرآن نے ’’بنی اسرائیل‘‘یعنی اولاد یعقوب علیہ السلام سے یاد کیا ہے۔

’’یہودہ‘‘نامی لڑکاحضرت یعقوب علیہ السلام کا چوتھا بیٹا تھا جس کے ہاں اولاد نرینہ بہت تھی۔ بنی اسرائیل کا ہر دوسرا تیسرا نوجوان ’’یہودہ‘‘کا بیٹا یا پوتا ہوتا تھاجس وجہ سے اس قبیلے کو ’’یہودی‘‘کہا جاجانے لگاجو آج تک مروج ہے۔

حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ اقتدار میں یہ قبیلہ اپنے آبائی علاقے سے مصر منتقل ہوا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بعد چار سو تیس سالوں تک ان پر تاریخ کی بدترین غلامی مسلط رہی اور مصر کے مقامی لوگوں نے انہیں اپنی غلامی کی زنجیڑوں میں جکڑے رکھا۔

انکا ہر حکمران فرعون کہلاتا تھا۔فرعونوں اور فرعونوں نے ان بنی اسرائیل پر بے پناہ تشدد کیا یہاں تک کہ حضرت موسٰی علیہ السلام کی قیادت میں ان لوگوں نے مصر سے ہجرت کی اور صحرائے سینا میں آن وارد ہوئے۔

ﷲ تعالی کے نبی حضرت موسٰی علیہ السلام نے انہیں قتال کرنے کا حکم دیا، قتال سے انکار پر چالیس سال تک صحرا نوردی ان کا مقدر بنی رہی یہاں تک کہ وہ ساری نسل ختم ہو گئی جس نے قتال سے انکار کیا تھا۔نئی نسل نے طالوت کی قیادت میں قتال کیا اور انہیں تمدنی زندگی نصیب ہوئی۔

طالوت کی فوج میں حضرت داؤدعلیہ السلام بھی شامل تھے۔ طالوت کی نرینہ اولاد نہ تھی اس نے وعدہ کیا جو اسکے دشمن ’’جالوت‘‘ کو قتل کرے گاوہ اپنی بیٹی اس سے بیاہ دے گا۔ چنانچہ یہ سعادت حضرت داؤد علیہ السلام کے حصے میں آئی۔ طالوت کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام حکمران بنے اور اپنے زمانے کے بڑے ہی شاندار حکمران بنے۔

لوہے کی ٹیکنالوجی کاآغاز آپ کے زمانے میں ہی ہوا۔ آپ کا اقتدار، فوج، خزانہ اور رعب داب کا قرآن نے بھی ذکر کیاہے۔ کم و بیش تین براعظموں پر آپکی حکومت تھی اورآپ پرآسمانی کتاب’’زبور‘‘ بھی نازل ہوئی۔

آپ علیہ السلام کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام بھی بنی اسرائیل میں سے تھے جنہیں اﷲ تعالی نے دیگر مخلوقات پر بھی اقتدار عطا کیا تھا۔حضرت سلیمان علیہ السلام کا بیٹا ’’رجعام‘‘جب تخت نشین ہوا تو سلطنت اسکے قابومیں نہ آسکی اور ریاست دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔

اس زمانے میں ایک حصے کا نام اسرائیل اور دوسرے کا نام یہودیہ تھا۔ ان کے درمیان اگرچہ لڑائیاں بھی رہیں لیکن جلد ہی صلح صفائی ہو گئی۔

یہودی آج تک یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ مشرق وسطی پر انکا حق ہے،اور اسکی وجہ انکے نزدیک کچھ یوں ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ﷲ تعالی نے مشرق وسطی کا علاقہ دیاتھا۔ انکے ایک بیٹے سے یہودی ہیں اور دوسرے سے عرب اقوام۔ یہود ی یہ کہتے ہیں کہ اس بنیاد پر آدھے مشرق وسطی پرعربوں کا حق ہے اور بقیہ آدھے پر یہود کا۔ لیکن یہ موقف اس لیے غلط ہے کہ اﷲ تعالی نے خلافت ارضی کسی نسلی تفوق کی بنیاد پر عطا نہیں کی تھی۔

یہ خالصتاً تقوٰی پر بنیاد کرتی ہے،اگر یہود اتنے ہی عزیز ہوتے تو ختم نبوت آل اسماعیل میں کیوں واقع ہوتی اور قرآن مجید جیسی شاندار کتاب مکہ اور مدینہ کی بجائے فلسطین و یروشلم میں کیوں نہ نازل ہوتی؟ یہ ایک ابدی حقیقت ہے کہ اﷲ تعالی کو نسلوں اور علاقوں سے زیادہ متقی و پرہیزگارلوگوں سے پیار ہے اور یہی لوگ ہی اﷲ تعالی کے برگزیدہ ہیں خواہ کسی نسل۔ رنگ اورعلاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔

یہود آج تک اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ محسن انسانیت ﷺ ﷲ تعالی کے سچے نبی ہیں،قرآن نے ان کی اس بات یوں تبصرہ کیا ہے کہ ’’اے نبی یہ (اہل کتاب) آپ کو یوں پہچانتے ہیں جیسے اپنے سگے بیٹوں کو‘‘، لیکن محض نسلی تفرق کی بنیاد پر جانتے ہوئے بھی ماننے سے گریزاں ہیں۔

یہودیوں کے تین قبائل محسن انسانیت کی تلاش میں ہی یثرب کے مقام پر آکر آباد ہوئے تھے کیونکہ گزشتہ کتب میں یہی لکھا تھا کہ یثرب کے مقام پر محسن انسانیت اپنی ریاست بنائیں گے۔ لیکن جب وہ نبی آن پہنچے تو یہود محض اس وجہ سے ان پر ایمان نہ لائے کہ ﷲ تعالی نے ان کی بعثت بنی اسرائیل کی بجائے بنی اسماعیل میں کیوںکردی،

حالانکہ یہ خالصتاً اللہ سبحان و تعالیٰ کا فیصلہ تھا۔

اگرچہ محسن انسانیت ﷺ نے یہود کو حجاز میں رہنے کی اجازت دے دی تھی لیکن اس بدعہد قوم کی مسلسل ریشہ دوانیوں کے باعث اﷲ تعالی کے نبی ﷺ نے مدینہ سے نکال باہر کیا لیکن وہاں بھی ان کی سازشیں کم نہ ہوئیں تو آپ وصیت فرما گئے کہ ان یہود کو جزیرۃ العرب سے نکال دیا جائے۔

چنانچہ حضرت عمرؓ نے انہیں وہاں سے نکال دیا تھا۔اس سے قبل بھی کم و بیش ایک صدی قبل مسیح سے یہ لوگ اپنے وطن سے دور دربدر کی ٹھوکریں کھاتے چلے آرہے ہیں اوریوں گزشتہ صدی کے نصف اول تک یہ لوگ دوہزارسال سے غریب الدیار تھے۔

گزشتہ صدی ہی میں یورپ کے حکمرانوں نے انکا بے دریغ قتل عام کیاجس کے باعث انکی نسل ختم ہوتی نظر آرہی تھی لیکن اﷲ تعالی نے عبرت کے اس نشان کوشاید قیامت تک باقی رکھنا ہے،چنانچہ نہ جانے کن کن مصالح کے تحت قدرت نے انہیں عارضی طور پر اسرائیل کی پناہ گاہ عطا کی تاکہ انکی نسل ختم ہونے سے بچ جائے۔

اسرائیل کا قیام صریحاً ایک ناجائز اور زیادتی پرمبنی عالمی پردھان منتریوں کا مکروہ فعل ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی ہمارے مکان کے ایک حصے پر زبردستی قبضہ جمالے اور پھر کہے کہ مجھے اپنا پڑوسی مان لو اور میرے حقوق ادا کرو۔

گزشتہ صدی کے اوائل میں جب سلطنت عثمانیہ اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی تویہودیوں نے سلطان کواسکا سارا قرضہ اتارنے اور اس سے مزید تر رقم دینے کی پیشکش کی صرف اس شرط پر کہ انہیں فلسطین میں رہنے کی جگہ دے دی جائے۔

سلطان کا عثمانی خون جوش مار گیا،اس نے اپنا زوال قبول کر لیا لیکن یہ ذلت آمیز رقم لینے سے انکار کر دیا۔یورپ نے ہمیشہ کی طرح بڑی آسانی سے مسلمانوں کے اندر سے ہی ایسے غدارتلاش کر لیے جو ان کی سازشوں کوعملی جامہ پہنانے کے لیے تیار تھے اوردوسری جنگ عظیم کے فوراً بعدفلسطین کاایک علاقہ یہودیوں کو دے دیا گیا۔

اسرائیل کا قیام نہ صرف امت مسلمہ کے لیے بلکہ عالمی امن کے لیے بھی ایک سلگتا ہوا مسئلہ اور رستہ ہوا زخم ہے۔ اسرائیل نے مشرق وسطی سمیت پوری دنیا میں اپنے جاسوسی اور دہشت گردی کے مراکزقائم کررکھے ہیں۔

پوری دنیا کی معیشیت اس سختی کے ساتھ یہودیوں کے ہاتھ میں ہے کہ کوئی معجزہ یا کوئی خونریز انقلاب ہی اس عالمی معیشیت کو پنجہ یہود سے آزاد کرا سکتاہے۔

کم و بیش پوری دنیا میں پیدا ہونے والا ہربچہ انکا مقروض اورپوری دنیا کے باسی کسی نہ کسی طرح اس سود خوربرادری کے ہاتھوں مقروض ہیں۔

عالمی میڈیا بھی کسی طرح بھی ان کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ نہیں اور ایک سوچے سمجھے طریقے سے فرضی خبریں اورجھوٹی افواہیں اس سرعت کے ساتھ پوری دنیا میں چند گھنٹوں کے اندر اندرپھیلا دی جاتی ہیں کہ حقیقت ان میں دور دور تک نظر ہی نہیں آتی۔

فلسطینیوں کو اﷲ تعالی ہمت دے کہ وہ آج تک ان کا مقابلہ کر رہے ہیں،انکی چوتھی نسل ہے کہ یہود کے سامنے آہنی دیوار بن کر کھڑے ہیں ،آئے روز یہ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ فلسطینی نوجوان پتھروں سے اسرائیلی ٹینکوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔

اسرائیلی طیارے جب چاہیں فلسطینیوں کی بستیوں پر اندھا دھند بمباری کرتے ہیں ،اسرائیلی فوج آئے دن فلسطینیوں پر سیدھی گولیاں چلاتی ہے لیکن گزشتہ پون صدی کی قربانیاں فلسطینیوں کی ہمت واستقلال اور استقامت میں کوئی لرزش پیدا نہیں کر سکی۔اگرچہ فلسطینیوں کے

ایک گروہ نے مغرب کے رنگ میں رنگ کریہودیوں سے مذاکرات کے ذریعے امن کی بھیک مانگنا شروع کر رکھی ہے،لیکن اب انہیں احساس ہوتاچلا جا رہا ہے کہ یہود کو برابری کی سطح پر لانا کتنانقصان دہ ہے۔

کیونکہ ﷲ تعالی نے واضع طور پر فیصلہ دے دیا ہے کہ یہود و نصارٰی تمہارے دوست نہیں ہو سکتے اور ﷲ تعالی کے رسول نے انکے خلاف قتال کیا ہے اور قرآن نے حکم دیا کہ ان سے لڑو یہاں تک کہ یہ چھوٹے ہو کر رہیں۔

فلسطینیوں کاپوری انسانیت پر عالم طور پر احسان ہے اور امت مسلمہ پر خاص طور احسان ہے کہ وہ عالمی امن کے دشمنوں کے ساتھ ایک طویل اور تاریخ ساز جنگ لڑ رہے ہیں۔پوری دنیا بھی ان فلسطینیوں کے ہاتھ مظبوط کر سکتی ہے اپنی جان اور اپنے مال کے ذریعے بھی لیکن یہ شاید مشکل ہو تب یہود کی مصنوعات کے استعمال کو ختم کر کے یہود کا قلع قمع آسانی سے کیاجاسکتا ہے۔

ﷲ کرے کہ وہ دن آئے کہ امت مسلمہ کے حکمران امت کے دوست اور دشمن کی پہچان کریں اور اپنے اقتدارکی بجائے امت کے وسیع تر مفاد میں سخت سے سخت فیصلے کر جائیں اگرچہ انہیں کیسی ہی قربانی دینی پڑے تاکہ عالم انسانیت ان استحصالی کرداروں سے نجات پا سکے۔



بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل

Thursday, November 12, 2009

سیمی پر پابندی کے آٹھ سال




تحریر: ابو ظفرعادل اعظمی


نئی دہلی کے جامعہ نگر علاقے میں واقع سیمی کامرکز ی دفتر گندگی سے بھرا پڑا ہے۔ ہر طرف گندے چیتھڑے اورٹوٹے شیشے بکھرے پڑے ہیں۔ پوری عمارت سے آنے والی سڑی ہوئی بدبو کبھی کبھی برداشت سے باہر ہوجاتی ہے۔ اہل محلہ کو کوڑا پھینکنے کے لے شاید اب ایسی جگہ مشکل ہی سے میسر آئے۔

باہری کمرے کی چھت کے کونے سے قطرے قطرے ٹپکنے والا پانی کبھی کبھی میرا راستہ روک لیتا ہے۔ افکار کے آفس آنے کے لئے روز آنہ میںجب ادھر سے گزرتا ہوں تو اکثر مجھے پانی ٹپکتے ہی ملتا ہے۔ ہفتوں پہلے بارش بند ہونے کے بعد بھی نہ جانے یہ پانی کی بوندیں کہاںسے آتی ہیں؟پانی کا اس طرح مسلسل ٹپکنا مجھے سیمی کا بابری مسجد والا وہ پوسٹر یاد دلاتا ہے جوابھی چند دنوں پہلے سیمی کے تعلق سے مواد ڈ
ھونڈنے کے وقت مجھے انٹرنیٹ پرنظر آیاتھا ۔

یہ پوسٹر میڈیا میںبھی کافی دنوں موضوع بحث بنا رہا ۔جس میں بابری مسجد کی علامتی آنکھ سے آنسو ٹپکتے دکھایا گیا ہے۔ نہ جانے مجھے کیوں پانی کے یہ قطرے کچھ ایسے ہی محسوس ہوتے ہیں۔ لیکن بابری مسجد کی شہادت کے بعد اس کے لئے رونے والوں کے آنسو کا اب نوٹس کون لے۔

سیمی کے تعلق سے کچھ لکھتے وقت میرا دل موہوم خطرات کی آماجگاہ بنا رہا۔کافی دن اسی ادھیڑ بن میں گزر گئے ۔کیوں کہ میں جانتاہوں اور مجھے اس کا استحضار بھی ہے کہ میں بھی ایک مسلمان ہوں اور اس وقت کسی بھی مسلمان پر کسی ممنوعہ تنظیم کے نام کی مہر لگانا بہت آسان ہے۔ پہلے سیمی کا ممبر بننا اتنا آسان نہ تھا لیکن اس وقت یہ عمل انتہائی آسان اور کم وقت طلب ہے۔

ستمبر2001سے پہلے سیمی اس کے لئے کافی سخت شرائط رکھتی تھی۔ تنظیمی دستور میں بہت سارے بنیادی سوالات ہیں۔ مطالعے کی ایک لمبی فہرست ہے۔ چال چلن اور اخلاقیات کی مثبت رپورٹ بھی جس کے لئے ضروری ہے۔ سرگرمی اور وقت کی پابندی کا خاص تذکرہ ہے لیکن اب یہ سارے شرائط ختم ہوگئے۔ سیمی کارکن بنانے کی ذمہ داری اب حکومت اور پولیس نے لی ہے۔ جو ان کی نظر میں چڑھ گیا وہ چاہے سیمی کا پورا نام نہ جانتا ہو وہ سیمی کا ممبر ضرور کہلائے گا۔

سیمی اپنے ارکان کے ناموں کا اعلان اپنے ترجمان میں کرتی تھی لیکن اب یہ اعلان حکومت کے ذریعہ عدالتوں میں فائل کئی جانے والی چارج شیٹ اور حلف ناموں میں ہوتا ہے۔ معاملہ اب یہاں تک پہنچا ہے کہ جن بچوں کی عمر ستمبر 2001میں 10 ,9 سال رہی ہوگی اب ان کو بھی حکومت نے سیمی کا ممبر بنالیا ہے۔ اگر یہ سلسلہ دراز ہوا تو 2001کے بعد پیدا ہونے والے بچے بھی آئندہ چند سالوں بعد آسانی سے اس ’رکنیت‘ کے اہل قرار پائیں گے۔

کسی کے خون کو حلال کرنے کا اس سے بہتر طریقہ شاید کوئی نہیں ہے۔ لیکن پورے ملک میں سیمی کے ساتھ ہوئی حق تلفی اور پھر قطرہ قطرہ ٹپکنے والے ’ آنسو‘ میرا سکون چھین لیتے ہیں۔ اور اس کشمکش میں حق کی پاسداری میری پیشہ وارانہ ذہنیت پر حاوی ہوتی نظر آتی ہے۔

سیمی کے مرکزی دفتر سے گزرتے ہوئے بارہا مجھے یہ خیال آیا کہ کوئی ایسی تنظیم جس کا ہندستان کے دل میں مرکزی دفتر ہو ،ریاستی دارالحکومتوں اور مختلف شہروں میں اس کے ذیلی دفاتر ہوں۔ اس کے عہدیداران پریس کانفرنس کرتے ہوں ، بیانات دیتے ہوں، اس کا مختلف زبانوں میں سرکار سے منظور ی شدہ ترجمان نکلتا ہو، جس میں وہ اپنے نو منتخب عہدیداران اور ارکان کی فہرست شائع کرتی ہو، اپنی سرگرمیوں کی کوریج دیتی ہو کیا اسلحہ بھی اٹھاسکتی ہے ؟اور اسی ملک کے خلاف جس کی منظوری سے وہ یہ سب کام کررہی ہے ۔

مجھے اس کا جواب ہمیشہ نفی ہی میں ملا۔ اس کالم کو لکھنے کے لئے میں نے بارہا غور کیا، مختلف سیاسی و سماجی شخصیتوں سے گفتگو کی، قانونی امور کے ماہرین سے ملاقات کی ، چارج شیٹوں کی مدد سے حکومتی موقف کا مطالعہ کیا ،ڈر ے اور سہمے ہوئے بعض سیمی کے ارکان سے بھی گفت وشنید کی ، میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ آخر کوئی تنظیم جو صرف طلبہ تک محدود ہو اور تقریبا 25سال تک اس کے خلاف دہشت گردی کا ایک بھی معاملہ درج نہ ہوا ہو ، اس کی ساری سرگرمیوں، تقریروں، تحرویروں اور جلسے جلوسوں پر منحصر ہو، پابندی کے بعد ہتھیار کیسے اٹھا سکتی ہے۔

یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ جو تنظیم مسلسل 8سال سے عدالت کی چوکھٹ پر انصاف کی آس لگائے بیٹھی ہو۔ اس کے وکیل پوری تیاری سے ٹربیونل کے ساتھ پورے ملک گھومتے پھریں، ذیلی عدالتوں سے لے کر ہائی کورٹ، سپریم کورٹ میں پیش ہوں اور وہ پھر دھماکہ بھی کرے۔ عدالت میں تاریخ سے ایک دن قبل یا پھر اسی دن۔

پابندی سے قبل دو تین سال سیمی بہت زیادہ موضوع بحث رہی، لیکن اس کی پورے ملک کی ایک مہینے کی تمام تر سرگرمیاں اس کے ترجمان اسلامک موومنٹ میں دو یا تین صفحے سے زیادہ جگہ نہیں گھیر پاتی تھیں۔

بعض ایسے شمارے بھی نظروں سے گزرے ہیں جس میں کسی پروگرام کے ایک دو فوٹو دے کر صفحہ میک اپ کیا گیا ہے لیکن پابندی کے بعد ہی سے اسی تنظیم کی سرگرمیاں آخر اتنی زیادہ کیسے بڑھ سکتی ہیں کہ اس کے لئے حکومت کو چار، پانچ سو صفحات پر مشتمل عدالت میں حلف نامہ پیش کرنا پڑے ۔ سیمی کے تعلق سے ناانصافیوں کا تسلسل پولیس انتظامیہ ، حکومت، عدالت اور میڈیا تک ہی محیط نہیں ہے بلکہ اس کی ضرب ان لوگوں پربھی پڑتی ہے جوخودکو سیکولر اور تعصب سے پاک بتاتے ہوئے نہیں تھکتے ہیں۔

ستائیس ستمبر 2001ءکو فجر کی نماز سے پہلے پہلے پورے اتر دیش اور ملک کے دیگر کچھ شہروں میں سیمی کے درجنوں کارکن گرفتار کئے جاچکے تھے اور متعدد دفاتر کو سیل کردیا گیا تھا ۔ گرفتار شدگان میں زیادہ تر لوگ ایسے تھے جن کے بارے میں ان کے اقرباء کا کہنا ہے کہ ان کا سیمی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ کچھ ایسے لوگ بھی اس آفت ناگہانی کا شکار ہوئے جن کی عمریں سیمی سے ریٹائرمنٹ کی عمر (30سال) کے دوگنے سے بھی زیادہ تھیں۔

اعظم گڑھ کے ایک گاوں کے 65سالہ بزرگ کو اس الزام میں گرفتار کر لیا گیا کہ وہ بازار میں اسامہ بن لادن زندہ باد کا نعرہ لگا رہے تھے۔ پورے یوپی میں درج مقدمات کی چارج شیٹ پر ایک نظر ڈالنے ہی سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ساری کہانیاں ایک ہی ماسٹر پلان سے ماخوذ ہیں۔ صرف کہانی کے کردار ، مقامات اور بعض جگہ اوقات کا فرق ہے۔

دفعات بھی کچھ حذف و اضافے کے ساتھ مشترک ہی ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ پابندی کا اعلان 27ستمبر کو شام 4بجے ہو الیکن سیمی کے نام پر پورے ملک کے درجنوں مسلمان صبح سے پہلے پہلے لاک اپ میں تھے لیکن پولیس کی کہانی میں ان سب کو دوپہر یا شام میں کہیں پوسٹر لگانے، اشتعال انگیز تقریر کرنے یا نعرہ لگانے کا الزام لگاتے ہوئے پکڑنے کی بات کہی گئی۔ کسی تنظیم کو ممنوعہ قرار دئیے جانے کے بعد اگر کوئی فرد اس نام پر کوئی کام کرتا ہے تو اصولا وہ قابل مواخذہ ہوگا لیکن پورے ملک میں پابندی کے اعلان سے قبل ہی سیمی کے نا پر گرفتاریوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔

قانونی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ انسداد غیر قانونی سرگرمی قانون1967، جس کے تحت سیمی پر پابندی عائدکی گئی کے مطابق کسی بھی تنظیم پر پابندی لگانے کے بعد نوٹیفکیشن کی کاپی اس تنظیم کے مرکزی دفتر پر، نمایاں مقام پر چسپاں کرنا، مرکزی دفتر کے اہلکار کو سونپنا، یا نوٹیفکیشن کے مواد کا اس تنظیم کی سرگرمیوں کے علاقوں میں لاوڈاسپیکر سے اعلان کرنا ضروری ہے۔

سیمی کے اس وقت کے صدر جناب شاہد بدر کا کہنا ہے کہ ہمیں 27ستمبر 2001کی شام کو ٹی وی پر نشر خبر کے ذریعہ معلوم ہوا کہ ہم پرپابندی لگا دی گئی ہے۔ جب کہ پورے ملک میں ہمارے سارے دفاتر کے فون صبح ہی سے کاٹ دئیے گئے تھے۔ اترپردیش سمیت مختلف ریاستوں میں رات ہی میں گرفتاریاں عمل میں آچکی تھیں۔ شاہد بدر مزید بتاتے ہیں کہ 27ستمبر کو رات 12بجکر 40منٹ پر پولیس سیمی کے مرکزی آفس میں گالیاں دیتی ہوئی دروازہ توڑ کر داخل ہوئی اور ہمیں گرفتار کرلیا۔ ہمیں اس وقت تک کسی بھی طرح کا کوئی نوٹیفکیشن نہیں دیا گیا۔

سیمی پر پابندی کے ان آٹھ سالوں میں عوام کے سامنے زیادہ تر وہی باتیں آسکی ہیں جنھیں حکومت نے لانا چاہا۔ نام نہاد آزاد اور غیر جانب دار میڈیا بھی اس معاملے میں حکومت کی اطلاعات کو من وعن نقل کرنا ہی بہتر سمجھتارہا۔ عموما ایسا ہوا ہے کہ جب بھی سیمی کے نام پر کوئی گرفتاری ہوتی ہے، میڈیا اس کو بطورخاص کور کرتا دکھائی دیتاہے۔ عدالتوں میں ان کی پیشی ،پولیس حراست میں اقبال جرم وغیرہ کی کہانی بھی نمایاں مقام حاصل کرتی ہے۔

لیکن جب کچھ دنوں بعد عدالت اسے بری کردیتی ہے تو یہ خبر ان کے لئے کوئی اہمیت نہیںرکھتی۔سیمی کے نام پر سب سے زیادہ واویلا مہاراشٹر میں مچایا گیا، جہاں مسلسل کئی برسوں سے کانگریس بر سر اقتدار ہے ۔ سیمی پر پابندی لگنے کے بعد سال 2002میں گھاٹ کوپر میں ایک بس میں بم دھماکہ ہوا۔ ممبئی پولیس نے اسے سیمی کی کارروائی قرار دیتے ہوئے 16لوگوں کو پوٹا کے تحت ملزم بنایا جس میں ڈاکٹر متین اور ثاقب ناچن وغیرہ کو کلیدی ملزم کے طور پر پیش کیا گیا۔

ثاقب ناچن و دیگر 8لوگوں کو اس مقدمے میں پولیس نے 2003میں گرفتار کیا لیکن سال بھر کے اندر ہی اپریل 2004ءمیں ان کو ڈسچارج کردیا گیا اور پھر بقیہ ملزمین بھی بعد میں عدالت کے ذریعہ بری ہوگئے۔ لیکن اس معاملے کو ستمبر 2003میں سیمی پر دوبارہ پابندی لگانے کے لئے حکومت نے اہم مقدمے کے طور پر پیش کیا۔ اسی طرح مارچ 2003میں ملنڈ، ولے پارلے اور ممبئی سینٹرل کے بم دھماکوں میں بھی 16لوگ گرفتار کئے گئے۔اس میں بھی ثاقب ناچن کو کلیدی ملزم بنایا گیا ۔

یہ معاملہ بھی پوٹا کے تحت درج کیا گیا لیکن تقریباً دو سال بعد 2005ءمیں استغاثہ نے عدالت میں ثاقب ناچن سمیت کئی ملزمین کے بارے میں تحریر لکھ کر دی کہ ان لوگوں کا بم بنانے، رکھنے یا سازش کرنے سے براہ راست تعلق نہیں تھا۔ لیکن یہ معاملہ ابھی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔

مغربی بنگال، جہاں ایک عرصہ سے خود کو فرقہ پرستی سے کوسوں دور بتانے والی پارٹی برسر اقتدار ہے، میں سیمی کے نام پر کم ڈرامے نہیں ہوئے ہیں۔ یٰسین کبیر نامی 58سالہ بزرگ کو دیگر 5لوگوں کے ساتھ مالدہ ضلع میں ستمبر2001کو گرفتار کیا گیا تھا، ان پرسیمی کا پوسٹر لگانے، اشتعال انگریز تقریریں کرنے اور نعرے لگانے کا الزام تھا۔ یٰسین کبیر کا دو سال بعد جیل ہی میں انتقال ہوگیا اور 4سال بعد سیشن کورٹ نے بقیہ4لوگوں کو بری کردیا اور ایک ملزم کو 2سال کی سزا سنائی جب کہ پانچوں ملزمین 4سال جیل میں گزار چکے تھے۔

مغربی بنگال کے ضلع مرشد آباد میں پولیس نے سیمی کے نام پر دیگر 18لوگوں کے ساتھ 75سالہ مولانا اشرف الحق نامی ایک عالم دین کو گرفتار کیا ان پر بھی پوسٹر چسپاں کرنے اور نعرے بازی کا الزام ہے ۔

مرشد آباد کے برہمپور میں واقع مولن نامی ہوٹل کے مالک ابو القاسم (65سال) کو بھی پولیس نے حراست میں لے لیالیکن بعد میں عدالت نے انھیں ڈسچارج کردیا۔ ان پر الزام تھا کہ 2001میں سیمی کے صدر شاہد بدر ایک کانفرنس کے سلسلے میں جب مرشد آباد آئے تھے تو انھیں کےہوٹل میں ٹھہرے تھے۔

اسلامک یوتھ مومنٹ نامی مقامی تنظیم نے 15 اگست 2006ءکو ”ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کا رول“ کے عنوان پر کیرلہ کے شہر پانجی کولم میں ایک سیمینار رکھا۔ حکومت نے اسے سیمی کی خفیہ میٹنگ بتا کر 5لوگوں کے خلاف مقدمہ قائم کیا ۔جب کہ پروگرام درمیان شہر میں واقع ، ہیپّی آڈیٹوریم میںمنعقد ہوا تھا ۔ آڈیٹوریم میں 500لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔ گرفتار شدگان دو مہینے سے زائد عرصہ جیل میں گزارنے کے بعد ضمانت پر رہا کر دیے گئے۔ اس مقدمے میں ابھی تک چارج شیٹ نہیں داخل ہوسکی ہے لیکن 2008ءمیں اور 10لوگوں کو اسی مقدمے میں گرفتار کرلئے گئے۔

مدھیہ پردیش پولیس کا الزام ہے کہ صفدر ناگوری نے کیرلہ کے کوٹیم ضلع کے واگھمن علاقے میں دہشت گردانہ ٹریننگ کیمپ کا انعقاد کیا تھا۔ پولیس کے مطابق سیمی کے لوگوں نے یہاں ہتھیاروں کی ٹریننگ لی اور تیراکی بھی سیکھی۔ لیکن یہ ایک سیاحتی مقام ہے یہاں ہتھیاروں کی ٹریننگ کیسے ممکن ہے اور یہاں کوئی ندی یا سوئمنگ پول بھی نہیں تو تیراکی کیسے سیکھی جاسکتی ہے۔

مدھیہ پردیش میں بھی پولیس نے کیمپ چلانے کا الزام لگایا ہے لیکن انگریزی پندرہ روزہ ’دی ملی گزٹ ‘کے ایڈیٹر ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں کا کہنا ہے کہ ہم نے جب اپنے نمائندے کو رپورٹنگ کے لئے وہاں بھیجا تو گاوں والوں نے بتایا کہ ”پولیس نے یہ یہاں خود دو دن قبل بم رکھا تھا۔“

سیمی کے نام پر دہلی پولیس نے یسین پٹیل سمیت دو لوگوں کو مئی 2002ءمیں گرفتار کیاگیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی دیوار پر اشتعال انگیز پوسٹر چپکار ہے تھے۔افکار ملی سے بات کرتے ہوئے یسین پٹیل نے بتایا کہ ان کو ایک رات پہلے ہی گرفتار کیا جاچکا ہے۔ ان کی اہلیہ نے جب دہلی ہائی کورٹ میں ’ہیبس کارپس‘ کی عرضی دائر کی تب پولیس نے جامعہ ملیہ کی دیوار پر پوسٹر چپکانے کی فرضی کہانی گڑھی۔ پولیس نے جسے پوسٹر ثابت کرنے کی کوشش کی وہ ایک اسٹیکر تھا جس کو سیمی نے 1996ءمیں شائع کیا تھا۔

پولیس نے اس کو کمپیوٹر کے ذریعہ بڑا کرکے پوسٹر کے طور پیش کیا۔ گواہ کے نام پر صرف پولیس والے تھے پولیس نے عدالت میں کہا کہ دوپہر سے شام تک کوئی گواہ نہ مل سکا ، استغاثہ نے عدالت میں یہ بھی کہا کہ لوگ اس طرح دہشت گردانہ معاملے میں گواہی سے ڈرتے ہیں۔

فہرست نہیں پیش کرنا چاہتے۔ مبین اختر نے کہا کہ اگر ایسا ہوگیا ہوتا تو ایسے لوگ جو سیمی کو جانتے بھی نہیں ان کو اس طرح جھوٹے مقدمات میں پھنساناپولیس کے لئے انتہائی مشکل ہوتا ۔ لیکن حکومت کی نیت مسلم نوجوانوں کے تئیں صاف نہیں ہے اس لئے کہیں پٹاخہ بھی پھوٹتا ہے تو سیمی ہی کانام آتا ہے۔ کوئی بھی مسلمان کسی بھی جرم میں پکڑا جائے تو اسے سیمی سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ سیمی پر لگے الزامات کے تعلق سے پوچھے جانے پر مبین اختر نے کہا کہ الزام کی حیثیت محض افواہ کی ہے۔ جب تک کہ اس کی باضابطہ تصدیق نہ ہوجائے۔

سن 2001میں سیمی پر پہلی پابندی پر کانگریس نے بھی این ڈی اے حکومت پر نشانہ سادھا تھا۔ لیکن جب وہ خود اقتدار میں آئی تو اس سے بھی آگے بڑھ گئی۔ لیکن کانگریس کے تحت انٹی کمیونل فورم کے صدر امریش مصرا کا مانناکہ سیمی پر پابندی قطعاً غلط ہے۔ انہوںنے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ کانگریس کے اندر فرقہ پرستی پائی جاتی ہے۔ نئی یوپی اے گورنمنٹ کے وزیر برائے اقلیتی امور سلمان خورشید سپریم کورٹ میں سیمی کے وکیل رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں ایک سماجی تنظیم کے پروگرام نے انہوں نے برملا اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ سیمی پر پابندی کی مخالفت میں عدالت میں بحیثیت وکیل کھڑے ہوئے تھے اور وہ پارٹی کے اس موقف کو درست نہیں سمجھتے۔

تہلکہ کے ایڈیٹر اِن لارج اجیت ساہی سیمی پرپابندی کے تعلق سے عدالت اور قانون کے سوال پر پریشان سے ہوجاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اب عدالتوں سے انصاف کی توقع فضول ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ انصاف ہندومسلم سب کے لئے ایک بنیادی ضرورت ہے۔ اگر یہاں انصاف ختم ہوگیا تو یہ ملک ٹوٹ جائے گا۔

پولیس اور عدلیہ کے علاوہ جمہوریت کے چوتھے ستون میڈیا نے بھی کم گل نہیں کھلائے ہیں۔ کسی فرد یا تنظیم پر جرم ثابت ہوئے بغیر مجرم گرداننے اور اسے مختلف مجرمانہ نام دینے کا جوچلن جدید میڈیا نے اختیار کیا ہے وہ کسی المیہ سے کم نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیمی کے شوشے کو ایشو بنانے اور پھر اس پر ہنگامہ کھڑا کرنے میں میڈیا کا کلیدی رول رہاہے۔ کسی جمہوری ملک میں کسی تنظیم پر پابندی لگا کر اس کے منھ کو بندکرنے کے بعد اس کے اوپر حکومت پولیس اور میڈیا کی الزامات کی یلغار، جمہوری اقدار کے منافی ہے ۔

ایڈوکیٹ مبین اختر کا کہنا ہے کہ جس طرح مقدمات کی سماعت ہورہی اس طرح پہلے پابندی کا مقدمہ فائنل ہونے میں کم از کم دس سال لگیں گے۔ کیا حقوق انسانی کیلئے سرگرم تنظیموں کیلئے یہ معاملہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ واقعہ یہ ہے کہ سیمی کے تعلق سے ہورہی حقوق انسانی کی حق تلفی کی یہ چند مثالیں ںہیں بلکہ پورے ملک میں اس نام پر کسی بھی مسلم نوجوان کے خون کو حلال کرلینا پولیس اور ایجنسیوں کیلئے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔


نوٹ: مضمون نگار دہلی میں ماہنامہ افکار ملی کے خصوصی نمائندہ ہیں۔



بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل

Saturday, November 7, 2009

کرکرے کا قتل کس نے کیا،دہشتگردی کا اصل چہرہ





بھارتی ریاست مہاراشٹر کی پولیس فورس کے سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس ایس ایم مشرف کی کتاب ”کرکرے کا قتل کس نے کیا؟ بھارت میں دہشت گردی کا اصل چہرہ“ اس وقت بھارتی انٹیلی جنس بیورو، ذرائع ابلاغ اور عوام میں بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق مصنف نے اپنی کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ شروع کے اسباق میں انہوں نے ملک میں پھیلی اس برہمن ذہنیت کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے جن کی وجہ سے اس وقت ملک کی سلامتی کو خطرہ ہے اور جس کی جڑیں اب ملک کی خفیہ ایجنسی انٹیلی جنس بیورو میں اندر تک پھیل چکی ہیں۔

مصنف کے مطابق اس ذہنیت کے لوگوں نے ملک کی علاقائی زبان کے میڈیا پر قبضہ کر رکھا ہے۔ مصنف نے مہاراشٹر میں ہونے والے بم دھماکوں کے لئے ایسی ہی برہمن ذہنیت اور انتہا پسند نظریات رکھنے والی تنظیموں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جو بم دھماکے کرکے مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے اور پورے ملک میں مسلم مخالف لہر پیدا کرنے کا مقصد حاصل کر رہے ہیں اور اس میں ان کی معاونت آئی بی کا پورا کیڈر کر رہاہے۔

ہیمنت کرکرے جنہوں نے مالیگاوٴں بم دھماکے کے الزام میں گرفتار سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر، کرنل پروہت، سوامی دیا نند پانڈے سمیت گیارہ ملزمان کو گرفتار کیا تھا اور ان کے بارے میں عدالت میں داخل کی گئی فرد جرم کے مطابق یہ تمام افراد اپنی تنظیم ابھینو بھارت ، جن جاگرن سمیتی اور دیگر ہندو سخت گیر تنظیموں کے بینر تلے ایک ہندو راشٹر بنانے کی کوشش میں تھے، جس کے لئے انہوں نے نیپال کے سابق راجہ سے مذاکرات کیے تھے۔

مصنف کا موٴقف ہے کہ 1994ء بم دھماکا ،کوئمبتور بم دھماکا اور قندھار طیارہ ہائی جیک کیس ایسے واقعات ہیں جن میں مسلمانوں کو بدنام کیا جا سکتا تھا۔ ان کے مطابق 1994ء میں بم دھماکے بابری مسجد انہدام کے بعد ہوئے۔ فرقہ وارانہ فسادات کے بدلے کے طور پر چند مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے افراد نے کرائے تھے اور کوئمبتور دھماکے کو بھی وہ اسی زمرے میں رکھتے ہیں البتہ قندھار طیارہ ہائی جیک کو وہ دہشت گرد کارروائی قرار دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ مصنف نے ملک میں ہوئے دیگر بم دھماکوں کو اسی برہمن واد ذہنیت کی تنظیموں کا کارنامہ قرار دیا جسے ہیمنت کرکرے نے بے نقاب کرنے کی جرأت کی تھی۔ مصنف نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت اور گجرات فسادات کے بعد جب ان برہمن ذہینت رکھنے والوں کو ان کا مقصد حاصل نہیں ہوا تو انہوں نے پھر مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لئے ایک طرف ملک میں کئی مقامات پر بم دھماکے کرانے شروع کیے تو دوسری جانب ہر ہفتے اخبارات میں آئی بی کے حوالے سے خبریں شائع ہونے لگیں کہ مختلف مسلم تنظیمیں اب دہلی ممبئی اور ملک کے بیشتر خفیہ ٹھکانوں پر حملے کرنے والے ہیں۔

یہاں مصنف نے ایک خبر کی مثال دی جس میں امریکا کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ القاعدہ ممبئی اور دہلی پر حملے کرنے والی ہے۔ دوسرے روز امریکہ نے اس خبر سے انکار کیا تھا۔ کتاب میں کہا گیا ہے کہ 2000ء سے اب تک ملک میں ہونے والے بم دھماکے انہی برہمن خیالات کی حامل تنظیموں نے کرائے ہیں۔ اس میں انہوں نے ناندیڑ بم دھماکہ، ٹرین بم دھماکہ، اجمیر شریف بم دھماکہ، مالیگاوٴں بم دھماکے اور احمد آباد بم دھماکوں کی مثال دیتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ کام کس طرح ان برہمن ذہنیت کی تنظیموں نے کیا ہے۔

مصنف نے اسی پس منظر میں ممبئی حملوں میں ہیمنت کرکرے کے قتل پر شک و شبہ ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے چند سوالات اٹھائے ہیں اور دعوی کیا ہے کہ اگر یہ جھوٹ ہیں تو حکومت اس کی تفتیش کرے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ جب بھی کہیں بم دھماکہ ہوتا ہے ، ایجنسیاں فوراً بغیر ثبوت کے رٹے رٹائے انداز میں مسلم تنظیموں کا نام لینا شروع کر دیتی ہیں۔ آئی بی پولیس تفتیش میں بلاوجہ مداخلت کرتی ہے۔

انہوں نے 11 جولائی 2006ء کے ٹرین بم دھماکوں کی مثال دی کہ جب مبینہ طور پر بے قصور افراد کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس افسران پر دباوٴ ڈالا جانے لگا تو ایک انسپکٹر ونود بھٹ نے خود کشی کر لی ۔

ان کا کہنا ہے کہ شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے۔ مسلمانوں کو فرضی پولیس مقابلوں میں ہلاک کرنے سے قبل اس شخص سے ڈائری لکھوائی جاتی ہے، نقشے بنوائے جاتے ہیں، کسی ساتھی کو فون کروایا جاتا ہے وغیر وغیرہ۔ مشرف کے مطابق یہ برہمن نواز تنظیمیں آر ایس ایس سے زیادہ خطرناک ہیں۔ مشرف نے کے پی ایس رگھوونشی کی سربراہی میں مہاراشٹر کی انسداد دہشت گردی عملہ، اترپردیش کی ایس ٹی ایف، دہلی پولیس کی اسپیشل سیل سمیت جموں کشمیر پولیس کے کچھ حصے کی کارکردگی پر شک و شبہات ظاہر کئے ہیں۔

مصنف نے شروع سے ہی اپنی کتاب میں ملک کی انتہائی اہم خفیہ ایجنسی انٹیلی جنس بیورو کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگائے ہیں کہ اس ایجنسی میں برہمن واد کیڈر ہے جو ملک کو اور حکومت کو مسلمانوں کے خلاف گمراہ کرتا آیا ہے۔ اس کی جڑیں اس حد تک پھیلی ہیں کہ جو سیکولر افسران ہیں ان کی آواز دبا دی جاتی ہے اور کبھی تو انہیں پتہ تک نہیں لگتا کہ آخر حقیقی معنوں میں کیا ہو رہا ہے۔

ذرائع کا دعوی ہے کہ اصل حملہ آور صرف ہوٹل تاج ، ہوٹل ٹرائیڈینٹ ، کیفے لیوپولڈ، اور ناریمان ہاوٴس تک محدود تھے۔ ان حملوں کا فائدہ اٹھا کر ایک منصوبے کے تحت کرکرے کو رنگ بھون کی گلی میں قتل کیا گیا۔ مصنف نے اسی پس منظر میں ممبئی حملوں میں ہیمنت کرکرے کے قتل پر شک و شبہ ظاہر کیا ہے۔



بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل

Tuesday, November 3, 2009

سوڈان میں امریکی و صہیونی مکرکرنیاں



تحریر: روف عامر پپا بریار


عالمی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ مستقبل میں وہ ریاست عالمی قیادت کا تاج پہننے میں سرفراز ہوگی جس کے پاس انرجی تیل و گیس کے وسیع ذخائر ہونگے۔

انہی زائچوں و مشاہدوں کے پیش نظر امریکہ سنٹرل ایشیا سے لیکر افریقہ تک انرجی کے انبوہ رکھنے والے علاقوں پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔ امریکہ سوڈان کے لا محدود معدنی خزانوں کو اپنے پنجہ استبداد میں مقید کرنے کے لئے پرجوش نظر اتا ہے۔

امریکہ اور برطانیہ نے اپنے زاتی مفادات کے لئے سوڈان میں ہمیشہ خانہ جنگی و نسلی تصادم کو انگیخت دی۔ چھ سالہ جنگی دور میں تین لاکھ سے زائد لوگ مارے گئے جبکہ دارفر کے دو ملین لوگ بے سائباں بن گئے۔

امریکہ نے سوڈان میں مداخلت کی تاویلات کے تناظر میں نئی پالیسی تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے ۔واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق سوڈان کی نوزائیدہ امریکی پالیسی یواین او میں امریکی سفیر سوسائن رائس اور خصوصی معاون سکاٹ کریشن اوپن کریں گی۔

صدر عمر البشیر سامراج مخالف افکار کے رسیا ہیں یوں وہ امریکہ و مغرب کے نزدیک انتہائی ناپسندیدگی کا درجہ رکھتے ہیں کیونکہ وہ دیگر مسلم ممالک کی طرح وائٹ ہاوس کے خوشہ چین بننے اور و مرغان دست اموز والا کردار ادا کرنے سے انکاری ہیں۔

وہ 1989سے صدر کے عہدے پر کام کررہے ہیں۔عالمی عدالت انصاف نے عمر حسن البشیر کے وارنٹ گرفتاری جاری کررکھے ہیں۔ ان پر دارفر میں غیر عرب باشندوں کے قتل عام کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ سوڈانی صدر نے 2005 میں ایک معاہدے پر دستخط کئے جس سے وہاں دس سالہ خانہ جنگی کا اختتام ہوا۔

دس لاکھ افراد نسلی تصادم کے عفریت کا لقمہ اجل بن گئے۔ سوڈان نے اپنے دریافت یافتہ ذخائر سے فوائد حاصل کرنے کا کام انتہائی تاخیر سے شروع کیا۔

یوں تو سوڈان میں 1959 میں تیل و گیس نکالنے کی ابتدائی کوششیں شروع تھیں۔ستر کی دہائی میں امریکی کمپنی چوران کو تیل و گیس کے ذخائر کی تلاش کا ٹھیکہ دیا گیا مگر 1990 میں یہ کمپنی اپنا کام ادھورا چھوڑ کر واپس چلی گئی۔

اور 1996 میں سوڈانی حکومت نے ملائشیا چین کے تعاون سے اپنی پیدوار بڑھانے اور نئے ذخائر تلاش کرنے کی مہم کا اغاز کیا۔ اس عرصہ میں تیل کی پیدوار بڑھتی رہی اور اٍس سال تیل کی پیدوار میں اضافہ250 بلین بیرل کے ہندسوں کو کراس کرگیا۔ 1882میں برطانیہ نے مصر پر قبضہ کیا تو سوڈان بھی انکی عملداری میں آگیا۔ برطانیہ نے سوڈان کو دو حصوں شمالی مسلم سوڈان اور جنوب میں مسیحی سوڈان میں منقسم کردیا۔ 1955 میں مصری و سوڈانی قوم پرستوں نے برطانیہ سے اپنی آزادی تسلیم کروالی اور شمالی و جنوبی سوڈان کو ایک پرچم تلے ضم کرنے کا اعلان بھی ہوا مگر برطانیہ نے دونوں حصوں میں نفاق کے ایسے زہریلے بیج کاشت کئے کہ آج تک دونوں کی وحدت کا خواب پورا نہ ہوسکا۔

حکومت نے ایک طرف تیل کو بحیرہ احمر تک پہنچانے کے لئے پائپ لائنیں تعمیر کیں تو دوسری طرف ملک میں پانچ کرنے والی ائل ریفائنریاں قائم کی گئیں۔ خرطوم آئل ریفائنری کے قیام نے پوری دنیا میں تیل و گیس کی تجارت سے منسلک انٹرنیشنل کمپنیوں کو اپنی طرف راغب کیا۔

یوں دنیا کی پیٹروکیمیکل انڈسٹری کے لئے سوڈان نعمت مترقبہ ثابت ہوا۔ تیل و گیس کے علاوہ سوڈانی دھرتی نے نایاب قسم کی معدنیات سونا چاندی چپسم کاپر سلیکون اور دیگر کے وسیع خزانوں کو اپنی کوکھ میں چھپا رکھا ہے۔

سوڈان وسعت و عرض کے میدان میں براعظم اور عربستان کا سب سے بڑا اور دنیا کا دسواں بڑا ملک ہے۔سوڈان کی ابادی 2007 کی مردم شماری کے مطابق چار کروڑ کے لگ بھگ ہے۔یہاں کی ستر فیصد ابادی مسلمان جبکہ تیس فیصد روحوں کی پوجا پاٹ کرنے والے عیسائی ہیں۔

انہی غیر مسلم عیسائیوں نے امریکی و اسرائیلی شہ پر ریاست کے سکون کو تباہ و برباد کررکھا ہے۔یہ کمیونٹی جنوبی سوڈان کی آزادی کے لئے عسکریت پسندی کا پرچم تھامے ہوئے ہے۔باغیوں کو یہود و ہنود کی عسکری شیطانی و مالی سپورٹ دستیاب ہے۔

سوڈان میں مختلف ادوار میں طرفین کے درمیان خانہ جنگی کا میدان سجتا رہا۔یوں لاکھوں لوگ اور ہزاروں بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ایک سروے کے مطاق بیس سالوں میں 40 ہزار سوڈانی موت کی سرخ چادر میں لپیٹے گئے جبکہ 20 لاکھ دربدر ہوگئے۔

اس وقت دارفر کا تنازہ شدت اختیار کرچکا ہے۔ باغی گروپوں کا موقف ہے کہ حکومت و صدر عمرحسن البشیر سیاہ فام افریقیوں کے مقابلے میں عرب نژاد باشندوں کو ہر قسم کی سہولیات مہیا کرتے ہیں جبکہ انکے حقوق غصب ہوچکے۔امریکہ نے دارفر کے مسئلہ پر صدر پر غیر مسلم عیسائیوں کی نسلی کشی کا الزام عائد کیا ہے۔

اس پر مستزاد یہ کہ یواین او نے حسن ظن سے کام لیتے ہوئے نسلی کشی کے مقدمے کو بنیاد بنا کر صدر کے خلاف وارنٹ جاری کئے ہیں۔ عالمی عدالت انصاف کے وکیل لیوس مورینو نے مغرب کے اشارے پر انصاف کش عدلیہ میں صدر کے خلاف چارج شیٹ پیش کی تھی کہ دارفر میں افریقی النسل آبادی کی نسل کشی، گینگ ریپ اور مخالفین کو علاقہ بدر کرنے کے جنگی جرائم میں عمر البشیر پر مقدمہ چلایا جائے۔

صدر نے عدلیہ کی دریدہ دہنی پر کہا تھا کہ وہ عدالت کے دائرہ کار میں نہیں آتے کیونکہ وہ ممبر نہیں ہیں۔ عرب خطے کے تمام حکمرانوں نے عمر البشیر کی پشت بانی کرکے اسے ولولہ تازہ عطا کیا۔ سوڈان نے متعدد مرتبہ افریقی ممالک میں جاری فسادوں رنجشوں اور نفرتوں کے خاتمے کے لئے پل کا کردار ادا کیا۔

انہوں نے طرفین کے درمیان بات چیت کی محفلیں منعقد کیں مگر مغربی میڈیا انکے مثبت کاموں کو بھی توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے۔

مغربی ایجنسیاں و صہیونی لابیاں دارفر میں جاری تصادم کی پشت پناہی کرتی ہے۔ باغیوں اور جنگجو گروپوں کو اسلحہ و ڈالر دیے جاتے ہیں تاکہ ریاست کا امن ہمیشہ خون بہاتا رہے۔ مغربی ممالک اور اسرائیل اپنے خونخوار عالمی دیو کی سرکردگی میں یہاں افراتفری دہشت گردی اور بغاوتوں کو پروان چڑھا کر عراق کی طرح معدنی وسائل کو اپنی دسترس میں لانا چاہتا ہے۔

تیل کی ڈکیٹی کے لئے بڑے ملکوں میں جاری گریٹ گیم کا ایک میدان سوڈان بھی ہے۔ معدنی دولت کے ساتھ ساتھ یہ خطہ جنگی نقطہ نظر سے اہمیت کا حامل ہے۔ سوڈان کو اپنا مطیع بنانے کے لئے امریکہ ایتھوپیا کو استعمال کرتا ہے۔

ایک دہائی 1990 تا2001تک امریکی اایجنسیاں ایتھوپیا کے چار ہزار سے زائد فوجیوں کو خصوصی کمانڈو تربیت دے چکے ہیں۔ ایتھوپیا کو دفاع اور اسلحہ خریدنے کی مد میں اربوں ڈالر عنائت کئے جاچکے ہیں۔ امریکہ سوڈان کے مسئلہ پر دوہری چال چل رہا ہے۔ چین و روس نے سوڈان میں کھربوں کی سرمایہ کاری کی ہے اور یہی نقطہ اوبامہ کو قبول نہیں۔

امریکہ نے چین اور روس کے عزائم کے توڑ کے لئے اپنی پالیسی میں جوہری تبدیلی کی ہے۔علاقائی امور پر اتھارٹی سمجھے جانیوالے افریقی دانشوروں کا کہنا ہے کہ امریکی پالیسی میں نرمی کا مطلب چین اور روس کو سوڈان سے نکالنے کی چال ہے۔

کہا جاتا ہے کہ سوڈان میں روس کی زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کے پیچھے چینی قیادت کی یہ سوچ کارفرماہے کہ خطے میں امریکہ کو زیر کرنے کے لئے روس کی موجودگی لازمی ہے کیونکہ عراق و کابل میں بے پناہ جنگی و مالی اور اخلاقی و جانی نقصانات کے بعد امریکہ میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ روس کے ساتھ پیچا لڑا سکے۔

سوڈان کی صورتحال کے تناظر میں روئے ارض کے تمام مسلمانوں اور حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ صدر حسن عمر البشیر کا ساتھ دیں اور تمام مسلم ریاستیں او ائی سی اور عرب لیگ یواین او میں عالمی عدالت انصاف کے غیر منصفانہ و مشرقانہ فیصلے کے خلاف آواز حق بلند کریں۔


بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل

Monday, November 2, 2009

ڈرو ن طیارہ کیو ں اور کیسے ایجاد ہوا - - - - - سچ تو یہ ہے۔




تحریر: ڈاکٹر عصمت حیات علوی




بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے دوران کروڑوں انسان مرے تھے اور ان میں زیادہ بڑی تعداد سفید فام لوگوں کی ہی تھی۔جب دوسری جنگ عظیم کا اختتام ہوا تھا تب یورپ اور امریکہ کے سفید فام لیڈر سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اگر تیسری جنگ عظیم بھی یورپ میں ہی لڑی گئی تو یورپ کی اکانومی مکمل طور پر تباہ ہو جائے گی اور سفید فام نسل کے معدوم ہوجانے کے امکانات یقینا بڑھ جائیں گے ۔

ساری صورت حال پر غورخوض کرنے کے بعد یورپین اور امریکن لیڈرز نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جنگیں تو آئندہ بھی لڑی ہی جائیں گی مگر ایشیا اور افریقہ میں اور یہ کہ ان جنگوں میں سفید فام اس طرح سے حصہ لیں گے کہ ان کا جانی نقصان کم سے کم ہو۔ ایک آپشن یہ بھی رکھا گیا تھا کہ سفید فام آئندہ ہونی والی کسی بھی جنگ میں حصہ نہ لیں، مگر اس کایہ منفی پہلو سامنے آیا تھا کہ اگر آئندہ ہونے والی جنگوں میں سفید فام اقوام نے حصہ نہ لیا تو اس دنیا کی قیادت ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔

اس لیے فیصلہ یہی کیا گیا تھا کہ سفید فام اقوام اپنی عالمی برتری اور قیادت کو برقرار رکھنے کی خاطر نہ صرف ہر جنگ میں حصہ لیں گی بلکہ ایشیا اور افریقہ میں جنگی جنون کو ہوا بھی دیں گی تاکہ ان کی اسلحہ کی فیکٹریاں رواں دواں رہیں اور ساتھ ہی ساتھ وہ ایسی نئی ایجادات بھی کر یں گی۔ جن کی بدولت سفید فام اقوام کا جانی نقصان کم سے کم ہو۔ جنگ عظیم دوم کے فوراً بعد فرانس ویت نام کی جنگ میں الجھ گیا تھا، جب ویت کانگ نے فرانس کی بری طرح سے پٹائی کی تھی تب فر انس تو بھاگ نکلا تھا۔

مگر اس کے نکلنے سے قبل ہی امریکہ اس زعم میں ویت نام کی جنگ میں کود پڑا تھا کہ میں اپنی لیٹسٹ وار ٹیکنالوجی کی مدد سے کیمونسٹ ویتنامیوں کو چند ماہ میں ہی عبرتناک شکست دے دوں گا مگر امریکہ کے ساتھ ستم یہ ہوا تھا کہ جس جنگ میں اس نے اس امید پر اپنا پاوں پھنسایا تھا کہ چند ماہ کے بعد وہ فتح یاب ہو جائے گا تو پھروہ ویت نام کا آقا بن کر وہیں پر پکے ڈیرے بھی ڈال دے گا ۔ مگر خلاف توقع اس کو ویت نام کی جنگ سے عشروں کے بعد چھٹکارا حاصل ہوا تھا اور وہ بھی عبرت ناک شکست کی ذلت سہہ کراور ہزاروں امریکیوں کی جانیں گنوا دینے کے بعد ۔

جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے دور سے لے کر ویتنام کے میدانِ جنگ سے بھاگ نکلنے تک کے عرصے کے دوران امریکہ نے سپیس ٹیکنالوجی میں اچھی خاصی پیش رفت کر لی تھی۔ آج سے پورے چالیس سال قبل جب پہلے انسان نے چاند کی سر زمین پر اپنا پہلا قدم رکھا تھا تو اس کے پیچھے ایسی مہارت یا الیکٹرانک ٹیکنالوجی تھی جو کہ ریموٹ کنٹرولڈ تھی۔ یعنی کہ اس امریکن سپیس کرافٹ میں زیادہ تر فنکشن ایسے تھے۔ جو کہ زمین پر واقع سٹیشن میں بیٹھے ہوئے انجینئرز اور ٹیکنیشن ماڈرن الیٹرانکس آلات کی مدد سے کنٹرول کر رہے تھے۔

کچھ ایسے فنکشنز بھی تھے جو کہ امریکن سپیس کرافٹ اپالو میں بیٹھے ہوئے خلاباز یعنی اسٹراناٹس کنٹرول کر سکتے تھے۔یوں جب امریکن خلابازوں نے خلائی کار چاند کی سطح پر اتاری تھی تو وہ ان کے اختیار میں تھی اور اسی طرح سے جب پہلے انسان نیل آرمسٹرانگ نے چاند کی سطح پر پہلا انسانی قدم رکھا تھا تب بھی اس کے سپیس سوٹ میں لگے ہوئے بہت سارے فنکشنز اپالو خلائی جہاز کے اندر بیٹھا ہوا دوسرا خلا باز کنٹرول کر رہا تھا ۔ امریکہ تو یہ چاہتا تھا کہ یہ خلائی مشن امریکہ کی سالگرہ یعنی کہ چار جولائی کو چاند کی سطح پر انجام پائے مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اس لیے چند دن کی دیری ہو گئی تھی۔

مگر پھر بھی اس خلائی مشن کی کامیابی پوری دنیا کے لیے حیران کن تھی اور امریکہ کے لیے خلائی دوڑ میں فتح کاایک سمبل تھی اور خلائی ریس کے دوسرے شریک روس پر واضح برتری تھی۔اس شاندار کامیابی پر امریکن پھولے نہ سماتے تھے۔ مگر نیل آرمسٹرانگ نہ تو مغرور ہوا تھا اور نہ ہی اپنے آپے سے باہر ہوا تھا۔ اگر وہ شخص چاہتا تو اپنی شہرت کے بل پر آٹو گراف دے دے کر اور جگہ جگہ لیکچر دے کر ایک ایک دن میں لاکھوں امریکن ڈالرز اکٹھے کر سکتا تھا مگر اس نے کسر نفسی اور عاجزی سے کام لیا تھا اور یہ کہتے ہوئے گوشہء گمنامی اختیار کر لی کہ میں اکیلا اس مشن کی کامیابی کا سہر ا اپنے سر نہیں باندھوں گا۔

کیونکہ اس واحد مشن کی کامیابی کے پیچھے لاکھوں امریکن سٹیزنز کی برسوں کی محنت اورہزاروں سائنس دانوں کی عرق ریز ی اور طویل رت جگوں کا پھل ہے۔ حالانکہ نیل آرمسٹرانگ کے بعد اس سے بہت ہی چھوٹے اور کم اہم سپیس مشن پر جانے والے خلابازوں نے کروڑوں ڈالرز کمائے ہیں۔

آج امریکہ اگر ایک سپر پاور ہے تو نیل آرمسٹرانگ جیسے مخلص اور محنتی امریکنوں کی بدولت ہے ۔جو کہ اپنی قوم کو بہت کچھ دے کر بھی آپے سے باہر نہیں ہوتے ۔ہمارے پاکستانی لیڈروں کی طرح سے نہیں ہیںکہ ہر ہر کارنامے کی کامیابی کا سہرا اپنے سروں پر باندھتے پھریں ۔آپ کسی بھی روز کے کسی بھی اخبار کو اٹھا کر دیکھ لیں ۔کسی نہ کسی پاکستانی لیڈر کا ایسا گمراہ کن بیان چھپا ہوتا ہے کہ۔ پوری قوم نے بھوک پیاس اور غربت کو کاٹ کر جس گول یا مقصد کو اجتماعی طور پر حاصل کیا ہوتا ہے اس مشترکہ کامیابی کا سارا کریڈٹ وہ ایک فرد واحد یا وہ ایک سیاسی جماعت لینا چاہتی ہے ۔

اسے کہتے ہیں امانت میں خیانت ۔ مگر سابقہ امریکن صدر بش اس امانت میں خیانت کا مرتکب نہیں ہوا ۔حالانکہ اس واحد شخص نے اپنے آٹھ سال کے دور صدارت کے دور ان امریکہ کودنیا کی دوسری اقوام سے دوسوسال آگے پہنچا دیا ہے۔آپ خود ہی دیکھ لیں کہ اوبامہ کے حلف کے بعد وہ زیادہ نمایاں ہونے کی کوشش نہیں کر رہا ہے۔ ہم پاکستانی عوام اور کالم نگار بش کو ناکام صدر گردانتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اگر بش ناکام ہوتا تو اوبامہ اس پر تنقید کرتا اور اس کی ساری کی ساری پالیسیوں سے کنارہ کشی کرتا مگر اوبامہ تو بش کی ایک ایک پالیسی پر قدم بہ قدم یوں آگے بڑھ رہا ہے جیسے کہ بش ڈیموکریٹ تھا یا پھر اوبامہ خود ریپبلیکن ہے۔

افغانی اورپاکستانی علاقوں پربغیر پائلٹ کے ریموٹ کنٹرولڈ ڈرون طیاروں کے حملوں کا فیصلہ بش انتظامیہ نے ہی کیا تھا اور یہ فیصلہ نائین الیون سے قبل ہی ہو گیا تھا۔سن دوہزار صفر صفر میں ہی بش انتظامیہ نے ساٹھ کے قریب پریڈیٹر طیارے حاصل کر لیے تھے۔یاد رہے کہ کلنٹن دور میں سکڈ مزائیل داغے جانے سے کئی سال قبل ہی امریکہ نے ازبکستان سے ایک معاہدہ کیا تھا ۔جس کا واحد مقصد ا زبکستان سے ڈرون طیاروں کی پروازیں تھا ۔مگر بعد کے تجربات نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ ازبکستان کے سرد موسم میں ڈرون طیارے کامیاب پرواز نہیں کر سکتے کیونکہ سرد موسم کے باعث ڈرون کا سسٹم کامیابی سے کام نہیں کر سکتا تھا۔ یوں کئی ڈرون موسم کے ستم کی نذر ہو گئے تھے۔

متبادل کے طور پر پاکستانی حکومت کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے ملک میں ڈرون طیاروں کوپرواز کرنے کے لیے اڈے فراہم کرے۔ ابتدا میں چین کی حکومت نے اس کی مخالفت کی تھی مگر جب چین کو گوادر کا ٹھیکہ دے دیا گیا تھا اور چند دوسرے پراجیکٹ بھی ۔ تو چین نے ان اڈوں کے قیام کی مخالفت ترک کر دی تھی ۔ بہرحال امریکہ نائین الیون سے قبل ہی بلوچستان میں تین مقامات پر اپنے اڈے قائم کر چکا تھا جہاں سے اگست دوہزار ایک 2001ء میں پہلی کامیاب پرواز بھی کی گئی تھی جن چند محب وطن بلوچ سرداروں نے ان اڈوں کی مخالفت بھی تھی مگر ان کو کسی نہ کسی بہانے سے ٹھکانے لگا دیا گیا تھا۔

ہماری حکومتیں تو اتنی جھوٹی ہیں کہ وہ تو آج بھی یہی کہیں گی کہ ڈرون طیارے سمندر میں کھڑے ہوئے امریکن بحری بیڑے سے پرواز کرتے ہیں۔میرے علم کی حد تک ہمارے صوبے بلوچستان میں اب بھی تین مقامات ایسے ہیں جہاں سے ڈرون طیارے پرواز کرتے ہیں۔

ڈرون طیارے پاکستان اور افغانستان پر استعمال ہونے سے قبل انیس سو پچانوے کے لگ بھگ بوسنیا ،سربیا،عراق اور پھر یمن پر استعمال کئے گئے تھے۔جس وقت نائین الیون کا وقوعہ ہو رہا تھا اس وقت ڈرون طیاروں میں نصب کیمروں کی مدد سے امریکن اسامہ بن لادن اور اس کے قریبی ساتھیوں پر اپنی نظر رکھے ہوئے تھے۔ کیونکہ وہ اسامہ پر جھوٹا الزام عائد کرنے سے پہلے یہ پورا یقین کرلینا چاہتے تھے کہ وہ حملے کے وقت پر زندہ اور صحیح سلامت ہو۔

یاد رہے کہ اس وقت افغانستان میں سورج غروب ہو نے کا وقت قریب تھا اور اسامہ اپنے ساتھیوں سمیت صلوٰة مغرب کی تیاری کر رہا تھا۔ سی آئی اے کے ایک سینئیر آفیسر کے مطابق انہوں نے دوہزار چار میں ڈرون کے ایک حملے میں اسامہ بن لادن کو اس کے متعدد ساتھیوں سمیت مار ڈالا ہے ۔جبکہ اسامہ کے ساتھی یہ کہتے ہیں کہ اسامہ زندہ ہے۔

ڈرون صرف ایک طیارہ نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک مکمل اور مربوط نظام ہوتا ہے ۔جس میں ایک زمینی سٹیشن ہوتا ہے۔ جہاں سے سٹیلائٹ کے ذریعے سے زمینی عملے کے پچپن یا ساٹھ افراد اسے کنٹرول کرتے ہیں۔پاکستان ،افغانستان ،ایران اور عراق پر جو ڈرون پرواز کرتے ہیں ان کا کنٹرولنگ سٹیشن امریکہ کے ایک مشہور صحرا نوادا میں واقع ہے اور ان پروازوں کو سی آئی اے دو مزید ایجنسیوں کے ساتھ مل کر کنٹرول کرتی ہے۔

بالعموم چار یا زیادہ ڈرون طیارے بیک وقت پرواز اکھٹی کرتے ہیں۔ مگر ایک دوسرے سے خاصے فاصلے پر ہونے کے باعث زمین پر موجود لوگوں کوصرف ایک ہی نظر آتا ہے۔

آج کل پریڈیٹر (Predator)کی بجائے جو طیارے زیادہ مستعمل اور کامیاب ہیں ان کو ریپر (Reaper) کہتے ہیں اور ان کو پریڈیٹر پر یہ برتری حاصل ہے کہ یہ سرد موسم میں بھی کام کرسکتے ہیں اور ان پر کیمروں کے ساتھ ساتھ ہتھیار بھی نصب ہوسکتے ہیں۔ ان کا سائنسی یا ٹیکنیکل نام میڈیم ایلٹیٹیوڈ لانگ اینڈ یورینس یا میل (MALE) ہے ۔

Medium Altitude Long Endurance) ۔ بغیر پائلٹ کے طیاروں کے تجربات سی آئی اے نے اسی 80ء کی دہائی میں شروع کردیے تھے اور ان تجربات کی بنیاد وہی سپیس الیکٹرانکس ٹیکنالوجی تھی جس ٹیکنالوجی کو امریکہ نے اپنے تما م کے تمام سپیس مشن ز میں استعمال کیا تھااور جس ریموٹ ٹیکنالوجی کی مدد سے پہلے انسان نے چاند پر اپنا پہلا قدم رکھا تھا۔

مگر سی آئی اے کو اس سلسلے میں زیادہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی تھی۔ اسی دوران سی آئی اے کو یہ علم ہوا تھا کہ اسرائیل کی فضائیہ کے چیف ڈیزائنر ابراہام کرم کے ڈیزائن کردہ بغیر پائلٹ کے جہاز زیادہ کامیاب ہیں تو انہوں نے اسرائیلی حکومت سے سودا بازی شروع کر دی تھی پھر اسرائیل کی حکومت نے اواکس طیاروں کی ٹیکنالوجی کے عوض ابراہام کرم کو امریکہ جانے کی اجازت دے دی تھی ۔

موجودہ ریپر(ڈرون) اسی کے ڈیزائن کردہ ہیں اور ان کو ایک امریکن فرم جنرل اٹامکس ایروناٹیکل سسٹم انکارپوریٹڈ بناتی ہے جو کہ ایک یہودی فرم ہی ہے۔اس کا چارسلنڈر انجن روٹیکس نو سوچودہ ایف ہوتا ہے۔ جس کی قوت پندرہ ہارس پاور ہوتی ہے۔ اس کی لمبائی ستائیس فٹ ہوتی ہے اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ پروں کا پھیلاو جسے ہم پاکستانی چوڑائی کہتے ہیں لمبا ئی سے زیادہ یعنی کہ تقریباً دوگنی ہوتی ہے۔

اگر یہ زمین پر کھڑا ہوتو ایک جوان مرد کے قد کے برابر آتا ہے اور اس وقت اس کا وزن ایک ہزار ایک سو گیارہ پونڈ ہوتا ہے مگر اڑان کے دوران اس کا وزن دوہزار دوسو باون پونڈ ہوتا ہے ۔ یہ عموماً پچیس ہزار فیٹ سے لے کر تیس ہزار فیٹ کی بلندی پر اسی اور ایک سو تیس میل فی گھنٹہ کی رفتار پر پرواز کر سکتا ہے۔ اس پر سے داغا جانے والا میزائل چالیس اور چوالیس میل دور موجود ہدف کو ہٹ کر سکتا ہے۔ اس میں زیادہ سے زیادہ چھ سو چھیاسٹھ پونڈ فیول ڈالا جا سکتا ہے جس کی مدد سے یہ چار سو چوالیس میل تک طے کر سکتا ہے۔

اس وقت تک امریکن فضائیہ کے پاس دوسو کے قریب ڈرون موجود ہیں۔ جلد ہی ان کی تعداد دوگنی ہو جائے گی۔ تب امریکہ اپنی کاروائیوں کا رقبہ بھی بڑ ھا دے گا اور حملوں کا تواتر بھی۔



بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل

Thursday, October 29, 2009

شیطان کے پجاری - - - - - کچھ یادیں کچھ باتیں




تحریر: ڈاکٹر عصمت علوی


جب میں امریکہ میں تھا تب میری رہائش ایک سرکاری ہسپتال میں تھی۔ میری ڈیوٹی خواتین کے یورالوجی وارڈ میں تھی جب کہ میرا ایک کلاس فیلو مردوں کے یورالوجی وارڈ میں متعین تھا۔

ایسا ہوتا تو نہیں ہے مگر میرا وہ کلاس فیلو ایک مریض سے بطور خاص میری ملاقات کروانے کے لئے مجھے اپنے وارڈ میں لے کر گیا تھا۔ وہ مریض انواع واقسام کی جنسی بیماریوں میں مبتلا تھا یہاں تک کہ اس کے اعضاء تناسل گل بھی چکے تھے اور اپنی شکل و صورت بھی بدل چکے تھے بلکہ اسے کینسر بھی ہو چکا تھا۔

مگر یہ کوئی خاص بات نہ تھی کیونکہ آئے دن ہما را واسطہ ایسے مریضوں سے پڑتا ہی رہتا ہے۔ بلکہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جو معاشرے جنسی آزادی کے دعوے دار ہیں وہاں پر سوزاک آتشک چلیمیڈیا (کلیمیڈیا ) اور ایڈز وغیرہ کے مریضوں کی کوئی بھی کمی نہیں ہے ۔

خاص بات تو یہ تھی کہ وہ مریض پچھلے کئی برس سے اپنی بیماری کے باعث فرائض زوجیت ادا کرنے کے قابل نہ تھا مگر پھر بھی اس کی ادھیڑ عمر بیوی کی گود میں اس کی اپنی کوکھ سے جنم لینے والا ایک یا ڈیڑھ سال کا بچہ ہمک رہاتھا۔

امریکہ جیسے ملک میں یہ بات بھی کوئی خاص بات نہ تھی کیونکہ وہاں پر کچھ جوڑے مصنوعی تخم ریزی(آرٹیفیشل انسیمی نیشن) کے ذریعے سے اپنی بیویوں کو حاملہ کروا لیتے ہیں یعنی کہ جن مردوں کے سیمن میں سپرم نہیں ہوتے ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ وہ خود تو باپ نہیں بن سکتے مگر اس کا بھی ایک حل مغرب کے آزاد منش معاشرے کے پاس ہے وہ یوں کہ ایسے مرد کسی غیر اور اجنبی مرد کے صحت مند سپرم (جنسی کیڑے) کے ذریعے سے اپنی بیوی کو حاملہ کروالیتے ہیں۔

آج سے بیس برس قبل یہ عمل اتنا زیادہ عام نہ تھا جتنا اب عام ہو چکا ہے کیونکہ مختلف طرح کے کیمیکل، کھادیں، پینٹس، ادویات اور طرح طرح کی ریڈیئشن کی زد میں آنے کے سبب ترقی یافتہ ممالک کے تقریباً بیس فیصد مرد بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں اور جیسے جیسے حضرت انسان مزید مادی ترقی کریں گے ویسے ویسے اس تعداد میں مزید اضافے کا قوی امکان ہے۔

کچھ ڈاکٹرز جو کہ مستقبل پر نظر رکھتے ہیں وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جب انسان دوسرے سیاروں (پلینیٹس) کو مسخر کر لے گا تو اس وقت وہ مختلف سیاروں کے درمیان ایسے ہی سپیس کرافٹ کا سفر کیا کرے گا جیسے کہ آج کل بہت سارے لوگ ہوائی جہاز کا سفر کیا کرتے ہیں تو اس دور کا انسان بہت ساری مضر صحت شعاعوں کی زد میں رہا کرے گا۔

تب اس دور کے پچاس فیصد مردوں کے سیمن میں سے صحت مند سپرم ڈھونڈے سے بھی نہیں ملیں گے۔

میل یورالوجی وارڈ کے مریض کی بیوی کا کیس ایسے بھی نہ تھا۔ دراصل وہ اپنے بچے کی ماں ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے بچے کی دادی بھی تھی۔

دراصل اس خاندان کا تعلق ایک گمراہ فرقہ بلکہ یوں کہیے کہ ایک گمراہ مذہب سے تھا جسے شیطان کے پجاری کہتے ہیں اس مذہب والے حصول لذت کے لئے ہر گناہ کو جائز سمجھتے ہیں۔ یعنی کہ جس عمل سے ان کو لذت حاصل ہوتی ہو اس عمل کو اس مذہب کے پیروکار برا نہیں سمجھتے ۔

دراصل ان کا پہلا سبق یا اصول یہی ہے :: شیطان کے کہے پر چلو ::

اس مریض کی بیوی بھی اپنے شوہر کی ہم مذہب اور ہم خیال ہی تھی ۔جب اس کا شوہر بیمار ہو گیا تھا تب اس نے لذت کے حصول کے لئے اپنے نوخیز بیٹے کے ساتھ ہی جنسی تعلقات قائم کر لئے تھے یوں وہ اپنے بیٹے کے بیٹے کی ماں بن گئی تھی۔

اس کے شوہر کو اپنی بیوی کی اس کرتوت پر نہ تو کوئی غصہ تھا اور نہ ہی کوئی رنج تھا بلکہ اس کے برعکس اسے اس بات پر فخر تھا کہ اس کی بیوی نے اس کی دوسری نسل کو خود ہی جنم دے کر شیطان کو خوش کر دیا ہے۔

سبھی لوگ جانتے ہیں کہ کینسر اپنی تیسری سٹیج میں بہت ہی تکلیف دہ ہو جاتا ہے یوں درد اور کرب میں مبتلا مریض کی حالت ہم ڈاکٹروں سے بھی نہیں دیکھی جاتی ۔کچھ برے لوگ اس مرحلے پر توبہ بھی کرلیتے ہیں مگر وہ شخص تو اپنے مذہب کا اتنا پختہ تھا کہ اس نے مرتے دم تک شیطان کی عبادت سے توبہ نہ کی تھی۔

یاد رہے کہ امریکہ میں بہت ساری مشہور ہستیوں کا اس مذہب سے تعلق ہے اور اس مذہب کے پیروکار ہر اخلاقی برائی کا ارتکاب کرتے ہیں چوری نشہ اور زنا تو ان لوگوں کے لئے معمولی کام ہیں وہ تو قتل کرنے اور اپنی محرمات سے زنا کرنے میں بھی دریغ نہیں کرتے۔

مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ اس مریض نے میرے دوست ڈاکٹر کو ترغیب دیتے ہوئے کہا تھا کہ اپنے خاندان کی محرم عورت (ماں بہن بیٹی) سے صحبت کرنے میں جو لذت ملتی ہے ویسی لذت کسی غیر عورت سے صحبت کرنے میں نہیں ملتی۔

میرا وہ ڈاکٹر دوست ایک پختہ عقیدے کا کیتھولک ہے ۔ اس نے بہت کوشش کی ہے کہ مرنے والے کا خاندان تائب ہو جائے اور دوبارہ سے عیسائیت قبول کرلے مگر ابھی تک اس کی کوشش بار آور نہیں ہو سکی ہے۔

بلکہ پچھلے دنوں اس نے مجھے یہ اطلاع دی تھی کہ پرنس ایرک (بلیک واٹر کا ڈائریکٹر) نے آج سے اکیس برس قبل اپنی دادی کی کوکھ سے جنم لینے والے حرامی لڑکے کو اپنی کمپنی بلیک واٹر یعنی کہ زی کے ہیڈ کوارٹر میں ایک اہم پوسٹ پر رکھ لیا ہے۔

یاد رہے کہ ایرک ڈی پرنس کی تاریخ پیدائش چھ جون انیس سو انہتر بتائی جاتی ہے جس میں تین عدد چھ موجود ہیں بہت سارے پختہ عقیدے کے عیسائی تین چھ کوشیطانی عدد قرار دیتے ہیں۔

بلکہ ایک کیتھولک پاسٹر نے مجھے یہ بھی بتایا ہے کہ حقیقت میں ایرک پرنس چھ جون انیس سو چھیاسٹھ (06.06.66) کوہی پیدا ہوا ہے مگر اس کوصحیح العقیدہ کٹر کیتھولک (آرتھوڈوکس کرسچین) عیسائیوں کے ہاتھوں سے قتل کئے جانے سے بچانے کے لئے اس کے والدین نے تین سال تک ایرک پرنس کی پیدائش کو دنیا والوں کی نظروں سے چھپائے رکھا تھا ۔

اب تو سبھی پاکستانی یہ حقیقت جانتے ہیں کہ بلیک واٹر صرف انہی لوگوں کو ملازمت دیتی ہے جو کہ فطرتاً جرائم پیشہ ہوں۔ قتل و غارت اور زنا ان کا معمول اور مشغلہ ہو بلکہ بلیک واٹر تو چن چن کر ایسے لوگوں کو ملازمت کی آفر کرتی ہے جو کہ متعدد اخلاقی جرائم کا ارتکاب کرچکے ہوں اور جن کا پولیس ریکارڈ قتل اور زنا سے بھرپور ہو ۔

بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بلیک واٹر کے اکثر ملازمین نے اپنی محرمات سے زنا کا ارتکاب ضرور کیا ہوتا ہے۔ یہ بات تو اب روز روشن کی طرح سے عیاں ہو چکی ہے کہ بلیک واٹر کے ملازمین عراق اور افغانستان میں نو عمر بچوں اور بچیوں سے زنا بالجبر کا ارتکاب کرتے ہی رہتے ہیں کیونکہ ایسی خبریں متعدد بار متعدد اخبارات کی زینت بھی بن چکی ہیں ۔

میری ایک اطلاع کے مطابق صرف افغانستان میں پانچ ہزار سے زائد بچے اور بچیاں لاپتہ ہو چکی ہیں جن کی عمریں تین تین برس سے لے کر آٹھ یا نو برس تک تھیں ۔ ان سے بلیک واٹر کے کئی کئی غنڈوں نے مسلسل کئی کئی گھنٹے تک زنا بالجبر کیا گیا تھا پھرمزید پیسہ کمانے کے لئے ان کے ریپ کی ویڈیوز بھی ان غنڈوں نے خود ہی تیار کر لی تھیں اور اس کے بعد ان معصوموں کو قتل کر دیا گیا تھا۔

مجھے حیرت تو اس بات پر ہے کہ جو واقعات وقوع پذیر ہی نہیں ہوئے ہوتے ان کی ویڈیوز بھی بن جاتی ہیں اور پھر مسلسل کئی کئی دن تک کئی کئی پاکستانی اور انڈین چینلز پر چلتی بھی رہتی ہیں جیسے سوات میں طالبان نے ایک لڑکی کو کوڑے لگائے تھے یا کسی خفیہ مقام پر ایک انویسٹی گیشن سنٹر میں داڑھی والے پشتون کی پاکستانی فوجیوں نے پٹائی اور دھلائی کی تھی۔

اس مقام پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان جھوٹی ویڈیوز چلانے والے چینلز اور ان خودساختہ واقعات پر کئی کئی کالمز لکھنے والے آزاد خیال صحافیوں کو بلیک واٹر کے غنڈوں کا قتل و غارت اور دیگر جرائم کیوں کر نظر نہیں آتے؟ جن جرائم اور قتل و غارت کا ارتکاب بلیک واٹر کے کارندے آئے دن ہمارے وطن پاکستان کے شہروں میں مسلسل اور کھلے عام کئے جا رہے ہیں ۔

میں اکثر یہ سوچتا ہی رہتا ہوں اور خود سے یہ سوال بھی کرتا رہتا ہوں ۔کیا ڈک چینی(سابقہ نائب امریکن صدر) اور ایرک پرنس کی طرح سے ہمارے ملک میں بھی کچھ طبقے شیطان کے پجاری بن چکے ہیں؟


بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل

Wednesday, October 28, 2009

حضرت بایزید بسطامیؒ اور پانچ سو راہب



تحریر: ڈاکٹر عبدالقدیرخان

(تصویر میں حضرت بایزید بسطامی ؒ کا مزار شریف ہے)

اللہ تعا لیٰ نے ہمیں نہ صرف مختلف شکل و صورت میں پیدا کیا ہے بلکہ ہمارا کردار بھی ایک دوسرے سے مختلف بنایا ہے۔ اسی طرح ہمارا ذوق ادب بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ میں اپنے بارے میں یہ عرض کروں گا کہ مجھے طالب علمی کے زمانہ سے ہی اسلامی تاریخ ، اردو ادب اور مشہور لوگوں کی سوانح حیات پڑھنے کا بہت شوق تھا۔

بہت سی کتابیں میری پسندیدہ ہیں اور آج بھی ان کی ورق گردانی کرکے لطف اندوز ہوتا ہوں۔ تمام پرانے شعراء کے کلام کا مطالعہ محبوب مشغلہ ہے۔ پسندیدہ کتابوں میں نسیم حجازی کی کتابیں، الفاروق ، روڈ ٹو مکّہ، غبار خاطر، اردو کی آخری کتاب وغیرہ وغیرہ بہت پسند ہیں۔ قرآن، سیرت النبی کے علاوہ ابنِ بطوطہ کا سفر نامہ اور تذکرةُ الاُولیاء مجھے بہت پسند ہیں۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارے لئے تذکرةُالا ُولیاء بہت مفید اور معلوماتی کتاب ہے۔

اس میں چھیانوے اولیاء کرام کے زندگی کے حالات اور ان کے مکاشفات کے بارے میں نہایت دلچسپ واقعات بیان کئے گئے ہیں۔

تذکرةُالا ُولیآء حضرت فریدالدین عطارؒ کی تصنیف کردہ ہے جو خود بھی اولیاء اللہ کا مرتبہ رکھتے تھے۔ اس کو شائع ہوئے تقریباً آٹھ سو سال ہوگئے ہیں۔ حضرت عطارؒ پانچ سو تیرہ ہجری کو نیشاپور کے مضافات میں پیدا ہوئے تھے اور وہیں چھ سو ستائیس کو ایک تاتاری سپاہی کے ہاتھوں جام شہادت نوش فرمایا۔

اس کتاب میں حضرت بایزید بسطامی ؒ کا تذکرہ بھی ہے۔ یہ اپنے وقت کے بہت بڑے ولی اللہ مانے جاتے تھے۔ آپ کے بارے میں حضرت جُنید بغدادی ؒ نے فرمایا تھا کہ حضرت بایزید ؒ کو اولیاء میں وہی رُتبہ حاصل ہے جو حضرت جبرائیل علیہ السلام کو ملائکہ میں۔

تذکرةُالاولیاء میں حضرت بایزید ؒ کے بارے میں بہت سی معلومات ہیں مگر ایک بہت اہم واقعہ بیان نہیں کیا گیا ہے۔ میں نے مناسب سمجھا کہ وہ آپ کی خدمت میں پیش کروں۔ یہ واقعہ مولانا الحاج کپتان واحد بخش سیال چشتی صابری نے اپنی تصنیف رُوحانیتِ اسلام (الفیصل ناشران و تاجران کتب لاہور) میں تفصیلی طور پر بیان کیا ہے۔ یہ وہی کپتان سیال ہیں جنہوں نے اسلام آباد اےئر پورٹ پر بوئنگ 747جس کے پہیہ نہیں کھلے تھے بحفاظت اُتار دیا تھا اور کسی مسافر کو خراش تک نہیں آئی تھی۔ میں ان کی اس کتاب سے حضرت بایزید ؒ اور پانچ سو عیسائی پادریوں کے مسلمان ہونے کا واقعہ حرف بحرف پیش کر رہا ہوں۔

حضرت بایزید بسطامی ؒ کے دستِ حق پرست پرپانچ صد (۰۰۵) عیسائیوں کا مشرف بہ اسلام ہونا

حضرت شیخ بایزید بسطامی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں ایک سفر میں خلوت سے لذّت حاصل کر رہا تھا اور فکر میں مستغرق تھا اور ذکر سے اُنس حاصل کر رہا تھا کہ میرے دل میں ندا سنائی دی، اے بایزید دَرِسمعان کی طرف چل اور عیسائیوں کے ساتھ ان کی عید اورقربانی میں حاضر ہو۔ اس میں ایک شاندار واقعہ ہوگا۔ تو میں نے اعوذباللہ پڑھا اور کہا کہ پھر اس وسوسہ کو دوبارہ نہیں آنے دوں گا۔

جب رات ہوئی تو خواب میں ہاتف کی وہی آواز سنی۔ جب بیدار ہوا تو بدن میں لرزہ تھا۔ پھر سوچنے لگا کہ اس بارے میں فرمانبرداری کروں یا نہ تو پھر میرے باطن سے ندا آئی کہ ڈرو مت کہ تم ہمارے نزدیک اولیاء اخیار میں سے ہو اور ابرار کے دفتر میں لکھے ہوئے ہو لیکن راہبوں کا لباس پہن لو اور ہماری رضا کے لئے زنّار باندھ لو۔ آپ پر کوئی گناہ یا انکار نہیں ہوگا۔

حضرت شیخ ؒ فرماتے ہیں کہ صبح سویرے میں نے عیسائیوں کا لباس پہنا زنار کو باندھا اور دَیر سمعان پہنچ گیا۔ وہ ان کی عید کا دن تھا مختلف علاقوں کے راہب دیر سمعان کے بڑے راہب سے فیض حاصل کرنے اور ارشادات سننے کے لئے حاضر ہو رہے تھے میں بھی راہب کے لباس میں ان کی مجلس میں جا بیٹھا۔ جب بڑا راہب آکر ممبر پر بیٹھا تو سب خاموش ہو گئے۔

بڑے راہب نے جب بولنے کا ارادہ کیا تو اس کا ممبر لرزنے لگا اور کچھ بول نہ سکا گویا اس کا منہ کسی نے لگام سے بند کر رکھا ہے توسب راہب اور علماء کہنے لگے اے مرشد ربّانی کون سی چیز آپ کو گفتگو سے مانع ہے۔ ہم آپ کے ارشادات سے ہدایت پاتے ہیں اورآپ کے علم کی اقتدا کرتے ہیں۔ بڑے راہب نے کہا کہ میرے بولنے میں یہ امر مانع ہے کہ تم میں ایک محمّدی شخص آ بیٹھا ہے۔ وہ تمہارے دین کی آزمائش کے لئے آیا ہے لیکن یہ اس کی زیادتی ہے۔

سب نے کہا ہمیں وہ شخص دکھا دو ہم فوراً اس کو قتل کر ڈالیں گے۔ اُس نے کہا بغیر دلیل اور حجت کے اس کو قتل نہ کرو، میں امتحاناً اس سے علم الادیان کے چند مسائل پوچھتا ہوں اگر اس نے سب کے صحیح جواب دیئے تو ہم اس کو چھوڑ دیں گے، ورنہ قتل کردیں گے کیونکہ امتحان مرد کی عزّت ہوتی ہے یا رسوائی یا ذِلّت۔ سب نے کہاآپ جس طرح چاہیں کریں ہم آپ کے خوشہ چیں ہیں۔ تو وہ بڑا راہب ممبر پر کھڑا ہوکر پکارنے لگا۔ اے محمّدی، تجھے محمّد ﷺ کی قسم کھڑا ہو جا کہ سب لوگ تجھے دیکھ سکیں تو بایزید رحمةاللہ علیہ کھڑے ہو گئے۔

اس وقت آپ کی زبان پر رب تعالیٰ کی تقدیس اور تمجید کے کلمات جاری تھے۔ اس بڑے پادری نے کہا اے محمّدی میں تجھ سے چند مسائل پوچھتا ہوں۔ اگر تو نے پوری وضاحت سے ان سب سوالوں کا جواب باصواب دیا تو ہم تیری اتباع کریں گے ورنہ تجھے قتل کردیں گے۔ تو بایزید رحمةاللہ علیہ نے فرمایا کہ تو معقول یا منقول جو چیز پوچھنا چاہتا ہے پوچھ۔ اللہ تعالیٰ تمہارے اور ہمارے درمیان گواہ ہے۔ تو اس پادری نے کہا۔

وہ ایک بتاؤجس کا دوسرا نہ ہو اور وہ دو بتاؤ جن کا تیسرا نہ ہو اور وہ تین جن کا چوتھا نہ ہو اور وہ چار جن کا پانچواں نہ ہو اور وہ پانچ جن کا چھٹا نہ ہو اور وہ چھ جن کا ساتواں نہ ہو اور وہ سات جن کا آٹھواں نہ ہو اور وہ نو جن کا دسواں نہ ہو اور وہ دس جن کا گیارہواں نہ ہو اور وہ بارہ جن کا تیرہواں نہ ہو۔

اور وہ قوم بتاؤجو جھوٹی ہو اور بہشت میں جائے اور وہ قوم بتاؤ جو سچّی ہو اور دوزخ میں جائے

اور بتاؤ کہ تمہارے جسم سے کون سی جگہ تمہارے نام کی قرارگاہ ہے اور الْذارِیاتِ ذروًا کیا ہے اور اَلْحاَمِلَاتِ وِقْراً کیا ہے اور اَلْجَارِیَاتِ یَسْرًا کیا ہے اور اَلْمُقَسِّمَاتِ اَمْرًا کیا ہے۔

اور وہ کیا ہے جو بے جان ہو اور سانس لے۔ اور ہم تجھ سے وہ چودہ پوچھتے ہیں جنہوں نے رَبُّ العالمین کے ساتھ گفتگو کی اور وہ قبر پوچھتے ہیں جو مقبور کو لے کر چلی ہو اور وہ پانی جو نہ آسمان سے نازل ہوا ہو اور نہ زمین سے نکلا ہو اور وہ چار جو نہ باپ کی پشت اور نہ شکم مادر سے پیدا ہوئے ۔

اور پہلا خون جو زمین پر بہایا گیا۔ اور وہ چیز پوچھتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہو اور پھراس کو خرید لیا ہو اور وہ چیز جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا پھر نا پسند فرمایاہو۔ اور وہ چیز جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہو پھر اس کی عظمت بیان کی ہو اور وہ چیز جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہو پھر خو د پوچھا ہو کہ یہ کیا ہے۔

اور وہ کون سی عورتیں ہیں جو دنیا بھر کی عورتوں سے افضل ہیں اور کون سے دریا دنیا بھر کے دریاؤں سے افضل ہیں اور کون سے پہاڑ دنیا بھر کے پہاڑوں سے افضل ہیں اور کون سے جانور سب جانوروں سے افضل ہیں اور کون سے مہینے افضل ہیں اور کون سی راتیں افضل ہیں اور طَآمَّہ کیا ہے۔

اور وہ درخت بتاؤ جس کی بارہ ٹہنیاں ہیں اور ہر ٹہنی پر تیس پتّے ہیں اور ہر پتّے پر پانچ پھُول ہیں دو پھُول دھوپ میں اور تین پھُول سایہ میں ۔ اور وہ چیز بتاؤجس نے بیت اللہ کا حج اور طواف کیا ہو نہ اُس میں جان ہو اور نہ اُس پر حج فرض ہو۔ اور کتنے نبی اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائے اور اُن میں سے رُسول کتنے ہیں اور غیر رسُول کتنے۔

اور وہ چار چیزیں بتاؤ جن کا مزہ اور رنگ اپنا اپنا ہو اور سب کی جڑ ایک ہواور نقیر کیا ہے اور قطمیر کیا ہے اور فتیل کیاہے اور سبدولبد کیا ہے طَم ّ وَرم ّ کیا ہے۔ اور ہمیں یہ بتاؤ کہ کتّا بھونکتے وقت کیا کہتا ہے اور گدھا ہینگتے وقت کیا کہتا ہے اور بیل کیا کہتا ہے اور گھوڑا کیا کہتا ہے اور اونٹ کیا کہتا ہے اور مور کیا کہتا ہے اور بلبل کیا کہتا ہے اور مینڈک کیا کہتا ہے جب ناقوس بجتا ہے تو کیا کہتا ہے۔

اور وہ قوم بتاؤ جن پر اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی ہو اور نہ انسان ہوں اور نہ جن اور نہ فرشتے ۔ اور یہ بتاؤ کہ جب دن ہوتا ہے تو رات کہاں چلی جاتی ہے اور جب رات ہوتی ہے تو دن کہاں چلا جاتا ہے۔

تو حضرت بایزید بسطامی ؒ نے فرمایا کہ کوئی اور سوال ہو تو بتاؤ۔ وہ پادری بولا کہ اور کوئی سوال نہیں۔

آپ نے فرمایا اگر میں ان سب سوالوں کا شافی جواب دے دوں تو تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایمان لاؤ گے۔

سب نے کہا ہاں، پھر آپ نے کہا اے اللہ تو ان کی اس بات کا گواہ ہے۔

یک زمانہ صحبت با اُولیا
بہتر اَز صَد سالہ طاعتِ بے ریا



پھر فرمایا کہ تمہارا سوال کہ ایسا ایک بتاؤ جس کا دوسرا نہ ہو وہ اللہ تعالیٰ واحد قہار ہے

اور وہ دو جن کا تیسرا نہ ہو وہ رات اور دن ہیں لقولہؒ تعالیٰ ( سورة بنی اسرائیل آیت 12)

اور وہ تین جن کا چوتھا نہ ہووہ عرش اور کرسی اور قلم ہیں۔

اور وہ چار جن کا پانچواں نہ ہو وہ چار بڑی آسمانی کتابیں تورات، انجیل ، زبور اورقرآن مقدس ہیں۔

اور وہ پانچ جن کا چھٹا نہ ہو وہ پانچ فرض نمازیں ہیں۔

اور وہ چھ جن کا ساتواں نہ ہو وہ چھ دن ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا فرمایالقولہ تعالیٰ ( سورہ قاف، آیت 38)

اور وہ سات جن کاٹھواں نہ ہووہ سات آسمان ہیں لقولہ تعالیٰ (سورہ ملک آیت ۳)

اور وہ آٹھ جن کا نواں نہ ہو وہ عرش بریں کو اُٹھانے والے آٹھ فرشتے ہیں لقولہ تعالیٰ (سورہ حآقّہ، آیت 17)

اور وہ نو جن کا دسواں نہ ہو وہ بنی اسرائیل کے نو فسادی شخص تھے لقولہ تعالیٰ (سورة نمل، آیت ۸۴)

اوروہ د س جن کاگیارواں نہ ہو وہ متمتع پر دس روزے فرض ہیں جب اس کو قربانی کی طاقت نہ ہو لقولہٰ تعالیٰ (سورة بقرہ، آیت ۶۹۱)

اور وہ گیارہ جن کا بارواں نہ ہو وہ یوسف علیہ السّلام کے بھائی ہیں۔ گیارہ ہیں۔ ان کا بارواں بھائی نہیں لقولہ تعالیٰ (سورة یوسف، آیت ۴)

اوروہ بارہ جن کا تیرواں نہ ہووہ مہینوں کی گنتی ہے لقولہ تعالیٰ (سورہ توبہ، آیت ۶۳) ا
ور وہ تیرہ جن کا چودہواں نہ ہو وہ یوسف علیہ السّلام کا خواب ہے لقولہ تعالیٰ (سورة یوسف، آیت۴)
اور وہ جھوٹی قوم جو بہشت میں جائی گی وہ یوسف علیہ السّلام کے بھائی ہیں کہ اللہ تعالےٰ نے ان کی خطا معاف فرمادی ۔ لقولہ تعالیٰ (سورة یوسف،آیت ۷۱)

اور وہ سچی قوم جو دوزخ میں جائی گی وہ یہود و نصارےٰ کی قوم ہے لقولہ تعالیٰ (سورة بقرہ، آیت ۳۱۱) تو ان میں سے ہر ایک دوسرے کے دین کو لاشی بتانے میں سچّا ہے لیکن دونوں دوزخ میں جائیں گے

اور تم نے جو سوال کیا ہے تیرا نام تیرے جسم میں کہاں رہتا ہے تو جواب یہ ہے کہ میرے کان میرے نام کے رہنے کی جگہ ہیں۔

اور اَلزَّارِیَاتِ ذرْواً چار ہوائیں ہیں ۔ مشرقی ، غربی، جنوبی، شمالی۔ اوراَلْحَامِلَاتِ وِقْراً بادل ہیں لقولہ تعالیٰ (سورة بقرہ آیت ۴۶۱ )

اور اَلْجَا رِیَاتِ یُسْراً سمندر میں چلنے والی کشتیاں ہیں اور اَلْمُقَسِّمَاتِ اَمْراً وہ فرشتے ہیں جوپندرہ شعبان سے دوسرے پندرہ شعبان تک لوگوں کا رزق تقسیم کرتے ہیں ۔

اور وہ چودہ جنہوں نے رَب تعالیٰ کے ساتھ گفتگوکی وہ سات آسمان اور سات زمینیں ہیں لقولہ تعالیٰ(سورة حٰم السّجدہ، آیت ۱۱)

اور وہ قبرجو مقبور کو لے کر چلی ہو وہ یونس علیہ السّلام کو نگلنے والی مچھلی ہے۔ اور بغیر روح کے سانس لینے والی چیزصبح ہے لقولہ تعالیٰ

اور وہ پانی جو نہ آسمان سے اترا ہو اور نہ زمین سے نکلا ہو وہ پانی ہے جو گھوڑوں کا پسینہ بلقیس نے آزمائش کے لیے حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس بھیجا تھا

اور وہ چار جو کسی باپ کی پشت سے ہیں اور نہ شکم مادر سے وہ اسماعیل علیہ السّلام کی بجائے ذبح ہونے والا دنبہ اورصالح علیہ السلام کی اونٹنی اورآدم علیہ السلام اور حضرت حوّا علیہ السلام ہیں ۔

اور پہلا خون ناحق جو زمین پر بہایا گیا وہ آدم علیہ السلام کے بیٹے ہابیل کا خون ہے جسے بھائی قابیل نے قتل کیا تھا۔

اور وہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی پھر اسے خرید لیا وہ مومن کی جان ہے لقولہ تعالیٰ (سورة توبہ، آیت ۱۱۱)

اوروہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی پھر اسے ناپسند فرمایا ہو وہ گدھے کی آواز ہے لقولہ تعالیٰ (سورة لُقمان، آیت 19)

اور وہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی ہو پھر اُسے بُرا کہا ہو وہ عورتوں کا مکرہے لقولہ تعالیٰ (سورة یوسف، آیت 28)

اور وہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی ہو پھر پوچھا ہو کہ یہ کیا ہے وہ موسیٰ علیہ السلام کا عصا ہے لقولہ تعالیٰ (سورة طٰہٰ آیت ۷۱)

اور یہ سوال کہ کون سی عورتیں دنیا بھر کی عورتوں سے افضل ہیں وہ اُم البشر حضرت حوّا علیہ السلام اور حضرت خدیجہؓ اور حضرت عائشہؓ اور حضرت آسیہؓ اور حضرت مریم علیہ السلام ہیں ۔

باقی رہا افضل دریا وہ سیحون، جیجون، دجلہ، فرات اور نیل مصر ہیں ۔

اور سب پہاڑوں سے افضل کوہِ طور ہے

اور سب جانوروں سے افضل گھوڑا ہے

اور سب مہینوں سے افضل مہینہ رمضان لقولہ تعالیٰ (سورة بقرہ ، آیت 185)

اور سب راتوں میں افضل رات لیلة القدر ہے لقولہ تعالیٰ (سورة قدر، آیت ۳)

اور تم نے پوچھا ہے کہ طاْمہ کیا ہے وہ قیامت کا دن ہے۔

اور ایسا درخت جس کی بارہ ٹہنیاں ہیں اور ہر ٹہنی کے تیس پتّے ہیں اور ہر پتّہ پر پانچ پھول ہیں جن میں سے دو پھول دھوپ میں ہیں اور تین سایہ میں ۔ توہ وہ درخت سال ہے۔ بارہ ٹہنیاں اس کے بارہ ماہ ہیں اور تیس پتّے ہر ماہ کے دن ہیں۔

اور ہر پتّے پر پانچ پھول ہر روز کی پانچ نمازیں ہیں دو نمازیں ظہر اور عصر آفتاب کی روشنی میں پڑھی جاتی ہیں اور باقی تین نمازیں اندھیرے میں۔

اور وہ چیز جو بے جان ہو اور حج اس پر فرض نہ ہو پھر اس نے حج کیا ہو اور بیت اللہ کا طواف کیا ہو وہ نوح علیہ السّلام کی کشتی ہے ۔

تم نے نبیوں کی تعداد پوچھی ہے پھر رسولوں اور غیر رسولوں کی تو کل نبی ایک لاکھ چوبیس ہزار ہیں ۔ ان میں سے تین سو تیرہ رسول ہیں اور باقی غیر رسول۔

تم نے وہ چار چیزیں پوچھی ہیں جن کا رنگ اور ذائقہ مختلف ہے حالانکہ جڑ ایک ہے۔ وہ آنکھیں، ناک، منہ، کان ہیں کہ مغزسر ان سب کی جڑ ہے۔

آنکھوں کا پانی نمکین ہے اور منہ کا پانی میٹھا ہے اور ناک کا پانی ترش ہے اور کانوں کا پانی کڑوا ہے ۔

تم نے نقیر (سورة نسا آیت ۴۲۱)،قطمیر ( سورة فاطر آیت ۳۱)، فتیل (بنی اسرائیل آیت ۱۷)۔
سبدولبد، طمّ ورَمّ کے معانی دریافت کیے ہیں۔

کھجور کی گٹھلی کی پشت پر جو نقطہ ہوتا ہے اس کونقیر کہتے ہیں

اور گٹھلی پرجو باریک چھلکا ہوتا ہے اس کو قطمیر کہتے ہیں

اور گٹھلی کے اندر جو سفیدی ہوتیہے اسے فتیل کہتے ہیں۔

سبد و لبد بھیڑ بکری کے بالوں کو کہا جاتا ہے۔

حضرت آدم علیہ السلام کی آفرینش سے پہلے کی مخلوقات کو طمّ ورَمّ کہا جاتا ہے۔

اور گدھا ہینگتے وقت شیطان کو دیکھ رہا ہوتا ہے اور کہتا ہے لَعَنَ اللّٰہ ُالْعَشَّار۔

اور کتا بھونکتے وقت کہتا ہے وَیْلُ لِاَھِلِ اْلنَّارِمِنْ غَضَبِ الْجَبَّارِ۔

اور بیل کہتا ہے سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہ۔

اور گھوڑا کہتا ہے سُبْحَانَ حَافِظِیْ اِذَا اَلتَقَت الْاَبْطَال َوَاشْتَعَلَتِ الرِّجَالُ بِالرِّجَال

اور اونٹ کہتا ہے حَسْبِیَ اللّٰہ ُ وَکَفٰی بِاللٰہِ وَکِیْلاَ

اور مور کہتا ہے الرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسّتَوٰی (سورہ طٰہٰ آیت 15) ۔

اور بلبل کہتا ہے سُبْحَا نَ ا للّٰہ ِ حِیْنَ تُمْسُوْنَ وَحِیْنَ تُصْبِحُوْنَ (سورة روم آیت 17)۔

اورمینڈک اپنی تسبیح میں کہتا ہیسُبْحَانَ الْمَعْبُودِ فِیْ البَرَارِیْ وَالْقِفَارِ سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْجَبَّارِ ( سورة نحل آیت ۸۶)

اور ناقوس جب بجتا ہے تو کہتا ہے سُبْحَانَ اللّٰہِ حَقَّا حَقَّا اُنْظُرْ یَاْبنَ اٰدَمَ فِی ھٰذِہِ الدُّنْیَا غَرْبًا وَّشَرْقًا مَّاتَرٰی فِیْھَا اَحَدًایَّبْقٰی۔

اور تم نے وہ قوم پوچھی ہے جن پر وحی آئی حالانکہ وہ نہ انسان ہیں نہ فرشتے اور نہ جن۔ وہ شہد کی مکھیاں ہیں لقولہ تعالیٰ (سورة نحل آیت ۸۶)

تم نے پوچھا ہے کہ جب رات ہو تی ہے تو دن کہاں چلا جاتا ہے اور جب دن ہوتا ہے تو رات کہاں ہوتی ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے جب دن ہوتا ہے تورات اللہ تعالیٰ کے غا مض علم میں چلی جاتی ہے ۔

اور جب رات ہوتی ہے تو دن اللہ تعالیٰ کے غامض علم میں چلا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وہ غامض علم کہ جہاں کسی مقرب نبی یا فرشتہ کی رسائی نہیں۔

پھر آپ نے فرمایا کہ تمہارا کوئی ایسا سوال رہ گیا ہے جس کا جواب نہ دیا گیا ہو۔ انہوں نے کہا نہیں ۔ سب سوالوں کے صحیح جواب دیے ہیں تو آپ نے اس بڑے پادری سے فرمایا کہ میں تم سے صرف ایک بات پوچھتا ہوں اس کا جواب دو۔ وہ یہ ہے کہ آسمانوں کی کنجی اور بہشت کی کنجی کون سی چیز ہے۔

تو وہ پادری سر بہ گریباں ہوکر خاموش ہو گیا تو سب پادری اس سے کہنے لگے کہ اس شیخ نے تمہارے اس قدر سوالوں کے جواب دیے لیکن آپ اس کے ایک سوال کا جواب بھی نہیں دے سکتے وہ بولا کہ جواب مجھے آتا ہے۔ اگر میں وہ جواب بتاؤں تو تم لوگ میری موافقت نہیں کرو گے۔

سب نے بیک زباں کہا کہ آپ ہمارے پیشوا ہیں ۔ ہم ہر حالت میں آپ کی موافقت کریں گے۔ تو بڑے پادری نے کہا آسمانوں کی کنجی اور بہشت کی کنجی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ مُحَّمدُ رَّسُولُ اللہ ہے ۔ تو سب کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے اور اپنے اپنے زنار وہیں توڑ ڈالے ۔

غیب سے ندا آئی ۔ اے بایزید ہم نے تجھے ایک زنار پہننے کا حکم اس لئے دیا تھا کہ ان کے پانچ سو زنار تڑواؤں ۔

وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ (نوٹ ۔ قرآنی آیا ت کا حوالہ میں نے شامل کر دیا ہے)

ہر کہ خواہد ہمنشینی باخُدا
اُو نشیند دَر حضورِ اُولیاء



بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل

Wednesday, October 21, 2009

اسرائیلی جرائم کی چارج شیٹ!! - - - - - کار زار



تحریر: انور غازی

”اسرائیل جنگی مجرم ہے۔ غزہ پر حملے کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی۔ بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام کیا۔ اسرائیل کے جنگی جرائم کی تحقیقات کو ”ہیگ“ میں قائم انسداد جرائم کی عالمی عدالت میں پیش کرنا چاہیے تاکہ اس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاسکے۔“ یہ الفاظ ”ہیومن رائٹس کونسل“ کے ہیں جو اس نے اقوام متحدہ کی رپورٹ کی توثیق میں کہے۔ گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی تفتیشی ٹیم کے سربراہ ”رچرڈ گولڈ اسٹون“ نے اس موضوع پر تفصیلی رپورٹ پیش کی۔

اس میں اسرائیل کے جرائم سے متعلق چشم کشا انکشافات کیے گئے۔ تمام واقعات، شواہد، معلومات اور عینی شاہدین کے انٹرویوز کی روشنی میں جو نتائج نکالے گئے وہ یہ تھے کہ اسرائیل جنگی جرائم میں پوری طرح ملوث ہے۔ اس رپورٹ کے منظرعام پر آنے کے بعد 17/ اکتوبر 2009ء کو جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے رکن ممالک کا خصوصی اجلاس ہوا۔ اسرائیل، فلسطین، پاکستان، ترکی، بھارت، چین، کیوبا، روس اور نائجیریا سمیت اکثر ممالک نے شرکت کی۔ 25 ملکوں نے گولڈ اسٹون رپورٹ کی توثیق کی۔

امریکا سمیت 6 ریاستوں نے مخالفت کی جبکہ فرانس اور برطانیہ سمیت 11 ممالک غیر حاضر رہے۔ البتہ اقوام متحدہ میں برطانوی سفیر نے اتنا ضرور کہا کہ غزہ جنگ سے متعلق اقوام متحدہ کی رپورٹ اہم معلومات پر مشتمل ہے۔ اسرائیل وفلسطین دونوں کو اس پر غور کرنا چاہیے۔ دیگر کئی یورپی ممالک نے بھی رپورٹ کی حمایت کا خیال ظاہر کیا ہے۔ حماس نے اس رپورٹ کی توثیق کرنے والے ممالک کا خیرمقدم کیا ہے جبکہ اسرائیل حقائق تسلیم کرنے کے بجائے ہٹ دھرمی پر اُتر آیا ہے اور توثیق کرنے والے ممالک کو دھمکیاں دے رہا ہے۔

اور تو اور اقوام متحدہ کی تفتیشی ٹیم کے سربراہ گولڈ اسٹون کے خلاف صہیونیوں نے پروپیگنڈا شروع کردیا ہے کہ انہوں نے جانبداری سے کام لیا ہے۔ افریقہ کے یہودی سڑکوں پر نکل کر اس کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں۔ اس کے خلاف کینیڈا اور امریکا میں بھی سازشیں شروع ہوچکی ہیں۔ حالانکہ گولڈ اسٹون خود اعتدال پسند یہودی ہیں اور ان کی ماں صہیونی تحریک میں شامل تھیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صہیونی اپنے خلاف سچائی اور حقائق سننے کو بھی ذرا بھر تیار نہیں ہوتے۔

اسرائیلی راہنماؤں نے برطانیہ کو خفیہ پیغام بھجوایا ہے کہ وہ کسی بھی صورت اس رپورٹ کی حمایت نہ کرے۔ اگر برطانیہ نے توثیق کی تو پھر برطانوی جنگی جرائم بھی بے نقاب کیے جائیں گے۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ آخر کس کی پشت پناہی سے اسرائیلی راہنما برطانیہ جیسی ریاست کو بھی دھمکی آمیز پیغام بھجوارہے ہیں کہ وہ رپورٹ کی توثیق سے باز رہے۔ ادھر ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردگان نے عالمی برادری سے کہا ہے کہ وہ غزہ میں اسرائیلی جنگی جرائم کی پردہ پوشی نہ کرے۔ اسرائیل نے بے شمار جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔“

حقیقت یہی ہے کہ اسرائیل طویل عرصے سے جنگی جرائم کرتا چلا آرہا ہے۔ ہم مختصراً صہیونیوں کے جرائم کی چارج شیٹ پیش کرتے ہیں تاکہ یہ بات عیاں ہوجائے کہ جو رپورٹ پیش کی گئی ہے وہ سو فیصد حقائق پر مبنی ہے۔ اسرائیل اب تک اقوام متحدہ کی 69 قراردادوں کی دھجیاں اُڑاچکا ہے۔ اسرائیل نے جنیوا کے قوانین کو پامال کرتے ہوئے ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کو نشانہ بنایا۔ اسکول اور کالجوں پر میزائل داغے۔ کیمیاوی ہتھیار اور فاسفورس بم استعمال کیے۔ گمنام جگہوں پر شہید ہونے والے فلسطینیوں کے اجسام کی بے حرمتی کی۔ فلسطینی بچوں کو اغوا کرکے ان کے اعضا نکالے۔ قبلہ اول مسجد اقصیٰ کا تقدس پامال کیا۔

امدادی کارکنوں پر بمباری کی۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے اہلکار بھی اس ظلم سے نہ بچ سکے۔ مسلّمہ قانون ہے کہ دورانِ جنگ بچوں، بوڑھوں اور خواتین کو امان حاصل ہوگا۔ ہتھیار نہ اُٹھانے والوں پر فائرنگ اور بمباری نہیں کی جائے گی لیکن اسرائیلی درندوں نے بچوں، مریضوں، ضعیفوں حتیٰ کہ ایمبولینسوں اور فلاحی اداروں کے امدادی کارکنوں تک لہو میں نہاگئے۔

دور نہ جائیں! حالیہ غزہ پر صہیونی حملوں میں 1300 فلسطینی شہری، 437 کم عمر بچے، 110 عورتیں اور 123 بوڑھوں کو بے دردی سے شہید کیا گیا۔ شہری آبادی پر اندھا دھند گولہ باری کرکے سیکڑوں فلسطینیوں کو زخمی کیا گیا۔ جنگ کے دوران بیسیوں بے گناہوں حتیٰ کہ راہگیروں اور امدادی ورکروں کو گرفتار کرکے عقوبت خانوں میں ڈالا گیا۔

گزشتہ دنوں فلسطینی عوام کو امداد پہنچانے والی ایک امدادی کارکن نے ”رملہ جیل“ سے خط لکھا ہے۔ وہ لکھتی ہیں: ”میرا نام سنتھیا میکنیے ہے۔ میں رملہ میں اسرائیلی جیل کی ایک کوٹھڑی سے مخاطب ہوں۔ جنگ کے دوران ہم زخمیوں کے لیے ادویات پہنچانے غزہ کی طرف جارہے تھے کہ اسرائیلیوں نے ہماری گاڑی پر فائرنگ کردی۔ پھر ہمیں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ ہم دنیا کے مہذب لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے؟

ہم غزہ کے زخمیوں تک بنیادی ضروریات کی چیزیں پہنچانا چاہتے تھے لیکن اسرائیلی فوج نے یہ کہتے ہوئے گرفتار کرلیا کہ دہشت گردوں کو طبی امداد کیوں پہنچارہے ہو؟ ان فلسطینیوں کو یونہی تڑپ تڑپ کر مرنا چاہیے۔“ میں نے جرات کرتے ہوئے کہا: ”انسانیت کے ناتے ان کے لیے فرسٹ ایڈ ضروری ہے لیکن اسرائیلی فوج نے میری ایک نہ سنی اور فلسطینی زخمی عوام کو طبی امداد پہنچانے کے جرم میں مجھے 30 جون کو گرفتار کرکے رملہ کے عقوبت خانے میں ڈال دیا گیا حالانکہ میرا مشن انسانی حقوق، معاشرتی انصاف اور بلارنگ ونسل، قوم ومذہب صرف انسانیت کی خدمت ہے۔

میں سوچتی ہوں جب مجھ جیسی عورت کے ساتھ اسرائیلی فوج نے یہ ظلم کیا ہے تو عام فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ وہ کیا کیا انسانیت سوز کام کرتے ہوں گے؟“ آخر میں ”سنتھیا میکینے“ اقوام متحدہ اور امریکی صدر اوباما سے اپیل کرتی ہیں کہ وہ اسرائیلی عقوبت خانوں میں بے گناہ فلسطینی عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور گرفتار کیے گئے ہزاروں افراد کو آزاد کروائیں۔“

پس منظر کے طورپر یاد رہے اس وقت اسرائیلی جیلوں اور عقوبت خانوں میں 1500 مرد، 400 کے قریب معصوم بچے اور 210 خواتین انتہائی صعوبتیں اُٹھارہے ہیں۔ فلسطینی ”محکمہٴ اسیران“ کے ترجمان کا کہنا ہے فلسطینی قیدیوں پر نئی نئی تیار کردہ ادویات کے تجربات بھی کیے جارہے ہیں۔ بیشتر تجربات معصوم بچوں پر کیے جاتے ہیں۔ ان ادویات کے استعمال سے ایک ہزار قیدی شدید متاثر ہیں جن میں سے ایک سو پچاس کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔ عالمی ریڈ کراس کے نمایندوں تک کو اسرائیلی جیلوں کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔

انسانی حقوق کی تمام تنظیموں کو اس پر آواز اُٹھانی چاہیے۔ قارئین! دوران تحریر میرے سامنے ایک تصویر ہے جس میں جیل میں شہید ہونے والے فلسطینی شہری کی تدفین کے موقع پر ان کی بیوی اور معصوم بچے زاروقطار رورہے ہیں۔ ان پھول سے بچوں کے آنسو عالمِ اسلام کے حکمرانوں کو بہت کچھ سوچنے کا پیغام دے رہے ہیں۔
اسرائیل کا ایک جرم یہودی بستیوں کی آباد کاری ہے۔ اقوام متحدہ کے قانون کے مطابق اسرائیل مزید بستیاں تعمیر نہیں کرسکتا۔

متعدد بار تعمیر روکنے کا حکم بھی دیا جاچکا ہے لیکن یہ ایک ناقابلِ تردید تاریخی حقیقت ہے کہ یہودیوں نے فلسطین کے علاقوں پر غیر قانونی طورپر قبضہ کیا۔ یہودی قیادت کو شروع میں ایسا کرنے سے روکنے کی کوئی عملی کوشش نہیں کی گئی جس کی وجہ سے اسرائیل کے حوصلے بلند ہوتے چلے گئے اور وہ فلسطین کے مزید علاقوں پر قابض ہوتا گیا۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ اسرائیل فلسطین کے ایک بڑے علاقے پر قابض ہوچکا ہے اور اس کی ناجائز توسیع کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔

یہودی بستیوں کی تعمیر کا آغاز 1947ء سے ہوا۔ اس کے بعد سے ان میں مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے حالانکہ قیام امن کے بین الاقوامی منصوبے ”روڈ میپ“ کے تحت اسرائیل نے یہودی بستیوں پر کام روکنے کا پکا وعدہ کیا تھا۔ مشرقی یروشلم، مغربی کنارہ، غزہ، گولان کی پہاڑیاں… یہ سب مقبوضہ علاقہ جات ہیں اور اسرائیل کا حصہ نہیں۔

انصاف تو ملاحظہ کیجیے! اسرائیل نے 85 فیصد پانی اپنے یہودی آباد کاروں کے لیے مخصوص کیا ہے جبکہ باقی 15 فیصد فلسطینی مسلمانوں کے لیے چھوڑا ہوا ہے۔ غربِ اردن اور غزہ میں بنی تمام یہودی بستیاں بین الاقوامی اصولوں کے تحت غیر قانونی ہیں۔ ایرئیل نامی ایک یہودی بستی میں 18 ہزار صہیونی رہائش پذیر ہیں۔ تازہ خبر کے مطابق ایک نئی یہودی بستی کا نام ”اوباما“ سے منسوب کیا جارہا ہے۔ اس کا نام ”اوباما ہیلتوب“ رکھا جائے گا۔

دنیا کے وسیع تر مفاد میں اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کو اپنی ان اداؤں پر ٹھنڈے دماغ سے غور کرنا چاہیے کہ یہ اقدام مشرقِ وسطیٰ کے لیے کیسے ثابت ہوسکتے ہیں؟ اسرائیل کا ایک بڑا جرم غیر قانونی اور ممنوع اسلحے کا بے دریغ استعمال ہے۔ قانون کے مطابق جوہری اور فاسفورس بم استعمال نہیں کرسکتا، مگر غزہ جنگ کے دوران صہیونیوں نے ایسا بارود استعمال کیا کہ بچے موم کی طرح پگھل گئے۔ اس پر ڈاکٹروں کی رپورٹیں شاہد ہیں۔

اسرائیل کا ایک جرم اس کے توسیع پسندانہ عزائم اور مشرقِ وسطیٰ میں بالادستی کا خناس ہے۔ جس کی وجہ سے کبھی وہ ایران کو دھمکیاں دیتا ہے تو کبھی شام کو۔ کبھی لبنان کو تو کبھی اردن کو۔ کبھی پاکستان کا ایٹمی پروگرام تباہ کرنے کے لیے بھارت سے گٹھ جوڑ کرتا ہے تو کبھی اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ہمسائے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرواتا ہے۔ یہی وجہ ہے اسرائیل کے پڑوسی ممالک میں سے کسی کے ساتھ خوشگوار تعلقات نہیں ہیں۔

اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم اور بڑھتے ہوئے جنگی جرائم کی وجہ سے ترکی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس کے ساتھ جنگی مشقیں نہیں کرے گا۔ امریکا، اسرائیل اور ان کے دیگر دوست ممالک کو غور کرنا چاہیے کہ ترکی جیسا ملک… جس نے یورپ کا حصہ بننے کے لیے ایک وقت میں عالم اسلام سے رابطہ توڑ لیا تھا… آج امریکا، اسرائیل اور یورپی ممالک کے غیر منصفانہ رویوں کو محسوس کررہا ہے تو اس کا واضح مطلب ہے مسلم دنیا کے حکمران اور عوام بھی ان کی خون آشام اور استعماری پالیسیوں سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔

لہٰذا اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کو پالیسی بدلنا ہوگی۔ اگر اسرائیل نے یہی روش رکھی اور اس کے جرائم یونہی بڑھتے رہے تو پھر ایک نہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ اس کی حمایت کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔ ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔


بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل

Tuesday, October 20, 2009

چائنہ ڈالر کی عزت لوٹنے کے درپے




تحریر: فرخ صدیقی


ڈالر کی عزت بچانے کیلئے امریکی یہودیوں کا نیا کھیل شروع

ڈالر بچانے کی یہ سرد جنگ، امریکہ چین، روس، وینزویلا اور ایران کے درمیان کھیلی جارہی ہے۔

بیجنگ - امریکہ میں صہیونی یہودیوں کے پھیلائے گئے مصنوعی معاشی طوفان کے بعد جہاں چین نے امریکی ڈالر سے جان چھڑانے کی منصوبہ بندی کر لی ہے وہیں یہودی نئی بوتل میں پرانی شراب کے مصداق “گولڈ ڈالر“ جاری کرنے کے چکر میں امریکی عوام کو دوبارہ گمراہ کرتے نظر آتے ہیں۔

بیجنگ کے معاشی نظام کے پیچھے بیٹھے افراد جہاں ایک طرف امریکہ کے قرضوں کی دھڑا دھڑ خریداری کر رہے ہیں وہیں وہ ان قرضے کے معاہدوں کی تجدید میں ڈالر کی جگہ اپنی کرنسی یوآن سے بدل کر ان قرضوں کو بیچتے بھی نظر آتے ہیں۔

سودی نظام جس کے بانی یہودی ہیں اور اس کام میں انکا کوئی ثانی نہیں، آج چین نے اس خیال کو غلط ثابت کردیا ہے اور صہیونی فیڈرل ریزرو بینک ڈالر کے اس کھیل میں نئے پتے پھینکنے کے باوجود پریشان ہے۔

چین، روس، وینزویلا اور ایران میں بیٹھے ڈالر مخالف یہ کھلاڑی جو ایکطرف ڈالر کو مٹی میں رولنا چاہتے ہیں وہیں انھوں نے اپنی کرنسی کی قدر میں کمی کرنا شروع کردی ہے جو جان بوجھ کر کمی کی جارہی ہے۔

اس کمی سے جہاں امریکی قرضوں کی ادائیگی میں آسانیاں پیدا ہو رہی ہیں وہیں ان ممالک کی ایکسپورٹ میں خاطر خواہ اضافہ ہورہا ہے اور ایسے اضافہ کا مطلب ہے مزید صنعتیں اور مزید روزگار کے مواقع۔

ڈالر کے گرد گھیرا ڈلتے دیکھ کر اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ ڈالر کا وجود خطرے میں ہے تو شائد آپ ٹھیک ہی سوچ ہے ہیں لیکن یہ یاد رکھیے کہ تقریباً ایک صدی تک اس کاغذ کو عالمی کرنسی منوانے والے یہودی بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے۔

یہودیوں کے ذاتی بینک فیڈرل ریزرو بینک جو ڈالر کا موجد بھی ہے نے نئے نام “گولڈ ڈالر“ کے نام سے نئی کرنسی کے اجراء کی تیاریاں کر لی ہیں۔ امریکی عوام کو اب یہ کہہ کر الو بنایا جارہا ہے کہ یہ گولڈ ڈالر سانے کے ان ذخائر کے برابر چھاپے جا رہے ہیں جو فیڈرل ریزرو بینک کے پاس موجود ہیں۔

1862ء سے پہلے امریکی عوام سونے کے سکے ہی استعمال کر رہے تھے، اسوقت بھی انھیں سکوں کو کومت وقت میں موجود یہودیوں نے ضبط کر کے ان کے عوض کاغذ کے ڈالر تھما دیے اور یہی کھیل نئی شکل اور اصولوں کیساتھ دوبارہ کھیلا جائیگا۔

تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ یہ گولڈ ڈالر نئی بوتل میں پرانی شراب کے مصداق ہیں جو نہ چاہتے ہوئے بھی امریکی عوام کے حلق میں دوبارہ انڈیلی جائیگی۔

ڈالر کے لٹنے کے تناظر میں یہودی یورو کو بھی متبادل کرنسی کے طور پر متعارف کروانا چاہ رہے ہیں تاکہ جو ایسے نہ پھنسے وہ ویسے پھنس جائے۔ کوئی گولڈ ڈالر لے نہ لے لیکن یورو سے بچ کر تو مشکل ہی نکل پائے گا۔

اس مسئلہ کا حل کرنے کیلئے چین ان مغربی ممالک جن کیساتھ اسکی تجارت اور لین دین عروج پر ہے، ایسے معاہدے کر رہا ہے جن کی رو سے وہ ممالک چینی کرنسی ہی میں چین کو اور آپس میں بھی چینی کرنسی ہی میں ادائیگی کرسکیں گے، جو عملی اور کاروباری طور پر ان ممالک کے لئے آسان بھی ہوگا اور منافع بخش بھی۔

اسکی ایک مثال بیلارس، انڈونیشیا اور ملائیشیا ہیں، یہ ممالک چین کیساتھ اور آپس میں ڈالر کو بیچ میں لائے بغیر چینی کرنسی میں تجارت کر رہے ہیں اور چین کیساتھ بھی۔

امریکی یہودیوں کی پوری کوشش ہے کہ ایسے تجارتی معاہدوں کو مزید پھیلنے سے روکا جائے جس کیلئے وہ سرد جنگ کیساتھ ساتھ چین کیخلاف دیگر دہشتگرد قوتوں کو بھی چین کے حالات خراب کروانے پر کام کر رہے ہیں، یغور میں مسلم کش فسادات اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جس میں قازقستانی یہودی ملوث پائے گئے۔

آنے والے چند ماہ شاید ڈالر کی موت و حیات کا فیصلہ تو نہ کر پائیں لیکن اس بات کی وضاحت ضرور کریں گے کہ آئندہ دہائی کی عالمی کرنسی بننے کا تاج کس ملک کے سر جائیگا۔



بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل

Thursday, October 15, 2009

جنیوا مذاکرات ٹھنڈی ہوا کا جھونکا یا ڈھکوسلہ




تحریر: روف عامر پپا بریار


کنفیوشس نے کہا تھا بینا وہ ہے جو اپنی گریبان میں جھانکے۔

امریکی و مغربی طاقتیں تہران کے جوہری مسئلے پر منافقانہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں کیونکہ ایک طرف اوبامہ و یورپی ممالک اٍس تنازعے کو مذکرات کے زریعے حل کرنے کی اداکاری کرتے ہیں جس کی مثال جنیوا میں مغرب و ایران کے درمیان ہونے والے ڈائیلاگ ہیں مگر دوسری طرف تہران کے جوہری اثاثوں پر اسرائیلی حملے کی منصوبہ بندیوں کی بازگشت امریکی و اسرائیلی اصل حکمت عملی کو الم نشرح کررہی ہیں۔

امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل نے اپنی رپورٹ میں تہران کے ایٹمی پروگرام کی بساط لپیٹنے کے لئے امریکی و اسرائیلی سازشوں و خفیہ منصوبہ بندیوں کا انکشاف کیا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ امریکی حکومت نے سی ائی اے کو فائنل ٹاسک دے دیا ہے۔ اس مقصد کے لئے دبئی میں قائم ہیڈ کوارٹر میں ایرانی ایجنٹوں کی بھرتی کرکے تہران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف کاروائیوں کا اغاز تک کردیا گیاہے۔ امریکہ نے اسرائیل کو فائنل حملے سے صرف اٍس وجہ سے روک رکھا ہے کیونکہ پینٹاگون سمجھتا ہے کہ تل ابیب کے پاس ابھی تک وہ بم و میزائل نہیں ہیں جو ایران کی زیر زمین جوہری تنصیبات کو صد فیصد تباہ کرنے کے قابل نہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ مغرب اور تہران کے درمیان جوہری تنازعے پر خلیج روز بروز بڑھ رہی ہے۔حالات تصادم کی قسم کھاتے ہیں۔یوں پوری دنیا کی نگاہیں یکم اکتوبر کو جنیوا میں دنیا کی پانچ بڑی طاقتوں اور ایران کے درمیان ہونے والے جنیوا مذاکرات پر مرکوز تھیں۔ستمبر میں یواین او کے اجلاس اور بعد میں جی ٹونٹی کانفرنس میں امریکہ سمیت بڑی طاقتوں نے ایران پر دباو بھی ڈالا اور دھمکیاں بھی دیں کہ وہ مغرب کے خدشات کو دور کرے ورنہ اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا جس میں ممکنہ فضائی حملے کی جگالی بھی شامل تھی۔

جنیوا میں یکم اکتوبر بروز جمعرات کو منعقد ہونے والے مذاکرات میں یواین او کے پانچ مستقل ارکان امریکہ جرمنی برطانیہ روس اور چین کے نمائندے شامل تھے۔گو کہ اٍس محفل یعنی جنیوا مذاکرات کے نتائج حوصلہ بخش نہیں تھے مگر اٍنہیں ناکام کہنا بھی درست نہیں۔امریکی صدر اوبامہ نے مذاکرات کو اچھی ابتدا قرار دیا۔پچھلی تین دہائیوں میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ تہران اور امریکہ نے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔

ایران نے مغرب کا ایک مطالبہ تسلیم کرلیا کہ قم میں قائم دوسرے جوہری پلانٹ کا معائنہ کیا جائے۔اوبامہ نے کہا کہ تہران کو عالمی اعتماد بحال کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے ہونگے۔ امریکہ سے زیادہ اسکے حواری فرانس کے وزیر دفاع ہر دی مورون نے تو باقاعدہ ترش لہجے میں دھمکی تک ڈالی کہ اگر تہران نے دسمبر تک جوہری پلانٹ کا معائنہ نہ کروایا تو اس پر پہلے سے زیادہ اقتصادی پابندیاں عائد کردی جائیں گی۔ ایرانی صدر نے اپنی تنصیبات کو چالو حالت میں رکھنے کے لئے استعمال ہونے والی یورینیم کسی تیسرے ملک سے کروانے کا اعلان کیا ہے جو پر امن مقاصد کے ایرانی فلسفے کی غماز ہے۔

جنیوا میں ایرانی سفارت کار سعید جلیلی نے ببانگ دہل مذاکرات میں شریک کارواں بڑی طاقتوں کے نمائندگان کو کھری کھری سناتے ہوئے کہا ہم کسی صورت میں اپنے جوہری پروگرام کو ترک نہیں کرسکتے۔ ان مذکرات کو طویل رنجشوں کے بعد ٹھنڈی ہوا کا جھونکا کہا جارہا ہے مگر سامراجیت و یہودیت کی تاریخ کو پڑھا جائے تو یہ سچ سامنے آتا ہے کہ مغرب یہودیوں کی خوشنودی کے لئے ایران کے جوہری پلانٹس کو عسکری کاروائی کی غذا بنانے کے لئے کسی وقت بھی فوجی کاروائی کا نشانہ بنا سکتا ہے۔

امریکہ اور اسکے یورپین خوشہ چین طویل عرصے سے ایران میں حکومت کی تبدیلی اور جوہری پلانٹس کو تباہ کرنے کے لئے ایک ہی وقت میں کئی جہتوں پر کام کررہے تھے مگر ایران کے صدارتی الیکشن میں احمد نژاد کی کامیابی نے انکے ارادوں کو خاک میں ملا ڈالا۔ انتخابی عمل کے بعد ایران میں ہونے والے دنگے فساد، احتجاجی و پر تشدد تحریک کے پیچھے یہی طاقتیں کارفرما تھیں۔ اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جو مذاکرات کی بجائے ایرانی ایٹمی سائنسی تنصیبات کو فوجی حملے سے تباہ کرنے کی سوچ کا پیروکار ہے مگر تہران بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے لئے تیار ہے۔

ایرانی قیادت نے واضح کردیا کہ اگر اسرائیل نے حملے کی جسارت کی تو یہ تل ابیب کے لئے سانس لینے کا ٓخری موقع ہے۔ایران کی حالیہ عسکری مشقوں اور شارٹ و لانگ رینج کے میزائل تجربات دراصل مغرب کو یہ پیغام دینے کا ذریعہ تھے کہ وہ جوابی حملے کے لئے تیار ہے۔ایران کے شہاب میزائلوں کی سیریز دو ہزار کلومیٹر تک ہے۔

یوں اسرائیل ایرانی میزائلوں کی پہنچ میں ہے جبکہ دوسری جانب اسرائیل کے پاس جو میزائل ہیں وہ چودہ سو کلو میٹر تک مار کرسکتے ہیں۔ایران نے کئی ایسی جوہری سائٹس بنالی ہیں جو چودہ سو کلومیٹر کی دوری پر اور زیر زمین ہیں جسکی بھنک تک امریکہ و اسرائیل کے پاس نہیں۔ ایران و اسرائیل کے درمیان حزب اللہ کی ناقابل شکست فصیل موجود ہے جسے پھلانگ کر تہران تک پہنچنا ناممکنات میں شامل ہے۔

حزب اللہ اسرائیل کو سابقہ جنگ میں ذلت امیز شکست دے چکی ہے۔ایران کے جوہری اثاثوں پر تنقید کرنے حملے کی دھمکیاں دینے والے یورپی ممالک دو عملی پالیسی کے ترجمان ہیں۔اسرائیل کے پاس دو سوزائد وار ہیڈز ہیں مگر وہ چونکہ امریکہ کا بغل بچہ ہے اسی لئے یہودیوں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ مڈل ایسٹ میں جو چاہے کرتا رہے مگر ایران کو تہس نہس کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔دنیا کو تہران کے جوہری بموں سے خوف زدہ کرنے والے خود ہی دوسرے ممالک کی سالمیت پر حملے کرنے اور انسانیت کی تذلیل کرنے کے مجرمان ہیں۔اگر اوبامہ یا سرکوزی دنیا کو جوہری ہتھیاروں کی تباہ کاریوں سے بچانے میں مخلص ہیں تو انہیں سب سے پہلے اپنے جوہری گوداموں کو ختم کرنا ہوگا۔ایران کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں کو تلف کرنا ہی انصاف کا دوسرا نام ہے۔

دنیا میں انصاف، مساوات،امن اور سکھ چین کی بانسری بجانے کا غل غپاڑہ کرنے والے امریکہ و مغربی طاقتوں کو کنفیوشس کے محولہ بالا قول کی روشنی میں سب سے پہلے اپنی گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ دنیا کے امن کو ایران کے جوہری اثاثوں سے خطرہ ہے یا امن کے نام پر عراق و افغانستان میں لاکھوں معصوموں کو بے گناہ ہلاک کرنے والے امریکہ اور اتحادیوں کے ہولناک ایٹمی زخائر سے؟ اوبامہ اور ایران مخالفین یورپی ممالک کو اپنے پیارے پیغمبر
حضرت عیسٰی علیہ السلام کے اس جملے پر لازمی غور کرنا چاہیے۔

حضرت عیسٰی علیہ السلام نے فرمایا تھا..........

پہلا پتھر وہ اٹھائے جس نے خود کبھی گناہ نہ کیا ہو۔

جہاں تک جنیوا مذاکرات کا تعلق ہے تو یہ ایران کو منانے کرنے کا ڈھکوسلہ ہے نہ کہ ٹھنڈی ہوا جھونکا۔



بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل

Wednesday, October 14, 2009

یہودیت کی سیاہ کاریاں اور مہذب دنیا کی ڈیوٹی




تحریر: روف عامر پپا بریار
صہیونیوں و یہودیوں نے اپنی مرکرنیوں و شاطریوں سے ایک طرف امریکہ سمیت مغرب کے زرائع ابلاغ، اقتصادیات صنعت و حرفت اور مالیاتی اداروں پر دادا گیری قائم کررکھی ہے تو دوسری طرف روئے ارض پر ہونے والے غیر قانونی کاروبار، انسانی اعضاوں کی تجارت و منشیات کی اسمگلنگ کا مذموم و غیر انسانی دھندے کا کریڈٹ بھی صہیونیوں کو حاصل ہے۔

حال ہی میں کی جانے والی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ منشیات کی سمگلنگ کے نیٹ ورکس کو کنٹرول کرنے اور گلوبل اقتصادی نظام کو چلانے والے ایک ہی سکے کے دورخ ہیں۔امریکہ میں انسانی اعضاوں کی سمگلنگ کے الزام میں دھر لئے جانے والے یہودیوں نے انکشاف کیا کہ اسلحے منشیات اور منی لانڈرنگ کے کاروبار میں امریکہ کے کئی بنک شریک کار ہیں۔ منشیات کی سمگلنگ سے حاصل کئے جانیوالے کالے دھن کو صہیونیوں کے بنک تحفظ دیتے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ اور اٍسرائیل نے دوسرے ممالک پر جارہیت کے لئے ہمیشہ کالے دھن کو استعمال کیا۔افغان جنگ میں سوویت یونین کو شکست دینے کے لئے امریکہ اور روس کے صہیونیوں نے منشیات سے کمائی جانے والی دولت کو خوب استعمال کیا۔ افغان سوویت جنگ کے زمانے میں سی ائی اے کے سربراہ کیسی نے اپنی سوانح عمری میں تسلیم کیا ہے کہ افغان وار کے بے بہا اخراجات منشیات کی سمگلنگ سے حاصل کئے گئے۔

طالبان نے اپنے دور میں ڈرگز و پوست کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کی تو امریکہ کے صہیونی مافیا پر سکتہ طاری ہوگیا۔مغربی تجزیہ نگاروں نے افغانستان پر امریکی حملے کو صہیونی مافیا کا کارنامہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ منشیات کے صہیونی تاجروں نے افغانستان کو دوبارہ پوست کی کاشت کا گڑھ بنانے کے لئے بش انتظامیہ کو کابل پر جنگی شب خون مارنے کے لئے اکسایا۔

کابل میں کرزئی کے سربراہ سلطنت ہونے کے بعد پورے دیس میں پوشت کی کاشت و منشیات کی سمگلنگ کا کاروبار زوروں پر ہے۔کرزئی کے بھائی کے ساتھ ساتھ افغان پارلیمنٹ کے اسی فیصد ممبران اور وزرا منشیات کے سمگلر ہیں۔منشیات کے تاجر جنگوں میں کیوں دلچسپی رکھتے ہیں یہ ایسا سوال ہے جس پر بحث ہونی چاہیے۔

امریکی ریاست میکسیکو کو مغرب میں منشیات مافیا کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے جہاں حالات اٍتنے گھمبیر ہوچکے ہیں کہ منشیات مافیا اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان آئے روز مسلح جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔میکسیکو کو منشیات کے کاروبار کا ہیڈ کوارٹر کہنا بے جا نہ ہوگا کیونکہ یہاں کے ڈرگ مافیاز کے تانے بانے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے نیٹ ورکس سے جا ملتے ہیں۔میکسیکو کی ریاستی حکومت تو منشیات کے اسمگلروں کو زنجیروں میں جکڑنا چاہتی ہے مگر امریکہ کو اٍس سے کوئی دلچسپی نہیں۔

میکسیکو کے صدر فلپ تو پچھلے تین سالوں سے منشیات کی تجارت کا قلع قمع کرنے کے لئے بھاگ دوڑ کررہے ہیں مگر اسے کامیابی نہ مل سکی۔میکسیکو کی سرحدوں پر خانہ جنگی ہورہی ہے۔میکسیکو میں منشیات کا کاروبار پچھلے چالیس برسوں سے جاری ہے جسکی بنیاد امریکن میڈیا میں گاڈ فادر کے نام سے شہرت پانے والے صہیونی غنڈے میر لین سکائی نے رکھی تھی۔

میکسیکو کے صدر فلپ نے حال ہی میں اوبامہ سے مطالبہ کیا کہ وہ حکومتی کیمپ میں موجود ان کالی بھیڑوں کو نکالا جائے جو ڈرگ مافیا کی پشت پناہی کرتے ہیں۔فلپ نے وائٹ ہاوس کو طعنہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں بھی ڈرگز مافیا کے اٍعانت کندگان و بہی خواہ موجود ہیں۔

صدر فلپ نے اوبامہ سے ملاقات کے دوران آہ و فغاں کرتے ہوئے پشین گوئی کی کہ اگر امریکہ نے اپنے قوانین تبدیل نہ کئے تو میکسیکو ہمیشہ کے لئے جہنم بن جائے گا اور اٍس جہنم پر ڈرگ مافیاز کے ایجنٹ حکومتی دربان کا کردار نبھائیں گے۔صہیونی ڈرگ مافیاز کی قوت کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں امریکی انتظامیہ کے اعلی عہدیداروں نے ڈرگ مافیا اور میکسیکو حکومت کے درمیان ڈیل کی کوششیں کیں جو صدر فلپ نے پائے حقارت سے مسترد کردیں۔

صدر فلپ کی داستانٍ غم سے یہ بات اشکار ہوتی ہے کہ منشیات کے بے نکیل اسمگلروں اور وائٹ ہاوس میں براجمان صہیونی سرمایہ کار وں و بینکرز کے درمیان چولی دامن کی رشتہ داری و قربت موجود ہے۔میکسیکو کے ایک فوجی کرنل نوفل نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ منشیات مافیا عالمی تنظیم کا روپ دھار گئی ہے جس میں لاکھوں ایجنٹ شامل ہیں جنہیں حکومتی اداروں کے مقابلے میں زیادہ تنخواہیں دی جاتی ہیں۔

پاکستان میں میکسیکو کی طرح سوات میں پاک فوج کے ساتھ لڑنے والے انتہاپسندوں کو بھی بھاری تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ دنیا بھر میں منشیات فروشی کے نیٹ ورکس پر سی ائی اے و موساد کا اہنی کنٹرول ہے۔ڈرگ مافیاز کی مدد سے ہی ویت نام، عراق و افغان جنگ لڑی گئی۔عراق ایران جنگ میں روس امریکہ اور تل ابیب کے ڈرگ مافیاز نے اہم کردار ادا کیا۔

ڈرگز، منشیات،منی لانڈرنگ اور غیر قانونی اسلحے کی سمگلنگ کو صرف ایک ہی عنصر تقویت دیتا ہے اور وہ ہے بنکنگ و مالیاتی نظام و انتصرام۔کالے دھن سے کمائی گئی دولت کو صہیونیوں کے بنک و اٍدارے مطلوبہ اہداف تک بااسانی پہنچاتے ہیں۔امریکی فیڈرل ریزرو بنک کے درجنوں سیکنڈلز میڈیا کی زینت بنے جن میں ڈرگ مافیاز بھی شامل تھے۔

یہ ڈرگ مافیاز ہی ہیں جنکے کرتے دھرتے امریکی حکومت گرانے کی طاقت رکھتے ہیں اور اٍن ڈرگ مافیاز کو صہیونیوں نے قابو کررکھا ہے۔سی ائی اے دنیا اور خاص طور پر امریکی قوم کو دھوکہ دینے کے لئے گاہے بگاہے ہالی وڈ کو استعمال کرتی رہتی ہے ۔فلموںمیں باور کروایا جاتا ہے کہ امریکی ریاستوں میں ہونے والی گڑ بڑ میں دوسرے ملکوں کے ڈرگ مافیاز ملوث ہیں۔


1939 سے ہی انڈر ورلڈ کی ڈوریں صہیونیوں کے سپرد ہیں۔نومبر2002 میں امریکی اخبار ابزرور نے اپنی رپورٹ میں صہیونیوں کی ابلیسیت کو عیاں کرکے تہلکہ مچادیا کہ یہودی و صہیونی اقوام میں قابل عزت سمجھے جانے والے تلموزی یہودی ڈرگ مافیاز کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ابزرور نے ہی لکھا تھا کہ صہیونی بنکار ڈرگ مافیاز کی دولت کو اسرائیل منتقل کردیتے ہیں۔

امریکی مصنف سیلے دیتون نے اپنی کتاب BLUE GRASS CONCIPIRACY میں صہیونی ڈرگ مافیاز کی بد اعمالیوں کو اجاگر کیا تو سیلے کو ڈرگ مافیاز کی سفاکیت کا صدمہ سہنا پڑا اور وہ قتل ہوگئے۔امریکی مصنف سالویڈر کی کتابopium lords میں درج ہے کہ تل ابیب ڈرگ مافیا کا ہیڈ کوارٹر ہے اور امریکی صدر کینڈی کو بھی صہیونی ڈرگ مافیا نے ہلاک کروایا۔

یروشلم پوسٹ نے اگست کی اشاعت میں لکھا کہ دنیا میں جتنے بھی ڈرگ مافیاز کے ڈان ہیں وہ عبرانی زبان پر عبور رکھتے ہیں اور اٍس کرہ ارض پر جتنے ملک ہیں وہاں کے ڈرگ مافیاز کو ایف بی ائی کنٹرول کرتی ہے اور ایف بی ائی کو موساد ہدایات جاری کرتی ہے۔یاد رہے کہ سی ائی اے کے دو سرخیلوں wilium j kasi کو1986 جبکہ edegar hover کو1972ء میں صہیونی ڈرگ مافیا مرواچکا ہے۔

اسرائیل اسلحے سے لیکر منشیات اور انسانی اعضاوں سے لیکر عورتوں کی سمگلنگ کا ہیڈ کوارٹر بن چکا ہے۔دنیا بھر میں ہونے والے تمام غیر قانونی بزنس اور جرائم کو اسرائیل میں تحفظ ملتا ہے۔امریکہ کا کوئی صدر صہیونیوں کی معاونت کے بغیر وائٹ ہاوس میں داخل نہیں ہوسکتا اور یہ وہی صہیونی لابی ہے جو ایک طرف ڈرگ مافیا کی دادا گیر ہے تو دوسری طرف یہی لابی انٹرنیشنل اور امریکن اقتصادیات و مالیات کو اپنے بنکوں کے ذریعے اپنے خونخوار جبڑوں میں جکڑے ہوئے ہے۔

دنیا میں اس وقت تک جرائم، جنگوں، دنگوں اور اسلحے کی سمگلنگ کا خاتمہ نہیں ہوسکتا جب تک صہیونی سرمایہ داروں کا تخلیق کردہ مالیاتی نظام ختم نہیں ہوجاتا۔یہودی دولت کے حصول کے لئے دنیا کا کوئی مکروہ ترین کاروبار کرنے سے نہیں چوکتے۔

صہیونی ڈرگ و مالیاتی مافیاز کو ختم کئے بغیر اللہ کی زمین پر امن قائم نہیں ہوسکتا۔مہذب دنیا جس میں چاہے گورے ہوں یا کالے یورپین ہوں یا ایشیائی وہ فلپ کی شکل میں میکسیکو کا صدر ہو یا ایران کے احمد نژاد کے روپ میں وہ پاکستان کا شہری ہو یا سعودی عرب کا مسلمان۔صہیونیوں کی فتنہ گریوں کو روکنے کے لئے ساروں کو متحد ہونا پڑے گا ورنہ ایک طرف منشیات انسانیت کو سسکا سسکا کر مارتی رہے گی تو دوسری طرف دنیا کے کونے کونے میں خون کے سمندر بہتے رہیں گے۔

کیا یہ ساری دنیا کی بد نصیبی نہیں کہ روئے ارض پر موجود چھ ارب سے زائد انسانوں کو کل ابادی میں س صرف0.2 کا حصہ رکھنے والے یہودیوں و صہیونیوں نے یر غمال بنا رکھا ہے۔

بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل