Sunday, September 27, 2009

امریکہ ٹوٹنے کے قریب





تحریر: محمد حنیف مسرور


اسلام مخالف جنگوں اور معاشی بد حالی کے نتائج



کئی ریاستیں ہمسایہ ممالک میں ضم ہونے کو تیار

امریکی و مغربی ذرائع ابلاغ کی رپورٹیں

امریکہ اور اسکے حاشیہ بردار ممالک، تھنک ٹینک ادارے اور شخصیات ایک عرصہ سے
پاکستان کیخلاف ایک پراپیگنڈہ وار یا نفسیاتی مہم چلا رہے ہیں۔ مختلف رپورٹوں اور بیانات میں تواتر سے یہ پیشین گوئیاں کی جارہی ہیں کہ پاکستان معاذاللہ بس چند دن یا چند برسوں کا مہمان ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان دنیا کے دو غیر فطری ممالک ہیں۔ کبھی ایسے نقشہ جات تیار کیے جاتے ہیں جن میں ان ممالک کو دوسرے ممالک میں ضم یا مدغم ہوتے دکھایا جاتا ہے۔

آجکل پاکستان کیخلاف اس پراپیگنڈہ وار میں انتہائی شدت آچکی ہے۔ پاکستان کے کسی بھی علاقے میں تھوڑی سی بھی بے چینی پیدا ہوجائے تو تو اسے ایک خوفناک طوفان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ بے چینی بھی اسی دشمن کی اپنی پیدا کردہ ہوتی ہے۔

اس سارے قضیے میں یہ بات حیران کن ہے کہ ان کافر طاقتوں خصوصاً امریکہ کو اپنی ناک کے عین نیچے دیکھنا گوارا نہیں ہے۔

اگر کوئی یہ کہے کہ امریکہ آئندہ برسوں یا 2025ء تک ٹوٹ جائیگا یا اسکی ریاستیں بکھر کر الگ ہوجائیں گی، یونائیٹڈ سٹیٹس میں یونائیٹڈ تو کیا امریکہ کا لفظ بھی نہیں بچے گا تو اس بات کو ایک دیوانے کی بڑ سے زیادہ نہیں سمجھا جائیگا۔

حقیقت یہ ہے کہ روس کے ٹوٹنے سے ایک دن پہلے تک بھی لوگوں کو یہ یقین نہ تھا کہ روس ٹوٹ جائیگا۔ وہ سوچتے تھے کہ اگر روس ٹوٹا بھی تو اسے ابھی کئی سو سال لگیں گے اور مستقبل قریب میں اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے۔

لیکن پھر دنیا نے دیکھا کہ ہفتوں مہینوں میں ہی روس کا نقشہ بدل گیا۔ اسکی کوکھ سے چودہ مسلم ریاستوں نے جنم لیا اور یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلک (USSR) میں صرف R یعنی روس یا رشیا رہ گیا۔

آج یہاں ہم حقائق پیش کرکے دنیا کو امریکہ میں تیزی سے ہونیوالی شکست و ریخت کا آئینہ دکھائیں گے۔

یہ بھی خیال رہے کہ ہم یہاں امریکہ کی تازہ معاشی بدحالی کے حوالے سے رپورٹیں پیش نہیں کر رہے۔ اگرچہ کہ یہ بدحالی بھی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اربن انسٹیٹیوٹ کی تازہ رپورٹ کیمطابق امریکہ میں عورتوں اور بچوں سمیت 35لاکھ شہری سڑکوں پر سوتے ہیں۔ رپورٹ کیمطابق امریکہ میں 35لاکھ شہری بے گھر ہیں۔ ان میں ساڑھے تیرہ لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔ صرف نیویارک میں 37ہزار افراد جن میں 16 ہزار بچے بھی شامل ہیں، روزانہ مارکیٹوں کے چھجوں کے نیچے سونے پر مجبور ہیں۔ اس سے پہلے امریکہ کی انتہائی دگرگوں معاشی صورتحال کے بارے میں یہ رپورٹیں منظر عام پر آچکی ہیں کہ کس طرح امریکہ کے برے بڑے بینک دیوالیہ ہوچکے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔

لیکن اس تمام خطرناک معاشی صورتحال سے قطع نظر آئیے دیکھیں کہ سیاسی طور پر امریکی ریاستوں میں کیسی خوفناک صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ دنیا کیلئے (اگرچہ کسی ملک کی تباہی کیلئے یہی واحد عنصر کافی ہوتا ہے جیسا کہ روس کیساتھ ہوا) یہ بات کس قدر حیرتناک ہوگی کہ ایک جانب امریکہ دنیا بھر میں مختلف اقوام اور ممالک کی آزادی چھیننے کیلئ فوجی کاروائیوں میں ملوث ہے تو دوسری جانب خود امریکہ میں ایسے درجنوں گروپ اور جماعتیں قائم ہوچکی ہیں جو امریکہ سے اپنی ریاستوں کی مکمل آزادی کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ اس سلسلے مین کئی جماعتوں نے امریکی وفاقی حکومت کے غیر معمولی اختیارات کے خاتمے اور امریکی ریاستوں کی مکمل آزادی اور علیحدگی کا حق دینے کیلئے قانون سازی کا مطالبہ کیا ہے۔

ان تنظیموں کا مؤقف یہ ہے کہ امریکہ کی وفاقی حکومت انکی ریاست سے جو ٹیکس وصول کرتی ہے اسکا بہت ہی کم حصہ ریاست کی فلاح و بہبود پر خرچ کرتی ہے جبکہ امریکی حکومت امریکی عوام کے ٹیکسوں کی آمدنی سے دنیا کے مختلف حصوں میں جو بھی فوجی کاروائیاں کررہی ہے اس کا بوجھ ٹیکسوں کی شکل میں امریکی عوام پر ہے اور انھیں شدید معاشی و اقتصادی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ایک امریکی مصنف جیرڈ ڈائمنڈ نے اپنی کتاب (The Collaps زوال) میں امریکہ میں علیحدگی پسند رحجانات کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اامریکہ میں سیاسی ٹوٹ پھوٹ شروع ہو گئی ہے اور امریکہ آئندہ پانچ سے دس سالوں میں سوویت یونین کی طرح بکھر جائیگا۔ جیرڈ ڈائمنڈ نے اسکی چار بڑی وجوہ بیان کی ہیں جن میں سرفہرست اقتصادی وجوہات ہیں۔ جیرڈ ڈائمنڈ کا کہنا ہے کہ امریکہ اقتصادی طور پر کھوکھلا ہوچکا ہے اور اسکی معیشت مندی کا شکار ہے۔ اسکی سرحدیں وسیع ہوچکی ہیں اور وہ اپنی ریاستی حدود میں مزید توسیع کیلئے وہی غلطیاں دہرا رہا ہے جو اس سے پہلے تباہ ہونیوالی سلطنتوں نے کیں۔

امریکی حکومت دنیا بھر میں ہونیوالی فوجی کاروائیوں میں ملوث ہے اور اسکے بجٹ کا ایک بڑا حصہ فوجی اخراجات پر مشتمل ہے۔ امریکی عوام شدید اقتصادی مشکلات کا شکار ہیں۔ انھیں ناانصافی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سمیت بدترین اقتصادی پریشانی کا سامنا ہے۔ لیکن ایلیٹ کلاس یعنی طبقہ اشرافیہ کو انکی کوئی پرواہ نہیں۔

امریکی سکالر اور کئی کتب کے مصنف کرک پیٹرک سیل نے اپنی کتاب

The Collapse of American Empire



پیٹرک سیل نے لکھا کہ اسوقت امریکی اداروں کا شمار دنیا کے انتہائی بدعنوان اداروں میں ہوتا ہے۔ عوام انصاف کے حصول کیلئے ترس رہے ہیں اور ساری دنیا کو انسانی حقوق کا درس پڑھانے والا امریکہ خود اپنے عوام کے بنیادی حقوق غصب کرنے کیلئے قانون سازی کررہا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ امریکہ کی صنعتی ترقی نمائشی ہے کیونکہ اسکی مجموعی قومی پیداوار میں صنعت کا حصہ صرف 13 فیصد ہے۔ امریکہ کو 13 ارب ڈالر کے خسارے کا سامنا ہے۔ اب وہ چین سے 83 ارب ڈالر کا قرض مانگ رہا ہے تاکہ اسکی ادائیگیوں کا توازن بہتر ہوسکے۔ دوسری جانب امریکی وفاقی بجت کو 700ارب ڈالر کے خسارے کا سامنا ہے۔ امریکہ جو ساری دنیا کو قرضہ دیتا تھا اب خود 10کھرب ڈالر کا مقروض ہے۔



کرک پیٹرک نے لکھا ہے کہ امریکہ پر دنیا بھر میں فوجی کاروائیوں کے اخراجات کا ایسا بوجھ ہے جو اسے تباہ کرنے کیلئے کافی ہے۔ اسوقت 4لاکھ 46 ہزار فوجی دنیا بھر میں 725 فوجی اڈوں پر تعینات ہیں اور یہ فوجی ادے دنیا کے 38ممالک میں واقع ہیں۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے امریکی بحری بیڑوں کی تعداد ایک درجن سے کم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی عوام کی پریشانیوں اور مشکلات میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے اور اسکے نتیجہ میں اب امریکی دانشور اور سکالر یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ کیا امریکہ دنیا بھر میں جو جنگیں لڑ رہا ہے کیا وہ اسکی سلامتی کیلئے ضروری ہیں بھی یا نہیں۔

چنانچہ گزشتہ دنوں دو امریکی اداروں زوگبی اور مڈل بری انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام مختلف امریکی ریاستوں میں یہ سروے کیا گیا کہ کیا امریکی ریاستوں کو وفاق سے الگ ہوجانا چاہیئے۔ سروے کے نےائج کیمطابق 22 فیصد رائے دہندگان نے رائے دی کہ ہر امریکی ریاست کو امریکہ سے علیحدگی کا حق حاصل ہے اور اگر وفاقی حکومت عوامی مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی تو پھر ہر ریاست کو اپنے عوام کی فلاح و بہبود اور اقتصادی بہتری کیلئے وفاق سے علیحدہ ہوجانا چاہیئے۔

کرک پیٹر کا کہنا ہے کہ اس موضوع پر ہرسال سروے ہوتا ہے اور گزشتہ سال کے دوران امریکہ سے علیحدگی کے حق میں رائے دہندگان کے تناسب میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
انھوں نے لکھا ہے کہ 1990ء کے عشرے میں صرف 5فیصد امریکی علیحدگی کے حامی تھے لیکن اب انکا تناسب بڑھ کر 22فیصد یعنی چار گنا تک ہو چکا ہے۔ کرک پیٹرک سیل کا کہنا ہے کہ قانونی طور پر صرف تین امریکی ریاستوں رہوڈز آئی لینڈ، نیویارک اور ورجینیا کو امریکی وفاق سے علیحدگی کا حق حاصل ہے۔ امریکی وفاق کی اہم ترین دستاویز یعنی دسویں ترمیم میں امریکہ میں شامل ہونیوالی ریاستوں کے علیحدہ ہونے کے بارے میں کوئی تذکرہ شامل نہیں ہے۔

جب جنوبی ریاستوں نے انیسویں صدی میں امریکہ سے علیحدہ ہونیکی کوشش کی تو یہ مسئلہ امریکی کانگریس میں اٹھا اور کانگریس نے علیحدگی پر پابندی لگا دی۔ لیکن امریکی آئینی ماہرین کانگریس کی اسی قرارداد کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ کانگریس اگر علیحدگی پر پابندی لگا سکتی ہے تو علیحدگی کی اجازت بھی دے سکتی ہے۔

کرک پیٹرک سیل کا کہنا ہے کہ اگر کوئی بھی امریکی ریاست مثال کے طور پر کیلیفورنیا وفاق سے الگ ہونیکی کوشش کرتی ہے تو کیا امریکی فوج اس ریاست کے عوام پر اسی طرح گولیاں چلا سکتی ہے جسطرح اس نے فلوجہ یا بغداد کے بے گناہ شہریوں پر چلائیں، یا جسطرح اس نے ویت نام اور افغانستان میں عام شہریوں کا قتل عام کیا۔

اسوقت کم از کم 17 امریکی ریاستیں ایسی ہیں جو وفاق کو ٹیکس ادا کرتی ہیں لیکن اس سے کہیں کم ان پر خرچ کیا جاتا ہے اور انھیں ریاستوں میں علیحدگی کے شدید جذبات موجود ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کیلیفورنیا امریکہ سے الگ ہوجاتا ہے تو اسکی ٹیکسوں کی آمدنی میں 232فیصد کا اضافہ ہوجائیگا۔

کرک پیٹرک نے اہنی کتاب میں ان تنظیموں کے نام بھی شائع کیے ہیں جو اپنی ریاستوں میں امریکہ سے علیحدگی کی مہم برے زور و شور سے چلا رہے ہیں۔ ان تمام جمعتوں، تنظیموں اور گروپس کی اپنی ویب سائیٹس بھی ہیں اور یہ گروپس اپنے رسائل، اخبارات اور ٹی وی چینل بھی چلاتے ہیں۔

ان میں سب سے بڑا گروپ امریکن سیکسیشن پراجیکٹ ہے جو آزاد الاسکا اور آزاد کیلیفورنیا کی مہم چلا رہا ہے۔ دوسرا بڑا گروپ مڈل بری انسٹیٹیوٹ ہے جو 2004ء میں نیویارک میں قائم ہوا اور اسکا مطالبہ ہے کہ اقوام متحدہ امریکہ کی 51 ریاستوں کو الگ الگ خودمختار ریاست تسلیم کرے اور انھیں رکنیت بھی دے۔ گروپ کا مطالبہ ہے کہ تمام امریکی ریاستوں کی علیحدگی کا حق آئینی طور پر تسلیم کیا جائے۔ تیسرا گروپ سویس کنفیڈریشن گروپ 2006ء میں قائم ہوا اور اسکا مطالبہ ہے کہ امریکہ کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بجائے ایک کنفیڈریشن قرار دیا جائے۔


مختلف ریاستوں کی علیحدگی پسند تنظیمیں

الاباما لیگ آف ساؤتھ سٹیٹ نامی تنظیم الاباما ریاست کی امریکہ سے علیحدگی کیلئے جدو جہد کررہی ہے۔

الاسکا انڈیپنڈنس پارٹ ریاست الاسکا کی آزادی کیلئے جدوجہد کررہی ہے۔ کیلیفورنیا کی آزادی کیلئے دو جماعتیں کام کررہی ہیں۔ ان میں ایک جماعت کیلیفورنیا ریپبلک ہے۔ اس جماعت پر امریکی حکومت نے پابندی لگا رکھی ہے۔ دوسری تنظیم کا نام کیلیفورنیز فار انڈیپنڈنس ہے۔ کساوڈیا کی آزادی کیلئے کام کرنیوالی ایک جماعت کا نام کساوڈیا انڈیپنڈنس پراجیکٹ ہے۔ یہ تین ریاستوں واشنگٹن، اوریگان اور برٹش کولمبیا کی آزادی کیلئے کام کر رہی ہے۔

جارجیا کی آزادی کیلئے تین گروپ کام کر رہے ہیں۔ ان میں جارجیا لیگ آف دی ساؤتھ، سدرن پارٹی آف جارجیا اور ڈکسی براڈکاسٹنگ شامل ہیں۔ ریاست ہوائی کی آزادی کیلئے پانچ گروپس کام کر رہے ہیں۔ ان میں فری ہوائی، ہوائی کنگڈوم، ہوائی نیشن، کالاہوئی ہوائی اور انسٹیٹیوٹ آف ہوائین افیرز شامل ہیں۔ لوزیانہ کی آزادی کیلئے کام کرنے والی تنظیم کا نام لوزیانہ لیگ آف دی ساؤتھ ہے۔ ریاست “مین“ کی آزادی کیلئے دو تنظیمیں کام کررہی ہیں جن میں فری مین اور سیکنڈ مین شامل ہیں۔

اسکے علاوہ جن امریکی ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں شروع ہو چکی ہیں، انکے نام یہ ہیں:

نیو انگلینڈ
نووا کاڈیا
لبرٹی
نیو ہیمپشائر
لانگ ائی لینڈ نیویارک
نارتھ کیرولینا
اوہائیو
پنسلوانیا
پورتو ریکو
ساؤتھ کنفڈریٹ ریجن
ساؤتھ کیرولینا
ٹیکساس
ورمونٹ
منی سوٹا
وسکنسن
مشی گن

حال ہی میں امور خارجہ کے ایک روسی سکالر آئی گورپینارن نے یہ پیشین گوئی کی ہے کہ امریکہ جلد ہی ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیگا۔ اس نئے عالمی منظر نامے کے بعد روس اور چین نئے عالمی لیڈر کے طور پر سامنے آئینگے۔

روسی وزارت دفاع کے خارجی معاملات کیلئے قائم ڈپلومیٹک اکیڈمی کے ڈین “آئی گور“ کے مطابق امریکہ کے حالات یکدم بہت زیادہ خراب ہونا شروع ہوجائینگے اور خانہ جنگی کی نوبت آ جائے گی۔ آئی گور کی حالیہ پیشین گوئی نے دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی ہے۔

معروف امریکی جریدے، وال سٹریٹ جرنل کو حال ہی میں دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ وہ امریکیوں کو ناپسند نہیں کرتے لیکن حقیقت بڑی تلخ ہے اور وہ یہی ہے کہ امریکہ کی بطور ایک فیڈرل ریاست صورتحال خراب ہوتی چلی جارہی ہے۔

آئی گور کیمطابق امریکہ 6نئی ریاستوں میں تبدیل ہوجائیگا جو مختلف ممالک کی دست نگر ہونگی۔ ان ریاستوں کے خدوخال کے بارے میں آئی گور کا خیال ہے کہ پہلی ریاست جمہوریہ کیلیفورنیا ہوگی جو چین کا حصہ یا اسکی دست نگر ہوگی۔ یہ ریاست کیلیفورنیا، واشنگٹن، ایریگن، نویڈا، ایریزونا اور اوہائیو پر مشتمل ہوگی۔

دوسری ریاست ٹیکساس ریپبلک کہلائے گی جوکہ ٹیکساس، نیو میکسیکو، اوکلاہوما، لوزیانہ، آرکنساس، مسی سپی، الاباما، چارجیا، اور فلوریڈا پر مشتمل ہوگی اور یہ روس کا حصہ یا اسکے ماتحت ہوگی۔

تیسری ریاست اٹلانٹک امریکہ کہلائے گیاور یہ ریاست یورپی یونین میں شمولیت اختیار کرسکتی ہے۔ یہ ریاست شمال مشرقی امریکہ، کنٹکی اور شمالی و جنوبی کیرولیناپر مشتمل ہوگی۔

آئی گور کیمطابق چوتھی ریاست شمالی وسطی امریکی ریاست ہے۔ یہ ریاست کینیڈا کا حصہ یا اسکے ماتحت کام کریگی۔ اس ریاست میں مڈ ویسٹ، مونتانا، یومنگ اور کلوراڈو شامل ہونگے۔

پانچویں ریاست الاسکا ہوگی جو کہ باضابطہ روس کے کنٹرول میں کام کریگی۔

چھٹی ریاست ہوائی چین یا جاپان کا حصہ ہوسکتی ہے۔

روسی سکالر آئی گور نے اپنی یہ پیشین گوئی حال ہی میں ماسکو میں اپنے ایک لیکچر کے دوران دہرائی۔ انھوں نے کہا کہ وہ یہ سارا عمل 2010ء تک ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ آئی گور کا کہنا ہے کہ وہ بذات خود امریکہ کے ٹوٹنے کیخلاف ہیں لیکن ایسا ہوتا صاف دکھائی دے رہا ہے۔

امریکہ کے بارے میں ایسی پیشین گوئیوں کا منظر عام پر آنا کوئی نئی بات نہیں۔ کئی عالمی تجزیہ نگار ایسی پیشین گوئیاں یا تجزیات کا اظہار کرچکے ہیں۔ آئی گور کی یہ پیشین گوئیاں ایسے وقت میں سامنے ائی ہیں جبکہ امریکہ میں انتخابات کے بعد نئے صدر اوبامہ حکومت سنبھال چکے ہیں۔ اور امریکی معیشت بھی شدید مندی کا شکار ہے۔ بینکنگ اور ہاؤسنگ کے شعبے بری طرح انحطاط کا شکار ہیں۔ کئی بڑے بینکوں اور مالیاتی اداروں کا دیوالیہ نکل چکا ہے۔ عراق جنگ نے امریکی معیشت کا بھرکس نکال دیا ہے۔ لیکن اب عراق سے اوبامہ فوجیں نکالنے کا عندیہ تو دے چکے ہیں لیکن انکا ابھی افغانستان سے نکلنے کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا۔ اور اسی لئے آئی گور یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان ہی امریکی افواج کا قبرستان ثابت ہوگا۔اور یہیں سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے توتنے کی بنیاد پڑیگی۔

مشہور مصنف محترم انور اقبال اپنے ایک مضمون، جسکا عنوان ہے

“2025ء تک امریکی عہد کا سورج غروب ہوچکا ہوگا“

میں لکھتے ہیں کہ امریکی حکومت کے ایک تحقیقی ادارے (نیشنل انٹیلیجنس کونسل) کی رپورٹ کیمطابق2025ء تک امریکہ دنیا کی سپر پاور کے طور پر نہیں رہ سکے گا بلکہ اسکی جگہ روس اور چین جیسے ممالک لے لینگے۔

غرضیکہ یہ امریکی اور مغربی رپورٹیں ہیں جو یہ چیخ چیخ کر بتا رہی ہیں آئندہ چند سالوں میں امریکہ سیاسی و معاشی طور پر زبردست ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونیوالا ہے۔ امریکہ کی تباہی کا آغاز تو اسی دن ہوگیا تھا جب اس نے مسلم دنیا کیخلاف صلیبی جنگ کا غیر اعلانیہ آغاز کیا تھا۔

نئے امریکی صدر اور صہیونی کٹھ پتلی اوبامہ نے اگرچہ عراق سے کچھ توبہ کرلی ہے اور وہاں سے افواج نکالنے کا عندیہ دیا ہے تاہم وہ افغانستان سے ابھی نکلنے کو ابھی تیار نہیں بلکہ اب امریکہ پاکستان پر حملے کیلئے بے چین ہے۔ اسکے لئے وہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان میں ایسے حالات پیدا کررہا ہے کہ جن کی آڑ میں وہ پہلے تو پاکستان کو بری طرح غیر مستحکم کریگ اور پھر عدم استحکام اور بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کا بہانہ بنا کر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کی کوشش کریگا لیکن امریکہ کا یہ خواب انشاء اللہ ایک خواب ہی رہیگا۔

جو ملک افغانستان جیسے ایک چھوٹے اور پسماندہ ملک پر قبضہ نہیں کرسکا وہ پاکستان جیسے ایک ایٹمی ملک پر کیسے قابض ہوگا۔

دراصل امریکہ کی پاکستان پر موجودہ یلغار اسلئے ہے کہ وہ خود اب چراغ سحری ہے اور جسطرح چراغ کا اپنے آخری دموں پر بھبھوکا بظاہر کچھ زیادہ ہوتا ہے لیکن اسکے بعد اسکی ہمیشہ کیلئے موت ہوتی ہے۔۔ یہی صورتحال امریکہ کی بن چکی ہے ۔ امریکی حکومت کو نوشتہ دیوار سامنے نظر آچکا ہے اور اب وہ اپنے آخری ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔

امریکہ کی اس قریب المرگ حالت کے بارے میں فی الحال کوئی بھی یقین کرنے کو تیار نہیں، نہ تو مسلمان اور نہ خود امریکی شہری۔
لیکن جس کو اپنا شک دور کرنا ہو تو امریکہ ہی کی ایک بڑی مالیاتی کمپنی کے سابق چیف ماہر معاشیات انتھونی کیری ڈاکس کا درج ذیل یہ بیان پڑھ لے جو کہ انٹرنیٹ کے ایک بلاگ

debtredutionformula.com



انتھونی لکھتے ہیں کہ: “عام امریکی اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں کہ کہ امریکی حکومت ایک مالی بحران میں داخل ہوچکی ہے۔ غالباً اسکی وجہ یہ ہے کہ عام شہری سچ نہیں سننا چاہتے ہ وہ اپنی لاعلمی سے لطف اندوز ہوتے ہیں یا پھر ایسا بھی ممکن ہے کہ جذبہ حب الوطنی سے انکی ذہن سازی ایسی کردی گئی ہے کہ امریکی معیشت ہمیشہ قوی رہیگی اور امریکہ عظمت کی ان بلندیوں تک پہنچ گیا ہے جہاں سے پستی ممکن نہیں۔ موجودہ امریکی مالی بحران کے نتیجے میں اجتماعی امریکی نفسیات کو متاثر کرنے میں کئی عوامل زیر گردش ہیں۔ عوام کا بیشتر طبقہ اس خوش فہمی میں ہے کہ آخر کار “خوش فہمی“ ہی انکا مقدر ہے۔ تاہم یہ صاف عیاں ہورہا ہے کہ ہم ایسے انجام تک پہنچ چکے ہیں اور قیامت ٹوٹنے والی پے“
25 ریاستوں میں علیحدگی کے رحجانات میں کئی گنا اضافہ میں لکھا کہ میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن جس تیزی سے اقتصادی حالات خراب ہورہے ہیں، لوگ زیادہ دن کھیل تماشے میں نہیں لگے رہیں گے۔ پر پڑھا جاسکتا ہے: 2000ء کے بعد سے یورو کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قدر 30فیصد تک گرچکی ہے۔ اس وجہ سے لوگوں کا اعتبار امریکی ڈالر سے اٹھ گیا ہے اور انھوں نے امریکہ میں سرمایہ کاری کرنی چھوڑ دی ہے۔ اب وہ دن دور نہیں جب تیل پیدا کرنیوالے ممالک امریکی ڈالر میں قیمت وصول کرنے کی بجائے یورو یا چینی یوآن میں کاروبار شروع کردینگے۔


بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل

Friday, September 25, 2009

جاگ پاکستانی جاگ - - - - دشمن پہچانیے۔





تحریر: عثمان فاروق

مقصد

غریب و مظلوم کو بیداری سے طاقت دینا

۱۔ حقیقی مسائل اور ان کے حل کا ادراک

۲۔ سیاسی تربیت

۳۔ اجتماعیت

۴۔ جمہوریت


اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخرِ امراء کے درو دیوار ہلا دو
گرماؤ غلاموں کا لہو ذوق یقین سے
کنجشک مودبانہ کو شاہین سے لڑا دو
(اقبال)



مسائل اور ان کے حل کا حقیقی ادراک


غربت: جب آمدن ضروریاتِ زندگی خریدنے کے لئے نا کافی ہو
بیروزگاری: کم مواقع ملازمت یا باصلاحیت افراد کا نچلے درجے پر کام کرنا
معاشرتی ناانصافی: وسائل کی غیر مناسب تقسیم۔ معاشرے اور انتظامی ڈھانچے کا ہر فرد سے معاشی و معاشرتی مرتبے کے لحاظ سے برتاؤ۔

پانی: پینے کے پانی کا کم ہونا اور صاف نہ ہونا اور کاشت کاری کے لئے پانی کا ناکافی ہونا۔

جہالت: کم شرح خواندگی اور یا صلاحیت افراد کی کمی۔ سیاسی تربیت کا نہ ہونا۔

امن وامان: عدالتوں اور پولیس کا عوام کوتحفظ نہ دے سکنا۔



مہنگے ذرائع توانائی:

پوری دنیا اب ایک عالمی اقتصادی آرڈر سے گزر رہی ہے جہاں اقتصادی ترقی کے لئے دوڑ لگی ہوئی ہے اور یہی بقا اورسلامتی کا واحد پیمانہ بن کر رہ گئی ہے۔ اس لئے ہر ملک برآمدات بڑھانہ چاہتا ہے۔اس دوڑ میں صرف وہی کامیاب ہو سکتا ہے جو معیاری اور کم قیمت اشیا پیدا کر سکے کیونکہ صارف صرف سستی اور معیاری اشیا ہی خریدنا چاہتا ہے۔ہر چیز کی قیمت اس کے پیداواری خرچے کے مطابق ہوتی ہے۔

تین اجزا مل کے پیداواری خرچے کا تعین کرتے ہیں خام مال لیبر اور توانائی(کوئلہ تیل گیس اور بجلی) کی قیمت جبکہ خام مال اور لیبر کی قیمت بھی توانائی پر منحصر ہوتی ہے۔ اس لئے کم قیمت اشیا پیداکرنے کے لئے سستی توانائی کی اشد ضرورت ہے بصورت دیگر لوگ دوسرے ممالک کی اشیا خریدتے ہیں کیونکہ وہاں سے سستی ملتی ہیں۔ جہاں توانائی سستی ہوتی ہے وہاں اشیا کی قیمتیں بھی کم ہوتی ہیں۔

کم شرح خواندگی اور زیادہ آبادی والے ممالک میں صنعتی ترقی کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا کیونکہ افرد کی تعلیمی قابلیت اتنی نہیں ہوتی کہ وہ خدمات کے شعبہ میں کام کر سکیں۔ ایک ان پڑھ فرد استا د ڈاکٹر یا انجینئر تو نہیں بن سکتا لیکن وہ کسی فیکٹری یا کھیت میں آسانی سے کام کر سکتا ہے۔صنعت اور زراعت ہی کروڑوں افرد کے لئے ملازمت کے مواقع پیدا کرسکتے ہیں نہ کہ سکول ہسپتال یا خدمات کے دیگر

شعبہ جات:
تمام فیکٹریز بجلی سے چلتی ہیں۔ اگر بجلی سستی ہو تو اور زیادہ فیکٹریز لگیں گی کیونکہ لوگ سستی اشیا پیدا کر سکیں گے۔ اسلئے اگرملکی انڈسٹری کو ترقی دینی ہے جس کا مطلب عوام کو ملازمت دینا ہے تو اس کا واحد حل سستی توانائی(کوئلہ تیل گیس اور بجلی) ہے۔ اس کے علاوہ چاہے حکومت اقتصادی ترقی کے جتنے مرضی جتن کر لے ملک ترقی نہیں کر سکتا کیونکہ تونائی مہنگے ہونے کی وجہ سے پہلے ہی بہت ساری فیکٹریز بند ہوگئیں کیونکہ وہ بین الاقوامی قیمتوں کا مقابلہ نہ کرسکیں۔

اس کے نتیجے میں مالک کا تو نقصان ہوتا ہی ہے لیکن افراد کو ملازمت نہیں ملتی اور وہ در بہ در پھرتے ہیں ۔ اب دنیا کے ہر گھر میں چینی مصنوعات پہنچ چکی ہیں کیونکہ وہ سستی ہیں۔ چینی مصنوعات سستی ہیں کیونکہ وہاں تونائی سستی ہے اور ایک یونٹ ایک ہزار کلوواٹ کو ہوتا ہے جبکہ ہمارے ہیں بجلی ان سے کئی گنا مہنگی اور یونٹ چھ سو کلوواٹ کا ہوتا ہے۔ اگر کوئی اور ادار ہ اپنے ناپ تول میں فرق رکھے تو وہ اس جرم پر مصیبت میں پھنس جاتا ہے لیکن واپڈاکا ہر میٹر ہزار کلوواٹ کی بجائے چھ سو کلو واٹ ناپ رہا ہے۔ہم یہاں مہنگی توانائی خرید کو بین الاقوامی منڈی کا کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں خاص کر جب حکمرانوں کو عالمگیرت کا بخار چڑا ہوا ہو۔

صدر اور وزیر اعظم ملکوں ملک انویسٹر کی تلاش میں بھاگے پھر رہے ہیں تا کہ لوگ ملک میں پیسہ لگائیں لیکن تمام پارلیمنٹ سینٹ اور ساری صوبائی اسمبلیوں میں سے ایک نمائندہ بھی اربوں روپے کی مالک ہوتے ہوئے بھی ایک پیسہ ملک میں لگانے کو تیا ر نہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ یہ گھاٹے کا سودا ہے اور بجلی مہنگے ہونے کی وجہ سے کوئی ایک بھی کاروبارو منافع بخش نہیں رہا۔

یہ رک کر سوچنے کا وقت ہے کہ ہماری حکومت کی ترجیحات کیا ہیں۔ حکومت کس کے فائدے کے لئے یہ سب کچھ کر رہی ہے۔ ایک بات تو واضح ہے کہ اس سے عوام اور پاکستان کو فائدے کے بجائے نقصان ہو رہا ہے۔اپنے لوگوں کا رزق چھین کر دوسرے کو پال رہے ہیں۔ اس وجہ سے ہمارہ معاشرہ ایک صارف معاشرہ بن گیا ہے جہاں اشیا استعمال تو کی جاتی ہیں لیکن بنائی نہیں جاتیں۔اشیا دوسرے ممالک میں پیدا ہوتی ہیں ہم یہاں استعمال کرتے ہیں یوں دوسرے ممالک ہم سے پیسہ کماتے ہیں۔

ایک معمولے سی کپڑے سینے والی سوئی سے لے گر بڑی سے بڑی شے باہر سے آرہی ہے تو اس سے بیروزگاری کی سوا اور ہو گیا کیا اور بیروزگاری امن عامہ کے مسائل پیدا کرتی ہے کیونکہ لوگوں کو جب جائز طریقے سے ان کا حق نہیں ملتا تو وہ چھین لیتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگ اپنے ان مسیحاؤں کے روپ میں دشمنوں کو پہچانیں اور جذباتی اور نعرہ بازی کی سیاست سے نکل کر ان کے عمل کو دیکھیں کیونکہ یہ سارے اداکار ہیں۔

اداکاردوسروں کو اپنی حرکتوں سے محظوظ تو کر سکتے ہیں لیکن ان کے پیٹ میں لگی آگ نہیں بجا سکتے۔عمل میں یہ سارے عوام کے دشمن ہیں اور باتوں سے عوام کا پیٹ نہیں بھرتا۔ سوچئے۔۔۔۔۔۔ ان کے قول و فعل کے تضاد کا جائزہ لیجئے۔

غربت ختم کرنے کا حکومتی طریقہ غریب کو خود کشی پر مجبور کر کے مارنے کا ہے۔کوئی باہر سے دشمنی کرے تو دکھ کم ہوتا ہے لیکن جب اپنے ہی دشمن ہو جائیں تو اس کا درد صرف پاکستانی عوام ہی جان سکتے ہیں۔ وہ لوگ جنہیں ہم لاکھوں ووٹ دے کر پارلیمنٹ میں بیجتے ہیں وہ وہاں عوام دشمنی کی ایسی ایسی مثالیں قائم کرتے ہیں جس سے عوام کا ہر دن عذاب بن جاتا ہے۔

غربت ضروریات زندگی اور آمدن کے درمیان فرق کو کہتے ہیں۔ اگرآمدن ضروریات زندگی خریدنے کے لئے کافی ہو تو فرد غریب نہی ہوتا۔ اشیا قوت خرید سے اس وقت باہر نکلتی ہیں جب ان کی قیمت بہت زیادہ ہو۔ کسی چیز کی قیمت کا انحصار اس کی پیداواری لاگت پر ہوتا ہے اور پیداواری لاگت کا انحصار توانائی کی قیمت پر ہوتا ہے۔ پاکستان میں کم پن بجلی ہونے کی وجہ سے زیادہ تر بجلی تیل سے پیدا ہوتی ہے۔
حکو مت پاکستان کی ملی بھگت سے تیل کمپنیاں پاکستان کو دن رات لوٹ رہی ہیں۔ اور یہ سب متعلقہ اداروں کے علم میں ہے لیکن وہ اپنا بھتا وصول کرکے چین ہی چین لکھتے ہیں۔

تیل کی قیمتیں پاکستان میں او آئی اے سی متعین اور کنٹرول کرتی ہے۔ اس ادارے پر تیل کمپنیوں کی اجارہ داری ہے یوں وہ ہر ہفتے تیل کی قیمت بڑھا دیتی ہیں۔ آئیں اس فراڈ کی تفصیل میں جائیں اور دیکھیں یہ ہمارے چنے ہوئے نمائندے حقیقت میں کن کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

او آئی اے سی ویسٹ ٹیکساس کی قیمت پر تیل کی قیمت مقرر کرتی ہے جبکہ پاکستان اپنی ضرورت کا زیادہ تر تیل مشرق وسطی سے خریدتا ہے جہاں تیل کی قیمت عموماً٠10١ ڈالر فی بیرل کم ہوتی ہے۔ا س کے علاوہ سعودی عرب اور کویت دوستانہ تعلقات کی وجہ سے بہت زیادہ تیل مفت فراہم کرتے ہیںاور پاکستان بھی اپنی ضروریات کا تقریباً بیس فیصد تیل خود پیدا کرتا ہے۔یوں حکومت پاکستان تیل زیادہ سے زیادہ 37ڈالر فی بیرل کے حساب سے خریدتی ہے۔ یہ سارا تیل عوام کو ویسٹ ٹیکساس کی قیمت پر بیچا جاتا ہے۔یہیں سے فراڈ کی ابتدا ہوتی ہے۔

تیل کی اصل قیمت خرید کی بجائے او آئی اے سی نے تیل کی قیمت نیپھتا سے جوڑی ہے۔ یوں او آئی اے سی سستا ترین تیل خرید کر اس کو مہنگی ترین ٹیکساس والی قیمت دے کر اس میں نیفتھا کی قیمت جمع کر کے قیمت مقرر کرتی ہے۔ یوں پانچ سال سے عوام کا خون نچوڑنے والی یہ کمپنیاں 30سے 40 ڈالر فی بیرل منافع حاصل کر رہی ہیں۔ پاکستان سالانہ ایک عشاریہ چار ملین ٹن تیل استعمال کرتا ہے۔

یوں ان کے منافع کا حساب لگانا مشکل نہیں ہے۔ان تیل کمپنیوں اور حکومتی ملی بھگت کایہ گھناؤنا کھیل یونہی ختم نہیں ہو جاتا بلکہ وہ سب سے زیادہ منافع ڈیزل سے کماتیں ہیں۔ کیونکہ پاکستان سالانہ 9.3ارب لٹر ڈیزل استعمال کرتا ہے۔ یوں وہ دن رات عوام کو لوٹ رہے ہیں۔

اس کے علاوہ ہر ادارہ اس فراڈ میں اپنے حصے کاکردار ادا کر رہا ہے۔ آئل ریفائنریز گھٹیا درجے کے تیل کو بہتر کوالٹی کا تیل کہ کر بیچتی ہیں۔ یوں وہ ایک بیرل تیل میں1.67ڈالر سے لے کر2.6ڈالر تیل فی بیرل قیمت میں اضافہ کرتیں ہیں ۔اس طرح وہ تقریباً٢٢22 ارب روپے عوام کی خون پسینے کی کمائی سے نچوڑتیں ہیں۔

یہ تیل مافیا تیل کی قیمت بڑھانے کے لیے ایک اور طریقہ بھی استعمال کرتا ہے ۔ یہ درآمد کردہ تیل پر ریگولیٹر ی ڈیوٹی کا ہے۔۔جبکہ او آئی اے سی ملکی کمپنیوں کو بھی یہ ڈیوٹی وصول کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ اس طرح ملکی تیل کمپنیاں4.8ارب روپے کااضافی کماتیں ہیں۔

مزید برآں آئل ریفائنریز ڈیزل میں مٹی کا تیل ملاتیں ہیں جو کہ مجرمانہ فعل ہے۔ اس طرح یہ کمپنیاں اور ریفائنریز اپنے منافع کو بڑھاتیں ہیں اور عوام کو لوٹتی ہیں۔ اس طرح نیشنل ریفائنری لمیٹد کے مارکیٹ شئر ٨٩٩چار روپے سے بڑہ کر 27.82ہو گئے۔جبکہ آڈیٹر جنرل نے ٥ ارب روپے مالیت کے تیل کی رئفائنری کے کاغذات میں خرد برد پائی۔او آئی اے سی کا کہنا ہے کہ اس کیس کی تفشیش کی صورت میں ریفائنری بند کرنی پڑے گی۔

فراڈ کا یہ گھناونے فعل کا اگلا حصہ پرچون تیل کی فروخت اور اس کی مارکیٹینگ کا ہے،1999سے پہلے یہ کمپنیاں0.22سے 0.55روپے فی لٹر حاصل کرتیں تھیں لیکن بعد میں سیکٹری پڑولیم نے کابینہ کے سامنے جھوٹ بولا کہ پرچون کا منافع ٢۲ فیصد ہے اور اب اسے بڑھانے کی ضرورت ہے جو کہ پہلے ۳٣ فیصد کیا جائے گا اور بعد میں 3.5فیصد ہو گا۔ لیکن حقیقت میں یہ50 سے 75فیصد ہے۔

خدارا، آنکھیں کھولیے اور اپنے دوست کے روپ میں دشمن کو پہچانئے۔ ہرلمحے عوام کی زندگی ایک عذاب بنا کر رکھ دی گئی ہے۔ تیل گیس اور بجلی کی کم قیمتیں ملکی ترقی کے لئے بہت اہم ہیں۔کم قیمتیں اشیا کا پیداواری خرچہ کر کر سکتیں ہیں یوں ملکی مصنوعات بکنے کی وجہ سے زیادہ روزگار کی مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ورنہ بھوکے لوگ خود کشیا ں کرتے ہیں یا دوسروں سے چھین کر کھاتے ہیں۔

جتنی توانائی سستی ہو گی ملک اتنی ہی ترقی کرے گا اگر توانائی کے مہنگے ہونے سے ترقی ہوتی تو امریکہ میں توانائی پوری دنیا سے مہنگی ہوتی اس لئے مسئلے کا حل صرف یہی ہے کہ توانائی کو سستا کیا جائے۔ اب یہ حکومت کے کرنے کا کام تو ہے نہی اور نہ وہ کبھی یہ کرے گی کیونکہ یہ ان کی ترجیحات میں شامل نہی ہے اور نہ یہ ان کا مسئلہ ہے اس لئے آؤ سب اس بات پر اکٹھے ہو جائیں۔

اگر سارا پاکستان آج یک زبان ہو کر کہے کہ ہمیں سستی توانائی چاہئے تو کوئی وجہ ہی نہی کہ ایک دن میں بجلی, تیل گیس اور کوئلا سستا ہو جائے۔ یہی واحد طریقہ تمام افراد کو ملازمت کی ضمانت دیتا ہے اور ملازمت امن کی ضمانت ہے۔ آج ہم سب میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ غربت ہے۔ آؤ اس ایک بات پر دوبارہ پاکستان کے جھنڈے کے نیچے اکٹھے ہو جائیں۔


پانی کی کمی:
بچپن میں کسی سے سنا تھاکہ بیٹا آب آب کہتے کہتے مر گیا اورماں پاس بیٹھی اسے دیکھتی رہی کیونکہ وہ بیچاری فارسی سے نا آشنا تھی۔ آج پاکستان کی55 فیصد آبادی جو زراعت سے وابستہ ہے پانی کے قطرے قطرے کے لئے بلک رہی ہے لیکن سیاستدان ہیں کہ کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ شائد وہ بھی ہماری زبان نہیں سمجھتے۔

ایک دوسرے کی زبان ایک جگہ اکھٹے رہنے اور میل جول سے آتی ہے۔ وہ اسلام آباد میں اور ہم سینکڑوں میل دورکسی دیہات میں۔ کیسے سمجھیں وہ ہماری بات۔ اگلی مرتبہ ہمیں ایسے افراد چننے چاہیں جو ہماری زبان سمجھ سکیں ورنہ ہم بھی آب آب کرتے مر جائیں گے۔

حیاتیات کی تعلیم کا ایک سبق یہ ہوتا ہے کہ پانی کے بغیرکوئی جاندار زندہ نہیں رہ سکتا۔ ملکی معیشت کی زندگی بھی پانی سے ہی ہے۔ کسی ملک کی معیشت کا انحصار اس کی پیداواری صلاحیتوں پر ہوتا ہے۔ جبکہ پیداوار کا انحصار پیداری خرچے پر ہوتا ہے۔ خام مال لیبر اور توانائی کی قیمتیں پیداواری خرچے کا تعین کرتے ہیں۔ خام مال زراعت اور کان کنی سے حاصل ہوتا ہے۔ خام مال اور لیبر کی قیمت بھی توانائی کی قیمت سی جڑی ہوتی ہے اور سستی تونائی صرف پانی سے ہی پیدا ہو سکتی ہے۔ یوں ساری معیشت کی ترقی پانی پر منحصر ہوتی ہے۔معاشی ترقی روزگار کے مواقع پیداکرتی ہے اور روزگار امن کی ضمانت ہے۔

ایک وقت تھاجب ہم پاکستان کی زرعی ملک کہتے نہیں تھکتے تھے لیکن آج ہم نہ زرعی ہیں اور نہ ہی صنعتی ملک۔ ملک کی۵۵ ٥٥فیصد آبادی زراعت سے بلاواسطہ وابستہ ہے۔ اگر پانی کم ہو تو اس کا مطلب ہے55 ٥٥فیصد آبادی پر بلاواسطہ اور باقی ٥٤45 فیصد آبادی پر بالواسطہ منفی اثر ہوگا کیونکہ بہت سارا سرمایا خوراک اور خام مال خریدنے پر صرف کرنا ہوگا جس سے صنعتی ترقی پر منفی اثر ہوگا۔

پہلے تو کاشتکاری کے لئے پانی کی کمی کا مسئلا تھااب کچھ سالوں سے پینے والا پانی بھی عوام کی پہنچ سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ صاف پانی صحت مند قوم کے لئے بے حد ضروری ہے کیونکہ گندہ پانی بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ یہاں ابھی بھی زیادہ تر آبادی صاف پانی کی نعمت سے محروم ہے۔ صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے صحت پر حکومت کو اس سے بھی زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے ۔ ایک صحت مند معاشرہ ترقی کے لئے بہت ضروری ہے۔

پانی کے مسئلے کا واحدذمہ دار بھار ت ہے لیکن اس میں ہماری اپنی حکومتوں اور شخصی فیصلوں کا بھی بہت دخل ہے کیونکہ ہم تک جو بھی مصیبت پہنچتی ہے ہمارے سیاستدانوں کے زریعے پہنچتی ہے۔آج تک کسی حکومت سے یہ نہیں ہو سکا کہ بھارت کو پانی چوری سے روکے۔ وہ پاکستان کو صحرا اور بنجرو بیابان بنانے کی پالیسی پر لگے ہوئے ہیں۔

پانی کے مسئلے کا جلد حل ناگزیر ہے بصورت دیگر اگلے کچھ سالوں میں ملک صحرا بن جائے گا۔ سپورٹ پرائس دینے سے صرف مہنگائی میں اضافہ ہو سکتا ہے پانی کا مسئلا حل نہیں ہو سکتا۔ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اس مسئلے کی وجہ سے بھار ت پاکستان میں صوبوں میں تعصب پیدا کررہا ہے۔ ہم اپنے اندرونی لسانی صوبائی و مذہبی تعصبات اور محلاتی سازشوں کی وجہ سے ملک کا ایک حصہ پہلے ہی کھو چکے ہیں۔ عوام کو ان موقع پرست سیاستدانوں سے بہت زیادہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے جو بیرونی ایجنسیوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر ملکی مفادات سے کھیل رہے ہیں اور اپنی ساری سیاست پانی پر کر رہے ہیں۔ یہ رک کر سوچنے اور اپنی ترجیحات کو پھر سے مرتب کرنے کا وقت ہے۔ دوست اور دشمن کو پہچاننا بہت ضروری ہے۔

اگر ہم آج مل کر بیٹھ جائیں تو یہ مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔ اس سے حاصل ہونے والاملکی فائدہ ناقابل اندازہ ہے۔ پانی پر سیاست کرنے والے افراد کی اپنی ایک مرلہ بھی زرعی زمین نہیں ہے انہیں ایک کسان کے دکھ کا کیا پتہ؟ جو پانی بھی بیرون ملک کا پیتے ہیں۔

اس لئے کوشش کرنی چاہئے کہ پانی کے مسئلے کو سنجیدگی سے سمجھیں اور ایک دوسرے کو مرودالزام ٹھہرانے کی بجائے بھار ت کی پالیسی کو سمجھیں اور اس کا کوئی حل نکالیں۔ پانی کی مسئلے کے حل کے کوئی زیادہ آپشن موجود نہیں ہیں۔ ایک ممکنہ حل ایک جدید آبپاشی نظام ہے۔ ایسے ساری ڈیم بنائے جا سکتے ہیں جو متنازع نہیں ہیں۔


کم شرح خواند گی:

ڈاکٹر مہاتیر محمد نے اپنے ایک خطاب میں فرمایا کہ جمہوریت نا خواندہ معاشرے کے لئے زہر ہے۔تعلیم اشرالمخلوقات کا پیدئشی حق ہے۔ ایک پڑھے لکھے اور ناخواندہ فرد کے معاشرتی رویے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ تعلیم انسان کو عرفان ذات سے روشناس کرتی ہے اور فرد کی صلاحیتوں کو نکھارتی ہے۔ انسان مانگنے کی بجائے اپنے علم و عقل کو استعمال کر کے کوئی راہ ڈھونڈ لیتا ہے۔ یوں لوگ دنیا میں ہونے والے تیز تر تبدیلیوں کے ساتھ بہتر طور پر رہنا سیکھتے ہیں یوں وہ عزت نفس کا سود ا نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ موجودہ پیشہ وارانہ ترقی کے دور میں باصلاحیت افراد کی بہت ضرورت ہے۔ جو صرف اعلی تعلیم حاصل کرنے سے ہی پیدا ہو سکتے ہیں۔

موجودہ دور سائنس اور جدید تکنیکی مہارت کا ہے۔ صرف وہی اس مقابلے میں باقی رہے گا جو بہترین ہو (Fittest of the best) ۔ تعلیم افرد کو تبدیلیوں کے نتیجے میں بہتر رد عمل کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ جو فرد تبدیلی کو ہی نہ سمجھ سکے وہ اس کے ساتھ کیسے زندہ رہ سکتا ہے۔مزید براں موجودہ دور میں تعلیم صرف عالم فاضل بننے کے لئے ہی نہی حاصل کی جاتی بلکہ یہ اقتصادی ترقی اور بقا کے لئے بھی لازم ہو چکی ہے۔ اس طرح تعلیم لوگوں کو معاشی استحصال اور سماجی نا انصافی سے بچاتی ہے۔

تعلیم شعور دیتی ہے۔ برے بھلے میں تفریق کرنا سکھاتی ہے۔ جس سے فرداپنے حقوق و فرائض سے بہترطور پر آگاہ رہتا ہے۔ موجود حالات میں حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ٠۶۵٧ فیصدآبادی ناخواندہ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اپنے حقوق و فرائض اور نظریہ پاکستان کا کچھ پتا نہیں۔ وہ صرف موجودہ معاشی معاشرتی و سیاسی نظام کے شاکی ہیں لیکن اس میں تبدیلی کے لئے ان میں کوئی شعور نہیں۔ اس لئے وہ ہر مرتبہ وہی لوگ چن لیتے ہیں جن سے وہ نالاں ہیں۔ ایسے افراد چونکہ موجودہ ملکی و بین الاقوامی صورت حال کو نہیں سمجھتے اس لئے وہ کیسے ایسے افراد چن لیں جو موجودہ ہر لمحہ بدلتے حالات میں ان کی رہنمائی کر سکیں اور ملک کو نظریاتی بنیادوں پر چلا سکیں۔

اگر ملکوں کی ترقی پر ایک نظر دوڑائی جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ تعلیم پر بہت توجہ دیتے ہیں۔تعلیم افراد کی اقتصادی ترقی کی ضمانت ہے۔ ہر فرد کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اس کی سیاسی تربیت بھی بہت لازم ہے۔ کئی ملکوں میں سیاسیات کا مضمون ہائی سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو اپنے نمائندے چننے میں آسانی رہے۔ لوگوں کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ مستقبل میں کیسے نمائندے ان کے حقوق کی بہتر طور پر حفاظت کر سکیں گے۔ ایسے مضامین میں طلبا کو ان کے حقوق و فرائض، مختلف سیاسی و معاشرنی نظاموں کے ساتھ ساتھ جمہوریت کی بھی تربیت دی جاتی ہے۔

ناخواندہ افراد کو سیاست دان بھیڑ بکریوں کے ریوڑوں کی طرح استعمال کرتے ہیں کیونکہ ان لوگوں کی اپنی کو رائے نہیں ہوتی۔ اس لئے یہ ہر کسی کو اپنا مسیحا سمجھ کر اس کے پیچھے چل نکلتے ہیں۔ یوں سیاست کچھ اداکار نما سیاستدانوں کی گھروں کی لونڈی بن کر رہ جاتی ہے۔ سیاسی تربیت سے ہی ممکن ہے کہ لوگ نعروں کی جذباتی واستحصالی سیاست سے نکل سکیں۔نعرے لگوانے کی ضرورت صرف ان کو پڑتی ہے جو عملی طور پر کچھ نہ کر سکتے ہوں۔ اگروہ عمل سے ثابت کر دیں تو کوئی وجہ ہی نہیں کہ نعرے لگانے سے پہلے ہی مسائل حل ہو جائیں۔


صد سالہ انتظامی ڈھانچہ:
ہمارہ نظام حکومت عوا م پر ان کے مرضی کے بغیر حکومت کرنے کے انگریز کے نظام کا ایک جاری سلسلہ ہے۔ آج بھی ہمارے آئین میں ’آل انڈیا ایکٹ٥٣٩١‘ کے الفاظ کئی مرتبہ شامل ہیں ۔یہ قوانین انگریز نے اپنے قبضے کو مضبوط کرنے کے لئے بنائے تھے نہ کہ عوام کی حکومت عوام میں سے عوام کے لئے۔آزادی کے بعد بھی ہم وہی غیر ملکی حاکموں والا قانوں استعمال کر رہے ہیں اور اس میں بھی کچھ تبدلیوں کے لئے ہمیں مشرقی پاکستان کی قربانی دینی پڑی۔

اکیسویں صدی میں بھی دو صدیوں پرانا نظام استعمال کر رہے ہیں جو مسائل حل کرنے کی بجائے پیدا کرتا ہے۔ مسائل کے منطقی جائزے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ مسائل انہی اداروں کے پیدا کئے ہوئے ہیں جو ان کو حل کرنے کے لئے بنائے گئے تھے۔یہ اسی نظام ہی کی بدولت ہے کہ کوئی شریف آدمی اپنا مسئلا لے کر تھانے نہیں جا سکتا۔ نا انصافی کا مسئلا انہی عدالتوں اور تھانوں کی پیداوار ہے۔کرپشن انہی اداروں میں عروج پر ہے جو اس کے خاتمے کے لئے بنائے گئے ہیں۔

تعلیم کا مسئلہ سکولوں نے پیدا کیا۔ پارلیمنٹ عوا م کی غربت کے خاتمے کے لئے بنائی گئی تھی لیکن اسی پارلیمنٹ نے روزگار کے مواقع دینے کے بجائے اداروں کو منافع بخش بنانے اور ڈاؤن سائزنگ کے نام پر روزگار چھین لیا۔ یہ جونکیں ہیں جو عوام کا خون چوس رہی ہیں۔ یہ سب تماشہ کرنے والے اداکار ہماری بہتری کی نام پر ہم پر یہ ظلم کرتے ہیں۔

ان لوگوں کو سوائے عوام کے مسائل سے ہر چیز سے شگف ہے۔ ان لوگوں کے ہاتھوں میں اختیارت اس بندر سے بھی بدتر ہیں جس کے ہاتھ میں چاقو پکڑا دیا جائے۔ بندر ہزار بے عقل سہی لیکن کبھی اس شاخ کو نہی کاٹے گا جس پر وہ بیٹھا ہو لیکن یہ ملائیت، آمریت اور اداکار نما سیاست دان اسی درخت (پاکستان) کی جڑیں کمزور کر رہے ہیں جس پر یہ سارے بیٹھے ہیں۔

انتظامی ڈھانچہ غیر متحرک اور کرپٹ ہے۔ اگرا یک ایف آئی آر درج کرانے کے لئے باوردی صدر کی سفارش لازمی ہو تویہ انتظامی ڈھانچے کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ فوجی حکومتوں کی بار بار دخل اندازی کی وجہ سے یہ ادارے کام کرنا بھول گئے ہیں اور بیوروکریسی کے زرخرید غلام بن گئے ہیں۔اسلئے یہ سب ادارے ناکارہ ہو چکے ہیں۔ تبادلوں اور چھاپوں سے مسئلے حل نہیں ہونگے۔

ہمیں اس استحصالی نظام کی بجائے عوام دوست نظام کی ضرورت ہے ۔ایک ایسا نظام جو ہم پر بزوز طاقت حکومت کرنے کی بجائے قائداعظم کے فلاحی پاکستان کے خواب کی تعبیر کر سکے۔ جہاں بیوروکریسی اپنے آپ کو حاکم کی بجائے عوام کی خادم سمجھے۔

ساٹھ افراد بشمول اہم مذہبی رہنما ایک سیکنڈ میں لقمہ اجل بن گئے لیکن ان کی ایف آئی آر درج نہ ہو تو عام چوری ڈکیتی کی واردات تو کسی شمار میں نہیں۔ خون کتنا ارزاں ہو گیا ہے۔ ایسے واقعات حکومت کی رٹ پر تمانچہ ہیں۔ اگر حکمراں اقتدار کے نشے سے کبھی نکل کر دیکھیں تو انہیں معلوم ہو کہ عام افراد کی زندگی کتنی عذاب بن گئی ہے۔

کیا قحط الرجال ہے کہ کوئی ایسا نہی ملتا جس کی ترجیحی لسٹ میں عوا م کی معاشی آزادی اور سماجی انصاف فراہم کرنا شامل ہو۔ایسے لوگ اب بھی موجود ہیں لیکن اس اندھیر نگری میں وہ اپنی عزت چھپائے پھرتے ہیں کیونکہ سب کہتے ہیں سیاست شرفاکو زیب نہیں دیتی۔اگر شرفا باہر بیٹھے ہیں تو پھر اسمبلیوں میں کون لوگ ہیں؟ یہ ایک اور ہی طبقہ ہے جو پانی بھی بیرون ملک کا پیتے ہیں۔ یہ تو اپنے جانورں کو بھی پاکستانی خوراک نہیں کھلاتے۔ان کی عوا م سے محبت اتنی ہے کہ انتخاب ہار جائیں یا جیت جائیں لیکن اگلے الیکشن سے پہلے نظر نہیں آتے۔ یہ ہماری معاشی و معاشرتی بدحالی کے دن ہماری بے حسی نے دکھائے ہیں۔

ہمیں اپنی بقا کی خود فکر کرنی ہوگی یہ بقا کی فکر آگاہی سے پیدا ہو تی ہے۔ ذات پات، معاشرتی تعلقات ، مذہبی لسانی تعصبات یا مالی فوائد کے لئے ووٹ دینے سے ایسی خون چوسنے والی جونکیں ہی سامنے آئیں گی۔ نمائندوں کے قول و فعل کا جائزہ لیجئے ۔ ان نمائندوں کے الفاظ کا مت یقین کریں۔ عمل کو اپنا پیمانہ بنائیں کیونکہ ا عمال کبھی دھوکہ نہی دے سکتے۔


بلا سود بینکاری:
سود کی وجہ سے پیسہ چند ہاتھوں میں جمع ہو جاتا ہے۔ سود لوگوں میں دولت کی حرص پیدا کرتا ہے اور انہیں زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے پر اکساتا ہے۔ اس لئے ساری دولت ایک جگہ پر جمع ہو جاتی ہے۔ اور پیسہ مارکیٹ سے غائب ہو جاتا ہے بنک بھر جاتے ہیں کیونکہ ہر فرد منافع کے لئے رقم بنک میں جمع کرا دیتا ہے۔ جس سے بنک تو کماتے ہیں لیکں غریب عوام پیسہ دیکھنے کو ترس جاتے ہیں۔ آج کل پاکستان میں یہی صورتحال درپیش ہے بنک پیسے سے بھرے پڑے ہیں اور لوگ پیسہ دیکھنے کو ترس گئے ہیں۔

بنک لوگوں کو آسان قسطوں پر قرض دینے کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں لیکن کوئی قرض لیتا ہی نہی بلکہ لوگ دھڑا دھڑ پیسے بنکوں میں جمع کرائے جا رہے ہیں کیونکہ وہ بنک سے قرض لے کر کیا کریں گے۔ ایسا ایک بھی کاروبار نہی کہ جس سے وہ پیسے کما کر منافع حاصل کر سکیں اوربنک کو بھی سود دے سکیں۔ کاروبار تو سارے اوپر دی گئی وجوہات کی وجہ سے بند پڑے ہیں۔ اگر بلا سود بنکاری کا نظام ہو تو لوگ اپنے سرمائے کو مثبت طور پر استعمال کریں گے۔ پیسے کو کچھ ہاتھوں میں منجمد کر دینا مثبت استعمال نہی ہے۔ وہ اس پیسے سے کاروبار کریں گے یا دیگر اداروں میں انویسٹ کریں گے جس سے ادارے ترقی کریں گے۔

اسی پیسے سے بہت ساری فیکٹریز لگ سکتی ہیں۔ اب لوگ بنک میں اس لئے جمع کراتے ہیں کیونکہ اور کوئی چارہ نہی ہے۔ فیکٹریز وہ نہی لگا سکتے کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ بیرون ملک سے سستی چیزیں مل جاتی ہیں اور صارف وہ ہی خریدے گا اس لئے حکومت کی پوری نیک نیتی کے باوجود کوئی شخص انویسٹ کرنے کو تیار نہی۔ شوکت عزیز جو ملکوں ملک پھر رہا ہے تا کہ باہر سے انویسٹر لائے لیکن آج تک اس نے اربوں روپے کے مالک ہوتے ہوئے بھی ذاتی طور پر ایک روپیہ بھی پاکستان میں نہی لگایا کیونکہ اسے پتہ ہے کہ یہ منافع بخش نہی ہے اور صرف اور صرف نقصان کا سودا ہے۔

مزید یہ کہ حکومت عوام کو سود کے کاروبار سے گناہ پر مجبور کرتی ہے۔ مزید براں سود سے لوگوں میں بغیر کام کرنے کے پیسہ کمانے کی غلط عادت پڑ جاتی ہے۔ جس سے ان کی صلاحیتوں کا نقصان ہوتا ہے اور ملکی سرمائے کا بھی جو ان کی تعلیم و تربیت پر خرچ ہوا ہوتا ہے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ بلاسود بنکاری کا نطام لاگو کیا جائے۔ پوری دنیا میں اتنے بنک ہیں جو یہ کام کر رہے ہیں اور وہ بھی بہت کما رہے ہیں۔ اگر یہ نظام اتنا ہی فائدہ مند ہوتا تو اسلام میں اسے منع کرنے کی کو ئی ضرورت نہی تھی۔ یہ غلط ہے اسی لئے اس سے منع کیا گیا ہے۔

اگر پاکستان کے فی کس آمدنی کا دوسرے ممالک سے تقابلی جائزہ لیا جا ئے تو پتہ چلتا ہے کہ ہم زیادہ تر ممالک سے بہتر ہیں لیکن جب غربت کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہم غریب ممالک کی لسٹ میں ہمارا شمار غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے۔اس کی وجہ صرف یہی ہی کہ پیسہ صرف چند ہاتھوں میں ہے۔ اس لئے ایک ایسے نطام کی ضرورت ہے جو یہ پیسہ امیر سے لے کر غریب کی جیب میں باعزت ڈال دے ورنہ غریب اپنے حصے کا روپیہ چھینتے رہیں گے۔


عوامی بے حسی:
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ۔۔۔۔
بچے کے ہاتھ سے اس کا کھلونا چھن جانے کا منظر پتا کیوں میرے اندر ایک عجیب سے کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ شائدیہ مجھے میری بے حسی پر ملامت کرتا ہے۔ اس سے تو محظ ایک کھلونا چھینا جاتا ہے جس کے نہ ہونے سے اسے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا لیکن پھر بھی وہ اتنا بھر پور احتجاج کرتا ہے کہ جب تک اپنا مطالبہ منوا نہ لے سکون سے نہیں بیٹھتا اور نہ ہی دوسروں کو سکون سے بیٹھنے دیتا ہے۔ ہم سے تو لمحہ بہ لمحہ زندگی چھینی جا رہی ہے۔ زندگی متاع عزیز ہے ہم تو اس کے چھن جانے پر بھی اس معصوم بچے کا عشر عشیر احتجاج بھی نہیں کرتے۔ کتنے بے حس ہو گئے ہیں ہم۔۔۔۔کیا مندرجہ بالا مسائل زندگی چھن جانے کے مترادف نہیں ہیں؟

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام حکومتی معاملات سے لاتعلق ہوتے جا رہے ہیں۔ ظالم کو نہ روکنا بھی ظلم میں شریک ہونے کے مترادف ہے۔ اگرہم سب نے ظلم کا ساتھ دینا شروع کر دیا توتبدیلی کیسے آئے۔ قائداعظم کے فلاحی پاکستان کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہو گا۔ وہ خواب جس کے لئے اس دھرتی کے ہزاروں سپوتوں نے نذرانہ شہادت پیش کیا۔ وہ خون کی ندیاں اس لئے نہیں بہی تھیں کہ شخصی فیصلے اور محلاتی سازشیں عوام کے معاشی آزادی اور سماجی انصاف والے فلاحی پاکستان کے خواب کی دھجیاں بکھیر دیں۔ کسی قانون کی پرواہ نہ کرنے والے کرسی صدارت پر برجمان ہوں اور چھوٹے جرائم کرنے والے جیلوں کے پیچھے گلتے رہیں۔

شائد اس سرزمین پر ابھی بہت میر صادق باقی ہیں اور ان کی بقا کے لئے عوام کی مسلسل قربانی درکا ہے۔

خداراہ اپنے پر اس ظلم سے باز آجائیں ورنہ آ نیوالہ وقت ہمیں معاف نہیں کرے گا۔ یہ ہم سب کا ملک ہے ۔ ہماری نسلوں نے یہاں رہنا ہے۔اپنے کل کوآج سے بہتر بنانے اور اپنی آنیووالی نسلوں کو بہتر پاکستان دینے کے لئے اس دھرتی کے سپوتوں کو دبارہ یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور اپنے حقوق کی آواز بلند کرنی ہو گی۔ اگر سب مل کر بولیں تو کوئی دنیاوی طاقت تبدیلی کو نہیں روک سکتی۔ اگر حکومت کو ہم کسی غلط کام سے نہیں روکتے توحقیقت میں اسے اگلی مرتبہ کرنے کی کھلے عام اجازت دے رہے ہوتے ہیں۔

ہم سب کی ذمہ داری بھی اتنی ہی ہے جتنی ان وزیروں مشیروں کی ہے۔ہر حکومتی معاملے میں اپنے آپ کو شامل رکھیں۔اگر ہم نے اپنی قسمت کے فیصلے دوسروں کے سپرد کر دئے تو یقینانقصان ہمارہ ہو گا۔ کیوں نہ اپنی قسمت کے خود مالک بن جائیں۔


افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فر د ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

بچے سے اس کا کوئی کھلونا چھن جانے پروہ رونا شروع کر دیتا ہے لیکن جو اس کا کھلونا چھینے اسے کچھ نہیں کہتا لیکن جب بچے بڑھے ہو جاتے ہیں تو کھلونا چھیننے والے کو بھی مارنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم خود کشیا ں کر لیتے ہیں۔ اپنے آپ کو نقصان پہنچا لیتے ہیں لیکن ظالموں کو کچھ نہیں کہتے۔ شائد ابھی ہم بچپنے سے نہیں نکلے۔یہ ملک کسی کی جاگیر نہیں ہے کہ جیسے چاہے کرے۔ یہ چودہ کروڑ عوام کا ملک ہے جنہوں نے اس کے لئے قربانیاں دی ہیں۔

انقلاب فرانس کی وجہ صرف اتنی تھی کہ ملکہ نے ایک سوال کے جواب میں یہ کہ دیا کہ اگر روٹی نہیں ہے تو کیک کھا لیں۔ یہ تو دور کی بات ہے۔ آمر ایوب کواپنی پوری فوجی طاقت کی باوجود صرف اس وجہ سے صدارت چھوڑنی پڑی کیونکہ اس نے چینی پچاس پیسے بڑھا دی تھی۔ اب کیا ہو گیا ہے۔ روزانہ قیمتیں بڑھتی ہیں ۔ لوگ خود کشیاں کرتے ہیں لیکن کیوں ظلم کے خلاف نہیں اٹھتے۔ ظالم تو ہر شام’سب اچھا ہے‘ کی رپورٹ سن کر سو جاتے ہیں۔ انہیں اس سے کیا کہ کتنے لوگ خالی پیٹ سو گئے۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا

ہمیں خود اپنی اور اپنی نسلوں کی بقا کے لئے پر امن رہتے ہوئے اس معاشی و معاشری استحصال کے خلاف آواز اٹھانی ہو گی۔ یہ ہمارہ ملک ہے اس کے اثاثوں کواحتجاج کے نام پر نقصان پہنچانے والے کبھی پاکستان کے مخلص نہیں ہو سکتے۔ یہ ملک ہمارہ گھر ہے اور غصہ میں گھر کی چیزیں توڑنے والے عقلمند نہیں کہلاتے۔

ہم شائد انتظار کر رہے ہیں کہ کوئی آئے گا اور اس جہنم سے آزاد کرائے گا۔ ایسا نہ کبھی ہو ااور نہ ہی ہو گا۔ ہم میں ہزاروں محمد بن قاسم چھپے ہیں۔ہمیں ان چنگاریوں کو ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ یہ وقت ہم سے اتحاد کا مطالبہ کرتا ہے۔ اتحاد مشترک اقدار سے پیدا ہوتا ہے۔

ہم سب پاکستانی ہیں۔ ہم سب غریب ہیں اور معاشی و سماجی استحصال کا شکار ہیں۔ہمارہ روشن مستقبل ہم سے دوبارہ قائد اعظم کے فلاحی پاکستان کے لئے اس کے
پاکستان کے جھنڈے تلے اکٹھے ہونے کا مطالبہ کرتا ہے۔

نہیں ہے ناامید اقبا ل اپنی کشت و یران سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی


استحصالی نظام:

ہمارہ نظامِ حکومت استحصالی ہے۔ اس کے وجود کا مقصد ہی غریب کا استحصال ہے۔ آئیں دیکھیں یہ کیسے استحصال کرتا ہے۔

ایک فیکٹری مالک آپ سے دس ہزار کا ماہانہ کام لے کر آپ کو پانچ ہزار دے دیتا ہے۔ اور باقی پانچ ہزار اپنی جیب میں رکھتا ہے۔

وہ کام نہی کرتا لیکن دوسروں کے استحصال سے پیسہ کماتا ہے۔ ورکرز کا حق مار کر اکٹھی کی ہوئی رقم کو منافع کا نام دے دیا جاتا ہے۔ اشیا ورکر پیدا کرتا ہے۔ کام وہ کرتا ہے۔ تو اشیا کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم بھی ساری کی ساری انہیں کی ہونی چاہیے نہ کہ مالک کی۔ دوسروں کا حق مارنے والا اور اپنے ہاتھ سے کام نہ کرنے والا تو امیر ہو جاتا ہے اور جو کام کرتے ہیں وہ ہمیشہ غریب رہتے ہیں۔

ملکی اثاثہ جات کچھ ہاتھوں میں جمع ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اشیا افراد کی ضروریات پوری کرنے کی بجائے منافع کے لئے بیچی جاتی ہیں۔ یہ نظام اس لئے زیادہ ملازمت نہی دیتا کیونکہ یہ ملازم کو اپنی شرائط پر کام کرنے پر مجبور کرنا چاہتا ہے۔ اگر ملازمت آسانی سے ملنا شروع ہو جائے تو ملازم صرف اچھی تنخواہ والی نوکری کرنا پسند کرے گا اس طرح وہ انہیں اپنی شرائط پر کام کرنے پر مجبور نہی کر سکے گا۔
اسلئے یہ نظام لیبر کی طلب اور رسد کو اپنے فائدے میں رکھتا ہے۔ کم ملازمت کے مواقع دو تا کہ کم تنخواہ پر اچھی لیبر مل سکے۔

ہمیں اس نظام کے خلاف اکٹھے آواز اٹھانا ہے۔ یہ نظام صرف استحصال کے لئے بنایا گیا ہے۔ ہماری بہت سی نسلیں اس نظام کی بھنیٹ چڑھ گئیں۔ آؤ اپنے آپ کو اس استحصال سے بچا لیں۔ مالک کا جائز منافع کمانا ٹھیک ہے لیکن دوسروں کا خون پسینہ سینچ کر نہیں بلکہ ان کو بھی جینے کا حق دے کر۔ یہ نطام دوسروں کی حق تلفی اور ظلم پر اکساتا ہے۔ جہاں مالک اور حاکم ظالم اور لیبر اور عوام کی حق تلفی کی جاتی ہے۔

اس لئے اس نظام کو ختم کر کے ایک ایسے نطام کی ضرورت ہے جہاں کسی کی حق تلفی نہ ہو اورکوئی ظالم نہ ہو۔ اس لئے تنخواہ دار طبقے کو اگر استحصال سے آزاد ہونا ہے تو انہیں لیبر کی طلب اور رسد کو اپنے حق میں رکھنا ہوگا۔ جب لیبر کی طلب رسد سے زیادہ ہو جائے گی تو وہ مقابلے سے آزاد ہو جائے گا اور ایک اشیا پیدا کرنے والی زندہ مشین کے درجے سے نکل جائے گا جس سے اس کا مشین سے مقابلہ ختم ہو جائے گا۔

طلب کو رسد سے زیادہ کرنے کا صرف ایک کی طریقہ ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ فیکٹریز لگانے کا ہے اور فیکٹریز لگانے کے لئے سستی توانائی اشد ضروری ہے
حکومت بھی ایسسا ہی کرتی ہے۔ کیونکہ اس نظام کو چلانے والے حکومت میں ہوتے ہیں اس لئے وہ اس سستحصالی نظام کو مزید پختہ کرنے کے لئے قانون بناتے ہیں۔ یہ قوانین کیونکہ ایک سرمایادار طبقہ کے مفادات کا خیال رکھتے ہوئے بنائے جاتے ہیں اس لئے عوام کی کثیر تعداد کا استحصال ہوتا ہے۔ سرمایا دار تنخواہ در طبقے پر حکومت کرتا ہے۔

اس طرح حکومت ہر شخص کو اپنی شرائط پر زندہ رہنے پر مجبورکرتی ہے۔ اگر کوئی فرد اس کی شرائط سے روگردانی کرے تو اس کو سزا دینے کے لئے استحصال سے جمع کی ہوئی رقم سے ادارے بنائے جاتے ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ اس بات پر سنجیدگی سے غور کیا جائے کہ مسئلا کیا ہے بجائے افراد کو ان کا حق مانگنے پر سزا دینے کے۔ پہلے ان کو جینے کا حق تو ملے پھر سزا بھی دی جا سکتی ہے۔ اب ترقی یافتہ ملکوں کو گلوبالائزیشن کا بخار چڑا ہو ہے۔ یہ استحصال کے ہتھکنڈے ہیں جس سے وہ اپنی سستی مصنوعات سے دوسرے ملکوں کی صنعتوں کو تباہ اور لوگوں کو بے روزگارکرتے ہیں۔ انگلستان کی تاریخ پر غور کریں تو یہ ساری استحصال سے بھری ہوئی ہے۔

آدھی دنیا فتح کر لی اتنے انگریز تو نہ تھے کہ ان کے لئے انگلستان تنگ پڑگیا تھا۔ وجہ صرف اتنی تھی کہ وہ تمام مقبوضہ علاقوں سے سستے داموں خام مال خریدتے اور انہی علاقوں میں مہنگے بھاؤ اپنی تیار کردہ مصنوعات بیچتے۔ وہ صرف اپنی مصنوعات بیچنے کے لئے دنیا کے ہر کونےمیں گئے۔ اب وہ نو آبادیاتی نظام تو ناکام ہو گیا لیکن اب بھی ترقی یافتہ ممالک دوسرے ہتھکنڈوں سے وہ ہی کام کر رہے ہیں۔ جیسے ڈبلیو ٹی او وغیرہ

استحصالی نطام کا خاتمہ ہی ایک ایسی بات ہے۔ جوعوام کو ان کی بنیادی ضروریات کی تسکین کی ضمانت دے سکتی ہے۔ سرمایاداری نظام پوری دنیا میں جہاں بھی استعمال ہو رہا ہے وہاں عوام سکھ میں نہیں ہیں۔ کیونکہ یہ ان کا استحصال کرتا ہے۔ یہ فرد کو ایک پیسے کمانے والی مشین بنا دیتا ہے۔ اس نظام کو اپنے وجود کے لئے استحصال کرنا پڑتا ہے اس کی جگہ ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جہاں ہر فرد کو حق مل سکے۔

موجودہ نظام سرمایہ داری نظام ہے۔ اس نظام میں ورکر اپنے سرمائے کو بڑھا نہی سکتا کیونکہ اس کے پاس اتنا پیسہ جمع ہی نہی ہوتا کہ وہ کوئی صنعت لگا سکے۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کی ساری زندگی اپنی خدمات بیچ کر تنخواہ پر گزرتی ہے جو ملازمت کی دستیابی پر منحصر ہے۔ لیبر بھی ایک قابل فروخت چیز ہے۔ اس لئے اس کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ اس کی قیمت کے تعین کا طریقہ بھی وہ ہی ہے جو کہ دوسری چیزوں کی قیمت کے تعین کے لئے ہوتا ہے۔

کسی چیز کی قیمت اس کی پیداواری خرچہ (Cost Of Production) کے مطابق ہوتی ہے۔ اس لئے لیبر کی قیمت لیبر کے پیداواری خرچہ کے مطابق ہی ہو تی ہے۔ جبکہ لیبر کا پیداواری خرچہ ورکر کو زندہ رکھنے کے لئے بنیادی ضروریات ہیں جو اسے مرنے نہ دیں ۔ اس لئے ورکر بھی وہ ہی حاصل کر تا جو اسے زندہ رکھنے کے لئے کم از کم ضروری ہو تا ہے تا کہ وہ مزید کام کر سکے۔ کاروبار کبھی اچھا چلتا ہو اور کبھی مندا۔ جب مندا ہوتا ہے تو چیزوں کی قیمتیں گر جاتی ہیں ایسے ہی لیبر کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس لئے کبھی انہیں ملازمت مل جاتی ہے اور کبھی نہیں اور کبھی اچھی ملتی ہو اور کبھی بری۔

یہ طبقہ مشینوں کی ایجادات سے پیدا ہوا جب مشینوں نے انسان کی جگہ لے لی تو یہ طبقہ بےروزگاری کا شکار ہو گیا۔ مشینیں انسان سے بہتر اور تیز کام کرتی ہیں۔ اس لئے اس طبقے کا انسانوں کے بجائے مشینوں سے مقابلہ شروع ہو گیا جس میں وہ کبھی بھی کامیاب نہی ہو سکتے تھے نہ ہی ان لوگوں کے پاس اتنا پیسہ تھا کہ وہ اپنی مشینیں خرید لیتے اس لئے انہیں دوسروں کے لئے کام کرنا پڑا جو ان کی لیبر کا کچھ حصہ انہیں دے دیتے ہیں اور باقی خود رکھتے ہیں جس سے استحصال شروع ہوا۔
اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ تمام ملکی اثاثہ جات سب کے مشترک ملکیت میں ہوں اس سے کوئی کسی کا استحصال نہی کر سکے گا۔


درآمدات پر سخت کنٹرول:
جب بھی آپ کوئی درآمد کردہ اشیا خریدتے ہیں تو آپ کسی نہ کسی پاکستانی کا رزق چھین کر غیر ملک کے افراد کو دے رہے ہوتے ہیں اس لئے اس بات پر ڈٹ جائیں کہ درآمد شدہ اشیا نہی خریدیں گے۔ ورنہ اس طرح آپ کسی کا رزق چھینتے ہیں تو کوئی آپ کا رزق چھین رہا ہو گا۔جو اشیا پاکستان میں بنائی جاتی ہیں انہی کو استعمال کریں یہی اپنے وطن سے محبت کا طریقہ ہے۔ حکومت پاکستان پتا نہی کس کے لئے مخلص ہے۔

ووٹ ہم سے لئے جاتے ہیں اور فائدے دشمنوں کو دیے جاتے ہیں۔ جب اشیا بیرون ملک سے خریدی جاتی ہیں تو حقیقت میں ان ممالک کی مدد ہوتی ہے کیونکہ مزید پیسہ ان ممالک میں جاتا ہے جس سے ان ممالک کے زیادہ لوگوں کو نوکری ملتی ہے جبکہ اپنے ملک سے پیسہ غائب ہو جاتا ہے اور اندرون ملک پیداواری یونٹ کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے کیونکہ وہ بیرون ملک سے خریدی گئی سستی اشیا کا مقابلہ نہی کر سکتے تو انہیں اپنے پیداواری یونٹ بند کرنے پڑتے ہیں کیونکہ کوئی ان کی اشیا نہی خریدنا چاہتا جس سے ان کا بھی بہت سارا نقصان ہوتا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ دکھ کی بات یہ کہ لوگوں کو نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔

ہمیں نوکریوں کے وعدے دے کر ووٹ لئے جاتے ہیں اور نوکریاں دوسرے ممالک کے افراد کے لئے پیدا کی جاتی ہیں۔ یہ فیصلے کرنے والے ہمارے تو مخلص نہی ہو سکتے۔ ہماری حکومت کو آزادنہ تجارت کا بخار چڑا ہوا ہے۔ آزادانہ تجارت صرف انہی ممالک کے لئے بہتر ہے جہاں توانائی خام مال اور لیبر سستی ہے باقی سب کے لئے یہ استحصال کا خوبصورت جال ہے۔

اب اس سے بھی زیادہ دکھ کی بات یہ کہ حکومت نے سبزیوں اور پھوں کی برآمدات کی اجازت دے دی ہے اور وہ بھی انڈیا سے جو ہمارا ازلی دشمن ہے۔ اس ملک سے جو ہمارہ پانی چوری کر رہا ہے اور ہمیں بنجر و بیانباں بنانے پر تلا ہوا ہے۔ اپنے کاشتکاروں کا رزق چھین کر دشمن کو پال رہے ہیں۔

کیا یہ طریقہ ہے ہم سے مخلص ہونے کا۔ ہمیں ان لوگوں کو اکھاڑ باہر پھینکنا ہے۔ یہ دوست کے روپ میں دشمن ہیں کیونکہ یہ ہمارہ کوئی بھلا نہی کرتے بلکی دشمن کا بھلا کر کرتے ہیں اور وہ بھی ہمارے خون پسینے کی کمائی سے تنخواہیں لے کر ہمیں اپنے دشمنون کواپنے خون پسینے کی کمائی سے پالنے کی کوئی ضرورت نہی ہے۔ ہمیں ایسے افراد کی ضرورت ہے جو ہمارے ووٹ لے کر ہمارےبھلے کے کام کریں۔

آزادانہ تجارت پاکستان کے لئے صرف اسی وقت منافع بخش ہو گی جب بہترین ملکی مصنوعات وافر مقدار میں منڈی میں موجود ہوں اور وہ کسی بھی درآمد کردہ چیز سے سستی ہوں۔ جب ملکی مصنوعات سستی ہوں گی تو زیادہ تر صارف صرف ملکی اشیا ہی خریدے گا اور کچھ لوگ جن کے پاس زیادہ پیسہ ہے وہ غیر ملکی اشیا خریدیں گے جس سے ملکی صنعت کو تو کوئی نقصان نہی ہوگا۔ ایسے افراد کے لئے ملکی صنعت ہی اعلی درجے کی مصنوعات پیدا کر سکتی ہے جس سے صنعتی اداروں میں مقدار اور کوالٹی کے لحاظ سے صحت مند مقابلہ دیکھنے میں آئے گا ۔

اب ملکی مصنوعات کو غیر ملکی مصنوعات کی نسبت کیسے سستا کیا جا سکتا ہے اور انہیں مارکیٹ میں کیسے وافر مقدار میں فراہم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے پیدواری خرچہ کم کرنا ہو گا اور پیداواری خرچہ کم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کی توانائی سستی ہو۔ تونائی سستی ہو گی تو ملکی صنعت میں دن دگنی اور رات چگنی ترقی ہو گی جس سے مصنوعات منڈی میں خود بخود زیادہ ہو جائیں گی کیونکہ اب انویسٹر کو پتہ ہے کہ توانائی کی موجودہ قیمت میں وہ کسی بھی صورت میں درآمد کردہ غیر ملکی مصنوعات کا مقابلہ نہی کر سکتا اس لئے وہ کسی صنعت میں پیسہ نہی لگاتا۔


سو فیصد شرح روزگار:
حکومت کے لئے یہ ممکن نہی ہےکہ ہر فرد کو ملازمت دے لیکن وہ ایسے حالات پیدا کر سکتی ہے جس سے عوام کے لئے ملازمت کے مواقع پیدا ہو سکیں۔ جیسے کہ سستی توانائی اور درآمدات پر سخت کنٹرول۔ صرف انڈسٹری ہی واحد زریعہ ہے جو بہت سارے ملازمت کے مواقع پیدا کر سکتا ہے۔

دو قسم کی چیزیں قابل فروخت ہوتی ہیں ایک تو خدمات اور دوسرا اشیا۔ وہ ممالک جہاں شرح خواندگی زیادہ اور آبادی کم ہو وہ آسانی سے اپنی معیشت کو خدمات پر چلا سکتے ہین لیکن زیادہ آبادی اور کم شرح خواندگی والے ممالک صرف خدمات پر نہی چل سکتے۔ وہاں ضروریات زندگی پیدا کرنے والے فیکٹریز لازم ہیں کیونکہ ایک فیکٹری ہی زیادہ افراد کو نوکری دے سکتی ہے نہ کہ ایک بنک یا شناختی کارڈ کا دفتر۔ مزید یہ کہ اشیا پیدا کرنے کے لئے پڑے لکھے افراد کی ضرورت نہی جبکہ خدمات کے لئے پڑھے لکھے افراد کا ہونا لازم ہے۔ کیونکہ ایک ٹیکسٹائل مل میں تو کوئی بھی کام کر سکتا ہے لیکن ہر فرد ڈاکر یا انجنیر نہی بن سکتا۔

توانائی سستی ہونے کی وجہ سے پورے ملک میں بہت زیادہ فیکٹریز لگیں گے جس سے افراد کو ملامت ملے گی۔ نہ صرف وہ ملازمت کر سکیں گے بلکہ ایک بہتر ملازمت جو ان کی تعلیمی قابلیت کے شیان شان ہو۔ انویسٹر کبھی بھی کسی ملک کا مخلص نہی ہوتا اسے صرف اپنے سرمائے کو بڑھانے کی فکر ہوتی ہے۔ وہ ہر اس ملک میں جائے گا جہاں کا نطام اس کے مقاصد کی بہتر طور پرحفاظت کر سکے۔ کسی بھی انویسٹر کے لئے پر کشش سرمایا کاری کا ماحول صرف وہی ملک ہو سکتا ہے جو پرامن ہو اور جہاں پیداواری خرچہ کم ہو۔

پیداواری خرچہ کا انحصار خام مال اور توانائی کی قیمت اور لیبر پر منحصر ہوتا ہے۔ اس لئے اگر ہم پیداوری خرچہ کم کر دیں تو پوری دنیا سے انویسٹر آئیں گے لیکن اس سے پہلے ہمیں یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ہمارا ملک ان کے لئے محفوظ ہے۔ چین کی مثال لے لیں۔ وہاں بہت زیادہ غیر ملکی سرمایا کاری ہے جس سے لوگوں کو ملازمت ملی ہوئی ہے۔

یہ اس لئے ممکن ہوا کیونکہ وہاں پیدواری خرچہ کم ہے۔ لیبر سستی ہونے کے باوجود ہر فرد کا گزارہ بہت بہتر ہو رہا ہے کیونکہ چیزیں سستی ہیں۔ توانائی سستی ہے۔ توانائی کی قیمتوں میں بین الاقوامی اضافے کے باوجود چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ نہی ہوا کیونکہ حکومت نے توانائی کی قیمت نہی بڑھائی لیکن ہماری حکومت ہر وقت اسی چکر میں رہتی ہے کی کب موقع ملے۔

حب الوطنی:
قائد اعظم نے فرمایا ‘میں چاہتا ہوں کہ مسلمان صوبائی تعصب کی بیماری سے چھٹکارہ حاصل کریں کوئی قوم ترقی نہی کر سکتی جب تک اس کے افراد ایک صف میں متحد ہو کر آگے نہی بڑھتے ۔ ہم سب پاکستان کے شہری ہیں پاکستان میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس لئے ہمیں بھی اس کا حق ادا کرنا چاہیے۔ ہمیں اس کی خدمت کرنی چاہیے تا کہ یہ دنیا کہ ایک شاندار عظیم اور خوشحال مملکت بن جائے۔

اس صوبائیت کی ایک بڑی وجہ مرکز پسند نظام ہے۔ ہمارے ہاں ہر چیز اسلام آباد سے کنٹرول کی جاتی ہے جس سے صوبوں کو شگ گزرتا ہے کہ شائد اسلام آباد کو ان کی صلاحیتوں پر اعتبار نہی یا شائد اسلام آباد انہیں شک کی نظر سے دیکھتا ہے۔ دورے ممالک میں ہر صوبہ اور ہر ضلع اپنے تمام فیصلوں میں بہت حد تک آزاد ہوتا ہے۔ وہ اپنی زمین اور اس سے پیدا ہونے والی ہر چیز چاہے وہ تیل گیس ہو یا فصیلیں یا فیکٹریز ہر چیز کے وہ خود مالک ہوتے ہیں۔ وہ تمام چیزیں اس ضلع کے افراد کی مشترکہ ملکیت ہوتیں ہیں۔ وہ اپنے فیصلوں میں آزاد ہوتے ہیں۔ وہ یقینا اپنے علاقے کو ہزاروں میل دور بیٹھے افراد سے بہتر سمجھتے ہیں اور اس علاقے کے زیادہ مخلص ہوتے ہیں۔

جو پالیسیاں وہ خود بنائیں گے وہ زیادہ کار گر ہونگی بجائے اس کے کہ ان پر ہزاروں میل دور رہنے والے افراد فیصلے ٹھونسیں۔ اسی وجہ سے ہم ملک کا مشرقی بازو کھو چکے ہیں کیونکہ وہ اپنے اثاثہ جات کے خود مالک بنناا چاہتے تھے۔ ملک کی تمام زمین ملک کے تمام باشندوں کی مشترکہ ملکیت ہونی چاہیے لیکن اس زمین میں اور پر پیدا ہونیوالی اشیا صرف اسی ضلع کی ملکیت ہونی چاہیں جس ضلع کی زمین سے وہ نکل رہیں ہیں اور صرف انہی لوگوں کا ان اثاثہ جات پر کنٹرول ہونا چاہیے۔ اس سے ملک مضبوط ہو گا۔

ملک سے محبت ہر شہری پر فرض ہے۔ ہماری شناخت صرف اور صرف پاکستان ہے۔ اس لئے اس محبت کے لئے باقی تمام جھوٹی انائییں اور شناختیں ختم کر دیں۔ اپنی ذات سے اوپر ہو کر سوچیں۔ ذات و پات قبیلے مذہبی لسانی علاقائی و صوبائی گروہ بندیاں صرف آپ کی طاقت کو تقسیم کرنے کا ایک جال ہے ۔ طاقت متحد ہونے میں ہے نہ کی تقسیم ہونے میں۔ کسی ملک میں جتنی گروہ بندیاں زیادہ ہوں گی اتنا ہی وہ کمزور ہو گا کمزور ملکوں کے ساتھ طاقتور ملک جو کرتے ہیں وہ سب جانتے ہیں۔ آپ ملکی محبت کو اپنے عمل سے ثابت کریں۔ عمل سے ثابت کرنے کا ایک بہترین طریقہ تو یہ ہے

۱۔ محب وطن شہری بننا اور پاکستانی ہونے پر فخر کرنا۔
۲۔ افراد کو سیاسی تعلیم دینا۔
۳۔ امن میں رہتے ہوئے خود استحصال سے بچنا اور دوسروں کو اس سے بچاؤ کی تربیت دینا۔
۴۔ ملکی قوانین کی پابندی کرنا۔ ۵۔افراد کو ان کے معاشرتی کردار کی بنا پر ترجیح دینا نہ کہ ذات پات یا کسی اور نسبت سے
۶۔ اساس پاکستان اور عوامی حقوق کے عملی طور پر پاسدار افراد کو ووٹ دینا۔
۷۔ صرف ملکی اشیا خریدنا۔
۸۔ ملکی سیاست میں اپنے آپ کو شامل رکھنا۔
۹۔ مذہب اور پاکستان کے علاوہ باقی تمام شناختوں کو ختم کرنا۔
۱۰۔ اجتماعیت کی تربیت کرنا۔
۱۱۔ مل کر کام کرنے کی عادت ڈالنا


اسلحہ سے پاک ملک:
اسلحے کا صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ انسان کو مارنا ہے اس لئے اگر انسانیت کو بچانا ہے تو ملک کو اسلحے سے پاک کرنا ہوگا۔ فوج کے علاوہ کسی دوسرے ادارے کے پاس اسلحے کا کوئی مثبت استعمال نہی ہے اور نہ ہی کسی دوسرے ادارے کو اس کی ضرورت ہے۔ اس کا نئی نسل پر بہت غلط اثر پڑتا ہے۔ جب وہ بازار میں اسلحہ بردار دیکھتے ہیں تو ان ننھے ذہنوں پر ہم اپنے متعلق کیا تاثر چھوڑ رہے ہیں۔ وہ ننھے ذہن ہمارے متعلق کیا سوچتے ہوں گے۔ کیا ہم جانور ہیں جو مل بیٹھ کر مسائل حل نہی کر سکتے۔ اللہ تعالی نے ہمیں عقل دی ہے جس کے استعمال سے سارے مسائل مل بیٹھ کر محبت سے حل کئے جا سکتے ہیں۔

اسلحہ تو دشمن کے لئے بنایا جاتا ہے نہ کی اپنوں کو مارنے کے لئے۔ آؤ اپنی آنے والی نسلوں پر اپنے اشرف المخلوقات ہونے کا تاثر چھوڑ جائیں۔ پولیس کے پاس اسلحے کا کوئی کام نہی اور نہ ہی وہ کبھی مثبت مقاصد کے لئے اسے استعمال کرتی ہے۔ اسلحے سے لوگوں میں خوف و حراس پھیلتا ہے۔ حکومت عوام کو اسلحہ امن و امان کے نام پر دیتی ہے لیکن یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلحہ امن و امان کے مسائل پیدا کرتا ہے۔ یہ حفاظت کے لئے دیا جاتا ہے لیکن یہی ہماری زندگی کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔

کسی کے پاس بھی اسلحہ نہ ہو تو امن و امان کے مسائل پیدا ہی نہی ہوں گے امن قائم کرنے کے لئے سزائیں ہی واحد طریقہ نہی ہے۔ لوگوں کو ملازمت دے دیں وہ خود پیسے کما لیں گے۔ انہیں چھیننے نہیں پڑیں گے۔ عدالتوں کے نظام کو بہتر کر دیں اور سزائیں وقت پر ملیں تو غلط لوگوں کو جرم کی ہمت نہی ہو گی۔ فیصلے بروقت ہوں تو کوئی وجہ ہی نہی کہ جرائم ختم نہ ہوں۔ لوگوں کو پہلے حلال رزق کمانے کے مواقع فراہم کرنے ہوں گے تا کہ جرم کرنے کی کوئی جائز وجہ نہ رہے اس کے بعد جو کرے اس کے ساتھ کسی قسم کا کوئی لحاظ نہ ہو اور اسے جتنی سخت سزا ممکن ہو سکے دی جائے تاکہ کسی کو جرم کرنے کی ہمت نہ ہو۔

اس اسلحےکی وجہ سے عوام میں کھیلوں کے صحت مند مقابلوں کا رجحان کم ہو گیا ہے اور کلاشنکوف کلچر پیدا ہوگیا ہے۔ جب ایک ٹرائگر دبانے سے سارا مسئلا حل ہو سکتا ہو تو کیا ضرورت ہے اپنی حفاظت کے لئے پرانی طرز کے صحت مند کھیل کھیلنے کی۔ ہمارے معاشرے میں اسلحے کا بہت زیادہ بجا استعمال ہوتا ہے۔ پولیس بھی اس کی مدد سے اپنے آپ کو چوکیدار سے چور کی سطح پر لے آئی ہے کیونکہ اسلحہ طاقت ہے اور طاقت رکھتے ہوئے ایک اچھا انسان رہنا ہر ایک کے بس کی بات نہی ہے۔

اسی وجہ سے کوئی شریف آدمی تھانے نہی جاتا چاہے اس کے ساتھ جتنی مرضی زیادتی ہو جائے وہ مزید زیادتی سے بچنے کے لئے تھانے جانے کی جرات نہی کرتا۔ چھوٹے جرم تو ایک طرف اب تو لوگ قتل کی رپورٹ درج کروانے بھی تھانے نہی جاتے کہ کہیں مصیبت میں نہ پڑ جائیں۔ اگر کوئی ہمت کر کے چلا جائے تو رپورٹ درج کروانے کے لئے باوردی صدر کی سفارش کے بغیر رپورٹ درج نہی ہوتی۔ اگر پولیس کے پاس اسلحہ نہی ہو گا تو ہر پولیس مین انسانوں کی زبان میں دوسروں سے بات کر ے گا جو کہ ایک مثبت پیش رفت ہو گی۔ ہر فرد بغیر کسی خوف کے پولیس سے اپنا مسئلہ بیان کر سکے گا۔

موجودہ سسٹم میں پولیس اور ڈاکوؤں میں کوئی خاص فرق نہی۔ فرق ہے تو صرف اتنا کہ ڈاکوؤں کے پاس کوئی سینہ زوری اور قتل وغارت کا لائسنس نہی جبکہ پولیس کے پاس ہے۔ پولیس کو انسان دوست رویہ اپنانا ہو گا اور ہر ایک کو مجرم سے ہٹ کر انسانیت کی نظر سے دیکھنا ہو گا تبھی کوئی شریف آدمی اپنے مسائل کے لئے تھانے جا سکے گا۔

ان مسائل اور ان کے حل کو زیر غور رکھتے ہوئے کچھ نکات ہیں جو مختصر طور پر موجودہ ظالمانہ اور استحصالانہ حالات میں ہر فرد کی بقا کے لئے اہم ہیں۔ جن کے لئے ہم سب کو مل کر کوشش کرنی ہے۔
نکات۔

۱۔ سستی توانائی
۲۔ نو سمگلنگ اورکم درآمدات
۳۔ جدید آبپاشی نظام
۴۔ سودی نظام کا خاتمہ
۵۔ استحصالی نظام کا خاتمہ
۶۔ اسلحہ کا خاتمہ
۲۔ سیاسی تربیت

ہو سکتا ہے کہ آپ کوسیاست سے دلچسپی نہ ہو لیکن سیاست کو آپ سے کافی دلچسپی ہے کیونکہ سیاسی فیصلے ہر فرد کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ہر روز ہمارے چنے ہوئے افراد کے ہمیں معاشی طور پر تباہ کرنے کے فیصلے۔ ہر روز گیس بجلی تیل کی قیمتوں میں گرانی کے فیصلے۔ درآمدات بڑھانے اور برآمدات گھٹانے کے گھناؤنے سیاسی فیصلے۔ پانی چوری پر حکومتی خاموشی۔ منافع کمانے والے حکومتی اداروں کے فروخت۔ ڈاؤن سائزنگ کے نام پر بے روزگاری میں اضافہ۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کا کام صرف اور صرف عوام دشمنی ہے کیونکہ ان کے اعمال سے تو یہی ثابت ہوتا ہے اور باتوں سے عوام کا پیٹ نہی بھرتا۔

اس لئے ہمیں خود اپنی بقا کی جنگ لڑنی ہوگی۔ یہ بقا کی فکر آگاہی سے پیدا ہو سکتی ہے ۔ اس لئے ہر فرد کو زندہ رہنے کے لئے اپنی بنیاد اور اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ رہنا ہوگا تا کہ وہ ظالم کے خلاف دیوار بن سکے۔

ایک سائیکل تو تربیت کے بغیر چلایا نہی جا سکتا توموجودہ پیشہ وارانہ حالات میں ملک تربیت کے بغیر کیسے چلایا جا سکتا ہے۔ کسی نے کہا تھا کہ اس کے لغت میں ناممکن کا لفظ نہی ہے لیکن ہم سب کو یہ بات ماننی پڑے گی کہ موجودہ سیاست دانوں سرمایا داروں اور جاگیر داروں سے عوام کے لئے خیر ناممکن ہے۔ وہ ظالم ہیں اور ظالم سے خیر کی توقع صرف نا سمجھ و بے عقل ہی رکھ سکتے ہیں۔

فرد کی سیاسی تربیت کے بعد ہی یہ ممکن ہو سکے گا کہ ایسے افراد اسمبلیوں میں پہنچیں جو اساس پاکستان اور عوامی حقوق کی حفاظت کر سکیں۔ اگر اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے افراد سے اساس پاکستان پوچھیں تو بڑی مشکل سے ہی کوئی ایک دو افراد ہی صحیح جواب دے سکیں۔ جن لوگوں کو اس کا پتہ ہی نہی تو وہ کیسے اس کی حفاظت کر سکیں گے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسے افراد اسمبلیوں میں کیسے پہنچ گئے جو عوام اور پاکستان کے دشمن ہیں۔ ہر فرد کی سیاسی تربیت اس لئے بھی لازم ہے کہ یہ پرامن تبدیلی کے لئے ناگزیر ہے۔ تبدیلی جمہوریت یا خونی انقلاب کے ذریعے آ سکتی ہے۔ خونی انقلاب کوئی اچھا راستہ نہی ہے جب سرحدیں موقع پرست دشمنوں سے بھری پڑی ہوں۔

جمہوریت ہی دیرپا تبدیلی کی ضامن ہے۔ اس کا مطلب ہے تبدیل عوام کے چنے ہوئے افراد لائیں گے۔ لیکن تبدیلی لانے والے نمائندے چننے کے لئے لازم ہے کہ ووٹر کی سیاسی تربیت کی جائے کہ وہ ایسے افراد چنے جو اساس پاکستان اور عوامی حقوق کے محافظ ہوں۔ جمہوریت کا مسئلہ یہ کہ یہ اکثرتی رائے پر فیصلے صادر کرتی ہے۔ افراد کو گنتی ہے نہ کہ تولتی ہے۔ جمہوریت ناخواندہ معاشرے کے لئے خطرناک ہے۔

اب اگر اکثریت غیر تعلیم یافتہ اور غیر سیاسی تربیت یافتہ افراد کی ہو تو یہ ممکن ہی نہی کے قابل افراد چنے جائیں۔ اس لئے جتنی جلد ہو سکے ہر فرد کی سیاسی تربیت کر دی جائے تا کہ اہل نمائندے اسمبلیوں میں پہنچ کر ملکی مفاد میں فیصلے کریں۔


اساس پاکستان:
اس بات میں کوئی شک نہی ہے کہ پاکستان اسلام کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا۔ قیام پاکستان اپنی نظریاتی بنیاد کی وجہ سے بھی منفرد ہے کیونکہ دوسرے ممالک معاشی و جغرافیائی یا دیگر وجوہات کی وجہ سے وجود میں آئے۔ یہ صرف اسلام ہی تھا جس کی بنیاد پر مسلمان جوک در جوک مسلم لیگ میں شامل ہوئے ۔

اس کے علاوہ بھی کچھ دیگر اسباب مسلم لیگ میں ان کی شمولیت کا باعث بنے جیسے معاشی اور سیاسی وجوہات مثال کے طور پر کانگریس کی ہندوشدت پرستانہ پالیسیاں جن کی بدولت مسلمانوں کے لئے اپنی بقا کے لئے ایک علیحدہ پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا ضروری ہوا کیونکہ حالات سے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ ہندو ملک کےمالک نہ ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں پر اتنے ظلم کرتے ہیں اور اگر انہیں طاقت ملک گئی تو وہ مسلمانوں کی نسل کشی کریں گے جیسے کہ اب وہ کشمیر میں کر رہے ہیں، ایسے ہی حیدر آباد میں ہوا۔ یہی سلسہ جونا گڑھ امر تسر گجرات میں دہریا گیا اور بابری مسجد کے سانحہ کی صورت میں دیکھنے میں آیا۔

دو قومی نظریہ پاکستان کی اساس ہے۔ جس کا مطلب ہے ہندو اور مسلمان دو مخلتف قومیں ہیں اور یہ دونوں قومیں ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔ سب سے پہلے سر سیداحمد خان نے دو قومی نظریہ پیش کیا اور انہوں نے ہی پہلی مرتبہ برصغیر کے مسلمانوں کے لئے قوم کا لفظ استعمال کیا۔ یہ کانگریس اور ہندوؤں کی مسلم دشمنی تھی جس کہ وجہ سے انہوں نے کہا کہ یہ دو اقوام اکٹھی نہی رہ سکتیں اور مسلمانوں کا مستقبل صرف ایک علیحدہ مملکت کی صورت میں ہی محفوظ ہو گا۔

ہندو اور مسلمان صدیوں اکٹھے رہنے کے باوجود اپنی ثقافت اور تہذیب نہ بھول سکے اور ہمیشہ آپس میں ایک دوسرے سے علیحدہ رہے۔ شادی بیاہ نہ کیا۔ تعلق نہ رکھا۔ یہاں تک کے ایک دوسرے کی اشیا تک استعمال نہ کر سکتے تھے۔ ایک دوسے کے گھر میں داخل تک نہ ہو سکتے تھے۔ ایک کی اقدار دوسرے کی اقدار کے مخالف تھیں جیسےکہ مسلمان گائے کو ذبج کرتے اور اس کا گوشت استعمال کرتے جبکہ یہی گائے ہندؤوں کے لئے مذہبی طور پر بہت متبرک خیال کی جاتی ہے۔

یوں وہ ایک دوسرے میں طرز زندگی میں ضم نہ ہو سکے کیونکہ کچھ بھی تو مشترک نہی تھا اس لئے وہ ایک قوم نہ بن سکے۔ اختلافات کے بنیادی وجہ ہندوؤں کا ذات پرستانہ نظام اور مسلمانوں کےلئے اسلام تھا۔ اس لئے ان کی ثقافت تہذیب و تمدن اور طرز زندگی ایک دوسرے سے ہمیشہ مختلف رہے۔ اسلام میں اللہ کے ساتھ کوئی شریک نہی ہے اور شرک سب سے بڑا گناہ ہے۔ جبکہ ہندو ایک سے زیادہ خداؤوں پر یقیں رکھتے ہیں یوں ایک خدا پر یقین رکھنے والی قوم ایک سے زیادہ خداؤں پر یقیں رکھنے والوں کے ساتھ کیسے اکٹھے رہ سکتی تھی۔ یہ دونوں کے درمیان سب سے بڑی خلیج تھی جنہیں وہ پار نہ کر سکے۔


حقوق و فرائض:

ایک آزاد معاشرے میں زندگی کی طبعی بقا کے لئے بنیادی ضروریات تعلیم صحت اور سماجھی انصاف ہر فرد کا پیدائشی حق ہے جو ہر حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اب حکومت یہ تو نہی کر سکتی کہ ہر فرد کے گھر خود چل کر یہ تمام چیزیں پہنچائے لیکن ایسے انتظامات کرنا ممکن ہیں کہ ہر فرد کی بنیادی ضرورتیں پوری کی جا سکیں۔ اس کا صرف ایک ہی حل کہ ہر فرد کو ملازمت فراہم کی جائے۔ جس سے وہ خود معاشی طور پر آزاد ہو جائے گا اور ثانونی ضروریات خود حاصل کر لے گا۔

ہر فرد کی کم از کم ماہانہ آمدن ایک تولہ سونے کے برابر ہونی چاہیے۔ خاندان کا ہر فرد جو ملازمت کرنے کے قابل ہے اسے ملازمت فراہم کرنا حکومت کا فرض ہے۔ یہ تو سب آپ کے حقوق ہیں۔ فرائض کیا ہیں۔ پاکستان سے محبت آپ پر فرض ہے۔ محبت کے اظہار سے ہی مسائل نہیں ہونگے اس کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا۔ جب آپ کسی معاشی فائدے کے لئے کسی غلط شخص کو ووٹ دیتے ہیں تو آپ اپنے آپ اور پاکستان سے دشمنی کر رہے ہوتے ہیں ۔ جب آپ اپنے ملک کی بنی ہوئی اشیا کو چھوڑ کر بیرون ملک کی کوئی شے خریدتے ہیں تو اس سے بڑی اور دشمنی نہی ہے۔

جب آپ سیاست دانوں کے غلط فیصلوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں تو یہ بھی دشمنی ہے۔ جب آپ ذات پات یا مذہب کے نام پر گروہ بندی کرتے ہیں تو آپ حقیقت میں لوگوں میں تعصب اور نفرتیں پیدا کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسی گروہ بندیوں سے ملک کمزور ہوتا ہے۔ اس لئے مذہب اور پاکستان کے علاوہ دیگر تمام شناختیں ختم کرنا ہونگی جیسے ذات پات، معاشی رتبہ۔ لسانی، صوبائی نفرتیں ختم کرنا ہونگی۔ ہمارہ اللہ ایک رسول ﷺ ایک قرآن ایک تو ہم کیوں فرقوں میں بٹ جائیں۔ کسی کو اپنے مذہبی جذبات سے فائدہ نہ اٹھانے دیں۔ یہ آپ کے مذہبی جذبات کا استحصال ہے۔

طاقت اجتماعیت میں ہے تقسیم میں نہی اس لئے خدا کے لئے اپنے اندر مشترک قدریں پیدا کرتے ہوے آپس میں ایک ہو جائیں۔ مندرجہ ذیل آپ کے فرائض ہیں۔

۱۔ محب وطن شہری بننا اور پاکستانی ہونے پر فخر کرنا۔
۲۔ افراد کو سیاسی تعلیم دینا۔
۳۔ امن میں رہتے ہوئے خود استحصال سے بچنا اور دوسروں کو اس سے بچاؤ کی تربیت دینا۔
۴۔ ملکی قوانین کی پابندی کرنا۔
۵۔افراد کو ان کے معاشرتی کردار کی بنا پر ترجیح دینا نہ کہ ذات پات یا کسی اور نسبت سے
۶۔ اساس پاکستان اور عوامی حقوق کے عملی طور پر پاسدار افراد کو ووٹ دینا۔
۷۔ صرف ملکی اشیا خریدنا۔ ۸۔ ملکی سیاست میں اپنے آپ کو شامل رکھنا۔
۹۔ مذہب اور پاکستان کے علاوہ باقی تمام شناختوں کو ختم کرنا۔
۱۰۔ اجتماعیت کی تربیت کرنا۔
۱۱۔ مل کر کام کرنے کی عادت ڈالنا۔


سیاسی نظریات:
پوری دنیا میں مختلف قسم کے سیاسی نظامات موجود ہیں۔ کہیں جمہوریت ہے۔ کہیں بادشاہت ہے کہیں کچھ خاص گروہ حکومت پر قبضہ اور ہیں اور کہیں ہم جیسے ملایت اور آمریت کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف قسم کے معاشرتی نظام موجود ہیں جیسے کہ سرمایاداری نظام اور اشتراکی نظام وغیرہ۔ آئیے ان دونوں نظاموں کا جائزہ لیں۔

ایک تو سرمایادارنہ نظام ہے جس میں ہم اب جی رہیے ہیں اس نظام کے تحت معاشرہ دو طبقوں میں تقسیم ہو جاتا ہے ایک تو ایسے افراد کی جماعت جن کی زندگی کا سارا دارومدار اپنی خدمات بیچ کر گزارا ہوتا ہے جبکہ دوسرا وہ طبقہ ہے جو دوسروں کی خدمات خرید کر ان کی خدمات کے معاوضے کا ایک حصہ بطور اجرت انہیں دے دیتا ہے اور ایک بڑا حصہ اپنے پاس منافع کی صورت میں رکھ لیتا ہے جس سے یہ افراد تو امیر سے امیر ہو جاتے ہیں یہ کام نہی کرتے لیکن استحصال سے پیسہ کماتے ہیں کیونکہ یہ تنخواہ دار طبقے کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ تنخواہ دار طبقے کا سارا گزارہ اپنی خدمات بیچ کر ہوتا ہے اگر ملازمت مل جائے گی تو وہ زندہ رہیں گے ورنہ بھوکے مر جائیں گے یا دوسروں سے چھین کر کھائیں گے۔

ایک دوسرا نظام اشتراکی نظام ہے اس نطام کے تحت ملک کے تمام اثاثہ جات اور پیداوار کے ذرائع تمام افراد کی مشترک ملکیت ہوتے ہیں جس سے ہر فرد اپنی اہلیت و قابلیت اور معاشرتی ترقی میں اپنے کردار کے لحاظ سے مادی فائدہ حاصل کرتا ہے۔ اشیا منافع کے بجائے افراد کی ضروریات کی تسکین کے لئے فراہم کی جاتیں ہیں۔ تمام افراد ایک ہی طبقے کے ہو جاتے ہیں کوئی امیر نہی اور کوئی غریب نہی۔ ہر فرد کے پاس اتنے وسائل ہوتے ہیں کہ وہ آسانی سے اپنی زندگی سے لطف اندوز ہو سکے لیکن وسائل چند ہاتھوں میں جمع نہی ہونے پاتے جس کی وجہ سے کوئی کسی کا استحصال نہی کر سکتا۔

استحصال وسائل کی کثرت کی بنا پر ہوتا ہے۔ جب کسی کے پاس وسائل جمع ہی نہ ہو پائیں گے تو وہ کسی کا کیسے استحصال کرے گا۔ اس نطام میں ہر فرد دیوانہ وار کام کرتا ہے کیونکہ وہ اسے اپنا کام سمجھتا ہے کیونکہ جس سکول فیکٹری یا کمپنی میں وہ ملازمت کرتا ہے وہ اس میں حصہ دار ہے یا یوں کہ لیں کہ وہ ترقی میں حصہ دار ہوتا ہے۔ یہ نطام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہر فرد کو ملازمت ملے۔

آئیے اب دونوں نظاموں کا پاکستان کے موجودہ مسائل کے حل کے لحاظ سے تقابلی جائزہ لیتے ہیں۔

۱۔ غربت اسلامی نظام افراد کی ملازمت کی ضمانت دیتا ہے جو افراد کی معاشی آزادی کے لئے بے حد ضروری ہے۔ پیداوای یونٹس منافع کی بجائے افراد کو ضروریات زندگی فراہم کرنے کے لئے اشیا پیدا کرتے ہیں جس سے اشیا کی قیمتیں کم اور ہر فرد کی قوت خرید کے مطابق ہوتی ہیں جس سے کی وجہ سے اشیا کی طلب زیادہ ہو جاتی ہے جس کے لئے پیدا کرنے والے زیادہ چاہیں۔ جس سے افراد کو ملازمت ملتی ہے۔

یہ ایک کامیابی کا چکر ہے۔ ہر مرتبہ پہلے سے کچھ زیادہ افراد اس کامیابی کے دائرے میں آ جاتے ہیں۔ یہ نظام افراد کی ضرورتوں کو پوری کرنے کی بات کرتا ہے۔ اس لئے یہ نظام ملازمت کے زیادہ مواقع فراہم کرتا ہے۔ جبکہ سرمایہ داری نظام میں اشیا استحصال سے پیدا ہوتی ہیں۔ ورکرز کو ان کی اجرت کا ایک حصہ دے دیا جاتا ہے اور ایک بڑا حصہ مالک اپنے پاس رکھتا ہے۔ اس طرح وہ دن بدن نہ کام کرتے ہوے بھی کام کرنے والوں سے امیر ہو جاتا ہے۔ تنخواہ دار کو صرف وہی ملتا ہے جو ان کی زندگی کی بقا کے لئے کم اس کم لازم ہے تا کہ وہ زندہ رہ سکیں اور ان کے لئے کام کرتے رہیں۔ کماتے یہ ہیں اور پیسہ کسی اور کی جیب میں چلا جا تا ہے۔

سرمایہ داری نظام ورکر کو کم از کم ملازمت کے مواقع اور کم سے کم ممکن اجرت فراہم کرتا ہے۔ جس سے فرد کی قوت خرید کم ہوتی جاتی ہے اور اس دلدل میں پھنستا جاتا ہے۔

۲۔ جماعتی کشمش کا خاتمہ: موجودہ استحصالی نظام ورکر اور مالک میں تصادم کی جڑ ہے۔ کوئی نوکر مالک سے اور کوئی مالک نوکر سے خوش نہی ہے۔ مالک کی شکائت ہے کہ ملازم کام نیت سے نہی کرتا نوکر کہتا ہے تنخواہ ضروریات زندگی خریدنے کے لئے ناکافی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں سچے ہیں۔ جب تک یہ سرمایہ داری نظام ہے یہ مسئلا ایسے ہی رہے گا۔ جب تک اشیا افراد کی ضروریات کو پوری کرنے کی بجائے منافع کے لئے بیچی جاتی رہیں مسائل حل نہی ہونگے۔ اس کے مقابلے میں اشتراکی نظام میں فیکٹری ورکرز کے مشترک ملکیت ہو گی جس سے نیت سے نا کام کرنے کا سوال ہی پیدا نہی ہوتا۔

اشیا سستی ہوں گی کیونکہ کسی مالک کو منافع نہی کمانا۔ اشیا سستی ہونے کی وجہ سے زیادہ بکیں گی تو مزیر فیکٹریز لگیں گی۔ ہر فیکٹری روزگا کے زیادہ مواقع فراہم کرے گی۔

سرمایہ داری نظام افراد کو طبقوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ایک مالک طبقہ اور دوسرا تنخواہ دار طبقہ۔ ہر ایک طبقہ دوسرے سے متعصب اور نا خوش ہے۔ اس تعصب کی وجہ معاشی استحصال ہے۔ مزدور کو اس کے کام کی پوری اجرت نہی ملتی۔ اس لئے وہ ہڑتالیں اور ریلیاں نکالتے ہیں اور امن و امان کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

۵۔ اچھی اجرت: اجرت اتنی ہونی چاہیے کہ اس سے ضروریات زندگی آسانی سے پوری ہو سکیں۔ خاندان کے ہر فرد کو کم از کم ایک تولہ سونے کی قیمت ماہانہ تنخواہ ملنی چاہیے۔ یہ ایک تولہ سونے کی قیمت کی تنخواہ اس وقت ضروریات زندگی کے لئے کافی ہوگی جب بجلی ایک روپے یونٹ پٹرول تیس روپے فی لیٹر ۔ ڈیزل پندرہ روپے فی لیٹر بکے اور ملک میں ضرورت کے مطابق پانی موجود ہو۔

سرمایہ دارانہ نطام ورکرز کو ان کی اجرت کا ایک حصہ معاوضے میں دے دیتا ہے اور ایک بڑا حصہ بطور استحصال رکھ لیتا ہے۔ جس سے ورکر کو اس سے کام کے مقابلے میں اجرت کم ملتی ہے کیونکہ مالک اس کی اجرت سے چھینے گئے پیسے کو منافع کہ کر رکھ لیتا ہے۔ یہ مالک کا منافع نہی ہے یہ ورکرز کی اجرت ہے یہ ان کا حق ہے۔ اگر یہ انہے ملے تو وہ با آسانی اپنی روزمرہ زندگی کی ضروریات خرید سکتے ہیں۔

۶۔ سماجی انصاف اشتراکی نطام میں جب ہر فرد کا معاشی و معاشرتی مرتبہ ایک جیسا ہوتا ہے تو افراد کے رویوں میں بھی تبدیلی آتی ہے۔ کوئی کسی کی اس کے معاشی و معاشرتی مرتبے کی وجہ سے عزت نہی کرتا۔ جس کو بقا کی فکر ہوتی ہے وہ ملازمت کرتا ہے ۔ملازمت کرنے سے اس کا رتبہ ہر دوسرے فرد جیسا ہو جاتا ہے تو سب کی چوہدریاں جاگیرداریاں یا ڈیرے ختم ہو جاتے ہیں۔ افراد کی پاس اتنا پیسہ ہوتا ہے کہ وہ آسانی سے زندگی سے لطف اندوز ہو سکیں لیکں رشوت دینے کے لئے کسی کے پاس پیسہ نہی ہو تا۔ سب کا معاشی و معاشرتی مرتبہ ایک جیسہ ہونے کی وجہ سے سفارش کار گر نہی ہوتی۔

ہر فرد وہ ہی حاصل کرتا ہے جس کے لئے وہ محنت کرتا ہے۔ نہ کم نہ زیادہ۔ یہ نظام پیسہ چند ہاتھوں میں جمع نہی ہونے دیتا۔ اس نطام کے تحت فرد کو معاشرے میں اس کے کردار اور ضروریات کے لحاظ مادی فوائد فراہم کئےجاتے ہیں۔

اس کے مقابلے میں سرمایہ داری نطام کی صورت میں ورکرز کا حق مار کر اکٹھا کیا ہوا پیسہ بنکوں اور کچھ ہاتھوں میں منجمند ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے پیسہ مارکیٹ سے غائب ہو جاتا ہے۔ مارکیٹیں رنگ برنگی اشیا سے بھری ہوتی ہیں لیکن کسی کے پاس خریدنے کے لئے پیسہ نہی ہوتا۔ دو قسم کے طبقے پیدا ہوتے ہیں۔ مالک اور ملازم۔ ظالم اور مظلوم۔ غریب غریب سے غریب تر ہوتا جاتا ہے اور امیر امیر سے امیر تر ہوتا جاتا ہے۔ غریب اپنے ہی ملک میں اجنبی بن جاتے ہیں کیونکہ وہ مالکوں کے استحصال کا شکار بن جاتے ہیں۔ اس وجہ سے طبقاتی کشمکش پیدا ہوتی ہے۔ جس سے سب کی بقا کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔

فرد کی سماجھی آزادی اس کی معاشی آزادی سے جڑی ہوئی ہے۔ جب وہ اپنی بقا کے لئے کسی پر انحصار نہی کرتا تو اس کی قابلیتوں پھلتی پھولتی ہیں۔ وہ اپنی توانائی کو کسی مثبت سوچ میں لگا سکتا ہے اور وہ ثقافت کے نام پر بنی ہوئی بہت ساری ہتھکڑیوں اور غلط رسومات سے آزاد ہو جاتا ہے کیونکہ پیٹ بھرنے کے بعد دماغ کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ افراد کو اپنی قابلیتوں کے اظہار کے لئے مواقع چاہیں۔ ہمارے افراد خداد داد قابلیتوں سے بھرے پڑے ہیں لیکن حکومت انہیں صلاحیتوں کے اظہار کے لئے مواقع نہی دیتی جس سے یہ افراد غلط کام کی طرف لگ جاتے ہیں۔ کھلاڑی کو میدان چاہیے۔ ایک ذہین طالب علم کو تجربہ گاہ اور اچھے استاد چاہئے۔

۷۔غریب کا نظام۔ سرمایا دارنہ نظام پیسے والے ایک چھوٹےگروپ کے فائدے کا نظام ہے۔ اشتراکی نطام ملک کے ننانوے فیصد افراد کے فائدے کا نظام ہے کیونکہ یہ ان کی بقا کا ضامن ہے۔ جن کا نظام ہے وہ انہی کے فائدے کی بات کرے گا۔موجودہ حالات میں ملک کے ننانوے فیصد اثاثے ایک فیصد افراد کے پاس ہیں اور باقی ننانوے فیصد افراد ایک فیصد سے گزاراہ کر رہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کی ہماری فی کس آمدنی تو بہت زیادہ ہے لیکن غربت بھی بہت زیادہ ہے۔ اگر ننانوے فیصد افراد کو ایک فیصد کے ظلم و استحصال سے بچانا ہے تو ننانوے فیصد افراد کو مل کر پر امن جد و جہد کرنی ہوگی۔ یہ صرف غریب کے نظام سے ہی ممکن ہو گا کہ ملکی اثاثہ جات سب کے مشترک ہوں جس سے ایک فیصد کا حصہ صرف ایک فیصد ہی ہو گا۔

۳۔ اجتماعیت
اتحاد کے فوائد اور نفاق کے نقصانات بچپن سے سنتے پڑتے آئے ہیں۔ طاقت اجتماعیت میں ہے اسی سے یکجہتی حاصل ہوتی ہے اور شناخت ملتی ہے۔ لیکن اجتماعیت کیسے حاصل کی جائے۔ اجتماعیت اشتراک سے پیدا ہوتی ہے۔ دو مختلت یا متعصب طبقوں کے درمیان کسی صورت میں اجتماعیت پیدا نہی ہو سکتی جب تک ان میں کچھ قدریں مشترک نہ ہوں۔ ایک وکیل اور ایک مزدور کبھی اکٹھے بیٹھ ہی نہی سکتے کیونکہ ان میں کوئی چیز مشترک ہی نہی ہے۔ مزدور مزدوروں میں ہی بیٹھے کا اور وکیل وکیلوں میں۔ اب کونسی قدریں ہم سب میں مشترک ہیں۔

۱۔ ہم سب پاکستانی ہیں۔
۲۔ ہم سب غریب ہیں۔ معاشی استحصال کا شکار ہیں۔
۳۔ ہر فرد سماجھی نا انصافی کا شکار ہے یا دوسرے لفظوں میں ہم سب مظلوم ہیں۔
ہم پر ظلم کرنے والے جہاں بھی ہیں وہ بڑی منصوبہ بندی اور اجتماعیت سے کام کرتے ہیں تو ہم کیوں نہ اپنے اوپر اس ظلم کے خاتمے کے لئے اکٹھے ہو جائیں۔ اس لئے ہم سب کو اکٹھے ہونا ہو گا۔ قائد کے اصولوں پر قائد کے پاکستان کے لئے اس کے پاکستان کے جھنڈے تلے۔ اسی میں ہم سب کی بقا ہے۔ مل کر کام کرنے کے لئے کچھ باتیں بہت ضروری ہیں۔

۱۔ برابری ۲۔ مشترک قدریں ۳۔ ایمان اتحاد تنظیم ۴۔ مشاورت و امن

کیا آپ وہ ترانہ بھول گئے ہیں جو کئی ہزار صبح آپ مل کی گاتے رہے۔

پاک سر زمین شاد باد کشور حسین شاد باد
تونشان عظم عالیشان ارض پاکستان

مرکز یقین شاد باد

پاک سر زمین کا نظام قوت اخوت عوام
قوم ملک سلطنت پائندہ تابندہ باد

شاد باد منزل مراد

پرچم ستارہ و ہلال رہبر ترقی و کمال
ترجمان ماضی شان حال جان استقبال

سایہ خدائے ذوالجلال

اسی ترانے پر غور کریں اور دیکھیں کہ ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں۔ یہ وقت ہے رک کر سوچنے کا کہ کہیں ہم غلط راستے پر تو نہی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہم اب غلط راستے پر ہیں ۔ ہمیں اپنی منزل کا پھر سے تعین کرنا چاہئے۔ وہ راستہ جو ہمیں قائد کے پاکستان کی طرف لے کر چلے۔


تعصب و حب الوطنی:

قائد اعظم نے اکتوبر ۱۹۴۷ میں فرمایا

” اپنے دلوں کو ٹٹولیں اور دیکھیں کہ آیا نئی اور عظیم مملکت کی تعمیر میں آپ نے اپنے حصے کا کام کیا ہے؟ ہم آگ میں سے گزر رہے ہیں۔ سورج کی روشنی ابھی آنی ہے۔ لیکن مجھے کوئی شک نہی کہ اتحاد تنظیم اور یقین محکم کے ساتھ ہی ہم نہ صرف دنیا کی پانچویں سب سے بڑی مملکت کی حیثیت سے دنیا میں باقی رہیں گے بلکہ دنیا کے کسی بھی ملک کے ساتھ اپنا مقابلہ کر سکیں گے۔ کیا آپ آگ میں سے گزرنے کے لئے تیار ہیں؟ آپ کو اپنے ذہنوں کو تیار کر لینا چاہئیے۔ ہمیں انفرادیت اور چھوٹی چھوٹی رقابتوں کو ختم کر دینا چاہئیے اور دیانت داری اور فرض شناسی کے ساتھ عوام کی خدمت کے لئے اپنے ذہنوں کو تیار کرنا چاہیئے۔ ہم خوف خطرے اور اندیشوں کے دور سے گزر رہے ہیں۔ ہمارے اندر اتحاد تنظیم اور یقین محکم ہونا چاہئے۔”

سب سے پہلی مشترک قدر پاکستانی ہونا ہے۔ ہماری شناخت صرف اور صرف یہی ہے۔ ملک درخت کی مانند ہے اور ہم سب اس کے پتے ہیں۔ پتے کی بقا درخت سے جڑنے کے وجہ سے ہوتی ہے۔ جب وہ علیحدہ ہوجاتا ہے تو مر جاتا ہے۔ اس لئے حب الوطنی کو اپنا جزو زندگی بنائیں۔ کچھ ایسی چیزیں ہیں جو ہماری اجتماعیت کے لئے خطرہ ہیں۔ ملک کے بعد جس کسی بھی چیز پر گروپ بندی کریں گے تو اس سے آپ ملک کو کمزور کر رہے ہوں گے اور اس طرح آپ کا اپنا وجود بھی خطرے میں ڈال رہے ہوں گے۔ یہ گروہ بندیاں لسانی صوبائی مذہبی یا علاقائی بنیادوں پر ہو سکتی ہیں یا پھر معاشی و معاشرتی مرتبے یا ذات پات کے بت ہو سکتے ہیں۔ یا پھر ڈیرے دارانہ اور جاگیردانہ نظام ہو سکتا ہے۔ گروپ بندیوں کی وجہ جہالت استحصال اور غلط فہمیاں ہیں۔ ہمیں ان تمام بتوں کو توڑنا ہو گا یہ ہمیں کمزور کرتے ہیں۔

اگر آپ کو اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی بقا عزیز ہے تومذہب اور پاکستان کے علاوہ اپنی تمام شناختیں ختم کر دیں۔ ہمیں اپنی بقا کے لئے اپنا من مارنا پڑے گا۔ اگر آپ نے یہ من نہ مارا تو آپ خود مر جائیں گے۔ اکسویوں صدی میں رہنے کے لئے آپ کو اپنی بقا یا ان بتوں کی بقا میں سے صرف ایک چیز چننی ہو گی۔ یہ اب آپکا اپنا فیصلا ہے کی آپ کیا چنتے ہیں۔ اگر آپ اپنی بقا پر ان بتوں کی بقا کو فوقیت دیتے ہیں تو مت بولیں کہ ہمارے دشمن ہمیں تقسیم کرنے سے ہم پر حکومت کرتے ہیں اور یوں ہم تقسیم در تقسیم ہوتے جاتے ہیں۔ مسائل تقسیم سے نہی اجتماعیت سے حل ہونگے۔

استحصال یہی نہی کہ مالک آپ کو کم اجرت دے کیونکہ آپ کو ملازمت کی ضرورت ہے۔ استحصال ہر اس چیز کا نام ہے جس سے کوئی دوسرا فرد آپ کی ضرورت یا کسی کمزوری کا ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے۔ استحصال جذباتی بھی ہوتا ہے اور مذہی بھی۔ ہم سب اپنی چیزوں کو دوسروں پر فوقیت دیتے ہیں۔

جب ملکوں کی بات ہوتی ہے تو ہم کہتے ہیں پاکستان سب سے پیارا ملک ہے۔ جب ذاتوں کی بات ہوتی ہے تو اپنی ذات سب سے زیادہ جب مذہب پر بات ہوتی ہے تو اپنا فرقہ یا مذہب سب سے عزیز۔ یہ انسانی فطرت ہے یا کہ لیں کہ کمزوری ہے لیکن کچھ لوگ اس انسانی کمزوری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور صوبائی لسانی علاقائی مذہبی غلط فہمیاں پیدا کرتے ہیں کیونکہ ان لوگوں کو اس سے فائدہ ہوتا ہے۔

ذرا غور کریں کتنے سیاست دان جو اسمبلیوں میں صرف اس وجہ سے بیٹھے ہیں کیونکہ آپ نے انہیں ذات پات یا گروہ بندیوں کی وجہ سے ووٹ دیا اور وہ وہاں نہ ہوتے اگرآپ انہیں پاکستان اور عوامی حقوق کے لئے ووٹ دیتے۔ جس کو ذات برادری کی بنیاد پر ووٹ دیں گے وہ ذات برادری کو مزید مضبوط کرے گا کیونکہ اس کی سیٹ اسی سے پکی ہو گی۔ اس طرح یہ لوگ جذباتی استحصال کو مزید مضبوط کرتے ہیں کیونکہ وہ اسی کی وجہ سے چنے گئے ہوتے ہیں۔ اگر کبھی آپ کسی کو غربت واستحصال اور سماجھی نہ انصافی ختم کرنے کے لئے ووٹ دیں تو آپ دیکھیں گے آپ کے چنے ہوے افرد یہی کام کریں گے کیونکہ ان کی نشست آپ کی ترجیحات پوری کرنے سے ہی پکی ہو گی۔

استحصال سے ہر وقت چوکنا رہیں۔ اس کے بہت سے ہتھکنڈے ہیں۔ یہ ہمارمے معاشرے میں ناسور کی طرح پھیلتا جا رہا ہے۔ کتنے مولویوں کا رزق اس بات سے جڑا ہوا ہے کہ وہ آپ کو آپ کے نا پسندیدہ فرقے کے متعلق تازہ ترین ثبوت ڈھونڈ کر دیتے رہتے ہیں۔ کبھی آپ نے کسی کو اس کے کردارکی وجہ سے ووٹ دیا ۔ نہی آپ ووٹ دیتے ہیں ذات کے لئے اپنے فرقے یا مذہب کے لئے یا کسی اور وجہ سے۔ جس بات کی بنیاد پر یہ چنے جاتے ہیں تو وہ وہی کام کرتے ہیں۔

سرد جنگ میں انہیں امریکی اہل کتاب لگے اور ان کی طرف سے روس کو کافر کہ کر اس پر چڑہائی کو جہاد عظیم قراد دیا اور بعد میں وہی اہل کتاب دشمن ہو گئے اور ان کے خلاف لڑائی کو جہاد عظیم قرار دیا۔ وجہ صرف ڈالروں کی وہ بارش تھی جو ان پر لگا تار ہوتی رہی اور جب بند ہو گئی تو امریکی دشمن نظر آنے لگے۔

جہاد کی انہیں پہلے پروا تھی اور نہ آج۔ اگرا اتنے ہی دل والے اور جہاد کے سگے ہوتے تو جاتے وہاں اور پہلی صفوں میں جا کر جنگ میں حصہ لے کر حضور کی سنت پوری کرتے۔ غازی بنتے یا شہید ہوتے۔ دوسروں کے بچوں کو وہاں بجوا کر مروا دیا اور اپنوں کو امریکہ بجوا دیا اور وہ وہاں اسی فرنگی سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ دوسروں کے بچوں کو مروا کر ان کی تصویریں اتروا کر سعودی عرب سے فی شہید کے حساب سے پیسے لیتے رہے۔ یہ حقیت میں مردوں کا کفن بیچنے والے ہیں۔

آج پورے ملاؤں میں ایک فرد بھی کھڑا ہو کر یہ دعوٰی نہی کر سکتا کہ وہ آج حکومت میں اس وجہ سے ہے کہ انہوں کے عوام کی بھلائی کا کوئی کام کیا یا کوئی ایجنڈا دیا جسے عوام نے پسند کیا۔ یہ بات ایک ان پڑھ کو بھی پتا ہے کہ یہ سب امریکہ دشمنی کی وجہ سے پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں۔ نہ ان لوگوں کا کوئی ایجنڈا ہے اور نہ ہی کوئی پروگرام یہ مذہبی جذبات کا استحصال کرتے ہیں۔

طالبان سے ہزار اختلاف صحیح لیکن مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ ان منافقوں سے تو طالبان اچھے ہیں جنہوں نے باطل کے سامنے سر جھکانے کی بجائے شہادت کو گلے لگا لیا لیکن اپنے الفاظ کا پاس رکھا۔

اس لئے ان مذہبی استحصالیوں کو منافق کہا جاتا ہے کیونکہ یہ ماحول دیکھ کر ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف چھلانگیں لگاتے ہیں یا یہ بات سمجھنے میں بہت دیر لگا دیتے ہیں۔ حقیقت میں یہ مردوں کا کفن بیچنے والے لوگ ہیں۔عوام کی امریکہ دشمنی سے عوام کے گھر خوشحالی نہیں آجانی اس لئے ان کو چننے کو کوئی فائدہ نہیں۔ ان کو چنیں جو آپ کی بہتری کی لئے کوئی ایجنڈا دیں اور وہ قابل اعتبار بھی ہوں۔

یقین اتحاد تنظیم:
یقین محکم عمل پیہم سے ہی یہ ظلم و استحصال کی بیڑیاں ٹوٹ سکتی ہیں۔ لیکن یہ یقین محکم ایسے ہی پیدا نہی ہو جاتا اس کے لئے مسائل اور ان کے حل کا حقیقی ادراک لازم ہے۔ جس سے عمل پیہم کے لئے بنیاد پختہ ہوتی ہے۔ قائد اعظم نے اپنی ساری زندگی کا نچوڑ ان تین الفاظ میں سمو دیا۔ یہ ترقی و بقا کا نسخہ ہے۔ بقا طاقت سے ممکن ہے۔
طاقت اجتماعیت سے آتی ہے۔ اجتماعیت مشترک قدروں سے پیدا ہوتی ہے۔

اجتماعیت منظم کوشش کے بغیر ایک مردہ جسم کی سی ہوتی ہے۔ تنظیم اجتماعیت کی روح ہے۔ تنظیم پر امن اور مشاورت کے راستے پر چلتے ہوے لائحہ عمل متعین کرتی ہے اور سفر کے لئے ایک سمت متعین کی جاتی ہے۔ اپنے اندر بلا کا یقین پیدا کریں جب آپ کو کامیابی کا یقین ہو جائے تو آدھا راستہ تو آپ نے بیٹھے بٹھائے طے کر لیا۔ اپنے اندر ایک اعتماد پیدا کریں۔ اگر آپ خود ہی اپنی کاوشوں پر یقین نہی ہے تو تبدیلی کیسے آئے گی۔

پورے حوصلے اور یقین کے ساتھ کوشش کریں تو یہ کوشش لازما رنگ لائے گی۔ پورے ملک میں ہر روز اتنے جلسے جلوس نکلتے ہیں لیکن یہ سب شام کو ناکام ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ ایک منظم کوشش نہیں ہے۔ تنظیم اجتماعیت کی طاقت کا بہترین استعمال کرتی ہے۔ منظم کوشش کے بغیر بھیڑوں کے ریوڑ والی صورتحال ہوتی ہے۔


مشاورت اور امن:
اسلام مشاورت کا درس دیتا ہے۔ یہ بہتر فیصلے تک پہنچنے کے لئے بہت اہم ہے۔ ہمارے ملک کو شخصی فیصلوں نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ جب ایک فرد اپنے آپ کو عقل کل سمجھے تو اس سے زیادہ کوئی احمق نہی کیونکہ وہ اس طرح اپنے انسان ہونے کو جھٹلا رہا ہے۔ انسان خطا کا پتلا ہے۔ اس لئے اگر ایک فرد فیصلا کرے تو بہت زیادہ ممکن ہے کہ فیصلہ غلط ہو اس لئے مشاورت لازم ہے۔ مشاورت برابری کی بنیاد پر کی جائے اور فیصلے مشاورت سے کئے جائیں۔ اس سے غلطی کے مواقع کم سے کم رہ جاتے ہیں اور فیصلے کو طاقت ملتی ہے۔ اس سے دوسرے افراد سیکھتے ہیں۔ ان میں فیصلہ سازی کا اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ ان کا تنظیم پر اعتماد بلند ہوتا ہے کیونکہ وہ بھی فیصلے میں شامل ہوتے ہیں۔ اس سے محبت و یکجہتی پیدا ہوتی ہے۔

فیصلے میں موجود ہر شخص اپنے آپ کو معتبر سمجھتا ہے اور ان میں قوت فیصلہ پیدا ہوتی ہے۔ ایسے ہی امن بہت اہم ہے۔ ہم سب اپنے ملک میں ہیں۔ حقوق کے لئے جدوجہد درست لیکن یہ کسی ملکی اثاثے کو نقصان کی قیمت پر نہ ہو۔ پاکستان ہمارہ گھر ہے۔ غصے میں گھر کی چیزیں توڑتے والے عقل مند نہی کہلاتے اور بعد میں لازماً پچھتاتے ہیں۔آپ کی کسی حرکت سے پاکستان یا کسی فرد کو نقصان نہ ہو۔ اس سے جس فرد کو بھی آپ نقصان پہنچائیں گے وہ آپ کی تنظیم سے نفرت کرے گا۔ ہم نے محبت سے تبدیلی لانی ہے۔ نفرت سے نہی۔ نفرت سب کچھ جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔


جمہوریت کے لئے تربیت:
افراد کی جمہوری تربیت انہیں ان کی سیاسی تربیت و اجتماعیت کا پھل دیتی ہے۔ جہموریت ان کی اجتماعیت کا اظہار ہے۔ ایسی اجتماعیت جو ان میں مسائل کے ادارک کے بعد ان کے حل کے لئے ایک منظم کوشش سے پیدا ہوئی ہو۔ جمہوریت انہیں اظہار کا موقع دیتی ہے۔ ہمیں پاکستان کو قائداعظم کی شروع کی ہوئی جدوجہد کے مطابق چلانا ہے۔ ایسا پاکستان جو علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر ہو ایک فلاحی مملکت۔ اس خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے قائد اعظم کی کوششوں کو جاری رکھنا ہو گا۔ وہی اسے ملک کی بنیاد ہے۔ اس کے لئے ہمیں طاقت(ووٹ) اچھے افراد کو دینی ہو گی تا کہ وہ ہماری دی ہوئی طاقت کا بہتر استعمال کر سکیں۔ طاقت ایک نشہ کی مانند ہوتی ہے۔ بہت کم لوگ ہیں جو طاقت کے ہوتے ہوئے بھی انسانیت کے دائرے میں رہیں۔ طاقت رکھتے ہوئے با کردار اور با عمل ہونا بہت باکمال بات ہے۔

اپنی مرضی سے کسی کو اپنے پر ظلم کرنے والے کو کم از کم ایک با شعور انسان نہی کہا جا سکتا۔ ایسے ہی آپ جن افراد کو ووٹ دیتے ہیں یہ لوگ آپ کی دی گئی رائے (ووٹ) سے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ حقیقت میں یہ ظلم آپ خود اپنے پر کر رہے ہیں۔ افراد کو اپنے نمائندوں کو ووٹ دینے سے پہلے مندجہ ذیل پہلوؤں کے حوالے سے بڑی اچھی طرح سوچنا چاہیے تا کہ ان کے رائے کا بہترین استعمال ہو سکے۔ ورنہ وہی ہوتا رہے گا جو ہوتا آ رہا ہے ظلم

اساس پاکستان:
ایسے افراد کو اپنا نمائندے منتخب کریں جو اساس پاکستان کے رکھوالے ہوں۔ جس طرح پولیس چوکیدار سے چور ہو گئی ہے اسی طرح یہ نمائندے بھی اساس پاکستان کے رکھوالے ہونے کی بجائے اس کو نقصان پہنچانے کے بہانے ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ اسی وجہ سے دشمنوں سے درآمدارت کی جارہی ہیں۔ امرتسر اور جونا گڑھ تو تقسیم سے پہلے ہی کھو دیا۔ حیدرآباد اور کشمیر پر انہوں نے قبضہ کر لیا ۔اب باقی ماندہ کشمیر کا بھی سودا ہو رہا ہے۔

تین دریا تو پہلے آمر نے انہیں تحفے میں دے دئیے اور باقی تینوں پرانہوں نے بند باند کر پانی چوری شروع کر دیا۔ جس سے ہمارے کاشتکار تو بھوکے مر رہے ہیں اور وہ سستی زرعی اجناس پیدا کر کے سرمایا کما رہے ہیں۔ مشرقی پاکستان کو اندرونی سازشوں نے ہم سے علیحدہ کر دیا جو دوسرے آمر کی طرف سے ہمیں ہمارے بے حسی کی سزا تھی۔ تیسرے آمر نے انہیں کارگل اور سیاچن تحفے میں دے دیے۔ پاکستانیوں کے لئے اس کا تحفہ ہتھیار اور ملائیت تھی اب چوتھے آمر کی باری ہے۔ کشمیر تو وہ انہیں تحفے میں دے چکا ہے لیکن ابھی اس کا دل نہیں برا۔

اب بلوچستان اور وزیر ستان کی باری ہے۔ پاکستان کے لئے آمریت زہر ہے۔ آؤ ان آمروں ملاؤں اور اداکار نما سیاستدانوں کو دریا برد کر دیں۔

ہمارے قوم جمہوریت چاہتی ہے۔ اس لئے خدا راہ ایسے افراد چننے کی ضرورت ہے جو اساس پاکستان کے پاسدار اور رکھوالے ہوں۔ پاسدار وہی ہوں گے جنہیں ان کا پتہ ہو گا۔ موجودہ صوبائی اسمبلیوں اور وفاقی ایوانوں میں بیٹھنے والوں میں کوئی شاذو نادر ہی ایک آدہ ہو گا جس کو اس کا پتہ ہو۔ اس لئے ان سے خیر کی توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے۔ بھارتی حکومت سے پاکستان دشمنی کے سوا کسی اور بات کی توقع احمقانہ ہے۔ سانپ کا کام ڈسنا ہے۔ وہ ڈسے گا جتنا مرضی آپ پیار و محبت سے پیش آئیں وہ اپنی فطرت نہی بدل سکتا۔

سنپاں دے پتر کدی متر نہ ہوئے
پاویں چولیاں دودھ پییائے ہو

وہ تو ویسے ہی رہیں گے لیکن جو بھی وہ ہمیں نقصان پہنچانہ چاہیں وہ صرف ہمارے اپنوں کے ذریعے ہم تک پہنچتا ہے۔ اس لئے ہمیں ایسے افراد چننے کی ضرورت ہے جو اساس پاکستان اور عوامی حقوق کے لئے کام کریں اور ہر اس طاقت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں جو ہمیں نقصان پہنچانہ چاہتی ہو۔


عوامی مسائل کے بارے میں رائے اور کردار:
ایسے افراد جو عوام کی نمائندگی کے دعوے دار ہوں۔ انہیں ووٹ دینے سے قبل اپنے علاقے کے مسائل کے حوالے سے آسانی سے پرکھا جا سکتا ہے۔ ان کی رائے اور مسائل حل کرنے کے حوالے سے کردار کو جانچنا بہت اہم ہے۔

موجودہ حالات میں بہت سارے اراکین اسمبلی مسائل حل کرنے کے لئے کوئی رائے نہی رکھتے اور اس بات میں ذرا بھی شک نہی کہ انہوں نے ان مسائل کے حل کے حوالے سے کبھی سوچا بھی نہی۔ کردار ادا کرنا تو بڑے دور کی بات ہے۔ یہ بات تو کبھی ان کے خواب و خیال سے بھی نہی گزری کہ عوام کا ہر دن کن تکلیفوں سے گزرتا ہے۔ اب تو یہ حالات ہیں کہ جس کا حال پوچھو جواب ملتا ہے ‘بس جی رہے ہیں’ اس لئے خدا راہ اپنے آپ پر ظلم نہ کریں۔ ووٹ ان کو دیں جو آپ کے مسائل کم کریں نہ کہ بڑھائیں۔کسی سیاسی پارٹی کا کوئی منشور نہی ہے۔ کچھ نے بڑے خوبصورت الفاظ کسی سے لکھوا لئے ہیں لیکن ان کی پارٹی کے کسی نمائندے ورکر کو یہ علم ہی نہی کے اس کی پارٹی کا منشور کیا ہے۔

مزید یہ کہ مسائل کا حقیقی ادراک پیدا کریں۔ سولنگ لگوا دینا یا بازاوں میں کوڑے دان رکھوا دینا مسئلے کا حل نہی ہے ۔ ہمارا مسئلا غربت ہے جو بیروزگاری مہنگی توانائی پانی کی کمی سمگلنگ غیر ضروری درآمدات سرمایاداری نظام اور جہالت کی وجہ سے ہے۔ دو قسم کے افراد ہیں ایک تو ایسے افراد جو کسی فیکٹری کمپنی بینک یا کسی سرکاری و غیر سرکاری دفتر میں کام کرتے ہیں۔

اور دوسی قسم ایسے افراد کی ہی جن کا اپنا چھوٹا کاروبار ہے جیسے کہ دکاندار اور کسان وغیرہ۔ پہلی قسم کے افراد کا انحصار تو ڈائریکٹ ملازمت دینے والے پر ہے۔ اگر کوئی دے دے تو ٹھیک ورنہ در بہ در پھرتے رہے۔ دوسی قسم کے افراد کے کاروبار کا انحصار پہلی قسم کے افراد پر ہے کیونکہ وہی ان کے گاہک ہیں۔ اگر گاہک ملازم ہو گا تو اس کے پاس خرچنے کے لئے زیادہ پیسے ہوں گے یوں دکانوں اور کسانوں کا کاروبار بھی ترقی کرے گا اور اگر خریدنے والے کے پاس پیسے ہی نہی تو وہ کیا خریدیں گے۔

کسان کی نوکری یہ ہے کہ وہ سستا اور زیادہ اناج پیدا کر سکے اور دکاندار کے گاہک بڑھانے سے اسی نوکری دی جا سکتی ہے۔ اگر آپ اپنے مسائل حقیقتا ختم کرنا چاہتے ہیں تو ان باتوں کی بنا پر اپنے نمائندوں کو چنیں کہ کون آپ کو نوکری دے کر غربت ختم کر سکتا ہے۔ نوکری چھیننے والوں سے تو یہ توقع نہی کی جا سکتی کہ وہ آپ کو نوکری دیں۔ اس لئے آپ ان کو نوکری دیں جو آپ کو نوکری دے سکتے ہوں ان لوگوں کو نوکری مت دیں جو آپ کی نوکری چھینتے ہیں۔ آپ اپنے ووٹوں سے ان لوگوں کو نوکری دیتے ہیں۔


سیاسی نظریات:
جس فرد کو بھی آپ مناسب خیال کرتے ہیں اسکے سیاسی نظریات پر غور کریں۔ وہ ملایت کا قائل ہے۔ لوٹا ہے۔ جاگیر دار ہے۔ منافق ہے۔ سرمایا داری نطام کا ذہن رکھنے والا ہے یہ پھر عوامی نظام کا یا کسی بیرونی ہاتھ کے لئے تڑپ رہا ہے۔ جو بیرونی طاقت سے آتے ہیں وہ کام بھی انہی کے لئے کرتے ہیں۔ ان سے خیر کی توقع عبث ہے۔ ایسے افراد کو ووٹ دیں جو پاکستان کے حق میں بہتر ہوں نہ کہ اکیلے آپ کے معاشی و معاشری فائدے کے لئے۔

اگر آپ کو وہ کوئی معاشی و معاشرتی فائدہ بھی دیتے ہیں تو طاقت میں آ کر وہ اس کا ہزاروں گنا آپ سے وصول کرتے ہیں۔ ہر فرد جو الیکشن لڑتا ہے اور کروڑوں خرچ کرتا ہے وہ صرف ان کروڑوں کو اربوں میں بدلنے کے لئے ایسا کرتا ہے۔ کسی کے سر پر آپ کی خدمت کا بھوت سوار نہی۔ اس لئے اپنے اوپر ظلم روکنے کے لئے ان لوگوں کو مت چنیں۔

مزید یہ افراد کی سیاست ترک کر دیں۔ نظریات کو اپنا محور بنائیں۔ فرد کو مت دیکھیں اس کے عمل اور الفاظ کو جانچیں۔ افراد آتے جاتے رہتے ہیں۔ ہزاروں پیدا ہو رہے ہیں ہزاروں مر رہیں ہیں۔ ایک فرد کے پیچھے پڑیں گے تو فرد کے مرنے کے ساتھ ہی آپ کی ساری کوشش ضائع ہو جائے گی۔ اگر ایک گروپ ایک فرد کی بنیاد پر چل رہا ہو تو وہ فرد جیسے چاہے گا پارٹی کو استعمال کرے گا لیکن اگر وہ گروپ کسی نظریہ کی بنیاد پر ہو تو ایک فرد کی اس کے لئے کچھ حقیقت نہی۔ اس لئے نظریات کی بنیاد پر اپنی سیاست کو چلائیں۔ نظریات افراد کو چلائیں نہ کہ افراد اپنی مرضی کے فیصلوں سے پارٹیوں کو چلائیں۔


شفاف کردار:
موجودہ حالات میں یہ بات کبھی ووٹر سوچتا بھی نہی ہے کہ کردار کس نمائندے کا اچھا ہے۔ صرف ذات پات یا کسی معاشی و معاشرتی وجہ سے ووٹ دئے جاتے ہیں۔ نمائندوں کا شفاف کردار کا ہونا بہت ضروری ہے۔ ورنہ ان لوگوں کو کیا آپ پاگل سمجھتے ہیں جو انتخابات پر کروڑوں روپے خرچ دیتے ہیں۔ جو یہ کروڑوں لگاتے ہیں تو اربوں کمانے کے لئے نہ وہ اللہ واسطے یہ کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں عوام کے مسائل کے حل کی فکر لا حق ہے۔ الیکشن کے بعد وہ طاقت میں آ کر اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں جیسے کہ لوگوں کو ٹھیکے لے کر دینا لوگوں سے نوکری کے لئے رشوت لینا۔ کمیشن لینا۔ سمگلنگ کرنا۔ پلاٹ بنانا۔ مالی فوائد حاصل کرنا۔

اسی وجہ سے چناؤ کے بعد کبھی کوئی مڑ کر عوام کے پاس نہی آتا۔ ایسے افراد کو رد کر دیں۔ اسمبلیوں میں اس وقت دو قسم کے افراد بیٹھے ہیں ایک تو وہ جو آئے ہی کرپشن کرنے کے لئے وہ تو پورے زور و شور سے کما رہے ہیں لیکن ایک قسم ایسے سیاستدانوں کی بھی ہے جو کرپشن تو نہی کرتے لیکن عوام کے بھلے کا بھی کچھ کام نہی کرتے۔ وہ صرف اپنے ہی کسی اور کام میں مصروف رہتے ہیں۔ ایسی قسم کے سیاستدانوں میں اکثریت مذہبی استحصالیوں اور منافقوں کی ہے۔ جو بڑا سینہ چوڑا کر کے یہ دعوی کرتے ہیں کہ انہوں نے کچھ غلط نہی کیا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے عوام کے بھلے کا بھی کچھ نہی کیا ہوتا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ مالی نقصان تو کم کرتے ہوں لیکن وہ قومی نقصان کئی گنا کر جاتے ہیں جیسے کہ نفرت پھیلانا تششدد کر رواج دینا یونیورسٹیوں میں سیاست کو لانا۔ منافقت سے توڑ جوڑ اور گروہ بندیاں کرنا۔


تعلیم و قابلیت:
پڑے لکھے غریب لوگوں کو اپنے نمائندے منتخب کریں۔ ایسے لوگوں کو جو آپ کے درمیان رہتے ہیں نہ کہ ڈیروں پر یا اسلام آباد میں۔ جو لوگ آپ کے درمیان نہی رہتے انہیں آپ کے مسائل کا علم ہی نہی تو وہ کیسے ان کو حل کر سکیں گے یا اس کا سوچیں گے۔ موجودہ پیشہ وارانہ دور میں نمائندوں کا پڑھے لکھے ہونا بہت اہم ہے۔ وہ اپنی قابلیت سے ہی عوام کی بہتر خدمت کر سکتے ہیں اور علاقے میں ہونے والی تبدیلوں کو اچھی طرح سمجھ کر اس کے مطابق ملکی پالیسیاں بنا سکتے ہیں جو عوامی حقوق اور اساس پاکستان کے مطابق ہوں۔

ایک بڑی تعداد پڑے لکھے جاہلوں کی بھی ہے۔ جو ڈگریاں تو خرید لیتے ہیں لیکن ان کا ذہن عوامی حقوق سے نا بلد ہی رہتا ہے اور وہ پڑھ لکھ کر بھی دوسرے انسانوں سے جانوروں والا سلوک کرتے ہیں۔ یہ ایسے ڈگریوں والے لوگ ہیں جو جاگیر دار اور سرمایا دار گھرانوں میں پیدا ہوئے۔


معاشی رتبہ:
جوتا پہننے والے کو ہی پتا ہوتا ہے کہ یہ کہاں سے چبتا ہے۔ جو شخص کبھی سبزی خریدنے گیا ہی نہی اسے اس سے کیا کہ اس کا کیا بھاؤ ہے۔ جوکبھی بجلی پانی گیس فون کا بل ادا کرنے ہی نہی گیا اسے اس سے کیا کہ توانائی کا عوام کی زندگی پر کیا اثر ہے۔ جو لوگ آپ میں رہتے ہی نہی انہیں آپ کے مسائل کا کیا علم۔ اس لئے ایسے غریب اور تعلیم یافتہ افراد کو اپنے نمائندے چنیں جو آپ میں رہتے ہوں جو آپ میں سے ہوں جو آپ جیسے ہوں۔

وہی آپ کے اصل نمائندے ہونے کا حق ادا کر سکتے ہیں۔ وہی پارلیمنٹ میں بیٹھ کر آپ کے حقوق کے لئے لڑیں گے۔ آپ کی ترقی کے لئے جو کچھ ہوگا وہ صرف اور صرف آپ کا نمائندہ ہی کر سکتا ہے ورنہ نہ جرنیلوں اور مذہبی منافقوں کو آپ کی پروا ہے اور نہ ہی کوئی اور اسلام آباد میں آپ کے مسائل کے حل کے لئے تڑپ رہا ہے۔

سردار، جاگیردار سرمایا دار، بنگلوں، حولیوں یا ڈیروں میں رہنے والے کبھی آپ کی مسائل کے متعلق نہی سوچ سکتے۔

عمل نہ کہ الفاظ:
کسی کو اپنا نمائندہ منتخب کرنا اسے ایک بہت بڑی ذمہ داری سونپنے کے برابر ہے۔ جس کو صرف اہل افراد ہی نبھاہ سکتے ہیں۔ اس کے لئے کسی فرد کے کہے گئے کچھ اچھے الفاظ پر ہی بھروسہ نہی کیا جا سکتا اس کے لئے اس کا عمل دیکھنا ہو گا۔ عمل کبھی آپ کو دھوکا نہی دے سکتا۔ عمل کے علاوہ باقی سب اداکاری ہے جو یہ افراد سٹیج پر آ کر کرتے ہیں۔ یہ بھروپئے ہیں جو مختلف بھیس بدل کے شیطان کی طرح آپ کو جال میں پھنساتے ہیں۔

اچھے الفاظ سے افراد جذباتی ہو جاتے ہیں نعرہ بازی کی سیاست ہوتی ہے۔ نعروں سے مسئلے حل نہی ہو سکتے۔ ایسے افراد کی ضرورت ہے جو نعروں اور عوام کے جذباتی مذہبی معاشی و معاشرتی استحصال کرنے کی بجائے ان کے لئے کچھ کریں۔ استحصال سے ملکی سیاست کچھ افراد کی باندی بن کر رہ جاتی ہے۔ صرف کچھ خاندانوں تک محدود رہ جاتی ہے۔ ہمیں یہ نعرہ بازی کی استحصالی سیاست سے نکلنا ہوگا۔


عوامی حقوق کی پاسداری:
بنیادی ضروریات زندگی تعلیم صحت اور سماجھی انصاف ہر فرد کا پیدائشی حق ہے۔ آپ اپنے نمائندوں کے کردار کا غور سے مشاہدہ کریں کہ کس نے ان عوامی حقوق کے لئے جد و جہد کی۔ پانچوں صوبائی اسمبلیوں اور دونوں ایوانوں میں پچھلی کئی حکومتوں سے آج تک کسی ایک نے بھی عوام کے لئے ایک آواز بھی نہی اٹھائی۔ اگر آپ خود غرضی کا ہی مظاہرہ کریں جس کا مطلب ہے کہ اپنے ذاتی مسائل کے حل کے سوا اور کسی بات کی پروا نہی تو جتنے افراد آج اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں وہ وہاں بیٹھنے کے قابل نہیں ہیں کیونکہ آپ کے حقوق کے لئے کوئی ایک بھی جدوجہد نہی کرتا۔

کچھ مذہبی استحصال کرنے والے منافق لوگ عوام کے حقوق کے ٹھیکداری کا دعوی کرتے ہیں لیکن انہوں نے بھی اپنے کئی سالہ سیاسی کیرئر میں صرف صوبہ سرحد میں اداکاراؤں کے پوسٹر اتروانے کے سوا کچھ نہی کیا۔ کون ان عقل کے اندھوں کو سمجھائے کہ عوام کا مسئلا یہ پوسٹر نہی۔ نہ ہی میراتھن ہے۔ عوام کا مسئلا صرف اور صرف روٹی ہے۔ ان لوگوں نے عوامی حقوق کی اپنی ہی لسٹ تیار کی ہوئی ہے جس میں ریلیاں و جلسے جلوس نکالنا۔ دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ توڑ جوڑ کرنا۔ تششدد سے دکانیں بند کرانا۔ یونیورسٹیوں کو ہائی جیک کرنا۔

سٹوڈنٹ یونین کے نام پر فنڈ کھانا۔ عوامی ترقی کے تمام منصوبوں کی مخالفت کرنا اور ہر روز نئے ایشوز ڈھونڈنا شامل ہے۔

یہ تمام اسمبلیوں میں بیٹھنے والوں کے گناہ ناقابل معافی ہیں کیونکہ ان لوگوں نے عوام کو سکھ دینے کی بجائے ان کی زندگی لمحہ لمحہ پر اذیت طور پر ختم کر رہے ہیں۔ ہر خود کشی کی ذمہ دار صرف اور صرف حکومت ہے۔ خون ان نمائندوں کے ہاتھوں پر ہے یہی سزا وار ہیں۔ یہ مذہبی استحصالئے اس لئے زیادہ قابل نفرت ہیں کہ جس کے نام پر یہ ووٹ لیتے ہیں وہ (اسلام) تو سب سے افضل اور بہترین زندگی کا لائحہ عمل دیتا ہے لیکن ان لوگوں کے اعمال سب اس کے خلاف ہیں۔

اسلام میں تو امیر ا لمومنین نے یہ کہا تھا کے دریائے فراط کے کنارے اگر ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو ان سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا۔ یہ مذہبی استحصالئے اور منافق تو اس عظیم عوامی حقوق کے چارٹر کے پاسدار ہونے چاہیں لیکن ان کو ذرا بھی حیا نہی کہ ہر روز کتنے اشرف المخلوق بھوک سے خود کشی کر رہے ہیں اور یہ سکون سے اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں اور لاکھوں میں تنخواہ وصول کر رہے ہیں۔

گزارش:
اس مٹی کا آپ پر کچھ قرض ہے جو آپ پر ادا کرنا فرض ہے۔ سارا دن آئی لو پاکستان کہنے سے ہی مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ اس محبت کو عمل سے ثابت کرنا ہو گا۔


سماجی ذمہ داریاں:
لوگوں میں وطن کی محبت پیدا کریں۔ جہاں بھی ہیں، اپنے دوست احباب سے وطن کی محبت کے متعلق بات کریں۔ اپنے بزرگوں سے ان قربانیوں کا پوچھیں جو انہوں نے اس وطن کے لئے دیں۔اس ظلم کی آنکھوں دیکھی داستان سنیں۔ آزادی خریدی نہی جا سکتی اسےحاصل کرنے کے لئے ہمارے بڑھوں نے خون کی ندیاں بہا دی تھیں۔ اس خون کا ہم پر قرض ہے۔ اس خون کو یاد کرو جو اس وطن کے لئے بہایا گیا۔ آزادی کی قمت کئی نسلوں کا خون ہے۔

ایمان اتحاد اور تنظیم پریقیں رکھیں۔ قائداعظم کے فرمودات کو پڑھو، وہ عظیم ہے اس کی عظمت کو سلام۔ انہوں نے اپنے ساری زندگی کا حاصل تین الفاظ میں بیان کر دیا۔ آپ نے نہ صرف خود اس پر عمل کر کے کامیا بی حاصل کی بلکہ ہمیں بھی کامیابی کا کلیہ دے گیا۔ یہ وہ کلیہ ہے جس سے آزادی حاصل کی جا سکتی ہے۔ جو انہوں کر دکھائی۔

آزادی تو ہمارے پاس اب ہے لیکن اس کا فلاحی مملکت کا خواب ابھی ادھورا ہے۔ آؤ اس خواب کی تکمیل کے لئے اسی کا فارمولا استعمال کریں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم کامیا ب ہوں گے۔ ان تین الفاظ کے فارمولے پر جتنا غور کریں آپ پر اتنی ہی زیادہ اسکی اہمیت واضح ھو گی۔ آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ آج کے سارے مسائل کا حل اسی کلیہ میں ہے۔ ہم ذلیل ہو رہے ہیں کیونکہ ہم میں ان تینوں چیزوں کی کمی ہے۔


اپنے علاقے میں محب وطن ادب اور قومی نغمے اور دیگر ایسی چیزوں کی کوئی لائبریری بنائیں۔ اور اپنے علاقے کے تمام افرد کو اس سے مستفید کریں۔

· یہ بات ذھن سے نکال دیں کہ خیرات دینے یا یتیم خانے کھول دینے سے مسائل حل ہوجائیں گے۔ ہمیں ایک ایسا نظام بنانا ہے جس میں کسی کو یتیم خانے جانا ہی نہ پڑے۔ یہ نظام لوگوں کو نوکریاں دینے کا ہے۔ یہی احسن طریقہ ہے کہ صرف ملازمت دے دیں اس طرح لوگ خود ہی اپنی عزت سے جئیں گے۔ کسی کو خیرات دینے سے بندہ جسمانی طورپر زندہ تو رہتا ہے لیکن بے عزت ہو کر۔ اندر سے مر جاتا ہے۔ یہ نظام لوگوں کو لوگوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں دینے کا ہے۔ لوگ لوگوں سے نہ مانگیں۔

· اپنے اندر اور اپنے حلقہ احباب میں کام کی عظمت پیدا کریں۔ اپنے احباب سے مل کر محلے کے کام خود کریں جیسے گلیوں اور نالیوں کی صفائی۔ اس سے بندے کا اندر صاف ہو جاتا ہے ۔ تکبر مرجاتا ہے۔

· .اجتماعیت اور مشاورت کو اختیار کریں۔ کام مل کر کریں اس سے محبت اور طاقت بڑھتی ہے۔ ہر کام میں دوسروں کی صلاح و مشورہ کو اہمیت دیں۔ ایک فرد کچھ غلط کر سکتا ہے لیکن جب دو یا زیادہ افراد مشورہ سے کام کریں تو غلطی کے مواقع کم رہ جاتے ہیں۔ اگر ہو سکے تو اپنے محلے میں کوئی تنظیم بنائیں اگر ہے تو اس میں شامل ہو جائیں اور ان باتوں کو گھر گھر پہنچا دیں۔

ہمیشہ مثبت سوچ رکھیں اور دوسروں کی بات کو بھی تحمل سے سنیں
اس بات پر غور کریں کہ اتنے زیادہ لوگ روز قتل ہوتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے۔ قتل و غارت کی وجہ صرف اسلحے کا ہونا ہے۔ اسلحہ بنایا جاتا ہے قتل کرنے کے لئے۔ انسان کو قتل کرنے کے لئے۔ اسلحہ جس کے پاس بھی ہو صرف ایک ہی کام کرتا ہے۔ انسانیت قتل ہوتی ہے۔ اس لئے اسلحے کو ختم کر دیں تو قتل نہی ہوں گے۔

فوج کے علاوہ کسی دوسرے ادارے کے پاس اسلحہ نہی ہونا چاہئے۔ بے حس نہ ہو جائیں اور کسی کو اپنا استحصال نہ کرنے دیں۔

غربت پر غور کریں۔ ایک غریب معاشرے میں کیا ہوتا ہے۔ جرم زیادہ ہوتے ہیں۔ لڑائی جگھڑے زیادہ صحت کے مسائل زیادہ، بے روزگاری زیادہ۔ ذہنی مریض زیادہ۔ بیرونِ

ملک کا غلط تاثر:
· معاشرے میں اپنی آنکھیں کھلی رکھیں۔ جو غلظ دیکھیں اس کے خلاف آواز بلند کریں۔اپنے دوستوں محلے داروں کے ساتھ بیٹھیں اور اپنے معاشری مسائل پر غور کریں۔ غور کریں کہ ھم کیوں غریب ہیں۔ مسائل کی تہ میں جائں اور دوستوں سے اس بارے بحث کریں۔ ہم غریب ہیں کیونکہ پیسہ کچھ ہاتھوں میں جمع ہو کر رہ گیا ہے۔
· جرم اور تخریبی سیاست کے خلاف معاشرے میں نفرت پیدا کریں اور لوگوں کی سیاسی تربیت کریں۔


اپنے دوستوں، گھر والوں کو تبدیلی کے لئے تیار کریں۔ ایک عزم پیدا کریں۔ ہر شخص میں وطن کے لئے کچھ کرنے کی تڑپ پیدا کر دیں۔ اس استحصالی نظام کے خلاف عوام میں ایک نفرت پیدا کر دیں یہ آپ کا بھی فرض ہے۔ آپ پر اس مٹی کا قرض ہے۔

آپ بھی استحصال کا شکار ہیں۔ ہم پر ظلم کرنے والے ہر روز اکٹھے بیٹھ کر ہماری تباہی کے منصوبے بناتے ہیں تو ہم مظلوم کیوں ایک ایک ہو کر اپنے مسائل پر پریشان اور کڑ رہے ہیں۔ ہمیں بھی اپنی حفاظت کے لئے اکٹھے ہونا پڑے گا اور چاہیے۔ ظلم کو ہم سب مل کر ہی ختم کر سکتے ہیں۔ اس لئے قائد اعظم کے اصولوں پر دل و جان سے عمل کرتے ہوے اپنا کردار ادا کریں تا کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لئے ایک بہتر جگہ چھوڑیں نہ کہ انہیں ظالموں کے رحم و کر پر۔


· حکومتی کاموں میں اپنی شرکت کو یقینی بنایئں۔ بے حسی کا مظاہرہ نہ کریں۔ اچھے کام کی تعریف کریں اور برے کام پر کھل کر مخالفت کریں۔ چاہے جو مرضی پارٹی ہو۔ آپ کا پیمانہ صرف یہ ہو کہ پاکستان کو غریب کی نظر سے کون اچھا چلا رہا ہے۔ مت سوچیں کہ آپ کے الفاظ سے کوئی فرق نہی پڑتا ہے۔ ہر لفظ ایک زندہ حقیقت ہے۔ اس سے فرق پڑتا ہے۔ ہر فرد ایک طاقت ہے۔ اپنی طاقت کو حقیر نہ سمجھیں۔


روزانہ اخبار پڑھیں اور احباب سے اس بارے بحث کریں۔ مسا ئل اور ان کے حل کے بارے میں بحث کریں۔


· مختلف لوگوں کو اپنے معاشرے میں مدعو کریں جیسے اساتذہ ۔ طبیب۔ ڈاکڑ لوگوں کو صاف ستھری زندگی گزارنے اور اساتذہ لوگوں کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔ ہر شخص معاشرے میں اپنے طور پر جتنا کر سکتا ہے اپنا فرض ادا کرے

· لوگوں کے لئے مختلف سرگرمیوں کا انتظام کریں جیسے مختلف کھیل وغیرہ ان سے
اجتماعیت پیدا ہوتی ہے اور مقابلے کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ مل جل کر کام کرنے کے بہت سے فوائد ہیں۔ نئی نسل میں تبدیل کی تڑپ پیدا کر دیں۔


انتخابات:
· وطن کی محبت آپ سے یہ مانگتی ہے کہ آپ اسے اپنے عمل سے ثابت کریں۔ مت کسی ایسے شخص کو ووٹ دیں جو آپ کے معاشرتی رتبے کا نہی ہے۔ جو غریب ہے وہ ہی غریب کا دکھ جانتا ہے صرف وہ ہی اسمبلی میں بیٹھ کر غریب کے مسائل کا کوئی حل نکالے گا۔ کیونکہ یہ اس کا اپنا مسئلا بھی تو ہے۔ اسے ہر روز ہر چیز کے بھاؤ کے اتار چڑاؤ کا پتہ ہو گا۔ وہ ھندسوں کے کھیل سے لوگوں کا پیٹ نہی بھرے گا کیونکہ اس کا اپنا پیٹ بھی ان ھندسوں سے نہی بھرے گا۔ جس نے غربت دیکھی ہی نہی اسے کیا پتا کہ یہ کس چڑیا کا نام ہے۔

اسے ووٹ دے کر آپ اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہیں۔ اپنے آپ اور قائد اعظم کو دھوکا دے رہے ہیں۔ ایسے لوگوں سے اپنے لئے مت خیر کی توقع کریں۔آپ انہیں کئی مرتبہ آزما چکے ہیں لیکن انہوں نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ وہ آپ پر ظلم کرنے کے علاوہ اور کچھ نہی کر سکتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں سبزیوں کے بھاؤ پتہ نہی۔ جو کبھی بازار سبزی لینے نہی گیا اسے اس سے کیا کہ یہ کتنے کی ہے۔ یہ لوگ مسائل حل نہی کر سکتے یہ صرف مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ اس لئے اپنے نمائندے چننے میں بڑی احتیاط سے کام لیں۔ داڑھی کے فریب میں مت آئیں یہ لوگوں کے مذبی جذبات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں بلیک میل کرتے ہیں۔ آپ نے انہیں بھی چن کر دیکھ لیا ہے لیکن وہ بھی ظالم ہی نکلے۔ عوام کے لئے انہوں نے بھی کچھ نہی کیا۔ عوام ان کی بھی ترجیحات کا حصہ نہی ہیں۔

· اپنے نمائندے چننے سے پہلے بہت سی باتوں پر غور کریں۔ نمائندے کی بات پر مت یقین کریں۔ سبھی لوگ باتیں بہت اچھی کر لیتے ہیں لیکن زیادہ تر عمل میں صفر ہوتے ہیں، اس لئے ان کے عملوں کو دیکھں۔ اگر آپ عمل کو اپنا پیمانہ بنا لیں تو آپ کبھی دھوکا نہی کھائیں گے۔ اس فرد کے دور پر غور کریں۔ کیا اس نے عوامی بھلائی کے لئے کچھ کیا۔ کیا وہ کسی جرم میں ملوث تو نہی پایا گیا۔ کیا وہ کسی گینگ کی پشت پناہی تو نہی کرتا۔ اس شخص کے دور میں غربت میں اضافہ ہوا یہ کمی۔ جرائم کتنے ہوئے۔ کتنے لوگوں نے خود کشی کی۔ کیا یہ انتخابات کے بعد بھی کبھی آپ کے علاقے میں آئے۔ یہ سارے لوگ آپ کے اپنے علاقے کے ہوتے ہیں۔ ہم سب ان کی کرتوتوں سے واقف ہوتے ہیں۔ خدا کے لئے غلط شخص کو ووٹ مت دیں۔

· اپنے نمائندے سے اسکا مستقبل کا پروگرام پوچھیں۔ اس سے پوچھیں کہ اس نے پہلے یہ سارے کام کیوں نہی کئے۔ ہم اس پر دوبارہ یقین کیسے کر سکتے ہیں۔ اسے اپنے علاقے میں بلائیں اور اس سے ان مسائل پر بات کریں۔ ملکی مسائل پر اس کی رائے پوچھیں۔ ان سے پوچھیں کہ وہ اسمبلی میں کیوں نہی بیٹھتے۔ وہاں پر عوام کے مسائل کیوں نہی اٹھاتے۔ آج تک اس نے عوام کے لئے کیا کیا ہے۔ اپنی تمام شکائتیں اس کے سامنے رکھیں اور اسے پرکھیں۔ ہر فرد کی ایک فطرت ہوتی ہے۔ ماضی فطرت کا بہترین آئنہ ہے جس میں آپ کسی کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔ فطرت نہی بدلتی۔

جو وہ ماضی میں کرتا رہا ہے وہ ہی مستقبل میں کرے گا۔ اگر ماضی میں اچھا تھا تو مستقبل میں بھی اچھا ہو گا۔ آپ کا ایک غلط ووٹ برے انسان کو آپ پرظلم کا اختیار دے سکتا ہے۔ بہت زیادہ ہشیار رہنے کی ضرورت ہے اور غلط آدمی کو اختیار دینے کا مطلب بندر کے ہاتھ میں بندوق پکڑانے والی بات ہے۔

· ایک بری حکومت کے کیا ہتھکنڈے ہوتے ہیں۔ ایک بری حکومت ایشوز پر کام نہی کرتی اور غیر ایشوز کو ایشوز بنا کر اپنا وقت گزارتی ہے ۔ جیسے ضیئا کا اسلام اور مولیوں کو جمہوریت کا بخار۔ مشرف کا بے حیائی پروگرام۔ ان ہتھکنڈوں پر غور کریں۔ یہ صرف وقت گزاری کے طریقے ہیں۔ مولیوں کو لوگوں نے کس کام کے لئے ووٹ دیے لیکن وہ دو صوبوں میں پوری طرح زمہ دار ہونے کے باوجود گلیوں میں لڑ رہے ہیں۔ ریلی اور مارچ کا بخار چڑا ہوا ہے۔

ان لوگوں کو ایک خوبصورت اسمبلی بنا کر دی ہے تا کہ وہاں بیٹھیں اور مسائل حل کریں لیکن وہ اسمبلی میں بیٹھنے کی بجائے سڑکوں پر دوسرے لوگوں کو سکھ کی بجائے تکلیف دینے نکلے ہوئے ہیں۔ آج تک انہوں نے ایشوز کو نان ایشوز اور نان ایشوز کو ایشوز بنانے۔ ریلیاں نکالنے کے علاوہ کبھی کچھ نہی کیا۔ یہ لوگ دوسروں سے بھی برے ہیں کیونکہ یہ اسلام کا نام استعمال کرتے ہیں اور سب کچھ اس کے خلاف کر تے ہیں۔ یہ لوگوں کی دینی جذبات کو بلیک میل کرتے ہیں۔ جتنا ان لوگوں نے ملک کو نقصان پہنچایا کسی دوسے گروپ نے نہی۔ بانی پاکستان کی بہن ان کے اسلام کا شکار ہو گئی اور انہی کے اسلام نے بھٹو کی بیٹی کو قبول کر لیا۔ ضیا کی آمریت قبول ایوب کی قبول اور اب مشرف کی نا قابل قبول۔

پاکستان بننے کے مخالف اور اب پاکستاں کی اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ منافقت ہے اور منافق مشرک سے بھی برا ہوتا ہے اس لئے ان سے خبر دار رہیں۔ ان کے بس میں ہوتا تو پاکستان ہی نہ بننے دیتے۔ اب بن گیا ہے تو اس نقصان پہنچانے کا کوئی موقع رائگاں نہی جانے دیتے۔ یہ آستین کے سانپ ہیں۔ ان سے خبر دار رہنے کی بہت ضرورت ہے۔ ایک یہ اور دوسرا آمریت یہ دونوں ایک کی بلا دو نام ہیں۔ ہمیں عوام کی عوام کے لئے اور عوام کی چنی ہوئی حکومت چاہئے نہ کہ ہم پر طاقت یا مذہبی بلیک میلنگ سے حاصل کی ہوئی۔

· ہرفرد کا ووٹ اہم ہے۔ ووٹ کی اہمیت کو سمجھیں۔ اگر آپ کسی اچھے شخص کو ووٹ دیتے ہیں تو اس کے ہر اچھے کام کا آپ کو بھی صلہ ملے گا اور اگر وہ برے کام کرے گا تو آپ نے اسے ووٹ دے کر یہ طاقت دی ہے کہ وہ ایسا کرے۔ آپ اس کے ہر برے کام میں برابر کے شریک ہیں۔ اس لئے مت کسی غلط شخص کو ووٹ دیں۔ کسی برے آدی کو ووٹ دینے سے نہ دینا بدرجہ ہا بہتر ہے کیونکہ اس سے آپ اس کے جرم میں شریک نہی ہوتے۔ ووٹ د ینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ تصدیق کرتے ہیں کہ اس شخص کا کردار ملک و قوم کے لئے اچھا ہے۔ اگر کسی کے کردار کو آپ اس پیمانے پر صحیح سمجھتے ہیں تو ووٹ دیں ورنہ گناہ میں شریک مت ہوں۔ اپنی ذات سے اوپر ہو کر سوچیں۔ آپ ایک قوم کے فرد ہیں۔ ایک سلائی مشین یا ایک سائکل پر اپنے قوم کا مستقبل داؤ پر نہ لگائیں۔

· اپنے کسی نمائندے کو چنتے ہوئے اس بات کا پورا خیال رکھیں کہ اس کے الفاظ اس کے اعمال کی غماضی کرتے ہیں۔ کیونکہ بہت سے لوگ بہت اچھا بول لیتے ہیں لیکں عمل میں صفر ہوتے ہیں۔ اپنے ہر نمائندے کے اعمال کا غور سے مشاہدہ کریں لوگوں کو ان کے اعمال کے لحاظ سے ووٹ دیں نہ کہ ان کے وعدوں سے۔ جنہوں نے کچھ کرنا ہوتا ہے وہ اسمبلیوں کے بغیر بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ عمل کو اپنا پیمانہ بنائیں۔ اور جنہوں نے کچھ نہی کرنا ہوتا وہ اسمبلیوں میں بھی کچھ نہی کرتے۔

· غلط لوگوں کو ان کے منہ پر دتکار دیں تا کہ لوگوں کو پتہ ہو کہ انہیں اپنےعمل سے ثابت کرنا ہو گا۔ اب الفاظ نہیں چلیں گے۔ ہم برے لوگوں کو پارلیمنٹ بھیجنے سے اپنی قسمت ان کے ہاتھوں پر رکھ دیتے ہیں اور وہ اس سے کھیلتے ہیں۔ہم انہیں اپنے اعتماد کا ووٹ دیتے ہیں اور وہ ہمارے اعتبار کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ ہم ان سے محبت کرتے ہیں وہ ہم سے نفرت۔ آؤ اپنی حفاظت کے لئے ایسے لوگوں کے راستے کی دیوار بن جائیں۔


حکومت کے جرائم:

۱۔ توانائی کو دن بدن مہنگا کرنا جس کی وجہ سے ہر چیز خود بخود مہنگی ہو جاتی ہے۔ جس سے زندگی کی بنیادی ضروریات افراد کی قوت خرید کے باہر ہو جاتی ہیں۔ جس سے غربت اور بے روزگاری بڑھتی ہے۔

۲۔ کاشتکار کو پانی فراہم نہ کرسکنا جس سے پیداوار میں کمی ہوتی ہے اور اشیا مہنگی ہو جاتی ہیں۔

۳۔وسائل کی غیر منصف تقسیم۔ ہر فرد کا وسائل پر ایک جیسا حق ہے۔ ناانصافی سے تعصب پیدا ہوتا ہے۔ تعصب کی وجہ سے گروپ بندیوں اور تقسم در تقسیم کی وجہ سے ملکی سلامتی کو خطرات درپیش ہوتے ہیں۔

۴۔بیروزگاری۔ ہر فرد کو روزگار فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اور اگر روزگار فراہم نہ کر سکے تو اسے کم از کم اتنے وسائل فراہم کرنا کہ وہ زندگی کے بنیادی ضروریات پوری کر سکے۔

۵۔ ہر روز جتنی خود کشیاں ہو رہی ہیں۔ ان تمام افراد کاخون حکومت کے ذمہ ہے۔ہر خودکشی کرنے والا حکومت کے انتظامی نظام کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

۶۔ اپنے علاوہ ہر کسی دوسرے پر غداری کا الزام لگانا یا ان کی حب الوطنی کو شک سے دیکھنا۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستانی عوام سیاست داونوں، جاگیرداوں مذہبی منافقوں کی نسبت زیادہ محب وطن ہیں۔

۷۔ سماجھی نا انصافی۔ظالم کی مدد۔ جو قانون توڑیں اور پیروں تلے روند دیں وہ تو نجات دہندہ ہونے کادعوی کریں اور جو بھوک سے مرنے کی بجائے کسی کی روٹی چھین کر کھا جائیں وہ قاتل ٹھریں۔

۸۔ عوام کی زندگی کی حفاظت نہ کر سکنا۔ ہر قتل ہونے والا فرد چیخ چیخ کر عدالیہ کی ناکامی کا واویلا کر رہا ہے۔

۹۔ اپنی ہی ترجیحی لسٹیں بنانا۔ کسی کی لسٹ میں مراتھن اور خواتین کے پوسٹر ہیں اور کسی کی لسٹ میں روشن خیالی مہنگی توانائی اور مہنگائی سے عوام کا جینا دوبھر کرنا ہے۔ کاش کاش کہ کسی کے لسٹ میں معاشی آزادی اور سماجھی انصاف ہوتا۔
کیا ان تمام جرائم کے ہوتے ہوئے بھی حکومت کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اسمبیلوں میں بیٹھے۔

حکومت ناکام ہے اور ہمیں اپنے مجرموں کو اپنے خون پسینے کے کمائی سے پالنے کی کوئی ضرورت نہی۔


حکومت کے کرنے کےکام:

مندرجہ ذیل کام جتنی جلد ہو سکے کرنے جاہیں کیونکہ یہی افراد کی ملازمت کی ضمانت ہیں اگر ہر فرد کے پاس ملازمت ہو گی توملک ترقی کرے گا اور امن و امان ہو گا۔

۱۔ جتنی جلد ہو سکے توانائی کی قیمت کم کی جائے۔ پٹرول کی زیادہ سے زیادہ قیمت ۲۵ روپے رکھی جائے اور ڈیزل جو کو پٹرول کو بیس روپے بیچ کر حکومت کو مفت میں پڑتا ہے کی قیمت ۱۵ روپے سے کسی صورت زیادہ نہ ہو۔ اسی طرح کیروسیں آئل اور قدرتی گیس کی قیمت بھی جتنی کم ہو سکے کی جائے۔

بجلی ایک روپے فی یونٹ سے زیادہ نہ ہو۔ اور نہ ہی بل میں کوئی سر چارج یا کوئی اور جگا ٹیکس لگایا گیا ہو۔ ہر یونٹ کی قیمت صرف اور صرت ایک روپے چاہے گھریلو و کمرشل بجلی کی قیمت ایک جیسی ہو اور ایک یونٹ ایک ہزار واٹ کا ہو نہ کہ پانچ سو کا۔

۲۔ فورا ملکی صنعت کو نقصان پہنچانے والی درآمدات اور اور تمام سمگلنگ کوکنٹرول کیا جائے کوئی غیر قانونی اشیا ملک میں داخل نہ ہو سکے۔ جو لوگ پاکستان میں اپنی اشیا بیچنا چاہتے ہیں وہ پاکستان میں اپنے پیداواری یونٹ لگائیں۔

۳۔ انڈیا کو ہر صورت سے پاکستان کا پانی چوری کرنے سے منع کیا جائے اور پاکستان میں جہاں ممکن ہو ڈیم بنائے جائیں۔ پانی کا مسئلہ جنگی بنیادوں پر جتنی جلد ہو سکے حل کیا جائے۔

۴۔ سماجھی انصاف کو یقینی بنایا جائے اور عوام دوست نظام حکومت قائم کیا جائے۔

۵۔ اسلحے سے ملک کو پاک کیا جائے۔ فوج کے علاوہ کسی کے پاس اسلحہ نہ ہو۔



بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل