Saturday, July 25, 2009

قرآن کریم اور ایلیئنز Quran-e-karim & aliens




تحریر: ڈاکٹر عصمت حیات علوی


بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم


(۱) سچی بات

قرآن کریم نے بہت سارے موضوعات اور علوم کے بارے میں بڑے واضح اشارے دئیے ہیں۔جن کی روشنی میں ہم مستقبل میں ہونی والی ایجادات اور سائنسی انکشافات کے بارے میں پیش گوئی کر سکتے ہیں۔

اس مضمون کو شروع کرنے سے قبل ایک بات ذہن میں رکھیئے کہ سائینسی تحقیقات اور علوم ابھی اپنے عہد تفولیت میں ہیں دوسرے یہ اصول بھی یاد رکھیئے کہ انسانی عقل اور فہم کا دائرہ کار محدود ہے اس کی ایک خاص حد ہے اس لیے جس مقام پر جا کر انسانی عقل کی انتہاءختم ہو جاتی ہے ۔اس سے آگے ایک لاانتہاءخلا ہے اور یہ خلا کتنا بڑا ہے ؟ اس کا علم تو اللہ علیم وخبیر کے پاس ہے۔اس خلا سے آگے اور اوپر جو علم کا سمندر ہے ، اس علم کے بارے میں تھوڑی سی آگاہی ہمیںوحی یعنی کہ قرآن کریم کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے۔بالفاظ دیگر انسانی علم اس وسیع کائینات کے بارے میں بے حد محدود ہے۔

اکژ یہی ہوتا ہے کہ مغربی دنیاءکے کسی جدید سائینسی انکشاف کے بعداسلامی دنیا کے علماءمضامین لکھتے ہیں اور اس حقیقت کو ثابت بھی کر دیتے ہیں کہ اس سائینسی انکشاف سے صدیوں قبل ہی قرآن کریم اس حقیقت کے بارے میں انکشاف کر چکا ہے۔چونکہ دنیا کے اخبارات میں اس سائینسی انکشاف کے بارے میں خبر پہلے آ تی ہے اور ہمارے جید علماءکے مضامین بعد میں شائع ہوتے ہیں تو بظاہر ہماری عقل ہمیں یہی دھوکا دیتی ہے کہ قرآنی علوم بھی سائینس کی ہی پیروی کر رہے ہیں حالا نکہ یہ ایک باطل خیال ہوتا ہے اورمحض ایک فریب عقل ہوتا ہے۔

آج کی گفتگو میں ہم جس حقیقت کا انکشاف کرنے جا رہے ہیں ،یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ اس حقیقت کوسائینس کے ذریعے سے مغربی دنیاءکچھ عرصے بعد ثابت کر بھی دے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قرآن حکیم میں اللہ مالک و خالق نے باقی کی چھ ارض پر موجود جن مخلوقات (ایلیئنز) کے بارے میں وحی کے ذریعے جو بھی انکشافات کئے ہےں۔ان خلائی مخلوقات کے بارے میں سائینس بے خبر ہی رہے اور صدیوں اور ہزاروں سال کے بعد بھی کوئی بھی انکشاف نہ کر سکے ،کیونکہ انسانی عقل اور وحی کے درمیان جو لا متناہی خلاءہے ۔ ہو سکتا ہے کہ سائینس اس خلاءکو کبھی بھی نہ پاٹ سکے۔

سورة الطلاق جو کہ قرآن کریم کی پینسٹھویں (۵۶) سورة ہے،اس کی بارہویں آیت میں اللہ علیم وخبیر فرماتے ہیں۔

اللّٰہ الّذی خلق سبع سمٰوٰت ومن الارض مثلھنّ یتنزّ ل الامربینھنّ لتعلموٓا انّ اللّٰہ علیٰ کلّ شی قدیر وّانّ اللّٰہ قد احاط بکل شی ءعلما ً ٭ اس کا اردو ترجمہ جو کہ شاہ عبدالقادر ؒ صاحب نے کیا ہے حاضر خدمت ہے۔

اللّٰہ وہ ہے جس نے بنائے سات آسمان اورزمینیں بھی اتنی ، اترتا ہے حکم ان کے بیچ ، تا تم جانو کہ اللّٰہ ہر چیز کر سکتا ہے، اور اللّٰہ کی خبر میں سمائی ہے ہر چیز کی ۔[۲۱] الطلاق (۲۱)

اللہ علیم و حکیم اس آیت میں فرماتے ہیں کہ انہوں نے سات آسمان تخلیق فرمائے ہیں اور اتنی ہی زمینیں بھی۔

اگر ہم سبع سمٰوٰت کی تشریح کر لیں گے تو الارض کا مطلب ہمیں خود ہی سمجھ آ جائے گا۔
اگر ہم غور کریں تو اس آیت میں آسمان سے مراد اس کائنات کا ایک ایسا خاص حصہ ہے ،جو کہ دوسرے ہر آسمان سے یا

باقی کے چھ آسمانوں سے علیحدہ یا الگ ہے،یعنی کہ سات ایسے آسمانی خطے ہیں جو کہ ایک دوسرے سے اتنے فاصلے پر ہیں کہ اگر ہم انکو کائنات کے کسی ایک کنارے سے دیکھیں گے تو وہ ایک دوسرے سے علیحدٰہ اور الگ دکھائی دیں گے،ورنہ اللہ علیم وحکیم الفاظ کوخواہ مخواہ ضائع نہیں فرماتے ،اس لیے اس بنیادی اصول کو ہمیشہ کے لئے یاد رکھئے کہ قرآن حکیم کے ہر ہر لفظ کا کوئی نہ کوئی مفہوم یامطلب ضرور ہوتا ہے۔

یہ تو ہمیں علم ہی ہے کہ ہمارا نظام شمسی جس کہکشاں کا حصہ ہے اسی کہکشاں میں ہمارے نظام شمسی جیسے اور بھی بہت سارے دوسرے آزاد اور خودمختار نظام شمسی موجود ہیں اور سائینسی علم نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ ایک کہکشاں میں بے شمار ستارے ہوتے ہیں۔ستارہ سے مراد روشنی اور حرارت خارج کرنے والا ایک کرّہ ہے ،جسے ہم شمس بھی کہتے ہیں اور ہر شمس یا سورج کے گرد کئی کئی کرے گھوم رہے ہوتے ہیں ۔جو کہ حرارت یا توانائی اپنے سورج یا شمس سے ہی حاصل کرتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جس کہکشاں کا حصہ ہیں ، اس میں ان گنت کرّے موجود ہیں۔ جو کہ اپنے اپنے ستاروں یا سورجوں کے گردا گرد گردش کر رہے ہیں۔

ابھی تک تو ہمیں یہ بھی علم نہیں ہے کہ ہماری کہکشاں میں کل کتنے کرّے ہیں اور ہماری کہکشاں کتنی بڑی ہے؟ مگریہ ہو سکتا ہے کہ ہم سائینس کے علم کی مناسب ترقی کے بعد ان تمام کرّوں کی گنتی بھی کرسکیں گے اور یہ بھی جان سکیں گے کہ ہماری کہکشاں بذات خود ایک مکمل آسمان ہے یا کہ کسی ایک آسمان کا معمولی سا حصہ ہے ؟

بہر حال یہ کائنات اس قدر وسیع اور بڑی ہے کہ اگر انسان روشنی کی رفتار سے کائنات کے ایک سرے سے دوسرے سرے پر پہنچنا چاہے تو کر وڑ وں سال بھی ناکافی ہیں،کیونکہ سائینسدان خود ہی یہ بتاتے ہیں،کہ ہماری زمین کی تخلیق سے لاکھوں سال قبل جو روشنی اس کائنات کے کچھ ستاروں سے نکلی تھی ،وہ روشنی اب جا کر ہماری زمین تک پہنچی ہے۔یاد رہے کہ روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ ہے۔اب آپ خود ہی حساب لگا سکتے ہیں کہ ہماری کائنات کتنی وسیع ہے ؟؟؟

اس وسیع وعریض کائنات کو خالق کائنات نے سات طبقات یعنی کہ سات آسمانوں میں تقسیم کر رکھا ہے اور ہر آسمان میں ایک ارض ہے ۔اب ارض سے مراد خالی خولی کرّہ تو ہو ہی نہیںسکتاکیونکہ یہ بنیادی اصول تو ہم پہلے ہی طے کرچکے ہیں کہ ہمارے خالق رب السمٰوٰت و الارض الفاظ کو خواہ مخواہ ضائع نہیں فرماتے ۔اگر اس کائنات کے باقی کے سمٰوٰت پر محض عام اقسام کے حیات سے خالی کرّے ہی گردش کر رہے ہوتے تواللہ خالق کائنات الارض مثلھن کے الفاظ کا استعمال نہ فرماتے ۔

کیونکہ ہماری اس زمین پر یعنی کہ فی الارض اللہ حکیم نے انسان کو خلافت بخشی ہے ۔اس کا واضح مطلب تو یہی ہے کہ سبع سمٰوٰت فی الارض سے ہمارے خالق کی مراد یہ ہے کہ باقی کی چھ ارض پربھی حیات موجود ہے اور وہاں پر بھی انسان کی ہی طرح سے کوئی ذہین اور جواب دہ مخلوق موجود ہے۔

عبداللہ بن عباس ؓ نے ایک مرتبہ سورة الطلاق کی اس آیت کا کچھ ایسا ہی مفہوم بیان کیا تھا کہ ہماری اس ارض کے علاوہ بھی اس کائنات میں مزید ارض موجود ہےں ۔یاد رہے کہ احادیث کی متعدد کتب میںنبی اکرم ﷺ کے ان چچا زاد بھائی کو ابن عباس لکھا گیا ہے اور وہ متعدد صحیح احادیث کے را وی ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ ابن عباس کوعلم تھا کہ ہم انسانوں کی طرح سے اس کائنات میںآسمانی مخلوق یعنی کہ ایلیئنزموجود ہیں ۔ یہ علم ان کو نبی کریم ﷺ نے عطا فرمایا تھا ۔جس طرح سے انہوں نے کچھ خفیہ علوم سے علیؓ ابن ابوطالب کو آگاہ کر رکھا تھا۔ایسے ہی اپنے وحی شدہ علم میں سے انہوں نے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہما کو منافقینِ مدینہ کے بارے میںبتا رکھا تھا۔

کچھ لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال ضرور پیدا ہوگا کہ ابن عباسؓ نے کھل کر ایلیئنز کے بارے میں کیونکر نہیں بتایا ؟

وہ اس لیے کہ ان کے دور میں انسانی عقل اور علوم نے اتنی ترقی نہ کی تھی کہ کافر ان انکشافات کو اسی طرح سے کھلے دل و دماغ کے ساتھ مان لیتے جس طرح سے اصحاب رسولﷺ امنّا وصدقنا کہہ کر نبی کریمﷺ کی ہر بات یعنی کہ قرآن کریم اور حدیث رسولﷺ پر ایمان لے آ یا کرتے تھے۔مکہ المکرمہ کے کافر تو اتنے بے عقل تھے کہ انکی عقل میں اتنی سی بات بھی نہیں آئی تھی کہ ان کے شہر کا صادق اور امین ایک رات کے عرصے میں سات آسمانوں کی سیر کرسکتا ہے۔

چلیں! ان لوگوں کی عقل اور علم تو محدود تھا ، آج کے کافر وںکی عقل بھی اتنی ہی محدود اورکج ہے کہ وہ یہ بات بالکل ہی تسلیم نہ کریں گے کہ جس براق پر سوار ہو کر نبی اکرم ﷺ معراج پر تشریف لے کر گئے تھے ، اس براق کی رفتار روشنی کی رفتار سے بھی کئی لاکھ گنا یا کروڑ گنا زیادہ تھی۔

قرآن مجید میں سورة الطلاق کی اس مخصوص آیت کا حقیقی مطلب تو یہی ہے کہ اس کائنات میں سات آسمان ہیں اور ہر آسمان کی کسی ا یک کہکشاں کے کسی ایک نظام شمسی میں کوئی ایک کرّہ ایسا ضرور ہوتا ہے ،جہاں پر حیات اپنی پوری جولانیوں سمیت موجود ہے اور ضرور موجود ہے۔ اس حیات کا ایک مقصد یہ ہے کہ ان چھ کی چھ ارض پر اللہ خالق کائنات نے کسی ایک جواب دہ مخلوق کو اپنا خلیفہ مقرر کیا ہوا ہے اسی لئے تو ان تمام کو ہماری ارض سے تشبیہ دی ہے ۔ اس ارض پر جو جواب دہ مخلوق حکومت سنبھالے ہوئے ہے ،اسے ہم ای ۔ٹی۔ بھی کہہ سکتے ہیں یاپھر آپ ہی اسے کوئی اور دل پسند نام دے لیجئے۔

کیا یہ ای ۔ٹی۔ E.T. یا ایلیئنز کسی طرح سے ہماری زمین یعنی کہ ہماری ارض پر آ سکتی ہے ؟

اپنی ذاتی عقل استعمال کرنے کی بجائے ،کیوں نہ ہم یہی بات قرآن حکیم سے دریافت کرلیں ؟

اور یہ بات عقل کے مطابق بھی لگتی ہے۔کیونکہ اس کائنات کی دور دراز واقع چھ ارض پر ا ن مخلوقات کی خبر بھی تو ہمیں قرآن حکیم نے ہی تو دی ہے۔تو چلئے ہم اپنی کتاب مقدس قرآن حکیم سے ہی دریافت کرتے ہیں۔

دین اسلام کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ قرآن کریم میں بیان کئے گئے تمام اصولوں کی تشریح اور وضاحت ہمارے نبی کریم ﷺ نے اپنی زبان اور عمل کے ذریعے سے کی ہے اور بہت سارے ایسے امور بھی ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں تو بالکل ہی نہیں ہے مگر ان کا بھی علم ہمیں نبی ﷺ کی زبانی ہی ہوا ہے ۔ان زبانی باتوں یا اعمال و احکام کو ہم احادیث نبوی ﷺ کہتے ہیں۔ان احادیث ﷺ میں ہمیں اس دنیا کے خاتمے اور بعد از موت زندگی کے بارے میں بڑی ہی واضح اور غیر مبہم ہدایات دی گئی ہیں اور اس دنیا میں مستقبل میں ہونے والے واقعات سے متعلق غیب کی تمام باتیں بھی کھل کر بیان کی گئی ہیں۔ جیسے کہ فتنہءدجال،امام مہدی کا ظہور اور عیسیٰ علیہ السلام کی اس دنیا میں دو بارہ واپسی اور بھی بہت سارے امورہیں،جن کا علم ہمیں صرف اور صرف صاحب وحی نبی اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے ہی ہوا ہے۔

قرآن مجید نے آسمانی یا خلائی مخلوق کے بارے میں سورة الکہف میں بڑے ہی واضح اشارے دئیے ہیں۔اگر ہم اس سورة پر غوروفکر کریں گے ، تو اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ اس سورة میں جو واقعات بیان کئے گئے ہیں ،ان واقعات کا انسانی عقل تو احاطہ کرہی نہیں سکتی اور ان واقعات کو صرف ایمان والے ہی تسلیم کریں گے جو کہ وحی اور غیب پر ایمان لا چکے ہیں۔
اس سورة میں تین ایسے قصص ہیں ،جن کے بارے میں اللہ علیم و حکیم نے فرمایا ہے کہ
ام حسبت انّ اصحٰب الکھف والرّقیم کانوا من ایٰتٰنا عجبا۔ ٭

کیا تم خیال کرتے ہو کہ غار اور لوح والے ہماری نشانیوں میں سے عجیب تھے ؟ [۹ ] الکھف

یہ سوال اہل ایمان سے نہیں ہے، بلکہ اس سوال کا بظاہر مخاطب تو کفار مکہ ہیں اور اصل میں یثرب کی یہودی ربی ہیں۔ جو کہ مکہ کے کافروں کو طرح طرح کی پٹیاں پڑھایا کرتے تھے۔دراصل یہ تینوں قصص اس وقت کی تورٰة میں موجود تھے اور آج بھی کچھ پرانی تور ٰ ة میں اپنے اصل الفاظ میں ہی مل سکتے ہیں ۔(یہ ہاتھ سے لکھی ہوئی وہ تور ٰ ة ہیں، جن کو گمراہ ربی آج تک بدل نہیں سکے۔ )

ستم کی بات یہ ہے کہ طرح طرح کے سوال کرنے والے یہودی ربی اور ان کے گمراہ شاگرد یعنی کہ کفار مکہ ان غیب کی

باتوں کے درست اور صحیح جوابات ملنے کے باوجود ایمان نہ لائے تھے ۔اس سے یہ بات سچ ثابت ہوتی ہے کہ جنہوں نے ایمان نہ لانا ہو وہ معجزے دیکھ کر اور حق سے آگاہ ہونے کے باوجود بھی ایمان نہیں لاتے اور جنہوںنے ایمان لانا ہو وہ نہ تو معجزے طلب کرتے ہیں اور نہ ہی سچے نبی سے اوٹ پٹانگ قسم کے سوالات کرتے ہیں ،وہ تو اپنے قلب سلیم کی گواہی سنتے ہیں اور ایمان لے آتے ہیں۔

سورة الکھف میں یہودی ربیوں کے سوال پر جو تین قصص بیان کئے گئے ہیں ،تینوں کے تینوں قصص انسانی عقل کے معیار سے بلند تر ہی ہیںاور ان کو بیان کرنے کے اتنے مقاصد ہیں کہ میرے جیسا کم علم آدمی ان کے سب مقاصد کو بیان کرنے سے عاجز ہے۔سورة الکھف میں اللہ علام الغیوب نے ایسی باتیں ظاہر کردی ہیں ،جو کہ ایک عام سطح کے آدمی کی عقل کی کسوٹی پر پورا نہیں اتر سکتیں ،کیونکہ روزمرّہ کی زندگی میں ایسے واقعات کا رونماءہونا ایک ناممکن سی بات ہی ہواکرتی ہے ۔ ایسے واقعات تو صرف اور صرف مخصوص حالات میں مخصوص اور صاحب ایمان ہستیوں کو ملاحظہ کرا ئے جاتے ہیں یا پھر گمراہ قوموں کو بھی ان کے مطالبے پر معجزات دکھائے جاتے تھے اور پھر جب وہ معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہ لاتی تھیں ۔ تو ان کوصفحہ ہستی سے مٹا بھی دیا جاتا تھا اور یہی اللہ قادر مطلق کی سنت ہے۔

یہودی ربّیوں کے استفسار پر سورة الکھف میں پہلے اصحٰب الکھف کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد موسیٰ علیہ السلام کا قصہ ہے۔یہودی ربّیوں نے کفار مکہ کے ذریعے سے جس دوسرے واقعہ پر نبی بر حق ﷺ کو پرکھنا چاہا تھا اس میں موسٰی علیہ السلام کا قصہ مذکور ہے اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس جلیل القدر نبی کو مسلمین تو مانتے تھے اور جن کافروں کی وساطت سے یہود مسلمین کو زچ کرنا چاہتے تھے، وہ کفار مکہ ان کے منکر تھے ۔اسے کہتے ہیں دشمنی برائے دشمنی۔

اس قصے میں ہمارے موضوع سے متعلق اہم بات یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو جس شخصیت سے ملنے کو کہا گیا تھا ، ان کو اللہ حکیم و علیم نے عبد کہا ہے اور فرمایا ہے کہ ہم نے اسے رحمةدی تھی اور علم سکھایا تھا۔

عبد اسے کہتے ہیں جس کی زندگی کا ہر لمحہ اللہ مالک کی رضاءمیں ایسے گذرے کہ اس کا سونا اورجاگنا تک عبادت بن جاتا ہے۔یہ بات ذہن میں رکھیئے گاکہ جن وانس دونوں مخلوقات میں سے کوئی بھی شخص عبد ہو سکتا ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں
رکھیئے کہ وہ شخص جن کو عبد کہا گیا ہے۔وہ ایک خاص علم کے حامل ضرور تھے مگر نبی یا رسول نہ تھے ،کیونکہ اگر وہ نبی ہوتے تو اللہ مالک و خالق فرماتے کہ ہم نے اسے نبوت اور حکمت عطاءفرمائی تھی اور یہ بھی ایک حقیقت ہی ہے کہ نبی یا رسول صرف انسانوں میں سے چنے جاتے تھے۔

پھر یہ بات بھی ذہن میں رکھیئے کہ اللہ حکیم وعلیم نے جنات میں سے اپنے عباد(عبد کی جمع)کو کچھ مخصوص علوم اوردوسری بہت سی رحمتوں سے ضرور نوزا ہے۔اسے لئے ان کو جو علم سکھایا گیا تھا ۔ موسیٰ علیہ السلام اس علم سے نا آشنا تھے۔ کیونکہ انسانوں کو ایسے مخصوص علوم کی ضرورت بھی نہیں ہوتی ہے۔

اگر ضرورت ہوتی تو سلیمان علیہ السلام کو یہ علم ضرور دیا جاتا، جو کہ ہواﺅں اوردوسری مخلوقات کے علاوہ جنوں پر بھی حاکم تھے۔آپ سورة النمل کی انتالیس (۹۳) اور چالیس (۰۴)آیات کا مطالعہ کر لیجیے۔بات آپ پر بالکل ہی واضح ہو جائے گی۔ ان دونوں آیات کا ترجمہ پیش خدمت ہے اور موقع محل یہ ہے۔ جب ملکہ بلقیس کے تحت کو لانے کی بات چیت چل رہی تھی۔

بولا ایک راکس جنوں میں سے میں لا دیتا ہوں وہ تجھ کو ،پہلے اس سے کہ تو اٹھے اپنی جگہ سے۔اور میں اس کے زور کا ہوں معتبر[۹۳]بولا وہ شخص جس کے پاس تھا ایک علم کتاب کا، میں لا دیتا ہوں تجھ کو وہ پہلے اس سے کہ پھر آوے تیری طرف تیری آنکھ۔ پھر جب دیکھا وہ دھرا اپنے پاس کہا ،یہ میرے رب کے فضل سے ، میرے جانچنے کو، کہ میں شکر کرتا ہوں کہ نا شکری۔اور جو کوئی شکر کرے سو شکر کرے اپنے واسطے۔اور جو ناشکری کرے ، سو میرا رب بے پروا ہے نیک ذات[۰۴] النمل (۷۲)

اب ہم ذوالقرنین کے قصّے کو لیتے ہیں،جو کہ ترتیب کے لحاظ سے تیسرا ہے۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ قصہ قرآن کریم سے قبل نازل ہونے والی کتب میں بھی موجود تھا ورنہ یہودی ذوالقرنین کے بارے میں کبھی بھی سوالات نہ پوچھتے۔جس طرح سے یہ قصہ اس وقت کی تورٰة میں موجود تھا، کسی کمی بیشی کے بغیر ویسے ہی خاتم النبین ﷺ پر نازل کیا گیا تھا ۔ ورنہ اس دور کے یہودی ربی یہ الزام ضرور لگاتے کہ یہ رسول اصل قصے میں تحریف کرلایا ہے۔

ذوالقرنین ایک ایسے نبی تھے جن کو یہ دسترس اور طاقت دی گئی کہ وہ خلائی سفر کرسکتے تھے۔جیسے سلیمان علیہ السلام کوسفر کرنے کے لیے ہواﺅں پر دسترس اور طاقت عطاءکی گئی تھی۔ ملاحظہ فرمائیے سورة الکھف کی آیت چور اسی(۴ ۸) میں اللہ علیم وحکیم فرماتے ہیں ۔ انّا مکّنّا لہ فی الارض و اٰتینہ من کلّ شی ءسببا۔ ٭

ہم نے اس کو زمین میں بڑی دسترس دی تھی اور ہر طرح کا سامان عطا کیا تھا ۔[۴۸]
( یاد رہے کہ سورة الکھف کی تمام آیات کا اردو ترجمہ مولانا فتح محمد جالندھری صاحب کا ہے۔)

اگر ہم غور وخوض کریں تو ہم اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ ذوالقرنین کو اس زمین کے اندر اور باہر کے خزانوں پر مکمل کنٹرول حاصل تھا یعنی کہ وہ معدنیات اور جمادات پر مکمل دسترس رکھتے تھے اسی لئے تو انہوں نے ایک خاص سفر کی تیاری کی تھی ۔ فا تبع سببا۔٭ تو اس نے (سفر)ایک سامان کیا ۔[۵۸]

حتی اذا بلغ مغرب الشّمس وجدھا تغرب فی عین حمئتہ وّ وجدعندھا قوما ط قلنا یٰذا القرنین امّا ٓ ان تعذّب و امّآ ان تتّخذ فی ھم حسنا۔٭

یہاں تک کہ جب سورج کے غروب ہونے کی جگہ پہنچا تو اسے ایسا پایا کہ ایک کیچڑ کی ندی میں ڈوب رہا ہے اور اس (ندی)کے پاس ایک قوم دیکھی ہم نے کہا ذوالقرنین ! تم ان کو خواہ تکلیف دو خواہ ان(کے بارے ) میں بھلائی اختیار کرو(دونوں باتوں کی تم کو قدرت ہے)۔[۶۸]

یعنی کہ وہ ایسی ارض یا کرّہ ارض پر جا پہنچے تھے جس کرّہ ارض کی سطح پر کیچڑ کی طرح کا پانی بہتا تھا۔اگر ہم سمندر کے کنارے کھڑے ہو کر سورج کے غروب ہونے اور سورج کے طلوع ہونے کا منظر دیکھیں تو ہمیں ظاہراً توایسا ہی لگے گا کہ سورج سمندر میں ڈوب رہا ہے یا سمندر میں سے طلوع ہو رہا ہے۔

پھر اس سورت میں یہ بتایا گیا ہے کہ ذوالقرنین کو اس ارض، کرّے یا پلینٹ کے لوگوں پر حکومت کا بھی اختیار دیاگیا تھا۔

ثم ّ اتبع سببا۔ ٭ پھر اس نے ایک اور سامان(سفرکا)کیا ۔[۹۸]

یعنی کہ اب ذوالقرنین نے دوسرا سفر بھی کےا تھا ۔ تو وہ کہاں پر پہنچے تھے ؟
حتی اذا بلغ مطلع الشمس وجدھا تطلع علیٰ قوم ٍ لّم نجعل لّھم من دونھا ستترا۔٭
یہاں تک کہ سورج کے طلوع ہونے کے مقام پر پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایسے لوگوں پر طلوع کرتا ہے جن کے لیے ہم نے سورج کے اس طرف کوئی اوٹ نہیں بنائی تھی۔[۰۹]

اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ وہ سیارہ یا ارض اپنے نظامِ شمسی کے سورج کے اتنا نزدیک تھا کہ ان کی ارض پر صبح کے وقت سورج کے طلوع ہوتے ہوئے ایسے ہی لگتا تھا جیسے کہ سورج کے اور اس زمین کے درمیان کوئی اوٹ نہیں ہے۔ ہماری زمین پر ایسا کوئی بھی مقام نہیں ہے جہاں پر طلوع آفتاب کے وقت ایسا منظر نظر آئے۔

ذو القرنین کے تیسرے سفر کا بھی ذکر اسی سورة میں موجود ہے۔
ثّم اتبع سببا۔ ٭ پھر اس نے ایک اور سامان کیا۔[۲۹]

حتی اذا بلغ بین السّدّین وجد من دونھما قوما لّا یکادون یفقھون قولا۔
٭ یہاں تک کہ دو دیواروں کے درمیان پہنچا تو دیکھا کہ ان کے اس طرف کچھ لوگ ہیں کہ بات کو سمجھ نہیں سکتے ۔[۳۹]

یہ آیت صاف بتا رہی ہے کہ وہ قوم جو کہ سدین کے درمیان تھی۔ ذوالقرنین کی سرکاری زبان سمجھنے سے عاجز تھی ۔ با لفاظ دیگر وہ قوم اس زبان کو نہ سمجھ سکتی تھی جو کہ اس وقت کے انسان بولتے تھے ۔ مگر جب اس قوم نے کلام کیا تھا تو ذوالقرنین اپنے علم کی فضیلت کی بنا پر ان کی زبان سمجھ گئے تھے۔ملاحظہ فرمائے اگلی آیت،

قالو یٰذ ا القرنین انّ یا جوج و ماجوج مفسدون فی الارض فھل نجعل لک خز جا علیٰ ان تجعل بیننا و بینھم سدّا ٭ ان لوگوں نے کہا کہ ذوالقرنین ! یاجوج اور ماجوج زمین میں فساد کرتے رہتے ہیں۔بھلا ہم آپ کے لیے رقم ( کا انتظام) کر دیںکہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار کھینچ دیں۔[۴۹]

اللہ خالق و مالک فرماتے ہیں ۔چونکہ ذوالقرنین صاحب حیثیت تھے اس لیے انہوں نے اس قوم سے رقم یا نقدی نہ لی تھی بلکہ صرف مزدور لئے تھے اور دو پہاڑوں کے درمیان کھلی جگہ کو لوہے سے پاٹ کر اسے پگھلے تانبے سے ایک جان کرکے اس کو یاجوج اور ماجوج کے لیے ناقابل عبور اور نا قابل تسخیر کر دیا تھااور اس قوم کو غیب کی یہ خبر بھی دے دی تھی کہ جب رب کے وعد ے کا دن آئے گا تو رب کائنات اس سد یا رکاوٹ کو ڈھا کر برابر کر دیں گے۔
وہ کون سا دن ہوگا ؟

ننانویں اور سوویں آیت کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے۔
(اس روز )ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ(روئے زمین پر پھیل کر)ایک دوسرے میں گھس جائیںگے اور صور پھونکا جائے گا تو ہم سب کو جمع کر لیں گے۔[۹۹]اور ہم اس روز جہنم کو کافروں کے سامنے لائیںگے۔[۰۰۱]

یہ دونوں آیات بتا رہی ہیں کہ جس دن ایلیئنز ہماری زمین پر آئیں گے، وہ دن قیامت کا دن ہوگا۔

سورة الکھف کی آیات کے مطالعے کے بعد یہ ثابت ہو ا ہے کہ ذوالقرنین صاحب نے تین اطراف میں سفر کئے تھے۔

مغرب،مشرق اور ایک نا معلوم سمت کو۔ ذوالقرنین صاحب جن تین مقامات پر گئے تھے اگر وہ ہماری زمین پر ہوتے تو اب تک انسان ان کو ضرور تلاش کرچکا ہوتا۔البتہ ایک حدیث میں مذکور ہے کہ ایک شخص نے اس دیوار کو دیکھا تھا اور
نبی آخزالزماں ﷺ سے اسکا ذکر بھی کیاتھا۔سبھی اہل علم جانتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے پاس مسلم جن بھی تشریف لا یا کرتے تھے اور جن تو ایک ایسی مخلوق ہے جس کی عمر ہزاروں سال طویل ہوتی ہے اور یہ ناری مخلوق آسمانوں کی سیریں بھی کرتی پھرتی ہے اور وہاں سے فرشتوں کی کچھ باتیں بھی سن گن لیتی ہے۔
اس لیے جناتی مخلوق تو وہاں تک با آسانی جا سکتی ہے جہاں جہاں تک ذو ا لقرنین صاحب تشریف لے کر گئے تھے۔

ایک قابل غور بات اور ہے۔ وہ یہ کہ اگر ہم دجال سے متعلق تمام احادیث کا مطالعہ کریں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ دجال بے شک مذہباً یہودی ہی ہوگا مگر نسلاً ایک جن ہوگا۔ جس طرح سے امام مہدی آدم علیہ السلام کی ذریّت سے ہوں گے ایسے ہی وہ لعنتی شخص شیطان لعین کی نسل میں سے ہوگا ۔

اس گفتگو کے اختتام پر ہمارے ذہن میں دوسوال پیداہو تے ہیں۔

(۱)کیا ہمیں خلائی تحقیقات کرنی چاہئیں ؟
بے شک ! اگر خلائی تحقیقات سے انسانیت کو فائدہ حاصل ہوتا ہے تو ہمیں بھی خلائی مسابقت میں حصہ لینا چاہیے۔

(۲)اس آرٹیکل لکھنے کا مقصد کیا ہے؟
کل کلاں کو جب کافر اور مشرک جدید ٹکنالوجی کی مدد سے یہ انکشاف کریں کہ کچھ سیاروں پر کچھ انسان نما مخلوقات بھی پائی جاتی ہیں ۔تو اس وقت امت محمدیہ ﷺ احساس کمتری کا شکار ہونے کی بجائے خود اعتمادی سے یہ کہے کہ ارے بھئی ! اس میں کون سی نئی بات ہے اس بات کی خبر تو ہمارے سچے نبی ﷺ نے بہت پہلے کر دی تھی اور بطور ثبوت قرآن حکیم پیش کردیں۔

ان سطور میں مجھے اس حقیقت کا اعتراف بھی کرنا ہے کہ میں نے آسمانی یا خلائی مخلوقات پر جو کچھ بھی لکھا ہے ۔صرف چند صفحے لکھا ہے ۔کیونکہ میں تو دین اسلام کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہوں۔اگر قرآن حکیم اور احادیث کی مدد سے ایلیئنز پر مفصل لکھا جائے تو ہز ا روں صفحات پر مشتمل سینکڑوں کتب لکھی جا سکتی ہیں۔ یہ کام تو علماءکرام اور فضلاءکرام کا ہے۔جس کا آغاز میں نے کردیا ہے ۔اب یہ تو اساتذہ کرام کی مرضی و منشاء پر منحصر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment