Sunday, July 19, 2009

آئیے پزل جوڑیں۔




تحریر: ڈاکٹر عصمت حیات علوی



بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم



میرے کچھ نادان اور بھولے دوست جو کہ صحافی ہیں یا پھر کالم نگار ہیں وہ انٹر نیٹ سے کچھ خبریں کاپی اور پیسٹ کرتے ہیں ۔پھر ہر پیرے کے شروع میں اور اختتام پر اپنی طرف سے ایک جملہ لگا دیتے ہیں ۔پھر اخبارات کو بھیج دیتے ہیں اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اخبارات ان تحریروں کو چھاپ بھی دیتے ہیں ۔کیوں کہ ہر اخبار اور اشاعتی ادارے کی کچھ مجبوریاں بھی ہوتی ہیں۔فی الحال ان کے ذکر کا مقام نہیں ہے اس لیے ہم آگے بڑھتے ہیں اور مجبوریوں کے موضوع کو کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔

میرا مقصد کسی کی توہین کرنا یا کسی کا مذاق اڑانا نہیں ہے اور نہ ہی کسی سیدھے سادے اور مخلص شخص کی نیت پر شک کرنا ہے میں تو محض اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ بعض اوقات ہم صحافی لوگ اور کالم نگار انجانے میں اور بھولے پن میں کسی دشمن کا آلہ کار بن جاتے ہیں اور ہمیں اس غلطی کا احساس تک نہیں ہوتا ۔میں تو صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جب بھی ہمیں کوئی خبر ملے، تب ہمیں اپنا دل و دماغ ٹھنڈا رکھ کر یہ سوچنا چاہئے کہ خبر میں جس شخص کو مطعون کیا جا رہا ہے ۔

ورلڈ میڈیا یا ہماری حکومت کے ارباب واختیار جس لیڈر، مجاہد یا عالم کی طرف اپنی انگلی اٹھا رہے ہیں ۔کیا اس محترم شخصیت یا ہستی کا ماضی اس عیب یا جرم سے کوئی تعلق یا واسطہ رکھتا ہے ؟ اگر ایسا نہیں ہے اور اکثر صورتوں میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ ورلڈ میڈیا ،عالمی غنڈے اور ہماری حکومت اس پاک صاف اور با کردار محترم ہستی کو بدنام کرکے دراصل دینِ اسلام اور اس کے سچے پیرو کاروں کو بدنام کرنا چاہتے ہےں ۔ان کے کچھ گھٹیا اور گندے مقاصد ہوتے ہیں۔ہمیں دشمنو ں کے مقاصد اور منصوبوں پر اپنی نظر رکھنی چاہئے اورمحض جذباتی ہو کر غصے کے عالم میں قلم کاغذ پکڑ کر کسی اپنے مخلص اور محترم پر خواہ مخواہ کیچڑ اچھالنے سے گریز ہی کرنا چاہیے ۔یہ نہ ہو کہ ہم روز قیامت اپنے غلط لکھے پر ایسے قابو میں آئیں کہ اللہ جبار و قہار کے غضب کے مستحق قرار پائیں۔

چھبیس نومبر کو ممبئی میں جو ڈرامہ کیا گیا تھا وہ دراصل نائین الیون کی ایک نئی قسط یا فریش ایپیسوڈ (FreshEpisode) )تھی۔اس موقع پر عالمی غنڈوں ،میڈیا اور ہماری حکومت و انتظامیہ نے بیک آواز ہو کر کشمیر میں جہاد کرنے والی تنظیموں پر بے بنیاد الزام ترشی کی تھی۔کچھ پاکستانی لفافہ صحافیوں نے اس موقع پر جہادی تنظیموں پر گند اچھالا تھا اورا پنا ذاتی غصہ بھی اتاراتھا۔ اس وقت بات تازی تازی تھی ۔اس لیے سبھی اپنے اور پرائے بغیر کسی تحقیق اور تفتیش کے جہادی حلقوں کے ایسے خلاف ہو گئے تھے کہ کانوں پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی اور اسوقت کسی نے بھی اعتدال پسندصحافیوں اور ماڈریٹ حلقوں کی آواز پر کان نہ دھرا تھا ۔ چونکہ ذاتی مشاہدے،تجربے اور تحقیق کی بنیاد پر میرا یہ پختہ ایمان تھا کہ کشمیر میں جہاد کرنے والی ایک بھی اصلی اور سچی تنظیم یہ انسانیت سوز فعل نہیں کر سکتی ۔اس لیے میں نے اس موضوع پر نہ صرف کالم اور مدلل مضامین بھی لکھے تھے ، بلکہ پاکستانی حکومت کے اہم عہدے داروں کو ذاتی خطوط بھی لکھے تھے اور کھل کر یہ بیان کیا تھا کہ کشمیری جہادی تنظیمیں یہ گھٹیا اور برا کام کر ہی نہیں سکتیں۔

میرے معزز قارئین کرام اس بات کی تصدیق کریں گے کہ دسمبر دوہزار آٹھ سے لے کر آج کے دن تک میرا یہی ایک ہی موقف رہا ہے کہ یہ کام بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اسرائیلی انٹیلی جینس ایجنسیوں کے تعاون سے کیا ہے اور میں اپنے اس موقف پر اب بھی قائم ہوں ۔بلکہ اب جب کہ جناب محترم حافظ سعید صاحب لاہور ہائی کورٹ کے ایک حکم کے تحت رہائی پاچکے ہیں اور حکومت پنجاب کا یہ بیان بھی آچکا ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں دی گئی اپنی نظرثانی کی درخواست کی پیروی نہیں کرے گی ۔کیونکہ پاکستان کی وفاقی حکومت اس کیس کے سلسلے میں پنجاب کی حکومت یا سپریم کورٹ کو کوئی بھی ثبوت فراہم نہیں کر سکی ۔اسی کیس کے ضمن میں ایک اور محترم ہستی جناب معین الدین لکھوی صاحب ابھی تک حکومت کی حراست میں ہیںجو کہ ذاتی طور پر اتنے بے ضرر اور شریف النفس ہیں کہ ان کو بےجا قید میں رکھنا، صریحاً ایک ظلم عظیم ہی ہے۔

اب جن جن کالم نگاروں نے ان اور دیگر انہی جیسی محترم ہستیوں اور جہادی تنظیموں پر کیچڑ اچھالا تھا ان کو چاہیے کہ وہ اپنے کالمز میں ان سے نہ صرف معافی مانگیں بلکہ اللہ توبہ بھی کریں اور یہ عہد بھی کریں کہ آئندہ محض اپنے کالم کا پیٹ بھرنے کے لیے یا خبروں (پریس) میں رہنے کے لیے وہ جلدبازی سے کام نہ لیں گے۔
ان سطور میں میں ذاتی طور پر قائد اہل سنت جناب قاری زوار بہادر صاحب کی تعریف بھی کرنا چاہوں گا کہ جنہوں نے جناب نعیمی صاحب کی شہادت پر نہ صرف حوصلے اور صبر سے کام لیا ہے بلکہ مدبرانہ فیصلہ بھی کیا ہے اور وہ حکومت اور ایک دہشت گرد علاقائی تنظیم کے فریب میں بھی نہیں آئے۔ ورنہ پاکستان کے تمام کے تمام بڑے شہر آگ اور خون کا دریا بن جاتے۔ میرا اب بھی یہی موقف ہے کہ جناب نعیمی صاحب کو ہماری ایک انٹیلی جینس نے ایک خاص مقصد کے لیے شہید کروایا ہے۔ اگر کوئی غیر جانبدار اور مضبوط ادارہ اس کی تحقیقات کرے گا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔

میں اپنے متعدد کالمز میں اس خدشے کا اظہار کر چکا ہوں کہ ہمارے دشمن انڈیا اور اسرائیل ہمارے ملک میں فرقہ وارانہ، لسانی ،علاقائی،سماجی، ثقافتی یا کسی بھی بہانے سے پاکستان میں وسیع پیمانے پر فسادات اور کشت وخون کروانا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہمیں ہوشیار اور بیدار رہنے کی شدید ضرورت ہے۔بلکہ میں تو ملک کے تمام کے تمام معتدل مزاج لیڈروں سے یہی کہوں گا کہ وہ حکومت کی باتوں میں آکر کسی بھی تنظیم، گروہ،عقیدے یا جماعت کے خلاف بیان نہ دیں کیونکہ جس کسی نے بھی کسی دوسری اور مخالف تنظیم، گروہ، عقیدے یا جماعت کے خلاف بیان بازی کی۔ پھر تو یوں سمجھیں کہ اسے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا دیا جائے گا۔

انہی سطروں میں مجھے ایک بات اور کرنا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستانی ایک دن یہ دیکھ بھی لیں گے اور یہ جان بھی لیں گے کہ جس سواتی لڑکی کو کوڑے لگائے گئے تھے وہ فلم ہی جعلی تھی ۔

کیونکہ صوفی محمد صاحب کے ذاتی کردار اور مزاج کو میں جانتا ہوں اور میری اس بات کی تصدیق پاک فوج کے معتدل حلقے بھی کریں گے کہ یہ کام کسی دشمن کا ہی ہے ور نہ ایسا کوئی وقوعہ ہوا ہی نہیں ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کی فوج کے کچھ حلقے سوات آپریشن کے خلاف تھے ۔ ان کا اب بھی یہی موقف ہے کہ محب وطن حلقوں کو ساتھ لے کر چلا جائے اور تمام بلوچ رہنماوں کے ساتھ گفت شنید بھی کی جائے اور کچھ دو اور کچھ لو کے اصول پر سارے معاملات طے کئے جائیں ۔ مگر آپ سمجھدار ہیں خود ہی سمجھ جائیں۔

میں ان دنوں امریکہ میں ہوتا تھا ۔تب میرے پاس ایک صحافیہ آئی تھی جو کہ سب کانٹی نینٹ (Sub-Continent) پر اتھارٹی تھی۔ اس کاتعلق مور مون عقیدے (Mormons= FLDS) کی ایک شاخ سے تھا۔ اسی نے مجھے سمجھایا تھا کہ جدید دنیا میں ہونے والے کچھ واقعات بظاہر تو ایک دوسرے سے الگ تھلگ یا بعض اوقات متضاد لگتے ہیں ۔ اگر ان پر غور و خوض کیا جائے تو ان میں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی ربط ضرور مل جاتا ہے۔

پھر وہ مجھے سمجھانے لگی تھی کہ یہ دنیا ایک بڑی پزل کی طرح سے ہے۔ اسی لیے کوئی بھی خبر کو اس کے سیاق و سباق کے بغیر مت دیکھا کرو اور جب تک اس کے ایک ٹکڑے کو دوسرے ٹکڑے اور تیسرے ٹکڑے سے جوڑ نہ لو کوئی نتیجہ اخذ نہ کرو۔ یقین جانئے گا کہ اس کے بعد اس نے ایک تازہ اخبار اٹھائی تھی اور کچھ دیر غوروخوض کرنے کے بعد اس محترمہ نے چند بظاہر متضاد اور الگ الگ جگہوں پر ہونے والے واقعات اور چند غیر اہم خبروں پر کچھ نشانات لگائے تھے اور مجھے یہ بتایا تھا کہ اس وقت بظاہر ان واقعات اور خبروں میں کوئی بھی ربط نہیں ہے مگر کچھ ماہ یا کچھ سال کے بعد تم محسوس کرو گے کہ ان خبروں میں درج ان اہم لیڈروں کے بیانات اور ان غیر اہم واقعات کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق تھا ۔ اس وقت تم یہ ضرورت محسوس کرو گے کہ اگر تم اس تعلق کو بروقت ڈھونڈ نکالتے تو بہت سارے مسائل سے بروقت بچ سکتے تھے۔

اس وقت تو میں نے اس کی بات پر غور نہ کیا تھا مگر پھر کچھ عرصہ کے بعد مجھے اس کے تجزیہ کے نتائج درست لگنے لگے تھے۔ کیونکہ بہت ساری غیر اہم خبروں کا تعلق کچھ اہم واقعات سے جڑتاجا رہا تھا۔پھر مجھے بھی اس قسم کی تجزیہ نگاری میں دلچسپی پیدا ہو گئی تھی اور میں اس صحافیہ کا شاگرد بن گیا تھا بلکہ احتراماً میں اسے مدر نورہ کہنے لگا تھا۔ حالانکہ وہ عمر میں میرے سے ایک دوسال چھوٹی ہی تھی۔ اسے مدر کہنے کی بنیاد یہ تھی کہ ایک تو وہ بہت باکردار تھی دوسرے وہ میری مادروطن پاکستان کی سلامتی کے متعلق فکر مند رہا کرتی تھی اور بذریعہ ڈاک ایسے تجزیے بھیجا کرتی تھی جن کی بنیاد پر مجھے یہ اندارہ ہونے لگا تھا کہ آنے والے وقت میں میری مدر لینڈ کے خلاف کیا کیا سازش ہو سکتی ہے۔

مدر نورہ تو چند برس قبل شہید کردی گئی ہے مگر اپنی قربانی دے کر وہ اپنی سوکن، اس کے بچوں اور اپنے شوہر کو بچانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ مدر نورہ کا تعلق مارمن یا مارمون فرقے (Fundamentalist Church of Jesus Christ of Latter Day) or FLDSکی جس شاخ سے تھا ۔وہ عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کی تیاریوں میں مصروف ہے۔

اس فرقے کے لوگوں کو یہودی اپنا سب سے خطرناک دشمن سمجھتے ہیں اور یہ ہے بھی ایک حقیقت کیونکہ اس فرقے کے لوگ نہ صرف منظم ہیں بلکہ موثر بھی ہیں۔ اس فرقہ کے مرد ایک سے زائد شادیاں کرتے ہیں اور کثیر بچے بھی پیدا کرتے ہیں۔ پھر یہ امیر بھی ہوتے ہیں بلکہ اس فرقے کے بہت سارے اراکین یورپ اور امریکہ کی اہم پوسٹس بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔ آپ خود دیکھ اور سن سکتے ہیں کہ مغربی دنیا کے بہت سارے فورم پر یہودیوں کی مٹی پلید ہوتی رہتی ہے یہی لوگ ہیں جن کی موثر اور منظم تنظیموں کی موجودگی کے باعث انتہا پسند صہیونی اور متعصب یہودی فلسطینیوں کا قتل عام نہیں کر رہے ورنہ صہیونی نہ عرب ممالک سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی ان کو کسی مسلم حکمران کا ڈرہے۔

مدرنورہ نے ہی مجھے یہ بتایا تھا کہ اسرائیل اور بھارت مل کر پاکستان کو ختم کرنے کے چکر میں ہیں اور مدرنورہ نے ہی مجھے یہ بتایا تھا کہ امریکہ اسرائیل کا آقا نہیں ہے بلکہ اسرائیل امریکہ کا آقا ہے اور اسرائیل کے اصل مالک کٹر صہیونی ہیں۔ یوں صہیونی اقوام متحدہ کے ذریعے سے پوری دنیا کے مالک ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ فلسطین سے لے کر پاکستان تک عیسائی دنیا یہودیوں کی پراکسی وار (Proxy War) لڑ رہی ہے۔مگر ہم اس جنگ کو محض دہشتگردی کے خلاف جہاد قرار دے رہے ہیں۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ہمارے معدودے چند صحافیوں کو چھوڑ کر کسی کو بھی یہ احساس نہیں ہے کہ یہودی ہماری نسلوں کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں اور یہ بات یہودیوں کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ میں اسے اتفاق کی بات نہیں سمجھتا کہ امریکہ میں ہی میری علیک سلیک کچھ اہم یہودیوں سے ہوگئی تھی۔ تب انہی کی زبانی مجھے یہ علم ہوا تھا کہ وہ آرمیگڈون یا ہرمجرون کی تیاریاں کر رہے ہیں۔

احادیثِ رسول ﷺ میں اس بڑی اور وسیع جنگ کو ام حرب کا نام دیا گیا ہے۔ میں اسے بھی محض ایک اتفاق نہیں سمجھتا کہ امریکہ جانے سے قبل چند برس تک میں احادیث کے ایک عالم کی صحبت میں بیٹھتا رہا تھا۔ وہ محترم استاد اکثر مجھے اور میرے ساتھیوں کو فتنہء دجال کی احادیث سنایا کرتے تھے۔ ان احادیث کی رو سے دجال کی آمد پر ایک تہائی کلمہ گو گمراہ ہو کر دجال کا ساتھ دیں گے اور ایک تہائی کلمہ گو شہادت کی سعادت حاصل کرلیں گے اور ایک تہائی امام مہدی اور پھر عیسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں جہاد کریں گے اور یقیناً فتح یاب ہوں گے۔ میں اپنے کلمہ گو بھائیوں کو اکثر یہ بات کہتا ہوتا ہوں کہ چھوٹی اور بڑی خبروں کی پزل کو جوڑنا اور اس سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا ایک لا حاصل اور فضول کام ہو سکتا ہے ۔ مگر قرآنِ کریم تو واضح ہے اور بین بھی ۔پھر احادیث رسول ﷺ بھی واضح ہی ہیں ۔

اگران کی موجودگی میں بھی ہمیں یہ پتہ نہیں چل رہا کہ پاکستان میں لڑی جانے والی جنگ کوئی عام جنگ نہیں ہے بلکہ ایک بڑی جنگ کا ابتدائیہ ہے تو پھر ہمیں کب پتہ چلے گا ؟

No comments:

Post a Comment