Thursday, July 2, 2009

اسلام آباد پر امریکی ایجنسیوں کی یلغار



تحریر: صفدر دانش

پاک فوج کے سابق سپہ سالار جنرل ریٹائرڈ مرزا اسلم بیگ نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ اسلام آباد میں جاسوسی کا ایک بڑا مرکز قائم کر رہا ہے۔ ’’اسلام آباد کمپلیکس‘‘ نامی اس امریکی اڈے میں تین سو امریکی انٹیلی جینس کے افسران کے رہنے کی جگہ میسر ہو گی جوامریکہ کے بعد کسی بھی ملک میں دوسرا سب سے بڑا امریکی اڈہ ہو گا۔

کسی عام آدمی نے نہیں پاک فوج کے سابق سپہ سالار نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اسلام آباد تخریبی سرگرمیوں کا بڑا مرکز بن جائے گا۔ اسلم بیگ کاکہنا ہے کہ امریکہ نے امریکی سفارت خانے کے احاطے میں پچیس ایکڑا مزید اراضی حکومت پاکستان سے خریدی ہے جہاں ’’اسلام آباد کمپلیکس‘‘ قائم کیا جا رہا ہے۔ مذکورہ کمپلیکس میں دو سو سے زائد رہائشی عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں بقیہ تعمیر ہونی ہیں۔ افغانستان میںموجود مجاہدین میریٹ ہوٹل اسلام آباد اور پرل کانٹی نینٹل ہوٹل پشاور کی طرح ’’اسلام آباد کمپلیکس‘‘ کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ ان حملوں کی زد میں امریکی سفارتخانہ، ایوان صدر، وزیر اعظم ہاؤس اور دیگر اہم عمارتیں اور سفارتخانے بھی آ سکتے ہیں۔

جس طرح حال ہی میں پشاور کے واحد پی سی ہوٹل میں ہونے والے خودکش حملے میں جہاں ہوٹل مینجر، پی آئی اے کے کپتان، سکیورٹی اہلکار سمیت متعدد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے وہیں اس خود کش حملے میں امریکی ایجنسی ’’بلیک واٹر‘‘ کے پانچ اہلکار ہلاک اور چار زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ پی سی ہوٹل پشاور میں بدنام زمانہ امریکی ایجنسی ’’بلیک واٹر‘‘ نے اپنا خصوصی دفتر قائم کیا تھا۔ بلیک واٹر نے یو ایس ایڈ کے دفاتر اور پشاور میں قائم امریکی قونصلیٹ کو پی سی ہوٹل میں منتقل کرنے کے لئے خصوصی پلان تشکیل دیا تھا۔ ابھی یہ منصوبہ بندی ابتدائی مراحل میں تھا جس کے تحت پی سی کے اردگرد بم پروف باؤنڈری وال کی تعمیر عمل میں لانا تھی اور اس مقصد کے لیے امریکہ سے دو انجنیئر خصوصی طور پر منگوائے گئے تھے۔

بلیک واٹر کی معاونت کے لئے آئی اوایم اور کریٹو ایسوسی ایٹس نے بھی اپنا دفتر قائم کیا تھا اور جی پی ایس سسٹم انسٹال کیا تھالیکن بم دھماکے کے بعد یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہو گیاہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق ’’بلیک واٹر‘‘ کا شمار امریکی محکمہ خارجہ کی زیر نگرانی کام کرنے والی تین بڑی پرائیویٹ سکیورٹی کمپنیوں میں ہوتا ہے۔ ’’بلیک واٹر آرمی‘‘ انیس سو ستتر میں صدر کلنٹن کے دور میں اور بلیک واٹر سکیورٹی ایجنسیز بیس جنوری دوہزار میں قائم ہوئی تھیں۔ یہ امریکہ کی بڑی پرائیویٹ ملٹری تصور کیا جاتی ہے جس کے پاس ائیر کرافٹس سمیت پچیس ہزار کی فورس ہے اور فی کس چار ہزار امریکی ڈالر ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے۔

دوہزار سات میں اس کا نام ’’بلیک واٹر یو ایس اے‘‘ رکھ دیاگیا۔تیرہ فروری دوہزار نو کو کمپنی کی طرف سے اس کا نیا نام XE (زی) سامنے آیا۔ ان تبدیلیوں کے باوجود اسے بلیک واٹر کے نام ہی سے پکارا جاتا ہے۔ یہ سکیورٹی ایجنسی فوجی تربیت سے لے کر تخریب کاری اور دہشت گردی سمیت ہر کام کرتی ہے۔

پاکستان کے سب سے بڑے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل کاکہنا ہے کہ ’’بلیک واٹر‘‘ ڈک چینی کی ذاتی ایجنسی ہے اور اس کے مختلف سکواڈز ہیں۔ بلیک واٹر کے ڈیتھ سکواڈ کے بارے میں امریکی صحافی سیمور ہرش نے انکشاف کیا تھا کہ اسی نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور لبنانی وزیر اعظم رفیق الحریری کو قتل کیاتھا۔ حمید گل کا کہنا ہے کہ ’’بلیک واٹر‘‘ پیشہ ور قاتلوں کی تنظیم ہے جس نے عراق میں بے شمار بے گناہوں کو مار ڈالا جس پر امریکی کانگریس نے اس کی عراق میں موجودگی کے خلاف فیصلہ دیا اور واپس بلوایا۔

حمید گل کے مطابق مشرف نے بلیک واٹر کو پاکستان بلوایا تھا کہ وہ ایف سی کو تربیت دے۔ چنانچہ دو ہزار سات کے شروع میں اس کے کچھ لوگ پاکستان آئے لیکن انہوں نے پچاس نہایت کڑی شرائط عائد کی تھیں جن میں اسلحہ لے کر چلنے، کسی قانون کے پابند نہ ہونے اور مکمل آزادی سے نقل و حرکت جیسی شرائط شامل تھیں جس پر جنرل کیانی نے کہا ہے کہ ہمیں ان کی ضرورت نہیں۔ بلیک واٹر کے پندرہ سوایجنٹس نے پاکستان آنا تھا جن میں سے چند لوگ ایڈوانس پارٹی کے طورپر آئے اور سرایت کر گئے۔

انکا مزید کہنا ہے کہ امریکی سپیشل آپریشن فورسز کے پچاس یونٹ پاکستان میں موجود ہیں۔ پاکستان میں غیر ملکی ایجنسیوں کی موجودگی کے بارے میں افغانستان اور قبائلی امور کے ماہر معروف صحافی سلیم صافی کاکہنا ہے کہ پاکستان میں غیر ملکی ایجنسیوں کی موجودگی ایک کھلی حقیقت ہے۔ پاکستان کی شورش میں غیرممالک کی خفیہ ایجنسیاں ملوث ہیں۔ عراق اور افغانستان کے بعد پاکستان میں پراسرار کاروائیوں کا آغاز کرنے والی بدنام زمانہ ’’بلیک واٹر‘‘ کو ظاہری طور پر امریکہ کا ایک ارب پتی ’’پرنس ایرک‘‘ فنڈ فراہم کر رہا ہے۔ جبکہ ماہرین کاخیال ہے کہ امریکی ’’سی آئی اے‘‘ اور اسرائیلی ’’موساد‘‘ بھی ان تنظیموں کے لئے فنڈنگ کر رہی ہیں۔

ان کو گلوبل وار کے لئے بنایا گیا تھا۔ تاہم بعد ازاں ان کے مقاصد میں توسیع کر کے مسلم ممالک میں انتہا پسندی، فرقہ واریت اور تخریب کاری پھیلانا بھی شامل کیا گیا ہے۔

اسلام آباد کے ماہرین کا خیال ہے کہ مغربی ممالک کی ان کا رستانیوں کے ساتھ ساتھ دوست ممالک بھی ’’بغل میں چھری منہ پر رام رام‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ بھارت، افغانستان، چین، سعودی عرب اور ایران کے جاسوس اداروں نے پاکستان میں انتہائی مضبوط نیٹ ورک قائم کئے ہیں۔ جو انتہائی منظم طریقے سے اپنے مفادات کی جنگ پاکستان کی سر زمین پر لڑرہے ہیں۔ ان ممالک نے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے بااثر افراد کی خدمات لے رکھی ہیں جو مذہب اور مسلک سمیت ہر جائز اور ناجائز طریقے سے گیم کھیلنے میں مصروف ہیں جس کے بدلے ان عناصر کو ڈالروں کی صورت میں نوازنے کی ا طلاعات ہے جو وطن عزیز کے لئے قطعاً نیک شگون نہیں۔

حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ امریکہ سمیت کسی بھی ملک کوجاسوسی نیٹ ورک قائم کرنے کے لئے کھلی چھوٹ نہ دی جائے اور اسلام آباد میں موجود غداروں کی سرکوبی کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔ حکومت پاکستان کو دنیا بھرپر واضح کر دینا چاہیے کہ ہم ایک آزاد اور خودمختار قوم ہیں اور دنیاکے تمام ممالک کے ساتھ ہم اچھے تعلقات کے خواہاں بھی ہیںلیکن دوستی کی آڑ میں اپنی پیٹھ میں چھری گھونپنے کی اجازت کسی کو نہیں دے سکتے

No comments:

Post a Comment