Friday, July 31, 2009

چو مکھی جنگ - - - - سچ تو یہ ہے۔




تحریر: خادم الاسلام والمسلمین، ڈاکٹر عصمت حیات علوی



٭بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم٭


میں اس سے قبل بھی اپنے کئی کالمز میں یہ بات لکھ چکا ہوں کہ سارے پاکستان میں اور خاص طور پر ہمارے شہر پشاور میں انڈیا اور اسرائیل کی ایک سے زائد انٹیلی جینس ایجنسیاں کام کر رہی ہیں اور ہمارے ملک کے کچھ وطن دشمن سرکاری افسر ان سے پورا پورا تعاون کر رہے ہیں۔

میں نے اس سے قبل بھی اپنے کئی مضامین میں یہ بات کھل کر لکھی تھی کہ ہمارے صوبے بلوچستان میں بہت سارے بیرونی ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیاں کام کر رہی ہیں اور ان میں وہ ممالک بھی شامل ہیں جن کو ہمارے ملک کی بھولے عوام پاکستان کے بے لوث اور آزمودہ دوست گردانتے ہیں۔ ابھی اور اس وقت تو ہمارے ملک کے سرکاری حلقے میری اس بات کی تردید ہی کریں گے مگر کل کو ایک ایسا مرحلہ ضرور آئے گا کہ میری اس بات کی تردید کرنے والے اس عریاں حقیقت کو خود ہی اور ایسے ہی تسلیم کر لیں گے جیسے کہ اب شرم الشیخ میں ہمارے ملک کے وزیر اعظم نے بھارتی وزیر اعظم کو کہا ہے کہ انڈیا بلوچستان کے معاملات میں ملوث ہے اور انڈین پرائم منسٹر نے اس بات کی تردید نہیں کی ہے۔

اسی بات کو بنیاد بنا کر بہت سارے صحافتی اور سفارتی حلقے اس نقطے کو پاکستان کی سفارتی فتح قرار دے رہے ہیں ۔ حالانکہ حقائق اس کے بر عکس ہیں ۔ اگر پاکستان یہی الزامات آج سے دو یا تین سال قبل لگاتا تو انڈیا اسے جھوٹ ہی قرار دیتا کیونکہ اس وقت حالت خام تھی اور پک کرتیار نہ ہوئی تھی۔

اب ہوگا یوں کہ کچھ ماہ یا کچھ سال کے بعد انڈیا نہ صرف ورلڈ لیول پر یہ بات تسلیم کرے گا کہ اس کے بلوچستان کے پاکستان مخالف عناصر سے روابط ہیں بلکہ وہ علیحدگی کی اس تحریک کو آزادی اور حریت کی تحریک قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ اور دنیا کی دیگر قوتوں سے یہ مطالبہ بھی کرے گا کہ وہ بلوچستان کے عوام کی اپیل پر مداخلت کریں اور بلوچ عوام کو آزادی دلوائیں۔ تب اس مرحلے پر امریکہ اقوام متحدہ کو ایک کٹھ پتلی کی طرح سے استعمال کرے گا اور پھر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جو افواج اس وقت افغانستان میں موجود ہوں گی تواس وقت بلوچ عوام کو آزادی دلوانے کے بہانے اتحادی اپنی ان افواج کو بلوچستان میں داخل کر دیں گے۔

دکھ اور الم کی بات تو یہ ہے کہ شرم الشیخ میں کشمیر کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا ہے جو کہ اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ حکومت پاکستان کے اندرونی حلقے سوات سمیت دیگر قبائلی علاقوں کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور بلوچستان میں بیرونی ممالک اور دیگر حلقوں کی مداخلت سے اس قدر سراسیمہ ہو چکے ہیں کہ وہ ایک کروڑ سے زائد انسانوں اور پاکستان کی شہہ رگ کے مسلے کو یکسر بھول چکے ہیں۔

میں نے آج سے چھ ماہ قبل قبائلی علاقوں اور بلوچستان کی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ تجویز دی تھی کہ اگر بلوچ یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کے صوبے کو دو صوبوں میں تقسیم کرکے ان کو زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری دے دی جائے تو ان کی ان معقول تجاویز کو ماننے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ بلکہ میں نے تو یہ بھی لکھا تھا کہ ہمیں یہ چاہیے کہ ہم ساتھ ہی ساتھ شمالی علاقوں کو زیادہ سے زیادہ نمائندگی دینے کے ساتھ ساتھ ان کو ایک صوبے جیسی حیثیت دے دیں تاکہ ان کی ساٹھ سال پر محیط محرومیوں کا کچھ تو ازالہ ہو جائے ۔

پھر میں نے یہ بھی تجویز دی تھی کہ تمام قبائلی علاقوں کو بھی ایک الگ صوبہ بنا دیا جائے جو کہ اپنے اندرونی معاملات میں خود مختار ہو اور اپنی حیثیت میں نیم آزاد ہو۔ تاکہ کل کلاں کو جب امریکہ ہمارے اس قبائلی صوبے میں القاعدہ یاطالبان کی موجودگی کا بہانہ بنا کر ہمارے اس صوبے پر قبضہ کرتا تو ہم اس کے عوام کو اپنا دفاع خود ہی کرنے دیتے اور الگ ہٹ کر تماشا بھی دیکھتے ۔ تب ہونا تو یہ تھا کہ اس وقت جس قدرجانی نقصان ہمارا ہو رہا ہے تو اس وقت اتنا ہی جانی نقصان امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا ہونا تھا پھرانہوں نے خود ہی تنگ آکر اس خطے کو دوچار سال کے اندر اندر ہی چھوڑ جانا تھا ۔کیونکہ میں سفید فام اقوام کی فطرت جانتا ہوں کہ وہ لاشوں کے معاملے میں بڑی ہی حساس ہوچکی ہیں کیونکہ ان کو دماغوں میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ اگرچہ دنیا میں ان کے ممالک کی مجموعی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے مگر دنیا میں ان کی سفید فام نسلوں کا دنیا کی کل آبادی کے لحاظ سے تناسب کم ہو رہا ہے۔

آج سے چھ ماہ قبل جب میں نے بلوچستان، صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں کے حالات کو کھل کر بیان کیا تھا تب زیادہ تر لوگوں نے تو میری باتوں کا اعتبار کرنے کی بجائے میرا مذاق اڑایا تھا اور کچھ نے تو گالیاں بھی دی تھیں۔ چند ایک شریف آدمیوں نے میرے سے یہ گلہ کیا تھا کہ میں اپنے کالمز میں جھوٹ اور سچ ملا کر ان کو ڈراتا ہوں جب کہ میں قسمیہ کہتا تھا کہ یہ سچ ہے او ر یہی تلخ حقیقت ہے۔

پھر جب ہماری حکومت نے بغیر کسی منصوبہ بندی کے پاک فوج کو سوات کی بے مقصد مہم جوئی میں جھونکا تھا۔ تب بھی عمران خان اور اسی قبیل کے ماڈریٹ طبقے کے لوگوں کی طرح سے میں نے بھی اس کی بھر پور مخالفت کی تھی اور اس بے سود آپریشن کے خلاف کالم بھی لکھے تھے۔ اس وقت بھی بہت سارے پاکستانی لوگوں نے میری حکومت وقت کی مخالفت کو پاکستان کی مخالفت گردانا تھا۔ جب کہ تلخ حقیقت تو یہ ہے اس وقت بھی جب کہ میں یہ سطور لکھ رہا ہوں۔ سوات اور گرد و نواح میں جنگ کی سی کیفیت طاری ہے اور جو وزرا ایک ہفتہ قبل ہی سوات کو محفوظ قرار دے رہے تھے ۔آج یہ بیان دے رہے ہیں کہ یہ ایک طویل جنگ ہے اور پاکستان میں کہیں پر بھی لڑی جا سکتی ہے۔

میں ایک مرتبہ پھر سے بڑے ہی ادب سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم لوگوں نے بحیثیت ایک قوم کے بالغ نظر ہو کر کسی بھی چھوٹے یا بڑے مسئلے کو وسیع النظر ہو کر دیکھنا سیکھاہی نہیں ہے ۔ چاہے وہ صوبائی خود مختاری کا مسلہ ہو یا صوبوں کی مزید تقسیم کا مطالبہ ہو ۔سوات میں شریعت کا نفاذ ہو یا سندھ میں قوم پرستوں کے خدشات ہوںہم ہر مسلے اور مصیبت کو اس کے سیاق اور سباق سے کاٹ کر دیکھتے ہیں۔

یہی تو ہمارے دشمن چاہتے ہیں کہ ہم ہر مسئلے کو اس کی بیک گراونڈ سے الگ کرکے اور محدود پیمانے پر اور وقتی نقطہ نظر سے دیکھیں اور جس دن کل امتِ مسلم نے کافروں کے زیر اثر اپنی سوچ اور نظر محدود کر لی اس دن شرق تاغرب اور شمال تا جنوب انہی کافروں کی حاکمیت ہو گی اور کل مسلم قوم ان کی غلام ہوگی۔ یہ کافر اقوام تو اتنی مکار اور عیار ہیں کہ وہ ہمیں گمراہ کرنے کے لیے منزّل من اللہ کتاب قرآن مجید کی آیات کو بھی سیاق و سباق سے کاٹ کر ہمارے سامنے پیش کرتی ہیں اور ہمیں گمراہ کرتی ہیں۔ کافر اقوام تو آدھے سچ کے ساتھ ساتھ اپنا آدھا جھوٹ بھی ہمیں ہضم کروادیتے ہیں ۔اب تو ہماری حالت یہ ہوچکی ہے کہ ہم جس کتاب کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں ہم اسی کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور ہمیں یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ ہم اللہ قادرِ مطلق کے باغی ہو چکے ہیں۔ حالانکہ اللہ خبیر و علیم نے قرآنِ مجید میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ اہل اسلام کے بد ترین دشمن دو ہی ہیں ایک تو قوم یہود اور دوسرے بت پرست ۔ پس یہی دونوں دشمن ہمارے وطن پاکستان اور عالم اسلام کی مکمل بربادی کے پس پردہ کام کررہے ہیں۔

یہ ایک نا قابل تردید حقیقت ہے کہ ہنود اور یہود اس وقت اندرون خانہ ایک ہو چکے ہیں اور ان دونوں قوتوں کے درمیان کسی ایک امر یا کسی ایک نقطے میں بھی فرق نہیں اور نہ ہی کسی ایک مسلے میں کوئی اختلاف موجود ہے یوں سمجھیں کہ ظاہراً تو یہ دونوں الگ الگ ہیں مگر اندر سے یہ دونوں ایک ہو چکے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے معاملے پر دنیا کی کسی بھی دو اسلام دشمن قوتوں میں ایسا اتفاق اور اتحاد نہیں ہے جتنا اتفاق اور اتحاد اس وقت اسرائیل اور انڈیا کے مابین ہو چکا ہے۔

حال ہی میں ہیلری کلنٹن کے انڈین وزٹ کے دوران جتنے بھی فوجی یا سول نوعیت کے معاہدے کئے گئے ہیں اس کے پس پردہ امریکن یہودی لابی کا پورے کا پورا پریشر تھا کیونکہ جلد یا بدیر ان سبھی معاہدوں کے دور رس فوائد سے یہودیوں نے ہی مستفید ہونا ہے اسی لیے ہمارے یہ دونوں ازلی و ابدی دشمن ہماری مکمل تباہی کے خواہاں ہیں اور عالم اسلام کے کھنڈر پر اپنی اپنی سلطنتیں قائم چاہتے ہیں۔

یہود تو گریٹر اسرائیل قائم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں جس کی سرحدیں فرات تا نیل پھیلی ہوں گی اور دوسرے جو کہ بت پرست ہیں یعنی کہ ہندو ۔ وہ مہا بھارت کے قیام کی جدوجہد کر رہے ہیں جس کی حدود مشرق میں موجودہ انڈونیشا سے لے کر مغرب میں موجودہ عرب ریاستوں تک پھیلی ہوئی ہوں گی۔

بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ بھارت کے پہلے پردھان منتری شری جواہر لال نہرو نے آزادی ملنے کے بعد اپنے پہلے اہم اجلاس میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس کا کام پاکستان کو تحلیل کرکے اس کو واپس بھارت میں لانے کا تھا اور اسی پہلے وزیر اعظم نے سپین سے بیس کے قریب ہسٹورین منگوائے تھے جنہوں نے انڈیا کے پروفیسروں، خاص درجے کے سول سرونٹس اور اعلیٰ درجے کے انٹیلی جینس آفیسرز کو یہ تربیت دی تھی کہ اسپین کی ملکہ ازابیلہ کے دور میں متعصب عیسائیوں نے کس طرح سے ملک سپین میں مسلم قوم کا صفایا کیا تھا۔

ساٹھ برس کی مسلسل تربیت کے بعد آج صورت حال یوں ہے کہ انڈیا کے پاس دولاکھ کے لگ بھگ ایسے بہترین تربیت یافتہ افراد موجود ہیں جن کا مقصد انڈیا اور اس سے ملحقہ علاقوں سے مسلم قوم کا مکمل صفایا ہے۔
آپ کے ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھ رہا ہوگا کہ میرے کہنے کے مطابق تو پاکستان اور افغانستان کے علاقے مہابھارت کا حصہ بننے ہیں تو اس خطے میں عیسائی فوجیں کیا کر رہی ہیں ؟

دراصل بات یہ ہے کہ یہود کی کتاب توراة میں ایک آیت ان کے علماء یعنی ربیوں کی تحریف سے اب تک محفوظ ہے اور اس آیت کے مطابق اس علاقے سے ایک ایسی قوم اٹھے گی جو کہ بکّہ کے لیڈر کی قیادت میں پوری دنیا کے حاکم د ائی زل سے جنگ کرے گی۔ یاد رہے کہ مکّة المکرمہ کا قدیم نام بکّہ ہے اور دائی زل کو ہماری کتب احادیث میں دجال کہا گیا ہے ۔ جس طرح سے فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کی آمد کو روکنے کے لیے بنی اسرائیل کے تمام نومولود لڑکوں کے قتل کرنے کی سکیم بنائی تھی اسی طرح سے صہیونی بھی اس جماعت کا راستہ روکنے کے لیے پاکستان ایران اور افغانستان کی ٹرائینگل میں گھس آیا ہے۔

یہ ساری عیسائی قومیں تو درحقیقت یہودیوں کی پراکسی وار لڑ رہی ہیں دراصل ان عیسائیوں کو ان بہروپیے یہودیوں نے گمراہ کر رکھا ہے جو کہ دراصل نسلاً اور عملاً یہودی ہیں مگر عیسائی مذہبی رہنماوں اور دنیاوی لیڈروں کے روپ میں عیسائی دنیا کی قیادت کررہے ہیں اور سو فی صد یہی تکنیک ہندووں نے پاکستان، افغانستان اور دیگر مسلم ممالک کے اندر اپنا رکھی ہے لاکھوں کی تعداد میں متعصب ہندو اور ان کے نام نہاد مسلم ایجنٹ مسلمانوں کے روپ میں ہمارے درمیان میں رہ کر اپنا کام کر رہے ہیں ہماری نا اہلیوں کے سبب اس وقت صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ وہ ماڈرن مسلمانوں میں بھی گھل مل چکے ہیں اور مذہبی جماعتوں کا حصہ بھی بن چکے ہیں۔

ان کو فوج میں بھی اثرورسوخ حاصل ہے اور وہ ہماری سول سروسزمیں بھی کام کر رہے ہیں اور یہ عمل ایک یا دو دن میں مکمل نہیں ہوا ہے بلکہ ہمارے دشمنوں نے ہمارے سسٹم کے اندر اثرو نفوذ حاصل کرنے کے لیے برسوں تک ان تھک محنت کی ہے اور آج صورت حال یہاں تک بگڑ چکی ہے کہ یہی دشمن ایجنٹ ہم کو آپس میں ہی لڑوائے اور مروائے جارہے ہیں۔

بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ ہماری فوج اور سول انتظامیہ میں انڈین ایجنٹ ایوب خان کے دور میں ہی قدم جما چکے تھے اورجب چھ ستمبر کی رات کو انڈیا نے لاہور پر بھر پور حملہ کیا تھا۔ تب انہی ایجنٹوں کی یقین دہانی پر اس رات کو ہماری فوج اپنی چھاونیوں میں پڑ ی ہوئی سورہی تھی اور لاہور کا اہم اور حساس باڈر خالی تھاحالانکہ ان دنوں کشمیر کا محاذ گرم تھا اور اس وقت کا انڈین پرائم منسٹر لال بہادر شاستری یہ دھمکی بھی دے چکا تھا کہ ہم اپنی مرضی کا کوئی بھی نیا محاذ کھول سکتے ہیں اور ادھر پاکستان میں حال یہ تھا کہ ہمارے ملک کے حاکموں کو اپنا بھی ہوش نہ تھا۔

پھریہی ایجنٹ تھے جنہوں نے یحییٰ خان کو مجبور کیا تھا کہ وہ مجیب الرحمٰن کواقتدار منتقل نہ کرے تاکہ پاکستان کے دونوں بازو ایک دوسرے سے کٹ جائیں اور یہی ایجنٹ پس پردہ سرگرم عمل تھے۔ جب مقبول عوام لیڈر زیڈ ۔ اے۔ بھٹو کو اقتدار سے محروم کرکے ملک میں علاقائی، لسانی، فرقہ وارانہ اور دیگر ملک دشمن گروہوں کی سرپرستی کی گئی تھی اور انجام کار بھٹو صاحب کا سیاسی قتل بھی کیا گیا تھا۔

یہی غیر ملکی ایجنٹ تھے جنہوں نے امریکہ کے اشارے پر نواز شریف کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹا تھا اور مشرف کی قیادت میں پورے ملک کی کل آبادی کو ایک دوسرے کے خلاف کردیا گیا ہے۔ اب تو حالات یہاں تک بگڑ چکے ہیں کہ ہر شخص ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کو تیار بیٹھا ہے ۔ اگر ہم نے اب بھی عقل مندی اور دانش مندی سے کام نہ لیا تو خانہ جنگی کی ایک ایسی آگ بھڑکے گی کہ اوّل تو پاکستان ہی نہیں بچے گا اور اگر بچ بھی گیا تو اس ملک کے اصل حکمران تو یہود ہی ہوں گے البتہ دکھاوے کے لیے وہ ہم میں سے ہی چند ضمیر فروش اشخاص کو کرایہ پر رکھ لیں گے۔

اس وقت امریکن انتظامیہ کے سامنے دو آپشن ہیں۔ ایک تو یہ کہ پاکستان کے چار ٹکڑے کر دیے جائیں۔ صوبہ سرحد افغانستان میں چلا جائے۔ آزاد کشمیر کو انڈین کشمیر میں شامل کردیا جائے اور ایران کو کمزور اور بے بس کرنے کے لیے ایرانی اور پاکستانی بلوچستان پر مشتمل ایک الگ اور آزاد ریاست قائم کر دی جائے۔ پاکستان صرف پنجاب اور سندھ تک محدود کر دیا جائے۔

اس منصوبہ بندی کے پیچھے اسرائیل اور انڈیا دونوں ہی امریکہ کے ساتھ مل کرکام کر رہے تھے مگر یورپ کے کچھ ممالک نے اس منصوبے پر یہ اعتراض کیا ہے کہ دنیا ابھی اتنی بڑی اکھاڑ پچھاڑ کی متحمل نہیں ہو سکتی کیونکہ اس طرح سے تومڈل ایسٹ کے تیل پیدا کرنے والے تمام ممالک بھی عدم استحکام کا شکار ہو سکتے ہیں اور یہ بھی تو ممکن ہے کہ یورپ کچھ عرصے کے لیے تیل کی سپلائی سے ہی محروم ہو جائے اوریہ عمل تو یورپ کی اقتصادی موت ثابت ہو سکتا ہے۔

اس لیے اب یوروپین ممالک کی تجویز پر ایک متبادل منصوبہ امریکن صدر کی ٹیبل پر ہے۔ وہ یہ ہے کہ پاکستان کو مستقل عدم استحکام کا شکار بنا دیا جائے اور یہ بہانہ کیا جائے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے دہشتگردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں، پھر پاکستان کو مستقل طور پر اقوامِ متحدہ کی تحویل میں دے دیا جائے اور اس کے بعد بتدریج پاکستان کے حصے بخرے کئے جائیں۔

جیسے کہ ایک صدی قبل خلافتِ عثمانیہ کے حصے بخرے کیے گئے تھے۔

پاکستان پر قبضے کے بعد یہود بتدریج پورے مسلم خطہ پر کنٹرول حاصل کریں گے اور پھر آہستہ آہستہ غیر مسلم علاقوں کو بھی ہضم کریں گے اور ہنود دیکھتے رہ جائیں گے کیونکہ اس وقت بھی انڈیا کی اہم جگہوں پر یہودی موجود ہیں۔ پھر ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ یہود انڈیا پر بھی قبضہ کرلیں گے۔ یہ تو ایک چومکھی جنگ ہے اور اس میں صرف وہی جیتے گا جو کہ سب سے زیادہ عیار، چالاک اور مکار ہوگا۔

اب آپ یہی دیکھ لیں کہ انڈیا نے تمام مسلم ممالک میں جاسوسی اداروں کا جال بچھا رکھا ہے اور امریکہ اپنی خلاء‌ اور الیکٹرانک ٹیکنالوجی کی بناء پر دنیا کے تمام ملکوں کی ساری معلومات لمحہ بہ لمحہ اکٹھی کر رہا ہے۔ جبکہ اسرائیل صرف چند سو اہم آدمیوں کو انڈیا اور امریکہ میں اہم پوسٹس پر بٹھا کر ساری وائٹل انفارمیشن اپنے مفاد میں استعمال کر رہا ہے ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ انڈیا نے جب سے کشمیریوں کی تحریک آزادی سے چھٹکارا پانے کے لیے اسرائیلیوں کا تعاون حاصل کیا ہے۔ تو انہوں نے امریکہ کی توسط سے پاکستان پر دباو ڈالا ہے یوں انڈیا کو کشمیریوں کے جارحانہ اقدامات سے تو نجات مل گئی ہے مگر اس کے گلے یہودی جاسوسوں کا جو پھندا پڑگیا ہے، اس کا اندازہ ابھی بنئے کو نہیں ہے۔ ورنہ وہ دو اڑھائی لاکھ ایجنٹ پاکستان میں اور ہماری مغربی سرحد پر نہ پال رہا ہوتا کیونکہ ان کی محنت کا پھل تو ایک دن صہیونیوں نے ہی کھانا ہے۔

جس چومکھی جنگ کا آغاز آج سے ساٹھ ستر سال قبل اسرائیل کے قیام سے پہلے سر زمین فلسطین میں ہوا تھا اور جس کا دوسرا مرحلہ افغانستان پر امریکہ کی یلغار سے شروع ہوا تھا اور اب وہی جنگ پھیلا کر ہماری سرحدوں کے اندر دور دراز تک وسیع کی جا رہی ہے اور جلد ہی یہ جنگ کسی اور ملک کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے والی ہے۔ (قوموں کی زندگی میں دس بیس سال جلد ہی ہوتے ہیں) پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں کے دونوں جانب لڑی جانے والی اس چومکھی جنگ میں دنیا کی ہر قابلِ ذکر طاقت ملوث ہو چکی ہے۔

آج کل ہمارے اس خطے میں جولڑائی لڑی جا رہی ہے۔ بظاہر تویہ جنگ صرف قبائلی لشکروں ( القاعدہ، طالبان یا شدت پسندوں ۔آپ جو مرضی نام دے لیں) اور پاکستانی فوج کے درمیان ہو رہی ہے ،مگر حقیقت میں اس جنگ میں ہر ملک کے حامی اور ایجنٹ ملوث ہوچکے ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت پاکستان میں ہر ملک کی انٹیلی جینس ایجنسیاں اپنے اپنے ملک کے مفادات کی کھچڑی پکا رہی ہیں۔
ہمارے وطن کا مفاد تو اسی میں ہے کہ ہم دوسروں کی جنگ کو اپنے ملک میں نہ پھیلائیں۔ سر جوڑ کر بیٹھنے کی کوئی تدبیر نکالیں ، افہام وتفہیم سے کام لیں اور چند ڈالرز کے بدلے اپنوں کو ہلاک کرکے خود اپنی ہلاکت کا سامان پیدا نہ کریں۔ اگر مختلف علاقے یا قومیں چھوٹے صوبوں کی ڈیمانڈ کرتی ہیں یا پھر زیادہ خود مختاری کا مطالبہ کرتی ہیں توڈیفنس، فارن افیئر اور کرنسی کو مرکز کے ہاتھ میں رکھ کر باقی کے تمام امور کو صوبائی یا لوکل گورنمنٹس کے حوالے کردیں۔

سیانے کہتے ہیں کہ سارا جاتا دیکھیے تو آدھا بانٹ دیجیے۔ دنیا کے بہت سارے ممالک میں صوبوں اور مرکز کے درمیان حقوق اور فرائض کے الگ الگ قسم کے توازن یا نظام موجود ہےں جو کہ دوسرے ممالک سے مختلف بھی ہیں اور بعض صورتوں میں ایک ہی ملک میں دو یا تین طرح کے سسٹم چل رہے ہیں جو ان کی ضروتوں اور سہولتوں کے مطابق ہے۔ ہم دور کیوں جائیں ہمارے پڑوسی ملک چین میں ہانگ کانگ، میکاو، تبت، سنکیانگ اور منگولیا کے علاقے ایسے ہیں جہاں پر مرکزی حکومت سے یا مین لینڈ کی گورنمنٹ سے الگ الگ سسٹم موجود ہیں یوں صرف ایک ملک چین میں چھ طرح کے سسٹمز چل رہے ہیں اور ملک نہ صرف قائم ہے بلکہ مضبوط بھی ہے۔

اسی طرز پر ہم اہل پاکستان بھی آپس میں مل بیٹھ کر اپنے وسائل اور مسائل باہم بانٹ سکتے ہیں۔اگر ہم مخلص ہیں تو گفت وشنید سے سارے مسلے حل ہو سکتے ہیں ۔دیکھا یہ گیا ہے کہ برسوں اور عشروں تک جنگ وجدال کرنے کے بعد اور لاکھوں انسانوں کا خونِ نا حق بہانے کے بعد بھی انجام کار یہی ہوتا ہے کہ سارے معاملے ٹیبل ٹاک سے ہی حل ہوتے ہیں ۔تو کیا ہمارے لیے یہ بہتر نہیں ہے کہ ہم اپنا قیمتی وقت، قیمتی جانیں اور اموال ضائع کرنے سے قبل ہی ایسا کرلیں !

مگر سوال تو یہ ہے کہ میری اس مفاہمت والی بات کو کون سنے گا ؟

No comments:

Post a Comment