Sunday, August 30, 2009

فاطمہ میر ی بیٹی - - - کچھ یادیں کچھ باتیں





تحریر: ڈاکٹر عصمت حیات علوی

جب فاطمہ پہلی مرتبہ بغرض علاج میرے پاس لائی گئی تھی تب اس کی اصل عمر تو دس برس ہی تھی مگر مسلسل بیمار رہنے کے سبب وہ دبلی پتلی اور منحنی سی بچی چھ یا سات سال کی لگتی تھی۔ مجھے اس کی جو عادت سب سے زیادہ بھائی تھی وہ اس کا ادب آداب اور طریقہ و سلیقہ تھا۔ مجھے اس کی معصوم اداؤں پر پیار بھی آیا تھا اور ترس بھی آیا تھا کیونکہ ایک بچی ہونے کے باوجود وہ ہمت والی بھی تھی اور اس کا مزاج بھی چڑچڑا نہ ہوا تھا ۔ورنہ اکثر یہی ہوتا ہے کہ بڑے بھی تین سال کی لمبی بیماری اور تلخ وترش ادویات اور پرہیزی غذا کھا کھا کر تلخ اور تند مزاج ہو جاتے ہیں اور بات بات پر لڑنا جھگڑنا شروع کردیتے ہیں یا پھر مایوسی اور محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ بلکہ مجھے تو دو سال تک تو یہ بھی علم نہ ہو سکا تھا کہ فاطمہ باپ کے سایہ اور شفقت سے محروم ہے۔ اگرچہ وہ میرے علاج سے ایک ماہ میں ہی روبہ صحت ہو گئی تھی ۔مگر چچا اور بیٹی والا جو تعلق ہم میں پیدا ہو گیا تھا وہ اب تک قائم ہے۔ الحمد للہ الرب العالمین!

مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب فاطمہ نے اپنا نام بتایا تھا اور بڑے ہی ادب سے کہا تھا۔ڈاکٹر چاچا جی میرا نام فاطمہ ہے تو محبت اور عقیدت کے عالم میں بے ساختہ میرا ہاتھ اٹھا تھا اور اس کے سر پر جا کر ٹک گیا تھا۔ پھر میں نے اسے بڑے ہی نرم لہجے میں یہ بتایا تھا کہ بیٹی میری ماں کانام بھی فاطمہ ہی ہے۔فاطمہ نام سے میری یہ محبت عقیدت اور الفت محض اس لیے نہ تھی کہ میری ماں کا نام فاطمہ تھا بلکہ مجھے یہ بھی علم تھا کہ جہاں سے علوی خاندان کا آغاز ہوا ہے ہماری اس اولین اور پہلی ماں کا نام بھی فاطمہؓ ہی تھا جو کہ نبی اکرم ﷺ کی گوشئہ جگر تھیں اور علی کرم وجہہ اللہ کی بیوی تھیں بلکہ علوی خاندان کی ایک شاخ نے اپنی پہلی ماں کی عقیدت اور عظمت کے پیش نظر خود کو فاطمی کہلوانا شروع کر دیا تھا ۔

جب فاطمہ تندرست ہوگئی تھی تو چند ماہ کے عرصے کے دوران ہی وہ جلد جلد اور اتنی تیزی سے بڑی ہوتی چلی گئی تھی کہ ایک سال کے بعد یہ پہچاننا مشکل ہو گیا تھا کہ واقعی یہ وہی منحنی سی، چھوٹی سی اور کالی سی بچی ہے جو کہ پچھلی گرمیوں کی چھٹیوں میں میرے پاس بغرض علاج لائی گئی تھی؟ جب بیٹی فاطمہ میں بلوغت کے آثار نمودار ہوئے تھے تو اس کی پابند شریعت والدہ نے اس کو تمام نا محرم مردوں سے پردہ کرنے کا حکم دیا تھا۔حالانکہ اس سے قبل بھی فاطمہ سر تا پا مستور ہی ہوتی تھی اور کوئی نزدیکی رشتہ دار بھی اس کے ہاتھوں اور چہرے کے ماسواءکچھ اور نہ دیکھ سکتا تھا بلکہ اس وقت بھی میں فاطمہ بیٹی کے چہرے کو براہ راست دیکھنے کی ہمت نہ کر سکا تھا۔کیونکہ یہ اس نام کا تقدس اور رعب تھا جس کی بنا پر میں نے آج تک کسی فاطمہ نام کی لڑکی یا عورت کو نہ تو بغور دیکھا ہے اور نہ ہی گستاخانہ انداز میں اس کے چہرے پر نظر ڈالی ہے۔اگر کبھی میری نظر کسی فاطمہ نام کی لڑکی یا عورت کے چہرے کی طرف اٹھی بھی ہے تو اس نظر میں ایسی عقیدت اورمحبت ہوتی ہے جیسی عقیدت اور محبت ایک بیٹے بھائی یا باپ کی نگاہوں میں اپنی ماں بہن یا بیٹی کے لیے ہوتی ہے۔

جب فاطمہ بیٹی کو اس کی ماں نے یہ حکم دیا تھا کہ بیٹی آج کے بعد تم سبھی غیر محرم مردوں سے مکمل پردہ کیا کرو گی تو فاطمہ نے اپنی ماں کے اس حکم کو بسروچشم قبول کر لیا تھا مگر جب کچھ ماہ کے بعد اس کی والدہ اور فاطمہ بیٹی اکھٹی ہی میرے پاس پتوکی کی دکان پر آئی تھیں ۔ تب فاطمہ نے میرے سے پردہ نہ کیا تھا۔ میرے سامنے تو اس کی والدہ نے فاطمہ بیٹی کو کچھ نہ کہا تھا اس مقام پر مجھے یہ اقرار کرنا ہے کہ فاطمہ کی والدہ نہایت تدبر والی اور دانش مند خاتون تھیں ۔نہ تو وہ عجلت پسند تھیں اور نہ ہی عام عورتوں کی طرح سے بے عقل اور بے تدبیر تھیں۔بلکہ وہ ہر معاملے کے سارے پہلوؤں اور ہر مسلے کے سارے حل سامنے رکھتیں تھیں اور جب کسی سے گفتگو کرتی تھیں تو اس امر کاخاص خیال رکھتی تھیں کہ گفتگو نہ تو اخلاق سے گری ہوئی ہو اور نہ ہی توہین آمیز ہو۔انہوں نے اپنی اکلوتی بیٹی کی تعلیم اور تربیت ایسی اچھی اور اعلیٰ کی تھی کہ میں فاطمہ بیٹی کے کردار سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکاتھابہرحال اس کی والدہ نے گھر پہنچ کر سارے کاموں سے فارغ ہونے کے بعد جب عشاءپڑھ لی تھی اور فاطمہ بیٹی بھی عشاءکے بعد تسبیحات مکمل کر چکی تھی تب اس کی ماں نے پوچھا تھا۔ فاطمہ بیٹی کیا ڈاکٹر غیر محرم نہیں ہے؟

فاطمہ بیٹی ناجانے کب سے مجھے اپنے چاچا کے رتبے پر فائز کرنے کے بعد یہی سمجھی بیٹھی تھی کہ میں اس کا سگا چچا ہی ہوں کیونکہ جب سے مجھے یہ علم ہوا تھا کہ فاطمہ ایک ایسی یتیم بچی ہے جس کو اپنے مرحوم باپ کی شکل تک یاد نہیں ہے تب سے اس کے لئے میری شفقت اور الفت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا تھا اور فاطمہ بیٹی کے لیے میری پدرانہ شفقت چھپائے نہ چھپتی تھی ۔ شائد یہ میری پر خلوص محبت اور شفقت تھی کہ فاطمہ بیٹی نے اپنے دل میں اپنے باپ کی ایک تصویر بنا ڈالی تھی جو کہ حقیقت میں میری ہی تھی۔فاطمہ بیٹی عقل فہم اور تدبر میں اپنی ماں کی تصویر ہی تھی۔اس نے عام بچیوں کی طرح سے تنک کر اور بد تمیزی سے جواب نہ دیا تھا بلکہ نہایت ہی ششتہ لہجہ میں اور انتہائی ادب سے اپنی ماں کو کہا تھا۔ اماں ! مجھے تو چاچاجی اپنے سگے چچا کی طرح سے لگتے ہیں بلکہ میں یہ سوچتی ہوں اور یہ تمنا بھی کرتی ہوں کہ کاش وہ میرے والد ہی ہوتے ۔ پھر کچھ دیر تک فاطمہ بیٹی نے توقف کیا تھا اور اپنی بیوہ ماں کے چہرے کے تاثرات کو پڑھا بھی تھا۔ پھر سیانی ماں کی سیانی بیٹی کہنے لگی تھی ۔ماں تجھے ڈاکٹر چاچا سے اچھا شوہر نہیں ملے گا اور مجھے ان سے بہتر باپ نہیں ملے گا اس لیے آپ ان سے نکاح کر لو عام طور پر اس دنیا کی یہ ایک روٹین ہے کہ بڑے اپنے چھوٹوں کے رشتے طے کرتے ہیں مگر یہاں پر الٹ ہورہا تھا کہ ایک تیرہ سال کی بچی اپنی بیوہ ماں کے لئے رشتہ تجویز کر رہی تھی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ فاطمہ کے نام کا اعجاز ہے کہ ہم جس لڑکی یا بچی کا نام فاطمہ تجویز کرتے ہیں اس بچی میں فاطمہؓ بنت رسول ﷺ کی کوئی نہ کوئی ایک یا زائد صفات آجاتی ہیں۔

فاطمہ بیٹی کی پابندشریعت ماں نامحرم اور پرائے مردوں سے نہایت ہی کھردرے لہجے میں گفتگو کیا کرتی تھیں کیونکہ شریعت کا یہی حکم ہے کہ ایک مسلم خاتون ایک نامحرم مرد سے لوچ دار اور نرم لہجے میں بات نہ کرے۔ ان کے بااصول اور با کردار ہونے کو مد نظر رکھتے ہوئے میں ان کا بےحد احترام کیا کرتا تھایوں ان کے اور میرے درمیان ایک مناسب فاصلہ تھا۔ جب فاطمہ بیٹی نے اپنی زندگی کے بارہویں سال میں قدم رکھا تو ایک دن میں نے ڈرتے ڈرتے اس کی والدہ سے یہی کہا تھا کہ خاتون مجھے علم ہے کہ آپ ایک دوراندیش اور دانش مند خاتون ہیں اور زندگی کی اونچ نیچ کو میرے سے زیادہ بہتر اور اچھی طرح سے جانتی ہیں مگر بعض اوقات کچھ ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ سیانے لوگوں کے ذہن سے بھی ایک اہم بات محو ہو جاتی ہے ۔

اس لیے میری اس بات کو نصیحت یا ہدایت تصور نہ کیجئے گا بلکہ یہ تو ایک یادہانی ہے کہ بیٹی فاطمہ جلد ہی اپنی زندگی کے تیرہویں سال میں قدم رکھنے والی ہے اور میں بھی جانتا ہوں اور آپ میرے سے زیادہ تجربہ رکھتی ہیں کہ کسی بھی بچی یا بچے کے تیرہ سال سے لیکر انیس سال تک کے سات برس نہایت ہی اہم ہوتے ہیں ۔کسی بھی ٹین ایج کے یہ سات سال اس لیے اہم ہوتے ہیں کہ انہی سات سالوں میں ایک انسان کے کردار کی بنیاد بنتی ہے اور بعد میں اسی بنیاد پر کردار کی شاندار عمارت خودبخود ہی تعمیر ہوتی چلی جاتی ہے کیونکہ ایک بچہ یا بچی اسی عرصے کے دوران جو کچھ بھی سیکھتا ہے وہ اس کی مستقل عادت بن جاتی ہے پھر وہی پختہ عادت یا روٹین اس کی باقی کی تمام عمر کے کردار کا تعین کرتی ہے۔ مقام شکر ہے کہ فاطمہ بیٹی کی والدہ نے میری بات سننے کے بعد اثبات میں سر ہلا کر میری اس سوچ کی تائید کر دی تھی کہ میں جو کچھ بھی کہہ رہا ہوں درست اور بامقصد کہہ رہا ہوں۔

ہماری اس گفتگو کے تقریباً ایک سال کے بعد ان کی بیٹی ان کو یہ کہہ رہی تھی کہ آپ ڈاکٹر چاچا سے نکاح کر لیں۔ یہ بات درست ہے کہ فاطمہ کے والد کے انتقال کے بعد اپنی عدت کی مدت پوری ہوجانے پر سنت کی پابند اس عورت نے اپنی عمر جذبات اور خواہشات کو مدنظر رکھ کراور معاشرے کی غلط سلط باتوں اور بدکردار لوگوں کے فحش جملوں سے بچنے کے لئے یہی فیصلہ کیا تھا کہ اب ان کو نکاح ثانی کر ہی لینا چاہئے ۔ مگر بڑی مشکل تو یہ تھی کہ وہ اپنی بچی کے ضمن میں کسی پرائے مرد پر اعتماد نہ کر سکتی تھیں کیونکہ وہ پرائمری سکول میں انچارج ٹیچر تھیں اس لیے ان کے علم میں بہت سارے ایسے کیسز تھے جن میں کسی معصوم اور نابالغ بچی سے اس کے سوتیلے باپ یا سوتیلے چچا نے زیادتی کر ڈالی تھی اور وہ بے بس ماں اپنی مظلوم بچی کے لئے کچھ بھی نہ کرسکی تھی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اپنی بچی کی عصمت وعفت کے تحفظ کی خاطر فاطمہ کی والدہ نے کوئی خطرہ مول لینے کی بجائے اپنے جذبات کی قربانی دی تھی مگر اس دوران انہوں نے ایک باکردار مرد کی تلاش بھی جاری رکھی تھی۔

فاطمہ کی والدہ کے نزدیک باکردار مرد کا جو معیار تھا میں تو اس معیار پر بیس فیصد بھی پورا نہ اترتا تھا۔کیونکہ وہ ایک باریش اور مذہبی ٹائپ کے مرد کی تلاش میں تھیں جب کہ میں کلین شیو،ماڈرن اور شوخ تھا۔ مگر یہ بات طے ہے کہ میں بد کردار نہ تھا۔ بہرحال جب انہوں نے اپنی بیٹی کی تجویز سنی تھی تو انہوں نے نہ تو فوری طور پر مجھے رد کیا تھا اور نہ ہی فوراً مجھے نکاح کا پیغام دیا تھا بلکہ مجھے انڈر آبزرویشن رکھ لیا تھا۔یہ تب کی بات ہے جب میری پہلی شادی ہو چکی تھی ۔ بس یہی میرا پلس پوا نٹ تھا کیونکہ فاطمہ کی والدہ کسی شادی شدہ عالم سے نکاح کرنے کا اردہ رکھتی تھیں کیونکہ بقول ان کے ایک کنوارہ لڑکا کسی بیوہ یا مطلقہ سے شادی تو کر لیتا ہے مگر پھر ساری عمر استعمال شدہ کے طعنے بھی دیتا رہتا ہے۔مگر میں عالم دین بالکل ہی نہ تھا ۔ جس دور کی میں بات کر رہا ہوں اس دور میں پابند صوم و صلوة تو ضرور تھا اور تلاوت قرآن کریم کے ساتھ ساتھ تفاسیر اور دیگر دینی کتب کا مطالعہ بھی کیا کرتا تھا مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ فیشن بھی کرتا تھا میوزک بھی سنتا تھا اور جب کچھ دوست احباب اکھٹے ہوتے تھے تو تاش وغیرہ بھی کھیل لیا کرتا تھاظاہر ہے کہ میں انڈرآبزرویشن تھا مگر میرے تو فرشتوں کو بھی یہ خبر نہ تھی کہ ایک نیک اور پاک باز خاتون مجھے کنسیڈر کر رہی ہیں یا میرے بارے میں سنجیدہ بھی ہیں ۔

فاطمہ کی والدہ نے مجھے میوزک سنتے تو کئی مرتبہ دیکھا تھا اور ایک دومرتبہ مجھے تاش کھیلتے بھی دیکھا تھا ۔ ایک دن وہ مجھے پوچھنے لگیں آپ میوزک سنتے ہیں ۔ بے شک میوزک سننا ایک گناہ ہے اور میں اسے گناہ ہی کہتا ہوں اور گناہ ہی سمجھتا ہوں مگر اپنے غلط عمل کو درست ثابت کرنے کے لئے تاویلات نہیں کرتا اور ہی اپنے عیب کو چھپانے کے لیے جھوٹ بولتا ہوں۔ اس لیے میں نے صاف لفظوں میں یہ اقرار کر لیا تھا کہ میں میوزک تو سنتا ہوں مگر اپنے عمل کو غلط بھی سمجھتا ہوں ۔تاش بھی کھیلتا ہوں مگر کبھی کبھار اور تفریحاً کھیلتاکیونکہ یہ میری عادت نہیں بنی ہے یا مجھے اس کا نشہ نہیں ہے۔ اگر فاطمہ بیٹی کی والدہ صرف اپنے معیار یا نقطئہ نظر سے مجھے پرکھتیں تو وہ مجھے کبھی بھی تجویز نہ کرتیں مگر مجھے تجویز کرنے میں سب سے بڑا اور بنیادی فیکٹر یہی تھا کہ فاطمہ بیٹی مجھے اپنے باپ کی طرح سے چاہتی تھی۔ اس کی والدہ نے بھی محض اپنی بچی کی عزت کے تحفظ کی خاطر نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے نکاح کا پیغام دے دیا تھا۔جب فاطمہ بیٹی کی والدہ محمودہ خاتون نے مجھے نکاح کا پیغام دیا تھا تو میں بوکھلا گیا تھا۔کیونکہ اس وقت سے برسوں قبل ہی مجھے اپنے مریضوں کی زبانی یہ علم ہوگیا تھا کہ یہ خاتون بہت متقی، پرہیز گار، باکردار ، ایماندار اور نیک ہے۔ میں آج بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہوں کہ میں محمودہ خاتون کے قابل ہونا تو بہت بڑی بات ہے ان کے کردار کا عشر عشیر بھی نہ تھا۔

میں اپنی بات کو مختصر کرتا ہوں اور یہ بتاتا ہوں کہ جب میرا محمودہ خاتون سے نکاح ہوا تھا اس وقت فاطمہ بیٹی سترہ برس کی ہوچکی تھی اس لیے محمودہ بیگم کے میری زوجیت میں آنے کے فوری بعد مجھے فاطمہ بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر لاحق ہوئی تھی۔ جب ہم نے فاطمہ بیٹی کو اپنے گھر رخصت کیا تھا تو ہمارے نکاح کو ایک سال مکمل ہو چکا تھا اور محمودہ بیگم ایک بیٹے کی ماں بھی بن چکی تھیں۔

اگلے برس پورے ایک سال کے بعد جب فاطمہ بیٹی اپنی زندگی کے انیسویں سال کے اختتامی ماہ میں تھی تو وہ ایک بیٹے کی ماں بن چکی تھی ۔ محمودہ بیگم کو نواسے کی مبارک باد دیتے ہوئے اور نانا بننے کی مبارک باد وصول کرتے ہوئے میں نے اپنی خاتون اوّل سے کہا تھا۔لو بھئی محمودہ بیگم آج آپ بحیثیت ایک ماں کے اور میں بحیثیت ایک باپ کے اللہ علیم وحکیم کی جتنی بھی شکر گذری کریں وہ کم ہے کیونکہ اس نے ہم دونوں کو یہ توفیق عطا کی کہ ہم فاطمہ کی ایسی تربیت کر سکیں جوکہ مثالی ہو۔
یہ سب کچھ بیان کرنے کا میرا مقصد یہ ہے کہ جب بھی کوئی لڑکا یا لڑکی اپنی عمر کے دوسرے عشرے میں قدم رکھتا ہے یا یوں کہیں کہ جب بھی کوئی انسانی بچہ یا بچی دس سال کی ہوتی ہے تو اس کے جسم میں موجود غدودوں کو دماغ کی طرف سے ایک سگنل ملتا ہے بالفاظ دیگر وہ غدودی نظام جو بچی یا بچے کی پیدائش کے وقت سے لے کر اب تک سو رہے تھے ان کو تحریک ہوتی ہے اور وہ اپنے کام یا فنکشن کا آغاز کر دیتے ہیں اور مختلف طرح کے ہارمونز کو خون کے ذریعے سے جسم کے مختلف حصوں میں بھیجنا بھی شروع کر دیتے ہیں۔چونکہ انسان کی دو الگ الگ جنسیں ہیں اس لیے ہر جنس کا اپنا الگ اور منفرد غدودی نظام ہوتا ہے یوں جو ہارمون ایک لڑکی میں بنتے ہیں وہ ایک لڑکے کے ہارمونز سے منفرد اور جدا ہوتے ہیں کچھ ہارمونز مشترک بھی ہوتے ہیں مگر ان میں بھی لڑکی اور لڑکے کے حساب سے کمی بیشی ہوتی ہے۔جب بچی یا بچہ دس گیارہ سال کی عمر میں پہنچتا ہے اور بعض نسلوں میں اس سے کچھ قبل یا کچھ دیر سے بھی بہرحال یہ ہارمون جب جسم میں خون کے ساتھ گردش کرتے ہیں تو لڑکے میں مردانہ خصوصیات ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور لڑکی میں ایک عورت بننے کے آثار نظر آنے لگتے ہیں ۔

یہ ہارمونز جس قدر ظاہری تبدیلیاں لاتے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ ہلچل بچی یا بچے کے جسم کے اندر مچارہے ہوتے ہیں جو کہ ہم کو یعنی کہ والدین یا بزرگوں کو تو نظر نہیں آتے مگر بچی یا بچے کو اندر سے اتھل پتھل کر رہے ہوتے ہیں جس کو میں یوں بھی کہتا ہوتا ہوں کہ بچی یا بچہ کنفوژن کا شکار دکھائی دیتا ہے یوں اس کا مختلف طرح کی چیزوں کو دیکھنے کا انداز تک بدل جاتا ہے یعنی کہ آج کل کی زبان میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس عمر سے قبل بچی یا بچے کو جو چیزیں یا باتیں معمول کے مطابق نظر آتی ہیں انہی چیزوں یا باتوں کو بچی یا بچہ ویئرڈ محسوس کرتا ہے یہ سارا قصور یا کیا دھرا ان ہامونز کا ہوتا ہے جو کہ بچی یا بچے کے جسم میں دم بدم بڑھتے جا رہے ہوتے ہیں۔ پھر ذہین بچی یابچہ تو سوالات کرتا ہے اور جو بچیاں یا بچے کم ذہین ہوتے ہیں یا پھر اپنے والدین کی بے جا سختی سے ڈرے یا سہمے رہتے ہیں یا پھر وہ سگے والد یا والدہ اور کچھ صورتوں میں دونوں سے ہی محروم ہوتے ہیں وہ ان عجیب و غریب اور انوکھے سوالات کو الفاظ کے معنٰی نہیں پہناتے کیونکہ وہ اپنے معاشرے سے یا بزرگوں سے خوفزدہ ہوتے ہیں کیونکہ ان کے دل میں جو سوالات جنم لیتے ہیں ان میں سے زیادہ تر سوالات مذہب سے متعلق ہوتے ہیں یاپھر ان کے ذہنوں میں جنسی تبدیلی کے باعث جنس کے متعلق کھوج ابھرتی ہے۔ اگر ہم والدین ہیں اور بچی یا بچہ ہمارے سے اس بارے میں سوال کرتا ہے تو ہم اسے جھڑک دیتے ہیں اور درشتی سے بھی کام لیتے ہیں کیونکہ ہمارے معاشرے میں مذہب کے بارے میں تنقیدی قسم کے سوالات کرنا اور جنس کے بارے میں کھوج کرنا دونوں ہی شجر ممنوعہ ہیں۔

میں یہ بات پڑھے لکھے متوسط طبقے کے گھرانوں کا سروے کرنے کے بعد کہہ رہا ہوں جہاں تک مذہبی قسم کے گھرانوں کی ہے یا پھر غربت اور افلاس میں گھرے ہوئے لوگوں کی بات ہے توان گھروں میں نہ تو کوئی اس قسم کے سوالات پوچھتا ہے اور نہ ہی والدین کو یہ شعور ہوتا ہے کہ بچی یا بچہ اپنی زندگی کے سب سے اہم حصے میں سے گذر رہا ہے اور یہی وقت ہے جب اس کے سوالات کا صحیح اور مدلل جواب دے کر بچی یا بچے کی سمت کو ہمیشہ کے لیے درست کیا جا سکتا ہے۔ مگر نہیں جناب ! کچھ والدین کے پاس وقت نہیں ہے تو کچھ کے پاس عقل نہیں ہے یوں نوے فیصد کیسز میں بچی یا بچہ اپنی عمر سے بڑی عمر کے لڑکے یا لڑکیوں سے سنی سنائی باتیں سنتا ہے اور ان پر عمل بھی کرتا ہے اور یہ سب باتیں واہیات اور غیر حقیقی ہوتی ہیں ۔ یہ میرا ذاتی تجزیہ ہے کہ بھٹکے ہوئے پچاس فیصد بچیاں اور بچے اس عمر کے دوران غلط ہاتھوں میں پڑ جاتے ہیں جو کہ اکثر ان سے بڑی عمر کے ہوتے ہیں اور وہ شکاری بھی ہوتے ہیںیوں جو بچیاں یا بچے کسی بڑے یا بزرگ کی مخلص راہنمائی سے محروم ہوتے ہیں شادی سے قبل ہی جنسی تجربات کر بیٹھتے ہیں ۔ ہمارے ملک پاکستان میں کچھ مذہبی شکاری بھی ہوتے ہیں جو کہ ٹین ایج کے بچوں یا بچیوں کا شکار کرتے ہیں ۔

مسلمانوں کی مذہبی تنظیمیں تو کروڈ طریقے اختیار کرتی ہیں جب کہ کرسچئین مشنری آرگنائزیشن زیادہ منظم اور متحرک ہیں وہ سائینٹفک میتھڈ اپلائی کرتی ہیں ۔ آپ خود ہی سروے کرکے دیکھ لیں کہ ہمارے ملک پاکستان اور ملحقہ ملک افغانستان میں عیسائی تبلیغی ادارے ان بچوں پر فوکس رکھتے ہیں جو کہ ٹین ایج ہوتے ہیں اور اکثر صورتوں میں اپنے معاشرے سے غیر مطمئن بھی ہوتے ہیں ایسے بچے اور بچیوں کو بھٹکانا اور ان کی برین واشنگ کرنا نہایت ہی آسان ہوتا ہے اسی لیے ہمارے ملک میں بہت سارے مسلم بچے عیسائیت قبول کرلیتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں سراسر قصور ہمارے معاشرے کا اور ان والدین کا ہے جو کہ اپنی بچی یا بچے کو نہ تو مناسب وقت دیتے ہیں اور نہ ہی اس کی درست سمت میں راہنمائی کرتے ہیں ۔ یہ عمر تو ایسی ہوتی ہے کہ بچہ یا بچی بہت عجیب محسوس بھی کر رہے ہوتے ہیں اور اسی عجیب احساس اور سوچ کے زیر اثر بہت سارے عجیب سوالات بھی کرتے ہیں ۔ ان کے سوالات کے جوابات دینا ہم بڑوں پر فرض ہے اگر ہم اپنی کاروباری یا دیگر مصروفیات کی بنا پر اپنی اولاد کو وقت نہیں دے سکتے تو ہمیں اولاد پیدا کرنے کا حق بھی نہیں ہے۔

جہاں تک جنسیت کاتعلق ہے میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ دین اسلام نے اس معاملے میں ہماری مناسب راہنمائی کر دی ہے اور احادیث رسول ﷺ میں اس بارے میں اچھا خاصا مواد موجود ہے پھر میڈیکل سائینس کی جدید تحقیقات کی روشنی میں ہر جنس اور ہر عمر کے مطابق اور مختلف مواقعوں کی مناسبت سے والدین علماءاور ڈاکٹر پاکستانی قوم کے بچوں اور بچیوں کی درست اور مناسب راہنمائی کر سکتے ہیں اور اس نسل کے کردار کی تعمیر کر سکتے ہیں جس نسل نے مستقبل کے پاکستان کی قیادت سنبھالنی ہے اور کل کو اچھے والدین بھی بننا ہے۔

فاطمہ بیٹی کی باقی کہانی تو میں آگے چل کر بیان کروں گا مگر اس سے پہلے آپ کو ایک لڑکے کی کہانی سناتا ہوں ۔ وہ یتیم لڑ کا میری بڑی ہمشیرہ کا ہم نام ہے اور آج کل لاہور میں کسی مذہبی تنظیم کا مبلغ بھی ہے ۔ اس لڑکے کا تعلق میری ایک بیوی کے خاندان سے ہے جب وہ گھرانہ میرا سسرال بنا تھا تب وہ لڑکا نو یا دس سال کا ہو چکا تھا ۔ اس کی والدہ زیادہ پڑھی لکھی نہ تھی اور پاکستانی کاروباری باپوں کا تو آپ کو پتہ ہی ہے کہ وہ اپنی سگی اولاد کے لئے وقت نہیں نکالتے ایسے غیر مخلص اور دنیا دار تجار سوتیلی اولاد کے لئے کیا خاک وقت نکالیں گے؟

جب وہ سہما سا بچہ میڑک کا سٹوڈنٹ بنا تھا تب جا کراس بچے کو یہ احساس ہوا تھا کہ میں عام لوگوں سے مختلف سوچ اور رویے کا حامل شخص ہوں۔ مجھے اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں کوئی بخل نہیں ہے کہ وہ چودہ پندرہ سال کا بچہ میرے سے زیادہ ذہین تھا بعض اوقات وہ ایسے سوالات بھی کردیا کرتا تھا جن سوالوں کا جواب ہماری دینی کتب یا میڈیکل کی بکس میں تو موجود ہوتا تھا مگر میں ان سے لاعلم ہی ہوتاتھا اس وقت مجھے میرے والد مرحوم کی کہی ہوئی یہ بات یاد آجاتی تھی کہ اس دنیا کا کوئی بھی انسان علم کل نہیں ہے اور اپنی کمی کا اعتراف کرنا دراصل اس کمی کو پورا کرنے کے عمل کی طرف پہلا قدم ہے ۔ میرے والد مرحوم مجھے بارہا یہی کہا کرتے تھے کہ صرف جاہل ہی ہر چیز کے بارے میں جاننے کا دعویٰ کرے گا اور ایک سیانا اپنی کم مائیگی کا برملا اعتراف کرے گا اور پھر اس کمی کی تلافی کے لئے کوشش بھی کرے گا۔ یوں جب میں اس بچے کے کسی سوال پر لاجواب ہو جایا کرتا تھا تو یہی کہا کرتا تھا۔ یار! اس وقت تو میرے علم میں اس سوال کا جواب نہیں ہے مگر کسی نہ کسی کتاب میں اس سوال کا جواب ضرور بہ ضرور موجود ہو گا اس لیے ہم اس سوال کو اگلی مرتبہ تک اٹھا رکھتے ہیں ۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ اس بچے کی بدولت میں عیسائی مشنری کے طریقہ کار اور ان کے اوٹ پٹانگ سوالات اور تاویلات کے بارے میں اچھا خاصا جان چکا تھا۔

انجام کار یہ ہوا تھا کہ وہ بچہ عیسائی بن گیا تھا ۔کیونکہ میں اس کو ایک ہفتے میں ایک یا دو گھنٹے دے سکتا تھا جب کہ وہ لوگ جوکہ اسے عیسائی بنانا چاہتے تھے وہ خود آکر اس کو روزانہ ملتے تھے اور کئی کئی گھنٹے اس کی برین واشنگ بھی کیا کرتے تھے۔ ہماری ایلیٹ کلاس کا کوئی بچہ یا بچی عیسائی ہو بھی جائے تو بھی کسی کو جلد علم نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ اس کے والدین اور اقربا اس کے اس عمل کو یوں چھپاتے پھرتے ہیں جیسے کہ ہمارے مڈل کلاس کے لوگ اپنی کسی بچی کے ناجائز حمل کو چھپا لیتے ہیں۔ ذاتی طور پر میں تو یہ جانتا ہوں کہ ہماری ایلیٹ کلاس کے سینکڑوں بچیاں اور بچے ہر سال عیسائی ہو جاتے ہیں اور پھر کسی نہ کسی مخلص مسلم کی بدولت کچھ عرصے کے بعد عیسائیت سے تائب بھی ہو جاتے ہیں۔ جب اس بچے نے مجھے یہ بتایا تھا کہ انکل میں کرسچئین ہو گیا ہوں تب میں نے نہ تو اس کو کوئی کڑوی کسیلی سنائی تھی اور نہ ہی اس کو دھتکارا تھا ۔ بلکہ اس کو پہلے سے بھی زیادہ وقت دینا شروع کر دیا تھا ۔

ان دنوں میں اپنے ہینڈ بیگ میں اسلامک لٹریچر بھی رکھا کرتا تھا ۔ میں نے ایک ایک کرکے وہ بھی اس بچے کو دینا شروع کر دیا تھا ۔ مقام شکر یہ ہے کہ وہ بچہ نہ صرف اس لڑیچر کا مطالعہ کرتا تھا بلکہ میرے ساتھ مدلل گفتگو بھی کرتا تھا ۔ پھر اس ہفتہ وار گفتگو کے اختتام پر میں اس کو مزید لٹریچر بھی دیا کرتا تھا اور ایک یا دو سوالات بھی جن کا جواب اسے اپنے پاسٹر سے لانا ہوتا تھا۔ میں یہ دعویٰ تو نہیں کرتا کہ وہ بچہ محض میری تبلیغ پر دائرہ اسلام میں واپس آگیا تھا اور بھی بہت سارے فیکٹر اور عوامل تھے کہ دو سال کے بعد وہ بچہ مسیحیت سے تائب ہو گیا تھا۔ مگر میں ایک بات ضرور لکھوں گا کہ اگر ہمیں اپنے بچوں کو باطل خیالات سے محفوظ رکھنا ہے تو ہمیں حکمت سے کام لینا پڑے گا اور میری ذاتی رائے یہ ہے کہ انسانوں میں سب سے بڑے حکیم رسول کریم ﷺ ہیں ۔ اگر ہم قرآن و حدیث کو خلوص نیت سے کھولیں تو نبی کریم ﷺ ہر ہر مقام اور ہر ہر مرحلے پر ہماری راہنمائی کرتے ہوئے دکھائی دیں گے ۔

فاطمہ بیٹی جب بارہ تیرہ سال کی ہوئی تھی تب اس کو باپ یا کسی مرد بزرگ کی کمی شدت سے محسوس ہوئی تھی۔اس کا تایا چچا کوئی بھی نہ تھا اس کے دوماموں تھے ایک تو کبھی کبھار ہی آتا جاتا تھا دوسرا اپنی بیوی سے ڈرتا تھا اس لئے نہیں ملتا تھا۔ یوں اس نے پدری شفقت کو پانے کے لئے میرے پاس آنا شروع کر دیا تھا وہ مہینے میں کسی چھٹی کے دن کسی نہ کسی مریض کے ہمراہ میرے پاس آتی تھی اور ڈھیروں سوالات بھی ساتھ ہی لاتی تھی۔عام لوگ تو ان سوالات کو اوٹ پٹانگ کہیں گے یا پھر بے ہودہ فضول یا اخلاق سے گرے ہوئے۔ مگر میرا ایک وژن ہے کہ جس بچی یا بچے کے ذہن میں اس قسم کے سوالات پیدا نہیں ہوتے اس کی گروتھ ابنارمل یا سب نارمل ہے اور وہ بچی یا بچہ آئندہ زندگی میںمعمول کی ازدواجی زندگی سے محروم ہی رہے گا۔ میں فاطمہ بیٹی کے سارے سوالات کا مکمل اور مدلل جواب دینے کی اپنی سی سعی کیا کرتا تھا۔ بہت سارے کم فہم لوگ اس گفتگو کو سمجھ نہ سکتے تھے اور عجیب باتیں بھی کیا کرتے تھے۔

مگر مجھے کسی کی پرواہ نہ تھی کیونکہ میں نہ صرف مخلص تھا بلکہ میری نیت بھی صاف تھی ۔پھر اللہ مسسب الاسباب نے ایک سبیل نکال ہی دی تھی ۔ جس گلی میں فاطمہ بیٹی اپنی ماں کے ساتھ مقیم تھی اسی گلی میں لاہور کی رہا ئشی ایک لڑکی آن بسی تھی جس کا میاں ایک سرکاری ملازم تھا اور وہ لڑکی بھی انٹر پاس تھی۔ بقول اس لڑکی کے جن سولات کے جوابات وہ آج تک ڈھونڈتی چلی آرہی تھی اب ان سوالات کے جوابات اسے پوچھے بغیر ہی ملنا شروع ہوگئے تھے اس لیے اس لڑکی نے فاطمہ بیٹی کو کہا تھا کہ آئندہ تم جب بھی اپنے ڈاکٹر چچا کے پاس جاؤ تو مجھے بھی ساتھ لیتے جانا ۔یوں وہ نیک اور سمجھدار بچی ہر مرتبہ فاطمہ بیٹی کے ہمراہ آنے لگی تھی۔

جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ محمودہ بیگم ایک بے داغ کردار کی حامل عورت تھیں ۔ وہ خود بخود ہی تیار نہیں ہوئی تھیں اس کے لئے ان کے والد مرحوم نے اپنی نوکری کی قربانی دی تھی۔جب محمودہ بیگم بارہ سال کی تھیں تب ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا۔اس کے زمانہ شناس والد یہ جانتے تھے کہ نوکری یا بیٹی میں سے وہ صرف ایک دولت کو بچا سکتے ہیں ۔ چونکہ وہ ایک اچھے انسان تھے لہٰذا وہ نوکری چھوڑ کر اپنی بیٹی کی تعلیم اور تربیت میں مصروف ہو گئے تھے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اولاد کی تعلیم و تربیت کی خاطر والدین اور بڑوں کو وقت بھی نکالنا پڑتا ہے اور ہر طرح کی قربانی بھی دینی پڑتی ہے۔محمودہ ہو یا فاطمہ ہو یا کوئی اور بچی بچہ ہو اس کی تربیت اور بہتر مستقبل کی خاطر والدین میں سے کسی ایک یا بعض اوقات دونوں کو قربانی دینا ہی پڑتی ہے ۔جیسے محمودہ بیگم کے بہتر مستقبل اور بھلائی کی خاطر ان کے والد مرحوم نے قربانی دی تھی اسی طرح سے محمودہ بیگم نے اپنی معصوم بھولی اور سادہ دل بیٹی فاطمہ کی خاطر اپنے جذبات کی قربانی دی تھی اور اپنی جوانی کے بہترین سال تجرد کی بھینٹ چڑھادئیے تھے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ جب محمودہ بیگم میرے نکاح آئیں تھیں تو وہ اکتالیس سال کی تھیں مگر ان کے جذبات ایک لڑکی کی طرح سے تھے۔ ایک مرتبہ میں نے مذاقاً کہا تھا کہ کیا میں تمہاری ہم رتبہ عورتوں (سوکنوں ) کو بتا دوں کہ تم ابھی بھی لڑکی ہی ہو ؟ وہ نیک بخت عورت اولیانہ وژن رکھتی تھی ۔ مجھے کہنے لگےں مجھے علم ہے کہ کبھی نہ کبھی آپ میرے بارے میں ضرور لکھیں گے ۔اس وقت میری طرف سے یہ ضرور لکھ دینا کہ اے مسلمانوں ! عورت بھی مرد کی طرح سے مٹی کا پتلا ہی ہے اور وہ بھی ویسے ہی جذبات اور خیالات رکھتی ہے جیسے جذبات اور خیالات ایک مرد رکھتا ہے۔ اس لیے تم قیامت کے روز سے اپنی پوچھ پرتیت سے ڈرو اور اپنی کنواری مطلقہ یا بیوہ بیٹیوں اور بہنوں کا نکاح ثانی جلد کر دیا کرو۔اتنا کہنے کے بعد محمودہ بیگم مجھے کہنے لگیں ۔بس یہ بات میری طرف سے آپ کی ذات پر قرض ہے ۔( میرے قارئین گواہ رہےں کہ آج میں نے اس نیک بخت عورت کا قرض چکتا کر دیا ہے ۔ الحمد اللہ الرب العالمین ! محمودہ بیگم سوا نو سال تک پر سکون اور محبت بھری رفاقت دے کر اس جہان فانی سے کوچ کر گئیں)

اسی لیے میں یہ کہتا ہوتا ہوں کہ اگر والدین اپنی اولاد کو دولت نہیں دے سکتے تو کوئی حرج نہیں ہے یہ تو مقدر کی بات ہوتی ہے مگر ان کو اپنی اولاد کی خاطر وقت تو ضرور نکالنا چاہئیے کیونکہ اگر ہم اپنی اولاد کو وقت نہیں دیں گے تو ان کے بھٹک جانے کا سارا قصور ہمارا ہی ہوگا ۔ یہاں ہانگ کانگ میں مقیم پاکستانی حضرات نے بارہ بارہ اور چوبیس بیس گھنٹے نوکریوں میں ضائع کر دئیے ہیں اور یوں وہ اپنی اولادوں کو نہ تو وقت دے سکے ہیں اور نہ ہی ان کی مناسب تربیت کر سکے ہیں اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ اکثر کی اولادیں نالائق اور بھٹکی ہوئی ہیں اکثر پاکستانی لڑکے نشہ بھی کرتے ہیں اور شادی شدہ ہونے کے باوجود سہیلیاں بھی رکھتے ہیں اور جو کچھ بھی وہ کماتے ہیں سارا ایک خاص قوم کی عورتوں پر ضائع بھی کر دیتے ہیں اگر ہمارے پاکستانی لڑکوں کی یہی حالت رہی تو ایک دن ایسا بھی آنے والا ہے کہ ہانگ کانگ میں مقیم پاکستانی لڑکیاں بھی سرعام غیروں سے یاری لگاتی پھریں گی اور کوئی کچھ بھی نہ کر سکے گا ابھی تو ابتدا ہے اس لیے ابھی تک تو ہماری لڑکیاں ایسا کام چھپ چھپا کر ہی کر رہی ہیں ۔

میرے سامنے ایک مسلم بچی کے بارے میں ایک خبر ہے جو کہ امریکہ کی ریاست اوہائیو میں اپنے والدین کے ساتھ رہائش پذیر تھی اور اب وہ ارتداد کا شکار ہو گئی ہے اس لیے اب وہ لڑکی ایک عدالتی کاروائی کے بعد کسی پادری یا پاسٹر کی تحویل میں ہے۔یہاں تک تو میرے لئے یہ ایک معمول کی خبر ہی ہے کیونکہ امریکہ بہت وسیع اور کثیر آبادی والا ملک ہے اس لیے اس کے کسی نہ کسی کونے سے ہر ہفتے اس طرح کی کوئی نہ کوئی خبر آہی جاتی ہے ۔ہمارے تک وہ خبر اس لیے نہیں آتی کہ اس مسلم لڑکی یا لڑکے کے والدین اپنی بدنامی کے ڈر سے ایسی خبر کو خود ہی چھپا جاتے ہیں البتہ ایسی خبریں عیسائیوں کے مذہبی اخبارات میں چھپتی بھی ہیں اور گرجوں سے وابسطہ ٹی وی اور ریڈیو چینل ایسی خبروں کی کوریج بھی خوب کرتے ہیں مگر ہماری کمیونٹی کو ایسی خبروں کی خبر اس لیے نہیں ہوتی ہے کہ ہم کو بولی وڈ فلموں اور کرکٹ سے فر صت ملے تو ہم کچھ اور دیکھیں ۔ یوں کئی لاکھ پاکستانی امریکہ میں موجود ہونے کے باوجود وہاں پر موجود نہیں ہیں اور وہ امریکن معاشرے میں ایک غیر موثر ہجوم ہیں۔

یہ خبر محض اس لئے منظر عام پر آگئی ہے کہ اس لڑکی کے والدین کچھ بہادر ہیں کہ وہ معاشرے کے طعنوں اور رشتہ داروں کی باتوں کا خوف بالائے طاق رکھ کر پولیس اور عدالت تک جا پہنچے ہیں ۔آگے کیا ہو گا ؟ صاف ظاہر ہے کہ عدالت اس لڑکی کی سنے گی جس کی برین واشنگ ہو چکی ہے اور والدین پچھتاتے ہوئے اپنے گھر واپس آجائیں گے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر یہ خبر میرے لئے عام یا معمول کی ہے تو میں اس پر اتنا لمبا چوڑا کیوں لکھ رہا ہوں ۔دراصل جو عنصر اس خبر کو میرے لئے اہم بنا رہا ہے وہ اس بچی کا نام ہے ۔ اس معصوم بھولی اور سیدھی سادھی لڑکی کا نام فاطمہ باری ہے ۔ جس کے مصروف کاروباری والد کے پاس اس کے چند سوالات کے جوابات دینے کے لیے وقت نہ تھا وہ بچی ان سوالات کے جوابات کی تلاش میں عیسائیوں کی ویب سائٹ پر گئی تھی اور پھر مشنری کے ہتھے چڑھ گئی اب تو اس نے عیسائیت بھی قبول کر لی ہے اور سب سے بڑی ستم کی بات یہ ہے کہ کل تک جس مصروف کاروباری باپ کے پاس اتنا وقت بھی نہ تھا کہ گھر پر ایک کمپیوٹر کے سامنے بیٹھی ہوئی بھولی اور معصوم بچی کے سوالات کے جوا بات دے سکے آج اسی باپ کے پاس اتنا وقت نکل آیا ہے کہ وہ وکیلوں پولیس سٹشنوں عدالتوں اور اخبارات کے دفاتر کے چکر لگا رہا ہے۔اسے کہتے ہیں لکیر پیٹنا ۔

اس بچی فاطمہ باری کی ماں کا کیا حال ہو گا ؟ یہ تو ایک ایسی ماں ہی بتا سکتی ہے جس کی بیٹی اس کی اپنی نالائقی کی بنا پر اس سے چھین لی گئی ہو اور میرا کیا حال ہورہا ہوگا ؟ جو کہ فاطمہ نام کے بارے میںحساس ترین ہے۔ پہلے آپ ایک واقعہ سن لیں اور پھرخود ہی فیصلہ کر لیں۔ نوے کی دہائی کے آغاز میں ہم تین ڈاکٹر ز نے مل کر لاہور ڈیفنس سوسائٹی کے ایچ بلاک میں ایک کلینیک کھلا تھا ۔ باقی کی دونوں ڈاکٹرز عورتیں تھیں اور میرا نام عورتوں والا تھا یوں ہمارے اس کلینیک پر صرف عورتیں ہی آیا کرتی تھیں۔ہماری ایک کلائنٹ تھی جس کا نام فاطمہ تھا۔

حالانکہ میں یہ جانتا بھی تھا کہ وہ ایک کال گرل ہے مگر جب بھی وہ آیا کرتی تھی تو میں احتراماً کھڑا ہو جایا کرتا تھا۔ایک دن اس نے ہمت کرکے میرے سے یہ پوچھ ہی لیا تھا کہ جب آپ یہ جانتے بھی ہیں کہ میں ایک پیشہ ور عورت ہوں تو پھر آپ میرا احترام کیوں کرتے ہیں۔میرا جواب بڑا ہی سادہ تھا میں نے کہا تھا تم میری ماں کی ہم نام ہو ۔میں تو اپنے ماں کے احترام میں کھڑا ہوتا ہوں ۔ سیانے کہتے ہیں کسی کے بگڑنے میںعشرے یا صدیاں لگ جاتی ہیں مگر اس لیے سنورنے کے لیے ایک لمحہ ہی کافی ہوتا ہے شائد یہ وہی سنورنے کا لمحہ تھا اس عورت کے آنسو تھم نہ رہے تھے ہمارے کلینیک کے عملے کے باقی لوگ تو اسے چپ کروانے کی کوشش کر رہے تھے مگر میں یہ کہہ رہا تھا اسے مت روکو اسے آنسو بہانے دو کیونکہ آج ان آنسوؤں میں اس کا سارا ماضی بہہ جائے گا ۔ یہی ہوا تھا اس عورت نے جسم فروشی سے توبہ کر لی تھی۔میں جو کچھ کر سکتا تھا اتنا کچھ میں نے کیا تھا باقی اصل کام کرنے والی ذات تو وہی ہے جسے ہم اللہ الرحمٰن کہتے ہیں ۔ وہ فاطمہ آج کل ایک باعزت نوکری کرکے اس جسم فروشی کے دھندے کہیں زیادہ کما رہی ہے۔

فاطمہ تو میری ذاتی ماں کا نام ہے اور پھر ہماری جدی ماں کا نام بھی ہے ان کی عزت کرنا تو میری عادت میں شامل ہے مگر میں تو تمام امہات المومنین صحابیات اور دیگر انبیاءکی بیویوں اور بیٹیوں کی ہم نام عورتوں کی بھی ایسی ہی توقیر اور عزت کرتا ہوں جیسی عزت اور توقیر اپنی ماں کی کرتا ہوں ۔سبھی جانتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کی دو ازواج تھیں۔ ہاجرہ بی بی تو اسمعیٰل علیہ السلام کی والدہ محترمہ تھیں جب کہ اسحاق علیہ السلام کی والدہ محترمہ کا نام سائرہ بی بی تھا ۔اسی لیے یہودی اور عیسائی ا پنی اکثر لڑکیوں کے نام سارہ رکھتے ہیں اور یہ نام ان دونوں مذاہب میں ایسے ہی عام ہے جیسے کہ ہمارے ملک اور معاشرے میں فاطمہ کا نام عام ہے۔ جب میں امریکہ میں تھا تو میری ایک یونی میٹ تھی اس کا نام الزبیتھ تھا اسی لڑکی نے میرا تعارف اپنی دوست جولی سے کروایا تھا اس جولی کا ذکر میں جولی ویری جولّی میں کرچکا ہوں ۔ الزیبتھ کا تعلق بھی امریکہ کے خوشحال طبقے سے ہی تھا۔ہمارے ملک اور معاشرے میں تو اسے برائی ہی سمجھیں گے مگر امریکہ میں کچھ لوگ نیوڈز دیکھنا اور اپنے نیوڈز بنوانا کوئی برائی نہیں سمجھتے۔

الزیبتھ کو نیوڈز بنوانے کا شوق تو نہیں تھا مگر وہ نیوڈز ضرور دیکھا کرتی تھی ۔پاکستان میں ہم نے امریکن میگزین پلے بوائے کا نام تو سنا تھا مگر مجھے اس رسالے کا دیدار کرنے کا موقعہ بیرون ملک ہی میسر آیا تھا ۔ الزیبتھ ہمیشہ پلے بوائے ہی لایا کرتی تھی ایک مرتبہ الزیبتھ مجھے کسی لڑکی کا نیوڈ دکھانے لگی تھی تو میری نظر اس کے نام پر پڑی تھی تو وہ کوئی سارہ تھی ۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ میں نے وہ فوٹو اس رسالے سے نکال کر پھاڑ ڈالی تھی اور پھر ردی کی نظر کر دی تھی۔ میں مانتا ہوں کہ میرا یہ فعل احمقانہ ہی تھا مگر میرے دل کو یہ اطمینان تو ہے کہ میں نے اپنی حد تک اپنے ارد گرد مقدس ہستیوں جیسے نام رکھنے والوں کی ہمیشہ توقیر کی ہے ۔ آپ نے شائد کبھی غور کیا ہو گا کہ پچھلے کچھ عرصہ سے انڈین فلم انڈسٹری نے ایسی ابلاغی موویز بنانا شروع کر دی ہیں جن میں جان بوجھ کر بد کار عورتوں کے نام ہماری محترم مسلم ماؤں کے ناموں پر رکھے جاتے ہیں اور ہم ایسی بے شعور قوم ہیں کہ اس میٹھے زہر کو امرت سمجھ کر دیکھتے رہتے ہیں ۔ میں تو ایسی موویز بنانے والوں پر لعنت بھی کرتا ہوتا ہوں اور ان کے لیے بد دعا بھی کرتا ہوتا ہوں ۔

میری یادداشت کے مطابق ایک سو چوالیس ایسی بچیاں ہیں جن کو میں نے بیٹی کہا ہے اور پھر اپنی بیٹیوں کی طرح سے عزت بھی دی ہے۔کیونکہ ان سب کے نام فاطمہ تھے۔اس لئے جب میں نے بیٹی فاطمہ باری کی خبر پڑھی تھی تو میرے دل سے اس بچی کے لئے دین اسلام کی جانب مراجعت کی دعا بھی نکلی تھی ۔ اللہ رحیم و کریم اس بچی فاطمہ باری کے سلسلے ہم سب مسلمین کی دعاؤں کو منظور و مقبول فرمائیں ۔ آمین!!

ویسے یہ عجیب اتفاق کی بات ہے کہ میری بیٹی فاطمہ کی بیٹی خدیجہ بھی فاطمہ باری کی طرح سے سترہ سال کی ہی ہے اور اسی سال ربیع الاوّل کے مہینے میں اس کی شادی اور رخصتی بھی ہوچکی ہے ۔ بلکہ اب تو وہ امید سے بھی ہے ۔ جب خدیجہ بیٹی امید سے ہوئی تھی تو وہ مجھے پوچھنے لگی تھی ۔نانا جی! میں اپنے بچے کی جنس جان سکتی ہوں؟ تو میں نے جواب میںکہا تھا بیٹا اس میں ہرج ہی کیا ہے کیونکہ ہم ہندو تو نہیں ہیں کہ بیٹی کو قتل کرنے کی نیت سے فیٹس کی سیکس ڈیٹرمائین کرواتے پھریں ۔ بلکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس طرح سے ہم بچی یا بچے کا نام بھی اس کی پیدائش سے قبل ہی تجویز کر سکتے ہیں اور اس کی جنس کے مطابق کپڑے اور دیگر سامان کا اہتمام بھی کر سکتے ہیں۔

اللہ مالک اور خالق کا شکر ہے کہ اس کے پیٹ میں ایک صحت مند بچی پل رہی ہے۔ اس لیے خدیجہ بیٹی مجھے پوچھنے لگی تھی کہ نانا جی آپ ہمارے خاندان کے سب سے بڑے بزرگ ہیں اس لئے بچی کا نام بھی آپ ہی تجویز کریں گے اسی وقت ہی اور فوری طور پر میرے ذہن میں اسحٰق علیہ السلام کی والدہ محترمہ کا نام آیا تھا۔ اس لیے میں نے کہا تھا بیٹا ابراہیم علیہ السلام اور اسحق علیہ السلام دونوں ہی ہمارے جلیل القدر نبی ہیں اس لیے ہم اپنی آنے والی بیٹی کا نام سائرہ رکھیں گے کیونکہ مسلم ہونے کے ناطے مائی سائرہ یا سارہ بی بی کے نام پر ہمارا حق یہود اور نصاریٰ سے زیادہ ہے۔

No comments:

Post a Comment