Wednesday, August 5, 2009

دنیا کا مالک کون اور کیسے ؟





تحریر: خادم الاسلام و المسلمین ڈاکٹر عصمت حیات علوی


بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم


اس دنیا میں جتنی بھی اقوام نے آج کے دن تک عروج حاصل کیا ہے ۔ اس کے عوام اور خواص اپنی دشمن اور مخالف اقوام کی بہ نسبت زیادہ خوبیوں کے مالک ہوتے تھے۔ اگر ہم تاریخ عالم کا مطالعہ کریں تو ہم پر یہ حقیقت آشکارا ہو جائے گی کہ اس دنیا میں جتنی بھی اقوام سپر پاورز بنی ہیں ان کے افراد کی اکثریت جری اور بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ محنتی اور جفاکش بھی ہوا کرتی ہے اور ان کی لگن کا یہ عالم ہوتا ہے کہ بار بار کی ناکامیاں بھی ان کو بد دل نہیں کر سکتی ہیں۔ان میں سب سے بڑی خوبی یہ ہوا کرتی ہے کہ وہ اپنی قوم اور ملت کے پاگل پن اور جنون کی حد وفادار ہوتے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جن اقوام نے زوال پذیر ہونا ہوتا ہے ۔ان کی اکثریت بزدل اور مکار بن جاتی ہے ۔تن آسانی اور کام چوری اس قوم کا شعار بن جاتی ہے۔

اس قوم کے افراد کسی بھی کام کی شروعات بد دلی اور بے یقینی کے عالم میں کرتے ہیں اور پہلی ہی ناکامی پر اپنی ہمت بھی ہار دیتے ہیں اور اس قوم میں سب سے بڑی اور عیاں خامی یہ ہوا کرتی ہے کہ اس کے حکمران طبقات اور طبقہءاعلیٰ یعنی کی ایلیت (Elite Class) میں اکثریت اپنی ہی قوم اور ملت کے غدار بن جاتے ہیں اس گرتی ہوئی اور زوال پذیر قوم میں ایک بہت ہی بڑی اور نمایاں خامی یہ بھی آجاتی ہے کہ اس کے حکمران طبقے کی عورتیں اور بہت سارے مرد اپنی دشمن قوم کے مردوں سے اس حد تک مرعوب ہو جاتے ہیں کہ وہ ترقی کرتی ہوئی اور فاتح رجحان رکھنے والی دشمن قوم کے مردوں کے ساتھ جنسی اور جسمانی تعلقات قائم کر لیتے ہیں۔

یوں وہ گرتی ہوئی اور زوال پذیر قوم جلد ہی فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہے اور پھر اس کا برتر اور فاتح دشمن نہ صرف مفتوح قوم کے اقتدار اعلیٰ پر قابض ہوجاتا ہے بلکہ اس کے محلوں ، شہروں،باغوں، کھیتیوں بلکہ عبادت گاہوں پر بھی قابض ہو جاتا ہے اور اس کے بعد فاتح قوم کے افراد اپنی مفتوح قوم کی عورتوں کے ساتھ ساتھ اس کے مردوں سے بھی جنسی اور جسمانی بیگار لیتا ہے ۔فاتح یہیں پر بس نہیں کرتا وہ تو ان سے جسمانی مشقت اورمزدوری بھی کرواتا ہے مگر ان کو کھانے اور پہننے کو صرف اتنا ہی مہیا کرتا ہے کہ وہ زندہ رہیں اور فاتح قوم کے لیے کام کرتے رہےں ۔ مزید یہ کہ فاتح ان کی عزت تو بالکل ہی نہیں کرتا۔

آج اس دنیا کے اصل حکمران یہودی ہیں اور ان کے اثر ورسوخ کا یہ عالم ہے کہ دنیا کے صرف دس یا پھر بارہ ممالک کو نکال کر باقی کے تمام ممالک کے اقتدار اعلیٰ پر یہودی ہی قابض ہیں یا پھر ان کے کٹھ پتلی نمائندے قابض ہیں۔ یہودی قوم نے یہ پوزیشن ایک یا دو دن میں حاصل نہیں کی ہے بلکہ اس کے لیے اس کے بہترین افراد نے دوہزار سال تک اپنے عزم کا ہر سال اعادہ کیا ہے اور پھر تقریباً تین سو سال تک مسلسل خلوص اور لگن سے محنت بھی کی ہے۔جب ہمارے راہبر اعلیٰ نبی اکرم ﷺ مبعوث کئے گئے تھے تب اس دور میں یہودیوں کے عروج کا سورج غروب ہوئے تقریباً ایک ہزار سال کے قریب کا عرصہ ہونے والا تھا۔بنی کریم ﷺ کی آمد تک یہودی یہی خیال کیا کرتے تھے کہ جس خاتم النبیین ﷺ کی بشارت ان کی کتب میں موجود ہے وہ یقیناً قوم یہود سے ہی ہوگا ۔ مگر جب نبی خیر ﷺ کا ظہور یہود کی توقعات کے برعکس قریش میں ہوا تھا تو سب نشانیاں ملنے کے باوجود بھی یہود کے عالموں (ربیوں) نے آپ ﷺ کی بنوت کو محض ضد اور نسلی برتری کے تعصب میں ماننے سے انکار کر دیا تھا۔

اللہ علیم و خبیر نے یہود کی ان تمام خامیوں کو قرآن مجید میں بڑے ہی واضح الفاظ میں اجاگر کرتے ہوئے ہم مسلمین کو بتایا ہے کہ یہ قوم یہود نہ صرف ضدی ہٹ دھرم مغرور عیار اور چالاک ہے بلکہ بحیثیت ایک قوم کے جاسوس بھی ہے ۔اب جو لوگ قرآن مجید کو سچا مانتے ہیں وہ یہ بات کبھی بھی نہیں بھولتے کہ چند فیصد یہودیوں کو چھوڑ کر یہودیوں کی اکثریت مکاری اور جاسوسی کے کاموں میں اپنا ثانی نہیں رکھتی اور یہ کہ خواہ وہ کتنا بھی برابری اور انسانی مساوات کا دعویٰ کریں مگرحقیقت میں یہودی مغرور ہوتے ہیں اور ان کے دماغوں میں نسلی برتری کا احساس ہمیشہ ہی جاگزیں رہتا ہے۔

اس وقت دنیا کے صنعتی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی کل تعداد میں سے رشیا وہ واحد ملک ہے جس کی حکومت اور انتظا میہ میں یہودیوں کا اثرونفوز نہ ہونے کے برابر ہے ۔مگر ایک صدی قبل روس میں یہ صورت حال نہ تھی۔روسیوں نے بڑی ہی دانش مندی اور حکمت سے یہودیوں کی ایلیٹ کلاس کو اپنی قوم کے انتظامی اور اقتصاد ی شعبوں سے خارج کیا ہے۔ اس لیے آج روسی قوم کے لیے مثبت صورت حال یوں ہے کہ روس کی اکثریت بھی عیسائی ہے اور اس کا حکمران طبقہ بھی عیسائی ہے۔ ورنہ زار روس کے ادوار میں یہودی اثرو نفوز کی بناءپر کبھی روس کا یہ حال تھا کہ زار روس اور چند حکام اور وزراءکو چھوڑ کر روس کی ساری کی ساری دولت کا ارتکاز قوم یہود کے چند ہزار افراد کے ہاتھوں میں تھا۔ باقی جو عوام تھے اوراس ملک کی اکثریت تھے وہ عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے مگر وہ انتہائی مفلوک الحال اور قلاش تھے۔

یوں جس دور میں پورا یورپ بشمول جرمنی اور انگلینڈ یہودی سود خوروں اور جاسوسوں کی گرفت میں تھا ۔اس دور میں یورپ کی اکثریت جو کہ عیسائی ہی تھی غریب اور قلاش تھی ۔وہ بے چارے اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرنے کے باوجود بھی اتنا بھی کما نہیں پاتے تھے کہ اپنے بچوں کو دو وقت کی اچھی روٹی اور سردیوں کے لیے مناسب کپڑے مہیا کر سکیں ۔ یوں سمجھیں کہ جو حالت ہم مسلم قوم کی اکثریت کی اس وقت ہے و یسی ہی بری حالت کبھی یورپ کی عیسائی اکثریت کی ہوا کرتی تھی ۔جبھی تو یورپ میں ایک صدی قبل کیمونسٹ انقلاب آیا تھا۔ دل چسپی اور ظلم کی بات یہ ہے کہ کیمونسٹ انقلاب کا ظاہری مقصد تو یہی تھا کہ سرمایہ دار یہودیوں اور عیاش ایلیٹ کلاس سے نجات حاصل کی جائے۔مگر قوم یہود تو اتنی مکار اور عیار ہے کہ کیمونیزم کے آنے کے بعد عیسائی حکمرانوں کی تو چھٹی ہو گئی تھی اور کیمونسٹ یورپ کے حقیقی مگر پوشیدہ مالک ایک با پھر سے یہودی ہی بن گئے تھے۔

آپ صرف روس کی تاریخ پڑھ کر دیکھ لیں ساری حقیقت آپ پر واضح ہو جائے گی۔ کیمونزم کے نظریے کا خالق کارل مارکس یہودی تھا اور کیمونسٹ روس کا پہلا کرتا دھرتا لینن بھی ایک یہودی ہی تھی ۔ٹراٹسکی جو کہ یہودی النسل نہ تھا مگر لینن سے بڑا لیڈر تھا اس کو یہودیوں کے گٹھ جوڑ اور سازشوں کی بناءپر روس چھوڑنا پڑا تھا مگر یہودی نیٹ ورک نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا تھا اور ٹراٹسکی کو امریکہ میں قتل کر وادیا گیا تھا۔ عام لوگوں کے لیے یہ ایک حیرت کی بات ہی ہوگی کہ ایک سرمایہ دار ملک کے اندر کیمونسٹوں کا مخالف کیسے مارا جا سکتا ہے؟ مگر جو لوگ یہودی مکر وفریب اور سازشی ذہن سے واقف ہیں ان کے لیے یہ بات حیرت ناک نہیں ہے۔ آپ ایک بات اپنے ذہن میں رکھیں کہ یہودی خواہ کیمونسٹ ہے یا سرمایہ دار ہے وہ پہلے یہودی ہے پھر وہ کچھ اور ہے۔

اس لیے ٹراٹسکی جس شخص کو عیسائی خیال کرکے اس کے گھر میں چھپا تھا وہ حقیقت میں ایک یہودی ہی تھا اور اسی نے ٹراٹسکی کو مروانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔(کیا خبر ہیلری کلنٹن اور ٹونی بلیئر بھی اسی قبیل کے ہی عیسائی ہوں؟)
یہ کوئی تین سو سال قبل کی بات ہے ۔ روس میں ایک یہودی تھا ۔ اس کے تیرہ بچے تھے اور وہ خوشحال بھی تھا ۔ میں بھی کتنا احمق ہوں کہ یہ بات لکھ بھی چکا ہوں کہ یورپ کے سارے کے سارے یہودی سود خور تھے یا پھر اعلیٰ حکومتی عہدوں پر متمکن تھے اس لیے سبھی کے سبھی خوش حال ہی تھے۔

بہرحال وہ یہودی عام یہودیوں سے زیادہ ذہین تھا اور زیادہ پڑھا لکھا بھی تھا اس لیے وہ یہ جانتا تھا کہ جس طرح سے وہ اور اس کی قوم یورپ کی اکثریت کا خون چوس رہے ہیں اس کے ردعمل کے طور پر ایک خونی انقلاب آسکتا ہے اور موجودہ نظام ختم ہو کر ایک ایسا نظام آسکتا ہے کہ اس نظام میں یورپ کی اکثریت یعنی کہ عیسائی آبادی ہی یورپ کے تمام ممالک کی حکومتوں اور وسائل کی براہ راست مالک بن سکتی ہے۔جب اس کے ذہن میں یہ بات آئی تھے تب اس کمبخت نے نہ صرف ماسکو بلکہ یورپ کے سارے ہی بڑے شہروں کے تمام کے تمام کتب خانے چھان مارے تھے اور تواریخ کی کتب میں ان تمام نظاموں کا مطالعہ بھی کر ڈالا تھا جو کہ اس وقت کے ظالمانہ اور غیر منصفانہ نظاموں کی جگہ لے سکتے تھے۔

اس کی بیوی بھی پڑھی لکھی تھی اوراس کا سب سے بڑا بیٹا بھی ۔اس لیے وہ دونوں بھی اس تحقیق کے عمل میں اس کے ساتھ ہی شامل تھے ۔( آپ خود ہی حساب لگا سکتے ہیں کہ اگر ایک جوڑے کے تیرہ بچے ہوں اور ہر بچے کے درمیان دو دوسال کا وقفہ ہوتو چھوٹا بچہ ایک سال کا ہے تو سب سے بڑا کتنے سال کا ہوا؟)
بہر حال ان تینوں نے کتب تو مختلف مصنفین اور زبانوں میں پڑھی تھیں مگر وہ سبھی اس ایک ہی نتیجے پر پہنچے تھے کہ اگر یورپ میں کبھی کوئی انقلاب آیا تو جومتبادل نظام برسر اقتدار آئے گا وہ اسلام کا عادلانہ اور منصفانہ نظام ہی ہوگا۔

اب تو تینوں ہی سر جوڑ کر بیٹھ گئے تھے کہ خواہ کچھ بھی ہو ہم اسلام کو یورپ میں نہیں آنے دیں گے۔ بس پھر کیا تھا ۔ان تینوں نے ایک بار پھر سے کتب کے سمندر میں غوطہ لگا یا تھا اور کمیون کا نظام یا اشتراکی نظام نکال لائے تھے۔ یاد رہے کہ کمیون یا اشتراکی نظام کوئی نیا نظام نہیں ہے بلکہ یہ ہزاروں برس قبل بھی موجودہ عراق شام اور ایران میں قائم رہا ہے ۔اس نظام میں بادشاہ وقت نے کمیون یا چھوٹے چھوٹے خطے بنا رکھے تھے۔اور اس کمیون یا گاوں کے رہنے والے پورے زرعی رقبے پر مشرک کھیتی باڑی کرتے تھے اور ان کو فصل کا ماحاصل یعنی کہ گورنمنٹ کا حصہ نکال کر برابر برابر اناج مل جا تا تھا۔

جس دور میں ایران ، عراق اور شام یا بابل میں کمیون کا نظام رائج تھا اسی دور کے کچھ آگے یا پیچھے افریقہ میں بھی کچھ اسی طرز کا اشتراکی یا کمیون نظام رائج تھا۔ مگر افریقہ اور بابل کے نظام میں بنیادی فرق یہ تھا کہ اس دور میں افریقہ میں مردوں کی آبادی عورتوں سے کئی گنا زیادہ تھی مگر عورتیں کم تعداد میں ہونے کے باوجود اس پورے خطے کی مالک ہوا کرتی تھیں۔ یوں ایک ایک زمیندار عورت کی ملکیت میں کئی کئی مرد ہوا کرتے تھے جو کہ محنت مزدوری کرتے تھے اور اپنی مالکن یا خاوند عورت کی مشترکہ بیویاں بھی ہوا کرتے تھے۔ وہ عورت اپنی رعایا یا بیویوں کو صرف اتنا ہی دیتی تھیں جس سے ان کی جان اور تن کا رشتہ برقرار رہے اور وہ مالک یا خاوند عورتیں شاہانہ لباس پہنتی تھیں اور ہاتھی دانت کے قیمتی زیور بھی ۔ وہ وسیع نظام تو اب نہیں رہا ۔ البتہ اس کی باقیات افریقہ کے ایک چھوٹے سے علاقے میں اب بھی دیکھی جا سکتی ہیں ۔

بہرحال ان تینوں نے بہت غورو خوض کے بعد یہ فیصلہ کیا تھا کہ اگر ہم نے یورپ اور باقی متمدن دنیا پر یہودیوں کی گرفت برقرار رکھنی ہے تو ہمیں کوئی ایسا نظام متعارف کروانا چاہئے جس کی باگ ڈور یہودی قوم کے ہاتھ میں ہی رہے۔افریقن نظام کو اس لیے رد کر دیا گیا تھا کہ آج سے سو سال قبل یورپ میں پوپ اور مذہب کی گرفت مضبوط تھی اس لیے کوئی بھی عیسائی اس اخلاق سے عاری نظام کی حمایت نہ کرتا ۔مگر اب سو سال کے بعد حالات اتنے بدل گئے ہیں کہ آج یورپ بلا کسی مزاحمت کے اس افریقن نظام کو قبول کر سکتا ہے۔

یہ میرا ذاتی مطالعہ ہے کہ اگر کبھی یہودیوں نے مستقبل قریب یا مستقبل بعید میں ایسا کوئی نظام دنیا میں متعارف کروایا تو اس نظام میں جو عورتیں خاوند کا کردار ادا کریں گی وہ سب کی سب یہودنیں ہی ہوں گی ۔ تاکہ پوری دنیا یہودیوں کے قبضے میں ہی رہے ۔ اسی طویل المدت منصوبے پر عمل پیرا ہونے کی خاطر ہی تو یہودیوں نے دنیا میں عریانی اور فحاشی کو فروغ دیا ہے۔جو قوم ایک سچے بنیﷺ کو جھٹلا سکتی ہے وہ قوم اس دنیا کی خاطر کچھ بھی کر سکتی ہے ۔

اب ہم واپس اسی یہودی کی طرف آتے ہیں۔ اس نے اپنی بیوی کے مشورے سے اپنے بچوں کے دو گروپ بنائے تھے۔ چھ ایک طرف اور چھ دوسری طرف ۔ اب وہ لوگ ڈنر شام کے پانچ بجے شروع کرتے تھے اور ڈنر کا اختتام رات کے دس بجے ہوا کرتا تھا۔ وہ ہم مسلم لوگوں کی طرح سے غریب تو نہ تھے کہ شام چھ بجے چھٹی کی اور رات کو تھکے ہارے گھر لوٹے ۔نو بجے کھانا کھایا اور پھر اونگتے ہوئے ٹی وی دیکھا اور ایسے ہی سو گئے۔ وہ تو ایلیٹ کلاس تھے۔ صبح چند گھنٹے کام کیا پھر فرصت ہی فرصت ہے اور گھر کے کام نبٹانے کے لیے نوکروں کی پوری فوج کی فوج ہے۔ اب تصویر یوں بنتی ہے کہ ڈائننگ ٹیبل کے ایک طرف چھ بچے بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے بامقابل میز کے دوسری طرف اتنے ہی بچے بیٹھے ہوئے ہیں ۔

میاں بیوی اکھٹے ہی ساتھ ساتھ اور ان دونوں کے عین سامنے ان کا سب سے بڑا بیٹا کنگ چیئر پر بیٹھا ہوا ہے ۔ کھانے کے اس پانچ گھنٹے کے سیشن کے دوران دو نوں گروپ اپنے اپنے نظام کی حمایت میں بول بھی رہے ہیں اور مختلف طرح کے لذیذ کھانے بھی ایک ایک کرکے لائے جا رہے ہیں اور سکون سے کھائے بھی جا رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ بحث بھی چل رہی ہے اور ان کاسب سے چھوٹا بچہ بھی اس علمی بحث میں حصہ لے رہا ہے جو کہ اس وقت نو دس برس کا ہو چکا تھا۔

اوربحث کا موضوع کیا ہے؟ جی ہاں ایک گروپ مستقل طور پر سرمایہ دارانہ نظام کی حمایت میں بولتا تھا اور دوسرے کے ذمہ یہ تھا کہ وہ ہر روز اشتراکیت کی حمایت میں بولے ۔اس طرح سے جب ان دونوں مختلف گروپوں کی اولادیں مزید پھیلی تھیں تو نسل در نسل اپنے اپنے تفویض کردہ نظام کوآگے سے آگے بڑھاتی ہی گئیں تھیں اور اپنے اپنے فیلڈ میں ماہر ہوتی چلی گئی تھیں ۔ آپ خود ہی دیکھ لیں کہ اشتراکی نظام کے سارے کے سارے فلاسفر اور پھر ان کے بعدبڑے لیڈر یہودی ہی تھے اور ان کے مدمقابل سرمایہ دارانہ ممالک کی حکومتوں اور افسر شاہی پر جو لوگ متمکن تھے ان کا تعلق بھی یہودیوں سے ہی تھا اگر آپ یورپ اور امریکہ کے سو سال قبل اور آج کے لیڈروں کا شجرہ نکلوا کر دیکھیں گے تو اس کے تانے بانے کہیں نہ کہیں پر جا کر اس روسی یہودی سے ضرور ملیں گے ۔

اسے کہتے ہیں۔ سہج پکے سو میٹھا۔ سلو اینڈ سٹیڈی ونز دی ریس

جب ایسٹ یورپ پر کیمونسٹ حکمران تھے اور ویسٹ یورپ سرمایہ دارانہ نظام کا حامل تھا تب دونوں متحارب گروہوں کے بڑے اور اصلی سرخیل یہودی ہی تھے یوں اس دنیا کے اصل مالک پھر سے یہودی ہی رہے تھے حالانکہ نظام بدل گیا تھا مگر نظام کو چلانے والے نہ بدلے تھے۔اس دوران دوعالمی جنگیں بھی ہوئیں اور کروڑوں عیسائی میدان جنگ میں مارے گئے مگر میدان جنگ میں یہودیوں کا جانی نقصان زیادہ بڑا نہ ہوا تھا۔ جس دن نیو یارک شہر میں لیگ آف نیشن بنی تھی اور پھر جنگ عظیم دوم کے خاتمے پر یو این او بنائی گئی تھی تو اس وقت تک یہودی امریکن سسٹم پر قابض ہو چکے تھے۔

یقین جانئے ۔ وہ زمانے تو اب لد گئے ہیں جب ایک لکڑ ہارے کا بیٹا گانگرس مین سینیٹر گورنر یا صدر امریکہ بن جایا کرتا تھا ۔ اب تو ان اہم عہدوں پر وہی فائز ہو گا جو کہ سرمایہ دار ہو گا اور اس کا کسی نہ کسی طرح سے کسی نہ کسی یہودی خاندان سے رشتہ ناتا بھی ہوگا یا پھر وہ شخص یہودیوں کا نامزد ہوگا ۔ اگر نہیں۔ تو وہ کبھی بھی بر سر اقتدار نہیں آئے گا ۔ الگور کی مثال پوری دنیا کے سامنے ہی ہے۔

دنیا کی سب سے چھوٹی کمیونٹی نے اس مقام کو حاصل کرنے کے لیے انتھک اور اجتماعی محنت کی ہے اور لا تعداد قربانیاں بھی دی ہیں تب جا کر ان کو یہ مقام حاصل ہوا ہے کہ یہودیوں کی مذہبی کونسل (ننانوے کٹر یہودی ربی )جو فیصلہ کرتی ہے وہ صدر امریکہ کو طوعاً و کر ہاً ماننا ہی پڑتا ہے۔ اوباما فسلطینی سٹیٹ تو کیا بنوائے گا ؟ وہ تو یہودی بستیوں کی توسیع بھی نہیں رکوا سکے گا ۔

یہ سب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر ایک خاندان ، قبیلہ، گروہ یا قوم یہ مصمم فیصلہ کر لے کہ اس نے ایک کام ہر حالت میں کرنا ہی ہے خواہ کچھ بھی ہو جائے تو کامیابی اس کے قدم ضرور چومتی ہے ۔ آپ خود ہی دیکھ لیں کہ اللہ کریم کی مغضوب ترین قوم نے جب محنت کی ساتھ ہی ساتھ ہمت سے بھی کام لیا اور پھر خلوص دل سے اپنے مقصد کے حصول میں جت گئی پھر اپنے مقصد کے حصول کی خاطر ہر قسم کی قربانی بھی دی تو ان کی عشروں اور صدیوں کی باہمی اور اجتماعی محنت اور قربانیوں کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج یہودی کمیونٹی اس دنیا کی اصل اور فیصلہ کن قوت ہے اور جن کی آنکھوں میں عقل اور فہم کی بینائی نہیں ہے وہ امریکہ کو دنیا کا مالک سمجھتے ہیں۔

وما علینا الالبلاغ۔

No comments:

Post a Comment