Thursday, October 15, 2009

جنیوا مذاکرات ٹھنڈی ہوا کا جھونکا یا ڈھکوسلہ




تحریر: روف عامر پپا بریار


کنفیوشس نے کہا تھا بینا وہ ہے جو اپنی گریبان میں جھانکے۔

امریکی و مغربی طاقتیں تہران کے جوہری مسئلے پر منافقانہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں کیونکہ ایک طرف اوبامہ و یورپی ممالک اٍس تنازعے کو مذکرات کے زریعے حل کرنے کی اداکاری کرتے ہیں جس کی مثال جنیوا میں مغرب و ایران کے درمیان ہونے والے ڈائیلاگ ہیں مگر دوسری طرف تہران کے جوہری اثاثوں پر اسرائیلی حملے کی منصوبہ بندیوں کی بازگشت امریکی و اسرائیلی اصل حکمت عملی کو الم نشرح کررہی ہیں۔

امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل نے اپنی رپورٹ میں تہران کے ایٹمی پروگرام کی بساط لپیٹنے کے لئے امریکی و اسرائیلی سازشوں و خفیہ منصوبہ بندیوں کا انکشاف کیا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ امریکی حکومت نے سی ائی اے کو فائنل ٹاسک دے دیا ہے۔ اس مقصد کے لئے دبئی میں قائم ہیڈ کوارٹر میں ایرانی ایجنٹوں کی بھرتی کرکے تہران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف کاروائیوں کا اغاز تک کردیا گیاہے۔ امریکہ نے اسرائیل کو فائنل حملے سے صرف اٍس وجہ سے روک رکھا ہے کیونکہ پینٹاگون سمجھتا ہے کہ تل ابیب کے پاس ابھی تک وہ بم و میزائل نہیں ہیں جو ایران کی زیر زمین جوہری تنصیبات کو صد فیصد تباہ کرنے کے قابل نہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ مغرب اور تہران کے درمیان جوہری تنازعے پر خلیج روز بروز بڑھ رہی ہے۔حالات تصادم کی قسم کھاتے ہیں۔یوں پوری دنیا کی نگاہیں یکم اکتوبر کو جنیوا میں دنیا کی پانچ بڑی طاقتوں اور ایران کے درمیان ہونے والے جنیوا مذاکرات پر مرکوز تھیں۔ستمبر میں یواین او کے اجلاس اور بعد میں جی ٹونٹی کانفرنس میں امریکہ سمیت بڑی طاقتوں نے ایران پر دباو بھی ڈالا اور دھمکیاں بھی دیں کہ وہ مغرب کے خدشات کو دور کرے ورنہ اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا جس میں ممکنہ فضائی حملے کی جگالی بھی شامل تھی۔

جنیوا میں یکم اکتوبر بروز جمعرات کو منعقد ہونے والے مذاکرات میں یواین او کے پانچ مستقل ارکان امریکہ جرمنی برطانیہ روس اور چین کے نمائندے شامل تھے۔گو کہ اٍس محفل یعنی جنیوا مذاکرات کے نتائج حوصلہ بخش نہیں تھے مگر اٍنہیں ناکام کہنا بھی درست نہیں۔امریکی صدر اوبامہ نے مذاکرات کو اچھی ابتدا قرار دیا۔پچھلی تین دہائیوں میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ تہران اور امریکہ نے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔

ایران نے مغرب کا ایک مطالبہ تسلیم کرلیا کہ قم میں قائم دوسرے جوہری پلانٹ کا معائنہ کیا جائے۔اوبامہ نے کہا کہ تہران کو عالمی اعتماد بحال کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے ہونگے۔ امریکہ سے زیادہ اسکے حواری فرانس کے وزیر دفاع ہر دی مورون نے تو باقاعدہ ترش لہجے میں دھمکی تک ڈالی کہ اگر تہران نے دسمبر تک جوہری پلانٹ کا معائنہ نہ کروایا تو اس پر پہلے سے زیادہ اقتصادی پابندیاں عائد کردی جائیں گی۔ ایرانی صدر نے اپنی تنصیبات کو چالو حالت میں رکھنے کے لئے استعمال ہونے والی یورینیم کسی تیسرے ملک سے کروانے کا اعلان کیا ہے جو پر امن مقاصد کے ایرانی فلسفے کی غماز ہے۔

جنیوا میں ایرانی سفارت کار سعید جلیلی نے ببانگ دہل مذاکرات میں شریک کارواں بڑی طاقتوں کے نمائندگان کو کھری کھری سناتے ہوئے کہا ہم کسی صورت میں اپنے جوہری پروگرام کو ترک نہیں کرسکتے۔ ان مذکرات کو طویل رنجشوں کے بعد ٹھنڈی ہوا کا جھونکا کہا جارہا ہے مگر سامراجیت و یہودیت کی تاریخ کو پڑھا جائے تو یہ سچ سامنے آتا ہے کہ مغرب یہودیوں کی خوشنودی کے لئے ایران کے جوہری پلانٹس کو عسکری کاروائی کی غذا بنانے کے لئے کسی وقت بھی فوجی کاروائی کا نشانہ بنا سکتا ہے۔

امریکہ اور اسکے یورپین خوشہ چین طویل عرصے سے ایران میں حکومت کی تبدیلی اور جوہری پلانٹس کو تباہ کرنے کے لئے ایک ہی وقت میں کئی جہتوں پر کام کررہے تھے مگر ایران کے صدارتی الیکشن میں احمد نژاد کی کامیابی نے انکے ارادوں کو خاک میں ملا ڈالا۔ انتخابی عمل کے بعد ایران میں ہونے والے دنگے فساد، احتجاجی و پر تشدد تحریک کے پیچھے یہی طاقتیں کارفرما تھیں۔ اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جو مذاکرات کی بجائے ایرانی ایٹمی سائنسی تنصیبات کو فوجی حملے سے تباہ کرنے کی سوچ کا پیروکار ہے مگر تہران بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے لئے تیار ہے۔

ایرانی قیادت نے واضح کردیا کہ اگر اسرائیل نے حملے کی جسارت کی تو یہ تل ابیب کے لئے سانس لینے کا ٓخری موقع ہے۔ایران کی حالیہ عسکری مشقوں اور شارٹ و لانگ رینج کے میزائل تجربات دراصل مغرب کو یہ پیغام دینے کا ذریعہ تھے کہ وہ جوابی حملے کے لئے تیار ہے۔ایران کے شہاب میزائلوں کی سیریز دو ہزار کلومیٹر تک ہے۔

یوں اسرائیل ایرانی میزائلوں کی پہنچ میں ہے جبکہ دوسری جانب اسرائیل کے پاس جو میزائل ہیں وہ چودہ سو کلو میٹر تک مار کرسکتے ہیں۔ایران نے کئی ایسی جوہری سائٹس بنالی ہیں جو چودہ سو کلومیٹر کی دوری پر اور زیر زمین ہیں جسکی بھنک تک امریکہ و اسرائیل کے پاس نہیں۔ ایران و اسرائیل کے درمیان حزب اللہ کی ناقابل شکست فصیل موجود ہے جسے پھلانگ کر تہران تک پہنچنا ناممکنات میں شامل ہے۔

حزب اللہ اسرائیل کو سابقہ جنگ میں ذلت امیز شکست دے چکی ہے۔ایران کے جوہری اثاثوں پر تنقید کرنے حملے کی دھمکیاں دینے والے یورپی ممالک دو عملی پالیسی کے ترجمان ہیں۔اسرائیل کے پاس دو سوزائد وار ہیڈز ہیں مگر وہ چونکہ امریکہ کا بغل بچہ ہے اسی لئے یہودیوں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ مڈل ایسٹ میں جو چاہے کرتا رہے مگر ایران کو تہس نہس کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔دنیا کو تہران کے جوہری بموں سے خوف زدہ کرنے والے خود ہی دوسرے ممالک کی سالمیت پر حملے کرنے اور انسانیت کی تذلیل کرنے کے مجرمان ہیں۔اگر اوبامہ یا سرکوزی دنیا کو جوہری ہتھیاروں کی تباہ کاریوں سے بچانے میں مخلص ہیں تو انہیں سب سے پہلے اپنے جوہری گوداموں کو ختم کرنا ہوگا۔ایران کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں کو تلف کرنا ہی انصاف کا دوسرا نام ہے۔

دنیا میں انصاف، مساوات،امن اور سکھ چین کی بانسری بجانے کا غل غپاڑہ کرنے والے امریکہ و مغربی طاقتوں کو کنفیوشس کے محولہ بالا قول کی روشنی میں سب سے پہلے اپنی گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ دنیا کے امن کو ایران کے جوہری اثاثوں سے خطرہ ہے یا امن کے نام پر عراق و افغانستان میں لاکھوں معصوموں کو بے گناہ ہلاک کرنے والے امریکہ اور اتحادیوں کے ہولناک ایٹمی زخائر سے؟ اوبامہ اور ایران مخالفین یورپی ممالک کو اپنے پیارے پیغمبر
حضرت عیسٰی علیہ السلام کے اس جملے پر لازمی غور کرنا چاہیے۔

حضرت عیسٰی علیہ السلام نے فرمایا تھا..........

پہلا پتھر وہ اٹھائے جس نے خود کبھی گناہ نہ کیا ہو۔

جہاں تک جنیوا مذاکرات کا تعلق ہے تو یہ ایران کو منانے کرنے کا ڈھکوسلہ ہے نہ کہ ٹھنڈی ہوا جھونکا۔



بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل

No comments:

Post a Comment