Wednesday, October 7, 2009

تیل اور مستقبل کی وحشت ناک جنگیں۔




تحریر: روف عامر پپا بریار

دنیا بھر میں توانائی کے استعمال میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔مثل ہے کہ مستقبل میں عالمی قیادت کا تاج اس ریاست کے سر ہوگا جسکے پاس توانائی و تیل کے زخائر کی مقدار زیادہ ہوگی۔کہا جارہا ہے کہ مستقبل میں خونخوار جنگوں کا حشر توانائی کے میدان میں سجے گا۔توانائی و گیس کی ضرورتوں کو بھانپ کر امریکہ و اتحادی ملکوں نے عراق و افغانستان کے بعد کئی اور وحشیانہ جنگوں کی منصوبہ بندیاں کرلی ہیں۔

کابل کو خون میں ڈبو دینے کا امریکی قدم نہ تو عراقیوں کو صدام کی امریت سے نجات دلوانے میں پنہاں تھا اور نہ ہی عراقی قوم کو جمہوریت کے چمتکار دکھانے کا نتیجہ تھا۔امریکہ نے صہیونیت کے آئل لارڈز اور معاشی ماہرین کی سازش پر عراق کے قدرتی وسائل کو لوٹنے کے لئے عراق میں آگ و خون کی ہولی کھیلی جبکہ طالبان حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کا مطمع نظر بھی وسطی ایشیا کے تیل تک رسائی کے لئے امریکی منصوبہ ہے جس کی رو سے تیل کو افغانستان کے زمینی راستوں و بحیرہ ہند کے پانیوں سے گزار کر اسرائیل و امریکہ لیجایا جاسکے۔ہر ملک کے معدنی وسائل پر صرف اسکی حق ہے مگر امریکہ نے اپنے بودے قوانین مرتب کررکھے ہیں جسکی آڑ میں متعلقہ ملک کے تیل کو لوٹنے کے لئے ناقابل فہم و بے بنیاد جواز تراش کر اس پر حملہ کردیا جاتا ہے۔امریکی حکومت اپنے اپکو ہر قسم کے اخلاقی و قانونی طریقوں سے مبرا تصور کرتی ہے۔

اسامہ بن لادن کی روپوشی اور صدام حسین کے کیمیائی ہتھیاروں کا شوشہ اٍسی گریٹ گیم کا حصہ ہے جسکی رو سے بڑی طاقتیں تیل و گیس کی دولت سے مالامال علاقوں پر غاصبانہ حملے کرتی ہیں۔اوبامہ کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اور افغانستان میں تین سال پہلے ناٹو افواج کی کمانڈ کرنے والے جرنیل جنرل جیمز نے ایک جنگی منصوبہ تخلیق کیا ہے۔

جنرل جیمز جونز نے ہی افغانستان سے ملحق پاکستانی قبائلی علاقوں پر امریکی حملوں کا آغاز کیا تھا۔جیمز آئل لارڈ ہیں۔وہ معروف تیل کمپنی چیروٍن کے مالک اور INSITITUTE OF 21ST CENTUERY ENERGY کے پردھان منتری ہیں۔جونز کے سامراجی مقاصد برائے توانائی کا اندازہ اسکے اس فلسفے سے عیاں ہے۔جونز کے بقول امریکہ کی سلامتی تحفظ اور معاشی خوشحالی توانائی کے نئے ذخائر تلاش کرنے میں مضمر ہے۔اگر تیل و گیس کے نوزائیدہ علاقوں تک رسائی نہ ہوسکی تو امریکہ کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے کیونکہ کسی بھی قوم کی بقا کے لئے تیل و گیس زندگی کی اہمیت رکھتے ہیں۔

دنیا کی موجودہ حالت اور توانائی کے بڑھتے ہوئے مطالبات نے امریکہ کے توانائی کے مستقبل کو دھندلادیا ہے اور یہ مطالبات امریکہ کی بقا کے لئے چیلنج رکھتے ہیں۔ توانائی کا یہ بحران امریکہ کے ساتھ ساتھ اسرائیل کو بھی مسائل کے گرداب میں پھنسائے ہوئے ہے۔اسرائیل نے مڈل ایسٹ میں موجود توانائی کے ذرائع تک پہنچنے کے لئے فوجی جوانوں پر مشتعمل فورس بھی بنارکھی ہے۔امریکن پالیسی سازوں نے مسلمانوں کے تیل کو ہڑپ کرنے کی پالیسی کئی دہائیاں پہلے ہی بنا رکھی تھیں۔

بش کا نائن الیون کے فوری بعد کابل پر حملہ اور اوبامہ کی طرف سے افغان جنگ کو جاری و ساری رکھنے کا عمل اٍنہی پالیسیوں کا ایک حصہ ہے۔مغرب کے اکثر تجزیہ نگار نائن الیون کے سانحے اور پھر اسامہ بن لادن کی تلاش کے لئے کابل پر شب خون مارنے کو تیل و گیس تک رسائی کا ہتھکنڈہ قرار دیتے ہیں۔عالمی مشاہد کاروں کی رپورٹس کے مطابق اٍسرائیل کو توانائی کی فکر روگ کی طرح لگ چکی ہے۔

اسرائیل ایندھن اتھارٹی نے اپنی تحقیق میں بتایا ہے کہ تل ابیب جنوبی افریقہ، مصر، یوکرائن، جارجیا اور میکسیکو سے حاصل کرتا ہے۔اسرائیلی تیل کا نوے فیصد بحیرہ قذوین کی ابی گزرگاہوں کے راستے اسرائیل تک پہنچتا ہے مگر یہ وہ سمندری راستہ ہے جس پر ماسکو کی اجارہ داری ہے۔روس اور چین کی سرپرستی میں اوپیک کی طرز پر نئی تنظیم کا قیام بھی اسرائیل کو بے سکون کے ہوئے ہے کیونکہ ایسی صورتحال میں اسرائیل کو مستقبل میں تیل کی کمی کا نشانہ بننا ہوگا۔

اسرائیل اور امریکہ نے تیل انڈسٹری سے وابستہ صہیونی ساہوکاروں کی کوششوں سے عراق میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔اسرائیل و امریکی ماہرین نئے جغرافیائی خطوں اور روئے زمین کے ان علاقوں جہاں توانائی کے گوہر نایاب خذینے ہیں سے استفادے کے لئے نئے پلان بنا رکھے ہیں۔اگر دنیا میں تیل کے ریزروائرز پر مشاہدہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر وہ ملک توانائی کے عظیم ذخیرے رکھتے ہیں جنکے حکمران امریکہ کو ناپسند کرتے ہیں۔ایران کی آئل دولت نے اسکے عالمی قد کاٹھ اور اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔

ایران دنیا کے کل تیل کے دس فیصد حصے کا مالک ہے۔ مستقبل میں تیل سے لبریز دوسرے علاقوں عراق وغیرہ پر ایران کے اثرات موجود ہیں۔ بغداد بھی ورلڈ کے ٹوٹل تیل کا دس فیصد رکھتا ہے۔مستقبل قریب میں توانائی کی ڈکیٹی کے لئے عراق و افغانستان اسرائیل و امریکہ کے بڑے ہدف ہونگے مگر دنیا کو فریب دینے کے لئے عراق جنگ کا سیاسی دائرہ کار بدل دیا گیا ہے۔عراق جنگ کو اسرائیل کی بقا اور پھر اسرائیل کی توانائی ضروریات کے نظرئیے سے تبدیل کیا گیا ہے۔بغداد پر چڑھائی سے پہلے جنگی نظریات اسرائیل کی بقا کے لئے ضروری تھے جبکہ بعد میں عراقی جنگ کو اسرائیل کی توانائی ضروریات کے لئے لازم قرار دیا گیا۔

امریکہ نے اسرائیل کو چھوٹ دی ہے کہ وہ عراقی تیل کو اپنی بندرگاہ اور آئل ریفائنری حیفہ تک لیجائے۔ گو کہ عراق میں جمہوری سرکار قائم ہوچکی ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ عراق کے چپے چپے اور تیل سے اٹے ہوئے علاقوں میں موجود امریکی فوجی کیمپ تیل کی اسرائیل کو فراہمی کا عمل کنٹرول کریں گے۔چین کی روزافزوں اقتصادی ترقی نے اسرائیل و امریکہ کو پریشان کررکھا ہے۔2030 تک چین دنیا کی کل توانائی کا تیس فیصد حصہ استعمال کرے گا۔اوبامہ کے کاریگر پاکستان و ایران میں چین کے بڑھتے ہوئے سحر کو کم کرنے کے حربے استعمال کررہے ہیں۔عالمی سطح پر چین کی اثراندازی کو ختم کرنا اوبامہ کیمپ کا اہم مقصد ہے۔

چین و ایران کے درمیان توانائی کی خرید و فروخت دفاعی اور نیوکلیر ٹیکنالوجی کے کئی معاہدات موجود ہیں۔چین نے ایران کے خلاف اسرائیل و امریکہ کے کسی مذموم ہتھکنڈے کو ملیامیٹ کرنے کا تہیہ کررکھا ہے۔شاہ عبداللہ نے تخت سعود سنبھالنے کے بعد پہلا دورہ چین کا کیا تھا۔اسرائیل کی غزہ پر بہیمانہ بمباری نے سعودی عرب کو چین کی طرف دھکیلنے کا کام کیا ہے۔اسرائیل کا غزہ پر حملہ بھی تیل کی وجہ سے کیا گیا۔اسرائیل کی تیل پائپ لائن اشک کیلون سے بذریعہ ایلات کی بندرگاہ تک پہنچتی ہے جو روزانہ تین سو سے چار سو بیرل تیل ایلات تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔

اگر فلسطینیوں نے کبھی اس پائپ لائن پر قبضہ کرلیا تو اسرائیل کا صنعتی کچومر نکل جائے گا۔ یہودی پائپ لائن کی وجہ سے غزہ کو ازاد فلسطینی ریاست کا درجہ دینے سے ہچکچاتے ہیں۔اوبامہ بھی صہیونیوں کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔صہیونیوں کا ایجنڈہ ہے کہ مڈل ایسٹ عرب خطے کے توانائی کے زخائر لوٹے جائیں۔امریکہ میں توانائی سے بھرے ہوئے دوسرے ملکوں پر قبضے کی پلاننگ کی جارہی ہے۔صہیونی پلان کے مطابق مستقبل کی جنگیں دوستی یا دشمنی کے اصولوں کی بجائے تیل کے گرانقدر اثاثوں کی جمع تفریق کی بنا پر لڑی جارہی ہیں۔

مسلم دنیا میں رب العالمین نے پہاڑوں زمینوں ریگزاروں کو توانائی کی بیش قیمت دولت سے بھردیا ہے۔صہیونی تیل کی ہوس میں کسی بھی مسلمان ملک کو راندہ درگاہ بنا سکتے ہیں کیونکہ سامراجیت میں انسانوں کے خون کے بہتے دریاوں کی بجائے دولت چاہے تیل کی ہو یا گیس کی استعماری ہمیشہ اسی دولت کو فوقیت دیتے ہیں۔



بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل

No comments:

Post a Comment