تحریر: ڈاکٹر عصمت حیات علوی
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
Julie very jolly
اس کے خیال میں یہودیوں کی مڈل ایسٹ کو مائیگریشن (Migration)ایک احمقانہ فعل تھی ۔وہ میرے سے خود ہی پوچھ کر پھر خود ہی اپنے سوال کا جواب یوں دیا کرتی تھی دیکھو !! آسماٹ امریکہ لینڈ آف اپورچیونیٹی (Land of Opportunity)ہے اور اتنی ڈھیر ساری سہولتیں اور آسائشیں چھوڑ چھاڑ کر ایک صحرا میں جا کر بسنے کی کوشش کرنا کیا دانش مندی کی بات ہے ؟ نہیں ہے نا ! ہاں نہیں ہے !
وہ خود تو اسرائیل جا کر رہنے اور بسنے کا کوئی ارادہ نہ رکھتی تھی مگر پھر بھی اس کے پاس اسرائیلی سٹیٹ کا ایک آسان اور سادہ حل تھا۔ وہ یہ کہ اسرائیل کا صدر یہودی ہو وزیر اعظم مسلم ہو اور سپیکر عیسائی ہو۔مگر اس کے لیے بھی اس کی ایک کڑی شرط تھی وہ یہ کہ تینوں کے تینوں بورن اسرائیلی ہونے چاہیئں ۔امیگرنٹ نہیں۔
اس کے دوست بھی تین ہی تھے ۔ایک یہودی ایک عیسائی اور ایک مسلم۔بلکہ وہ یہ بھی کہا کرتی تھی کہ میں چار بچے جنوں گی ایک یہودی بنے گا ایک عیسائی بنے گا ایک مسلم بنے گا جبکہ چوتھا نیوٹرل ہوگا تاکہ ان تینوں کو متحد رکھ سکے۔اسی لیے تو یونی ورسٹی میں اس کا میجر چائلڈ سائیکالوجی تھا۔ اس کے والدین الگ الگ کمپنیوں کے کرتا دھرتا تھے یوں اس کے پاس اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ان کے آنے سے قبل ہی سارے کے سارے وسائل اور سہولتیں موجود تھیں۔
میں یہی سمجھا کرتا تھا کہ وہ ایک معتدل مزاج یہودن ہے اس لیے سرزمین فلسطین پر دوریاستوں کی قائل ہوگی ۔ مگر نہیں جی !
ایک دن وہ ایک بڑا سا نقشہ اٹھائے ہوئے آئی تھی اور میری سٹڈی ٹیبل پر پھیلا کر مجھے یوں سمجھانے لگی تھی۔ دیکھو آسماٹ ! یہ فریٹس (فرات )ہے اور یہ نائیل(نیل) ہے۔ جب نئی دنیا (New World=America)دریافت نہیں ہوئی تھی۔ تب ہمارے پرانے زمانے کے بزرگ اسرائیل کو اتنا ہی وسیع اور عریض بنانا چاہتے تھے ۔ مگر اب ہمیں یہ علم ہو چکا ہے کہ اس کرہ ارض پر امریکہ جیسا وسیع اور عریض براعظم بھی موجود ہے تو آج کل کی یہودی نسلوں کو جدید دنیا کے کل رقبے کو مدنظر رکھ کر اسی ریشو سے اسرائیل کی سرحدوں میں توسیع کر دینی چاہیے۔
میں تو اس کی زبان سے ایسا توسیعی منصوبہ سن کر ششدر ہی رہ گیا تھا مگر اس نے میری حیرت اور تشویش کو نظر انداز کرتے ہوئے ماڈرن اسرائیل کی سرحدوں میں شامل تمام ممالک کی تشریح کرنی شروع کردی تھی ۔ وہ کہنے لگی تھی ہمارے جدید ربائی کہتے ہیں کہ جزیرةالعرب تو سارے کا سارا ہمارا ہی ہے اور شام لبنان مصر عراق اور ایران بھی ہمارے ہی ہیں کیونکہ کبھی وہاں پر بھی ہمارے بڑوں کی حکومت ہوا کرتی تھی۔پھر اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مجھے کہا تھا کہ آسماٹ ! تم میرے دوست ہو اس لیے میری تمنا یہی ہے کہ تمہارا وطن پاکستان بھی گریٹر اسرائیل کا ایک صوبہ ہو ۔
آج سے بیس برس قبل جولی نے جب یہ الفاظ کہے تھے تو میں بڑا ہی ہنسا تھا اور اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا ۔ جولی یو آر رئیلی ویری جولی(Julie! You are really very jolly)۔ مگر اب جب کہ میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں تو میں یہ سوچ رہا ہوں کہ بیس برس قبل جس بات کو میں ایک مذاق سمجھا تھا وہ محض ایک مذاق یا ایک چوبیس پچیس سالہ لڑکی کا جذباتی خواب نہیں تھا بلکہ پوری یہودی قوم کا ایک طویل المیعاد منصوبہ تھا کہ ماڈرن اینڈ گریٹر اسرائیل کی سر حدوں میں ایک نہ ایک دن پاکستان کو بھی شامل کرلیا جائے گا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ کہ بہت سارے عیسائی محقق اور تجزیہ نگار اس امر کا اقرار کرتے ہیں کہ پرنٹ اور الیٹرانک میڈیا کے ذریعے سے امریکہ کی عیسائی اکثریت کو نہ صرف بیوقوف بنایا جارہا ہے بلکہ یہودیوں کی ایک چھوٹی سی اقلیت نے اپنی عیاری مکاری اور چرب زبانی کے ذریعے سے پوری امریکن قوم کو عملاً یرغمال بنا لیا ہے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ میں انسان دوست اور امن پسند عیسائیوں کی کوئی کمی نہیں ہے مگر المیہ یہ ہے کہ وہاں کے میڈیا پر قابض چند یہودی سرمایہ دار انسان دوست اور امن پسند عیسائیوں کی آوازوں کو امریکہ میں اور باقی مہذب دنیا تک جانے ہی نہیں دیتے۔
آج سے سو سال قبل جب امریکہ کی آبادی آج کے مقابلے میں نصف بھی نہ تھی اس وقت امریکہ میں اشاعتی اور نشریاتی ادروں کی تعداد اڑھائی سوسے کچھ زائد ہی تھی مگر پھر ایک منصوبے کے تحت یہودیوں نے آہستہ آہستہ ایک ایک کرکے بڑے اور چھوٹے اشاعتی اور نشریاتی اداروں کو اپنی ملکیت بنانا شروع کردیا تھا اور آج صورت حال یہ ہے کہ تمام امریکہ کے اشاعتی نشریاتی اور دیگر ذرائع ابلاغ کے اداروں کی کل تعداد صرف پچیس ہاتھوں میں آچکی ہے باوجود اس حقیقت کے کہ امریکہ میں اشاعتی نشریاتی اور ابلاغی اداروں کی تعداد ہزار گنا ہوچکی ہے۔
یوں بڑے بڑے اداروں پر قابض چند یہودی پوری دنیا کی جیسی چاہتے ہیں ویسی ہی ذہن سازی کرتے ہیں ۔ یوں وہ پوری دنیا کو گمراہ کرتے ہیں اور اسلام اور مسلمین کے خلاف سازشیں کرتے ہیں اور پوری دنیا ان کی ہاں میں ہاں ملاتی رہتی ہے۔ امریکی نظام پر یہودیوں کی اتنی سخت گرفت کے باوجود بھی کچھ مخلص اور دردمند عیسائی ایسے بھی ہیں جو کہ کسی نہ کسی طرح سے اور کسی نہ کسی ذریعے سے اپنی حق اور سچ بھری آواز کو دنیا کے کانوں تک پہنچاتے رہتے ہیں۔
ان مخلص اور دردمندعیسائیوں میں سے ایک نام ڈیوڈ ڈیوک (David Duke)کا بھی ہے جس نے اپنی ویب سائٹ http://www.davidduke.com
ڈیوڈ ڈیوک نے عراق وار سے قبل ہی امریکن قوم کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا شروع کر دیا تھا کہ عراق کی جنگ تیل کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ سب یہودیوں کے توسیعی منصوبوں کی تکمیل کا ایک مرحلہ ہے اور اس نے ایک مضمون بعنوان اٹس نوٹ اباوٹ دی آئیل ۔سٹوپڈ! (It's not about the oil, Stupid !) لکھ کر یہودیوں کی ساری قلعی کھول دی ہے ۔
اس مضمون کی اشاعت کے بعد تو دنیاءاسلام کی آنکھیں کھل جانے چاہیئں تھیں مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ پاکستان کے عوام الناس تو بے چارے ان پڑھ ہیں ان کو تو میں کوئی الزام نہیں دیتا مگر ہمارے پاکستانی کالم نگار ابھی تک وہی پرانی لکیر پیٹے جارہے ہیں کہ امریکہ تیل اور معدنیات کے حصول کی جنگ کر رہا ہے ۔ امریکہ سنٹرل ایشاءکے معدنی اور زرعی وسائل پر قابض ہونا چاہتا ہے۔
امریکہ چین کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہتا ہے ۔ امریکہ میدان جنگ چھوڑ کر بھاگنا چاہتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔
میں یہ تو نہیں لکھوں گا کہ یہ سب احمقانہ
باتیں ہیں کیونکہ ابھی میرے میں یہ سچ لکھنے کی ہمت نہیں ہے میں تو صرف اتنا ہی لکھوں گا کہ ہمارے کالم نگاروں اور تجزیہ نگاروں کو ہر خبر اور رپورٹ کا مکمل انیلیسز (analysis)کرنا چاہیئے اور پھر ضمیر کی آواز سن کر سچ لکھنا چاہیئے جس دن بھی میرے ہم وطن اور ہم دین بھائیوں نے وہی کچھ لکھنا شروع کردیا جو کہ زمینی حقائق ہیں اسی دن سے میں حالات حاضرہ پر لکھنا چھوڑ دوں گا اور پھر سے سماجی خدمت میں مصروف ہو جاوں گا۔
انشاللہ العزیز ! کیونکہ میں تو ایک سماجی کارکن ہوں اور میرا کام تو سوشل ورکر کا تھا مگر جب میں نے یہ دیکھا تھا کہ اردو لکھنے والے کالم نویس اور تجزیہ نگار پاکستانی عوام کو درست بات بتانے کی بجائے ہم کو الجھنوں (Confusion)میں ڈالے جا رہے ہیں تو میں نے اپنے قریبی، پرانے اور آزمودہ دوستوں کے کہنے پر کرنٹ افیئرز پر لکھنا شروع کردیا ہے۔ کیونکہ ان کی یہ بات میرے دل کو بھائی تھی کہ ملک بچے گا تو تم اپنے معاشرے کے تعلیمی سماجی معاشی اور معاشرتی مسائل حل کر لینا اور پھر جی بھر کر پاکستان کی خدمت بھی کر لینا۔ بلکہ کچھ دوستوں نے تومجھے یہ بھی کہا تھا کہ روز قیامت تیر ی اس بات پر پکڑ نہ ہو جائے کہ جس قدر تجھے علم تھا اس قدر تونے اپنی قوم کو کیوں کر آگاہ نہ کیا تھا ؟
آئیے ! اب ہم تجزیہ کرتے ہیں کہ ہمارے پاکستانی کالم نگار جو باتیں اپنے آرٹیکلز میں لکھتے ہیں وہ کس قدر حقیقت ہیں۔
امریکہ اپنی ذات میں ایک دنیا ہے اگر امریکہ اپنی سرزمین پر موجود اور زیر سمندر وسائل کو استعمال میں لائے تو آئندہ کئی سو سال تک ان وسائل میں کوئی کمی نہ ہوگی یہ بات مجھے ایک میرین لائف کے ماہر پروفیسر نے بتائی تھی ۔ اس نے لوزیانہ سٹیٹ کے دارالحکومت نیو آرلئینز سٹی (New Orleans City)سے باہر دریائے مسسسپی (Mississippi River)کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ دریا ہر سال جتنی زرخیزی بحیرہ میکسیکو (Gulf of Mexico)میں ڈال دیتا ہے اگر ہم صرف اس بحیرہ کے سمندری زندگی کے وسائل کو استعمال میں لائیں تو اس بحیرے سے حاصل ہونی والی سمندری غذا سے سارے امریکن پل سکتے ہیں۔
چلیں ! اب ہم دوسرے نقطے کی طرف چلتے ہیں ۔ امریکہ پاکستان کے راستے سنٹرل ایشین کنٹریز تک بذریعہ خشکی ایک راستہ بنانا چاہتا ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ روس ابھی بھی ایک پاور ہے ۔وسطی ایشائی ممالک تو اس کے زیر اثر ہیں اور آئندہ بھی زیر اثر ہی رہیں گے بلکہ میرا تجزیہ یہ ہے کہ ایک نہ ایک دن رشیا اپنی کھوئی ہوئی سابقہ منڈیاں یعنی کہ ایسٹرن یورپین کنٹریز کو ایک بار پھر سے اپنے زیر اثر کر لے گا ۔
آپ خود ہی بتائیں کہ جو ملک اس قسم کے توسیعی عزائم رکھتا ہو کیا وہ پسپائی اختیار کرے گا؟ اور خاموشی سے اتنے اہم خطے امریکہ کے حوالے کردے گا ؟
چین کے گرد امریکن گھیرے کا نظریہ تو اسی دن بحیرہ جاپان میں غرق ہوگیا تھا جس دم پہلی امریکن کمپنی نے چین میں سرمایہ کاری کی تھی اور اس اہم واقعہ کو وقوع پذیر ہوئے بھی آج بیس سال سے زائد عرصہ ہونے والا ہے ۔
میں یہ سوال کرتا ہوں کہ جس ملک میں فارن انویسٹمنٹ کا چالیس فیصد سرمایہ امریکہ کے سرمایہ داروں نے لگا یا ہو ا ہو اور اسی ملک سے امپورٹ کی گئی اشیاءکو ری ایکسپورٹ کرکے امریکن سرمایہ دار ہر سال کروڑوں اربوں ڈالر کماتے ہوں اسی ملک کا امریکہ گھیراو کرے گا؟ یاد رہے کہ چین کے تجارتی طور پر خودمختار شہر ہانگ کانگ میں بھی امریکہ کی ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ سرمایہ کاری کل دنیا کی سرمایہ کاری کا نصف سے زائد ہی ہے۔
امریکہ یہ خطہ چھوڑ کر کبھی بھی نہیں جانے والا ۔ بلکہ جلد ہی دنیا یہ دیکھ لے گی کہ امریکہ طالبان کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک لاکھ سے زائد باقاعدہ فوج افغانستان میں اکھٹی کرلے گا دیگر مغربی ممالک کی فورسز کوملا کر اور یہ جو مختلف اور طرح طرح کی پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنیوں کے اراکین ہیں ان کی تعداد کو جمع تفریق کرکے جب یہ تعداد دولاکھ سے اوپر چلی جائے گی تو امریکہ طالبان سے با مقصد مذاکرات کرے گا اور اسی دوران ہمارے ملک کی افواج پشتونوں کو اس بری طرح سے اور اس قدر تنگ کریں گی کہ پاکستان کے پشتون ہمارے سے علیحدٰہ ہونے میں اور افغانستان میں شامل ہونے میں ہی اپنی عافیت سمجھیں گے۔
یوں افغانستان میں کرزئی کی بادشاہت میں ایک امریکہ نواز حکومت بن جائے گی اور امریکہ نہایت ہی اطمینان اور سکون سے بلوچستان کا رخ کرے گا چونکہ جتنے بھی موثر اور محب وطن پرو پاکستان بلوچ لیڈر تھے ان کو مشرف نے شہید کروا دیا ہے باقی کا صفایا موجودہ دور میں فوج کر ہی ڈالے گی۔
یوں بلوچ عوام کی خواہشات کے خلاف ہمارے ڈگڈی لیڈر ایک دن امریکن مداری کے اشاروں پر ناچیں گے اور پھر گریٹر بلوچستان ۔۔ ۔خیر! یہ ایک لمبا موضوع ہے۔
بات سے بات نکل آئی ہے ۔ہمارے میڈیا کو اسلام آباد میں امریکن سفارت خانے کی توسیع اور بلیک واٹر کے قصوں میں الجھا دیا گیا ہے ۔ جب کہ میری اطلاع کے مطابق کچھ امریکن کمپنیوں نے لاہور میں دس بڑی پراپرٹیز کی ڈیل فائنل کی ہے جو کہ لاہور ڈیفنس سوسائٹی، لاہور چھاونی اور لاہور ائیرپورٹ کے نزدیکی علاقے میں واقع ہیں۔
اب آپ پوچھیں گے لاہور کے باقی علاقوں میں؟ میں کہوں گا کہ باقی علاقوں کی اہمیت کتنی ہے؟ یہ بات یاد رکھیئے کہ ہماری صوبائی اور وفاقی حکومتیں اس ڈیل کے بارے میں لاعلم نہیں ہیں ۔
کچھ طوطا صحافی ہمیں یہ سبق پڑھاتے رہتے ہیں کہ امریکہ انڈیا کو چائنا کے مقابلے پر طاقت بنانا چاہتا ہے اور اس کے مقابلے پر کھڑا کرنا چاہتا ہے ۔ میں کہتا ہوں کہ یہ سبھی صحافی لفافے لے کر ایسی گمراہ کن باتیں لکھتے ہیں تاکہ ہمارا دھیان بٹا رہے اور جب اسرائیل عرب ممالک کی طرف سے مسلم آبادی کو پیسنا شروع کرے تو اسی لمحے بھارت چکی کے دوسرے پاٹ کی طرح سے ہمیں درمیان میں رکھ کر پیس ہی ڈالے اور جب ہمارا خاتمہ ہو جائے تو اسپین کے غدار ابو عبداللہ کی طرح سے یہ لفافے اور طوطے لیڈر اور صحافی مگرمچھ کے آنسو بہائیں ۔
ملت کے غداروں کو یہ وعید ہو کہ ایسا کبھی بھی نہیں ہوگا کیونکہ ایک حدیث رسول ﷺ کے مطابق قیامت کی گھڑیوں تک اس ارض پر ایک ایسی مسلم جماعت ضرور بہ ضرور موجود رہے گی جو کہ فساد فی الارض کرنے والوں سے جہاد اور قتال کرتی ہی رہے گی۔ انشاءاللہ العزیز !!
جب میں نے امریکہ چھوڑا تھا تب تک جولی دوبیٹوں کی ماں بن چکی تھی ۔ پھر اگلے چار سال کے دوران اس نے ایک لڑکی اور ایک لڑکے کومزید جنم دیا تھا۔ پچھلے سال کی بات ہے کہ جولی نے مجھے ہانگ کانگ کے ایک ہوٹل میں بلایا تھا ۔جس سویٹ میں وہ اپنے خاوند اور دوبچوں کے ساتھ مقیم تھی اس کا ایک رات کا کرایہ اس فلیٹ کے دوماہ کے کرایہ کے برابر ہے جس فلیٹ میں میں آج کل رہتا ہوں ۔
جو منصوبہ اس نے اپنے بچوں کے بارے میں بیس برس قبل بنایا تھا وہ اس منصوبے پر حرف بہ حرف کام کر رہی ہے ۔اس کی بیٹی اور ایک بیٹا اسرائیل میں اس کے والدین کےساتھ رہتے ہیں جہاں پر بیٹی یہودیت کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہے اور بیٹا ایک فلسطینی مسلم استاد سے اسلام کی تعلیمات سے بہرہ ور ہورہا ہے ان دونوں کو اسرائیلی ہونے پر فخر ہے ۔ دوبیٹے اس نے اپنے ساتھ ہی رکھے ہوئے ہیں ۔ایک بیٹا واقعی کرسچیئن خیالات کا حامل ہے مگر اسرائیل کو برحق سمجھتا ہے اور سب سے بڑا بچہ گفتگو اور خیالات کے اعتبار سے لیبرل اور بے دین ہی لگتا تھا مگر وہ بھی اسرائیل کو برحق ہی سمجھتا تھا اور یہودیوں کو فلسطین کی سر زمین کا اصل حق دار۔
میں نے جولی سے پوچھا تھا۔ ہانگ کانگ تفریح اور سیر سپاٹے کے لیے آئی ہو ؟
کہنے لگی ۔اس وقت پوری دنیا ریسیشن (recession) کی حالت میں ہے اور دنیا کے تمام ممالک میں پراپرٹی باٹم لائن ٹچ (touched the bottom line) کر چکی ہے اور یہ موقع روز روز نہیں آئے گا کیونکہ جلد ہی امریکہ میں قیادت میں تبدیلی آنی والی ہے پھر(up & up) اپ ہی اپ ہے ۔
دراصل ہماری کمپنی چائنا میں پراپرٹی کی ایک بڑی ڈیل کرنے والی ہے پھر میرا ارادہ ہے یہ بھی کہ ہم چائنا میں ایک چھوٹی موٹی سی میڈیا کمپنی بنا ڈالیں تاکہ کل کلاں کو جب چائنا میں براڈکاسٹنگ کمپنی ایکٹ میں کوئی تبدیلی ہو تو ہماری کمپنی اس فیلڈ میں پائنیر(Pioneer) ہو۔
جب میں جولی کے پاس سے رخصت ہوا تھا تو میں یہ سوچ رہا تھا کہ یہ یہودی تو بہت ہی دوراندیش قوم ہے ۔جو قوم بھی اقتصادی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوتی ہے یہ اس کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا حصہ لینے کے لیے ان کی سگی بن جاتی ہے۔
بالفاظ دیگر ایک دن ایسا بھی آنے والا ہے جب سارا چین یہودیوں کی بات کو سنا کرے گا اور مسلمانوں کو کوسا کرے گا۔ اس کا نام تو جولی تھا مگر میں اس کو ویری جولی کہتاہوتا تھا۔اس کا باپ تو اشکانزی یہودی ہی تھا مگر ماں ایک لبنانی عیسائی تھی یوں دومختلف نسلوں اور رنگوں کے ملاپ سے خوبصورتی کا جو پیکر تیار ہوئی تھی اس پر کسی مرد کی نظر کم ہی ٹک سکتی تھی۔ اس کی اسی خوبصورتی کو مدنظر رکھ کر میں نے اس کو چڑیل کانام بھی دے دیا تھا۔ بھی بنا رکھی ہے اور وہ کسی سے ڈرے بغیر اور مرعوب ہوئے بغیر اپنی آواز کو ساری دنیا کے حق پرست اور امن پسند لوگوں تک پہنچائے جارہا ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس شخص کا تعلق بھی امریکہ کی ریاست لوزیانہ سٹیٹ سے ہی ہے اسی سٹیٹ میں کبھی میری ریزیڈنسی تھی اور جولی کی فیملی کا تعلق بھی اسی ریاست سے ہی ہے ۔
Julie very jolly
اس کے خیال میں یہودیوں کی مڈل ایسٹ کو مائیگریشن (Migration)ایک احمقانہ فعل تھی ۔وہ میرے سے خود ہی پوچھ کر پھر خود ہی اپنے سوال کا جواب یوں دیا کرتی تھی دیکھو !! آسماٹ امریکہ لینڈ آف اپورچیونیٹی (Land of Opportunity)ہے اور اتنی ڈھیر ساری سہولتیں اور آسائشیں چھوڑ چھاڑ کر ایک صحرا میں جا کر بسنے کی کوشش کرنا کیا دانش مندی کی بات ہے ؟ نہیں ہے نا ! ہاں نہیں ہے !
وہ خود تو اسرائیل جا کر رہنے اور بسنے کا کوئی ارادہ نہ رکھتی تھی مگر پھر بھی اس کے پاس اسرائیلی سٹیٹ کا ایک آسان اور سادہ حل تھا۔ وہ یہ کہ اسرائیل کا صدر یہودی ہو وزیر اعظم مسلم ہو اور سپیکر عیسائی ہو۔مگر اس کے لیے بھی اس کی ایک کڑی شرط تھی وہ یہ کہ تینوں کے تینوں بورن اسرائیلی ہونے چاہیئں ۔امیگرنٹ نہیں۔
اس کے دوست بھی تین ہی تھے ۔ایک یہودی ایک عیسائی اور ایک مسلم۔بلکہ وہ یہ بھی کہا کرتی تھی کہ میں چار بچے جنوں گی ایک یہودی بنے گا ایک عیسائی بنے گا ایک مسلم بنے گا جبکہ چوتھا نیوٹرل ہوگا تاکہ ان تینوں کو متحد رکھ سکے۔اسی لیے تو یونی ورسٹی میں اس کا میجر چائلڈ سائیکالوجی تھا۔ اس کے والدین الگ الگ کمپنیوں کے کرتا دھرتا تھے یوں اس کے پاس اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ان کے آنے سے قبل ہی سارے کے سارے وسائل اور سہولتیں موجود تھیں۔
میں یہی سمجھا کرتا تھا کہ وہ ایک معتدل مزاج یہودن ہے اس لیے سرزمین فلسطین پر دوریاستوں کی قائل ہوگی ۔ مگر نہیں جی !
ایک دن وہ ایک بڑا سا نقشہ اٹھائے ہوئے آئی تھی اور میری سٹڈی ٹیبل پر پھیلا کر مجھے یوں سمجھانے لگی تھی۔ دیکھو آسماٹ ! یہ فریٹس (فرات )ہے اور یہ نائیل(نیل) ہے۔ جب نئی دنیا (New World=America)دریافت نہیں ہوئی تھی۔ تب ہمارے پرانے زمانے کے بزرگ اسرائیل کو اتنا ہی وسیع اور عریض بنانا چاہتے تھے ۔ مگر اب ہمیں یہ علم ہو چکا ہے کہ اس کرہ ارض پر امریکہ جیسا وسیع اور عریض براعظم بھی موجود ہے تو آج کل کی یہودی نسلوں کو جدید دنیا کے کل رقبے کو مدنظر رکھ کر اسی ریشو سے اسرائیل کی سرحدوں میں توسیع کر دینی چاہیے۔
میں تو اس کی زبان سے ایسا توسیعی منصوبہ سن کر ششدر ہی رہ گیا تھا مگر اس نے میری حیرت اور تشویش کو نظر انداز کرتے ہوئے ماڈرن اسرائیل کی سرحدوں میں شامل تمام ممالک کی تشریح کرنی شروع کردی تھی ۔ وہ کہنے لگی تھی ہمارے جدید ربائی کہتے ہیں کہ جزیرةالعرب تو سارے کا سارا ہمارا ہی ہے اور شام لبنان مصر عراق اور ایران بھی ہمارے ہی ہیں کیونکہ کبھی وہاں پر بھی ہمارے بڑوں کی حکومت ہوا کرتی تھی۔پھر اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مجھے کہا تھا کہ آسماٹ ! تم میرے دوست ہو اس لیے میری تمنا یہی ہے کہ تمہارا وطن پاکستان بھی گریٹر اسرائیل کا ایک صوبہ ہو ۔
آج سے بیس برس قبل جولی نے جب یہ الفاظ کہے تھے تو میں بڑا ہی ہنسا تھا اور اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا ۔ جولی یو آر رئیلی ویری جولی(Julie! You are really very jolly)۔ مگر اب جب کہ میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں تو میں یہ سوچ رہا ہوں کہ بیس برس قبل جس بات کو میں ایک مذاق سمجھا تھا وہ محض ایک مذاق یا ایک چوبیس پچیس سالہ لڑکی کا جذباتی خواب نہیں تھا بلکہ پوری یہودی قوم کا ایک طویل المیعاد منصوبہ تھا کہ ماڈرن اینڈ گریٹر اسرائیل کی سر حدوں میں ایک نہ ایک دن پاکستان کو بھی شامل کرلیا جائے گا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ کہ بہت سارے عیسائی محقق اور تجزیہ نگار اس امر کا اقرار کرتے ہیں کہ پرنٹ اور الیٹرانک میڈیا کے ذریعے سے امریکہ کی عیسائی اکثریت کو نہ صرف بیوقوف بنایا جارہا ہے بلکہ یہودیوں کی ایک چھوٹی سی اقلیت نے اپنی عیاری مکاری اور چرب زبانی کے ذریعے سے پوری امریکن قوم کو عملاً یرغمال بنا لیا ہے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ میں انسان دوست اور امن پسند عیسائیوں کی کوئی کمی نہیں ہے مگر المیہ یہ ہے کہ وہاں کے میڈیا پر قابض چند یہودی سرمایہ دار انسان دوست اور امن پسند عیسائیوں کی آوازوں کو امریکہ میں اور باقی مہذب دنیا تک جانے ہی نہیں دیتے۔
آج سے سو سال قبل جب امریکہ کی آبادی آج کے مقابلے میں نصف بھی نہ تھی اس وقت امریکہ میں اشاعتی اور نشریاتی ادروں کی تعداد اڑھائی سوسے کچھ زائد ہی تھی مگر پھر ایک منصوبے کے تحت یہودیوں نے آہستہ آہستہ ایک ایک کرکے بڑے اور چھوٹے اشاعتی اور نشریاتی اداروں کو اپنی ملکیت بنانا شروع کردیا تھا اور آج صورت حال یہ ہے کہ تمام امریکہ کے اشاعتی نشریاتی اور دیگر ذرائع ابلاغ کے اداروں کی کل تعداد صرف پچیس ہاتھوں میں آچکی ہے باوجود اس حقیقت کے کہ امریکہ میں اشاعتی نشریاتی اور ابلاغی اداروں کی تعداد ہزار گنا ہوچکی ہے۔
یوں بڑے بڑے اداروں پر قابض چند یہودی پوری دنیا کی جیسی چاہتے ہیں ویسی ہی ذہن سازی کرتے ہیں ۔ یوں وہ پوری دنیا کو گمراہ کرتے ہیں اور اسلام اور مسلمین کے خلاف سازشیں کرتے ہیں اور پوری دنیا ان کی ہاں میں ہاں ملاتی رہتی ہے۔ امریکی نظام پر یہودیوں کی اتنی سخت گرفت کے باوجود بھی کچھ مخلص اور دردمند عیسائی ایسے بھی ہیں جو کہ کسی نہ کسی طرح سے اور کسی نہ کسی ذریعے سے اپنی حق اور سچ بھری آواز کو دنیا کے کانوں تک پہنچاتے رہتے ہیں۔
ان مخلص اور دردمندعیسائیوں میں سے ایک نام ڈیوڈ ڈیوک (David Duke)کا بھی ہے جس نے اپنی ویب سائٹ http://www.davidduke.com
ڈیوڈ ڈیوک نے عراق وار سے قبل ہی امریکن قوم کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا شروع کر دیا تھا کہ عراق کی جنگ تیل کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ سب یہودیوں کے توسیعی منصوبوں کی تکمیل کا ایک مرحلہ ہے اور اس نے ایک مضمون بعنوان اٹس نوٹ اباوٹ دی آئیل ۔سٹوپڈ! (It's not about the oil, Stupid !) لکھ کر یہودیوں کی ساری قلعی کھول دی ہے ۔
اس مضمون کی اشاعت کے بعد تو دنیاءاسلام کی آنکھیں کھل جانے چاہیئں تھیں مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ پاکستان کے عوام الناس تو بے چارے ان پڑھ ہیں ان کو تو میں کوئی الزام نہیں دیتا مگر ہمارے پاکستانی کالم نگار ابھی تک وہی پرانی لکیر پیٹے جارہے ہیں کہ امریکہ تیل اور معدنیات کے حصول کی جنگ کر رہا ہے ۔ امریکہ سنٹرل ایشاءکے معدنی اور زرعی وسائل پر قابض ہونا چاہتا ہے۔
امریکہ چین کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہتا ہے ۔ امریکہ میدان جنگ چھوڑ کر بھاگنا چاہتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔
میں یہ تو نہیں لکھوں گا کہ یہ سب احمقانہ
باتیں ہیں کیونکہ ابھی میرے میں یہ سچ لکھنے کی ہمت نہیں ہے میں تو صرف اتنا ہی لکھوں گا کہ ہمارے کالم نگاروں اور تجزیہ نگاروں کو ہر خبر اور رپورٹ کا مکمل انیلیسز (analysis)کرنا چاہیئے اور پھر ضمیر کی آواز سن کر سچ لکھنا چاہیئے جس دن بھی میرے ہم وطن اور ہم دین بھائیوں نے وہی کچھ لکھنا شروع کردیا جو کہ زمینی حقائق ہیں اسی دن سے میں حالات حاضرہ پر لکھنا چھوڑ دوں گا اور پھر سے سماجی خدمت میں مصروف ہو جاوں گا۔
انشاللہ العزیز ! کیونکہ میں تو ایک سماجی کارکن ہوں اور میرا کام تو سوشل ورکر کا تھا مگر جب میں نے یہ دیکھا تھا کہ اردو لکھنے والے کالم نویس اور تجزیہ نگار پاکستانی عوام کو درست بات بتانے کی بجائے ہم کو الجھنوں (Confusion)میں ڈالے جا رہے ہیں تو میں نے اپنے قریبی، پرانے اور آزمودہ دوستوں کے کہنے پر کرنٹ افیئرز پر لکھنا شروع کردیا ہے۔ کیونکہ ان کی یہ بات میرے دل کو بھائی تھی کہ ملک بچے گا تو تم اپنے معاشرے کے تعلیمی سماجی معاشی اور معاشرتی مسائل حل کر لینا اور پھر جی بھر کر پاکستان کی خدمت بھی کر لینا۔ بلکہ کچھ دوستوں نے تومجھے یہ بھی کہا تھا کہ روز قیامت تیر ی اس بات پر پکڑ نہ ہو جائے کہ جس قدر تجھے علم تھا اس قدر تونے اپنی قوم کو کیوں کر آگاہ نہ کیا تھا ؟
آئیے ! اب ہم تجزیہ کرتے ہیں کہ ہمارے پاکستانی کالم نگار جو باتیں اپنے آرٹیکلز میں لکھتے ہیں وہ کس قدر حقیقت ہیں۔
امریکہ اپنی ذات میں ایک دنیا ہے اگر امریکہ اپنی سرزمین پر موجود اور زیر سمندر وسائل کو استعمال میں لائے تو آئندہ کئی سو سال تک ان وسائل میں کوئی کمی نہ ہوگی یہ بات مجھے ایک میرین لائف کے ماہر پروفیسر نے بتائی تھی ۔ اس نے لوزیانہ سٹیٹ کے دارالحکومت نیو آرلئینز سٹی (New Orleans City)سے باہر دریائے مسسسپی (Mississippi River)کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ دریا ہر سال جتنی زرخیزی بحیرہ میکسیکو (Gulf of Mexico)میں ڈال دیتا ہے اگر ہم صرف اس بحیرہ کے سمندری زندگی کے وسائل کو استعمال میں لائیں تو اس بحیرے سے حاصل ہونی والی سمندری غذا سے سارے امریکن پل سکتے ہیں۔
چلیں ! اب ہم دوسرے نقطے کی طرف چلتے ہیں ۔ امریکہ پاکستان کے راستے سنٹرل ایشین کنٹریز تک بذریعہ خشکی ایک راستہ بنانا چاہتا ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ روس ابھی بھی ایک پاور ہے ۔وسطی ایشائی ممالک تو اس کے زیر اثر ہیں اور آئندہ بھی زیر اثر ہی رہیں گے بلکہ میرا تجزیہ یہ ہے کہ ایک نہ ایک دن رشیا اپنی کھوئی ہوئی سابقہ منڈیاں یعنی کہ ایسٹرن یورپین کنٹریز کو ایک بار پھر سے اپنے زیر اثر کر لے گا ۔
آپ خود ہی بتائیں کہ جو ملک اس قسم کے توسیعی عزائم رکھتا ہو کیا وہ پسپائی اختیار کرے گا؟ اور خاموشی سے اتنے اہم خطے امریکہ کے حوالے کردے گا ؟
چین کے گرد امریکن گھیرے کا نظریہ تو اسی دن بحیرہ جاپان میں غرق ہوگیا تھا جس دم پہلی امریکن کمپنی نے چین میں سرمایہ کاری کی تھی اور اس اہم واقعہ کو وقوع پذیر ہوئے بھی آج بیس سال سے زائد عرصہ ہونے والا ہے ۔
میں یہ سوال کرتا ہوں کہ جس ملک میں فارن انویسٹمنٹ کا چالیس فیصد سرمایہ امریکہ کے سرمایہ داروں نے لگا یا ہو ا ہو اور اسی ملک سے امپورٹ کی گئی اشیاءکو ری ایکسپورٹ کرکے امریکن سرمایہ دار ہر سال کروڑوں اربوں ڈالر کماتے ہوں اسی ملک کا امریکہ گھیراو کرے گا؟ یاد رہے کہ چین کے تجارتی طور پر خودمختار شہر ہانگ کانگ میں بھی امریکہ کی ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ سرمایہ کاری کل دنیا کی سرمایہ کاری کا نصف سے زائد ہی ہے۔
امریکہ یہ خطہ چھوڑ کر کبھی بھی نہیں جانے والا ۔ بلکہ جلد ہی دنیا یہ دیکھ لے گی کہ امریکہ طالبان کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک لاکھ سے زائد باقاعدہ فوج افغانستان میں اکھٹی کرلے گا دیگر مغربی ممالک کی فورسز کوملا کر اور یہ جو مختلف اور طرح طرح کی پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنیوں کے اراکین ہیں ان کی تعداد کو جمع تفریق کرکے جب یہ تعداد دولاکھ سے اوپر چلی جائے گی تو امریکہ طالبان سے با مقصد مذاکرات کرے گا اور اسی دوران ہمارے ملک کی افواج پشتونوں کو اس بری طرح سے اور اس قدر تنگ کریں گی کہ پاکستان کے پشتون ہمارے سے علیحدٰہ ہونے میں اور افغانستان میں شامل ہونے میں ہی اپنی عافیت سمجھیں گے۔
یوں افغانستان میں کرزئی کی بادشاہت میں ایک امریکہ نواز حکومت بن جائے گی اور امریکہ نہایت ہی اطمینان اور سکون سے بلوچستان کا رخ کرے گا چونکہ جتنے بھی موثر اور محب وطن پرو پاکستان بلوچ لیڈر تھے ان کو مشرف نے شہید کروا دیا ہے باقی کا صفایا موجودہ دور میں فوج کر ہی ڈالے گی۔
یوں بلوچ عوام کی خواہشات کے خلاف ہمارے ڈگڈی لیڈر ایک دن امریکن مداری کے اشاروں پر ناچیں گے اور پھر گریٹر بلوچستان ۔۔ ۔خیر! یہ ایک لمبا موضوع ہے۔
بات سے بات نکل آئی ہے ۔ہمارے میڈیا کو اسلام آباد میں امریکن سفارت خانے کی توسیع اور بلیک واٹر کے قصوں میں الجھا دیا گیا ہے ۔ جب کہ میری اطلاع کے مطابق کچھ امریکن کمپنیوں نے لاہور میں دس بڑی پراپرٹیز کی ڈیل فائنل کی ہے جو کہ لاہور ڈیفنس سوسائٹی، لاہور چھاونی اور لاہور ائیرپورٹ کے نزدیکی علاقے میں واقع ہیں۔
اب آپ پوچھیں گے لاہور کے باقی علاقوں میں؟ میں کہوں گا کہ باقی علاقوں کی اہمیت کتنی ہے؟ یہ بات یاد رکھیئے کہ ہماری صوبائی اور وفاقی حکومتیں اس ڈیل کے بارے میں لاعلم نہیں ہیں ۔
کچھ طوطا صحافی ہمیں یہ سبق پڑھاتے رہتے ہیں کہ امریکہ انڈیا کو چائنا کے مقابلے پر طاقت بنانا چاہتا ہے اور اس کے مقابلے پر کھڑا کرنا چاہتا ہے ۔ میں کہتا ہوں کہ یہ سبھی صحافی لفافے لے کر ایسی گمراہ کن باتیں لکھتے ہیں تاکہ ہمارا دھیان بٹا رہے اور جب اسرائیل عرب ممالک کی طرف سے مسلم آبادی کو پیسنا شروع کرے تو اسی لمحے بھارت چکی کے دوسرے پاٹ کی طرح سے ہمیں درمیان میں رکھ کر پیس ہی ڈالے اور جب ہمارا خاتمہ ہو جائے تو اسپین کے غدار ابو عبداللہ کی طرح سے یہ لفافے اور طوطے لیڈر اور صحافی مگرمچھ کے آنسو بہائیں ۔
ملت کے غداروں کو یہ وعید ہو کہ ایسا کبھی بھی نہیں ہوگا کیونکہ ایک حدیث رسول ﷺ کے مطابق قیامت کی گھڑیوں تک اس ارض پر ایک ایسی مسلم جماعت ضرور بہ ضرور موجود رہے گی جو کہ فساد فی الارض کرنے والوں سے جہاد اور قتال کرتی ہی رہے گی۔ انشاءاللہ العزیز !!
جب میں نے امریکہ چھوڑا تھا تب تک جولی دوبیٹوں کی ماں بن چکی تھی ۔ پھر اگلے چار سال کے دوران اس نے ایک لڑکی اور ایک لڑکے کومزید جنم دیا تھا۔ پچھلے سال کی بات ہے کہ جولی نے مجھے ہانگ کانگ کے ایک ہوٹل میں بلایا تھا ۔جس سویٹ میں وہ اپنے خاوند اور دوبچوں کے ساتھ مقیم تھی اس کا ایک رات کا کرایہ اس فلیٹ کے دوماہ کے کرایہ کے برابر ہے جس فلیٹ میں میں آج کل رہتا ہوں ۔
جو منصوبہ اس نے اپنے بچوں کے بارے میں بیس برس قبل بنایا تھا وہ اس منصوبے پر حرف بہ حرف کام کر رہی ہے ۔اس کی بیٹی اور ایک بیٹا اسرائیل میں اس کے والدین کےساتھ رہتے ہیں جہاں پر بیٹی یہودیت کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہے اور بیٹا ایک فلسطینی مسلم استاد سے اسلام کی تعلیمات سے بہرہ ور ہورہا ہے ان دونوں کو اسرائیلی ہونے پر فخر ہے ۔ دوبیٹے اس نے اپنے ساتھ ہی رکھے ہوئے ہیں ۔ایک بیٹا واقعی کرسچیئن خیالات کا حامل ہے مگر اسرائیل کو برحق سمجھتا ہے اور سب سے بڑا بچہ گفتگو اور خیالات کے اعتبار سے لیبرل اور بے دین ہی لگتا تھا مگر وہ بھی اسرائیل کو برحق ہی سمجھتا تھا اور یہودیوں کو فلسطین کی سر زمین کا اصل حق دار۔
میں نے جولی سے پوچھا تھا۔ ہانگ کانگ تفریح اور سیر سپاٹے کے لیے آئی ہو ؟
کہنے لگی ۔اس وقت پوری دنیا ریسیشن (recession) کی حالت میں ہے اور دنیا کے تمام ممالک میں پراپرٹی باٹم لائن ٹچ (touched the bottom line) کر چکی ہے اور یہ موقع روز روز نہیں آئے گا کیونکہ جلد ہی امریکہ میں قیادت میں تبدیلی آنی والی ہے پھر(up & up) اپ ہی اپ ہے ۔
دراصل ہماری کمپنی چائنا میں پراپرٹی کی ایک بڑی ڈیل کرنے والی ہے پھر میرا ارادہ ہے یہ بھی کہ ہم چائنا میں ایک چھوٹی موٹی سی میڈیا کمپنی بنا ڈالیں تاکہ کل کلاں کو جب چائنا میں براڈکاسٹنگ کمپنی ایکٹ میں کوئی تبدیلی ہو تو ہماری کمپنی اس فیلڈ میں پائنیر(Pioneer) ہو۔
جب میں جولی کے پاس سے رخصت ہوا تھا تو میں یہ سوچ رہا تھا کہ یہ یہودی تو بہت ہی دوراندیش قوم ہے ۔جو قوم بھی اقتصادی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوتی ہے یہ اس کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا حصہ لینے کے لیے ان کی سگی بن جاتی ہے۔
بالفاظ دیگر ایک دن ایسا بھی آنے والا ہے جب سارا چین یہودیوں کی بات کو سنا کرے گا اور مسلمانوں کو کوسا کرے گا۔ اس کا نام تو جولی تھا مگر میں اس کو ویری جولی کہتاہوتا تھا۔اس کا باپ تو اشکانزی یہودی ہی تھا مگر ماں ایک لبنانی عیسائی تھی یوں دومختلف نسلوں اور رنگوں کے ملاپ سے خوبصورتی کا جو پیکر تیار ہوئی تھی اس پر کسی مرد کی نظر کم ہی ٹک سکتی تھی۔ اس کی اسی خوبصورتی کو مدنظر رکھ کر میں نے اس کو چڑیل کانام بھی دے دیا تھا۔ بھی بنا رکھی ہے اور وہ کسی سے ڈرے بغیر اور مرعوب ہوئے بغیر اپنی آواز کو ساری دنیا کے حق پرست اور امن پسند لوگوں تک پہنچائے جارہا ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس شخص کا تعلق بھی امریکہ کی ریاست لوزیانہ سٹیٹ سے ہی ہے اسی سٹیٹ میں کبھی میری ریزیڈنسی تھی اور جولی کی فیملی کا تعلق بھی اسی ریاست سے ہی ہے ۔
No comments:
Post a Comment