Sunday, August 16, 2009

ایران اور روم بالمقابل- - - -سچ تو یہ ہے۔





تحریر: خادم الاسلام و المسلمین، ڈاکٹر عصمت حیات علوی


بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم


نبی اکرم ﷺ کے بعثت کے دور میں معلوم دنیا میں دو بڑی تہذیبیں اور طاقتیں تھیں۔ایران اور روم ۔
یہی دونوںطاقتیں صدیوں سے آپس میں ہی ایک دوسرے سے نبرد آزما تھیں۔دونوں ہی اپنے وقت کی سپر پاورز تھیں اور ان کی آپس کی دشمنی بھی بہت پرانی تھی۔اتنی پرانی کہ ان کی دشمنی کی جڑیں رومیوں کی بت پرستی کے دور تک دراز تھیں۔ جب نبی اکرم ﷺ تشریف لائے تھے،تب تک رومی تو بت پرستی کو چھوڑ کر عیسائیت اختیار کر چکے تھے،مگر ایرانی ابھی بھی اپنے صدیوں ہزاروں سال قدیم مذہب زرتشت پر ہی قائم تھے۔اس قدیم مذہب میں سورج،چاند اور دوسرے بہت سارے مظاہر ِقدرت کے علاوہ آگ کی پوجا بھی کی جاتی تھی یوں بت پرست ایرانی عقیدے میں بت پرست کفارِ مکہ سے قریب تر تھے اور رومی عیسائی اگرچہ سو فیصد درست تو نہ تھے مگر چونکہ وہ ایک ایسے مذہب کے پیروکار تھے جو کہ ایک خالق ، تمام سابقہ انبیا کرام ،تمام سابقہ آسمانی کتب، روز قیامت ، حساب کتاب اور جنت دوزخ پر ایمان رکھتے تھے۔ اس لیے وہ مکہ کے اہلِ ایمان سے زیادہ قریب تر تھے،جو کہ نبی اکرم ﷺ پر ایمان لاچکے تھے اور ایک اللہ ، ایک دین روزقیامت اور تمام سابقہ آسمانی کتب کے ساتھ ساتھ تمام سابقہ انبیاءکرام کو بھی مانتے تھے۔یوں مکة المکرمہ میں ایک ایسا ماحول بن چکا تھا کہ بت پرست کفار مکہ خود کو ایرانی مشرکوں کا حلیف سمجھتے تھے جب کہ مسلمین عیسائیوں سے انسیت سی محسوس کرتے تھے،کیونکہ جن انبیاءاکرام اور کتب کو گمراہ رومی عیسائی مانتے تھے، ان سبھی انبیاءکرام اور کتب پر ایمان لانا مسلمین کے لیے بھی لازمی تھا۔

یہ بات تو طے ہے کہ آدم علیہ السلام سے لے کر نبی اکرم ﷺ تک تمام کے تمام انبیاءکرام دین اسلام ہی لائے تھے۔جس کے بنیادی اصول ہر نبی کے دور میں ایک ہی رہے تھے یعنی کہ ایک واحد ھو لاشریک ،ایک دین ، تمام کے تمام سابقہ انبیا ءاکرام، سابقہ آسمانی کتب، روز قیامت، پھر قیامت کے روزحساب کتاب اور نیکی کے صلے میں جنت اور برائی کے عوض دوزخ ملنے پر ایمان لانا،ہر نبی اور رسول کے امتیوں پر لازم ہوا کرتا تھا۔ بالفاظ دیگر ہر نبی اور رسول کے امتی بنیادی طور پر دین اسلام کے ہی پیرو کار ہوا کرتے تھے اور ان کا نام بھی مسلم ہی ہوا کرتا تھا۔

قرآن کریم میں متعدد آیا ت میں یہ بات وضاحت اور صراحت سے موجود ہے کہ سابقہ انبیا ءکرام پر ایمان لانے والی تمام کی تمام امتیں بنیادی طور پر مسلم ہی تھیں اسی طرح سے عیسیٰ علیہ السلام کے حواری اور انصار بھی مسلم ہی تھے یوں عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکار جب تک عیسیٰ علیہ السلام کی لائی ہوئی اصل تعلیما ت پر قائم رہے تھے تب تک تو ان کا دین دراصل دین اسلام ہی تھا مگر پھر وہ گمراہ ہو گئے تھے تو انہوں نے بت پرستی اپنا لی تھی اور ساتھ ہی تین خداوں یعنی کہ تثلیث کے قائل بھی ہو گئے تھے، تو دراصل انہوں نے دین اسلام کے اصولوں میں بنیادی تحریف کر دی تھی بلکہ انہوں نے فخر کے طور پر خود کومسلم کہلوانے کی بجائے عیسائی کہلوانا شروع کر دیا تھا تو ان کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہ رہا تھا نتیجتاً ان کا مذہب عیسائیت بن گیا تھا۔

تب اس دنیا کی راہنمائی کے لیے اللہ علیم و حکیم نے خاتم النبیین ﷺ کو مبعوث فرمایا دیا تھا تاکہ وہ دین اسلام کی تجدید فرمائیں ۔
جب اللہ حکیم و علیم نے نبی آخر الزمان صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا تھا تب ابتدا میں ان پر چند افراد ایمان لائے تھے اور ان میں بھی زیادہ لوگ مکة المکرمہ کے نادار غریب اور بے اختیار قسم کے لوگ ہی تھے۔وہ ابتدائی دور مسلمین کے لیے بہت ہی بھاری اور سختی کا دور تھا کیونکہ کفار مکہ کی مادی اور افردی قوت اور طاقت کے سامنے مسلمین کی طاقت نہ ہونے کے برابر تھی۔

ان کی اسی کمزوری کی بنا پر کفارمکہ مسلمین پر آئے دن جسمانی تشدد کرتے تھے اور مادی طور پر نقصان بھی پہنچاتے تھے۔ چونکہ مسلمین مغلوب تھے اس لیے کوئی بھی قابل ذکر طاقت ان کی حلیف یا مدد گار نہ تھی۔انہی دنوں ایک ایساواقعہ رونماءہوا تھا کہ اس واقعے کی آڑ لے کر کفار مکہ نے مسلمین کی ہمتوں کو مزید پست کرنے کی مہم چلائی تھی ۔وہ یوں کہ ایرانی افواج نے ایک فیصلہ کن جنگ کے بعد سن ۳۱۶ء(613AD) میں نہ صرف دمشق اور یروشلم کے علاقے رومی سلطنت سے چھین لئے تھے بلکہ اس سے اگلے برس وہ روم کے صوبے مصر پر بھی قابض ہوگئے تھے۔

ان فتوحات سے ایرانیوں کا حوصلہ اس قدر بڑھ گیا تھا کہ وہ رومی دارالحکومت قسطنطنیہ پر بھی قبضہ کرنے کی باتیں کرنے لگے تھے۔

سچ تو یہ ہے کہ دومتحارب اور برابر کی قوتوں کی طویل دشمنی کے دور میں ایسے مرحلے تو آتے ہی رہتے ہیں کہ کبھی ایک فریق غالب آجاتا ہے اور اپنے دشمن کے وسیع علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیتا ہے ۔پھر کچھ عرصے کے بعد مغلوب فریق ہمت باندھ کر بڑے عزم سے اٹھتا ہے تو نہ صرف اپنے پرانے کھوئے ہوئے علاقے واپس لے لیتا ہے بلکہ دشمن کے پایہ تخت کو بھی نیست و نابود کر ڈالتا ہے۔اس مرتبہ بظاہر مٹ جانے والا فریق اگر ہمت طاقت اور حکمت رکھتا ہے تو اپنی تباہ شدہ سلطنت کے کھنڈروں میں پل کر طاقت اور قوت کو دوبارہ سے حاصل کرنے کے بعد اپنے پیدائشی دشمن پر ایسا مہلک وار کرتا ہے کہ اس کو مغلوب بنانے والی قوم ایسی راہ فرار حاصل کرتی ہے کہ ماضی کی مغلوب قوم حال کی فاتح قوم بن جاتی ہے ۔


المختصر ! زندہ قوموں کی زندگی میں ایسے بڑے اور چھوٹے معرکے تو بپا ہوتے ہی رہتے ہیں اور بہادر اقوام ایسے معرکوں کو اپنی بقاءکی جدوجہدکے ابواب کا ایک معمول ہی سمجھتی ہیں۔اس لیے یہ بات تو طے ہے کہ ہزاروں سال سے ایک دوسرے سے برسر پیکار رومی اور ایرانی اس طویل عرصے میں سینکڑوں مرتبہ نہ سہی درجنوں مرتبہ تو ایک دوسرے کو ایسی ہی شکستیں دے چکے ہوں گے بلکہ ایسی ہار جیت تو ان کے بہادروں کا روز انہ کا کھیل اور زندہ رہنے کا بہانہ بن گئی ہوگی۔

دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس حقیقت کو مکّہ کے کسی بھی مشرک سردار نے اجاگر نہیں کیا تھا بلکہ الٹا رومی شکست کو ایک ایشو بنا ڈالا تھا تاکہ مسلمین کی ہمتیں پست کی جا سکیں۔ حالانکہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس زمانے میں نہ تو کفارمکہ کا ایرانیوں سے کوئی پیکٹ تھا اور نہ ہی مسلمین کا رومیوں سے کوئی معاہدہ تھا۔صرف بات اتنی سی تھی کہ اچھے اور نیک دل عیسائیوں کی طرح سے رومیوں کے بادشاہ نے بھی چند مہاجر مسلمین کو اپنے ہاں پناہ دے دی تھی اور ان مظلوموں کو ظالم کفار مکہ کے حوالے کرنے سے انکار بھی کر دیا تھا۔

کیوں نہ پہلے ہم اس وقت کی سپر پاورز کی جغرافیائی حدوں پر ایک نظر ڈال لیں تاکہ ہماری بات میں زیادہ دلچسپی پیدا ہو جائے !

رومی سلطنت کے تحت کچھ علاقے تو یورپ سے تھے ان یورپی علاقوں کے علاوہ ایشاء میں ان کی سلطنت کی حدود میں جو علاقے شامل تھے ان میں موجودہ دور کا پورا ترکی شام لبنان فلسطین بلکہ افریقہ کے موجودہ ممالک مصر اور سوڈان بھی رومی حکومت کے تحت ہی تھے۔ جبکہ ایرانی حکومت رقبے میں رومی سلطنت سے کہیں زیادہ وسیع تھی اس میں موجودہ بلوچستان ایران افغانستان اور موجودہ رشیئن فیڈریشن کے کچھ مسلم علاقے بھی شامل تھے پھرایران کا بادشاہ عراق پر بھی قابض تھا ۔اس لئے جب بھی دونوں قومیں آپس میں نبرد آزما ہوتی تھیں تو عراق اور شام کے علاقے ہی میدان جنگ بنا کرتے تھے۔ یوں ان کی سرحدیں عراق اور شام کے علاقوں میں اکثر آگے پیچھے ہوتی ہی رہتی تھیں۔

چونکہ جزیرہ العرب ایک وسیع ریگستان تھا اور غیر زرعی علاقہ تھا اس لیے دونوں ہی بڑی سلطنتوں نے جزیرة ا لعرب کے وسیع ریگ زار کو بے کار اور غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کیا ہوا تھا۔دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس علاقے پر نہ تو مشرق کی سپر پاور کا قبضہ تھا اور نہ ہی یہ خطہ مغرب کی سپر پاور کے تحت تھا یوں اس علاقے کے لوگ ہزاروں برس سے کسی بھی طاقت قوت اور تہذیب کے اثر و رسوخ سے نا آشنا ہی تھے اس لیے وہ نہ صرف آزاد منش اور بہادر تھے بلکہ کسی بھی دنیاوی طاقت سے غیر مرعوب بھی تھے یوں جزیرة العرب کے وسیع صحراو¿ں میں ایک ایسی جری اور بے خوف قوم پل رہی تھی جس نے مشرق اور مغرب دونوں کی تقدیر اور تہذیب و تمدن کو یکسربدل دینا تھا۔

اس دور میں ایران کو پارس پرشیہ یا پارشیاء کہا جا تا تھا ۔ چونکہ عربی زبان میں پ کا حرف نہیں ہے ۔اس لیے عرب پارس کو فارس کہا کرتے تھے اور پرشئین لینگویج کو فارسی کہتے تھے یاد رہے کہ ایران اور جزیرة العرب کے درمیان جو کھاڑی یا خلیج ہے اس کا پرانا قدیمی اور اصل نام خلیج فارس ہی ہے۔ جس کو اب عرب قوم پرست شط العرب کہنے پر مصر ہیں۔

اب جب کہ پرشیاءیا فارس نے رومیوں کو پے در پے شکستیں دیں تو کفارمکہ مسلمین کا مذاق اڑانے لگے تھے کہ اگر تمہارا واحد ھو لا شریک مختارکلی ہوتا تو وہ رومیوں کی مدد ضرور کرتا کیونکہ رومی بھی تمہاری طرح سے ہی ایک اللہ کو مانتے ہیں۔ دراصل اس نفسیاتی جنگ کے پس پردہ یہودیوں کا اور خاص طور پر یثرب کے یہودیوں کا سازشی ذہن کام کر رہا تھا کیونکہ وہ لوگ نبی اکرم ﷺ سے نسلی عداوت، بغض اور کینہ رکھتے تھے۔

یہ بات ذہن میں رہے کہ یہودی وہ قوم ہے جو کہ کسی بھی دوسری قوم کی وفادار نہیں ہے یہودی قوم کو جس قوم نے بھی اپنے ہاں پناہ دی ہے یا اپنے سینے سے لگا یا ہے ۔یہودیوں نے نہ صرف اس قوم کی جاسوسی کی ہے بلکہ اس محسن قوم سے غداری بھی کی ہے۔یہ قوم بڑی ہی سازشی ہے۔ جس قوم اور ملت کے ساتھ بھی یہودیوں کے روابط قائم ہوئے ہیں ان یہودیوں نے نہ صرف ان کی عورتوں کو ورغلایا ہے بلکہ اس قوم میں فحاشی اور عریانی بھی پھیلائی ہے۔ ان کی انہی کرتوتوں کی بنا پر ہر قوم نے تنگ آ کر ایک نہ ایک دن قوم یہود کو اپنے علاقے سے نکال باہر کیا ہے۔

اگر کسی کو قرآن کریم پر یقین نہیں آتا تو وہ خود ہی تا ریخ اٹھا کر دیکھ لے کہ یہ قوم کسی کی بھی وفادار نہیں ہے۔ جب رومی بت پرستی کیا کرتے تھے تب اس دور میں یہودی سلطنت روم میں نہ صرف اچھے اچھے عہدوں پر قابض تھے۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہودی قوم کے بیشتر افراد عورتوں کا دھندہ اور سودی کاروبار بھی کرتے تھے یوں اس دور میں بھی یہودی اثر و رسوخ والے ا ور دولت مند ہی تھے ۔ اس حقیقت سے تو سبھی آگاہ ہیں کہ جب عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل میں مبعوث کئے گئے تھے تب قوم یہود نے ان پر ایمان لانے کی بجائے ان کی بھرپور مخالفت ہی کی تھی۔حالانکہ وہ ان کے اپنے قبیلے کہ تھے یا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام یہودی نسل کے ایک فرد تھے ۔ اتنا قریبی تعلق ہونے کے باوجود گمراہ یہودی حق اور سچ کی مخالفت میں اپنی حد سے یوں گذر گئے تھے کہ انہوں نے سچ اور جھوٹ بول کر رومی حکام کے کان عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف بھرے تھے۔

دراصل یہ یہودی نسلاً ہوتے ہی اتنے چرب زبان ہیں کہ یہ ہر با اثر قوم کو کسی نہ کسی طرح سے اپنے شیشے میں اتار ہی لیا کرتے ہیں۔یہ سب یہودیوں کے سازشی ذہن اور چرب زبانی کا نتیجہ ہی تھا کہ فلسطین کے رومی حکام نے یہودیوں کے روز روز کے کہنے میں آ کر عیسیٰ علیہ السلام کو پھانسی دینے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ قر آن کریم میں اس واقعہ کا ذکر بڑے ہی خوبصورت الفاظ میں کیا ہے کہ کیسے ایک غدار کوعیسیٰ علیہ السلام کے شبہ میں پھانسی دے دی گئی تھی اور عیسیٰ علیہ السلام کو کوئی گزند نہ پہنچی تھی بلکہ اللہ مسبب الاسباب نے ان کو زندہ ہی آسمان پر اٹھا لیا تھا۔

جب اللہ کریم نے عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا تھا تب جا کر رومیوں پر یہ اصل حقیقت آشکارا ہوئی تھی کہ دراصل وہ اللہ کے ایک سچے نبی ہی تھے اس لیے رفتہ رفتہ سارے رومی عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے تھے۔ پھر کچھ صدیوں کے بعد رومیوں نے بھی باقی اقوام کی طرح سے تنگ آکر یہودیوں کی بری کرتوتوں کے سبب ان کو اپنی سلطلنت سے نکال باہر کیا تھا۔اس دور میں بہت سارے سود خور اور عورتوں کا دھندہ کرنے والے یہودی تو فارس چلے گئے تھے مگرجو یہودی اپنی کتاب تلمود تورہ یا توراة کا زیادہ علم رکھتے تھے وہ جزیرة العرب میں آکر بس گئے تھے تاکہ اس نبی کا شاندار استقبال کریں جس کے آنے کا دور قریب آن پہنچا تھا ،کیونکہ اس نبی کی متعدد بشارتیں یہود کی کتاب میں موجود تھیں ۔

دراصل یہودیوں کو تو یہی امید تھی کہ خاتم النبیین ﷺ بنو اسحاق کی کسی ایک ایسی شاخ میں جنم لیں گے جو کہ بکّہ (مکہ)کے قریبی علاقوں میں مقیم ہو گی۔ کیونکہ ان کی کتب میں یہی مذکور تھا کہ بشارتوں والا نبی بکّہ کے قرب میں پیدا ہوگا۔ مگر قوم یہود پر تو اس وقت بجلی گرپڑی تھی جب ان پر یہ حقیقت کھلی تھی کہ جس نبی کی آمد کے وہ بنو اسحٰق میں منتظر تھے وہ تو بنو اسمٰعیل میں پیدا ہوا ہے۔ اگر قوم یہود سمجھدار اور ایمان والی ہوتی تو وہ فوراً ہی نبی اکرم ﷺ پر ایمان لے آتی۔

مگر وہ تو ایک ضدی ہٹ دھرم اور متعصب قوم ہے۔اسی وقت قوم یہود کی نسلی عصبیت آڑے آئی گئی تھی اور انہوں نے محض اس لیے آپ ﷺ پر ایمان لانے سے انکار کر دیا تھا کہ وہ بنو اسحاق سے نہ تھے ۔ یہود تو اتنے بد بخت ہیں کہ تمام کی تمام نشانیاں ملنے کے باوجود آپ ﷺ پر ایمان نہ لائے تھے بلکہ الٹا آپ ﷺ کی مخالفت میں اس حد تک چلے گئے تھے کہ وہ کفارمکہ کے حلیف بن کر آپ ﷺ کو تنگ کرنے لگے تھے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ کچھ یہودی کاہنوں نے جو کہ اپنے مذہبی علوم کے علاوہ علم الاعداد پر بھی دسترس رکھتے تھے یہ حساب لگا لیا تھا کہ ان کی کتاب میں مذکو ر نبی ﷺ بنی اسمعیل یا قریش میں پیدا ہوگا ۔تب کچھ یہودی عورتوں نے یہ سوچا تھا کہ چلو باپ کی طرف سے نہ سہی ماں کی طرف سے تو وہ بشارتوں والا نبی ﷺ بنی اسحٰق سے ہونا چاہئے۔ اس لیے کچھ صاحب حیثیت یہودی عورتوں نے اسی ارادے سے مکة المکرمہ کا سفر بھی کیا تھا کہ وہ عبد اللہ بن عبدالمطلب سے نکاح کر لیں گی اور آنے والے نبی کی ماں کا اعلیٰ مقام حاصل کر لیں گی مگر جب تک وہ عورتیں مکة المکرمہ پہنچی تھیں ۔ تب تک عبداللہ بن عبدالمطلب کا نکاح آمنہ بی بی سے ہو چکا تھا اور نبی اکرم ﷺ کا نور اپنی والدہ محترمہ کے سپرد گی میں جاچکا تھا۔

کیونکہ اس سے قبل نبی اکرم ﷺ کے والد محترم عبداللہ کے ماتھے پر جو نور نظر آیا کرتا تھا وہ نور معدوم ہو چکا تھا۔ اس کا صاف مطلب تو یہی ہے کہ آسمانی فیصلے نہ تو ٹالے جا سکتے ہیں اور نہ ہی بدلے جا سکتے ہیں۔
یہودی ربی اور ان کے بااثر افراد اس حقیقت سے واقف تھے کہ مکة المکرمہ کے بنو ہاشم کے ایک سردار عبد المطلب کا پوتا ہی وہ جلیل القدر نبی ہے جس کی بشارتیں ان کی کتب میں دی گئی ہیں۔

اب ہونا تو یہی چاہئے تھا کہ وہ اپنی کتاب پر ایمان لا کر نبی ﷺ پر ایمان لے آتے یوں ان کو دنیا و عقبیٰ کی بھلائی اور فلاح مل جاتی ۔ مگر ان کو تو نسلی برتری کا گھمنڈ مار گیا ۔ کیونکہ وہ خود کو اس دنیا کی باقی تمام کی تمام نسلوں اور اقوام سے اعلیٰ اور برتر سمجھتے ہیں۔اسی نسلی برتری کے گھمنڈ میں انہوں نے دوسری قوم یا دوسرے قبیلے میں پیدا ہونے والے سچے نبی کو بھی جھٹلانے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔پھر انہوں نے نہ صرف نبی اکرم ﷺ کو جھٹلایا تھا بلکہ عملاً باطل کا ساتھ بھی دیا تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ یہودی ربی اور عالم ہی کفار مکہ کو طرح طرح کی پٹیاں پڑھایا کرتے تھے اور وہ جاہل کافر وہی رٹا رٹایا ہوا سبق مکة المکرمہ میں آکر ویسے ہی دہرایا کرتے تھے جیسے کہ ان کے استادوں نے ان کو پڑھایا ہوتا تھا ۔

جب رومیوں کو فارسیوں کے ہاتھوں شکست ہوگئی تھی تب بھی کفار مکہ کویہ پٹی یہودیوں نے ہی پڑھائی تھی کہ دیکھو ایک اللہ کو ماننے والے رومی متعدد خداوں کو ماننے والے فارسیوں سے ہار گئے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔کفار مکہ بھی اندھی دشمنی اور رقابت میں یہ حقیقت تک بھول گئے تھے کہ وہ خود بھی تو نسل در نسل صدیوں اور ہزاروں سال سے ایک اللہ کو مانتے چلے آرہے ہیں۔

یہاں پر ایک نقطہ بہت ہی اہم ہے اور قابل غور بھی ہے اور اسے محض ایک اتفاق نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ یہ ہمارے رب کے بیّن فیصلے ہیں۔سب سے اول یہ کہ نبی کریم ﷺ کی والدہ محترمہ کا گاوں یثرب کے قریب ہی واقع تھا۔ دوسرے جن یہودیوں نے آپ ﷺ کے خلاف کفار مکہ سے گٹھ جوڑ کرلیاتھا اور طرح طرح کے سوالات کرکے آپ ﷺ کو زچ کرنے کی ناکام کوششیں بھی کی تھی ۔وہ یہودی بھی یثرب اور اس کے گردونواح کے رہنے والے ہی تھے اور پھر بعد ازاں یہی شہر آپ ﷺ کا پایہ حکومت بنا تھا اور اس کا نام بدل کر مدینة النبی یعنی کہ نبی ﷺ کا شہر رکھا گیا تھا۔

ایک نقطہ اور بھی غور طلب ہے۔وہ یہ کہ مسلمین کی طرح سے کفار مکہ بھی اس بات کوتسلیم کرتے تھے کہ اس کائنات کا مالک اللہ ہی ہے اور پھر یہودی تو اہل کتاب ہونے کے ناطے بہت ساری ایسی باتوں پر ایمان رکھتے تھے جن پر مسلمین کا بھی پختہ ایمان تھا۔مگر جب یہ دونوں گروہ مسلمین کی ضد بازی میں عقل کے اندھے ہوئے تھے تو ایسے اندھے ہوئے تھے کہ وہ ان حقائق کو بھی جھٹلانے لگے تھے جن حقائق کو وہ اس سے قبل خود بھی مانتے چلے آ رہے تھے۔ اسی فعل کو سیانے اندھی دشمنی کہتے ہیں اور اندھی دشمنی کی بنیاد اندھی عصبیت ہوتی ہے اور اندھی عصبیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی شخص خاندان قبیلہ یا قوم خود کو نسلی یا عقلی طور پر دوسرے انسانوں سے افضل اور اعلیٰ خیال کرنا شروع کر دیتی ہے۔ جب کوئی شخص قبیلہ خاندان یا قوم خود کو باقی مخلوق سے افضل خیال کرنا شروع کردیتی ہے تو جس کو وہ حقیر خیال کرتی ہے اس پر طنز کے تیر بھی چلاتی ہے اور پھر اپنے گھٹیاطنز پر خوش بھی ہوتی ہے۔

بس کچھ ایسی ہی کیفیت یا صورت حال مکة المکرمہ میں اس دور کے کفار مکہ کی ہو چکی تھی۔ جب رومی قوم کو فارس والوں نے شکست دے دی تھی۔ تو ان دنوں کفار مکہ اپنے استادوں یعنی کہ یہودیوں کے کہنے پر ایک ایسی مہم سازی کر رہے تھے جس کو موجودہ دور میں نفسیاتی یا اعصابی جنگ کہتے ہیں اور جسے سائی وار یا میڈیا وار بھی کہا جا سکتا ہے۔

آپ ذرا تصور کی آنکھ سے دیکھیں ! کہ مظلوم اورمسکین مسلمین جن کا سہارا اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے سوائے کوئی اور نہیں ہے۔ جب کسی ذاتی کام کے لیے یا رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کرنے کی غرض سے اپنے گھروں سے باہر نکلتے ہیں تب سرداران مکہ انکے حواری اور ابن الوقت لوگ کیسی کیسی گھٹیا اور واہیات بکے جا رہے ہیں؟ اس بکواس کا واحد مقصد تو صرف یہ ہے کہ مسلمین جو کہ مسکین بھی ہیں اور غریب بھی ہیں ۔بے اختیار بھی ہیں اور بے سہارا بھی ہیں ۔ان کو مایوسی، شرمندگی اور ندامت میں مبتلا کر دیا جائے۔

یہودیوں کا یہ شعار کل بھی تھا اور آج بھی ہے کہ وہ ہمیشہ ہی کسی اور کو آگے کرکے اپنی دشمنی نکالتے ہیں ۔ یہودی ہمیشہ ہی دوسروں کے کندھے پر اپنی بندوق رکھواتے ہیں اور اپنے دشمن کا خاتمہ کرتے ہیں۔دوسرے یہ کہ یہودی پروپگنڈا وار کے شروع سے ہی ماہر ہیں جیسے پرانے زمانے میں کہتے ہوتے تھے کہ یہ عادت فلاں کے خون میں شامل ہے اور آج کل میڈیکل سائنس کی ترقی کے باعث یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فلاں کے جین کوڈ میں یہ خصلت موجود ہے یاہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہودی قوم نسل در نسل جھوٹ بولنے کی ماہر ہے اور یہ کہ پروپگنڈا وار اس کی فطرت میں رچا بسا ہے۔

یہ بات بھی دھیان رہے کہ مسلمین پر طنز کے تیر اس حقیقت کے باوجود چلا ئے جارہے تھے کہ نہ تو روم کے عیسائی بادشاہ سے بنی اکرم ﷺ نے کوئی معاہدہ کیا تھا ۔نہ ہی مسلمین نے رومیوں کی مدد کے لیے کوئی افرادی قوت روانہ کی تھی اور نہ ہی مسلمین کے کسی نمائندے نے قسطنطین کے بادشاہ کے حق میں کوئی بیان دیا تھا۔مگر اس حقیقت کے باوجود بھی کفار مکہ جو کہ دراصل یہودیوں کے ایجنٹ بن چکے تھے اور یہودیوں کی پراکسی وار (Proxy War) لڑ رہے تھے ان کا حال یہ تھا کہ وہ اپنے گھروں سے باہر جاتے اور گھروں کے اندر آتے، چوپالوں میں اٹھتے بیٹھتے،بازاروں میں کھڑے اور چلتے یہاں تک کہ کعبةاللہ کا طواف کرتے ہوئے بھی۔ ایک ہی فضول بکواس کئے جاتے تھے۔

ایمان والوں کی آزمائش کی ایک خاص حد مقرر ہوا کرتی ہے ۔پھر جب ایمان والے اپنے صبر وتحمل کی بدولت اپنی آزمائش کی اس خاص حد پر پہنچ جاتے ہیں تو اللہ عالم الغیب کی رحمت جوش میں ضرور آیا کرتی ہے اس مرتبہ بھی یہی کچھ ہوا تھا جب مکةالمکرمہ کے ایمان والے صبر کی ایک خاص حد پر پہنچے تھے ۔ تب سورة الروم کی ان آیات کا نزول مبارک ہوا تھا۔

بسم اللّٰہ الرحمٰن الر حیم ا لٓمّٓ غلبت الروم فی ٓ ادنی الارض وھم من بعد غلبھم سیغلبون
فی بضع سنین ط للّٰہ الامر من قبل ومن بعد ویو مئذ یفر ح المومنون

اس کاترجمہ یہ ہے ۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔الٓمٓ[۱] (اہل ) روم مغلوب ہوگئے [۲] نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آجائیں گے[۳] چند ہی سال میں پہلے بھی اور پیچھے بھی، اللہ ہی کا امر ہے اور اس روز مومن خوش ہو جائیں گے [۴]

لیجئے ! ان قرآنی آیات کے نزول کے معاً بعد ہی مسلمین مایوسی شرمندگی اور ندامت کے احساس تلے سے نکل آئے تھے۔ چونکہ ان کو اپنے قائد رسول کریم ﷺ کی ذات اقدس پر مکمل اعتماد اور پختہ یقین تھا اس لیے ان آیات کے نزول کے بعد وہ پورے اعتماد کے ساتھ اور بغیر کسی شر مندگی کے اپنے گھروں سے باہر نکلنے لگے تھے پھر جب ان کو یثرب کی جانب ہجرت کرنے کا حکم ہوا تھا تب بھی مسلمین نے مکمل اعتماد اور پورے یقین کے ساتھ ہجرت کی تھی۔

پھر جس سال کفار مکہ نے مدینة النبی ﷺ پر حملہ کیا تھا اس سال مسلمین کو دوہری خوشی ملی تھی ۔ایک تو یہ کہ مسلمین مومنین نے بدر کے مقام پر کفار مکہ کو ذلت آمیز شکست دی تھی اوردوسری یہ کہ اسی سال رومی فوجوں نے فارس کی افواج پر ایک بہت بڑی فتح حاصل کر لی تھی اور ان سے اپنے وہ تمام علاقے بھی واپس لے لئے تھے۔ جن پر فارس کی فوجوں نے پچھلی جنگوں کے دوران قبضہ کر لیاتھا۔

اب تقریبا ڈیڑھ ہزار سال کے بعد ایرانی اور رومی ایک بار پھر سے ایک دوسرے کے بالمقابل آچکے ہیں اور بظاہر حالات سے تو یوں دکھائی دیتا ہے کہ جلد ہی یہ پرانے دشمن ایک دوسرے سے نبرد آزما ہونے والے ہیں۔ اس نبرد آزمائی میں جو علاقے میدان جنگ بننے والے ہیں یہ تقریباً وہی علاقے ہیں جو کہ ڈیڑھ ہزار برس قبل بھی انہی دونوں متحارب طاقتوں کے میدان جنگ تھے ۔

اگر بہ نظر عمیق نہ دیکھا جائے تو بظاہر قومیں بھی وہی ہیں جو کہ آج سے ڈیڑھ ہزار برس قبل متحارب قوتیں تھیں۔مگر گہری نظر سے دیکھنے والے یہ حقیقت جانتے ہیں کہ ان کی حقیقی ہیت(فارمیشن) وہ نہیں ہے جو کہ آج سے ڈیڑھ ہزار سال قبل تھی کیونکہ اب کی بار یہودی قوم ایران کی بجائے روم کی پشت پر کھڑی ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس مرتبہ رومی قوم کو ایران کے بالمقابل یہودی قوم ہی لائی ہے۔اس کو بالمقابل کہنا بھی زیادتی ہی ہوگاکیونکہ اس مرتبہ رومیوں نے ایران کو نہ صرف خشکی پر گھیر رکھا ہے بلکہ سمندروں میں بھی اپنی افواج کو جمع کر کے انہوں نے ایران کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔

دوسرے اس مرتبہ عیسائی لشکروں نے نہ صرف زیادہ رقبہ گھیرا ہوا ہے بلکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ رومیوں کے حلیفوں میں وہ اقوام بھی شامل ہیں جو کہ آپس میں نہ صرف ایک دوسری قوم کی شدید مخالف ہیں بلکہ عملی طور پر اس وقت بھی اپنے اپنے مقام پر یا اپنے اپنے ممالک میں ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما بھی ہیں۔ زیادہ دور کیا جانا ؟

ہندوستان اور پاکستان کی مثال ہی لے لیں۔یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ایک طرف تو ہم ایران سے دوستی کا دم بھرتے ہیں تو دوسری طرف ہم ایران کے معاملے میں اندرون خانہ امریکہ کے ساتھ ہیں۔( بلوچستان میں جاری آزاد بلوچستان کی جنگ دراصل اس وسیع اور انوکھی جنگ کا ایک لازمی مرحلہ ہے اگر آزاد بلوچستان معرض وجود میں نہ آ سکا تو امریکہ ایران پر حملے کی جرات کبھی بھی نہیں کر سکے گا ۔)

اگر ہم اٹلس کی مدد سے عیسائی لشکروں کا پھیلاو دیکھیں تو ہماری عقل دنگ رہ جاتی ہے کیونکہ اس میںتو شرق تا غرب اور شمال تا جنوب دنیا کے تمام کے تمام ممالک عیسائیت کا ہی ساتھ دے رہے ہیں جیسے کہ بحرالکاہل میں واقع متعصب عیسائی اقوام از قسم نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا سے عیسائی افواج سے آرہی ہیں تو بحرالکاہل میں ہی واقع جاپان بھی اس جنگ میں ملوث ہے جو کہ ایک بدھ مت اکثریت کا حامل ملک ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ جنوبی کوریا بھی عیسائیوں کا حلیف بنا ہوا ہے جو کہ کسی بھی مذہب کا پیروکار نہیں ہے۔

ہمیں زیادہ حیرت تو اس وقت ہوتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ خفیہ طور پر کچھ بے دین ممالک بھی امریکہ کا ہی ساتھ دے رہے ہیں۔اس عیسائی رومی لشکر کی سب سے زیادہ حیرت گم کرنے والی بات یہ ہے کہ اس لشکر میں قوم پرست عربوں کے ساتھ ساتھ مذہب کے ماننے والے عرب بھی یہود یوں کے ساتھ ہیں۔

اس فارمیشن میں ایک بنیادی یا ریڈیکل تبدیلی یہ آئی ہے کہ ایران اب آتش پرست نہیں رہا ہے بلکہ اسلام قبول کر چکاہے۔

جی ہاں ! ایرانی اب اسی نبی ﷺ کے پیروکار ہیں ۔جس جلیل القدر نبی ﷺ کی مخالفت میں قوم یہود نے کفار مکہ سے گٹھ جوڑ کیا تھا اور آتش پرست ایرانیوں کی حمایت کی تھی۔ اب جب کہ ایرانی اس عربی النسل نبی ﷺ کے پیرو کار بن چکے ہیں تو اسی نبی اکرم ﷺ کی عداوت میں یہی یہودی رومیوں کی پشت پر جا کر کھڑے ہوچکے ہیں۔

کہنے کو تو یہودی روم کی افواج میں شامل ضرور ہیں۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ اس جنگ میں بہ نفس نفیس حصہ نہیں لیں گے بلکہ ہمیشہ کی طرح سے اور اپنے ماضی کی روایت کے عین مطابق دور دور رہ کر اس جنگ کی آگ کو بڑھکائیں گے اور للکار للکار کر ہر قوم کو اس جنگ کے اندر دھکیلیں گے یوں ہر سابقہ جنگ کی طر ح سے اس مرتبہ بھی میدان جنگ کا ایندھن دوسری اقوام ہی بنیں گی اور یہودی نسل کے لوگوں کی اکثریت جو کہ اشکانزی یا بنیادی طور پر آرین نسل سے ہیں اس جنگ میں بھی بڑے جانی نقصان سے بچی ہی رہے گی۔

اس جنگ میں ہر قوم حصہ لے گی کوئی ظاہراً اور کھلم کھلا اور کوئی خفیہ اور اندرون خانہ ۔ یہ جنگ اتنی اہم ہوگی کہ ہر قابل ذکر طاقت کو اس میں ملوث ہونا ہی پڑے گا۔ کیونکہ یہ جنگ رومی جیتیں یا ایرانی جیتیں۔ اس جنگ کے اختتام پر اس دنیا کے نقشے نے ایک نیا رنگ اور نیا روپ اختیار کرنا ہی ہے یوں ہر ایک بڑی قوت اور طاقت یہ چاہے گی کہ اس دنیا کی قسمت کا فیصلہ وہ ہی کرے ۔اب اللہ علیم و حکیم ہی جانیں کہ کون کھل کر سامنے آئے گا اور کون چھپ چھپا کر اس کھیل میں شریک ہو گا؟ مگر ایک بات تو طے ہے کہ روس یہ چاہے گا کہ یہ جنگ زیادہ سے زیادہ طوالت اختیار کرے اور انجام کار یہ جنگ تین ویٹو پاورز کے لیے ایسی دلدل بن جائے جیسے کبھی روسی ریچھ کے لیے افغانستان بن گیا تھا ۔

اسی لانگ ٹرم پلاننگ کو اپنے ذہن میں رکھ کر روس نے برسوں قبل ہی لاطینی نسل کے جنوبی امریکن ممالک کو نیوٹرل رکھنے کی کوششوں میں مکمل کامیابی حاصل کرلی ہے۔ کیونکہ اوّل تو اس نے اتحادیوں سے اپنی افغانستان والی شکست کا بدلہ لینا ہے۔ دوئم اس نے یورپ میں اپنی برتری ایک مرتبہ پھر سے قائم کرنی ہے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ روس کو اقتصادی اور مادی ترقی کرنے کے لیے اور پھر اسے ہمیشہ کے لیے برقرار رکھنے کے لیے ایک کھلی منڈی درکار ہے جہاں پر اس کی گیس اور دیگر مصنوعات کی کھپت بلا روک ٹوک ہوتی ہی رہے ۔

جب سے پیوٹن برسر اقتدار آیا ہے روس کی نظریں ایک بار پھر سے ایسٹ یورپ پر لگی ہوئی ہیں۔

کیا روس اس جنگ میں عملاً حصہ لے گا ؟

نہیں بالکل ہی نہیں ۔کیونکہ دوسری جنگ عظیم میں اور پھر افغان وار میں روسی قوم کی اتنی شدید قسم کی نسل کشی ہوئی ہے کہ روسی نسل باقی نسلوں کی بہ نسبت بڑھنے کی بجائے کم ہوئی ہے۔ اس لیے آئندہ سو سال تک روسی کسی بھی جنگ میں عملاً حصہ لینے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔روسی اس جنگ میں دوغلی پالیسی اختیار کریں گے وہ یوں کہ ایک طرف تو وہ یورپی اقوام کو اپنا تیل اور گیس مہنگے داموں فروخت کر کے اپنی اکانومی مضبوط بنیادوں پر نئے سرے سے استوار کریں گے تو دوسری جانب ایران کو اپنی لیٹسٹ وار ٹیکنالوجی بیچ کر دام بھی اکٹھے کریں گے اور اس کے عملی استعمال کے بعد عملی تجربات کی روشنی میں اپنی اسلحہ ٹیکنالوجی میں بہتری بھی لائیں گے۔

چین بھی اس جنگ میں نیوٹرل رہنے کا ڈرامہ رچائے گا مگر اندرون خانہ اس کی یہی کوشش ہوگی کہ جب اس جنگ کا خاتمہ ہو تو دونوں فریق عملاً تباہ ہوچکے ہوں ۔اگر نہیں تو پھر اتنے کمزور ہوچکے ہوں کہ دونوں مخالف گروہوں کی مجموعی قوت اور طاقت چین کی طاقت سے کم ہی ہو۔دراصل بات یہ ہے کہ اگراس فیصلہ کن جنگ کے اختتام پر رومی یا ایرانی طاقتوں میں سے کوئی ایک فریق بھی طاقتور رہ گیا تو چین کے لیے خسارہ ہی خسارہ ہے۔

جیسے کہ توقع یہ کی جارہی ہے کہ رومی جیت جائیں گے کیونکہ ان کے پاس ظاہری اسباب کی کثرت ہے۔ رومی اگر یہ معرکہ جیت گئے تو وہ اپنی جیت اور برتری کے نشے میں چین کو مذہبی آزادی کا ایجنڈا تسلیم کرنے پر مجبور کردیں گے ۔جب چین میں مذاہب کو تبلیغ کی آزادی میسر آئے گی تب عیسائی تو کھلم کھلا عیسائیت کی تبلیغ کریں گے ہی مگر ساتھ ہی ساتھ اس صورت حال کا فائدہ چین کے علاقے سن کیانگ کے اوگر (یغور) بھی اٹھائیں گے اور اول اول تو وہ اسلامی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ لے کر اٹھیں گے اور پھر کچھ عرصہ بعد وہ نیم خودمختاری یا مکمل خودمختاری کا اعلان بھی کرسکتے ہیں ۔ کیا چین معدنی وسائل سے مالا مال اپنے کل رقبے کے ایک تہائی سے دست بردار ہوجائے گا ؟ جس کی آبادی تو کشمیر سے کم ہے ۔ جب کہ رقبہ انڈیا سے بڑا ہے ۔

کچھ مبصرین یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر یہ جنگ طوالت اختیار کرتی ہے تو ایران یقیناً یہ جنگ جیت جائے گا ۔ایران کے فاتح ہونے کے لیے وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ اس طویل جنگ میں ایران اکیلا نہیں رہے گا کیونکہ ساری دنیا میں جہاں کہیں بھی شیعہ آبادی موجود ہے ان میں سے ستر فیصد شیعہ آبادی دل وجان سے ایران کی حامی ہے ۔

یہی مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ کچھ اعتدال پسند سنی اور ملی ٹینٹ بھی ایران کے ساتھ ہی ہیں یوں ساٹھ فیصد مسلم آبادی اس جنگ کے دوران ایران کا ساتھ ضرور دے گی اور اس طویل جنگ میں گوریلا کاروائیاں کچھ زیادہ ہی ہوں گی ۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ صورت حال کچھ یوں ہے کہ اس وقت اسلامی دنیا کی جتنی بھی گوریلا تنظیمیں عملی طور پر موجود ہیں اور عملاً کام بھی کر رہی ہیں سبھی کی سبھی ایران کی حامی ہیں قطع نظر اس بات کے کہ ان تنظیموں کا تعلق سنیوں سے ہے یا پھر شیعوں سے ہے۔

اگر ہم ان مبصرین کی سنیں تو ہمیں یوں لگتا ہے کہ اس طویل جنگ کے خاتمے پر ایران فتح یاب ہو ہی جائے گا۔

ایران کے فاتح ہونے کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ کشمیر میں گوریلا وار ایک نئے عزم سے شروع ہوجائے گی اور چونکہ اس مرتبہ اس گوریلا وار کی حمایت ایران کر رہا ہوگا تو یہ جنگ اپنے مقاصد کے حصول تک جاری رہے گی۔ کشمیرکی آزادی کے بعد ان کے پڑوس میں بیٹھی ہوئی مسلم آبادی اوگر یا یغور بھی ان کی تقلید میں مسلح جدو جہد کا راستہ اپنائے گی ۔یہ صورت حال چین کو تو بالکل ہی منظور نہیں ہو گی۔

پھر اسلام ازم کی تحریک جنگل کی آگ کی طرح سے پھیلتی ہوئی ازبکستان تاجکستان کرغیزستان کے راستے سے ہوتی ہوئی چیچنیا (شیشان) تک چلی جا ئے گی۔

صاف ظاہر ہے کہ روس بھی ایسی جنگ بالکل ہی نہیں چاہے گا کہ جس جنگ کے خاتمے پر اس کے اپنے خاتمے کی شروعات ہو جائے۔ نہ ہی چین کسی ا یسی جنگ کا متمنی ہے ۔جس کے نتیجے میں اس کو اپنے قیمتی خطے کھونے پڑیں ۔بنیادی طور پرتو چین اس وقت پوری دنیا میں امن ہی چاہتا ہے ۔کیونکہ جب تک دنیا میں امن موجود ہے چین اقتصادی اور مادی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہی رہے گا ۔جس دن بھی مشرق وسطیٰ میں ایرانی اور رومی افواج کے درمیان پہلی گولی چلی اسی دن کروڈ آئیل کی سپلائی ڈسٹرب ہوجائے گی اور پھر چین جاپان جنوبی کوریا اور دیگر آرسین ممالک کی اکانومیز دھڑام سے نیچے آ گریں گی ۔ کیونکہ جنگ کے شروع ہوتے ہی کھلونوں کی ڈیمانڈ بند ہوجائے گی اور اسلحہ کی ڈیمانڈ شروع ہوجائے گی۔

اسلحہ کی ڈیمانڈ کے ساتھ ہی امریکن اسلحہ ساز فیکٹریوں کو دن رات کام کرنا پڑے گا ۔جوں جوں جنگ طول پکڑے گی توں توں امریکن فیکٹریاں کھلتی چلی جائیں گی اور امریکن اکانومی کو بوسٹ ملتا جائے گا یہی اکانومی بوسٹ ہر امریکن کو جاب بھی دلوائے گا تب دوران جنگ امریکن صدر اپنی قوم سے خطاب کرکے کہے گا کہ آج ہم نے ہر امریکن کو مستقل اور لائف لانگ جاب دلوانے کا اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے۔

کیا اوبا ما ایک لمبی جنگ چاہتا ہے ؟

یہ تو پتہ نہیں ہے کہ اوباما کے دل و دماغ میں کیا ہے؟ مگر اس کے کنگ میکرز کو تو ایک طویل اور وسیع جنگ کی تمناءہے ۔ کیونکہ قوم یہود کا یہ عقیدہ ہے کہ جب تک ایک بڑی جنگ آرمیگاڈو ن (ہر مجرون) بپا نہیں ہوگی مسیح موعود تشریف نہیں لائیں گے۔ اس بڑے پیمانے پر ہونے والی جنگ جس میں مسلم قوم کی ایک تہائی آبادی شہادت کے رتبے پر فائز ہوگی احادیث ﷺ میں اس جنگ کو ام الحرب بھی کہا گیا ہے۔

قوم یہود اور ان کے حواری ایونجیکل عیسائی اس جنگ کے دل وجان سے متمنی ہیں اور ان کی قلبی خواہش یہی ہے کہ یہ جنگ جلد از جلد شروع ہوجائے۔اسی لیے وہ ہیلری کلنٹن کو سینٹ سے نکال کر سینٹر میں لائے ہیں ۔
کچھ مبصرین ہیلری کو پوشیدہ یہودن کہتے ہیں اور جو تجزیہ نگار اس کو عیسائی ہی سمجھتے ہیں وہ بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہیلری اوباما سے زیادہ طاقت ور ہے۔
اس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ ہیلری کو سینیٹر بنوانے والے یہودی ہی تھے اور اس کو فارن منسٹری میں بھی لانے والے وہی ہیں ویسے یہ بات دل کو لگتی ہے کیونکہ جب ہم یہ تجزیہ کریں کہ نیویارک کی جس سیٹ سے ہیلری سینیٹر بنی تھی اس علاقے میں یہودیوں کا اثرورسوخ سب سے زیادہ ہے تو ہمیں یہ بات ماننے میں کوئی تردد نہیں کرنا چاہئے کہ ہیلری یہودیوں کی نمائندہ ہے۔

یہی یہودی اب ہیلری کو ایسی جگہ پر لے آئے ہیں کہ اوباما چاہے یا نہ چاہے فارن افیئرز یہودیوں کے کنٹرول سے باہر نہیں جائیں گے ۔
یورپ اور امریکہ سے تعلق رکھنے والے مسلم تجزیہ نگاریہ بات ا کثر کہتے ہوتے ہیں کہ جب یہودیوں نے کسی مسلم نیشن کو ذلیل کرنا ہوتاہے تو اس ملک سے متعلق اس اہم سیٹ پر کسی متعصب عورت کو لے آتے ہیں۔اب بظاہر تو ہمارے سامنے ایک عورت ہی ہوتی ہے جو کہ ساری دنیاکے سامنے ہمیں برا بھلا کہتی ہے اور دنیا کے ہر فورم پر سرعام ہماری توہین بھی کرتی ہے۔دیکھنے والے یہ نہیں سمجھتے کہ پورا ملک اور پورا سرمایہ دارانہ نظام اس عورت کے پیچھے ہے اس لیے کوتاہ نظر لوگ یہی کہتے ہیں کہ دیکھو! صرف ایک عورت نے ایک مسلم کنڑی کو آگے لگایا ہوا ہے۔

آپ خود ہی دیکھ لیں کہ شمالی کوریا ایٹمی دھماکہ بھی کر چکا ہے اور لونگ رینج میزائیل بھی چلا چکا ہے پھراس کا لہجہ بھی سخت ہی ہے مگر چونکہ وہ ایک غیر مسلم ملک ہے اس لیے ہیلری کا خاوند باقاعدہ بہ نفس نفیس خود گیا ہے اور نجانے کیا معاہدہ کرنے کے بعد دو صحافی عورتوں کو رہائی دلوا بھی لایا ہے۔اندرون خانہ کیا ہوا ہوگا ؟

جو تجزیہ نگار امریکن نفسیات سے واقف ہیں ان کو سب اندازہ ہے کہ بات کس طرح طے ہوئی ہوگی اور کیا کیا کچھ لین دین بھی کیا گیا ہوگا؟ کل کلاں کو جب شمالی کوریا اسی ٹیکنالوجی کو دنیا کے سامنے لائے گا تو اپناقصور تسلیم کرنے کی بجائے امریکہ اور یورپ والے سارا الزام ہمارے ڈاکٹر قدیر خان پر لگا دیں گے کہ یہ ٹیکنالوجی پاکستان نے فروخت کی ہے ۔اسے کہتے ہیں چوری اور سینہ زوری۔

بات ہورہی تھی قوم یہود کی جو کہ رومی لشکر کو انسٹی گیٹ(Instigate) کرنے کے معاملے میں تو پیش پیش ہیں مگر وار فرنٹ پر سب سے پیچھے ہیں۔یہ ہمیشہ ہی ایسا ہی کرتے ہیں۔اس قوم کی دور رسالت ﷺ کی سازشوں کا حال پڑھ لیجیے ۔یہ اسی طرح سے دوسری اقوام کو اپنی دشمن قوم کے خلاف بڑھکاتی ہے اور پھر اپنے فریبی ہتھکنڈوں کے ذریعے سے اسے ایسا بےوقوف بھی بناتی ہے کہ وہ احمق قوم اپنی ساری کی ساری صلاحیتیں یہود کی دشمن قوم کے خلاف جنگ کی بھٹی میں جھونک دیتی ہے اور اس جنگ کے نتیجے میں خود تباہ وبرباد بھی ہو جاتی ہے ۔ اس تباہی کے بعدیہ عیار اور مکار قوم اس تباہ شدہ قوم کو چھوڑ چھاڑ کر کسی اور قوم کو تباہ و برباد کرنے کے واسطے کسی دوسری خوشحال قوم کی حلیف بن جاتی ہے۔

اب جب کہ قوم یہود نے اپنی چرب زبانی اور مکر و فریب، عیاری اور چالاکی سے یورپ اور امریکہ کے رومیوں کو ایران کے بالمقابل لا کھڑا کیا ہے اب ا گر رومی کسی مرحلے پر جنگ وجدال سے فرار حاصل کرنا بھی چاہیں گے تو بھی قوم یہود ان کو فرار حاصل نہ کرنے دے گی بلکہ دونوں کا تصادم کروائے بغیر دم نہ لے گی کیونکہ قوم یہود نے اس جنگ کی تیاری عشروںسے کر رکھی ہے اور اس بڑی جنگ کا آغاز ان کی مذہبی خواہش بھی ہے۔

امریکہ اور اس کے اتحادی یہ چاہتے ہیں کہ یہ جنگ سات منٹ سے لے کر سات گھنٹے کے دورانئے میں ختم ہوجائے۔ کیونکہ یہ جنگ جتنی جلدی اور سرعت سے مکمل ہوگی، امریکہ کا اتنا ہی بھلا ہے۔

روسی یہ چاہتے ہیں کہ یہ جنگ دو تین عشرے جاری رہے تاکہ سرمایہ دار ممالک کا بھرکس نکل جائے۔

ایرانی یہ چاہتے ہیں کہ وہ جنگ کو دس سے پندرہ یوم کے اندراندر ایران کے حق میں فیصلہ کن انداز میں ختم کر لیں۔

یہودی اور ایونجیکل عیسائی یہ چاہتے ہیں کہ اس جنگ کی وسعت میں پوری دنیا آجائے اور پھر اس جنگ کی مدت اتنی دراز ہو کہ یسوع مسیح کی آمد کے بعد وہ دنیا کے مالک بن جائیں۔

ایک سوال یہ بھی پوچھا جاتا ہے کہ یہ جنگ کب شروع ہوگی؟ گہرا تجزیہ کرنے والے کہتے ہیں کہ دس برس سے سو برس کے اندراندر یہ جنگ شروع ہو سکتی ہے۔ کچھ تو اس سے بھی لمبی مدت کا تعین کرتے ہیں۔

کچھ لوگ یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ اس جنگ کا انجام کیا ہوگا ؟

مادی اور انسانی وسائل پر بھروسہ کرنے والوں کی آراءمختلف بھی ہیں اور بعض صورتوں میں متضاد بھی ہیں۔ مگرایمان والے کہتے ہیں کہ رب کائنات اس جنگ کا فیصلہ قرآن کریم میں فرماچکے ہیں۔اس لیے قرآن مجید پڑھ لیں اور رب ارض و سمٰوٰت کے فیصلے کو خود ہی پڑھ لیں اور پھر وہ سورة الروم پڑھنے کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔

لیجیے ہم ایک مرتبہ پھر سے سورة الروم کا ہی مطالعہ کرتے ہیں

بسم اللّٰہ الرحمٰن الر حیم ا لٓمّٓ غلبت الروم فی ٓ ادنی الارض وھم من بعد غلبھم سیغلبون
فی بضع سنین ط للّٰہ الامر من قبل ومن بعد ویو مئذ یفر ح المومنون

کیوں نہ ہم اس کا تر جمہ دوبارہ سے پڑھ لیں !

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ۔ الٓمٓ [۱] (اہل ) روم مغلوب ہوگئے [۲] نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آجائیں گے[۳] چند ہی سال میں پہلے بھی اور پیچھے بھی، اللّٰہ ہی کا امر ہے اور اس روز مومن خوش ہو جائیں گے [۴]

بظاہر الفاظ سے تو یہی لگتا ہے کہ جب بھی ایرانی اور رومی آپس میں لڑیں گے ۔ فائنل راونڈ رومی ہی جیتیں گے ۔مگر یہ بات یاد رکھیے کہ رومیوں کی فتح مشروط ہے ۔اگر تو رومی اس شرط کے تقاضوں کو پورا کریں گے تو فائنل راونڈ وہی جیتیں گے ورنہ کبھی بھی نہیں۔

تو ایک مرتبہ پھر سے ہم اس کی ایک ایک آیت کا ترجمہ پڑھتے ہیں اور اس شرط کو تلاش کرتے ہیں۔

(اہل ) روم مغلوب ہوگئے [۲]
نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آجائیں گے[۳]
چند ہی سال میں پہلے بھی اور پیچھے بھی، اللّٰہ ہی کا امر ہے۔ اور اس روز مومن خوش ہو جائیں گے [۴]

جی ہاں ! یہی تو شرط ہے۔ دیکھیں ! میرے حکمت والے رب اللہ علیم و حکیم بڑے ہی نرالے ہیں ۔

بڑے بڑے فیصلوں کا اختیار مومن کے خوش ہونے سے مشروط کرتے ہیں وہی مومن جو دنیا والوں کی نظروں میں حقیر اور چھوٹے ہیں۔اسی کو تو اللہ مختار کل کا امر کہتے ہیں۔
مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا ہم مومن ہیں بھی کہ نہیں ہیں ؟ اگرہم ان چار آیات کو باربار پڑھیں تو لگتا یہی ہے کہ اگر ہم مومن ہونے کی تمام شرائط کو پورا کردیں گے تو اللہ کا امر یقینا ہمیں خوش کردے گا۔

بے شک میرا رب تو سچا ہے ۔


No comments:

Post a Comment