تحریر: خادم الاسلام والمسلمین، ڈاکٹر عصمت حیات علوی
بسم اللّٰہ الرحمٰن الحیم ہ
پاکستان سے باہر یعنی کہ بیرون ملک پاکستانی افراد کی دو اقسام ہیں۔پہلی قسم میں پاکستانی پاسپورٹ رکھنے والے لوگ ہیں جوکہ با لعموم شرمندہ شرمندہ سے نظر آتے ہیں۔حالانکہ یہ شرمندگی کی بات بالکل ہی نہیں ہے۔
بلکہ میں تو ذاتی طور پر سمجھتا ہوںکہ یہ فخر کی بات ہے کہ ہم اپنے پیارے وطن کے اوّل درجے کے شہری ہیں۔
دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو کہ کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے پاسپورٹ ہولڈر ہوتے ہیں۔غیرملکی پاسپورٹ کا ہونا کوئی برائی کی بات نہیں ہے۔ جو شخص جس مملکت میں کوئی پیدا ہوا ہے اس ملک کی شہریت رکھنا اس فرد کا پہلا حق ہے۔ مگر برائی تو اس شخص کے ذہن میں ہوتی ہے ،کہ میں ایک برتر قوم کا فرد ہوںاور جب ایسے لوگ پاکستان میںقدم رنجہ فرماتے ہیں تو یوںپوزکرتے ہیں جیسے کہ وہ اولاد فرعون ہیں۔ ان کا رویہ ہمارے ملک کی امیگریشن اور کسٹمز سے توہین آمیز ہوتا ہے۔
حالانکہ اسی مغربی ملک کے اصل باشندے ہمارے آفیسرزکے ساتھ اخلاق سے بات کرتے ہیں،جس ملک کا پاسپورٹ لیکرہمارے جیسی شکل و صورت والے پاکستانی حضرات کی گردنوں میں سریا آ جاتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ جب ہم لوگ خود ہی بد اخلاقی کے مرتکب ہو رہے ہوںتو اپنے سامنے والے سے تعریفی الفاظ کی توقع ہرگز نہیں رکھنی چاہیے۔ اخلاق ایک مسلم کا شعارہوتا ہے۔ مگر ہم لوگ اس سے یکسر محروم ہو چکے ہیں۔ کیونکہ ہم نے دین اسلام کی تعلیمات سے اپنا منہ یکسر پھیر لیا ہے۔جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم ایک انتہائی بد اخلاق قوم بن چکے ہیں۔
یہ ایک انسانی فطرت ہے کہ ہر شخص اپنی عزت چاہتا ہے اور یہ اس کا بنیادی حق بھی ہے کہ اس کی عزت کی جائے اور اس شخص کی تو زیادہ عزت کی جانی چاہئیے جو کہ کسی بھی مملکت کے سرکاری شعبہ کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے۔اگر ہم لوگ ایسے افراد کے ساتھ عزت اور اخلاق سے پیش آئیں ،جو کہ امیگریشن یا کسٹم کی وردی پہنے ہوئے ہیں۔یہ تو ان کا بنیادی استحقاق ہے۔
کیونکہ وہ پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں،ان کی عزت بڑھانا تو دراصل پاکستان کی عزت بڑھانے کے مترادف ہے۔
اگر امیگریشن والے ہمارے کاغذات کی جانچ پڑتال کر رہے ہیں یا کسٹم والے ہمارے سامان کی تلاشی لے رہے ہیں ،
در اصل وہ تواپنے فرض کی ادائیگی کر رہے ہیں اور پھر ان کو تنخواہ بھی تو اسی فرض کو ادا کرنے کی دی جاتی ہے۔ہمیں غم و غصہ
کا اظہار تو اس وقت کرنا چاہیے،جب وہ اپنے فرائض سے غفلت کر رہے ہوں نہ کہ اس وقت جب کہ وہ اپنا فرض ایمان داری سے نبھا رہے ہوں۔
ہمیں یہ حقیقت اپنے ذہن میں رکھنی چاہیے کہ بعض اوقات کاغذات کی جانچ پڑتال میں یا سامان کی تلاش کے دوران وقت لگ ہی جایا کرتا ہے۔ایسے میں جزبز ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ ایسے مواقع پر تحمل اور بردباری سے کام لینا چاہیئے۔
دو واقعات میرے ذہن میں آ رہے ہیں۔وہ آ پ کی نظر کرتا ہوں۔
جب میں امریکہ سے پہلی باروطن لوٹا تھا، تو میرے پاس صرف کتب تھیں ۔اس لئے میں گرین چینل سے نکلا تھا۔ظاہر ہے کہ آنے والوں پر نظر رکھنے کے لئے وہاں پر کوئی نہ کوئی کسٹم انسپکٹرضرور ہوتا ہے۔ سو تھا۔ اس لئے اس نے مجھے روک لیا تھا۔
سبھی جانتے ہیں کہ ان دنوں امریکہ اور کینیڈا سے آنے والی فلائیٹس کے مسافروں کے پاس بہت بڑے بڑے سوٹ کیس ہوا کرتے تھے۔ اگر کوئی مسافر کہے کہ ان میں صرف اور صرف کتابیں ہیں،یہ بات توعقل سے بعید ہی لگتی ہے ۔ اس لئے میری بات سن کر کسٹم انسپکٹر مجھے کہنے لگا، بھائی صاحب ! ! ان کو تو کھولنا پڑے گا۔
میں نے اس سے بحث کرنے کی بجائے بلا چوں وچراں لاک کھول دئیے تھے اور پھر سوٹ کیس کی زپ بھی کھولنے کے بعد اس کو کتابیں بھی دکھا دی تھیں۔اس انسپکٹر نے محض دیکھنے پر ہی اکتفاءنہ کی تھی بلکہ ایک ایک کتاب اٹھا اٹھا کر ورق ورق کھول کردیکھنی شروع کر دی تھی۔ میںنے بے صبری یا بدتمیزی کامظاہرہ کرنے کی بجائے، اس کی مدد کرنی شروع کر دی تھی،وہ ایسے کہ کتابیں اٹھا اٹھا کر اسے پکڑانی شروع کر دی تھیں۔
دو بکس کتابیں ۔آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ ان کو ایک ایک کرکے دیکھنے میں اور پھر واپس رکھنے میں کتنا وقت لگا ہو گا ؟
میں نے اسے پرسنل نہیں لیا تھااور نہ ہی اس انسپکٹر سے کوئی بد اخلاقی کی تھی۔ رخصت ہوتے ہوئے نہ صرف اس سے ہاتھ ملایا تھا بلکہ اپنا فرض نبھانے پراس کی تعریف کی تھی اور سلام کرکے رخصت ہوا تھا۔
آپ یہ بات ذہن میں رکھئےے کہ اس دور میں میرے کئی سابقہ کالج فیلو کسٹم اور امیگریشن کے علاوہ دوسرے سرکاری محکموں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے اور ان میں سے کئی کراچی میں تعینات تھے۔اگر میں چھوٹا آدمی ہوتاتو ان سے اس انسپکٹر کی شکایت کرتا ،البتہ میں نے اس کے آفیسر سے اس متعلقہ انسپکٹر کی فرض شناسی کی تعریف ضرور کی تھی۔
دوسری مرتبہ میں اسی ائیرلائن کی اسی فلائٹ پر تھااس لئے میری لینڈنگ کاوقت بھی وہی تھا،میرے پاس کتابوں کے وہی دوبڑے بڑے کیس تھے،وہی گرین چینل اور وہی انسپکٹر !
کیا اس نے مجھے چھوڑ دیا تھا؟ نہیں تو۔ کیا میں گرم سرد ہوا تھا؟ نہیں تو۔
اس مرتبہ اس نے کتابیں نکال کر تو دیکھیں تھیں مگرکھول کھول کر نہ دیکھیں تھیں۔
بہرحال ! نہ ا س نے کوئی بدتمیزی کی تھی۔نہ ہی مجھے غصہ آیا تھا۔
اس نے اپنی ڈیوٹی نبھائی تھی۔میںنے ایک پاکستانی ہونے کا فرض پورا کیا تھا۔
چونکہ میں نے کسی قسم کی توہین محسوس نہ کی تھی،اس لیئے میں نے اس کی کوئی توہین نہ کی تھی۔
وقت رخصت ۔ وہی مصافحہ،وہی تعریف،وہی سلام دعائ۔
تیسری مرتبہ بھی سب کچھ ویسا ہی تھا۔ اب کی مرتبہ انسپکٹر صاحب نے سوٹ کیسز کھلوائے تو ضرور تھے مگر صرف ایک نظر دیکھ کر مجھے جانے دیا تھا ۔ پہلی مرتبہ اگر ڈیڑھ گھنٹہ لگا تھا ،تو اس دن ڈیڑھ منٹ لگا تھا۔ اس کے بعد میں نے اس سے مصافحہ کرنے ، اس کی فرض شناسی کی تعریف کرنے اوراس کے اہل خانہ کی خیرو عافیت دریافت کرنے میں مزید ڈیڑھ منٹ صرف کیا تھا۔اس کے بعد اگلے چار سالوں میں جب تک میں نے امریکن بورڈ آف یورالوجی کوالی فائی کیا تھا تب تک میں کراچی ائیرپورٹ پر بیس بائیس مرتبہ لینڈ کر چکا تھا۔
اور وہ انسپکٹر صاحب ؟ وہ تو اپنے عملے کے نئے ساتھیوں سے کئی مرتبہ یہ شرط جیت چکے تھے کہ اس شخص کے بھاری بھرکم سوٹ کیسز میں کسٹم ایبل آئیٹم نہیں ہوں گی اور شرط جیت کر ۔وہ چرغے اور مٹھائیاں بھی کھا چکے تھے۔
دوسرا واقعہ لاہور ائیر پورٹ کا ہے۔ہم حقیقت میں لیٹ ہو چکے تھے۔فلائٹ بس اڑنے ہی والی تھی۔میرے ساتھ بیوی بچے تھے ۔ان سب کے پاسپورٹ غیرملکی تھے۔ان پر ایگزیٹ کی مہر لگوانے کے بعد جب میری باری آئی تھی۔تو امیگریشن کا عملہ میرا پاکستانی پاسپورٹ دیکھ کر نہ صرف چونکہ تھا بلکہ انہوں نے سوال بھی کر دیا تھا۔
جی ! مجھے اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہے۔جب میں نے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر یہ جواب دیاتھا تو ان میں سے عملے کے ایک شخص نے میرے پاسپورٹ کو بوسہ دے کر پاسپورٹ مجھے واپس کیا تھا تو دوسرے نے کسٹم والوں کو آواز لگائی تھی ، بھئی ان کو جانے دینا ! اپنے ہی آدمی ہیں۔
یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ جب ہم اپنے سامنے والے سے عزت اور احترام سے پیش آئیں گے ۔ تو سامنے والے کا دماغ خزاب نہیں ہے کہ وہ خواہ مخواہ ہماری توہین کرے۔ اور جب معاملہ کسی پاکستانی کا ہے ! تو یہ اصول ذہن میں رہے کہ اگر ہم ہی اپنے ہم وطن کی عزت نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا ؟
میرے خیال میں تو اس سارے مسئلے کا حل اخلاق نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پوشیدہ ہے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الحیم ہ
پاکستان سے باہر یعنی کہ بیرون ملک پاکستانی افراد کی دو اقسام ہیں۔پہلی قسم میں پاکستانی پاسپورٹ رکھنے والے لوگ ہیں جوکہ با لعموم شرمندہ شرمندہ سے نظر آتے ہیں۔حالانکہ یہ شرمندگی کی بات بالکل ہی نہیں ہے۔
بلکہ میں تو ذاتی طور پر سمجھتا ہوںکہ یہ فخر کی بات ہے کہ ہم اپنے پیارے وطن کے اوّل درجے کے شہری ہیں۔
دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو کہ کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے پاسپورٹ ہولڈر ہوتے ہیں۔غیرملکی پاسپورٹ کا ہونا کوئی برائی کی بات نہیں ہے۔ جو شخص جس مملکت میں کوئی پیدا ہوا ہے اس ملک کی شہریت رکھنا اس فرد کا پہلا حق ہے۔ مگر برائی تو اس شخص کے ذہن میں ہوتی ہے ،کہ میں ایک برتر قوم کا فرد ہوںاور جب ایسے لوگ پاکستان میںقدم رنجہ فرماتے ہیں تو یوںپوزکرتے ہیں جیسے کہ وہ اولاد فرعون ہیں۔ ان کا رویہ ہمارے ملک کی امیگریشن اور کسٹمز سے توہین آمیز ہوتا ہے۔
حالانکہ اسی مغربی ملک کے اصل باشندے ہمارے آفیسرزکے ساتھ اخلاق سے بات کرتے ہیں،جس ملک کا پاسپورٹ لیکرہمارے جیسی شکل و صورت والے پاکستانی حضرات کی گردنوں میں سریا آ جاتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ جب ہم لوگ خود ہی بد اخلاقی کے مرتکب ہو رہے ہوںتو اپنے سامنے والے سے تعریفی الفاظ کی توقع ہرگز نہیں رکھنی چاہیے۔ اخلاق ایک مسلم کا شعارہوتا ہے۔ مگر ہم لوگ اس سے یکسر محروم ہو چکے ہیں۔ کیونکہ ہم نے دین اسلام کی تعلیمات سے اپنا منہ یکسر پھیر لیا ہے۔جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم ایک انتہائی بد اخلاق قوم بن چکے ہیں۔
یہ ایک انسانی فطرت ہے کہ ہر شخص اپنی عزت چاہتا ہے اور یہ اس کا بنیادی حق بھی ہے کہ اس کی عزت کی جائے اور اس شخص کی تو زیادہ عزت کی جانی چاہئیے جو کہ کسی بھی مملکت کے سرکاری شعبہ کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے۔اگر ہم لوگ ایسے افراد کے ساتھ عزت اور اخلاق سے پیش آئیں ،جو کہ امیگریشن یا کسٹم کی وردی پہنے ہوئے ہیں۔یہ تو ان کا بنیادی استحقاق ہے۔
کیونکہ وہ پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں،ان کی عزت بڑھانا تو دراصل پاکستان کی عزت بڑھانے کے مترادف ہے۔
اگر امیگریشن والے ہمارے کاغذات کی جانچ پڑتال کر رہے ہیں یا کسٹم والے ہمارے سامان کی تلاشی لے رہے ہیں ،
در اصل وہ تواپنے فرض کی ادائیگی کر رہے ہیں اور پھر ان کو تنخواہ بھی تو اسی فرض کو ادا کرنے کی دی جاتی ہے۔ہمیں غم و غصہ
کا اظہار تو اس وقت کرنا چاہیے،جب وہ اپنے فرائض سے غفلت کر رہے ہوں نہ کہ اس وقت جب کہ وہ اپنا فرض ایمان داری سے نبھا رہے ہوں۔
ہمیں یہ حقیقت اپنے ذہن میں رکھنی چاہیے کہ بعض اوقات کاغذات کی جانچ پڑتال میں یا سامان کی تلاش کے دوران وقت لگ ہی جایا کرتا ہے۔ایسے میں جزبز ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ ایسے مواقع پر تحمل اور بردباری سے کام لینا چاہیئے۔
دو واقعات میرے ذہن میں آ رہے ہیں۔وہ آ پ کی نظر کرتا ہوں۔
جب میں امریکہ سے پہلی باروطن لوٹا تھا، تو میرے پاس صرف کتب تھیں ۔اس لئے میں گرین چینل سے نکلا تھا۔ظاہر ہے کہ آنے والوں پر نظر رکھنے کے لئے وہاں پر کوئی نہ کوئی کسٹم انسپکٹرضرور ہوتا ہے۔ سو تھا۔ اس لئے اس نے مجھے روک لیا تھا۔
سبھی جانتے ہیں کہ ان دنوں امریکہ اور کینیڈا سے آنے والی فلائیٹس کے مسافروں کے پاس بہت بڑے بڑے سوٹ کیس ہوا کرتے تھے۔ اگر کوئی مسافر کہے کہ ان میں صرف اور صرف کتابیں ہیں،یہ بات توعقل سے بعید ہی لگتی ہے ۔ اس لئے میری بات سن کر کسٹم انسپکٹر مجھے کہنے لگا، بھائی صاحب ! ! ان کو تو کھولنا پڑے گا۔
میں نے اس سے بحث کرنے کی بجائے بلا چوں وچراں لاک کھول دئیے تھے اور پھر سوٹ کیس کی زپ بھی کھولنے کے بعد اس کو کتابیں بھی دکھا دی تھیں۔اس انسپکٹر نے محض دیکھنے پر ہی اکتفاءنہ کی تھی بلکہ ایک ایک کتاب اٹھا اٹھا کر ورق ورق کھول کردیکھنی شروع کر دی تھی۔ میںنے بے صبری یا بدتمیزی کامظاہرہ کرنے کی بجائے، اس کی مدد کرنی شروع کر دی تھی،وہ ایسے کہ کتابیں اٹھا اٹھا کر اسے پکڑانی شروع کر دی تھیں۔
دو بکس کتابیں ۔آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ ان کو ایک ایک کرکے دیکھنے میں اور پھر واپس رکھنے میں کتنا وقت لگا ہو گا ؟
میں نے اسے پرسنل نہیں لیا تھااور نہ ہی اس انسپکٹر سے کوئی بد اخلاقی کی تھی۔ رخصت ہوتے ہوئے نہ صرف اس سے ہاتھ ملایا تھا بلکہ اپنا فرض نبھانے پراس کی تعریف کی تھی اور سلام کرکے رخصت ہوا تھا۔
آپ یہ بات ذہن میں رکھئےے کہ اس دور میں میرے کئی سابقہ کالج فیلو کسٹم اور امیگریشن کے علاوہ دوسرے سرکاری محکموں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے اور ان میں سے کئی کراچی میں تعینات تھے۔اگر میں چھوٹا آدمی ہوتاتو ان سے اس انسپکٹر کی شکایت کرتا ،البتہ میں نے اس کے آفیسر سے اس متعلقہ انسپکٹر کی فرض شناسی کی تعریف ضرور کی تھی۔
دوسری مرتبہ میں اسی ائیرلائن کی اسی فلائٹ پر تھااس لئے میری لینڈنگ کاوقت بھی وہی تھا،میرے پاس کتابوں کے وہی دوبڑے بڑے کیس تھے،وہی گرین چینل اور وہی انسپکٹر !
کیا اس نے مجھے چھوڑ دیا تھا؟ نہیں تو۔ کیا میں گرم سرد ہوا تھا؟ نہیں تو۔
اس مرتبہ اس نے کتابیں نکال کر تو دیکھیں تھیں مگرکھول کھول کر نہ دیکھیں تھیں۔
بہرحال ! نہ ا س نے کوئی بدتمیزی کی تھی۔نہ ہی مجھے غصہ آیا تھا۔
اس نے اپنی ڈیوٹی نبھائی تھی۔میںنے ایک پاکستانی ہونے کا فرض پورا کیا تھا۔
چونکہ میں نے کسی قسم کی توہین محسوس نہ کی تھی،اس لیئے میں نے اس کی کوئی توہین نہ کی تھی۔
وقت رخصت ۔ وہی مصافحہ،وہی تعریف،وہی سلام دعائ۔
تیسری مرتبہ بھی سب کچھ ویسا ہی تھا۔ اب کی مرتبہ انسپکٹر صاحب نے سوٹ کیسز کھلوائے تو ضرور تھے مگر صرف ایک نظر دیکھ کر مجھے جانے دیا تھا ۔ پہلی مرتبہ اگر ڈیڑھ گھنٹہ لگا تھا ،تو اس دن ڈیڑھ منٹ لگا تھا۔ اس کے بعد میں نے اس سے مصافحہ کرنے ، اس کی فرض شناسی کی تعریف کرنے اوراس کے اہل خانہ کی خیرو عافیت دریافت کرنے میں مزید ڈیڑھ منٹ صرف کیا تھا۔اس کے بعد اگلے چار سالوں میں جب تک میں نے امریکن بورڈ آف یورالوجی کوالی فائی کیا تھا تب تک میں کراچی ائیرپورٹ پر بیس بائیس مرتبہ لینڈ کر چکا تھا۔
اور وہ انسپکٹر صاحب ؟ وہ تو اپنے عملے کے نئے ساتھیوں سے کئی مرتبہ یہ شرط جیت چکے تھے کہ اس شخص کے بھاری بھرکم سوٹ کیسز میں کسٹم ایبل آئیٹم نہیں ہوں گی اور شرط جیت کر ۔وہ چرغے اور مٹھائیاں بھی کھا چکے تھے۔
دوسرا واقعہ لاہور ائیر پورٹ کا ہے۔ہم حقیقت میں لیٹ ہو چکے تھے۔فلائٹ بس اڑنے ہی والی تھی۔میرے ساتھ بیوی بچے تھے ۔ان سب کے پاسپورٹ غیرملکی تھے۔ان پر ایگزیٹ کی مہر لگوانے کے بعد جب میری باری آئی تھی۔تو امیگریشن کا عملہ میرا پاکستانی پاسپورٹ دیکھ کر نہ صرف چونکہ تھا بلکہ انہوں نے سوال بھی کر دیا تھا۔
جی ! مجھے اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہے۔جب میں نے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر یہ جواب دیاتھا تو ان میں سے عملے کے ایک شخص نے میرے پاسپورٹ کو بوسہ دے کر پاسپورٹ مجھے واپس کیا تھا تو دوسرے نے کسٹم والوں کو آواز لگائی تھی ، بھئی ان کو جانے دینا ! اپنے ہی آدمی ہیں۔
یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ جب ہم اپنے سامنے والے سے عزت اور احترام سے پیش آئیں گے ۔ تو سامنے والے کا دماغ خزاب نہیں ہے کہ وہ خواہ مخواہ ہماری توہین کرے۔ اور جب معاملہ کسی پاکستانی کا ہے ! تو یہ اصول ذہن میں رہے کہ اگر ہم ہی اپنے ہم وطن کی عزت نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا ؟
میرے خیال میں تو اس سارے مسئلے کا حل اخلاق نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پوشیدہ ہے۔
No comments:
Post a Comment