Tuesday, August 25, 2009

افغان جنگ کا ایک اور انکشاف




تحریر: روف عامر پپا بریار



امریکیوں کی نائن الیون کے بعد عالم اٍسلام کے خلاف لڑی جانیوالی جنگ کی سچائی پوری دنیا کے سامنے عیاں ہوچکی ہے۔عراق و افغانستان پر امریکہ کا تسلط آٹھویں سال میں داخل ہوچکا ہے۔

اٍس عرصہ میں امریکی جنگوں کے کئی مکروہ مقاصد اور طلسم ہوشربا داستانیں صفحہ قرطاس پر ظہور پزیر ہوئے۔ سامراج مخالف دانشوروں اور مسلمان تجزیہ نگاروں نے جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی پیشین گوئی کردی تھی کہ پینٹاگون صہیونیوں کے معاشی و سیاسی مفادات کے تحفظ کے لئے دہشت گردی کا ناٹک رچا کر افغانستان کو راندہ درگاہ کرنے کا پروگرام وضع کررہا ہے مگر ایسے نظریات و افکار کو کسی نے لائق تحسین کے قابل نہ سمجھا۔ 2001 کے بعد پاکستان کی داخلی و خارجی پالیسیوں کو ہمیشہ افغانستان کے تناظر میں بنایا گیا جس میں امریکی مفادات کو ہمیشہ فوقیت دی جاتی رہی۔

افغان جنگ کو کبھی وسطی ایشیا کے تیل و گیس کے انمول خزانوں تک رسائی کے لئے امریکی چال کا نام دیا گیا تو کبھی اسے چین کی روز افزوں اقتصادی طاقت کے طوفانی گراف روکنے کا نام دیا۔ کسی نے اس غاصبانہ قبضے کو اسرائیل کے جانی دشمن ایران کو جکڑنے کا منصوبہ کہا تو کوئی اسے پاکستان کی جوہری طاقت کے خاتمے کا ایک آپشن قرار دیتا رہا۔ حال ہی میں ایک اور قابل غور و فکر انکشاف سامنے ایا ہے جسکا بھانڈہ امریکی کی فضائیہ کی سابق افیسر کرنل کیرنن و یٹیسوکی نے 24 جولائی کو ماسکو کے عالمی شہرت یافتہ ٹی ویRT POLITICXS کے پروگرام میں بیانگ دہل پھوڑا۔ کرنل کیرن نے بتایا کہ بے پناہ مالی و جانی نقصانات کے باوجود امریکہ نے ایران پر دباو ڈالنے کے لئے کابل میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔

ہلاکتوں کے اعتبار سے جولائی کا مہینہ ناٹو کے لئے ہمیشہ کے لئے عبرت کا نشان بن گیا۔ اتحادی اٍس مہینے کو کبھی فراموش نہ کرپائیں گے کیونکہ پچھلے آٹھ سالوں میں ناٹو کے اتنے سپاہی طالبان کے ہاتھوں زمین کا رزق نہیں بنے جتنے صرف جولائی کے مہنے میں لحد نشین ہوئے۔ کرنل کیرن نے ہلاکتوں کے ریکارڈ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی حلقے اوبامہ پر زور دے رہے ہیں کہ وہ افغانستان کے لئے مزید فوجیوں کا بندوبست کریں۔

یہ ایسا ہی ہے جیسا ہم مشرق وسطی میں طویل المدتی پالیسیوں کو دیکھتے ہیں جو صرف اسرائیلی مفادات کو پیش نظر رکھ کر بنائی گئیں اور یہ سلسلہ بش سینیر سے لیکر چھوٹے بش کے دور صدارت اور پھر عہد اوبامہ تک دراز ہوگیا۔ کابل میں امریکی موجودگی ایران کے لئے ایک واضح دھمکی ہے حالانکہ ایران امریکہ کے لئے کوئی خطرہ نہیں۔ وائٹ ہاوس نے کابل میں اب تک جو کیا ہے یا مستقبل میں کرنے کا ارادہ رکھتا ہے وہ پینٹاگون کی مڈل ایسٹ پالیسیوں سے مشابہت رکھتا ہے اور جسکا ایک ہی مقصد ہے کہ اسرائیل کو عسکری اور سیاسی سطح پر حمایت بے کراں مہیا کی جاے۔

کرنل کیرن کے انٹرویو سے یہ حقیقت اٍس سچائی کی غمازی کرتی ہے کہ صہیونی ساہوکاروں اور یہودی و امریکی سیاست دانوں نے اوبامہ پر کتنا دباو ڈال رکھا ہے۔ اوبامہ سربراہ وائٹ ہاوس ہوئے تو انہوں نے افغانستان میں امریکی فوجوں کی تعداد17000سے38000 کردی۔ افغان جنگ کے شعلے مربوط منصوبہ بندی کے تحت ڈرون حملوں کی صورت میں پاکستان کے قبائلی علاقہ جات تک دراز ہوگئے۔ جولائی میں اتحادیوں نے بڑے زعم میں ہلمند میں طالبان کے خلاف آپریشن خنجر شروع کیا مگر یہی آپریشن اتحادیوں کے لئے نشان عبرت بن گیا۔

افغان نیوز سروس کی رپورٹ کے مطابق امریکہ نے یہ پالیسی بنائی کہ افغان صدارتی انتخابات سے پہلے طالبان کی طلسم ہوشربا قوت کو توڑ دیا جائے تاکہ امریکی چھتری تلے ہونیوالے الیکشن میں امریکی کٹھ پتلی انتظامیہ کی تخت نشینی بخیر و عافیت ممکن ہوسکے مگر سچ تو یہ ہے کہ اتحادیوں کے خواب کا سومنات طالبان کی سرفروشی کے غوری میزائلوں نے چکنا چور کردیا۔

عرب نیوز ایجنسیوں نے صاف صاف کہا ہے کہ کابل میں اب امریکیوں کے لئے کچھ نہیں بچا۔ پینٹاگون کے افلاطونوں کو ایک ڈر و وسوسے نے بے چین کررکھا ہے کہ اگر اتحادی کابل سے نکل گئے تو جو خلا پیدا ہوگا وہ طالبان پر کریں گے مگر انے والے وقتوں میں یہ خیال امریکہ و مڈل ایسٹ میں اسرائیل کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

قرائن سے ایسا ہونا درست دکھائی دیتا ہے۔ روس اور چین کے باہمی تعاون شنگھائی تنظیم کی کامیابیوں اور ماسکو و بیچنگ کے درمیان پائی جانے والے اسٹریٹیجک انڈر اسٹینڈنگ اور چین کا معاشی و سیاسی استحکام اٍس امر کی غمازی کررہا ہے کہ امریکہ اور اسکے لے پالک ناجائز بیٹے اسرائیل کا سنٹرل ایشیا اور قفقاز کے معدنی وسائل تک پہنچ کے سارے منصوبے خاک بن گئے۔ ناٹو کی پے درپے ناکامیوں اور ریکارڈ ہلاکتوں اور ناٹو کے موجودہ و سابق سربراہوں کی شکست کی پیشین گوئیوں کے بعد امریکہ کے پاس کوئی جواز نہیں کہ وہ کابل میں اپنے سپاہی مرواتا رہے اور ڈھیٹ بن کر کابل کو زیر تسلط رکھے۔ یوں امریکہ کی کابل میں موجودگی کا جواز عقل سے بالاتر ہوجاتا ہے۔

اگر اب بھی کوئی جواز امریکیوں کو کابل میں رہنے پر مجبور کرتا ہے تو وہ وہی ہے جسکا اظہار کرنل کیرن نے اپنے انٹرویو میں کیا۔ کرنل کیرن کے مفصل انٹرویو پر مغز خوری کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ شمعون پیریز مشرف کے لئے نیک تمناوں کے اظہار کے لئے کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتا تھا اور انتہاپسند صہیونی بھیڑیا شمعون مشرف کی دراز زندگی کی دعائیں کیوں کرتا تھا۔ امریکی و صہیونی لابیاں ابتدا سے ہی پاکستان کے جوہری پروگرام کو زمین بوس کرنے کے لئے بے تاب ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کو اس سے بڑا گولڈن چانس کبھی نصیب نہ ہوگا کہ وہ عالم اسلام کے واحد جوہری اثاثوں کو کباڑ میں بدل دے۔

ہمارے ارباب اختیار کو جنرل کیرن کے انٹرویو کی گہرائی ناپ کر ہی نئی پالیسی بنانی چاہیے۔اب جبکہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ افغان جنگ اسرائیل کی خاطر لڑی جارہی ہے تو اب عسکری و حکومتی بابووں اور پالیسی سازوں کو اپنی جوہری طاقت کے تحفظ کے لئے ہنگامی اقدامات کرنے چاہیں کیونکہ ایران و پاکستان کے جوہری اثاثوں سے نفرت کا زہر دنیا کے ہر یہودی و صہیونی کی رگوں میں بہہ رہا ہے۔ اس زہر کا تریاق ڈھونڈنا وقت کی ناگزیر ضرورت ہے۔

No comments:

Post a Comment