تحریر: خادم الاسلام والمسلمین، ڈاکٹر عصمت حیات علوی
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
اگر ہمیں گریٹر پاکستان بنانا ہے تو ہمیں کشمیریوں کی اکثریت کا احترام کرنا ہی پڑےگا۔ کیونکہ کل کو یہی سوال پھر سے اٹھ سکتا ہے جب ہم اس خطے کے کسی اور علاقے کو اپنا اتحادی بنانا چاہیںگے۔
اس وقت دنیا کا نیا نقشہ بننے والا ہے۔سرحدوں میں ردوبدل ہونے والا ہے۔برسراقتدارطبقے غلام بننے والے ہیںاور غلام طبقات میں سے نئی قیادت ابھرنے والی ہے۔پرانے دارلحکومت غیر معروف قصبات بننے والے ہیںاور غیر معروف بستیاںدنیا کی قیادت کے مراکز بننے والے ہیں۔
مگر یہ سارا عمل دو چار دس بیس سال میں مکمل نہیں ہوگا۔بلکہ اس کے لیے عشرے بھی لگ سکتے ہیں اورصدیاں بھی بیت سکتی ہیں۔مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ عمل شروع ہو چکا ہے اور مکمل ہوئے بغیرنہ تو رکے گا اور نہ ہی ختم ہو گا۔ لوح محفوظ میں لکھے کو اب کوئی بھی انسانی قوت بدل نہیں سکتی۔
آپ ذرا سا غور کریں گے تو آپ پر یہ حقیقت آشکارا ہو جائے گی کہ آج سے ساٹھ سترسال قبل اس لمبے اور پیچیدہ عمل کا آغاز پاکستان اور اسرائیل کے ’بیک وقت قیام ‘ کے ساتھ ہی ہو چکا ہے۔
ذرا غور فرمائیں کہ بنی اسرائیل کو ایک خطہ اسرائیل کے نام سے عطاءکیا گیا،جس کے پیچھے یہودیوں کی دو ہزار سال طویل محنت، مشقت، جدوجہد اور عزم ہے۔یاد رہے کہ بنی اسرائیل ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور اسی جلیل القدر نبی کے بڑے بیٹے کی اولاد بنی اسمٰعیل میں پیدا ہونے والے آحری نبی محمد ﷺ کے وارثوں کو بھی ایک خطہ پاکستان کے نام عطا کیا گیا۔
غور فرمایا آپ نے ! کہ اولاد ابراہیم کی دو شاخوں کو ’دنیاءمقدس‘ کے دو انتہائی سروں میں بیک وقت اقتدار عطاءکیا گیا ہے اور آئندہ دنیا کی قیادت بھی انہی خطوں میں سے ابھرنے والی ہے۔باقی دنیا کے علاقے اور قومیں انہی کی پیروی کریں گی۔
بنی اسرائیل میں سے دجال پیدا ہوگا اور اس کا مخالف امام مہدی بنی اسمٰعیل میں سے ہوں گے۔ اس دور میں دنیا واضح طور پر دوگروہوں میں بٹ جائے گی اور دونوں متحارب گروہوں کی قیادت صرف یہی دونو ںشخص ہی کریں گے۔
لوگ پیشن گوئی کرتے ہیں کہ بیس سو پندرہ عیسوی تک پاکستان مٹ جائے گا،ان کے منہ میں خاک ۔
بلکہ میں پیشن گوئی کرتا ہوں کہ پاکستان امام مہدی کے ظہور تک قائم اور دائم رھے گا انشا اللہ العزیز ! البتہ اس کا نام بدل بھی سکتا ہے اور یہی نام بھی برقرار رہ سکتا ہے۔ البتہ سرحدوں میں بہت بڑی تبدیلی اور وسعت ہو سکتی ہے۔جیسے پختونستان بن کر افغانستان کے کچھ علاقے اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔سندھو دیش آگے بڑھ کر گجرات اور راجستھان کے کچھ ضلع ہڑپ کر سکتا ہے۔ بلوچستان میں مزید علاقے شامل ہو سکتے ہیں سکھ گرو پاکستانی پنجاب سے اتحاد کرنے کا اعلان کر سکتے ہیں ۔کشمیر،جموں ، لداخ اور اس سے بھی آگے کے علاقے ایک خود مختار ریاست بن کرہماری فیڈریشن میں شامل ہونے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔
اس فیڈریشن کا نام پاکستان بھی ہو سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا نام متفقہ طور پر ریاست ہائے متحدہ اسلامیہ رکھ دیا جائے یا اسی طرح کا کوئی اور اچھا اور متفقہ نام۔
اس فیڈریشن یا متحدہ ریاست کی سرکاری زبان عربی ہو گی اور مرکز کے پاس صرف دفاع،امورخارخہ اورخزانہ (کرنسی اور سنٹرل ریزرو بنک) ہوگا۔ ایک سربراہ مملکت ہوگا اور وہ مملکت کا نظام تین درجوں والی پارلیمنٹ کی مدد سے چلائے گا۔(موجودہ دور میں ہر ملک کے پاس صرف دو درجوں والی پارلیمنٹ ہیں،جیسے کہ پاکستان میں نیشنل اسمبلی اور سینٹ)
میری امت مسلم سے درخواست ہے کہ وہ اختلافی امور پر لڑنے جھگڑنے کی بجائے اپنی صلاحیتوں کو تعمیری اور مثبت کاموں میں صرف کریں اور ہمیشہ اس نقطہ کو اپنے ذہن میں رکھیں کہ جدوجہد خواہ آزادی کی ہے،خود مختاری کی ہے یا علیحدگی کی ہے۔ فائدہ تو بہر حال عالم اسلام کا ہی ہے،کیونکہ جلد یا بدیر ہم سب نے ایک ہی مرکز کے تحت اکھٹے ہونا ہے۔اس لئے ایک دوسرے سے تعاون کریں اور نیت کو نیک رکھیں اسی میں واحد کا بھی بھلا ہے اور جمع کی بھلائی بھی ہے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
اگر ہمیں گریٹر پاکستان بنانا ہے تو ہمیں کشمیریوں کی اکثریت کا احترام کرنا ہی پڑےگا۔ کیونکہ کل کو یہی سوال پھر سے اٹھ سکتا ہے جب ہم اس خطے کے کسی اور علاقے کو اپنا اتحادی بنانا چاہیںگے۔
اس وقت دنیا کا نیا نقشہ بننے والا ہے۔سرحدوں میں ردوبدل ہونے والا ہے۔برسراقتدارطبقے غلام بننے والے ہیںاور غلام طبقات میں سے نئی قیادت ابھرنے والی ہے۔پرانے دارلحکومت غیر معروف قصبات بننے والے ہیںاور غیر معروف بستیاںدنیا کی قیادت کے مراکز بننے والے ہیں۔
مگر یہ سارا عمل دو چار دس بیس سال میں مکمل نہیں ہوگا۔بلکہ اس کے لیے عشرے بھی لگ سکتے ہیں اورصدیاں بھی بیت سکتی ہیں۔مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ عمل شروع ہو چکا ہے اور مکمل ہوئے بغیرنہ تو رکے گا اور نہ ہی ختم ہو گا۔ لوح محفوظ میں لکھے کو اب کوئی بھی انسانی قوت بدل نہیں سکتی۔
آپ ذرا سا غور کریں گے تو آپ پر یہ حقیقت آشکارا ہو جائے گی کہ آج سے ساٹھ سترسال قبل اس لمبے اور پیچیدہ عمل کا آغاز پاکستان اور اسرائیل کے ’بیک وقت قیام ‘ کے ساتھ ہی ہو چکا ہے۔
ذرا غور فرمائیں کہ بنی اسرائیل کو ایک خطہ اسرائیل کے نام سے عطاءکیا گیا،جس کے پیچھے یہودیوں کی دو ہزار سال طویل محنت، مشقت، جدوجہد اور عزم ہے۔یاد رہے کہ بنی اسرائیل ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور اسی جلیل القدر نبی کے بڑے بیٹے کی اولاد بنی اسمٰعیل میں پیدا ہونے والے آحری نبی محمد ﷺ کے وارثوں کو بھی ایک خطہ پاکستان کے نام عطا کیا گیا۔
غور فرمایا آپ نے ! کہ اولاد ابراہیم کی دو شاخوں کو ’دنیاءمقدس‘ کے دو انتہائی سروں میں بیک وقت اقتدار عطاءکیا گیا ہے اور آئندہ دنیا کی قیادت بھی انہی خطوں میں سے ابھرنے والی ہے۔باقی دنیا کے علاقے اور قومیں انہی کی پیروی کریں گی۔
بنی اسرائیل میں سے دجال پیدا ہوگا اور اس کا مخالف امام مہدی بنی اسمٰعیل میں سے ہوں گے۔ اس دور میں دنیا واضح طور پر دوگروہوں میں بٹ جائے گی اور دونوں متحارب گروہوں کی قیادت صرف یہی دونو ںشخص ہی کریں گے۔
لوگ پیشن گوئی کرتے ہیں کہ بیس سو پندرہ عیسوی تک پاکستان مٹ جائے گا،ان کے منہ میں خاک ۔
بلکہ میں پیشن گوئی کرتا ہوں کہ پاکستان امام مہدی کے ظہور تک قائم اور دائم رھے گا انشا اللہ العزیز ! البتہ اس کا نام بدل بھی سکتا ہے اور یہی نام بھی برقرار رہ سکتا ہے۔ البتہ سرحدوں میں بہت بڑی تبدیلی اور وسعت ہو سکتی ہے۔جیسے پختونستان بن کر افغانستان کے کچھ علاقے اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔سندھو دیش آگے بڑھ کر گجرات اور راجستھان کے کچھ ضلع ہڑپ کر سکتا ہے۔ بلوچستان میں مزید علاقے شامل ہو سکتے ہیں سکھ گرو پاکستانی پنجاب سے اتحاد کرنے کا اعلان کر سکتے ہیں ۔کشمیر،جموں ، لداخ اور اس سے بھی آگے کے علاقے ایک خود مختار ریاست بن کرہماری فیڈریشن میں شامل ہونے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔
اس فیڈریشن کا نام پاکستان بھی ہو سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا نام متفقہ طور پر ریاست ہائے متحدہ اسلامیہ رکھ دیا جائے یا اسی طرح کا کوئی اور اچھا اور متفقہ نام۔
اس فیڈریشن یا متحدہ ریاست کی سرکاری زبان عربی ہو گی اور مرکز کے پاس صرف دفاع،امورخارخہ اورخزانہ (کرنسی اور سنٹرل ریزرو بنک) ہوگا۔ ایک سربراہ مملکت ہوگا اور وہ مملکت کا نظام تین درجوں والی پارلیمنٹ کی مدد سے چلائے گا۔(موجودہ دور میں ہر ملک کے پاس صرف دو درجوں والی پارلیمنٹ ہیں،جیسے کہ پاکستان میں نیشنل اسمبلی اور سینٹ)
میری امت مسلم سے درخواست ہے کہ وہ اختلافی امور پر لڑنے جھگڑنے کی بجائے اپنی صلاحیتوں کو تعمیری اور مثبت کاموں میں صرف کریں اور ہمیشہ اس نقطہ کو اپنے ذہن میں رکھیں کہ جدوجہد خواہ آزادی کی ہے،خود مختاری کی ہے یا علیحدگی کی ہے۔ فائدہ تو بہر حال عالم اسلام کا ہی ہے،کیونکہ جلد یا بدیر ہم سب نے ایک ہی مرکز کے تحت اکھٹے ہونا ہے۔اس لئے ایک دوسرے سے تعاون کریں اور نیت کو نیک رکھیں اسی میں واحد کا بھی بھلا ہے اور جمع کی بھلائی بھی ہے۔
No comments:
Post a Comment