تحریر: خادم الاسلام والمسلمین، ڈاکٹر عصمت حیات علوی
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
جب بھی کسی محفل میں انٹرنیشنل افیرز (International Affairs) پر بات چلتی ہے تو یار لوگوں کی تان یہاں پر آ کر ٹوٹتی ہے کہ عنقریب امریکہ کو زوال آ جائیگا اور پھر چین دنیا کی واحد سپر پاور کے طور پر سامنے آئے گا۔
مگر میں اس رائے سے اختلاف کرتا ہوں۔
حالانکہ اس مروج خیال ِعام سے یا خیا لِ عوام سے ہٹ کر کوئی سوچ ہی نہیں سکتا۔ مگر میرے تجزئیے کی بنیادبہت سارے حقائق ہیں جو کہ ایک حقیقت ہیں۔ ان حقائق سے کوئی بھی بالغ نظر صرفِ نظر نہیںکر سکتا۔
میں سمجھتا ہوں کہ بہت سارے ایسے عوامل ہیں ۔جن کی بنیاد پر امریکہ کو زوال آتے آتے بھی پچاس سال لگ سکتے ہیںاور یہ بھی ممکن ہے کہ امریکہ کو زوال آئے ہی نہ۔ بشرط کہ وہ قوم اپنی غلطیوں کی تصحیح کرتی رہے۔
کسی بھی قوم یا ملک کے سپر پاور بننے میں بہت سارے عوامل(فیکٹرزFactors-)کو دخل حاصل ہوتا ہے۔اگراس دنیا کی قیادت اقتصادی پاور بن کر یا یوایس ڈا لرز اکٹھے کر کے مل جاتی تو پچھلی تین چار دہایوں سے جرمنی اور جاپان اس دنیا کی سپر پاورز بن چکے ہوتے ۔ مگر وہ دونوں ممالک اقتصادی قوتیں ہونے کے باوجود سپر پاورز میں شامل نہیں ہو سکے تو محض اسی خوبی کی بنیاد پر چائنا کیسے سپر پاوربن سکتا ہے؟
کچھ لوگ یہ دلیل دیتے ہیںکہ چین ایٹمی کلب کا ممبر ہے اس لیے سپر پاور بن سکتا ہے ۔ تو میںکہتا ہوتا ہوںکہ انڈیا بھی تو ایٹمی طاقت ہے اور اسکی آبادی بھی چائناجتنی ہی بڑی ہے تو پھر انڈیا مستقبل کی سپر پاور کیوں نہیں بن سکتا؟ بلکہ میں اکژ کہا کرتا ہوں کہ اگر چین کے پاس یو ایس ڈالرز کے ذخائر موجود ہیں توانڈیا کے پاس (Mobile Dollars Banks) موبائل ڈالرز بنک ہیں۔آپ خود ہی دیکھ لیں کہ یوروپ اور امریکن اکانومیز میںانڈین نسل کے لوگ بڑی بڑی ملٹی نیشنلز (multi nationals) کے مالک ہیں ۔ جو جب چاہیں ساری دنیا کے ڈالرز اوریورو انڈیا لے جا سکتے ہیں۔
اس سے بھی بڑھ کر انڈیا کے پاس ایک اپر ایج( upper edge ) یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی میں اگر انڈیا چائنا کا ہم پلہ ہے تو ساری دنیا میں انڈین لوگ چائنیز سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔ دنیا کی بہترین یونیورسٹیز سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے والے انڈین لوگ چینوں سے کہیں زیادہ ہیں۔
پھرمیں انکو یہ بتاتا ہوںکہ دونوں ممالک کی اکانومیز کو ایک کامن فیکٹر نیچے لگا سکتا ہے اور وہ ہے، لیک آف انفراسٹرکچر اینڈ پوورٹی ان بوتھ کنٹریز۔Lack of infrastructure & poverty in both countries
میں یہ بات اکژکہتا ہوںکہ ایک چھوٹی، تجربہ کار اور متحرک فوج اپنی سے بڑی اور نا تجربہ کارفوج سے زیادہ موثرثابت ہو سکتی ہے بلکہ انڈین فوج کو تو گوریلہ جنگ کا بھی عملی تجربہ حاصل ہے اور اس عملی تجربے کے لیے انڈین فوج اور قوم کو ناگالینڈ، میزولینڈ، دیگر فریڈم فائٹرز (Freedom Fighters) اور کشمیریوں کا شکرگذار ہونا چاہیے۔
میں یہ سارا تجزیہ ایک محب وطن پاکستانی ہونے کی حیثیت سے کرتاہوں۔
کیونکہ ہم پاکستانی ایک احمق قوم ہیں۔یہ نہ ہو کہ ہم اسی خوشی میں کہ ہمارا دوست ملک چین دنیا کی سپر پاور بننے جا رہا ہے۔ غفلت کا شکار ہو جائیں اور خوشی کے مارے دن کے وقت ڈھول بجاتے رہیں اور رات بھر آتش باری کرتے رہیں اور اگلے روز ،صبح سویرے، سورج چڑھے۔ جب کہ حقیقت میں دن کے بارہ بج رہے ہوں ۔ہماری آنکھ کھلے تو گلگت سے لیکر مکران تک انڈین آرمی دندناتی پھررہی ہو۔
سپر پاورز سے متعلق میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔
تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ دنیا میں صرف وہی قومیں قیادت کا تاج پہنتی ہیں جو کہ اپنے سپوتوں کے خون سے اپنی سرزمین کو سینچتی ہیں۔
امریکن قوم نے تو اپنی آزادی ، سلامتی اور مضبوطی کی خاطر دوسروں کی سرزمین بھی اپنے نوجوانوں کے خون سے بھگو دی ہے(بیرون ملک یہ جنگیں درست ہیں یا غلط؟ ایک الگ موضوع ہے) اور جو قوم اپنے بہترین لوگوںکی قربانی دینے کا حوصلہ رکھتی ہے۔دنیا کی قیادت بھی انہی کا حق ہے۔
لاسٹ بٹ ناٹ لیسٹ (Last but not least)میں اکژ یہ بات کہتا ہوتا ہوںکہ دنیا کی ہر قوم کے پاس ذہانت کا محدود سرمایہ ہے جب کہ امریکن قوم کا مزاج مختلف ہے ۔وہ دنیا کے ہردماغ(برینBrain)کواپنے میں جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اگر اس وقت دس امریکن افغانستان اور عراق میں کم ہو رہے ہیں تو ہر روز سو سے زائد بہترین دماغ دنیا کے مختلف حصوں سے آ کر امریکن قوم کا حصہ بن رہے ہیں۔اس حساب سے تو امریکن قوم منافع میں ہی ہے اور اگر امریکی قوم اسی طرح سے ہر نسل، ہر قوم،ہر علاقے، ہر خطے اور ہر عقیدے کے افراد کو اپنے میں جذب کرتی رہی توکیا خبر کہ سو سال کے بعد بھی امریکن ہی سپر پاور ہوں۔
یہ تو میرا تجزیہ ہے اور مستقبل کا حال تو اللہ عالم الغیب ہی بہتر جانتے ہیں۔
میں ان کو ایک حقیقت اوربھی بتاتا ہوںکہ بے شک چین کے پاس دنیا کی سب سے بڑی افرادی قوت والی فوج ہے۔ مگر انڈیا چھوٹی فوج رکھ کر اس سے ایک لحاظ سے یوں بہتر ہے کہ اس کی فوج کو عملی جنگ کازیادہ تجربہ ہے کیونکہ انڈیا اپنی آزادی کے بعد سے اب تک چار فل سکیل جنگیں لڑچکا ہے ۔ جبکہ چین نے صرف دو محدود جنگیں لڑی ہیں۔
میں یہ بات اکژکہتا ہوںکہ ایک چھوٹی، تجربہ کار اور متحرک فوج اپنی سے بڑی اور نا تجربہ کارفوج سے زیادہ موثرثابت ہو سکتی ہے بلکہ انڈین فوج کو تو گوریلہ جنگ کا بھی عملی تجربہ حاصل ہے اور اس عملی تجربے کے لیے انڈین فوج اور قوم کو ناگالینڈ، میزولینڈ، دیگر فریڈم فائٹرز (Freedom Fighters) اور کشمیریوں کا شکرگذار ہونا چاہیے۔
میں یہ سارا تجزیہ ایک محب وطن پاکستانی ہونے کی حیثیت سے کرتاہوں۔
کیونکہ ہم پاکستانی ایک احمق قوم ہیں۔یہ نہ ہو کہ ہم اسی خوشی میں کہ ہمارا دوست ملک چین دنیا کی سپر پاور بننے جا رہا ہے۔ غفلت کا شکار ہو جائیں اور خوشی کے مارے دن کے وقت ڈھول بجاتے رہیں اور رات بھر آتش باری کرتے رہیں اور اگلے روز ،صبح سویرے، سورج چڑھے۔ جب کہ حقیقت میں دن کے بارہ بج رہے ہوں ۔ہماری آنکھ کھلے تو گلگت سے لیکر مکران تک انڈین آرمی دندناتی پھررہی ہو۔
سپر پاورز سے متعلق میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔
تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ دنیا میں صرف وہی قومیں قیادت کا تاج پہنتی ہیں جو کہ اپنے سپوتوں کے خون سے اپنی سرزمین کو سینچتی ہیں۔
امریکن قوم نے تو اپنی آزادی ، سلامتی اور مضبوطی کی خاطر دوسروں کی سرزمین بھی اپنے نوجوانوں کے خون سے بھگو دی ہے(بیرون ملک یہ جنگیں درست ہیں یا غلط؟ ایک الگ موضوع ہے) اور جو قوم اپنے بہترین لوگوںکی قربانی دینے کا حوصلہ رکھتی ہے۔دنیا کی قیادت بھی انہی کا حق ہے۔
لاسٹ بٹ ناٹ لیسٹ (Last but not least)میں اکژ یہ بات کہتا ہوتا ہوںکہ دنیا کی ہر قوم کے پاس ذہانت کا محدود سرمایہ ہے جب کہ امریکن قوم کا مزاج مختلف ہے ۔وہ دنیا کے ہردماغ(برینBrain)کواپنے میں جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اگر اس وقت دس امریکن افغانستان اور عراق میں کم ہو رہے ہیں تو ہر روز سو سے زائد بہترین دماغ دنیا کے مختلف حصوں سے آ کر امریکن قوم کا حصہ بن رہے ہیں۔اس حساب سے تو امریکن قوم منافع میں ہی ہے اور اگر امریکی قوم اسی طرح سے ہر نسل، ہر قوم،ہر علاقے، ہر خطے اور ہر عقیدے کے افراد کو اپنے میں جذب کرتی رہی توکیا خبر کہ سو سال کے بعد بھی امریکن ہی سپر پاور ہوں۔
یہ تو میرا تجزیہ ہے اور مستقبل کا حال تو اللہ عالم الغیب ہی بہتر جانتے ہیں۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
جب بھی کسی محفل میں انٹرنیشنل افیرز (International Affairs) پر بات چلتی ہے تو یار لوگوں کی تان یہاں پر آ کر ٹوٹتی ہے کہ عنقریب امریکہ کو زوال آ جائیگا اور پھر چین دنیا کی واحد سپر پاور کے طور پر سامنے آئے گا۔
مگر میں اس رائے سے اختلاف کرتا ہوں۔
حالانکہ اس مروج خیال ِعام سے یا خیا لِ عوام سے ہٹ کر کوئی سوچ ہی نہیں سکتا۔ مگر میرے تجزئیے کی بنیادبہت سارے حقائق ہیں جو کہ ایک حقیقت ہیں۔ ان حقائق سے کوئی بھی بالغ نظر صرفِ نظر نہیںکر سکتا۔
میں سمجھتا ہوں کہ بہت سارے ایسے عوامل ہیں ۔جن کی بنیاد پر امریکہ کو زوال آتے آتے بھی پچاس سال لگ سکتے ہیںاور یہ بھی ممکن ہے کہ امریکہ کو زوال آئے ہی نہ۔ بشرط کہ وہ قوم اپنی غلطیوں کی تصحیح کرتی رہے۔
کسی بھی قوم یا ملک کے سپر پاور بننے میں بہت سارے عوامل(فیکٹرزFactors-)کو دخل حاصل ہوتا ہے۔اگراس دنیا کی قیادت اقتصادی پاور بن کر یا یوایس ڈا لرز اکٹھے کر کے مل جاتی تو پچھلی تین چار دہایوں سے جرمنی اور جاپان اس دنیا کی سپر پاورز بن چکے ہوتے ۔ مگر وہ دونوں ممالک اقتصادی قوتیں ہونے کے باوجود سپر پاورز میں شامل نہیں ہو سکے تو محض اسی خوبی کی بنیاد پر چائنا کیسے سپر پاوربن سکتا ہے؟
کچھ لوگ یہ دلیل دیتے ہیںکہ چین ایٹمی کلب کا ممبر ہے اس لیے سپر پاور بن سکتا ہے ۔ تو میںکہتا ہوتا ہوںکہ انڈیا بھی تو ایٹمی طاقت ہے اور اسکی آبادی بھی چائناجتنی ہی بڑی ہے تو پھر انڈیا مستقبل کی سپر پاور کیوں نہیں بن سکتا؟ بلکہ میں اکژ کہا کرتا ہوں کہ اگر چین کے پاس یو ایس ڈالرز کے ذخائر موجود ہیں توانڈیا کے پاس (Mobile Dollars Banks) موبائل ڈالرز بنک ہیں۔آپ خود ہی دیکھ لیں کہ یوروپ اور امریکن اکانومیز میںانڈین نسل کے لوگ بڑی بڑی ملٹی نیشنلز (multi nationals) کے مالک ہیں ۔ جو جب چاہیں ساری دنیا کے ڈالرز اوریورو انڈیا لے جا سکتے ہیں۔
اس سے بھی بڑھ کر انڈیا کے پاس ایک اپر ایج( upper edge ) یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی میں اگر انڈیا چائنا کا ہم پلہ ہے تو ساری دنیا میں انڈین لوگ چائنیز سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔ دنیا کی بہترین یونیورسٹیز سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے والے انڈین لوگ چینوں سے کہیں زیادہ ہیں۔
پھرمیں انکو یہ بتاتا ہوںکہ دونوں ممالک کی اکانومیز کو ایک کامن فیکٹر نیچے لگا سکتا ہے اور وہ ہے، لیک آف انفراسٹرکچر اینڈ پوورٹی ان بوتھ کنٹریز۔Lack of infrastructure & poverty in both countries
میں یہ بات اکژکہتا ہوںکہ ایک چھوٹی، تجربہ کار اور متحرک فوج اپنی سے بڑی اور نا تجربہ کارفوج سے زیادہ موثرثابت ہو سکتی ہے بلکہ انڈین فوج کو تو گوریلہ جنگ کا بھی عملی تجربہ حاصل ہے اور اس عملی تجربے کے لیے انڈین فوج اور قوم کو ناگالینڈ، میزولینڈ، دیگر فریڈم فائٹرز (Freedom Fighters) اور کشمیریوں کا شکرگذار ہونا چاہیے۔
میں یہ سارا تجزیہ ایک محب وطن پاکستانی ہونے کی حیثیت سے کرتاہوں۔
کیونکہ ہم پاکستانی ایک احمق قوم ہیں۔یہ نہ ہو کہ ہم اسی خوشی میں کہ ہمارا دوست ملک چین دنیا کی سپر پاور بننے جا رہا ہے۔ غفلت کا شکار ہو جائیں اور خوشی کے مارے دن کے وقت ڈھول بجاتے رہیں اور رات بھر آتش باری کرتے رہیں اور اگلے روز ،صبح سویرے، سورج چڑھے۔ جب کہ حقیقت میں دن کے بارہ بج رہے ہوں ۔ہماری آنکھ کھلے تو گلگت سے لیکر مکران تک انڈین آرمی دندناتی پھررہی ہو۔
سپر پاورز سے متعلق میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔
تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ دنیا میں صرف وہی قومیں قیادت کا تاج پہنتی ہیں جو کہ اپنے سپوتوں کے خون سے اپنی سرزمین کو سینچتی ہیں۔
امریکن قوم نے تو اپنی آزادی ، سلامتی اور مضبوطی کی خاطر دوسروں کی سرزمین بھی اپنے نوجوانوں کے خون سے بھگو دی ہے(بیرون ملک یہ جنگیں درست ہیں یا غلط؟ ایک الگ موضوع ہے) اور جو قوم اپنے بہترین لوگوںکی قربانی دینے کا حوصلہ رکھتی ہے۔دنیا کی قیادت بھی انہی کا حق ہے۔
لاسٹ بٹ ناٹ لیسٹ (Last but not least)میں اکژ یہ بات کہتا ہوتا ہوںکہ دنیا کی ہر قوم کے پاس ذہانت کا محدود سرمایہ ہے جب کہ امریکن قوم کا مزاج مختلف ہے ۔وہ دنیا کے ہردماغ(برینBrain)کواپنے میں جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اگر اس وقت دس امریکن افغانستان اور عراق میں کم ہو رہے ہیں تو ہر روز سو سے زائد بہترین دماغ دنیا کے مختلف حصوں سے آ کر امریکن قوم کا حصہ بن رہے ہیں۔اس حساب سے تو امریکن قوم منافع میں ہی ہے اور اگر امریکی قوم اسی طرح سے ہر نسل، ہر قوم،ہر علاقے، ہر خطے اور ہر عقیدے کے افراد کو اپنے میں جذب کرتی رہی توکیا خبر کہ سو سال کے بعد بھی امریکن ہی سپر پاور ہوں۔
یہ تو میرا تجزیہ ہے اور مستقبل کا حال تو اللہ عالم الغیب ہی بہتر جانتے ہیں۔
میں ان کو ایک حقیقت اوربھی بتاتا ہوںکہ بے شک چین کے پاس دنیا کی سب سے بڑی افرادی قوت والی فوج ہے۔ مگر انڈیا چھوٹی فوج رکھ کر اس سے ایک لحاظ سے یوں بہتر ہے کہ اس کی فوج کو عملی جنگ کازیادہ تجربہ ہے کیونکہ انڈیا اپنی آزادی کے بعد سے اب تک چار فل سکیل جنگیں لڑچکا ہے ۔ جبکہ چین نے صرف دو محدود جنگیں لڑی ہیں۔
میں یہ بات اکژکہتا ہوںکہ ایک چھوٹی، تجربہ کار اور متحرک فوج اپنی سے بڑی اور نا تجربہ کارفوج سے زیادہ موثرثابت ہو سکتی ہے بلکہ انڈین فوج کو تو گوریلہ جنگ کا بھی عملی تجربہ حاصل ہے اور اس عملی تجربے کے لیے انڈین فوج اور قوم کو ناگالینڈ، میزولینڈ، دیگر فریڈم فائٹرز (Freedom Fighters) اور کشمیریوں کا شکرگذار ہونا چاہیے۔
میں یہ سارا تجزیہ ایک محب وطن پاکستانی ہونے کی حیثیت سے کرتاہوں۔
کیونکہ ہم پاکستانی ایک احمق قوم ہیں۔یہ نہ ہو کہ ہم اسی خوشی میں کہ ہمارا دوست ملک چین دنیا کی سپر پاور بننے جا رہا ہے۔ غفلت کا شکار ہو جائیں اور خوشی کے مارے دن کے وقت ڈھول بجاتے رہیں اور رات بھر آتش باری کرتے رہیں اور اگلے روز ،صبح سویرے، سورج چڑھے۔ جب کہ حقیقت میں دن کے بارہ بج رہے ہوں ۔ہماری آنکھ کھلے تو گلگت سے لیکر مکران تک انڈین آرمی دندناتی پھررہی ہو۔
سپر پاورز سے متعلق میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔
تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ دنیا میں صرف وہی قومیں قیادت کا تاج پہنتی ہیں جو کہ اپنے سپوتوں کے خون سے اپنی سرزمین کو سینچتی ہیں۔
امریکن قوم نے تو اپنی آزادی ، سلامتی اور مضبوطی کی خاطر دوسروں کی سرزمین بھی اپنے نوجوانوں کے خون سے بھگو دی ہے(بیرون ملک یہ جنگیں درست ہیں یا غلط؟ ایک الگ موضوع ہے) اور جو قوم اپنے بہترین لوگوںکی قربانی دینے کا حوصلہ رکھتی ہے۔دنیا کی قیادت بھی انہی کا حق ہے۔
لاسٹ بٹ ناٹ لیسٹ (Last but not least)میں اکژ یہ بات کہتا ہوتا ہوںکہ دنیا کی ہر قوم کے پاس ذہانت کا محدود سرمایہ ہے جب کہ امریکن قوم کا مزاج مختلف ہے ۔وہ دنیا کے ہردماغ(برینBrain)کواپنے میں جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اگر اس وقت دس امریکن افغانستان اور عراق میں کم ہو رہے ہیں تو ہر روز سو سے زائد بہترین دماغ دنیا کے مختلف حصوں سے آ کر امریکن قوم کا حصہ بن رہے ہیں۔اس حساب سے تو امریکن قوم منافع میں ہی ہے اور اگر امریکی قوم اسی طرح سے ہر نسل، ہر قوم،ہر علاقے، ہر خطے اور ہر عقیدے کے افراد کو اپنے میں جذب کرتی رہی توکیا خبر کہ سو سال کے بعد بھی امریکن ہی سپر پاور ہوں۔
یہ تو میرا تجزیہ ہے اور مستقبل کا حال تو اللہ عالم الغیب ہی بہتر جانتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment