Monday, August 31, 2009

اسرائیل انسانی اعضاؤں کی عالمی منڈی




تحریر: روف عامر پپا بریار




امریکی میڈیا میں چند روز پہلے ایف بی ائی کی ایک رپورٹ کا خاصا چرچا ہوا۔ رپورٹ کے مطابق یہودیت کے مذہبی پیشوا اور علما انسانی اعضا کی سمگلنگ میں ملوث ہیں اور انتہاپسندانہ نظریات اور پارسائی کے ان یہودیوں کو تلموزی کہا جاتا ہے۔ تلموزی اپنے اپکو حسبی و نسبی اصل یہودی تصور کرتے ہیں اور انکا دعوٰی ہے کہ وہ ہر کام اپنی الہامی کتاب کی روشنی میں کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے خود ساختہ پاکباز تلموزی یہودی سمگلنک کے چوہدری بنے ہوئے ہیں۔

FBI نے چند روز قبل نیوجرسی سے ایک 87 سالہ ربی یہودی کو گرفتار کیا جو ایک طرف تلموزی یہودیوں کو دنیا کی عظیم ترین قوم کا درجہ دیکر شرف انسانیت کے تقدس کا لیکچر دیتا تھا تو دوسری طرف وہ انسانیت کے بخیے ادھیڑنے کا دھندہ کرتا تھا۔

ایف بی ائی نے تفتیش کا دائرہ کار امریکہ سے اسرائیل تک بڑھایا تو عقل کو مدہوش کردینے والی داستانیں منظر عام پر آئیں۔ایف بی ائی نے تلموزی یہودی سلمان ڈیوک کو نیویارک سے گرفتار کیا جو بروکلین میں مذہبی امام کے عہدے پر فائز تھا۔ ایف بی آئی اس کیس پر 2006ء سے کام کر رہی تھی۔

دوران تفتیش سلمان ڈیوک نے شام کی شہریت رکھنے والے یہودیوں کی تلموزی ٹیم کو بھی گرفتار کروایا جو بڑے عرصے سے انسانی اعضا، منی لانڈرنگ اور منشیات کی سمگلنگ کررہے تھے۔2006 میں سلمان ڈیوک کو بنک فراڈ کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ایف بی ائی اے نے ڈیوک پر پچاس ملین ڈالر کے فراڈ کا مقدمہ درج کیا جو حرف بہ حرف درست ثابت ہوا۔ عدالت نے ڈیوک کو تیس سال کی سزا سنائی۔

جیل میں سلمان ڈیوک نے انسانی اعضاوں کی سمگلنگ، منی لانڈرنگ اور غیر انسانی و غیر قانونی دھندوں میں ملوث یہودی مذہبی علما کو نیویارک اور نیوجرسی سے گرفتار کروایا۔ ایف بی ائی نے اٍس عرصہ میں انسانی اعضاؤں کی خرید فروخت کرنے والے عالمی نیٹ ورک کا سراغ لگایا۔ ایف بی ائی جرائم کی تہہ تک پہنچنے کے لئے سلمان ڈیوک سے دو سال تفتیش کرتی رہی۔ سلمان نے انسانی اعضاؤں کی سمگلنگ میں تین ملین ڈالر کمانے کا اعتراف کیا جو اس نے ایک یہودی چیریٹی تنظیم کے پاس خفیہ رکھوائے تھے۔ اس نے بتایا کہ اس کے ساتھی ایک گردہ جو کہ دس ہزار ڈالر میں خریدتے ہیں کو عالمی منڈی میں ڈیڑھ لاکھ ڈالر کا بیچا جاتا ہے اور اس کی تمام آمدنی صہیونی تنظیموں اور اسرائیل کے فروغ کیلئے صرف کیجاتی ہے۔

FBI کی ٹیم نے سلمان ڈیوک کے کارناموں اور اسکے ساتھی سمگلروں و مذہبی پیش اماموں کے دہرے چہرے کو میڈیا میں بے نقاب کیا یوں یہ کیس اب بین الا قوامی حثیت اختیار کرچکا ہے مگر ایف بی ائی کے کام میں صہیونی میڈیا روڑے اٹکا رہا ہے۔ اسرائیلی میڈیا جو پوری دنیا پر چھایا ہوا ہے نے ایف بی ائی کی کامیابیوں کو کوئی خصوصی کوریج نہیں دی تاکہ ان رپورٹس کو دبایا جاسکے۔ اچنبھے کی بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کے مقامی میڈیا خصوصاُ جیو جو ایک نامعلوم جعلی کوڑوں والی فلم طوطے کیطرح چلاتا رہا، نے بھی اس خبر کو ایک دفعہ بھی ظاہر نہیں کیا۔

اس معاملے میں وائٹ ہاوس پینٹاگون کے ارفع عہدوں پر کام کرنے والے یہودیوں اور صہیونی سرمایہ کار ساہوں کاروں کے نام عیاں ہوچکے ہیں مگر یہ طاقتور گروپ ہے جس پر کوئی ہاتھ ڈالنے کی جرات نہیں کرتا۔

یہودی امریکہ کے سرکاری و غیر سرکاری عہدوں پر چھائے ہوئے ہیں علاوہ ازیں سپرپاور کی صنعتی معاشی اور اسلحہ ساز صنعت و حرفت پر بھی یہودی مسلط ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے امریکہ میں غیر قانونی اسلحہ ساز فیکٹریوں کے انکشافات ہوئے تو پتہ چلا کہ وزارت دفاع بھی صہیونیوں کے کالے دھندے میں ملوث ہے۔ وزارت دفاع میں ایسی سرگرمیوں کی دیکھ بھال سابق نائب صدر ڈک چینی کرتے تھے۔ ڈک چینی ڈنکے کی چوٹ پر اسرائیل کے ساتھ اظہار یکجہتی کیاکرتا۔ وہ وزارت دفاع میں وہ یہودیوں کے کالے اعمال کا فرنٹ مین تھا۔

ایف بی ائی کی جاری کردہ فہرست میں چند نامور امریکی یہودیوں اور مذہبی مدرسوں کے نام بھی شامل ہیں جنہوں نے انسانیت سوزی کے ورلڈ ریکارڈ قائم کئے ہیں اور یہ سارے گرفتار شدگان میں شامل ہیں۔ ایف بی ائی نے بروکلین میں اسرائیلی یہودیوں کی سب سے بڑی مذہبی درس گاہSHARAY ZION کے چیف ربی ساول کیسن، نیویارک میں صہیونی مدرسے اوہل یعقوب کے سرخیلBEN HEEM کو ہتھکڑیاں پہنائیں۔ نیوجرسی کے مئیر کو بھی قانون کے شکنجے میں جکڑا گیا جو وہاں انسانی اعضاؤں کی سمگلنگ میں ملوث تلموزی سمگلروں کی سرپرستی کیا کرتا تھا۔ نیویارک کے بہت سے مقامی سیاستدان اور سرکاری افسران ان یہودیوں کی سرپرستی کیلئے دس ہزار سے پچیس ہزار ڈالر تک تشوت لیتے پائے گئے۔ ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ رشوت نیویارک میں کینسر کی شکل اختیار کرچکی ہے۔

23 جولائی 2009 میں ایف بی ائی نے 44 تلموزی یہودیوں کو گرفتار کیا جو انسانی اعضاوں کی سمگلنک دھڑلے سے کررہے تھے۔ لطف کی بات تو یہ ہے کہ ایسے گھناؤنے کاروبار میں کمائے گئے اربوں روپے یہودی مذہبی درس گاہوں کے اکاونٹ میں جمع ہوتے۔ رپورٹ میں ایف بی ائی نے صاف لکھا کہ ایسی پرسوز تجارت سے حاصل ہونے والی رقم اسرائیل کو منتقل کردی جاتی ہے۔

گرفتار سمگلرBIN HAAM نے تسلیم کیا کہ وہ انسانی اعضاوں اور منی لانڈرنگ سے ایک سال میں8 ملین ڈالر کی رقم تل ابیب کی سرکار کو دے چکا ہے۔عالمی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اب تک اس کاروبار سے کمائی گئی اربوں ڈالر کی دولت امریکی انتظامی کل پرزوں و یہودیت نواز سرکاری ایجنٹوں کے توسط سے اسرائیل جاچکی ہے مگر امریکی حکمرانوں میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ اسرائیل سے پوچھ گوچھ کرسکیں۔ایف بی ائی نے ثابت کردیا ہے کہ اسرائیل انسانی اعضاؤں کی خرید و فروخت کے ضمن میں روئے ارض کی سب سے بڑی و عالمی منڈی کا درجہ رکھتا ہے۔

تل ابیب یونیورسٹی میں ڈاکٹر ہر سال2500 مریضوں کو گردوں سے محروم کردیتے ہیں۔ گردے نکالنے کا انکشاف2004 میں ہوا جب اسرائیلی آرمی افیسربرازیل میں دوران سمگلنگ کرتا ہوا دھر لیا گیا۔

یہودی مذہبی عقیدے کی رو سے انسانی اعضاؤں کا کاروبار ممنوع ہے مگر تلموزی فرقے کے پیروکار یہودی ایسی تجارت کو جائز کہتے ہیں۔ سویڈن کے اخبارAFTON BLADET نے اپنے اداریے میں لکھا کہ اسرائیلی فوجی کم عمر بچوں کو اغوا کے بعد قتل کردیتے ہیں اور بعد میں انکے دل، جگر اور گردے نکال کر فروخت کئے جاتے ہیں۔

اخبار کی رپورٹ کے مطابق فلسطین اور عرب ممالک سے بڑے پیمانے پر انسانی اعضا سمگل ہوتے ہیں جنکی ذمہ داری اسرائیل پر عائد ہوتی ہے جو جیتے جاگتے عربوں کو اغوا کرکے اپنی ہوس زر کو تسکین دیتے ہیں۔ تہران ٹائمز میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق صہیونی ریاست کسی حد تک اس مذموم کاروبار میں ملوث ہونے کی تصدیق کرتی ہے۔

چند ماہ پہلے اسرائیل نے تسلیم کیا تھا کہ دس سال قبل گرفتار ہونے والے تین فلسطینی بچوں کو اسرائیلی فوجیوں نے گرفتار و ہلاک کیا تھا اور بعد میں کبیر نامی ادارے کے ڈاکٹروں نے انہیں اعضاوں سے تہی داماں کردیا۔ تلموزی یہودی اس بیہودہ نظریے کے پیروکار ہیں کہ تمام غیر یہودی درندے ہیں۔ غیر یہودی کو مارنا جنگلی جانور کو مارنے کے مترادف ہے۔ تلموزیوں نے تمام غیر یہودی بچوں کی پیدائش کو جنگلی جانوروں کی پیدائش سے تشبیہہ دے رکھی ہے۔ یہودی دنیا کے وہ سفاک لوگ ہیں جو دولت کے انبار لگانے کے لئے انسانیت کی پیٹھ پر ظلم و استبداد کے چرکے لگانے سے نہیں چوکتے۔

امریکی سرکار، مغربی میڈیا اور اسرائیلی حکومت انسانی اعضاوں کے یہودی بنارسی ٹھگ ٹائپ سمگلروں کی دستگیری و سرپرستی کرتی ہے۔ محولہ بالا رپورٹ سے یہ حقیقت حال آموختہ ہوتی ہے کہ یہودی وہ درندہ صفت بھیڑیے ہیں جو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے دنیا کا کوئی بھی سفاک ترین عمل کرسکتے ہیں۔ یہودیوں کو اپنا ہمدرد سمجھنے والے مسلمان حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ شیطانی طاقتیں چاہے وہ تلموزی یہودی ہوں یا پھر ایریل شیرون ایسے قاتل اعظم وہ اسرائیلی فوجی ہوں یا عراق و کابل میں خون آدمیت کے دریا بہانے والے امریکی فوجیوں کی شکل میں ہوں کبھی بھی انسانیت کی خیر خواہ نہیں بن سکتیں۔

آخر میں آپکو شائد یہ سنکر حیرانی ہو کہ اس کیس میں ملوث چالیس سے زائد گرفتار یہودی اسی دن ضمانت پر رہا ہوگئے جب گرفتار ہوئے تھے۔

Sunday, August 30, 2009

فاطمہ میر ی بیٹی - - - کچھ یادیں کچھ باتیں





تحریر: ڈاکٹر عصمت حیات علوی

جب فاطمہ پہلی مرتبہ بغرض علاج میرے پاس لائی گئی تھی تب اس کی اصل عمر تو دس برس ہی تھی مگر مسلسل بیمار رہنے کے سبب وہ دبلی پتلی اور منحنی سی بچی چھ یا سات سال کی لگتی تھی۔ مجھے اس کی جو عادت سب سے زیادہ بھائی تھی وہ اس کا ادب آداب اور طریقہ و سلیقہ تھا۔ مجھے اس کی معصوم اداؤں پر پیار بھی آیا تھا اور ترس بھی آیا تھا کیونکہ ایک بچی ہونے کے باوجود وہ ہمت والی بھی تھی اور اس کا مزاج بھی چڑچڑا نہ ہوا تھا ۔ورنہ اکثر یہی ہوتا ہے کہ بڑے بھی تین سال کی لمبی بیماری اور تلخ وترش ادویات اور پرہیزی غذا کھا کھا کر تلخ اور تند مزاج ہو جاتے ہیں اور بات بات پر لڑنا جھگڑنا شروع کردیتے ہیں یا پھر مایوسی اور محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ بلکہ مجھے تو دو سال تک تو یہ بھی علم نہ ہو سکا تھا کہ فاطمہ باپ کے سایہ اور شفقت سے محروم ہے۔ اگرچہ وہ میرے علاج سے ایک ماہ میں ہی روبہ صحت ہو گئی تھی ۔مگر چچا اور بیٹی والا جو تعلق ہم میں پیدا ہو گیا تھا وہ اب تک قائم ہے۔ الحمد للہ الرب العالمین!

مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب فاطمہ نے اپنا نام بتایا تھا اور بڑے ہی ادب سے کہا تھا۔ڈاکٹر چاچا جی میرا نام فاطمہ ہے تو محبت اور عقیدت کے عالم میں بے ساختہ میرا ہاتھ اٹھا تھا اور اس کے سر پر جا کر ٹک گیا تھا۔ پھر میں نے اسے بڑے ہی نرم لہجے میں یہ بتایا تھا کہ بیٹی میری ماں کانام بھی فاطمہ ہی ہے۔فاطمہ نام سے میری یہ محبت عقیدت اور الفت محض اس لیے نہ تھی کہ میری ماں کا نام فاطمہ تھا بلکہ مجھے یہ بھی علم تھا کہ جہاں سے علوی خاندان کا آغاز ہوا ہے ہماری اس اولین اور پہلی ماں کا نام بھی فاطمہؓ ہی تھا جو کہ نبی اکرم ﷺ کی گوشئہ جگر تھیں اور علی کرم وجہہ اللہ کی بیوی تھیں بلکہ علوی خاندان کی ایک شاخ نے اپنی پہلی ماں کی عقیدت اور عظمت کے پیش نظر خود کو فاطمی کہلوانا شروع کر دیا تھا ۔

جب فاطمہ تندرست ہوگئی تھی تو چند ماہ کے عرصے کے دوران ہی وہ جلد جلد اور اتنی تیزی سے بڑی ہوتی چلی گئی تھی کہ ایک سال کے بعد یہ پہچاننا مشکل ہو گیا تھا کہ واقعی یہ وہی منحنی سی، چھوٹی سی اور کالی سی بچی ہے جو کہ پچھلی گرمیوں کی چھٹیوں میں میرے پاس بغرض علاج لائی گئی تھی؟ جب بیٹی فاطمہ میں بلوغت کے آثار نمودار ہوئے تھے تو اس کی پابند شریعت والدہ نے اس کو تمام نا محرم مردوں سے پردہ کرنے کا حکم دیا تھا۔حالانکہ اس سے قبل بھی فاطمہ سر تا پا مستور ہی ہوتی تھی اور کوئی نزدیکی رشتہ دار بھی اس کے ہاتھوں اور چہرے کے ماسواءکچھ اور نہ دیکھ سکتا تھا بلکہ اس وقت بھی میں فاطمہ بیٹی کے چہرے کو براہ راست دیکھنے کی ہمت نہ کر سکا تھا۔کیونکہ یہ اس نام کا تقدس اور رعب تھا جس کی بنا پر میں نے آج تک کسی فاطمہ نام کی لڑکی یا عورت کو نہ تو بغور دیکھا ہے اور نہ ہی گستاخانہ انداز میں اس کے چہرے پر نظر ڈالی ہے۔اگر کبھی میری نظر کسی فاطمہ نام کی لڑکی یا عورت کے چہرے کی طرف اٹھی بھی ہے تو اس نظر میں ایسی عقیدت اورمحبت ہوتی ہے جیسی عقیدت اور محبت ایک بیٹے بھائی یا باپ کی نگاہوں میں اپنی ماں بہن یا بیٹی کے لیے ہوتی ہے۔

جب فاطمہ بیٹی کو اس کی ماں نے یہ حکم دیا تھا کہ بیٹی آج کے بعد تم سبھی غیر محرم مردوں سے مکمل پردہ کیا کرو گی تو فاطمہ نے اپنی ماں کے اس حکم کو بسروچشم قبول کر لیا تھا مگر جب کچھ ماہ کے بعد اس کی والدہ اور فاطمہ بیٹی اکھٹی ہی میرے پاس پتوکی کی دکان پر آئی تھیں ۔ تب فاطمہ نے میرے سے پردہ نہ کیا تھا۔ میرے سامنے تو اس کی والدہ نے فاطمہ بیٹی کو کچھ نہ کہا تھا اس مقام پر مجھے یہ اقرار کرنا ہے کہ فاطمہ کی والدہ نہایت تدبر والی اور دانش مند خاتون تھیں ۔نہ تو وہ عجلت پسند تھیں اور نہ ہی عام عورتوں کی طرح سے بے عقل اور بے تدبیر تھیں۔بلکہ وہ ہر معاملے کے سارے پہلوؤں اور ہر مسلے کے سارے حل سامنے رکھتیں تھیں اور جب کسی سے گفتگو کرتی تھیں تو اس امر کاخاص خیال رکھتی تھیں کہ گفتگو نہ تو اخلاق سے گری ہوئی ہو اور نہ ہی توہین آمیز ہو۔انہوں نے اپنی اکلوتی بیٹی کی تعلیم اور تربیت ایسی اچھی اور اعلیٰ کی تھی کہ میں فاطمہ بیٹی کے کردار سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکاتھابہرحال اس کی والدہ نے گھر پہنچ کر سارے کاموں سے فارغ ہونے کے بعد جب عشاءپڑھ لی تھی اور فاطمہ بیٹی بھی عشاءکے بعد تسبیحات مکمل کر چکی تھی تب اس کی ماں نے پوچھا تھا۔ فاطمہ بیٹی کیا ڈاکٹر غیر محرم نہیں ہے؟

فاطمہ بیٹی ناجانے کب سے مجھے اپنے چاچا کے رتبے پر فائز کرنے کے بعد یہی سمجھی بیٹھی تھی کہ میں اس کا سگا چچا ہی ہوں کیونکہ جب سے مجھے یہ علم ہوا تھا کہ فاطمہ ایک ایسی یتیم بچی ہے جس کو اپنے مرحوم باپ کی شکل تک یاد نہیں ہے تب سے اس کے لئے میری شفقت اور الفت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا تھا اور فاطمہ بیٹی کے لیے میری پدرانہ شفقت چھپائے نہ چھپتی تھی ۔ شائد یہ میری پر خلوص محبت اور شفقت تھی کہ فاطمہ بیٹی نے اپنے دل میں اپنے باپ کی ایک تصویر بنا ڈالی تھی جو کہ حقیقت میں میری ہی تھی۔فاطمہ بیٹی عقل فہم اور تدبر میں اپنی ماں کی تصویر ہی تھی۔اس نے عام بچیوں کی طرح سے تنک کر اور بد تمیزی سے جواب نہ دیا تھا بلکہ نہایت ہی ششتہ لہجہ میں اور انتہائی ادب سے اپنی ماں کو کہا تھا۔ اماں ! مجھے تو چاچاجی اپنے سگے چچا کی طرح سے لگتے ہیں بلکہ میں یہ سوچتی ہوں اور یہ تمنا بھی کرتی ہوں کہ کاش وہ میرے والد ہی ہوتے ۔ پھر کچھ دیر تک فاطمہ بیٹی نے توقف کیا تھا اور اپنی بیوہ ماں کے چہرے کے تاثرات کو پڑھا بھی تھا۔ پھر سیانی ماں کی سیانی بیٹی کہنے لگی تھی ۔ماں تجھے ڈاکٹر چاچا سے اچھا شوہر نہیں ملے گا اور مجھے ان سے بہتر باپ نہیں ملے گا اس لیے آپ ان سے نکاح کر لو عام طور پر اس دنیا کی یہ ایک روٹین ہے کہ بڑے اپنے چھوٹوں کے رشتے طے کرتے ہیں مگر یہاں پر الٹ ہورہا تھا کہ ایک تیرہ سال کی بچی اپنی بیوہ ماں کے لئے رشتہ تجویز کر رہی تھی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ فاطمہ کے نام کا اعجاز ہے کہ ہم جس لڑکی یا بچی کا نام فاطمہ تجویز کرتے ہیں اس بچی میں فاطمہؓ بنت رسول ﷺ کی کوئی نہ کوئی ایک یا زائد صفات آجاتی ہیں۔

فاطمہ بیٹی کی پابندشریعت ماں نامحرم اور پرائے مردوں سے نہایت ہی کھردرے لہجے میں گفتگو کیا کرتی تھیں کیونکہ شریعت کا یہی حکم ہے کہ ایک مسلم خاتون ایک نامحرم مرد سے لوچ دار اور نرم لہجے میں بات نہ کرے۔ ان کے بااصول اور با کردار ہونے کو مد نظر رکھتے ہوئے میں ان کا بےحد احترام کیا کرتا تھایوں ان کے اور میرے درمیان ایک مناسب فاصلہ تھا۔ جب فاطمہ بیٹی نے اپنی زندگی کے بارہویں سال میں قدم رکھا تو ایک دن میں نے ڈرتے ڈرتے اس کی والدہ سے یہی کہا تھا کہ خاتون مجھے علم ہے کہ آپ ایک دوراندیش اور دانش مند خاتون ہیں اور زندگی کی اونچ نیچ کو میرے سے زیادہ بہتر اور اچھی طرح سے جانتی ہیں مگر بعض اوقات کچھ ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ سیانے لوگوں کے ذہن سے بھی ایک اہم بات محو ہو جاتی ہے ۔

اس لیے میری اس بات کو نصیحت یا ہدایت تصور نہ کیجئے گا بلکہ یہ تو ایک یادہانی ہے کہ بیٹی فاطمہ جلد ہی اپنی زندگی کے تیرہویں سال میں قدم رکھنے والی ہے اور میں بھی جانتا ہوں اور آپ میرے سے زیادہ تجربہ رکھتی ہیں کہ کسی بھی بچی یا بچے کے تیرہ سال سے لیکر انیس سال تک کے سات برس نہایت ہی اہم ہوتے ہیں ۔کسی بھی ٹین ایج کے یہ سات سال اس لیے اہم ہوتے ہیں کہ انہی سات سالوں میں ایک انسان کے کردار کی بنیاد بنتی ہے اور بعد میں اسی بنیاد پر کردار کی شاندار عمارت خودبخود ہی تعمیر ہوتی چلی جاتی ہے کیونکہ ایک بچہ یا بچی اسی عرصے کے دوران جو کچھ بھی سیکھتا ہے وہ اس کی مستقل عادت بن جاتی ہے پھر وہی پختہ عادت یا روٹین اس کی باقی کی تمام عمر کے کردار کا تعین کرتی ہے۔ مقام شکر ہے کہ فاطمہ بیٹی کی والدہ نے میری بات سننے کے بعد اثبات میں سر ہلا کر میری اس سوچ کی تائید کر دی تھی کہ میں جو کچھ بھی کہہ رہا ہوں درست اور بامقصد کہہ رہا ہوں۔

ہماری اس گفتگو کے تقریباً ایک سال کے بعد ان کی بیٹی ان کو یہ کہہ رہی تھی کہ آپ ڈاکٹر چاچا سے نکاح کر لیں۔ یہ بات درست ہے کہ فاطمہ کے والد کے انتقال کے بعد اپنی عدت کی مدت پوری ہوجانے پر سنت کی پابند اس عورت نے اپنی عمر جذبات اور خواہشات کو مدنظر رکھ کراور معاشرے کی غلط سلط باتوں اور بدکردار لوگوں کے فحش جملوں سے بچنے کے لئے یہی فیصلہ کیا تھا کہ اب ان کو نکاح ثانی کر ہی لینا چاہئے ۔ مگر بڑی مشکل تو یہ تھی کہ وہ اپنی بچی کے ضمن میں کسی پرائے مرد پر اعتماد نہ کر سکتی تھیں کیونکہ وہ پرائمری سکول میں انچارج ٹیچر تھیں اس لیے ان کے علم میں بہت سارے ایسے کیسز تھے جن میں کسی معصوم اور نابالغ بچی سے اس کے سوتیلے باپ یا سوتیلے چچا نے زیادتی کر ڈالی تھی اور وہ بے بس ماں اپنی مظلوم بچی کے لئے کچھ بھی نہ کرسکی تھی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اپنی بچی کی عصمت وعفت کے تحفظ کی خاطر فاطمہ کی والدہ نے کوئی خطرہ مول لینے کی بجائے اپنے جذبات کی قربانی دی تھی مگر اس دوران انہوں نے ایک باکردار مرد کی تلاش بھی جاری رکھی تھی۔

فاطمہ کی والدہ کے نزدیک باکردار مرد کا جو معیار تھا میں تو اس معیار پر بیس فیصد بھی پورا نہ اترتا تھا۔کیونکہ وہ ایک باریش اور مذہبی ٹائپ کے مرد کی تلاش میں تھیں جب کہ میں کلین شیو،ماڈرن اور شوخ تھا۔ مگر یہ بات طے ہے کہ میں بد کردار نہ تھا۔ بہرحال جب انہوں نے اپنی بیٹی کی تجویز سنی تھی تو انہوں نے نہ تو فوری طور پر مجھے رد کیا تھا اور نہ ہی فوراً مجھے نکاح کا پیغام دیا تھا بلکہ مجھے انڈر آبزرویشن رکھ لیا تھا۔یہ تب کی بات ہے جب میری پہلی شادی ہو چکی تھی ۔ بس یہی میرا پلس پوا نٹ تھا کیونکہ فاطمہ کی والدہ کسی شادی شدہ عالم سے نکاح کرنے کا اردہ رکھتی تھیں کیونکہ بقول ان کے ایک کنوارہ لڑکا کسی بیوہ یا مطلقہ سے شادی تو کر لیتا ہے مگر پھر ساری عمر استعمال شدہ کے طعنے بھی دیتا رہتا ہے۔مگر میں عالم دین بالکل ہی نہ تھا ۔ جس دور کی میں بات کر رہا ہوں اس دور میں پابند صوم و صلوة تو ضرور تھا اور تلاوت قرآن کریم کے ساتھ ساتھ تفاسیر اور دیگر دینی کتب کا مطالعہ بھی کیا کرتا تھا مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ فیشن بھی کرتا تھا میوزک بھی سنتا تھا اور جب کچھ دوست احباب اکھٹے ہوتے تھے تو تاش وغیرہ بھی کھیل لیا کرتا تھاظاہر ہے کہ میں انڈرآبزرویشن تھا مگر میرے تو فرشتوں کو بھی یہ خبر نہ تھی کہ ایک نیک اور پاک باز خاتون مجھے کنسیڈر کر رہی ہیں یا میرے بارے میں سنجیدہ بھی ہیں ۔

فاطمہ کی والدہ نے مجھے میوزک سنتے تو کئی مرتبہ دیکھا تھا اور ایک دومرتبہ مجھے تاش کھیلتے بھی دیکھا تھا ۔ ایک دن وہ مجھے پوچھنے لگیں آپ میوزک سنتے ہیں ۔ بے شک میوزک سننا ایک گناہ ہے اور میں اسے گناہ ہی کہتا ہوں اور گناہ ہی سمجھتا ہوں مگر اپنے غلط عمل کو درست ثابت کرنے کے لئے تاویلات نہیں کرتا اور ہی اپنے عیب کو چھپانے کے لیے جھوٹ بولتا ہوں۔ اس لیے میں نے صاف لفظوں میں یہ اقرار کر لیا تھا کہ میں میوزک تو سنتا ہوں مگر اپنے عمل کو غلط بھی سمجھتا ہوں ۔تاش بھی کھیلتا ہوں مگر کبھی کبھار اور تفریحاً کھیلتاکیونکہ یہ میری عادت نہیں بنی ہے یا مجھے اس کا نشہ نہیں ہے۔ اگر فاطمہ بیٹی کی والدہ صرف اپنے معیار یا نقطئہ نظر سے مجھے پرکھتیں تو وہ مجھے کبھی بھی تجویز نہ کرتیں مگر مجھے تجویز کرنے میں سب سے بڑا اور بنیادی فیکٹر یہی تھا کہ فاطمہ بیٹی مجھے اپنے باپ کی طرح سے چاہتی تھی۔ اس کی والدہ نے بھی محض اپنی بچی کی عزت کے تحفظ کی خاطر نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے نکاح کا پیغام دے دیا تھا۔جب فاطمہ بیٹی کی والدہ محمودہ خاتون نے مجھے نکاح کا پیغام دیا تھا تو میں بوکھلا گیا تھا۔کیونکہ اس وقت سے برسوں قبل ہی مجھے اپنے مریضوں کی زبانی یہ علم ہوگیا تھا کہ یہ خاتون بہت متقی، پرہیز گار، باکردار ، ایماندار اور نیک ہے۔ میں آج بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہوں کہ میں محمودہ خاتون کے قابل ہونا تو بہت بڑی بات ہے ان کے کردار کا عشر عشیر بھی نہ تھا۔

میں اپنی بات کو مختصر کرتا ہوں اور یہ بتاتا ہوں کہ جب میرا محمودہ خاتون سے نکاح ہوا تھا اس وقت فاطمہ بیٹی سترہ برس کی ہوچکی تھی اس لیے محمودہ بیگم کے میری زوجیت میں آنے کے فوری بعد مجھے فاطمہ بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر لاحق ہوئی تھی۔ جب ہم نے فاطمہ بیٹی کو اپنے گھر رخصت کیا تھا تو ہمارے نکاح کو ایک سال مکمل ہو چکا تھا اور محمودہ بیگم ایک بیٹے کی ماں بھی بن چکی تھیں۔

اگلے برس پورے ایک سال کے بعد جب فاطمہ بیٹی اپنی زندگی کے انیسویں سال کے اختتامی ماہ میں تھی تو وہ ایک بیٹے کی ماں بن چکی تھی ۔ محمودہ بیگم کو نواسے کی مبارک باد دیتے ہوئے اور نانا بننے کی مبارک باد وصول کرتے ہوئے میں نے اپنی خاتون اوّل سے کہا تھا۔لو بھئی محمودہ بیگم آج آپ بحیثیت ایک ماں کے اور میں بحیثیت ایک باپ کے اللہ علیم وحکیم کی جتنی بھی شکر گذری کریں وہ کم ہے کیونکہ اس نے ہم دونوں کو یہ توفیق عطا کی کہ ہم فاطمہ کی ایسی تربیت کر سکیں جوکہ مثالی ہو۔
یہ سب کچھ بیان کرنے کا میرا مقصد یہ ہے کہ جب بھی کوئی لڑکا یا لڑکی اپنی عمر کے دوسرے عشرے میں قدم رکھتا ہے یا یوں کہیں کہ جب بھی کوئی انسانی بچہ یا بچی دس سال کی ہوتی ہے تو اس کے جسم میں موجود غدودوں کو دماغ کی طرف سے ایک سگنل ملتا ہے بالفاظ دیگر وہ غدودی نظام جو بچی یا بچے کی پیدائش کے وقت سے لے کر اب تک سو رہے تھے ان کو تحریک ہوتی ہے اور وہ اپنے کام یا فنکشن کا آغاز کر دیتے ہیں اور مختلف طرح کے ہارمونز کو خون کے ذریعے سے جسم کے مختلف حصوں میں بھیجنا بھی شروع کر دیتے ہیں۔چونکہ انسان کی دو الگ الگ جنسیں ہیں اس لیے ہر جنس کا اپنا الگ اور منفرد غدودی نظام ہوتا ہے یوں جو ہارمون ایک لڑکی میں بنتے ہیں وہ ایک لڑکے کے ہارمونز سے منفرد اور جدا ہوتے ہیں کچھ ہارمونز مشترک بھی ہوتے ہیں مگر ان میں بھی لڑکی اور لڑکے کے حساب سے کمی بیشی ہوتی ہے۔جب بچی یا بچہ دس گیارہ سال کی عمر میں پہنچتا ہے اور بعض نسلوں میں اس سے کچھ قبل یا کچھ دیر سے بھی بہرحال یہ ہارمون جب جسم میں خون کے ساتھ گردش کرتے ہیں تو لڑکے میں مردانہ خصوصیات ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور لڑکی میں ایک عورت بننے کے آثار نظر آنے لگتے ہیں ۔

یہ ہارمونز جس قدر ظاہری تبدیلیاں لاتے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ ہلچل بچی یا بچے کے جسم کے اندر مچارہے ہوتے ہیں جو کہ ہم کو یعنی کہ والدین یا بزرگوں کو تو نظر نہیں آتے مگر بچی یا بچے کو اندر سے اتھل پتھل کر رہے ہوتے ہیں جس کو میں یوں بھی کہتا ہوتا ہوں کہ بچی یا بچہ کنفوژن کا شکار دکھائی دیتا ہے یوں اس کا مختلف طرح کی چیزوں کو دیکھنے کا انداز تک بدل جاتا ہے یعنی کہ آج کل کی زبان میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس عمر سے قبل بچی یا بچے کو جو چیزیں یا باتیں معمول کے مطابق نظر آتی ہیں انہی چیزوں یا باتوں کو بچی یا بچہ ویئرڈ محسوس کرتا ہے یہ سارا قصور یا کیا دھرا ان ہامونز کا ہوتا ہے جو کہ بچی یا بچے کے جسم میں دم بدم بڑھتے جا رہے ہوتے ہیں۔ پھر ذہین بچی یابچہ تو سوالات کرتا ہے اور جو بچیاں یا بچے کم ذہین ہوتے ہیں یا پھر اپنے والدین کی بے جا سختی سے ڈرے یا سہمے رہتے ہیں یا پھر وہ سگے والد یا والدہ اور کچھ صورتوں میں دونوں سے ہی محروم ہوتے ہیں وہ ان عجیب و غریب اور انوکھے سوالات کو الفاظ کے معنٰی نہیں پہناتے کیونکہ وہ اپنے معاشرے سے یا بزرگوں سے خوفزدہ ہوتے ہیں کیونکہ ان کے دل میں جو سوالات جنم لیتے ہیں ان میں سے زیادہ تر سوالات مذہب سے متعلق ہوتے ہیں یاپھر ان کے ذہنوں میں جنسی تبدیلی کے باعث جنس کے متعلق کھوج ابھرتی ہے۔ اگر ہم والدین ہیں اور بچی یا بچہ ہمارے سے اس بارے میں سوال کرتا ہے تو ہم اسے جھڑک دیتے ہیں اور درشتی سے بھی کام لیتے ہیں کیونکہ ہمارے معاشرے میں مذہب کے بارے میں تنقیدی قسم کے سوالات کرنا اور جنس کے بارے میں کھوج کرنا دونوں ہی شجر ممنوعہ ہیں۔

میں یہ بات پڑھے لکھے متوسط طبقے کے گھرانوں کا سروے کرنے کے بعد کہہ رہا ہوں جہاں تک مذہبی قسم کے گھرانوں کی ہے یا پھر غربت اور افلاس میں گھرے ہوئے لوگوں کی بات ہے توان گھروں میں نہ تو کوئی اس قسم کے سوالات پوچھتا ہے اور نہ ہی والدین کو یہ شعور ہوتا ہے کہ بچی یا بچہ اپنی زندگی کے سب سے اہم حصے میں سے گذر رہا ہے اور یہی وقت ہے جب اس کے سوالات کا صحیح اور مدلل جواب دے کر بچی یا بچے کی سمت کو ہمیشہ کے لیے درست کیا جا سکتا ہے۔ مگر نہیں جناب ! کچھ والدین کے پاس وقت نہیں ہے تو کچھ کے پاس عقل نہیں ہے یوں نوے فیصد کیسز میں بچی یا بچہ اپنی عمر سے بڑی عمر کے لڑکے یا لڑکیوں سے سنی سنائی باتیں سنتا ہے اور ان پر عمل بھی کرتا ہے اور یہ سب باتیں واہیات اور غیر حقیقی ہوتی ہیں ۔ یہ میرا ذاتی تجزیہ ہے کہ بھٹکے ہوئے پچاس فیصد بچیاں اور بچے اس عمر کے دوران غلط ہاتھوں میں پڑ جاتے ہیں جو کہ اکثر ان سے بڑی عمر کے ہوتے ہیں اور وہ شکاری بھی ہوتے ہیںیوں جو بچیاں یا بچے کسی بڑے یا بزرگ کی مخلص راہنمائی سے محروم ہوتے ہیں شادی سے قبل ہی جنسی تجربات کر بیٹھتے ہیں ۔ ہمارے ملک پاکستان میں کچھ مذہبی شکاری بھی ہوتے ہیں جو کہ ٹین ایج کے بچوں یا بچیوں کا شکار کرتے ہیں ۔

مسلمانوں کی مذہبی تنظیمیں تو کروڈ طریقے اختیار کرتی ہیں جب کہ کرسچئین مشنری آرگنائزیشن زیادہ منظم اور متحرک ہیں وہ سائینٹفک میتھڈ اپلائی کرتی ہیں ۔ آپ خود ہی سروے کرکے دیکھ لیں کہ ہمارے ملک پاکستان اور ملحقہ ملک افغانستان میں عیسائی تبلیغی ادارے ان بچوں پر فوکس رکھتے ہیں جو کہ ٹین ایج ہوتے ہیں اور اکثر صورتوں میں اپنے معاشرے سے غیر مطمئن بھی ہوتے ہیں ایسے بچے اور بچیوں کو بھٹکانا اور ان کی برین واشنگ کرنا نہایت ہی آسان ہوتا ہے اسی لیے ہمارے ملک میں بہت سارے مسلم بچے عیسائیت قبول کرلیتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں سراسر قصور ہمارے معاشرے کا اور ان والدین کا ہے جو کہ اپنی بچی یا بچے کو نہ تو مناسب وقت دیتے ہیں اور نہ ہی اس کی درست سمت میں راہنمائی کرتے ہیں ۔ یہ عمر تو ایسی ہوتی ہے کہ بچہ یا بچی بہت عجیب محسوس بھی کر رہے ہوتے ہیں اور اسی عجیب احساس اور سوچ کے زیر اثر بہت سارے عجیب سوالات بھی کرتے ہیں ۔ ان کے سوالات کے جوابات دینا ہم بڑوں پر فرض ہے اگر ہم اپنی کاروباری یا دیگر مصروفیات کی بنا پر اپنی اولاد کو وقت نہیں دے سکتے تو ہمیں اولاد پیدا کرنے کا حق بھی نہیں ہے۔

جہاں تک جنسیت کاتعلق ہے میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ دین اسلام نے اس معاملے میں ہماری مناسب راہنمائی کر دی ہے اور احادیث رسول ﷺ میں اس بارے میں اچھا خاصا مواد موجود ہے پھر میڈیکل سائینس کی جدید تحقیقات کی روشنی میں ہر جنس اور ہر عمر کے مطابق اور مختلف مواقعوں کی مناسبت سے والدین علماءاور ڈاکٹر پاکستانی قوم کے بچوں اور بچیوں کی درست اور مناسب راہنمائی کر سکتے ہیں اور اس نسل کے کردار کی تعمیر کر سکتے ہیں جس نسل نے مستقبل کے پاکستان کی قیادت سنبھالنی ہے اور کل کو اچھے والدین بھی بننا ہے۔

فاطمہ بیٹی کی باقی کہانی تو میں آگے چل کر بیان کروں گا مگر اس سے پہلے آپ کو ایک لڑکے کی کہانی سناتا ہوں ۔ وہ یتیم لڑ کا میری بڑی ہمشیرہ کا ہم نام ہے اور آج کل لاہور میں کسی مذہبی تنظیم کا مبلغ بھی ہے ۔ اس لڑکے کا تعلق میری ایک بیوی کے خاندان سے ہے جب وہ گھرانہ میرا سسرال بنا تھا تب وہ لڑکا نو یا دس سال کا ہو چکا تھا ۔ اس کی والدہ زیادہ پڑھی لکھی نہ تھی اور پاکستانی کاروباری باپوں کا تو آپ کو پتہ ہی ہے کہ وہ اپنی سگی اولاد کے لئے وقت نہیں نکالتے ایسے غیر مخلص اور دنیا دار تجار سوتیلی اولاد کے لئے کیا خاک وقت نکالیں گے؟

جب وہ سہما سا بچہ میڑک کا سٹوڈنٹ بنا تھا تب جا کراس بچے کو یہ احساس ہوا تھا کہ میں عام لوگوں سے مختلف سوچ اور رویے کا حامل شخص ہوں۔ مجھے اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں کوئی بخل نہیں ہے کہ وہ چودہ پندرہ سال کا بچہ میرے سے زیادہ ذہین تھا بعض اوقات وہ ایسے سوالات بھی کردیا کرتا تھا جن سوالوں کا جواب ہماری دینی کتب یا میڈیکل کی بکس میں تو موجود ہوتا تھا مگر میں ان سے لاعلم ہی ہوتاتھا اس وقت مجھے میرے والد مرحوم کی کہی ہوئی یہ بات یاد آجاتی تھی کہ اس دنیا کا کوئی بھی انسان علم کل نہیں ہے اور اپنی کمی کا اعتراف کرنا دراصل اس کمی کو پورا کرنے کے عمل کی طرف پہلا قدم ہے ۔ میرے والد مرحوم مجھے بارہا یہی کہا کرتے تھے کہ صرف جاہل ہی ہر چیز کے بارے میں جاننے کا دعویٰ کرے گا اور ایک سیانا اپنی کم مائیگی کا برملا اعتراف کرے گا اور پھر اس کمی کی تلافی کے لئے کوشش بھی کرے گا۔ یوں جب میں اس بچے کے کسی سوال پر لاجواب ہو جایا کرتا تھا تو یہی کہا کرتا تھا۔ یار! اس وقت تو میرے علم میں اس سوال کا جواب نہیں ہے مگر کسی نہ کسی کتاب میں اس سوال کا جواب ضرور بہ ضرور موجود ہو گا اس لیے ہم اس سوال کو اگلی مرتبہ تک اٹھا رکھتے ہیں ۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ اس بچے کی بدولت میں عیسائی مشنری کے طریقہ کار اور ان کے اوٹ پٹانگ سوالات اور تاویلات کے بارے میں اچھا خاصا جان چکا تھا۔

انجام کار یہ ہوا تھا کہ وہ بچہ عیسائی بن گیا تھا ۔کیونکہ میں اس کو ایک ہفتے میں ایک یا دو گھنٹے دے سکتا تھا جب کہ وہ لوگ جوکہ اسے عیسائی بنانا چاہتے تھے وہ خود آکر اس کو روزانہ ملتے تھے اور کئی کئی گھنٹے اس کی برین واشنگ بھی کیا کرتے تھے۔ ہماری ایلیٹ کلاس کا کوئی بچہ یا بچی عیسائی ہو بھی جائے تو بھی کسی کو جلد علم نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ اس کے والدین اور اقربا اس کے اس عمل کو یوں چھپاتے پھرتے ہیں جیسے کہ ہمارے مڈل کلاس کے لوگ اپنی کسی بچی کے ناجائز حمل کو چھپا لیتے ہیں۔ ذاتی طور پر میں تو یہ جانتا ہوں کہ ہماری ایلیٹ کلاس کے سینکڑوں بچیاں اور بچے ہر سال عیسائی ہو جاتے ہیں اور پھر کسی نہ کسی مخلص مسلم کی بدولت کچھ عرصے کے بعد عیسائیت سے تائب بھی ہو جاتے ہیں۔ جب اس بچے نے مجھے یہ بتایا تھا کہ انکل میں کرسچئین ہو گیا ہوں تب میں نے نہ تو اس کو کوئی کڑوی کسیلی سنائی تھی اور نہ ہی اس کو دھتکارا تھا ۔ بلکہ اس کو پہلے سے بھی زیادہ وقت دینا شروع کر دیا تھا ۔

ان دنوں میں اپنے ہینڈ بیگ میں اسلامک لٹریچر بھی رکھا کرتا تھا ۔ میں نے ایک ایک کرکے وہ بھی اس بچے کو دینا شروع کر دیا تھا ۔ مقام شکر یہ ہے کہ وہ بچہ نہ صرف اس لڑیچر کا مطالعہ کرتا تھا بلکہ میرے ساتھ مدلل گفتگو بھی کرتا تھا ۔ پھر اس ہفتہ وار گفتگو کے اختتام پر میں اس کو مزید لٹریچر بھی دیا کرتا تھا اور ایک یا دو سوالات بھی جن کا جواب اسے اپنے پاسٹر سے لانا ہوتا تھا۔ میں یہ دعویٰ تو نہیں کرتا کہ وہ بچہ محض میری تبلیغ پر دائرہ اسلام میں واپس آگیا تھا اور بھی بہت سارے فیکٹر اور عوامل تھے کہ دو سال کے بعد وہ بچہ مسیحیت سے تائب ہو گیا تھا۔ مگر میں ایک بات ضرور لکھوں گا کہ اگر ہمیں اپنے بچوں کو باطل خیالات سے محفوظ رکھنا ہے تو ہمیں حکمت سے کام لینا پڑے گا اور میری ذاتی رائے یہ ہے کہ انسانوں میں سب سے بڑے حکیم رسول کریم ﷺ ہیں ۔ اگر ہم قرآن و حدیث کو خلوص نیت سے کھولیں تو نبی کریم ﷺ ہر ہر مقام اور ہر ہر مرحلے پر ہماری راہنمائی کرتے ہوئے دکھائی دیں گے ۔

فاطمہ بیٹی جب بارہ تیرہ سال کی ہوئی تھی تب اس کو باپ یا کسی مرد بزرگ کی کمی شدت سے محسوس ہوئی تھی۔اس کا تایا چچا کوئی بھی نہ تھا اس کے دوماموں تھے ایک تو کبھی کبھار ہی آتا جاتا تھا دوسرا اپنی بیوی سے ڈرتا تھا اس لئے نہیں ملتا تھا۔ یوں اس نے پدری شفقت کو پانے کے لئے میرے پاس آنا شروع کر دیا تھا وہ مہینے میں کسی چھٹی کے دن کسی نہ کسی مریض کے ہمراہ میرے پاس آتی تھی اور ڈھیروں سوالات بھی ساتھ ہی لاتی تھی۔عام لوگ تو ان سوالات کو اوٹ پٹانگ کہیں گے یا پھر بے ہودہ فضول یا اخلاق سے گرے ہوئے۔ مگر میرا ایک وژن ہے کہ جس بچی یا بچے کے ذہن میں اس قسم کے سوالات پیدا نہیں ہوتے اس کی گروتھ ابنارمل یا سب نارمل ہے اور وہ بچی یا بچہ آئندہ زندگی میںمعمول کی ازدواجی زندگی سے محروم ہی رہے گا۔ میں فاطمہ بیٹی کے سارے سوالات کا مکمل اور مدلل جواب دینے کی اپنی سی سعی کیا کرتا تھا۔ بہت سارے کم فہم لوگ اس گفتگو کو سمجھ نہ سکتے تھے اور عجیب باتیں بھی کیا کرتے تھے۔

مگر مجھے کسی کی پرواہ نہ تھی کیونکہ میں نہ صرف مخلص تھا بلکہ میری نیت بھی صاف تھی ۔پھر اللہ مسسب الاسباب نے ایک سبیل نکال ہی دی تھی ۔ جس گلی میں فاطمہ بیٹی اپنی ماں کے ساتھ مقیم تھی اسی گلی میں لاہور کی رہا ئشی ایک لڑکی آن بسی تھی جس کا میاں ایک سرکاری ملازم تھا اور وہ لڑکی بھی انٹر پاس تھی۔ بقول اس لڑکی کے جن سولات کے جوابات وہ آج تک ڈھونڈتی چلی آرہی تھی اب ان سوالات کے جوابات اسے پوچھے بغیر ہی ملنا شروع ہوگئے تھے اس لیے اس لڑکی نے فاطمہ بیٹی کو کہا تھا کہ آئندہ تم جب بھی اپنے ڈاکٹر چچا کے پاس جاؤ تو مجھے بھی ساتھ لیتے جانا ۔یوں وہ نیک اور سمجھدار بچی ہر مرتبہ فاطمہ بیٹی کے ہمراہ آنے لگی تھی۔

جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ محمودہ بیگم ایک بے داغ کردار کی حامل عورت تھیں ۔ وہ خود بخود ہی تیار نہیں ہوئی تھیں اس کے لئے ان کے والد مرحوم نے اپنی نوکری کی قربانی دی تھی۔جب محمودہ بیگم بارہ سال کی تھیں تب ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا۔اس کے زمانہ شناس والد یہ جانتے تھے کہ نوکری یا بیٹی میں سے وہ صرف ایک دولت کو بچا سکتے ہیں ۔ چونکہ وہ ایک اچھے انسان تھے لہٰذا وہ نوکری چھوڑ کر اپنی بیٹی کی تعلیم اور تربیت میں مصروف ہو گئے تھے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اولاد کی تعلیم و تربیت کی خاطر والدین اور بڑوں کو وقت بھی نکالنا پڑتا ہے اور ہر طرح کی قربانی بھی دینی پڑتی ہے۔محمودہ ہو یا فاطمہ ہو یا کوئی اور بچی بچہ ہو اس کی تربیت اور بہتر مستقبل کی خاطر والدین میں سے کسی ایک یا بعض اوقات دونوں کو قربانی دینا ہی پڑتی ہے ۔جیسے محمودہ بیگم کے بہتر مستقبل اور بھلائی کی خاطر ان کے والد مرحوم نے قربانی دی تھی اسی طرح سے محمودہ بیگم نے اپنی معصوم بھولی اور سادہ دل بیٹی فاطمہ کی خاطر اپنے جذبات کی قربانی دی تھی اور اپنی جوانی کے بہترین سال تجرد کی بھینٹ چڑھادئیے تھے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ جب محمودہ بیگم میرے نکاح آئیں تھیں تو وہ اکتالیس سال کی تھیں مگر ان کے جذبات ایک لڑکی کی طرح سے تھے۔ ایک مرتبہ میں نے مذاقاً کہا تھا کہ کیا میں تمہاری ہم رتبہ عورتوں (سوکنوں ) کو بتا دوں کہ تم ابھی بھی لڑکی ہی ہو ؟ وہ نیک بخت عورت اولیانہ وژن رکھتی تھی ۔ مجھے کہنے لگےں مجھے علم ہے کہ کبھی نہ کبھی آپ میرے بارے میں ضرور لکھیں گے ۔اس وقت میری طرف سے یہ ضرور لکھ دینا کہ اے مسلمانوں ! عورت بھی مرد کی طرح سے مٹی کا پتلا ہی ہے اور وہ بھی ویسے ہی جذبات اور خیالات رکھتی ہے جیسے جذبات اور خیالات ایک مرد رکھتا ہے۔ اس لیے تم قیامت کے روز سے اپنی پوچھ پرتیت سے ڈرو اور اپنی کنواری مطلقہ یا بیوہ بیٹیوں اور بہنوں کا نکاح ثانی جلد کر دیا کرو۔اتنا کہنے کے بعد محمودہ بیگم مجھے کہنے لگیں ۔بس یہ بات میری طرف سے آپ کی ذات پر قرض ہے ۔( میرے قارئین گواہ رہےں کہ آج میں نے اس نیک بخت عورت کا قرض چکتا کر دیا ہے ۔ الحمد اللہ الرب العالمین ! محمودہ بیگم سوا نو سال تک پر سکون اور محبت بھری رفاقت دے کر اس جہان فانی سے کوچ کر گئیں)

اسی لیے میں یہ کہتا ہوتا ہوں کہ اگر والدین اپنی اولاد کو دولت نہیں دے سکتے تو کوئی حرج نہیں ہے یہ تو مقدر کی بات ہوتی ہے مگر ان کو اپنی اولاد کی خاطر وقت تو ضرور نکالنا چاہئیے کیونکہ اگر ہم اپنی اولاد کو وقت نہیں دیں گے تو ان کے بھٹک جانے کا سارا قصور ہمارا ہی ہوگا ۔ یہاں ہانگ کانگ میں مقیم پاکستانی حضرات نے بارہ بارہ اور چوبیس بیس گھنٹے نوکریوں میں ضائع کر دئیے ہیں اور یوں وہ اپنی اولادوں کو نہ تو وقت دے سکے ہیں اور نہ ہی ان کی مناسب تربیت کر سکے ہیں اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ اکثر کی اولادیں نالائق اور بھٹکی ہوئی ہیں اکثر پاکستانی لڑکے نشہ بھی کرتے ہیں اور شادی شدہ ہونے کے باوجود سہیلیاں بھی رکھتے ہیں اور جو کچھ بھی وہ کماتے ہیں سارا ایک خاص قوم کی عورتوں پر ضائع بھی کر دیتے ہیں اگر ہمارے پاکستانی لڑکوں کی یہی حالت رہی تو ایک دن ایسا بھی آنے والا ہے کہ ہانگ کانگ میں مقیم پاکستانی لڑکیاں بھی سرعام غیروں سے یاری لگاتی پھریں گی اور کوئی کچھ بھی نہ کر سکے گا ابھی تو ابتدا ہے اس لیے ابھی تک تو ہماری لڑکیاں ایسا کام چھپ چھپا کر ہی کر رہی ہیں ۔

میرے سامنے ایک مسلم بچی کے بارے میں ایک خبر ہے جو کہ امریکہ کی ریاست اوہائیو میں اپنے والدین کے ساتھ رہائش پذیر تھی اور اب وہ ارتداد کا شکار ہو گئی ہے اس لیے اب وہ لڑکی ایک عدالتی کاروائی کے بعد کسی پادری یا پاسٹر کی تحویل میں ہے۔یہاں تک تو میرے لئے یہ ایک معمول کی خبر ہی ہے کیونکہ امریکہ بہت وسیع اور کثیر آبادی والا ملک ہے اس لیے اس کے کسی نہ کسی کونے سے ہر ہفتے اس طرح کی کوئی نہ کوئی خبر آہی جاتی ہے ۔ہمارے تک وہ خبر اس لیے نہیں آتی کہ اس مسلم لڑکی یا لڑکے کے والدین اپنی بدنامی کے ڈر سے ایسی خبر کو خود ہی چھپا جاتے ہیں البتہ ایسی خبریں عیسائیوں کے مذہبی اخبارات میں چھپتی بھی ہیں اور گرجوں سے وابسطہ ٹی وی اور ریڈیو چینل ایسی خبروں کی کوریج بھی خوب کرتے ہیں مگر ہماری کمیونٹی کو ایسی خبروں کی خبر اس لیے نہیں ہوتی ہے کہ ہم کو بولی وڈ فلموں اور کرکٹ سے فر صت ملے تو ہم کچھ اور دیکھیں ۔ یوں کئی لاکھ پاکستانی امریکہ میں موجود ہونے کے باوجود وہاں پر موجود نہیں ہیں اور وہ امریکن معاشرے میں ایک غیر موثر ہجوم ہیں۔

یہ خبر محض اس لئے منظر عام پر آگئی ہے کہ اس لڑکی کے والدین کچھ بہادر ہیں کہ وہ معاشرے کے طعنوں اور رشتہ داروں کی باتوں کا خوف بالائے طاق رکھ کر پولیس اور عدالت تک جا پہنچے ہیں ۔آگے کیا ہو گا ؟ صاف ظاہر ہے کہ عدالت اس لڑکی کی سنے گی جس کی برین واشنگ ہو چکی ہے اور والدین پچھتاتے ہوئے اپنے گھر واپس آجائیں گے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر یہ خبر میرے لئے عام یا معمول کی ہے تو میں اس پر اتنا لمبا چوڑا کیوں لکھ رہا ہوں ۔دراصل جو عنصر اس خبر کو میرے لئے اہم بنا رہا ہے وہ اس بچی کا نام ہے ۔ اس معصوم بھولی اور سیدھی سادھی لڑکی کا نام فاطمہ باری ہے ۔ جس کے مصروف کاروباری والد کے پاس اس کے چند سوالات کے جوابات دینے کے لیے وقت نہ تھا وہ بچی ان سوالات کے جوابات کی تلاش میں عیسائیوں کی ویب سائٹ پر گئی تھی اور پھر مشنری کے ہتھے چڑھ گئی اب تو اس نے عیسائیت بھی قبول کر لی ہے اور سب سے بڑی ستم کی بات یہ ہے کہ کل تک جس مصروف کاروباری باپ کے پاس اتنا وقت بھی نہ تھا کہ گھر پر ایک کمپیوٹر کے سامنے بیٹھی ہوئی بھولی اور معصوم بچی کے سوالات کے جوا بات دے سکے آج اسی باپ کے پاس اتنا وقت نکل آیا ہے کہ وہ وکیلوں پولیس سٹشنوں عدالتوں اور اخبارات کے دفاتر کے چکر لگا رہا ہے۔اسے کہتے ہیں لکیر پیٹنا ۔

اس بچی فاطمہ باری کی ماں کا کیا حال ہو گا ؟ یہ تو ایک ایسی ماں ہی بتا سکتی ہے جس کی بیٹی اس کی اپنی نالائقی کی بنا پر اس سے چھین لی گئی ہو اور میرا کیا حال ہورہا ہوگا ؟ جو کہ فاطمہ نام کے بارے میںحساس ترین ہے۔ پہلے آپ ایک واقعہ سن لیں اور پھرخود ہی فیصلہ کر لیں۔ نوے کی دہائی کے آغاز میں ہم تین ڈاکٹر ز نے مل کر لاہور ڈیفنس سوسائٹی کے ایچ بلاک میں ایک کلینیک کھلا تھا ۔ باقی کی دونوں ڈاکٹرز عورتیں تھیں اور میرا نام عورتوں والا تھا یوں ہمارے اس کلینیک پر صرف عورتیں ہی آیا کرتی تھیں۔ہماری ایک کلائنٹ تھی جس کا نام فاطمہ تھا۔

حالانکہ میں یہ جانتا بھی تھا کہ وہ ایک کال گرل ہے مگر جب بھی وہ آیا کرتی تھی تو میں احتراماً کھڑا ہو جایا کرتا تھا۔ایک دن اس نے ہمت کرکے میرے سے یہ پوچھ ہی لیا تھا کہ جب آپ یہ جانتے بھی ہیں کہ میں ایک پیشہ ور عورت ہوں تو پھر آپ میرا احترام کیوں کرتے ہیں۔میرا جواب بڑا ہی سادہ تھا میں نے کہا تھا تم میری ماں کی ہم نام ہو ۔میں تو اپنے ماں کے احترام میں کھڑا ہوتا ہوں ۔ سیانے کہتے ہیں کسی کے بگڑنے میںعشرے یا صدیاں لگ جاتی ہیں مگر اس لیے سنورنے کے لیے ایک لمحہ ہی کافی ہوتا ہے شائد یہ وہی سنورنے کا لمحہ تھا اس عورت کے آنسو تھم نہ رہے تھے ہمارے کلینیک کے عملے کے باقی لوگ تو اسے چپ کروانے کی کوشش کر رہے تھے مگر میں یہ کہہ رہا تھا اسے مت روکو اسے آنسو بہانے دو کیونکہ آج ان آنسوؤں میں اس کا سارا ماضی بہہ جائے گا ۔ یہی ہوا تھا اس عورت نے جسم فروشی سے توبہ کر لی تھی۔میں جو کچھ کر سکتا تھا اتنا کچھ میں نے کیا تھا باقی اصل کام کرنے والی ذات تو وہی ہے جسے ہم اللہ الرحمٰن کہتے ہیں ۔ وہ فاطمہ آج کل ایک باعزت نوکری کرکے اس جسم فروشی کے دھندے کہیں زیادہ کما رہی ہے۔

فاطمہ تو میری ذاتی ماں کا نام ہے اور پھر ہماری جدی ماں کا نام بھی ہے ان کی عزت کرنا تو میری عادت میں شامل ہے مگر میں تو تمام امہات المومنین صحابیات اور دیگر انبیاءکی بیویوں اور بیٹیوں کی ہم نام عورتوں کی بھی ایسی ہی توقیر اور عزت کرتا ہوں جیسی عزت اور توقیر اپنی ماں کی کرتا ہوں ۔سبھی جانتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کی دو ازواج تھیں۔ ہاجرہ بی بی تو اسمعیٰل علیہ السلام کی والدہ محترمہ تھیں جب کہ اسحاق علیہ السلام کی والدہ محترمہ کا نام سائرہ بی بی تھا ۔اسی لیے یہودی اور عیسائی ا پنی اکثر لڑکیوں کے نام سارہ رکھتے ہیں اور یہ نام ان دونوں مذاہب میں ایسے ہی عام ہے جیسے کہ ہمارے ملک اور معاشرے میں فاطمہ کا نام عام ہے۔ جب میں امریکہ میں تھا تو میری ایک یونی میٹ تھی اس کا نام الزبیتھ تھا اسی لڑکی نے میرا تعارف اپنی دوست جولی سے کروایا تھا اس جولی کا ذکر میں جولی ویری جولّی میں کرچکا ہوں ۔ الزیبتھ کا تعلق بھی امریکہ کے خوشحال طبقے سے ہی تھا۔ہمارے ملک اور معاشرے میں تو اسے برائی ہی سمجھیں گے مگر امریکہ میں کچھ لوگ نیوڈز دیکھنا اور اپنے نیوڈز بنوانا کوئی برائی نہیں سمجھتے۔

الزیبتھ کو نیوڈز بنوانے کا شوق تو نہیں تھا مگر وہ نیوڈز ضرور دیکھا کرتی تھی ۔پاکستان میں ہم نے امریکن میگزین پلے بوائے کا نام تو سنا تھا مگر مجھے اس رسالے کا دیدار کرنے کا موقعہ بیرون ملک ہی میسر آیا تھا ۔ الزیبتھ ہمیشہ پلے بوائے ہی لایا کرتی تھی ایک مرتبہ الزیبتھ مجھے کسی لڑکی کا نیوڈ دکھانے لگی تھی تو میری نظر اس کے نام پر پڑی تھی تو وہ کوئی سارہ تھی ۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ میں نے وہ فوٹو اس رسالے سے نکال کر پھاڑ ڈالی تھی اور پھر ردی کی نظر کر دی تھی۔ میں مانتا ہوں کہ میرا یہ فعل احمقانہ ہی تھا مگر میرے دل کو یہ اطمینان تو ہے کہ میں نے اپنی حد تک اپنے ارد گرد مقدس ہستیوں جیسے نام رکھنے والوں کی ہمیشہ توقیر کی ہے ۔ آپ نے شائد کبھی غور کیا ہو گا کہ پچھلے کچھ عرصہ سے انڈین فلم انڈسٹری نے ایسی ابلاغی موویز بنانا شروع کر دی ہیں جن میں جان بوجھ کر بد کار عورتوں کے نام ہماری محترم مسلم ماؤں کے ناموں پر رکھے جاتے ہیں اور ہم ایسی بے شعور قوم ہیں کہ اس میٹھے زہر کو امرت سمجھ کر دیکھتے رہتے ہیں ۔ میں تو ایسی موویز بنانے والوں پر لعنت بھی کرتا ہوتا ہوں اور ان کے لیے بد دعا بھی کرتا ہوتا ہوں ۔

میری یادداشت کے مطابق ایک سو چوالیس ایسی بچیاں ہیں جن کو میں نے بیٹی کہا ہے اور پھر اپنی بیٹیوں کی طرح سے عزت بھی دی ہے۔کیونکہ ان سب کے نام فاطمہ تھے۔اس لئے جب میں نے بیٹی فاطمہ باری کی خبر پڑھی تھی تو میرے دل سے اس بچی کے لئے دین اسلام کی جانب مراجعت کی دعا بھی نکلی تھی ۔ اللہ رحیم و کریم اس بچی فاطمہ باری کے سلسلے ہم سب مسلمین کی دعاؤں کو منظور و مقبول فرمائیں ۔ آمین!!

ویسے یہ عجیب اتفاق کی بات ہے کہ میری بیٹی فاطمہ کی بیٹی خدیجہ بھی فاطمہ باری کی طرح سے سترہ سال کی ہی ہے اور اسی سال ربیع الاوّل کے مہینے میں اس کی شادی اور رخصتی بھی ہوچکی ہے ۔ بلکہ اب تو وہ امید سے بھی ہے ۔ جب خدیجہ بیٹی امید سے ہوئی تھی تو وہ مجھے پوچھنے لگی تھی ۔نانا جی! میں اپنے بچے کی جنس جان سکتی ہوں؟ تو میں نے جواب میںکہا تھا بیٹا اس میں ہرج ہی کیا ہے کیونکہ ہم ہندو تو نہیں ہیں کہ بیٹی کو قتل کرنے کی نیت سے فیٹس کی سیکس ڈیٹرمائین کرواتے پھریں ۔ بلکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس طرح سے ہم بچی یا بچے کا نام بھی اس کی پیدائش سے قبل ہی تجویز کر سکتے ہیں اور اس کی جنس کے مطابق کپڑے اور دیگر سامان کا اہتمام بھی کر سکتے ہیں۔

اللہ مالک اور خالق کا شکر ہے کہ اس کے پیٹ میں ایک صحت مند بچی پل رہی ہے۔ اس لیے خدیجہ بیٹی مجھے پوچھنے لگی تھی کہ نانا جی آپ ہمارے خاندان کے سب سے بڑے بزرگ ہیں اس لئے بچی کا نام بھی آپ ہی تجویز کریں گے اسی وقت ہی اور فوری طور پر میرے ذہن میں اسحٰق علیہ السلام کی والدہ محترمہ کا نام آیا تھا۔ اس لیے میں نے کہا تھا بیٹا ابراہیم علیہ السلام اور اسحق علیہ السلام دونوں ہی ہمارے جلیل القدر نبی ہیں اس لیے ہم اپنی آنے والی بیٹی کا نام سائرہ رکھیں گے کیونکہ مسلم ہونے کے ناطے مائی سائرہ یا سارہ بی بی کے نام پر ہمارا حق یہود اور نصاریٰ سے زیادہ ہے۔

Friday, August 28, 2009

جولی ویری جولّی - - - - کچھ یادیں کچھ باتیں




تحریر: ڈاکٹر عصمت حیات علوی


بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

Julie very jolly



اس کے خیال میں یہودیوں کی مڈل ایسٹ کو مائیگریشن (Migration)ایک احمقانہ فعل تھی ۔وہ میرے سے خود ہی پوچھ کر پھر خود ہی اپنے سوال کا جواب یوں دیا کرتی تھی دیکھو !! آسماٹ امریکہ لینڈ آف اپورچیونیٹی (Land of Opportunity)ہے اور اتنی ڈھیر ساری سہولتیں اور آسائشیں چھوڑ چھاڑ کر ایک صحرا میں جا کر بسنے کی کوشش کرنا کیا دانش مندی کی بات ہے ؟ نہیں ہے نا ! ہاں نہیں ہے !

وہ خود تو اسرائیل جا کر رہنے اور بسنے کا کوئی ارادہ نہ رکھتی تھی مگر پھر بھی اس کے پاس اسرائیلی سٹیٹ کا ایک آسان اور سادہ حل تھا۔ وہ یہ کہ اسرائیل کا صدر یہودی ہو وزیر اعظم مسلم ہو اور سپیکر عیسائی ہو۔مگر اس کے لیے بھی اس کی ایک کڑی شرط تھی وہ یہ کہ تینوں کے تینوں بورن اسرائیلی ہونے چاہیئں ۔امیگرنٹ نہیں۔

اس کے دوست بھی تین ہی تھے ۔ایک یہودی ایک عیسائی اور ایک مسلم۔بلکہ وہ یہ بھی کہا کرتی تھی کہ میں چار بچے جنوں گی ایک یہودی بنے گا ایک عیسائی بنے گا ایک مسلم بنے گا جبکہ چوتھا نیوٹرل ہوگا تاکہ ان تینوں کو متحد رکھ سکے۔اسی لیے تو یونی ورسٹی میں اس کا میجر چائلڈ سائیکالوجی تھا۔ اس کے والدین الگ الگ کمپنیوں کے کرتا دھرتا تھے یوں اس کے پاس اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ان کے آنے سے قبل ہی سارے کے سارے وسائل اور سہولتیں موجود تھیں۔

میں یہی سمجھا کرتا تھا کہ وہ ایک معتدل مزاج یہودن ہے اس لیے سرزمین فلسطین پر دوریاستوں کی قائل ہوگی ۔ مگر نہیں جی !

ایک دن وہ ایک بڑا سا نقشہ اٹھائے ہوئے آئی تھی اور میری سٹڈی ٹیبل پر پھیلا کر مجھے یوں سمجھانے لگی تھی۔ دیکھو آسماٹ ! یہ فریٹس (فرات )ہے اور یہ نائیل(نیل) ہے۔ جب نئی دنیا (New World=America)دریافت نہیں ہوئی تھی۔ تب ہمارے پرانے زمانے کے بزرگ اسرائیل کو اتنا ہی وسیع اور عریض بنانا چاہتے تھے ۔ مگر اب ہمیں یہ علم ہو چکا ہے کہ اس کرہ ارض پر امریکہ جیسا وسیع اور عریض براعظم بھی موجود ہے تو آج کل کی یہودی نسلوں کو جدید دنیا کے کل رقبے کو مدنظر رکھ کر اسی ریشو سے اسرائیل کی سرحدوں میں توسیع کر دینی چاہیے۔

میں تو اس کی زبان سے ایسا توسیعی منصوبہ سن کر ششدر ہی رہ گیا تھا مگر اس نے میری حیرت اور تشویش کو نظر انداز کرتے ہوئے ماڈرن اسرائیل کی سرحدوں میں شامل تمام ممالک کی تشریح کرنی شروع کردی تھی ۔ وہ کہنے لگی تھی ہمارے جدید ربائی کہتے ہیں کہ جزیرةالعرب تو سارے کا سارا ہمارا ہی ہے اور شام لبنان مصر عراق اور ایران بھی ہمارے ہی ہیں کیونکہ کبھی وہاں پر بھی ہمارے بڑوں کی حکومت ہوا کرتی تھی۔پھر اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مجھے کہا تھا کہ آسماٹ ! تم میرے دوست ہو اس لیے میری تمنا یہی ہے کہ تمہارا وطن پاکستان بھی گریٹر اسرائیل کا ایک صوبہ ہو ۔

آج سے بیس برس قبل جولی نے جب یہ الفاظ کہے تھے تو میں بڑا ہی ہنسا تھا اور اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا ۔ جولی یو آر رئیلی ویری جولی(Julie! You are really very jolly)۔ مگر اب جب کہ میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں تو میں یہ سوچ رہا ہوں کہ بیس برس قبل جس بات کو میں ایک مذاق سمجھا تھا وہ محض ایک مذاق یا ایک چوبیس پچیس سالہ لڑکی کا جذباتی خواب نہیں تھا بلکہ پوری یہودی قوم کا ایک طویل المیعاد منصوبہ تھا کہ ماڈرن اینڈ گریٹر اسرائیل کی سر حدوں میں ایک نہ ایک دن پاکستان کو بھی شامل کرلیا جائے گا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ کہ بہت سارے عیسائی محقق اور تجزیہ نگار اس امر کا اقرار کرتے ہیں کہ پرنٹ اور الیٹرانک میڈیا کے ذریعے سے امریکہ کی عیسائی اکثریت کو نہ صرف بیوقوف بنایا جارہا ہے بلکہ یہودیوں کی ایک چھوٹی سی اقلیت نے اپنی عیاری مکاری اور چرب زبانی کے ذریعے سے پوری امریکن قوم کو عملاً یرغمال بنا لیا ہے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ میں انسان دوست اور امن پسند عیسائیوں کی کوئی کمی نہیں ہے مگر المیہ یہ ہے کہ وہاں کے میڈیا پر قابض چند یہودی سرمایہ دار انسان دوست اور امن پسند عیسائیوں کی آوازوں کو امریکہ میں اور باقی مہذب دنیا تک جانے ہی نہیں دیتے۔

آج سے سو سال قبل جب امریکہ کی آبادی آج کے مقابلے میں نصف بھی نہ تھی اس وقت امریکہ میں اشاعتی اور نشریاتی ادروں کی تعداد اڑھائی سوسے کچھ زائد ہی تھی مگر پھر ایک منصوبے کے تحت یہودیوں نے آہستہ آہستہ ایک ایک کرکے بڑے اور چھوٹے اشاعتی اور نشریاتی اداروں کو اپنی ملکیت بنانا شروع کردیا تھا اور آج صورت حال یہ ہے کہ تمام امریکہ کے اشاعتی نشریاتی اور دیگر ذرائع ابلاغ کے اداروں کی کل تعداد صرف پچیس ہاتھوں میں آچکی ہے باوجود اس حقیقت کے کہ امریکہ میں اشاعتی نشریاتی اور ابلاغی اداروں کی تعداد ہزار گنا ہوچکی ہے۔

یوں بڑے بڑے اداروں پر قابض چند یہودی پوری دنیا کی جیسی چاہتے ہیں ویسی ہی ذہن سازی کرتے ہیں ۔ یوں وہ پوری دنیا کو گمراہ کرتے ہیں اور اسلام اور مسلمین کے خلاف سازشیں کرتے ہیں اور پوری دنیا ان کی ہاں میں ہاں ملاتی رہتی ہے۔ امریکی نظام پر یہودیوں کی اتنی سخت گرفت کے باوجود بھی کچھ مخلص اور دردمند عیسائی ایسے بھی ہیں جو کہ کسی نہ کسی طرح سے اور کسی نہ کسی ذریعے سے اپنی حق اور سچ بھری آواز کو دنیا کے کانوں تک پہنچاتے رہتے ہیں۔

ان مخلص اور دردمندعیسائیوں میں سے ایک نام ڈیوڈ ڈیوک (David Duke)کا بھی ہے جس نے اپنی ویب سائٹ http://www.davidduke.com


ڈیوڈ ڈیوک نے عراق وار سے قبل ہی امریکن قوم کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا شروع کر دیا تھا کہ عراق کی جنگ تیل کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ سب یہودیوں کے توسیعی منصوبوں کی تکمیل کا ایک مرحلہ ہے اور اس نے ایک مضمون بعنوان اٹس نوٹ اباوٹ دی آئیل ۔سٹوپڈ! (It's not about the oil, Stupid !) لکھ کر یہودیوں کی ساری قلعی کھول دی ہے ۔

اس مضمون کی اشاعت کے بعد تو دنیاءاسلام کی آنکھیں کھل جانے چاہیئں تھیں مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ پاکستان کے عوام الناس تو بے چارے ان پڑھ ہیں ان کو تو میں کوئی الزام نہیں دیتا مگر ہمارے پاکستانی کالم نگار ابھی تک وہی پرانی لکیر پیٹے جارہے ہیں کہ امریکہ تیل اور معدنیات کے حصول کی جنگ کر رہا ہے ۔ امریکہ سنٹرل ایشاءکے معدنی اور زرعی وسائل پر قابض ہونا چاہتا ہے۔

امریکہ چین کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہتا ہے ۔ امریکہ میدان جنگ چھوڑ کر بھاگنا چاہتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔

میں یہ تو نہیں لکھوں گا کہ یہ سب احمقانہ
باتیں ہیں کیونکہ ابھی میرے میں یہ سچ لکھنے کی ہمت نہیں ہے میں تو صرف اتنا ہی لکھوں گا کہ ہمارے کالم نگاروں اور تجزیہ نگاروں کو ہر خبر اور رپورٹ کا مکمل انیلیسز (analysis)کرنا چاہیئے اور پھر ضمیر کی آواز سن کر سچ لکھنا چاہیئے جس دن بھی میرے ہم وطن اور ہم دین بھائیوں نے وہی کچھ لکھنا شروع کردیا جو کہ زمینی حقائق ہیں اسی دن سے میں حالات حاضرہ پر لکھنا چھوڑ دوں گا اور پھر سے سماجی خدمت میں مصروف ہو جاوں گا۔

انشاللہ العزیز ! کیونکہ میں تو ایک سماجی کارکن ہوں اور میرا کام تو سوشل ورکر کا تھا مگر جب میں نے یہ دیکھا تھا کہ اردو لکھنے والے کالم نویس اور تجزیہ نگار پاکستانی عوام کو درست بات بتانے کی بجائے ہم کو الجھنوں (Confusion)میں ڈالے جا رہے ہیں تو میں نے اپنے قریبی، پرانے اور آزمودہ دوستوں کے کہنے پر کرنٹ افیئرز پر لکھنا شروع کردیا ہے۔ کیونکہ ان کی یہ بات میرے دل کو بھائی تھی کہ ملک بچے گا تو تم اپنے معاشرے کے تعلیمی سماجی معاشی اور معاشرتی مسائل حل کر لینا اور پھر جی بھر کر پاکستان کی خدمت بھی کر لینا۔ بلکہ کچھ دوستوں نے تومجھے یہ بھی کہا تھا کہ روز قیامت تیر ی اس بات پر پکڑ نہ ہو جائے کہ جس قدر تجھے علم تھا اس قدر تونے اپنی قوم کو کیوں کر آگاہ نہ کیا تھا ؟

آئیے ! اب ہم تجزیہ کرتے ہیں کہ ہمارے پاکستانی کالم نگار جو باتیں اپنے آرٹیکلز میں لکھتے ہیں وہ کس قدر حقیقت ہیں۔

امریکہ اپنی ذات میں ایک دنیا ہے اگر امریکہ اپنی سرزمین پر موجود اور زیر سمندر وسائل کو استعمال میں لائے تو آئندہ کئی سو سال تک ان وسائل میں کوئی کمی نہ ہوگی یہ بات مجھے ایک میرین لائف کے ماہر پروفیسر نے بتائی تھی ۔ اس نے لوزیانہ سٹیٹ کے دارالحکومت نیو آرلئینز سٹی (New Orleans City)سے باہر دریائے مسسسپی (Mississippi River)کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ دریا ہر سال جتنی زرخیزی بحیرہ میکسیکو (Gulf of Mexico)میں ڈال دیتا ہے اگر ہم صرف اس بحیرہ کے سمندری زندگی کے وسائل کو استعمال میں لائیں تو اس بحیرے سے حاصل ہونی والی سمندری غذا سے سارے امریکن پل سکتے ہیں۔

چلیں ! اب ہم دوسرے نقطے کی طرف چلتے ہیں ۔ امریکہ پاکستان کے راستے سنٹرل ایشین کنٹریز تک بذریعہ خشکی ایک راستہ بنانا چاہتا ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ روس ابھی بھی ایک پاور ہے ۔وسطی ایشائی ممالک تو اس کے زیر اثر ہیں اور آئندہ بھی زیر اثر ہی رہیں گے بلکہ میرا تجزیہ یہ ہے کہ ایک نہ ایک دن رشیا اپنی کھوئی ہوئی سابقہ منڈیاں یعنی کہ ایسٹرن یورپین کنٹریز کو ایک بار پھر سے اپنے زیر اثر کر لے گا ۔

آپ خود ہی بتائیں کہ جو ملک اس قسم کے توسیعی عزائم رکھتا ہو کیا وہ پسپائی اختیار کرے گا؟ اور خاموشی سے اتنے اہم خطے امریکہ کے حوالے کردے گا ؟

چین کے گرد امریکن گھیرے کا نظریہ تو اسی دن بحیرہ جاپان میں غرق ہوگیا تھا جس دم پہلی امریکن کمپنی نے چین میں سرمایہ کاری کی تھی اور اس اہم واقعہ کو وقوع پذیر ہوئے بھی آج بیس سال سے زائد عرصہ ہونے والا ہے ۔

میں یہ سوال کرتا ہوں کہ جس ملک میں فارن انویسٹمنٹ کا چالیس فیصد سرمایہ امریکہ کے سرمایہ داروں نے لگا یا ہو ا ہو اور اسی ملک سے امپورٹ کی گئی اشیاءکو ری ایکسپورٹ کرکے امریکن سرمایہ دار ہر سال کروڑوں اربوں ڈالر کماتے ہوں اسی ملک کا امریکہ گھیراو کرے گا؟ یاد رہے کہ چین کے تجارتی طور پر خودمختار شہر ہانگ کانگ میں بھی امریکہ کی ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ سرمایہ کاری کل دنیا کی سرمایہ کاری کا نصف سے زائد ہی ہے۔

امریکہ یہ خطہ چھوڑ کر کبھی بھی نہیں جانے والا ۔ بلکہ جلد ہی دنیا یہ دیکھ لے گی کہ امریکہ طالبان کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک لاکھ سے زائد باقاعدہ فوج افغانستان میں اکھٹی کرلے گا دیگر مغربی ممالک کی فورسز کوملا کر اور یہ جو مختلف اور طرح طرح کی پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنیوں کے اراکین ہیں ان کی تعداد کو جمع تفریق کرکے جب یہ تعداد دولاکھ سے اوپر چلی جائے گی تو امریکہ طالبان سے با مقصد مذاکرات کرے گا اور اسی دوران ہمارے ملک کی افواج پشتونوں کو اس بری طرح سے اور اس قدر تنگ کریں گی کہ پاکستان کے پشتون ہمارے سے علیحدٰہ ہونے میں اور افغانستان میں شامل ہونے میں ہی اپنی عافیت سمجھیں گے۔

یوں افغانستان میں کرزئی کی بادشاہت میں ایک امریکہ نواز حکومت بن جائے گی اور امریکہ نہایت ہی اطمینان اور سکون سے بلوچستان کا رخ کرے گا چونکہ جتنے بھی موثر اور محب وطن پرو پاکستان بلوچ لیڈر تھے ان کو مشرف نے شہید کروا دیا ہے باقی کا صفایا موجودہ دور میں فوج کر ہی ڈالے گی۔

یوں بلوچ عوام کی خواہشات کے خلاف ہمارے ڈگڈی لیڈر ایک دن امریکن مداری کے اشاروں پر ناچیں گے اور پھر گریٹر بلوچستان ۔۔ ۔خیر! یہ ایک لمبا موضوع ہے۔

بات سے بات نکل آئی ہے ۔ہمارے میڈیا کو اسلام آباد میں امریکن سفارت خانے کی توسیع اور بلیک واٹر کے قصوں میں الجھا دیا گیا ہے ۔ جب کہ میری اطلاع کے مطابق کچھ امریکن کمپنیوں نے لاہور میں دس بڑی پراپرٹیز کی ڈیل فائنل کی ہے جو کہ لاہور ڈیفنس سوسائٹی، لاہور چھاونی اور لاہور ائیرپورٹ کے نزدیکی علاقے میں واقع ہیں۔

اب آپ پوچھیں گے لاہور کے باقی علاقوں میں؟ میں کہوں گا کہ باقی علاقوں کی اہمیت کتنی ہے؟ یہ بات یاد رکھیئے کہ ہماری صوبائی اور وفاقی حکومتیں اس ڈیل کے بارے میں لاعلم نہیں ہیں ۔

کچھ طوطا صحافی ہمیں یہ سبق پڑھاتے رہتے ہیں کہ امریکہ انڈیا کو چائنا کے مقابلے پر طاقت بنانا چاہتا ہے اور اس کے مقابلے پر کھڑا کرنا چاہتا ہے ۔ میں کہتا ہوں کہ یہ سبھی صحافی لفافے لے کر ایسی گمراہ کن باتیں لکھتے ہیں تاکہ ہمارا دھیان بٹا رہے اور جب اسرائیل عرب ممالک کی طرف سے مسلم آبادی کو پیسنا شروع کرے تو اسی لمحے بھارت چکی کے دوسرے پاٹ کی طرح سے ہمیں درمیان میں رکھ کر پیس ہی ڈالے اور جب ہمارا خاتمہ ہو جائے تو اسپین کے غدار ابو عبداللہ کی طرح سے یہ لفافے اور طوطے لیڈر اور صحافی مگرمچھ کے آنسو بہائیں ۔

ملت کے غداروں کو یہ وعید ہو کہ ایسا کبھی بھی نہیں ہوگا کیونکہ ایک حدیث رسول ﷺ کے مطابق قیامت کی گھڑیوں تک اس ارض پر ایک ایسی مسلم جماعت ضرور بہ ضرور موجود رہے گی جو کہ فساد فی الارض کرنے والوں سے جہاد اور قتال کرتی ہی رہے گی۔ انشاءاللہ العزیز !!

جب میں نے امریکہ چھوڑا تھا تب تک جولی دوبیٹوں کی ماں بن چکی تھی ۔ پھر اگلے چار سال کے دوران اس نے ایک لڑکی اور ایک لڑکے کومزید جنم دیا تھا۔ پچھلے سال کی بات ہے کہ جولی نے مجھے ہانگ کانگ کے ایک ہوٹل میں بلایا تھا ۔جس سویٹ میں وہ اپنے خاوند اور دوبچوں کے ساتھ مقیم تھی اس کا ایک رات کا کرایہ اس فلیٹ کے دوماہ کے کرایہ کے برابر ہے جس فلیٹ میں میں آج کل رہتا ہوں ۔

جو منصوبہ اس نے اپنے بچوں کے بارے میں بیس برس قبل بنایا تھا وہ اس منصوبے پر حرف بہ حرف کام کر رہی ہے ۔اس کی بیٹی اور ایک بیٹا اسرائیل میں اس کے والدین کےساتھ رہتے ہیں جہاں پر بیٹی یہودیت کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہے اور بیٹا ایک فلسطینی مسلم استاد سے اسلام کی تعلیمات سے بہرہ ور ہورہا ہے ان دونوں کو اسرائیلی ہونے پر فخر ہے ۔ دوبیٹے اس نے اپنے ساتھ ہی رکھے ہوئے ہیں ۔ایک بیٹا واقعی کرسچیئن خیالات کا حامل ہے مگر اسرائیل کو برحق سمجھتا ہے اور سب سے بڑا بچہ گفتگو اور خیالات کے اعتبار سے لیبرل اور بے دین ہی لگتا تھا مگر وہ بھی اسرائیل کو برحق ہی سمجھتا تھا اور یہودیوں کو فلسطین کی سر زمین کا اصل حق دار۔

میں نے جولی سے پوچھا تھا۔ ہانگ کانگ تفریح اور سیر سپاٹے کے لیے آئی ہو ؟
کہنے لگی ۔اس وقت پوری دنیا ریسیشن (recession) کی حالت میں ہے اور دنیا کے تمام ممالک میں پراپرٹی باٹم لائن ٹچ (touched the bottom line) کر چکی ہے اور یہ موقع روز روز نہیں آئے گا کیونکہ جلد ہی امریکہ میں قیادت میں تبدیلی آنی والی ہے پھر(up & up) اپ ہی اپ ہے ۔

دراصل ہماری کمپنی چائنا میں پراپرٹی کی ایک بڑی ڈیل کرنے والی ہے پھر میرا ارادہ ہے یہ بھی کہ ہم چائنا میں ایک چھوٹی موٹی سی میڈیا کمپنی بنا ڈالیں تاکہ کل کلاں کو جب چائنا میں براڈکاسٹنگ کمپنی ایکٹ میں کوئی تبدیلی ہو تو ہماری کمپنی اس فیلڈ میں پائنیر(Pioneer) ہو۔

جب میں جولی کے پاس سے رخصت ہوا تھا تو میں یہ سوچ رہا تھا کہ یہ یہودی تو بہت ہی دوراندیش قوم ہے ۔جو قوم بھی اقتصادی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوتی ہے یہ اس کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا حصہ لینے کے لیے ان کی سگی بن جاتی ہے۔

بالفاظ دیگر ایک دن ایسا بھی آنے والا ہے جب سارا چین یہودیوں کی بات کو سنا کرے گا اور مسلمانوں کو کوسا کرے گا۔ اس کا نام تو جولی تھا مگر میں اس کو ویری جولی کہتاہوتا تھا۔اس کا باپ تو اشکانزی یہودی ہی تھا مگر ماں ایک لبنانی عیسائی تھی یوں دومختلف نسلوں اور رنگوں کے ملاپ سے خوبصورتی کا جو پیکر تیار ہوئی تھی اس پر کسی مرد کی نظر کم ہی ٹک سکتی تھی۔ اس کی اسی خوبصورتی کو مدنظر رکھ کر میں نے اس کو چڑیل کانام بھی دے دیا تھا۔ بھی بنا رکھی ہے اور وہ کسی سے ڈرے بغیر اور مرعوب ہوئے بغیر اپنی آواز کو ساری دنیا کے حق پرست اور امن پسند لوگوں تک پہنچائے جارہا ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس شخص کا تعلق بھی امریکہ کی ریاست لوزیانہ سٹیٹ سے ہی ہے اسی سٹیٹ میں کبھی میری ریزیڈنسی تھی اور جولی کی فیملی کا تعلق بھی اسی ریاست سے ہی ہے ۔

Thursday, August 27, 2009

امریکی تنظیم ”بلیک واٹر“ کی خفیہ سرگرمیاں



تحریر: انصار عباسی


ایک طرف جہاں پاکستان میں بدنام زمانہ ” بلیک واٹر “ تنظیم کے اہلکاروں کی موجودگی اور خفیہ سرگرمیوں کی رپورٹس میں اضافہ ہورہا ہے، وہیں دوسری جانب امریکا میں اس سیکورٹی ایجنسی کے بانی اور سابق مالک پر الزامات عائد کئے گئے ہیں کہ اس شخص نے اس تنظیم کو موت کی سوداگر کے طور پر استعما ل کیا ، یہ شخص اپنے آپ کو ایسا صلیبی جنگجو سمجھتا ہے، جسے دنیا سے مسلمانوں اور اسلام کو مٹانے کی ذمہ داری تفویض کی گئی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی سیکرٹری اطلاعات اور معروف دفاعی تجزیہ نگار ڈاکٹر شیریں مزاری نے بدھ کو دی نیوز میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں دعویٰ کیا ہے کہ پشاور کے بعد اب اسلام آباد میں یہ کمپنی ایک نئے نام ” زی ورلڈ وائیڈ“ (Xe worldwide ) سے چھپ کر کام کر رہی ہے اور اس کے علاوہ سی آئی اے کی فرنٹ کمپنی کریئیٹو ایسوسی ایٹس انٹرنیشنل انکارپوریشن(Creative International Inc ) قدرے کُھل کر کام کر رہی ہے۔اپنے مضمون میں انہوں نے اس سلسلے میں گزشتہ ہفتے سپر مارکیٹ میں ایک اسکول کے سامنے والی سڑک کی بندش کا حوالہ بھی دیا۔

امریکی سفارتخانے کے ترجمان رچرڈ ڈبلیو سنیلائر سے جب اس سلسلے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ” ہم سیکورٹی معاملات پر بات نہیں کر تے، ایسے معاملات جن کا تعلق سیکورٹی سے ہے، ان میں ایسے کنٹریکٹرز( ٹھیکیداروں) کا معاملہ بھی شامل ہے جنہیں سیکورٹی کے حوالے سے ذمہ داریاں دی جاتی ہیں۔سینسلائر یا رچرڈ (وہ نام جس سے وہ بالعموم جانا جاتا ہے) نے مزید کہا کہ اس قسم کے معاملات کی تفصیلات سامنے لانے سے زندگیوں کو خطرہ ہو سکتا ہے ، انہوں نے کہا کہ امریکی سفارت خانے اور اس کے عہدیداروں کی سیکورٹی پر مامور سیکورٹی اہلکاروں میں سے95 فیصد پاکستانی سیکورٹی کمپنیوں پر مشتمل ہیں۔

، میرینز کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ فی الوقت امریکی سفارتخانے میں صرف 8 میرنیز تعینات ہیں، اور جب آ ئندہ برسوں میں سفارتخانے کی توسیع مکمل ہوگی تو اس وقت زیادہ سے زیادہ 15 سے 20 میرینز تعینات ہوں گے، اگرچہ رک ان امریکی سیکورٹی کنٹریکٹرز کے حوالے سے کوئی بات نہیں کر نا چاہتے تھے جنہیں پاکستان میں سیکورٹی کی ذمہ داریاں دی گئی ہیں لیکن بہت سے لو گ پاکستان میں بلیک واٹر کی موجودگی کی بات کر رہے ہیں ، ایک سینئر خاتون اینکر پرسن کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے نواز شریف کی جانب سے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ حالیہ ملاقات کے موقع پر بلیک واٹر کے حوالے سے نواز لیگ کے رہنما کو اپنی ذاتی معلومات فراہم کیں۔ انہوں نے اصرار کیا کہ بلیک واٹر پشاور، کوئٹہ اور اسلام آباد میں آپریٹ کر رہی ہے۔

انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ پشاور میں پرل کانٹی نینٹل ہوٹل پر ہونے والے حملے کے دوران ہلاک ہونے والوں میں بلیک واٹر کے دو اہلکار بھی شامل تھے۔ بلیک واٹر بدنام زمانہ امریکی سیکورٹی کمپنی ہے اور عراق میں اسکا ٹریک ریکارڈ انتہائی کراہت آمیز رہا ہے، جہاں اس نے معصوم لوگوں کو بے رحمانہ طریقے سے قتل کیا۔فارن آفس کے ترجمان محمد باسط پاکستان میں نہیں ہیں کہ وہ امریکی سفارتخانے کی جانب سے بلیک واٹر کے کنٹریکٹرز کو ہائر کرنے کے معاملے کی تصدیق یا تردید کرسکتے، دریں اثناء امریکا میں بلیک واٹر کو الیگزینڈریا کی ڈسٹرکٹ کورٹ میں ایک مقدمے کا سامنا ہے، جس سے اس امر کا تعین ہوگا کہ آیا بش عہد کے اس تاریک باب کا خاتمہ ہوگا یا نہیں جو امریکی انتظامیہ اور بلیک واٹرنامی نجی کمپنی کے تعلق سے شروع ہوا۔

جرمن میگزین ” اسپیگل آن لائن“ کے مطابق بلیک واٹر کے کچھ سابق ملازمین کمپنی کی خفیہ سرگرمیوں پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں۔ 16 ستمبر2007 کو ہونے والے صرف ایک واقعہ میں عورتوں اور بچوں سمیت17 افراد کو بغداد کے ” نیسور اسکوائر “ میں بلیک واٹر کیلئے کام کرنے والے قاتلوں نے شہید کرڈالا تھا۔ سوزن بروک کی جانب سے کمپنی کے بانی اور سابق مالک ” ایرک پرنس“ کے خلاف جو مقدمہ دائر کیا گیا ہے، اس میں اسے ”جدید دور کا موت کا سوداگر “ قرا ر دیا ہے، سوزن نے الزام عائد کیا ہے کہ چالیس سالہ ایرک پرنس نے ” لاقانونیت اور عدم احتسا ب کے کلچر کو فروغ دیا۔

بلیک واٹر میں مہلک طاقت کا اضافی اور غیرضروری استعمال کیاجاتا ہے۔ اپنے اقدام میں وہ اسے جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیتی ہیں، امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ برائے ایسٹرن ڈسٹرکٹ آف ورجینیا الیگزینڈرا میں دائر مقدمہ میں اس امرکا فیصلہ ہوگا کہ آیا سوزن بروک کی درخواست پر مزید کارروائی ہوگی یا نہیں۔بلیک واٹر کے دوسابق اہلکار، جنہوں نے جان سے ہاتھ دھونے کے خوف سے اپنی شناخت نہیں کرائی لیکن اپنے حلفیہ بیانات مین کہا ہے کہ ” ایرک پرنس“ اپنے آپ کو ایسا صلیبی جنگجُو تصوّر کرتا ہے، جسے دنیا سے مسلمانوں اور اسلام کو مٹانے کی ذمہ داری تفویض ہوئی ہے۔

ایرک پرنس کی کمپنی امریکی ٹیکس دہندگان سے اکٹھی کی گئی ایک ارب ڈالر رقم سے راتوں رات ایک ایمپائر بن گئی، بلیک واٹر کو دیئے گئے ٹھیکوں میں سے ستّر فیصد کیلئے کوئی بولی نہیں ہوئی، کمپنی کا سب سے اہم سرمایہ جنہیں کمپنی کے اندر ”شوٹرز“ کے نام سے پکارا جاتا ہے، انہیں دنیا بھر سے بھرتی کیاجاتا ہے ، انہیں فلپائن سے لیکر لاطینی امریکا تک کے ممالک سے بھرتی کیاجاتا ہے۔

2007 میں اس کمپنی نے نہایت فخر سے اپنا نام تبدیل کرکے بلیک واٹر ورلڈ وائیڈ رکھا۔ سوزن بروک کا ارادہ ہے کہ وہ ایرک پرنس کے خلاف 40 عینی شاہدین کو بیان دینے کیلئے بلوائے گی۔ لیکن یہ تبھی ہوسکے گا کہ جب جمعہ کو ہونے والی سماعت کے دوران عدالت اس کیس کو سننے پر رضامندی کا اظہار کرے۔قتل کے عینی شاہدوں کو بغداد سے بلایاجائیگا، سوز ن بروک، جنہوں نے ابوغریب کے قیدیوں کا معاملہ اٹھا کر نام کمایا، وہ عدالت سے سابق بلیک واٹر کمپنی کے مالک سمیت اس کے عہدیداروں کو سزا دینے کیلئے کہیں گی۔

Tuesday, August 25, 2009

افغان جنگ کا ایک اور انکشاف




تحریر: روف عامر پپا بریار



امریکیوں کی نائن الیون کے بعد عالم اٍسلام کے خلاف لڑی جانیوالی جنگ کی سچائی پوری دنیا کے سامنے عیاں ہوچکی ہے۔عراق و افغانستان پر امریکہ کا تسلط آٹھویں سال میں داخل ہوچکا ہے۔

اٍس عرصہ میں امریکی جنگوں کے کئی مکروہ مقاصد اور طلسم ہوشربا داستانیں صفحہ قرطاس پر ظہور پزیر ہوئے۔ سامراج مخالف دانشوروں اور مسلمان تجزیہ نگاروں نے جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی پیشین گوئی کردی تھی کہ پینٹاگون صہیونیوں کے معاشی و سیاسی مفادات کے تحفظ کے لئے دہشت گردی کا ناٹک رچا کر افغانستان کو راندہ درگاہ کرنے کا پروگرام وضع کررہا ہے مگر ایسے نظریات و افکار کو کسی نے لائق تحسین کے قابل نہ سمجھا۔ 2001 کے بعد پاکستان کی داخلی و خارجی پالیسیوں کو ہمیشہ افغانستان کے تناظر میں بنایا گیا جس میں امریکی مفادات کو ہمیشہ فوقیت دی جاتی رہی۔

افغان جنگ کو کبھی وسطی ایشیا کے تیل و گیس کے انمول خزانوں تک رسائی کے لئے امریکی چال کا نام دیا گیا تو کبھی اسے چین کی روز افزوں اقتصادی طاقت کے طوفانی گراف روکنے کا نام دیا۔ کسی نے اس غاصبانہ قبضے کو اسرائیل کے جانی دشمن ایران کو جکڑنے کا منصوبہ کہا تو کوئی اسے پاکستان کی جوہری طاقت کے خاتمے کا ایک آپشن قرار دیتا رہا۔ حال ہی میں ایک اور قابل غور و فکر انکشاف سامنے ایا ہے جسکا بھانڈہ امریکی کی فضائیہ کی سابق افیسر کرنل کیرنن و یٹیسوکی نے 24 جولائی کو ماسکو کے عالمی شہرت یافتہ ٹی ویRT POLITICXS کے پروگرام میں بیانگ دہل پھوڑا۔ کرنل کیرن نے بتایا کہ بے پناہ مالی و جانی نقصانات کے باوجود امریکہ نے ایران پر دباو ڈالنے کے لئے کابل میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔

ہلاکتوں کے اعتبار سے جولائی کا مہینہ ناٹو کے لئے ہمیشہ کے لئے عبرت کا نشان بن گیا۔ اتحادی اٍس مہینے کو کبھی فراموش نہ کرپائیں گے کیونکہ پچھلے آٹھ سالوں میں ناٹو کے اتنے سپاہی طالبان کے ہاتھوں زمین کا رزق نہیں بنے جتنے صرف جولائی کے مہنے میں لحد نشین ہوئے۔ کرنل کیرن نے ہلاکتوں کے ریکارڈ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی حلقے اوبامہ پر زور دے رہے ہیں کہ وہ افغانستان کے لئے مزید فوجیوں کا بندوبست کریں۔

یہ ایسا ہی ہے جیسا ہم مشرق وسطی میں طویل المدتی پالیسیوں کو دیکھتے ہیں جو صرف اسرائیلی مفادات کو پیش نظر رکھ کر بنائی گئیں اور یہ سلسلہ بش سینیر سے لیکر چھوٹے بش کے دور صدارت اور پھر عہد اوبامہ تک دراز ہوگیا۔ کابل میں امریکی موجودگی ایران کے لئے ایک واضح دھمکی ہے حالانکہ ایران امریکہ کے لئے کوئی خطرہ نہیں۔ وائٹ ہاوس نے کابل میں اب تک جو کیا ہے یا مستقبل میں کرنے کا ارادہ رکھتا ہے وہ پینٹاگون کی مڈل ایسٹ پالیسیوں سے مشابہت رکھتا ہے اور جسکا ایک ہی مقصد ہے کہ اسرائیل کو عسکری اور سیاسی سطح پر حمایت بے کراں مہیا کی جاے۔

کرنل کیرن کے انٹرویو سے یہ حقیقت اٍس سچائی کی غمازی کرتی ہے کہ صہیونی ساہوکاروں اور یہودی و امریکی سیاست دانوں نے اوبامہ پر کتنا دباو ڈال رکھا ہے۔ اوبامہ سربراہ وائٹ ہاوس ہوئے تو انہوں نے افغانستان میں امریکی فوجوں کی تعداد17000سے38000 کردی۔ افغان جنگ کے شعلے مربوط منصوبہ بندی کے تحت ڈرون حملوں کی صورت میں پاکستان کے قبائلی علاقہ جات تک دراز ہوگئے۔ جولائی میں اتحادیوں نے بڑے زعم میں ہلمند میں طالبان کے خلاف آپریشن خنجر شروع کیا مگر یہی آپریشن اتحادیوں کے لئے نشان عبرت بن گیا۔

افغان نیوز سروس کی رپورٹ کے مطابق امریکہ نے یہ پالیسی بنائی کہ افغان صدارتی انتخابات سے پہلے طالبان کی طلسم ہوشربا قوت کو توڑ دیا جائے تاکہ امریکی چھتری تلے ہونیوالے الیکشن میں امریکی کٹھ پتلی انتظامیہ کی تخت نشینی بخیر و عافیت ممکن ہوسکے مگر سچ تو یہ ہے کہ اتحادیوں کے خواب کا سومنات طالبان کی سرفروشی کے غوری میزائلوں نے چکنا چور کردیا۔

عرب نیوز ایجنسیوں نے صاف صاف کہا ہے کہ کابل میں اب امریکیوں کے لئے کچھ نہیں بچا۔ پینٹاگون کے افلاطونوں کو ایک ڈر و وسوسے نے بے چین کررکھا ہے کہ اگر اتحادی کابل سے نکل گئے تو جو خلا پیدا ہوگا وہ طالبان پر کریں گے مگر انے والے وقتوں میں یہ خیال امریکہ و مڈل ایسٹ میں اسرائیل کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

قرائن سے ایسا ہونا درست دکھائی دیتا ہے۔ روس اور چین کے باہمی تعاون شنگھائی تنظیم کی کامیابیوں اور ماسکو و بیچنگ کے درمیان پائی جانے والے اسٹریٹیجک انڈر اسٹینڈنگ اور چین کا معاشی و سیاسی استحکام اٍس امر کی غمازی کررہا ہے کہ امریکہ اور اسکے لے پالک ناجائز بیٹے اسرائیل کا سنٹرل ایشیا اور قفقاز کے معدنی وسائل تک پہنچ کے سارے منصوبے خاک بن گئے۔ ناٹو کی پے درپے ناکامیوں اور ریکارڈ ہلاکتوں اور ناٹو کے موجودہ و سابق سربراہوں کی شکست کی پیشین گوئیوں کے بعد امریکہ کے پاس کوئی جواز نہیں کہ وہ کابل میں اپنے سپاہی مرواتا رہے اور ڈھیٹ بن کر کابل کو زیر تسلط رکھے۔ یوں امریکہ کی کابل میں موجودگی کا جواز عقل سے بالاتر ہوجاتا ہے۔

اگر اب بھی کوئی جواز امریکیوں کو کابل میں رہنے پر مجبور کرتا ہے تو وہ وہی ہے جسکا اظہار کرنل کیرن نے اپنے انٹرویو میں کیا۔ کرنل کیرن کے مفصل انٹرویو پر مغز خوری کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ شمعون پیریز مشرف کے لئے نیک تمناوں کے اظہار کے لئے کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتا تھا اور انتہاپسند صہیونی بھیڑیا شمعون مشرف کی دراز زندگی کی دعائیں کیوں کرتا تھا۔ امریکی و صہیونی لابیاں ابتدا سے ہی پاکستان کے جوہری پروگرام کو زمین بوس کرنے کے لئے بے تاب ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کو اس سے بڑا گولڈن چانس کبھی نصیب نہ ہوگا کہ وہ عالم اسلام کے واحد جوہری اثاثوں کو کباڑ میں بدل دے۔

ہمارے ارباب اختیار کو جنرل کیرن کے انٹرویو کی گہرائی ناپ کر ہی نئی پالیسی بنانی چاہیے۔اب جبکہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ افغان جنگ اسرائیل کی خاطر لڑی جارہی ہے تو اب عسکری و حکومتی بابووں اور پالیسی سازوں کو اپنی جوہری طاقت کے تحفظ کے لئے ہنگامی اقدامات کرنے چاہیں کیونکہ ایران و پاکستان کے جوہری اثاثوں سے نفرت کا زہر دنیا کے ہر یہودی و صہیونی کی رگوں میں بہہ رہا ہے۔ اس زہر کا تریاق ڈھونڈنا وقت کی ناگزیر ضرورت ہے۔

Monday, August 17, 2009

کرکٹ، کمیشن اور کا ل گرل - - - - کچھ یادیں کچھ باتیں


تحریر: ڈاکٹر عصمت حیات علوی


بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم


یہاں ہانگ کانگ میں ایک صاحب ہیں جن کی ٹریول ایجنسی ہے ۔چونکہ وہ صاحب نہایت ہی معقول انسان ہیں اس لیے میں ہفتے میں ایک مرتبہ ان کے پاس حاضری ضرور دیتا ہوں ۔جس دن پاکستان کی ٹیم انگلینڈ میں ٹونٹی ٹونٹی کا مقابلہ جیتی تھی ۔اس سے اگلے دن میں ان کے ہاں گیا تھا۔ اس روز وہاں پر ٹاک آف دی ڈے کرکٹ ہی تھا۔ وہاں پر موجود سبھی پاکستانی جوشیلے ہو رہے تھے۔ جب میری رائے پوچھی گئی تھی تو میں نے ایک واقعہ سنانے کے بعد کہا تھا کہ اس جیت میں انڈیا کا ہاتھ ہے۔ اس وقت تو سبھی صاحبان میرے سے ناراض ہوگئے تھے ۔اب جب کہ پاکستانی ٹیم کو پے در پے شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو وہ سبھی صاحبان مجھے کہتے ہیں کہ آپ درست ہی کہتے تھے۔

کرکٹ سے وابستہ واقعہ کچھ یوں ہے کہ میرے عام کلاس فیلوز تو مجھے میرے اصل نام سے ہی پکارا کرتے تھے۔مگر چند بے تکلف قسم کے کلاس فیلوزنے میرے چند الٹے سیدھے نام ڈال رکھے تھے اوروہ یہ نام صرف نجی دوست احباب کی موجودگی میں ہی پکارا کرتے تھے۔

ایم بی بی ایس کے بعد ان میں سے کچھ دوست تو امریکہ چلے گئے اور کچھ کلاس فیلو یورپ سیٹل ہو گئے تھے۔میری ایک کلاس فیلو بریٹن میں مقیم تھی ۔جب میں نے سکاٹ لینڈ یونی میں داخلہ لیا اور بریٹن پہنچا تو اس نے مجھے مزید دو نئے نام دے دئیے تھے۔پہلا نام تو شاہ جی تھا اور دوسرا تھا مسٹر شاء

ان دونوں ناموں کا مجھے یہ فائدہ ہوا تھا کہ ایک بوڑھی گوری مائی مجھے اپنے بچے کی طرح سے ٹریٹ کرنے لگی تھی کیونکہ اس مائی کا فیمیلی نیم شائ(Shaw) تھا۔ دوسرے میری دوست کے پاس پڑوس میں ایک انڈین شاہ جی (Shah Jee) مجھے اپنا ہم قوم سندھی ہندو ہی سمجھنے لگے تھے۔ میری کلاس فیلو کے شوہر ایک کامیاب بزنس مین ہیں۔ اس لیے وہ لندن کی پیریفری (Periphery) میں ایک امیروں کی بستی میں ہی رہتے ہیں۔

میں تقریباً ہر اتوار اور پبلک ہالیڈے کی رات کو اپنی فیمیلی سمیت ان کے ہاں جاتا تھا اور ہم لوگ سنڈے وہیں پر اکٹھے ہی گذارتے تھے۔ ایک دن صبح سویرے میں جوگنگ کر رہا تھا ۔ظاہر ہے کہ جب لندن میں صبح ہوتی ہے اس وقت پاکستان اور ہندوستان میں دوپہر ہوتی ہے ۔ جوگنگ کرتے کرتے میرا آمنا سامنا اس شاہ جی سے ہوا تو وہ مجھے پوچھنے لگا۔ شاہ جی سکور کیا ہے ؟ سچی بات کہوں مجھے کرکٹ میں دلچسپی نہیں ہے ۔اس لیے میں نے حیرانی سے پوچھا تھا ۔شاہ جی ! کس کا سکور پوچھ رہے ہو؟ اس نے کہا تھا کمال ہے، پاکستان کی ٹیم کھیل رہی ہے اور آپ کو پتہ تک نہیں۔ پھر کہنے لگا۔ رام کرے پاکستان کی ٹیم میچ جیت جائے ۔

میں نے مذاقاً کہا تھا ۔رام کو کیا پڑ ی ہے کہ پاکستان کو جیت دلوائے ۔رام جی تو انڈیا کو جتوائیں گے۔اس وقت اس انڈین کی شکل دیکھنے کے لائق تھی ۔ بڑی رونی سی صورت بنا کر کہنے لگا کہ تم نہیں سمجھو گے ۔ بات دراصل یہ ہے کہ جب پاکستانی ٹیم دنیا کی کسی بھی ٹیم سے کرکٹ کھیل رہی ہوتی ہے تو ان دنوں کشمیری مجاھدین اپنی کاروائیوں میں کمی کردیتے ہیں اور جب ان کی ٹیم کا مقابلہ ہندوستان کی ٹیم سے ہوتا ہے تو ان دنوں میں، ان کا سارا دھیان میچ میں ہونے کی کارن کشمیر میں امن امان کی سی صورت حال ہو جاتی ہے اور اگر پاکستان کی جیت ہو جائے تو یوں سمجھو کہ کشمیری مجاھدین ہفتہ بھر جشن منائیں گے اور بھارتی سینا سکھ کا سانس لے سکے گی۔اس لیے میری تو یہی تمنا ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم پورا سال کسی نہ کسی ملک سے میچ کھیلتی ہی رہے اور جیتتی ہی رہے۔

اس کے بعد اس نے ایک طویل اور ٹھنڈی سانس لی تھی اور کہا تھا۔ جب بھی پاکستان کا مقابلہ بھارت سے ہوتا ہے تو اس دوران میں تو عام ہندووں کے برعکس رام جی سے یہی پراتھنا کیا کرتا ہوں کہ وہ پاکستان کو جتوا دے۔

کیونکہ اگر پاکستان کی کرکٹ یا ہاکی ٹیم بھارت سے ہار جائے ،تو غصے میں بھرے ہوئے ناراض کشمیری اس شکست کا بدلہ ہماری انڈین سینا سے کشمیر کے جنگلوں میں ہی لے لیتے ہیں اور مار مار کر ہمارا برا حشر کر دیتے ہیں ۔ اس دن میرے پر یہ عقدہ کھلا تھا کہ اس انڈین کا ایک داماد انڈین آرمی میں کمیشنڈ آفیسر ہے اور ان دنوں اس کے بریگیڈ کی تعیناتی کشمیر میں ہی تھی۔اس ہندو کی پراتھنا قبول نہ ہوئی تھی اور پاکستان وہ سیریز نہ جیت سکا تھا اور پھر اس ہندو کا خدشہ بھی سو فیصد درست ہی ثابت ہوا تھا ۔ کیونکہ اس میچ کے بعد ایک ماہ تک کشمیری مجاہدوں نے انڈین فورسز کو ناکوں چنے چبوا دئیے تھے۔

جس دن پاکستان انگلینڈ میں کھیلا جانے والا ٹونٹی ٹونٹی کا فائنل جیت گیا تھا تو پاکستان کے طول عرض میں ہر چھوٹے اور بڑے شہر میں جشن کا سا سماں تھا لوگ باگ ساری رات مجموں کی صورت سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں اکٹھے تھے اور ایک بھی نا خوشگوار واقعہ نہیں ہوا۔ اس رات کو امن و امان کی صورت حال ایک مثالی صورت حال تھی ۔ بے پناہ رش اور ہجوم سڑکوں اور بازاروں میں جمع ہوگیا تھا مگر ایک بھی لڑائی جھگڑا نہ ہوا تھا۔بلکہ کئی ایک مقامات پر چھوٹے موٹے ایکسیڈنٹ بھی ہوئے تھے مگر لوگوں نے کھلے دل سے ایک دوسرے کو معاف کر دیا تھا۔

اس بات کو بنیاد بنا کر میں یہی کہتا ہوتا ہوں کہ لاہور میں سری لنکا کی ٹیم پر حملہ کسی ملک دشمن نے کروایا تھااگر یہ کام کسی کشمیری جہادی تنظیم کا ہوتا تو اس رات پاکستان کے ہر طبقے کے لوگوں کے ساتھ مذہبی اور جہادی تنظیموں کے افراد جیت کے جشن میں حصہ کبھی بھی نہ لیتے ۔ بلکہ دھماکے کرتے اور جشن منانے والوں کو ہلاک کرتے۔ویسے یہ ایک حقیقت ہے کہ کشمیری مجاہدین پاکستان کی ٹیم کے دیوانے تو ہیں ہی ۔ وہ انڈیا کی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کی بھی دل سے قدر کرتے ہیں۔ایسے لوگ کسی دوست ملک کی کرکٹ ٹیم پر حملہ کریں گے۔یہ بات میں تو تسلیم نہیں کرتا۔

جن دنوں پاکستان کی کرکٹ ٹیم ٹونٹی ٹونٹی کا مقابلہ جیتی تھی انہی دنوں یہ خبر بھی سامنے آئی تھی کہ سات برس قبل کراچی میں آگسٹا آبدوز بنانے والے جو گیارہ فرانسیسی انجینئیر شہید کر دئیے گئے تھے ۔ ان کے قتل کی تفتیش اب اس شک کی بنیاد پر کی جائے گی کہ کمیشن کے لین دین کے چکر میں کہیں ان کو پاکستانی حکام نے خود ہی نہ مروا دیا ہو اور الزام اسلامی تنظیموں کے سر منڈھ دیا ہو۔ یہ خبر سنانے کے بعد ایک صاحب میری رائے پوچھنے لگے تھے تو میں نے کہا تھا میں آپ کو ایک واقعہ سنا دیتا ہوں ۔ میری رائے آپ کے سامنے خود ہی آ جائے گی۔جو واقعہ میں نے ان صاحب کو سنایا تھا وہ کچھ یوں تھا۔

یوکے جانے سے قبل مجھے یہ علم نہ تھا کہ یورپین اور امریکن ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے کلائنٹس کو کمیشن میں نقد رقوم کے علاوہ سیکس بھی آفر کرتی ہیں۔یہ راز کی بات مجھے ایک دوست لیزانے بتائی تھی۔جو کہ لندن کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں کال گرل تھی۔آپ اس کو کوئی گئی گذری قسم کی رنڈی خیال نہ کر لیجیئے گا ۔

ان دنوں وہ ایک رات کے پانچ چھ ہزار پونڈ لیا کرتی تھی۔ اسے یہ علم تھا کہ میں ہر دوسرے یاتیسرے مہینے پاکستان جایا کرتا ہوں ۔ میرے پاکستان جانے کے ایام نزدیک ہی تھے کہ ایک دن وہ مجھے پوچھنے لگی۔ تم اپنا شیڈول ایک یا دو دن آگے پیچھے نہیں کر سکتے؟ اگر تم میرے ٹائم فریم کے مطابق ایڈجسٹ کر لو گے ، تو میں تمہیں آنے جانے کا فسٹ کلاس ٹکٹ دوں گی ۔چونکہ اس کے ساتھ میری اچھی خاصی بے تکلفی تھی دوسرے اس کی آفر بھی نہایت ہی اچھی تھی ۔اس لیے میں نے اپنی بیوی اور بچے تو پروگرام کے مطابق ہی پاکستان بھجوا دئیے تھے کیونکہ ایک شادی میں ان سب کی شرکت لازمی تھی۔

میرے ساتھ جو لڑکی کراچی تک جا رہی تھی۔اس کا پورٹ فولیو کچھ یوں تھا کہ وہ یہودی تھی اور ایک ایسی فرم کی طرف سے پاکستان جا رہی تھی جو کہ یہودیوں کی ہی ملکیت تھی اور وہ فرم ملٹری ایکویپمنٹ(Equipments) بناتی ہے۔مجھے یہ جان کر حیرانگی بھی ہوئی تھی کہ ایک طرف تو یہودی خود ہی ہمارے ملک پر پابندیاں لگواتے ہیں اور پھر خود ہی ہمیں اسلحہ بھی فروخت کرتے ہیں ۔

میری حیرانگی پر میری دوست مجھے سمجھانے لگی تھی کہ حیران نہ ہو! یہ تجارت اور منافقت کی دنیا بہت الجھی ہوئی ہے۔ اب جب کہ پاکستان پابندیوں کی زد میں ہے تو دنیا کا کوئی بھی ملک امریکہ کے ڈر اور خوف سے تمہیں کچھ بھی فروخت نہیں کرے گا ۔جب کہ یہودی تو کسی سے بھی نہیں ڈرتے اور کسی کی بھی مخالفت کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ کیونکہ وہ توخود ہی اس دنیا کے مالک ہیں دوسرے وہ اس سودے میں اصل قیمت سے کئی گنا زیادہ طلب کریں گے اور جو خطیر منافع ان کو ملے گا۔وہ اس سے اسرائیل کے دفاع کو مزید مضبوط بنائیں گے۔اس لیے تم اپنے چھوٹے سے ذہن کو مت تھکاو۔ کیونکہ اس دنیا کی سیاست اتنی الجھی ہوئی ہے کہ جب ایک طاقتور ملک کوئی قدم اٹھاتا ہے ۔ تب اس کا ظا ہر ی شکار تواس کا دشمن ہی نظر آتا ہے ۔ مگر حقیقت میں اس کی زد کسی دوست ملک پر پڑتی ہے۔

اس کے بعد میری دوست مجھے اس لڑکی کے متعلق سمجھانے لگی تھی کہ وہ لڑکی پہلی مرتبہ کسی ایشین ملک جا رہی ہے اور اسے لمبے سفر میں سونے کی عادت بھی نہیں ہے ۔پھر اگر وہ سفر میں بات چیت نہ کرے تو اسے جیٹ لیگ بھی ہو جاتا ہے ، پھر اس کے نتیجے میں اس کی پرفارمینس میں فرق بھی آجاتا ہے ۔اس کے ساتھ جانا تو میںنے ہی تھا ۔اس لیے میرا ٹکٹ اور سامان بالکل تیار تھا۔ مگر مصیبت یہ آن پڑی ہے کہ میرے ایک بڑے کلائنٹ کا بہت ہی اہم افریقن کلا ئنٹ آرہا ہے اور ان کا اصرار یہی ہے کہ میں ہی اسے انٹر ٹین کروں۔اس لیے اب اس لڑکی کو تمہارے ساتھ بھیج رہی ہوں ۔ جب کہ واپسی کے سفر میں اس لڑکی کے ہمراہ اس اسلحہ ساز کمپنی کا ایک اہم شخص ہوگا۔مجھے اس بات پر بالکل ہی حیرت نہ ہوئی تھی کہ ہر مرتبہ لیزا کا گاہک کوئی نہ کوئی افریقن وی آئی پی ہی کیوں ہوتا ہے اور یہ کہ صرف اس یہودی لڑکی کوہی بطورِ خاص پاکستان کیوں بھیجا جا رہا ہے؟

دراصل ہماری دوستی کے ابتدائی ایام میں ہی لیزا نے مجھے یہ بتا یا تھاکہ جس طرح سے دنیا کے مختلف علاقوں کے افراد کے چہرے اوررنگ مختلف ہوتے ہیں ۔اسی طرح سے ہر علاقے اور خطے کے مردوں کی پسند اور ذائقہ بھی الگ الگ ہی ہوتا ہے ۔اسی لیے اگر ایک لڑکی کی ادائیں اور نخرے یورپین کو بھاتے ہیں تو لازمی نہیں کہ وہی لڑکی ایشین یا افریقن کو بھی اتنی ہی اچھی لگے اور جس لڑکی کو ا فریقن پسند کرتے ہیں، لازم نہیں کہ اس کے اسی سٹائل کو ایشین بھی پسند کریں۔ لیزا نے تو مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ ہمارے ہوٹل کے پاس تو ایسی ایسی سپیشیلسٹ لڑکیاں ہیں جو کہ کسی ایک ملک کے خاص خطے یا نسل کے مردوں کو اتنی زیادہ بھاتی ہیں کہ اس خاص خطے یا خاص نسل کے مرد صرف اسی خاص لڑکی کو ہی باربار طلب کرتے ہیں، جبکہ دوسرے خطے یا علاقے کے مردوں کو اس لڑکی میں کوئی خاص کشش نظر نہیں آتی۔

اب ہوا یوں تھا کہ جب جہاز نے ہیتھرو ائیر پورٹ کے رن وے پر بھاگنا شروع کیا تھا۔ تب اس لڑکی نے تو یہودیوں کی مذہبی اور اسرائیل کی سرکاری زبان ہیبرو میں دعاء مانگی تھی اور میں نے اپنے سینے پر کراس بنایا تھا۔ کیونکہ میں تو سفر کی مسنون دعائیں اس سے قبل ہی اپنی سیٹ پر بیٹھتے ہی مانگ چکا تھا۔

ارے تم کرسچیئن ہو ؟ اس لڑکی نے حیرانگی سے مجھے یہ سوال کیا تھا۔میں نے جواب میں کہا تھا میں تو یعقوب(علیہ السلام) کے دادا ابراہیم (علیہ السلام ) کے دوسرے بیٹے کی نسل میں پیداہونے والے نبی(ﷺ) کا پیروکار ہوں ۔

جب میں یہ کہہ رہا تھا تو اسی دوران جہاز دھاڑتا ہوا ٹیک آف کر رہا تھا۔ اس لیے وہ لڑکی صرف اورصرف یعقوب کا لفظ سن پائی تھی اور باقی کے الفاظ تو جیٹ انجنوں کی چنگھاڑ کی نذر ہو گئے تھے۔بہر حال اس لڑکی کو یہ سو فیصد یقین ہو گیا تھا کہ میں وہابی یہودی ہوں۔ جس طرح سے ہمارے دین میں چند لوگ ایسے ہیں۔ جو کہ صرف قرآن کریم اور حدیث رسول ﷺ پر عمل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور خود کو کسی بھی فرقے سے یا فقہی امام سے منسوب نہیں کرتے۔ اسی طرح سے قوم یہود میں بھی ایک اقلیت خود کو ڈائریکٹ یعقوب علیہ السلام سے ہی منسوب کرتی ہے اور ان کے بعد میں آنے والے انبیاءکرام یا اولیاءکرام سے خود کو منسوب نہیں کرتی۔ ایسے لوگ خود کو جیوز یا یہودی بھی نہیں کہلاتے بلکہ خود کو یعقوبی یا جیقوبی کہلواتے ہیں۔میں پاکستان اور ہندوستان کے عام مسلمانوں کو سمجھانے کے لیے ان یہودیوں کو وہابی یہودی کہتا ہوتا ہوں۔

بہر حال وہ لڑکی مجھے ایک کٹر یہودی سمجھی تھی اور اس نے میرے متعلق یہی خیال کیا تھا کہ میں بظاہر تو ایک مسلمان ہوں مگر حقیقت میں ایک فنڈامنٹلسٹ یہودی ہوں ۔ اس لیے وہ تو میرے پر بے حد زیادہ مہربان ہو گئی تھی اور آٹھ گھنٹے کی فلائٹ کے دوران میرے پر مہربان ہونے کا آٹھ بار عملی ثبوت بھی دیا تھا اور جب فلائٹ کے کراچی ائیرپورٹ پر اترنے کی اناونسمنٹ ہوئی تھی تو مجھے کہنے لگی ۔تم میرے ساتھ چلو ! میں تمہیں اپنے ساتھ فائیو سٹار ہوٹل کے سوئیٹ میں ٹھہراوں گی ۔ اس منسٹر کے ساتھ تو میری دورات کی بکنگ ہے باقی کی تین راتیں ہم دونوں اکٹھے ہی انجوائے کریں گے ۔اس دور میں ہمارے ملک کی وفاقی کا بینہ میں رنگیلے وزراءکی کوئی بھی کمی نہ تھی اور موجودہ دور میں بھی ہم اس نعمت سے محروم نہیں ہیں۔

اس کی یہ آفر سن کر میں نے اپنے دل میں یہ کہا تھا کہ پاک فورسز میں اور سندھ پولیس میں میرے جاننے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے ۔وہ اس لڑکی کو میرے ساتھ دیکھیں گے ، تو اپنے دل میں یہی خیال کریں گے ،کہ اس شخص نے ڈاکٹری چھوڑ کر دلالی شروع کر دی ہے اور جو مجھے نہیں جانتے وہ تو مجھے اس لڑکی کا بھائی خیال کریں گے۔ میں نے اس لڑکی کو یہ بات تو نہیں کہی تھی البتہ میں نے اس لڑکی کو یوں کہا تھا ۔ جہاں تک فائیو سٹار میں ٹھہرانے کا تعلق ہے ۔لیزا (میری دوست ) مجھے کئی مرتبہ لنڈن کے ٹاپ ٹن ہوٹلز میں ٹہرا چکی ہے۔ رہی بات کراچی کی ۔ میری ایک بیوی یہاں پر رہتی ہے اور ایک لاہور میں ۔اس لیے تم مجھے معاف ہی رکھو ! (میں باقیوں کا ذکر گول ہی کر گیا تھا) ۔

البتہ ایڈنبرا میں میں اکثر اکیلا ہی ہوتا ہوں ۔یہ لو وہاں کا ٹیلیفون نمبر۔ جب تمہارا دل چاہے انٹر سٹی پر بیٹھ کر آجانا ۔میں تمہیں ہے مارکیٹ (Heymarket) سے لے لوں گا۔
آپ میری بات کو سچ جانئے گا ۔اس لڑکی کو لینے کے لیے فلیگ والی کار آئی تھی اور جس شخص نے اس لڑکی کے لیے بڑے ہی احترام سے کار کا دروازہ کھولا تھا ۔ وہ وفاقی حکومت میں اٹھارہویں گریڈ کا ایک آفیسر تھا۔

ہمارایہ حال کل بھی تھا اور آج بھی ہے اور اگر ہم نے نظام کی بجائے چہرے بدلے تو آنے والے کل کو بھی ہمارا یہی حال ہوگا۔



میں منشاء اور مسیحیت - - - کچھ یادیں کچھ باتیں




تحریر: ڈاکٹر عصمت حیات علوی


بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم


مجھے یہ تو بالکل ہی یاد نہیں ہے کہ منشاءمسیح میرا کلاس فیلو کب بنا تھا ؟ مگر مجھے یہ اچھی طرح سے یاد ہے کہ ہم دونوں نے میٹرک ایک ساتھ ہی کیا تھا۔پھر ہم دونوں نے ایک دوسرے کو چھ سات سال تک نہ دیکھا تھا۔ جب میں نے اپنے والد مرحوم کی چھوڑی ہوئی ڈاکٹری کی دکان شروع کی تھی تو منشاءمسیح ماضی کی یاد یں تازہ کرنے آگیا تھا۔چونکہ وہ ایک کم گو اور شریف لڑکا تھا اس لیے میں نے اخلاق اور عزت سے اس کا استقبال کیا تھا۔وہ ماضی کی طرح سے اب بھی شریف، سیدھا اور ملن سار ہی تھا۔ باوجود لاکھ اصرار کے اس نے میرے سے ایک مرتبہ بھی چائے یا کوئی اور مشروب پینے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ البتہ وہ گاہے بہ گاہے میرے پاس ضرور آیا کرتا تھا اور اگر میرے پاس کوئی مریض نہ ہوتا تھا تو کچھ دیر بیٹھ کر باتیں بھی ضرور کیا کرتا تھا۔

پھر ایک دن ہمارے ایک سابقہ مشترکہ کلاس فیلو نے مجھے یہ بتایا تھا کہ منشاءنے بہت عرصہ قبل اسلام قبول کرلیا ہے۔میں اس کی یہ بات سن کر سمجھ گیا تھا کہ شریف النفس منشاءنے اپنے اسلام قبول کرنے کا ذکر اس لیے نہیں کیا تھا کہ وہ مجھے یہ خبر دے کر اسے کیش نہیں کرنا چاہتا تھا۔ پھر ایک مرتبہ ایک حرام خور سابقہ کلاس فیلو میرے پاس آیا تھا اور منشاءکی بے شمار برائیاں کرنے کے بعد اور اس کے کردار میں لاکھوں کیڑے نکالنے کے بعد وہ لعنتی مجھے کہنے لگا کہ میں منشاءکو اپنی دکان میں نہ گھسنے دوں کیونکہ وہ اسلام چھوڑ کر دوبارہ سے عیسائی بن گیا ہے ۔اس کا یہ حکم سن کر میرا پارہ چڑھ گیا تھا۔ میں نے اس لعنتی کو اپنی دکان سے یہ کہہ کر اور باقاعدہ دھکے دے کر نکالتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے منشاءکے اخلاق اور کردار سے غرض ہے ۔وہ مسلمان رہے یا پلٹ کر عیسائی ہو جائے تم سے تو لاکھ درجے بہتر ہی ہے کیونکہ تم نے مسلمان کے کردار کو داغ دار اور بدنام کر رکھا ہے کہ گلی محلے کی ایک بھی لڑکی نہیں چھوڑی جس سے تم نے منہ کالا نہ کیا ہو۔ جلد ہی منشاءسے میری ملاقاتوں کا یہ سلسلہ منقطع ہو گیا تھا کیونکہ مجھے اپنا پیدائشی قصبہ پتوکی چھوڑ دینا پڑا تھا۔

آج مجھے منشا سے ملے ہوئے دوعشروں سے زیادہ وقت بیت چکا ہے ۔ کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں اور خود سے ہی یہ سوال بھی کیا کرتا ہوں کہ تمہارے نزدیک کون زیادہ باعزت ہے ؟ باکردار مسیحی کہ ایک زانی مسلمان ۔
جب میں نے پتوکی چھوڑا تھا تو انارکلی لاہور میں میو ہاسپٹل کی مسجد کے قریب ہی ایک چھوٹا سا کلینک بنایا تھا۔ جس گلی میں میرا کلینک تھا اس گلی میں اور نزدیک کی ساری گلیوں میں ریڈی میڈ گارمنٹ کی فیکڑیز ہیں۔ارد گرد بھی زیادہ ورکرز ٹائپ لوگ رہتے ہیں اس لیے میرے پاس زیادہ تر غریب غربا ہی آیا کرتے تھے۔ان گارمنٹ فیکٹریز میں سے کسی ایک فیکٹری میں ایک لڑکا کام کرتا تھا۔وہ کسی گاوں کا رہنے والا تھااور مذہباً عیسائی تھا۔وہ اپنے ساتھی لڑکوں کے کہنے سننے پر مسلمان ہو گیا تھا۔جب تک وہ لاہور رہاتھا تب تک تو وہ باقاعدہ مسجد جاکر نماز بھی پڑھا کرتا تھا اور رمضان المبارک میں روزے بھی رکھا کرتا تھاپھر وہ ایک اچھا کاری گر بن گیا تھا اور اس نے واپس جا کر اپنے گاوں کے نزدیک کے قصبے میں اپنی دکان کر لی تھی۔ جس علاقے کاوہ مکین تھا وہاں پر ذات پات کا بہت زور شور ہے اس لیے کافی عرصے تک اس کی شادی نہ ہو سکی تھی کیونکہ کوئی بھی مسلمان ایک مصلی کو اپنی بیٹی دینے پر آمادہ نہ تھا۔

پھر مجھے اس کے ایک سابقہ ساتھی نے یہ بتایا تھا کہ وہ کراچی سے ایک لڑکی پیسے دے کر لایا تھا مگر ایک دن وہ مسلمان لڑکی اس کا سب کچھ لے کر کراچی فرار ہوگئی تھی ۔پھر وہ لڑکی کے پیچھے کراچی گیا تھا تو لڑکی فروخت کرنے والے دلال نے نہ صرف لڑکے کو زود وکوب کیا تھا بلکہ اس کے پاس جو نقدی اور ایک گھڑی تھی وہ بھی چھین کر بھگادیا تھا۔ جب وہ متعلقہ تھانے گیا تھا تو وہاں پر بھی کسی نے اس کی فریاد نہ سنی تھی۔

میرے علم میں لاتعداد ایسے عیسائی ہیں جنہوں نے اسلام تو قبول کر لیا ہے مگر ہمارے برہمیت زدہ معاشرے نے ان کو اپنے برابر کا رتبہ آج تک نہیں دیا ہے ۔ان نو مسلموں کی حالت زار دیکھ کر میں اپنے قریبی لوگوں سے یہی کہتا ہوتا ہوں کہ جنت تو ان بے چاروں کو اگلے جہاں میں ملے گی اور ضرور ملے گی کیونکہ یہ تو ہمارے سچے رب کا وعدہ ہے مگر کیا ہم پر یہ فرض نہیں ہے کہ ہم اپنے ان نو مسلم بھائیوں کی معاشی اور سماجی حالت کو بہتر بنائیں ؟
میرے نزدیکی جاننے والے یہ بات جانتے ہیں کہ میں چار سال تک امریکہ رہا ہوں اور پھر مزید چار سال تک سکاٹ لینڈ میں بھی رہا ہوں۔ جو لوگ میرے مزاج شناس ہیں وہ تو میرے سے یہ سوال کبھی نہیں کرتے کہ میں نے کتنے مردوں یا عورتوں کو مشرف بہ ا سلام کیا ۔حالانکہ سبھی اس حقیقت تسلیم کرتے ہیں کہ اپنے دوست احباب کے حلقے میں اسلام کے بارے میں میری معلومات اچھی ہیں (الحمد اللہ الرب العالمین) یہ بات درست ہے کہ آج کے دن تک میں نے کسی ایک بھی غیر مسلم کو مسلم بننے کی دعوت نہیں دی ہے باوجود اس بات کے کہ میرے ملنے اور جاننے والے زیادہ یورپئن یا امریکن لوکل ہی ہوا کرتے تھے ۔کیونکہ میں اس مسلے کے سیاسی سماجی اور معاشی عواقب و جوانب سے واقف ہوں اور اس مسلے کی مذہبی گہرائی کو بھی جانتا ہوں۔ یہ اتنا سادہ اور آسان مسلہ نہیں ہے جتنا سادہ اور آسان ہمارے کچھ مذہبی حلقے سمجھتے ہیں۔

میں نے خود اپنی نظروں سے یہ دیکھا ہے کہ ہم میں سے جو پاکستانی مسلمان یورپ یا امریکہ جاتے ہیں ان کا دین کا علم بھی واجبی سا ہی ہوتا ہے ۔وہ اپنے اس تھوڑے سے علم کو بھی ضرورت سے زیادہ سمجھتے ہیں اور جب ان کی علیک سلیک کسی غیر مسلم لڑکی یا عورت سے ہو جاتی ہے تو وہ اسے زبردستی اسلام کی طرف مائل بھی کرتے ہیں تاکہ پاکستان میں موجود ان کے والدین کی ناک نہ کٹے ۔ اکثر ایسے ہی ہوتا ہے کہ وقتی طور پر تو یہ مسلہ یوں حل ہو جاتا ہے کہ وہ لڑکی یا عورت طوعاً و کرہاً کلمہ پڑھ ہی لیتی ہے یوں اس لڑکے کے والدین کی برادری اور محلے داروں میں واہ واہ ہو جاتی ہے بلکہ جو مولانا صاحب اس نکاح کے موقع پر تشریف لاتے ہیں وہ نہ صرف اس لڑکے کو بلکہ اس کے سارے اب و جد کو ایک کافرہ کو مسلمان کرنے کے عوض جنت کا مستحق قرار دے دیتے ہیں۔اگر میں سچی بات لکھوں گا تو گردن زدنی قرار پاوں گا۔

یورپ اور امریکہ میں رہنے والے سبھی لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ وہاں پر شادیاں زیادہ عرصہ تک نہیں چلتی۔ اس میں بھی تھوڑا قصور ان گوریوں کا ہوتا ہے اور زیادہ قصور ہم پاکستانی مسلمانوں کا ہوتا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم میں سے اکثر وہاں جا کر اور پھر شادی کروا کر بھی اپنی بری حرکات نہیں چھوڑتے ۔وہ پاکستان تو نہیں ہے کہ ہم سرے عام نشہ بھی کریں اور رنڈی بازی بھی کریں پھر بھی ہماری عورتیں اپنی شرافت کے دائرے میں ہی رہیں۔ پاکستان میں تو ماحول کی تربیت کے مثبت اثرات اور دیگر معاشرتی عوامل کام کر رہے ہوتے ہیں جن کا ناجائز فائدہ مرد کو یہ ملتا ہے کہ ماڈرن سے ماڈرن عورت بھی کھل کر اپنے مرد کی برابری نہیں کرتی۔ مگر وہ تو یورپ ہے۔ وہاں کا قانون رسم رواج سب کے لیے ایک جیسا ہے ا ور یکساں ہے۔ جب گوری یہ سوچتی ہے کہ میں نے تو اس شخص سے اس لیے شادی کی تھی کہ یہ ایک مسلم ہے اس لیے یہ نہ نشہ کرے گا نہ ہی عورت بازی کرے گا اور نہ ہی جواءکھیلے گا مگر پھر اسکی غلط حرکات دیکھ کر وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس عیسائی ہو جاتی ہے اس کے بعد وہ کورٹ کے ذریعے سے نہ صرف مرد کی جائداد اور اولاد پر قبضہ کر لیتی ہے بلکہ اولاد کی تعلیم وتربیت کے لیے ہزاروں لاکھوں نقد بھی وصول کرتی ہے۔

اس طرح کے لاتعداد کیس ہر سال ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے اس وقت تک جب تک ہم معاملے کی تہہ تک دیکھنے کی عادت کو نہ اپنائیں گے پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس عورت کی اولاد جوا ن ہونے کے بعد کیا بنتی ہے ؟ مجھے یہ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ آپ بھی جانتے ہیں اور مجھے پتہ ہے ۔میں یہ نہیں کہتا کہ سوفیصد کیسز میں ہمارے ملک کے مرد ہی قصور وار ہوتے ہیں ۔دس پندرہ فیصد صورتوں میں مغرب کی عورتیں بھی ہمارے مردوں کو ٹریپ کرتی ہیں۔ مگر ہمیں تو اس پہلو پر زیادہ سمجھداری اور عقل مندی سے کام لینا چاہئے اور اس مسلے کے سارے ہی پہلوو¿ں کو مد نظر رکھنے کے بعد کسی عورت کی جانب بڑھنا چاہئے کیونکہ ہم مسلم ہیں اور ہمیں اپنی اولاد کے مستقبل کا بھی سو چنا ہے بلکہ ہمیں تو ایسے معاملات میں زیادہ سے زیادہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہاں کا ماحول اور قانون ایسا ہے کہ مرد اور عورت زیادہ عرصہ اکھٹے رہ ہی نہیں سکتے اور جب بھی سپریشن ہوتی ہے تو قانونی شادی کی صورت میں تو اولاد ہو یا نہ ہو مرد کو ہی بھگتنا پڑتا ہے یا پھر غیر قانونی اولاد پیدا کرنے کی صورت میں بھی مرد کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ اسی لیے آج کل کی مغربی سوسائٹی کا مر د نہ تو شادی کرتا ہے اور نہ ہی اولاد پیدا کرنے کا خواہاں ہوتا ہے ۔

جہاں تک یورپ اور امریکہ میں اسلام قبول کرنے کی اصلیت ہے اگر میں اصول کی یہ بات کروں گا تو سبھی برا منا جائیں گے۔ یہ جو آئے دن اردو کے اخبارات اور رسائل میں غیر مسلموں کے قبول اسلام کے اعداد و شمار چھپتے رہتے ہیں یہ سب ہماری خوش فہمیاں ہی ہیں۔ہم ایک ہی واقعہ کو الٹ پلٹ کر باربار شائع کرتے رہتے ہیں اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو آپ اس بارے میں تمام اخبارات اور رسائل کی کٹنگ کرکے اس کی ایک ترتیب وار فائل تیار کر لیں حقیقت حال آپ سبھی کے سامنے آجائے گی۔اسی بارے میں انڈیا دہلی سے شائع ہونے والے ایک ماہانہ دینی رسالے ذکریٰ جدید کے دسمبر ۸۰۰۲ءکے شمارے میں صفحہ ۳۵ پر ذہن کی آنکھیں کھولنے والا مضمون قبول اسلام کا روز افزوں رجحان منظر اور پس منظر شائع ہوا ہے اور یہ مضمون ایک با بصیرت مسلم جناب محمد الیاس ندوی رام پوری کی تحریر ہے ۔ اگر کبھی موقع ملے تو یہ مضمون پڑھیے اور پھر سوچئے کہ ہماری مسلم قوم دن کے وقت جاگتے میں بھی خواب کیوں دیکھتی رہتی ہے ؟

میں جن دنوں امریکہ میں تھا ان دنوں میری یونی ورسٹی کی ایک لڑکی کی وساطت سے میری علیک سلیک ایک ایسی لڑکی سے ہو گئی تھی جو کہ ناسا کے فلوریڈا سنٹر میں کام کرتی تھی۔جب میرا اس سے تعارف ہوا تھا تب میرے دل میں چاند پر پہلا انسانی قدم رکھنے والے شخص نیل آرمسٹرانگ سے ملاقات کرنے کی خواہش پیدا ہوئی تھی کیونکہ میں نیل آرمسٹرانگ کے قبول اسلام کی خبر اور پھر اس کے بعد متعدد اردو اخبارات اور رسائل میں ایک تفصیلی مضمون بھی پڑھ چکا تھا۔ یہ محض اتفاق کی بات تھی کہ ان دنوں امریکہ آنے سے قبل بھی میں نے ایسا ہی ایک مضمون پڑھا تھا کہ قاہرہ میں جب نیل آرمسٹرانگ نے اذان کی آواز سنی تھی تو بہرحال مضمون بہت لمبا ہے میرے پڑھنے والے سبھی سمجھ گئے ہوں گے کہ کیامضمون ہے۔

قصہ مختصر ! میرے ذہن میںاس مضمون کے مندرجات تازہ تھے ۔ میں نے بڑے ہی فخر سے اور رعب سے یہ کہا تھا کہ میں نو مسلم نیل آرم سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔جانتے ہیں تین ماہ کے بعد جب مجھ پر یہ حقیقت کھلی تھی کہ یہ ایک جھوٹی خبر ہے اور اس سے وابستہ سارا قصہ بے بنیاد ہے ۔ تب مجھے کتنی شرمندگی ہوئی تھی؟ وہ تو ساری کی ساری لڑکیاں اچھی تھیں کہ انہوں نے دوبارہ سے کبھی بھی یہ ذکر نہ چھیڑا تھا۔ کوئی میرا ہم وطن ہوتا تو
یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ اور یورپ میں میری زیادہ دوستی اور اٹھنا بیٹھنا لڑکیوں کے درمیان ہی تھا ۔ ایک تو میں زیادہ لمبا چوڑا نہ تھا دوسرے یہ میری عادت میں ہی نہیں ہے کہ میں لڑکیوں کو ہاتھ لگاتا پھروں اور انہیں چھوتا پھروں۔ ویسے بھی امریکن اور یو ر پئن لڑکیاں لمبی چوڑی ہوتی ہیں اور صحت مند بھی اس لیے انکو میرے میں نسوانیت یا فیمی ننیٹی Femininity نظر آتی تھی ۔ یوں وہ لڑکیاں میری موجودگی میں ایزی فیل ہی کرتی تھیں۔ آپ خود ہی دیکھ لیں لیونارددی کیپریو جسے انگلش میں ہم لیوناڈو ڈی کیپر یو (>Leonardo Dicaprio ٹائٹینک کا ہیرو)کہتے ہیں وہ لڑکیوں جیسا ہے اس کی زیادہ تر دوستی بھی عورتوں کے ساتھ ہی ہے۔

میں اصل بات کی طرف آتا ہوں ۔ یورپ کی ایک لکھاری عورت میری گہری دوست بن گئی تھی ۔ وہ مضامین تو اسلام کے خلاف ہی لکھتی ہے مگر شائع مسلمانوں کے ناموں سے ہوتے ہیں ۔ ایک مرتبہ ایک ون ٹو ون سٹنگ کے دوران اس نے یہ اعتراف کر لیا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ اسلام ایک درست سوچ اورپازیٹو لائف سٹائل ہے۔ مگر جب تک کسی ایک مسلم مملکت میں یہ عادلانہ نظام نافذ نہیں ہوجاتا ۔مغرب سے یہ توقع کرنا کہ ہم جوق در جوق اسلام لے آئیں گے ۔ناممکن ہی ہے۔ پھر اس نے بات یوں آگے بڑھائی تھی کہ کسی ایک آدھ مسلم شخص کے اچھے کردار کو دیکھ کر اگر ہمارے معاشرے کے چند افراد اسلام قبول کر بھی لیتے ہیں ۔تو ہمیں زیادہ فرق نہیں پڑتا کیونکہ اتنے ہی عرصے میں ہمار ے معاشرے کے بہتر معاشی و اقتصادی نظام اور عادلانہ نظام کی بدولت تمہاری نوجوان نسل کے بہت سارے افراد عیسائیت قبول کرچکے ہوتے ہ
یں۔ ویسے وہ عیسائیت قبول کریں یا نہ کریں ۔ ایک برابر ہے کیونکہ ہیں تو وہ ہمارے بہتر معاشی نظام کا ایک حصہ ہے۔

یہ کہہ کر وہ رکی نہیں تھی ۔بلکہ اس نے ایک نہایت ہی تلخ حقیقت سے پردہ اٹھایا تھا۔ وہ کہنے لگی ۔ جتنا روپیہ تمہارے عرب بھائی یورپ اور امریکہ میں ہوٹل اور قیمتی جائدادوں پر لگاتے ہیں ۔ اگراتنا ہی پیسہ وہ تعلیمی اداروں پر لگاتے تو میں یہ توقع کر سکتی تھی کہ میرے بچے تو نہ سہی میرے پوتے اسلام قبول کر لیں گے کیونکہ دنیا کی اعلیٰ قیادت ہوٹلوں اور بنکوں میں نہیں اچھے تعلیمی اداروں میں پروان چڑھتی ہے۔

کچھ لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ بات چیت یا گفتگو کرنے کے دوران بار بار ہاتھ لگا کر ہمیں اپنی طرف متوجة الکاملہ کی کیفیت میں مبتلا رکھتے ہیں حالانکہ ہم اس وقت بھی انہی کی بات مکمل انہماک اور مہویت سے سن رہے ہوتے ہیں مگر ان کی یہ عادت تو اتنی پختہ ہوچکی ہوتی ہے کہ وہ ہر فقرے کے اختتام پر مخاطب کے جسم پر ایک ہی مخصوص مقام پر بار بار ہاتھ لگانے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔ میں ایک ایسے ہی صاحب کوجانتا ہوں جن کو یہی بری عادت ہے ۔ایک مرتبہ میں نے گنا تھا صرف ایک منٹ کے قلیل عرصے میں انہوں نے مجھے ساٹھ بار سے زائد مرتبہ ٹچ کیا تھا ۔ دوسروں کا تو مجھے پتہ نہیں ہے البتہ میری تو وہ جگہ دکھنے لگتی ہے جہاں پر ایسے مہربان لوگ دوران گفتگو بار بار ٹچ کرتے رہتے ہیں ۔

یہ قصہ بھی یورپ کا ہی ہے۔ ایک اچھے کھاتے پیتے گھرانے کی لڑکی تھی ۔ جس کو کوئی فکر یا پریشانی نہ تھی
۔ ہنسنا کھانا کھیلنا اور پڑھنا اس کی ذمہ داری میں شامل تھا اور دوستوں کے ساتھ ٹانگوں میں ٹانگیں پھنسا کر بیٹھ کر قہقہے لگانا اور باتیں کرنا اس کی ہابی تھی۔ مجھے اس کی اس عادت سے خاصی الرجی تھی کیونکہ میں تو گھنٹوں میز پر بیٹھ کر لکھنے پڑھنے کا عادی ہوں۔ اس کی دوسری عادت اس سے بھی بری تھی۔ یعنی کہ وہی ! دوران گفتگو باربار اپنے مخاطب کو ایک ہی مقام پر ٹچ کرنے کی ۔ اسے دیکھ کر تو میرے رونگٹے کھڑے ہوجایا کرتے تھے ۔ کیونکہ وہ دوران گفتگو میری پسلی میں ایک ہی پوانٹ پر ایسے انگلی چبھوتی تھی جیسے کہ اس نے وہ جگہ مارک کر رکھی ہو۔ کیا مجال ہے کہ اس نے کبھی ایک مرتبہ بھی ایک آدھ سنٹی میٹر ادھر ادھر ٹچ کیا ہو ۔وہی ایک مخصوص جگہ اور وہی ایک مخصوص پسلی۔ جب وہ میرے پاس بیٹھ کر میرے ساتھ باتیں کرتی تھی ۔ مجھے تو دکھن ہونے لگتی تھی مگرمیں اسے نہ کھو سکتا تھا اور نہ ہی انائیڈ کر سکتا تھا اس لیے سہتا رہتا تھا کیونکہ اس کی ایک عادت اچھی بھی تھی وہ یہ کہ وہ مجھے اپنی فیمیلی گیتھرنگ میں ضرور مدعو کرتی تھی جہاں پر اہم لوگ بھی مدعو ہوا کرتے تھے اور پھر وہ مجھے ان سب سے متعارف کروانا بھی نہ بھولتی تھی ۔مجھے اس کا یہ فائدہ تھا کہ مجھے یورپ کی ایلیٹ اوررولنگ کلاس کی سوچ عادات اور خصائل کو سٹڈی کرنے کے مواقع ملتے ہی رہتے تھے۔

ایک مرتبہ اس لڑکی نے میرے سے اسلامک لٹریچر کی فرمائش کی تھی۔ پاکستان سے شائع ہونے والا جتنا بھی اسلامک لٹریچر انگلش میں تھا میں نے اسے لا کر دے بھی دیا تھا۔ مجھے یہ علم نہ تھا کہ وہ اس سے قبل دیگر مذاہب کا مطالعہ بھی کر چکی ہے۔

ایک مرتبہ میں نے اس آس پر کہ وہ اسلامک لٹریچر پڑھ چکی ہے اس لیے اب وہ اسلام کی طرف مائل ہو گی یہی پوچھا تھا کہ تم اسلام کب قبول کر رہی ہو ؟پھر میں اس کا جواب سن کر دنگ رہ گیا۔اس نے مجھے یہ بتایا تھا کہ جس طرح سے تم لوگ ادیان کا تقابل کرتے ہو میں بھی اسی طرح کا علم حاصل کر رہی ہوں تاکہ کل کلاں کو عیسائیت کا دفاع کر سکوں ۔

یہ قصہ سنا کر میں اپنے دوستوں سے دو سوالات کیا کرتا ہوں۔پہلا یہ کہ ہماری رولنگ کلاس میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جن کو دین اسلام کا درست علم ہے ؟ دوسرا یہ کہ ہماری ایلیٹ کلاس میں سے کتنے نوجوان لڑکے لڑکیاں ایسے ہیں جو کہ عیسائیت یا دوسرے مذاہب کا مطالعہ اس جذبے سے کرتے ہیں کہ کل کلاں کو انہیں ہی دین اسلام کا دفاع کرنا ہے؟

میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ نائین الیون کے بعد یورپ اور امریکہ میں اسلامک لٹریچر کی ڈیمانڈ بڑھ گئی ہے ۔ مگر محض اس کی ڈیمانڈ کئی گنا ہو جانے پر ہم یہ قیاس کرنے لگیں کہ جو جو مرد یاعورت اسے پڑھ رہا ہے وہ اسلام قبول کر رہا ہے۔ محض ایک خوش فہمی اور خود فریبی ہی ہے۔

بات سے بات نکل آئی ہے ۔ امریکہ کا سابقہ صدر جارج ڈبلیو بش کسی دور میں عیسائیت کا مبلغ رہا ہے اسلامی دنیا کے کتنے لیڈر ایسے ہیں جن کو ڈھنگ سے سورة البقرہ کا ترجمہ ہی یاد ہو ؟عالم ہونا تو ایسے لوگوں کے لیے ایک بہت بڑی بات ہے۔

میں نے ابھی ابھی اس ہنسوڑ اور لاابالی سی لڑکی کا جو قصہ سنایا ہے ۔وہ یورپ کے طبقہءاعلیٰ کے عیسائیوں کے اس ذہن کی عکاسی کرتا ہے کہ ہمارا مذہب سب سے برتر ہے جبکہ اس کے مقابلے میںہمارا طبقہءاعلیٰ اور رولنگ کلاس اس قسم کے مثبت احساس سے کلی طور پر تہی دامن ہی ہے۔

قصے تو بہت ہیں جن کا ماحاصل یہی ہے کہ جب تک مسلم ورلڈ کے لیڈروں کا کریکٹر اسلامک نہیں ہو جاتا تب تک یہ توقع کرنا کہ سارا یورپ اور پورا امریکہ ہماری معصوم سی تبلیغ پر اسلام قبول کر لیں گے محض ایک سہانا سپنا ہی ہے اگر ایسا ممکن ہوتا تو اللہ علیم و حکیم ہمارے پیارے نبی اکرم ﷺ کو مدینة النبی میں ایک ماڈل سٹیٹ بنانے کا حکم نہ دیتے۔ اسی حکمت کو مد نظر رکھتے ہوئے دین اسلام کے میرے استاد محترم مرحوم و مغفور کہا کرتے تھے کہ جبتک ایک ایسی مضبوط اور مستحکم اسلامی مملکت معرض وجود میں نہیں آ جاتی ۔جس کی بنیاد اسلام کا عادلانہ معاشی اور سماجی نظام نہ ہو یہ دنیا پریکٹیکلی اسلام کو قبول نہیں کرے گی۔

قیام پاکستان کے فوراً بعد ہمیں پہلا موقع ملا تھا جب ہم اسلام کو اپنے ملک کا نظام بنا سکتے تھے وہ ہم نے اپنی نالائقیوں کی بناءپر کھو دیا پھر د وسرا موقع ہمیں اس وقت ملا تھا جب ریاست سوات میں نظام عدل کا معاہدہ ہوا تھا وہ ہم نے اپنی حماقت اور کم عقلی کی بنیاد پر گنوا دیا ہے۔ دشمنوں کی سازشوں اور پرائیوں کے فریب کے قصے سنا سنا کر ہم خود کو کب تک مطمئن کرتے رہیں گے؟ اور کب تک قومی خود فریبی میں مبتلاء رہیں گے ؟

تاویلات کرنے والی قوم موسیٰ کی طرح سے شائد ہمیں بھی مزید چالیس برس تک فریب کے صحراوں میں بھٹکنا ہے؟
۴۱۔اگست ۔۹۰۰۲ء ہانگ کانگ

Sunday, August 16, 2009

ایران اور روم بالمقابل- - - -سچ تو یہ ہے۔





تحریر: خادم الاسلام و المسلمین، ڈاکٹر عصمت حیات علوی


بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم


نبی اکرم ﷺ کے بعثت کے دور میں معلوم دنیا میں دو بڑی تہذیبیں اور طاقتیں تھیں۔ایران اور روم ۔
یہی دونوںطاقتیں صدیوں سے آپس میں ہی ایک دوسرے سے نبرد آزما تھیں۔دونوں ہی اپنے وقت کی سپر پاورز تھیں اور ان کی آپس کی دشمنی بھی بہت پرانی تھی۔اتنی پرانی کہ ان کی دشمنی کی جڑیں رومیوں کی بت پرستی کے دور تک دراز تھیں۔ جب نبی اکرم ﷺ تشریف لائے تھے،تب تک رومی تو بت پرستی کو چھوڑ کر عیسائیت اختیار کر چکے تھے،مگر ایرانی ابھی بھی اپنے صدیوں ہزاروں سال قدیم مذہب زرتشت پر ہی قائم تھے۔اس قدیم مذہب میں سورج،چاند اور دوسرے بہت سارے مظاہر ِقدرت کے علاوہ آگ کی پوجا بھی کی جاتی تھی یوں بت پرست ایرانی عقیدے میں بت پرست کفارِ مکہ سے قریب تر تھے اور رومی عیسائی اگرچہ سو فیصد درست تو نہ تھے مگر چونکہ وہ ایک ایسے مذہب کے پیروکار تھے جو کہ ایک خالق ، تمام سابقہ انبیا کرام ،تمام سابقہ آسمانی کتب، روز قیامت ، حساب کتاب اور جنت دوزخ پر ایمان رکھتے تھے۔ اس لیے وہ مکہ کے اہلِ ایمان سے زیادہ قریب تر تھے،جو کہ نبی اکرم ﷺ پر ایمان لاچکے تھے اور ایک اللہ ، ایک دین روزقیامت اور تمام سابقہ آسمانی کتب کے ساتھ ساتھ تمام سابقہ انبیاءکرام کو بھی مانتے تھے۔یوں مکة المکرمہ میں ایک ایسا ماحول بن چکا تھا کہ بت پرست کفار مکہ خود کو ایرانی مشرکوں کا حلیف سمجھتے تھے جب کہ مسلمین عیسائیوں سے انسیت سی محسوس کرتے تھے،کیونکہ جن انبیاءاکرام اور کتب کو گمراہ رومی عیسائی مانتے تھے، ان سبھی انبیاءکرام اور کتب پر ایمان لانا مسلمین کے لیے بھی لازمی تھا۔

یہ بات تو طے ہے کہ آدم علیہ السلام سے لے کر نبی اکرم ﷺ تک تمام کے تمام انبیاءکرام دین اسلام ہی لائے تھے۔جس کے بنیادی اصول ہر نبی کے دور میں ایک ہی رہے تھے یعنی کہ ایک واحد ھو لاشریک ،ایک دین ، تمام کے تمام سابقہ انبیا ءاکرام، سابقہ آسمانی کتب، روز قیامت، پھر قیامت کے روزحساب کتاب اور نیکی کے صلے میں جنت اور برائی کے عوض دوزخ ملنے پر ایمان لانا،ہر نبی اور رسول کے امتیوں پر لازم ہوا کرتا تھا۔ بالفاظ دیگر ہر نبی اور رسول کے امتی بنیادی طور پر دین اسلام کے ہی پیرو کار ہوا کرتے تھے اور ان کا نام بھی مسلم ہی ہوا کرتا تھا۔

قرآن کریم میں متعدد آیا ت میں یہ بات وضاحت اور صراحت سے موجود ہے کہ سابقہ انبیا ءکرام پر ایمان لانے والی تمام کی تمام امتیں بنیادی طور پر مسلم ہی تھیں اسی طرح سے عیسیٰ علیہ السلام کے حواری اور انصار بھی مسلم ہی تھے یوں عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکار جب تک عیسیٰ علیہ السلام کی لائی ہوئی اصل تعلیما ت پر قائم رہے تھے تب تک تو ان کا دین دراصل دین اسلام ہی تھا مگر پھر وہ گمراہ ہو گئے تھے تو انہوں نے بت پرستی اپنا لی تھی اور ساتھ ہی تین خداوں یعنی کہ تثلیث کے قائل بھی ہو گئے تھے، تو دراصل انہوں نے دین اسلام کے اصولوں میں بنیادی تحریف کر دی تھی بلکہ انہوں نے فخر کے طور پر خود کومسلم کہلوانے کی بجائے عیسائی کہلوانا شروع کر دیا تھا تو ان کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہ رہا تھا نتیجتاً ان کا مذہب عیسائیت بن گیا تھا۔

تب اس دنیا کی راہنمائی کے لیے اللہ علیم و حکیم نے خاتم النبیین ﷺ کو مبعوث فرمایا دیا تھا تاکہ وہ دین اسلام کی تجدید فرمائیں ۔
جب اللہ حکیم و علیم نے نبی آخر الزمان صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا تھا تب ابتدا میں ان پر چند افراد ایمان لائے تھے اور ان میں بھی زیادہ لوگ مکة المکرمہ کے نادار غریب اور بے اختیار قسم کے لوگ ہی تھے۔وہ ابتدائی دور مسلمین کے لیے بہت ہی بھاری اور سختی کا دور تھا کیونکہ کفار مکہ کی مادی اور افردی قوت اور طاقت کے سامنے مسلمین کی طاقت نہ ہونے کے برابر تھی۔

ان کی اسی کمزوری کی بنا پر کفارمکہ مسلمین پر آئے دن جسمانی تشدد کرتے تھے اور مادی طور پر نقصان بھی پہنچاتے تھے۔ چونکہ مسلمین مغلوب تھے اس لیے کوئی بھی قابل ذکر طاقت ان کی حلیف یا مدد گار نہ تھی۔انہی دنوں ایک ایساواقعہ رونماءہوا تھا کہ اس واقعے کی آڑ لے کر کفار مکہ نے مسلمین کی ہمتوں کو مزید پست کرنے کی مہم چلائی تھی ۔وہ یوں کہ ایرانی افواج نے ایک فیصلہ کن جنگ کے بعد سن ۳۱۶ء(613AD) میں نہ صرف دمشق اور یروشلم کے علاقے رومی سلطنت سے چھین لئے تھے بلکہ اس سے اگلے برس وہ روم کے صوبے مصر پر بھی قابض ہوگئے تھے۔

ان فتوحات سے ایرانیوں کا حوصلہ اس قدر بڑھ گیا تھا کہ وہ رومی دارالحکومت قسطنطنیہ پر بھی قبضہ کرنے کی باتیں کرنے لگے تھے۔

سچ تو یہ ہے کہ دومتحارب اور برابر کی قوتوں کی طویل دشمنی کے دور میں ایسے مرحلے تو آتے ہی رہتے ہیں کہ کبھی ایک فریق غالب آجاتا ہے اور اپنے دشمن کے وسیع علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیتا ہے ۔پھر کچھ عرصے کے بعد مغلوب فریق ہمت باندھ کر بڑے عزم سے اٹھتا ہے تو نہ صرف اپنے پرانے کھوئے ہوئے علاقے واپس لے لیتا ہے بلکہ دشمن کے پایہ تخت کو بھی نیست و نابود کر ڈالتا ہے۔اس مرتبہ بظاہر مٹ جانے والا فریق اگر ہمت طاقت اور حکمت رکھتا ہے تو اپنی تباہ شدہ سلطنت کے کھنڈروں میں پل کر طاقت اور قوت کو دوبارہ سے حاصل کرنے کے بعد اپنے پیدائشی دشمن پر ایسا مہلک وار کرتا ہے کہ اس کو مغلوب بنانے والی قوم ایسی راہ فرار حاصل کرتی ہے کہ ماضی کی مغلوب قوم حال کی فاتح قوم بن جاتی ہے ۔


المختصر ! زندہ قوموں کی زندگی میں ایسے بڑے اور چھوٹے معرکے تو بپا ہوتے ہی رہتے ہیں اور بہادر اقوام ایسے معرکوں کو اپنی بقاءکی جدوجہدکے ابواب کا ایک معمول ہی سمجھتی ہیں۔اس لیے یہ بات تو طے ہے کہ ہزاروں سال سے ایک دوسرے سے برسر پیکار رومی اور ایرانی اس طویل عرصے میں سینکڑوں مرتبہ نہ سہی درجنوں مرتبہ تو ایک دوسرے کو ایسی ہی شکستیں دے چکے ہوں گے بلکہ ایسی ہار جیت تو ان کے بہادروں کا روز انہ کا کھیل اور زندہ رہنے کا بہانہ بن گئی ہوگی۔

دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس حقیقت کو مکّہ کے کسی بھی مشرک سردار نے اجاگر نہیں کیا تھا بلکہ الٹا رومی شکست کو ایک ایشو بنا ڈالا تھا تاکہ مسلمین کی ہمتیں پست کی جا سکیں۔ حالانکہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس زمانے میں نہ تو کفارمکہ کا ایرانیوں سے کوئی پیکٹ تھا اور نہ ہی مسلمین کا رومیوں سے کوئی معاہدہ تھا۔صرف بات اتنی سی تھی کہ اچھے اور نیک دل عیسائیوں کی طرح سے رومیوں کے بادشاہ نے بھی چند مہاجر مسلمین کو اپنے ہاں پناہ دے دی تھی اور ان مظلوموں کو ظالم کفار مکہ کے حوالے کرنے سے انکار بھی کر دیا تھا۔

کیوں نہ پہلے ہم اس وقت کی سپر پاورز کی جغرافیائی حدوں پر ایک نظر ڈال لیں تاکہ ہماری بات میں زیادہ دلچسپی پیدا ہو جائے !

رومی سلطنت کے تحت کچھ علاقے تو یورپ سے تھے ان یورپی علاقوں کے علاوہ ایشاء میں ان کی سلطنت کی حدود میں جو علاقے شامل تھے ان میں موجودہ دور کا پورا ترکی شام لبنان فلسطین بلکہ افریقہ کے موجودہ ممالک مصر اور سوڈان بھی رومی حکومت کے تحت ہی تھے۔ جبکہ ایرانی حکومت رقبے میں رومی سلطنت سے کہیں زیادہ وسیع تھی اس میں موجودہ بلوچستان ایران افغانستان اور موجودہ رشیئن فیڈریشن کے کچھ مسلم علاقے بھی شامل تھے پھرایران کا بادشاہ عراق پر بھی قابض تھا ۔اس لئے جب بھی دونوں قومیں آپس میں نبرد آزما ہوتی تھیں تو عراق اور شام کے علاقے ہی میدان جنگ بنا کرتے تھے۔ یوں ان کی سرحدیں عراق اور شام کے علاقوں میں اکثر آگے پیچھے ہوتی ہی رہتی تھیں۔

چونکہ جزیرہ العرب ایک وسیع ریگستان تھا اور غیر زرعی علاقہ تھا اس لیے دونوں ہی بڑی سلطنتوں نے جزیرة ا لعرب کے وسیع ریگ زار کو بے کار اور غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کیا ہوا تھا۔دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس علاقے پر نہ تو مشرق کی سپر پاور کا قبضہ تھا اور نہ ہی یہ خطہ مغرب کی سپر پاور کے تحت تھا یوں اس علاقے کے لوگ ہزاروں برس سے کسی بھی طاقت قوت اور تہذیب کے اثر و رسوخ سے نا آشنا ہی تھے اس لیے وہ نہ صرف آزاد منش اور بہادر تھے بلکہ کسی بھی دنیاوی طاقت سے غیر مرعوب بھی تھے یوں جزیرة العرب کے وسیع صحراو¿ں میں ایک ایسی جری اور بے خوف قوم پل رہی تھی جس نے مشرق اور مغرب دونوں کی تقدیر اور تہذیب و تمدن کو یکسربدل دینا تھا۔

اس دور میں ایران کو پارس پرشیہ یا پارشیاء کہا جا تا تھا ۔ چونکہ عربی زبان میں پ کا حرف نہیں ہے ۔اس لیے عرب پارس کو فارس کہا کرتے تھے اور پرشئین لینگویج کو فارسی کہتے تھے یاد رہے کہ ایران اور جزیرة العرب کے درمیان جو کھاڑی یا خلیج ہے اس کا پرانا قدیمی اور اصل نام خلیج فارس ہی ہے۔ جس کو اب عرب قوم پرست شط العرب کہنے پر مصر ہیں۔

اب جب کہ پرشیاءیا فارس نے رومیوں کو پے در پے شکستیں دیں تو کفارمکہ مسلمین کا مذاق اڑانے لگے تھے کہ اگر تمہارا واحد ھو لا شریک مختارکلی ہوتا تو وہ رومیوں کی مدد ضرور کرتا کیونکہ رومی بھی تمہاری طرح سے ہی ایک اللہ کو مانتے ہیں۔ دراصل اس نفسیاتی جنگ کے پس پردہ یہودیوں کا اور خاص طور پر یثرب کے یہودیوں کا سازشی ذہن کام کر رہا تھا کیونکہ وہ لوگ نبی اکرم ﷺ سے نسلی عداوت، بغض اور کینہ رکھتے تھے۔

یہ بات ذہن میں رہے کہ یہودی وہ قوم ہے جو کہ کسی بھی دوسری قوم کی وفادار نہیں ہے یہودی قوم کو جس قوم نے بھی اپنے ہاں پناہ دی ہے یا اپنے سینے سے لگا یا ہے ۔یہودیوں نے نہ صرف اس قوم کی جاسوسی کی ہے بلکہ اس محسن قوم سے غداری بھی کی ہے۔یہ قوم بڑی ہی سازشی ہے۔ جس قوم اور ملت کے ساتھ بھی یہودیوں کے روابط قائم ہوئے ہیں ان یہودیوں نے نہ صرف ان کی عورتوں کو ورغلایا ہے بلکہ اس قوم میں فحاشی اور عریانی بھی پھیلائی ہے۔ ان کی انہی کرتوتوں کی بنا پر ہر قوم نے تنگ آ کر ایک نہ ایک دن قوم یہود کو اپنے علاقے سے نکال باہر کیا ہے۔

اگر کسی کو قرآن کریم پر یقین نہیں آتا تو وہ خود ہی تا ریخ اٹھا کر دیکھ لے کہ یہ قوم کسی کی بھی وفادار نہیں ہے۔ جب رومی بت پرستی کیا کرتے تھے تب اس دور میں یہودی سلطنت روم میں نہ صرف اچھے اچھے عہدوں پر قابض تھے۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہودی قوم کے بیشتر افراد عورتوں کا دھندہ اور سودی کاروبار بھی کرتے تھے یوں اس دور میں بھی یہودی اثر و رسوخ والے ا ور دولت مند ہی تھے ۔ اس حقیقت سے تو سبھی آگاہ ہیں کہ جب عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل میں مبعوث کئے گئے تھے تب قوم یہود نے ان پر ایمان لانے کی بجائے ان کی بھرپور مخالفت ہی کی تھی۔حالانکہ وہ ان کے اپنے قبیلے کہ تھے یا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام یہودی نسل کے ایک فرد تھے ۔ اتنا قریبی تعلق ہونے کے باوجود گمراہ یہودی حق اور سچ کی مخالفت میں اپنی حد سے یوں گذر گئے تھے کہ انہوں نے سچ اور جھوٹ بول کر رومی حکام کے کان عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف بھرے تھے۔

دراصل یہ یہودی نسلاً ہوتے ہی اتنے چرب زبان ہیں کہ یہ ہر با اثر قوم کو کسی نہ کسی طرح سے اپنے شیشے میں اتار ہی لیا کرتے ہیں۔یہ سب یہودیوں کے سازشی ذہن اور چرب زبانی کا نتیجہ ہی تھا کہ فلسطین کے رومی حکام نے یہودیوں کے روز روز کے کہنے میں آ کر عیسیٰ علیہ السلام کو پھانسی دینے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ قر آن کریم میں اس واقعہ کا ذکر بڑے ہی خوبصورت الفاظ میں کیا ہے کہ کیسے ایک غدار کوعیسیٰ علیہ السلام کے شبہ میں پھانسی دے دی گئی تھی اور عیسیٰ علیہ السلام کو کوئی گزند نہ پہنچی تھی بلکہ اللہ مسبب الاسباب نے ان کو زندہ ہی آسمان پر اٹھا لیا تھا۔

جب اللہ کریم نے عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا تھا تب جا کر رومیوں پر یہ اصل حقیقت آشکارا ہوئی تھی کہ دراصل وہ اللہ کے ایک سچے نبی ہی تھے اس لیے رفتہ رفتہ سارے رومی عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے تھے۔ پھر کچھ صدیوں کے بعد رومیوں نے بھی باقی اقوام کی طرح سے تنگ آکر یہودیوں کی بری کرتوتوں کے سبب ان کو اپنی سلطلنت سے نکال باہر کیا تھا۔اس دور میں بہت سارے سود خور اور عورتوں کا دھندہ کرنے والے یہودی تو فارس چلے گئے تھے مگرجو یہودی اپنی کتاب تلمود تورہ یا توراة کا زیادہ علم رکھتے تھے وہ جزیرة العرب میں آکر بس گئے تھے تاکہ اس نبی کا شاندار استقبال کریں جس کے آنے کا دور قریب آن پہنچا تھا ،کیونکہ اس نبی کی متعدد بشارتیں یہود کی کتاب میں موجود تھیں ۔

دراصل یہودیوں کو تو یہی امید تھی کہ خاتم النبیین ﷺ بنو اسحاق کی کسی ایک ایسی شاخ میں جنم لیں گے جو کہ بکّہ (مکہ)کے قریبی علاقوں میں مقیم ہو گی۔ کیونکہ ان کی کتب میں یہی مذکور تھا کہ بشارتوں والا نبی بکّہ کے قرب میں پیدا ہوگا۔ مگر قوم یہود پر تو اس وقت بجلی گرپڑی تھی جب ان پر یہ حقیقت کھلی تھی کہ جس نبی کی آمد کے وہ بنو اسحٰق میں منتظر تھے وہ تو بنو اسمٰعیل میں پیدا ہوا ہے۔ اگر قوم یہود سمجھدار اور ایمان والی ہوتی تو وہ فوراً ہی نبی اکرم ﷺ پر ایمان لے آتی۔

مگر وہ تو ایک ضدی ہٹ دھرم اور متعصب قوم ہے۔اسی وقت قوم یہود کی نسلی عصبیت آڑے آئی گئی تھی اور انہوں نے محض اس لیے آپ ﷺ پر ایمان لانے سے انکار کر دیا تھا کہ وہ بنو اسحاق سے نہ تھے ۔ یہود تو اتنے بد بخت ہیں کہ تمام کی تمام نشانیاں ملنے کے باوجود آپ ﷺ پر ایمان نہ لائے تھے بلکہ الٹا آپ ﷺ کی مخالفت میں اس حد تک چلے گئے تھے کہ وہ کفارمکہ کے حلیف بن کر آپ ﷺ کو تنگ کرنے لگے تھے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ کچھ یہودی کاہنوں نے جو کہ اپنے مذہبی علوم کے علاوہ علم الاعداد پر بھی دسترس رکھتے تھے یہ حساب لگا لیا تھا کہ ان کی کتاب میں مذکو ر نبی ﷺ بنی اسمعیل یا قریش میں پیدا ہوگا ۔تب کچھ یہودی عورتوں نے یہ سوچا تھا کہ چلو باپ کی طرف سے نہ سہی ماں کی طرف سے تو وہ بشارتوں والا نبی ﷺ بنی اسحٰق سے ہونا چاہئے۔ اس لیے کچھ صاحب حیثیت یہودی عورتوں نے اسی ارادے سے مکة المکرمہ کا سفر بھی کیا تھا کہ وہ عبد اللہ بن عبدالمطلب سے نکاح کر لیں گی اور آنے والے نبی کی ماں کا اعلیٰ مقام حاصل کر لیں گی مگر جب تک وہ عورتیں مکة المکرمہ پہنچی تھیں ۔ تب تک عبداللہ بن عبدالمطلب کا نکاح آمنہ بی بی سے ہو چکا تھا اور نبی اکرم ﷺ کا نور اپنی والدہ محترمہ کے سپرد گی میں جاچکا تھا۔

کیونکہ اس سے قبل نبی اکرم ﷺ کے والد محترم عبداللہ کے ماتھے پر جو نور نظر آیا کرتا تھا وہ نور معدوم ہو چکا تھا۔ اس کا صاف مطلب تو یہی ہے کہ آسمانی فیصلے نہ تو ٹالے جا سکتے ہیں اور نہ ہی بدلے جا سکتے ہیں۔
یہودی ربی اور ان کے بااثر افراد اس حقیقت سے واقف تھے کہ مکة المکرمہ کے بنو ہاشم کے ایک سردار عبد المطلب کا پوتا ہی وہ جلیل القدر نبی ہے جس کی بشارتیں ان کی کتب میں دی گئی ہیں۔

اب ہونا تو یہی چاہئے تھا کہ وہ اپنی کتاب پر ایمان لا کر نبی ﷺ پر ایمان لے آتے یوں ان کو دنیا و عقبیٰ کی بھلائی اور فلاح مل جاتی ۔ مگر ان کو تو نسلی برتری کا گھمنڈ مار گیا ۔ کیونکہ وہ خود کو اس دنیا کی باقی تمام کی تمام نسلوں اور اقوام سے اعلیٰ اور برتر سمجھتے ہیں۔اسی نسلی برتری کے گھمنڈ میں انہوں نے دوسری قوم یا دوسرے قبیلے میں پیدا ہونے والے سچے نبی کو بھی جھٹلانے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔پھر انہوں نے نہ صرف نبی اکرم ﷺ کو جھٹلایا تھا بلکہ عملاً باطل کا ساتھ بھی دیا تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ یہودی ربی اور عالم ہی کفار مکہ کو طرح طرح کی پٹیاں پڑھایا کرتے تھے اور وہ جاہل کافر وہی رٹا رٹایا ہوا سبق مکة المکرمہ میں آکر ویسے ہی دہرایا کرتے تھے جیسے کہ ان کے استادوں نے ان کو پڑھایا ہوتا تھا ۔

جب رومیوں کو فارسیوں کے ہاتھوں شکست ہوگئی تھی تب بھی کفار مکہ کویہ پٹی یہودیوں نے ہی پڑھائی تھی کہ دیکھو ایک اللہ کو ماننے والے رومی متعدد خداوں کو ماننے والے فارسیوں سے ہار گئے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔کفار مکہ بھی اندھی دشمنی اور رقابت میں یہ حقیقت تک بھول گئے تھے کہ وہ خود بھی تو نسل در نسل صدیوں اور ہزاروں سال سے ایک اللہ کو مانتے چلے آرہے ہیں۔

یہاں پر ایک نقطہ بہت ہی اہم ہے اور قابل غور بھی ہے اور اسے محض ایک اتفاق نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ یہ ہمارے رب کے بیّن فیصلے ہیں۔سب سے اول یہ کہ نبی کریم ﷺ کی والدہ محترمہ کا گاوں یثرب کے قریب ہی واقع تھا۔ دوسرے جن یہودیوں نے آپ ﷺ کے خلاف کفار مکہ سے گٹھ جوڑ کرلیاتھا اور طرح طرح کے سوالات کرکے آپ ﷺ کو زچ کرنے کی ناکام کوششیں بھی کی تھی ۔وہ یہودی بھی یثرب اور اس کے گردونواح کے رہنے والے ہی تھے اور پھر بعد ازاں یہی شہر آپ ﷺ کا پایہ حکومت بنا تھا اور اس کا نام بدل کر مدینة النبی یعنی کہ نبی ﷺ کا شہر رکھا گیا تھا۔

ایک نقطہ اور بھی غور طلب ہے۔وہ یہ کہ مسلمین کی طرح سے کفار مکہ بھی اس بات کوتسلیم کرتے تھے کہ اس کائنات کا مالک اللہ ہی ہے اور پھر یہودی تو اہل کتاب ہونے کے ناطے بہت ساری ایسی باتوں پر ایمان رکھتے تھے جن پر مسلمین کا بھی پختہ ایمان تھا۔مگر جب یہ دونوں گروہ مسلمین کی ضد بازی میں عقل کے اندھے ہوئے تھے تو ایسے اندھے ہوئے تھے کہ وہ ان حقائق کو بھی جھٹلانے لگے تھے جن حقائق کو وہ اس سے قبل خود بھی مانتے چلے آ رہے تھے۔ اسی فعل کو سیانے اندھی دشمنی کہتے ہیں اور اندھی دشمنی کی بنیاد اندھی عصبیت ہوتی ہے اور اندھی عصبیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی شخص خاندان قبیلہ یا قوم خود کو نسلی یا عقلی طور پر دوسرے انسانوں سے افضل اور اعلیٰ خیال کرنا شروع کر دیتی ہے۔ جب کوئی شخص قبیلہ خاندان یا قوم خود کو باقی مخلوق سے افضل خیال کرنا شروع کردیتی ہے تو جس کو وہ حقیر خیال کرتی ہے اس پر طنز کے تیر بھی چلاتی ہے اور پھر اپنے گھٹیاطنز پر خوش بھی ہوتی ہے۔

بس کچھ ایسی ہی کیفیت یا صورت حال مکة المکرمہ میں اس دور کے کفار مکہ کی ہو چکی تھی۔ جب رومی قوم کو فارس والوں نے شکست دے دی تھی۔ تو ان دنوں کفار مکہ اپنے استادوں یعنی کہ یہودیوں کے کہنے پر ایک ایسی مہم سازی کر رہے تھے جس کو موجودہ دور میں نفسیاتی یا اعصابی جنگ کہتے ہیں اور جسے سائی وار یا میڈیا وار بھی کہا جا سکتا ہے۔

آپ ذرا تصور کی آنکھ سے دیکھیں ! کہ مظلوم اورمسکین مسلمین جن کا سہارا اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے سوائے کوئی اور نہیں ہے۔ جب کسی ذاتی کام کے لیے یا رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کرنے کی غرض سے اپنے گھروں سے باہر نکلتے ہیں تب سرداران مکہ انکے حواری اور ابن الوقت لوگ کیسی کیسی گھٹیا اور واہیات بکے جا رہے ہیں؟ اس بکواس کا واحد مقصد تو صرف یہ ہے کہ مسلمین جو کہ مسکین بھی ہیں اور غریب بھی ہیں ۔بے اختیار بھی ہیں اور بے سہارا بھی ہیں ۔ان کو مایوسی، شرمندگی اور ندامت میں مبتلا کر دیا جائے۔

یہودیوں کا یہ شعار کل بھی تھا اور آج بھی ہے کہ وہ ہمیشہ ہی کسی اور کو آگے کرکے اپنی دشمنی نکالتے ہیں ۔ یہودی ہمیشہ ہی دوسروں کے کندھے پر اپنی بندوق رکھواتے ہیں اور اپنے دشمن کا خاتمہ کرتے ہیں۔دوسرے یہ کہ یہودی پروپگنڈا وار کے شروع سے ہی ماہر ہیں جیسے پرانے زمانے میں کہتے ہوتے تھے کہ یہ عادت فلاں کے خون میں شامل ہے اور آج کل میڈیکل سائنس کی ترقی کے باعث یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فلاں کے جین کوڈ میں یہ خصلت موجود ہے یاہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہودی قوم نسل در نسل جھوٹ بولنے کی ماہر ہے اور یہ کہ پروپگنڈا وار اس کی فطرت میں رچا بسا ہے۔

یہ بات بھی دھیان رہے کہ مسلمین پر طنز کے تیر اس حقیقت کے باوجود چلا ئے جارہے تھے کہ نہ تو روم کے عیسائی بادشاہ سے بنی اکرم ﷺ نے کوئی معاہدہ کیا تھا ۔نہ ہی مسلمین نے رومیوں کی مدد کے لیے کوئی افرادی قوت روانہ کی تھی اور نہ ہی مسلمین کے کسی نمائندے نے قسطنطین کے بادشاہ کے حق میں کوئی بیان دیا تھا۔مگر اس حقیقت کے باوجود بھی کفار مکہ جو کہ دراصل یہودیوں کے ایجنٹ بن چکے تھے اور یہودیوں کی پراکسی وار (Proxy War) لڑ رہے تھے ان کا حال یہ تھا کہ وہ اپنے گھروں سے باہر جاتے اور گھروں کے اندر آتے، چوپالوں میں اٹھتے بیٹھتے،بازاروں میں کھڑے اور چلتے یہاں تک کہ کعبةاللہ کا طواف کرتے ہوئے بھی۔ ایک ہی فضول بکواس کئے جاتے تھے۔

ایمان والوں کی آزمائش کی ایک خاص حد مقرر ہوا کرتی ہے ۔پھر جب ایمان والے اپنے صبر وتحمل کی بدولت اپنی آزمائش کی اس خاص حد پر پہنچ جاتے ہیں تو اللہ عالم الغیب کی رحمت جوش میں ضرور آیا کرتی ہے اس مرتبہ بھی یہی کچھ ہوا تھا جب مکةالمکرمہ کے ایمان والے صبر کی ایک خاص حد پر پہنچے تھے ۔ تب سورة الروم کی ان آیات کا نزول مبارک ہوا تھا۔

بسم اللّٰہ الرحمٰن الر حیم ا لٓمّٓ غلبت الروم فی ٓ ادنی الارض وھم من بعد غلبھم سیغلبون
فی بضع سنین ط للّٰہ الامر من قبل ومن بعد ویو مئذ یفر ح المومنون

اس کاترجمہ یہ ہے ۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔الٓمٓ[۱] (اہل ) روم مغلوب ہوگئے [۲] نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آجائیں گے[۳] چند ہی سال میں پہلے بھی اور پیچھے بھی، اللہ ہی کا امر ہے اور اس روز مومن خوش ہو جائیں گے [۴]

لیجئے ! ان قرآنی آیات کے نزول کے معاً بعد ہی مسلمین مایوسی شرمندگی اور ندامت کے احساس تلے سے نکل آئے تھے۔ چونکہ ان کو اپنے قائد رسول کریم ﷺ کی ذات اقدس پر مکمل اعتماد اور پختہ یقین تھا اس لیے ان آیات کے نزول کے بعد وہ پورے اعتماد کے ساتھ اور بغیر کسی شر مندگی کے اپنے گھروں سے باہر نکلنے لگے تھے پھر جب ان کو یثرب کی جانب ہجرت کرنے کا حکم ہوا تھا تب بھی مسلمین نے مکمل اعتماد اور پورے یقین کے ساتھ ہجرت کی تھی۔

پھر جس سال کفار مکہ نے مدینة النبی ﷺ پر حملہ کیا تھا اس سال مسلمین کو دوہری خوشی ملی تھی ۔ایک تو یہ کہ مسلمین مومنین نے بدر کے مقام پر کفار مکہ کو ذلت آمیز شکست دی تھی اوردوسری یہ کہ اسی سال رومی فوجوں نے فارس کی افواج پر ایک بہت بڑی فتح حاصل کر لی تھی اور ان سے اپنے وہ تمام علاقے بھی واپس لے لئے تھے۔ جن پر فارس کی فوجوں نے پچھلی جنگوں کے دوران قبضہ کر لیاتھا۔

اب تقریبا ڈیڑھ ہزار سال کے بعد ایرانی اور رومی ایک بار پھر سے ایک دوسرے کے بالمقابل آچکے ہیں اور بظاہر حالات سے تو یوں دکھائی دیتا ہے کہ جلد ہی یہ پرانے دشمن ایک دوسرے سے نبرد آزما ہونے والے ہیں۔ اس نبرد آزمائی میں جو علاقے میدان جنگ بننے والے ہیں یہ تقریباً وہی علاقے ہیں جو کہ ڈیڑھ ہزار برس قبل بھی انہی دونوں متحارب طاقتوں کے میدان جنگ تھے ۔

اگر بہ نظر عمیق نہ دیکھا جائے تو بظاہر قومیں بھی وہی ہیں جو کہ آج سے ڈیڑھ ہزار برس قبل متحارب قوتیں تھیں۔مگر گہری نظر سے دیکھنے والے یہ حقیقت جانتے ہیں کہ ان کی حقیقی ہیت(فارمیشن) وہ نہیں ہے جو کہ آج سے ڈیڑھ ہزار سال قبل تھی کیونکہ اب کی بار یہودی قوم ایران کی بجائے روم کی پشت پر کھڑی ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس مرتبہ رومی قوم کو ایران کے بالمقابل یہودی قوم ہی لائی ہے۔اس کو بالمقابل کہنا بھی زیادتی ہی ہوگاکیونکہ اس مرتبہ رومیوں نے ایران کو نہ صرف خشکی پر گھیر رکھا ہے بلکہ سمندروں میں بھی اپنی افواج کو جمع کر کے انہوں نے ایران کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔

دوسرے اس مرتبہ عیسائی لشکروں نے نہ صرف زیادہ رقبہ گھیرا ہوا ہے بلکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ رومیوں کے حلیفوں میں وہ اقوام بھی شامل ہیں جو کہ آپس میں نہ صرف ایک دوسری قوم کی شدید مخالف ہیں بلکہ عملی طور پر اس وقت بھی اپنے اپنے مقام پر یا اپنے اپنے ممالک میں ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما بھی ہیں۔ زیادہ دور کیا جانا ؟

ہندوستان اور پاکستان کی مثال ہی لے لیں۔یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ایک طرف تو ہم ایران سے دوستی کا دم بھرتے ہیں تو دوسری طرف ہم ایران کے معاملے میں اندرون خانہ امریکہ کے ساتھ ہیں۔( بلوچستان میں جاری آزاد بلوچستان کی جنگ دراصل اس وسیع اور انوکھی جنگ کا ایک لازمی مرحلہ ہے اگر آزاد بلوچستان معرض وجود میں نہ آ سکا تو امریکہ ایران پر حملے کی جرات کبھی بھی نہیں کر سکے گا ۔)

اگر ہم اٹلس کی مدد سے عیسائی لشکروں کا پھیلاو دیکھیں تو ہماری عقل دنگ رہ جاتی ہے کیونکہ اس میںتو شرق تا غرب اور شمال تا جنوب دنیا کے تمام کے تمام ممالک عیسائیت کا ہی ساتھ دے رہے ہیں جیسے کہ بحرالکاہل میں واقع متعصب عیسائی اقوام از قسم نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا سے عیسائی افواج سے آرہی ہیں تو بحرالکاہل میں ہی واقع جاپان بھی اس جنگ میں ملوث ہے جو کہ ایک بدھ مت اکثریت کا حامل ملک ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ جنوبی کوریا بھی عیسائیوں کا حلیف بنا ہوا ہے جو کہ کسی بھی مذہب کا پیروکار نہیں ہے۔

ہمیں زیادہ حیرت تو اس وقت ہوتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ خفیہ طور پر کچھ بے دین ممالک بھی امریکہ کا ہی ساتھ دے رہے ہیں۔اس عیسائی رومی لشکر کی سب سے زیادہ حیرت گم کرنے والی بات یہ ہے کہ اس لشکر میں قوم پرست عربوں کے ساتھ ساتھ مذہب کے ماننے والے عرب بھی یہود یوں کے ساتھ ہیں۔

اس فارمیشن میں ایک بنیادی یا ریڈیکل تبدیلی یہ آئی ہے کہ ایران اب آتش پرست نہیں رہا ہے بلکہ اسلام قبول کر چکاہے۔

جی ہاں ! ایرانی اب اسی نبی ﷺ کے پیروکار ہیں ۔جس جلیل القدر نبی ﷺ کی مخالفت میں قوم یہود نے کفار مکہ سے گٹھ جوڑ کیا تھا اور آتش پرست ایرانیوں کی حمایت کی تھی۔ اب جب کہ ایرانی اس عربی النسل نبی ﷺ کے پیرو کار بن چکے ہیں تو اسی نبی اکرم ﷺ کی عداوت میں یہی یہودی رومیوں کی پشت پر جا کر کھڑے ہوچکے ہیں۔

کہنے کو تو یہودی روم کی افواج میں شامل ضرور ہیں۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ اس جنگ میں بہ نفس نفیس حصہ نہیں لیں گے بلکہ ہمیشہ کی طرح سے اور اپنے ماضی کی روایت کے عین مطابق دور دور رہ کر اس جنگ کی آگ کو بڑھکائیں گے اور للکار للکار کر ہر قوم کو اس جنگ کے اندر دھکیلیں گے یوں ہر سابقہ جنگ کی طر ح سے اس مرتبہ بھی میدان جنگ کا ایندھن دوسری اقوام ہی بنیں گی اور یہودی نسل کے لوگوں کی اکثریت جو کہ اشکانزی یا بنیادی طور پر آرین نسل سے ہیں اس جنگ میں بھی بڑے جانی نقصان سے بچی ہی رہے گی۔

اس جنگ میں ہر قوم حصہ لے گی کوئی ظاہراً اور کھلم کھلا اور کوئی خفیہ اور اندرون خانہ ۔ یہ جنگ اتنی اہم ہوگی کہ ہر قابل ذکر طاقت کو اس میں ملوث ہونا ہی پڑے گا۔ کیونکہ یہ جنگ رومی جیتیں یا ایرانی جیتیں۔ اس جنگ کے اختتام پر اس دنیا کے نقشے نے ایک نیا رنگ اور نیا روپ اختیار کرنا ہی ہے یوں ہر ایک بڑی قوت اور طاقت یہ چاہے گی کہ اس دنیا کی قسمت کا فیصلہ وہ ہی کرے ۔اب اللہ علیم و حکیم ہی جانیں کہ کون کھل کر سامنے آئے گا اور کون چھپ چھپا کر اس کھیل میں شریک ہو گا؟ مگر ایک بات تو طے ہے کہ روس یہ چاہے گا کہ یہ جنگ زیادہ سے زیادہ طوالت اختیار کرے اور انجام کار یہ جنگ تین ویٹو پاورز کے لیے ایسی دلدل بن جائے جیسے کبھی روسی ریچھ کے لیے افغانستان بن گیا تھا ۔

اسی لانگ ٹرم پلاننگ کو اپنے ذہن میں رکھ کر روس نے برسوں قبل ہی لاطینی نسل کے جنوبی امریکن ممالک کو نیوٹرل رکھنے کی کوششوں میں مکمل کامیابی حاصل کرلی ہے۔ کیونکہ اوّل تو اس نے اتحادیوں سے اپنی افغانستان والی شکست کا بدلہ لینا ہے۔ دوئم اس نے یورپ میں اپنی برتری ایک مرتبہ پھر سے قائم کرنی ہے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ روس کو اقتصادی اور مادی ترقی کرنے کے لیے اور پھر اسے ہمیشہ کے لیے برقرار رکھنے کے لیے ایک کھلی منڈی درکار ہے جہاں پر اس کی گیس اور دیگر مصنوعات کی کھپت بلا روک ٹوک ہوتی ہی رہے ۔

جب سے پیوٹن برسر اقتدار آیا ہے روس کی نظریں ایک بار پھر سے ایسٹ یورپ پر لگی ہوئی ہیں۔

کیا روس اس جنگ میں عملاً حصہ لے گا ؟

نہیں بالکل ہی نہیں ۔کیونکہ دوسری جنگ عظیم میں اور پھر افغان وار میں روسی قوم کی اتنی شدید قسم کی نسل کشی ہوئی ہے کہ روسی نسل باقی نسلوں کی بہ نسبت بڑھنے کی بجائے کم ہوئی ہے۔ اس لیے آئندہ سو سال تک روسی کسی بھی جنگ میں عملاً حصہ لینے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔روسی اس جنگ میں دوغلی پالیسی اختیار کریں گے وہ یوں کہ ایک طرف تو وہ یورپی اقوام کو اپنا تیل اور گیس مہنگے داموں فروخت کر کے اپنی اکانومی مضبوط بنیادوں پر نئے سرے سے استوار کریں گے تو دوسری جانب ایران کو اپنی لیٹسٹ وار ٹیکنالوجی بیچ کر دام بھی اکٹھے کریں گے اور اس کے عملی استعمال کے بعد عملی تجربات کی روشنی میں اپنی اسلحہ ٹیکنالوجی میں بہتری بھی لائیں گے۔

چین بھی اس جنگ میں نیوٹرل رہنے کا ڈرامہ رچائے گا مگر اندرون خانہ اس کی یہی کوشش ہوگی کہ جب اس جنگ کا خاتمہ ہو تو دونوں فریق عملاً تباہ ہوچکے ہوں ۔اگر نہیں تو پھر اتنے کمزور ہوچکے ہوں کہ دونوں مخالف گروہوں کی مجموعی قوت اور طاقت چین کی طاقت سے کم ہی ہو۔دراصل بات یہ ہے کہ اگراس فیصلہ کن جنگ کے اختتام پر رومی یا ایرانی طاقتوں میں سے کوئی ایک فریق بھی طاقتور رہ گیا تو چین کے لیے خسارہ ہی خسارہ ہے۔

جیسے کہ توقع یہ کی جارہی ہے کہ رومی جیت جائیں گے کیونکہ ان کے پاس ظاہری اسباب کی کثرت ہے۔ رومی اگر یہ معرکہ جیت گئے تو وہ اپنی جیت اور برتری کے نشے میں چین کو مذہبی آزادی کا ایجنڈا تسلیم کرنے پر مجبور کردیں گے ۔جب چین میں مذاہب کو تبلیغ کی آزادی میسر آئے گی تب عیسائی تو کھلم کھلا عیسائیت کی تبلیغ کریں گے ہی مگر ساتھ ہی ساتھ اس صورت حال کا فائدہ چین کے علاقے سن کیانگ کے اوگر (یغور) بھی اٹھائیں گے اور اول اول تو وہ اسلامی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ لے کر اٹھیں گے اور پھر کچھ عرصہ بعد وہ نیم خودمختاری یا مکمل خودمختاری کا اعلان بھی کرسکتے ہیں ۔ کیا چین معدنی وسائل سے مالا مال اپنے کل رقبے کے ایک تہائی سے دست بردار ہوجائے گا ؟ جس کی آبادی تو کشمیر سے کم ہے ۔ جب کہ رقبہ انڈیا سے بڑا ہے ۔

کچھ مبصرین یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر یہ جنگ طوالت اختیار کرتی ہے تو ایران یقیناً یہ جنگ جیت جائے گا ۔ایران کے فاتح ہونے کے لیے وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ اس طویل جنگ میں ایران اکیلا نہیں رہے گا کیونکہ ساری دنیا میں جہاں کہیں بھی شیعہ آبادی موجود ہے ان میں سے ستر فیصد شیعہ آبادی دل وجان سے ایران کی حامی ہے ۔

یہی مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ کچھ اعتدال پسند سنی اور ملی ٹینٹ بھی ایران کے ساتھ ہی ہیں یوں ساٹھ فیصد مسلم آبادی اس جنگ کے دوران ایران کا ساتھ ضرور دے گی اور اس طویل جنگ میں گوریلا کاروائیاں کچھ زیادہ ہی ہوں گی ۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ صورت حال کچھ یوں ہے کہ اس وقت اسلامی دنیا کی جتنی بھی گوریلا تنظیمیں عملی طور پر موجود ہیں اور عملاً کام بھی کر رہی ہیں سبھی کی سبھی ایران کی حامی ہیں قطع نظر اس بات کے کہ ان تنظیموں کا تعلق سنیوں سے ہے یا پھر شیعوں سے ہے۔

اگر ہم ان مبصرین کی سنیں تو ہمیں یوں لگتا ہے کہ اس طویل جنگ کے خاتمے پر ایران فتح یاب ہو ہی جائے گا۔

ایران کے فاتح ہونے کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ کشمیر میں گوریلا وار ایک نئے عزم سے شروع ہوجائے گی اور چونکہ اس مرتبہ اس گوریلا وار کی حمایت ایران کر رہا ہوگا تو یہ جنگ اپنے مقاصد کے حصول تک جاری رہے گی۔ کشمیرکی آزادی کے بعد ان کے پڑوس میں بیٹھی ہوئی مسلم آبادی اوگر یا یغور بھی ان کی تقلید میں مسلح جدو جہد کا راستہ اپنائے گی ۔یہ صورت حال چین کو تو بالکل ہی منظور نہیں ہو گی۔

پھر اسلام ازم کی تحریک جنگل کی آگ کی طرح سے پھیلتی ہوئی ازبکستان تاجکستان کرغیزستان کے راستے سے ہوتی ہوئی چیچنیا (شیشان) تک چلی جا ئے گی۔

صاف ظاہر ہے کہ روس بھی ایسی جنگ بالکل ہی نہیں چاہے گا کہ جس جنگ کے خاتمے پر اس کے اپنے خاتمے کی شروعات ہو جائے۔ نہ ہی چین کسی ا یسی جنگ کا متمنی ہے ۔جس کے نتیجے میں اس کو اپنے قیمتی خطے کھونے پڑیں ۔بنیادی طور پرتو چین اس وقت پوری دنیا میں امن ہی چاہتا ہے ۔کیونکہ جب تک دنیا میں امن موجود ہے چین اقتصادی اور مادی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہی رہے گا ۔جس دن بھی مشرق وسطیٰ میں ایرانی اور رومی افواج کے درمیان پہلی گولی چلی اسی دن کروڈ آئیل کی سپلائی ڈسٹرب ہوجائے گی اور پھر چین جاپان جنوبی کوریا اور دیگر آرسین ممالک کی اکانومیز دھڑام سے نیچے آ گریں گی ۔ کیونکہ جنگ کے شروع ہوتے ہی کھلونوں کی ڈیمانڈ بند ہوجائے گی اور اسلحہ کی ڈیمانڈ شروع ہوجائے گی۔

اسلحہ کی ڈیمانڈ کے ساتھ ہی امریکن اسلحہ ساز فیکٹریوں کو دن رات کام کرنا پڑے گا ۔جوں جوں جنگ طول پکڑے گی توں توں امریکن فیکٹریاں کھلتی چلی جائیں گی اور امریکن اکانومی کو بوسٹ ملتا جائے گا یہی اکانومی بوسٹ ہر امریکن کو جاب بھی دلوائے گا تب دوران جنگ امریکن صدر اپنی قوم سے خطاب کرکے کہے گا کہ آج ہم نے ہر امریکن کو مستقل اور لائف لانگ جاب دلوانے کا اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے۔

کیا اوبا ما ایک لمبی جنگ چاہتا ہے ؟

یہ تو پتہ نہیں ہے کہ اوباما کے دل و دماغ میں کیا ہے؟ مگر اس کے کنگ میکرز کو تو ایک طویل اور وسیع جنگ کی تمناءہے ۔ کیونکہ قوم یہود کا یہ عقیدہ ہے کہ جب تک ایک بڑی جنگ آرمیگاڈو ن (ہر مجرون) بپا نہیں ہوگی مسیح موعود تشریف نہیں لائیں گے۔ اس بڑے پیمانے پر ہونے والی جنگ جس میں مسلم قوم کی ایک تہائی آبادی شہادت کے رتبے پر فائز ہوگی احادیث ﷺ میں اس جنگ کو ام الحرب بھی کہا گیا ہے۔

قوم یہود اور ان کے حواری ایونجیکل عیسائی اس جنگ کے دل وجان سے متمنی ہیں اور ان کی قلبی خواہش یہی ہے کہ یہ جنگ جلد از جلد شروع ہوجائے۔اسی لیے وہ ہیلری کلنٹن کو سینٹ سے نکال کر سینٹر میں لائے ہیں ۔
کچھ مبصرین ہیلری کو پوشیدہ یہودن کہتے ہیں اور جو تجزیہ نگار اس کو عیسائی ہی سمجھتے ہیں وہ بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہیلری اوباما سے زیادہ طاقت ور ہے۔
اس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ ہیلری کو سینیٹر بنوانے والے یہودی ہی تھے اور اس کو فارن منسٹری میں بھی لانے والے وہی ہیں ویسے یہ بات دل کو لگتی ہے کیونکہ جب ہم یہ تجزیہ کریں کہ نیویارک کی جس سیٹ سے ہیلری سینیٹر بنی تھی اس علاقے میں یہودیوں کا اثرورسوخ سب سے زیادہ ہے تو ہمیں یہ بات ماننے میں کوئی تردد نہیں کرنا چاہئے کہ ہیلری یہودیوں کی نمائندہ ہے۔

یہی یہودی اب ہیلری کو ایسی جگہ پر لے آئے ہیں کہ اوباما چاہے یا نہ چاہے فارن افیئرز یہودیوں کے کنٹرول سے باہر نہیں جائیں گے ۔
یورپ اور امریکہ سے تعلق رکھنے والے مسلم تجزیہ نگاریہ بات ا کثر کہتے ہوتے ہیں کہ جب یہودیوں نے کسی مسلم نیشن کو ذلیل کرنا ہوتاہے تو اس ملک سے متعلق اس اہم سیٹ پر کسی متعصب عورت کو لے آتے ہیں۔اب بظاہر تو ہمارے سامنے ایک عورت ہی ہوتی ہے جو کہ ساری دنیاکے سامنے ہمیں برا بھلا کہتی ہے اور دنیا کے ہر فورم پر سرعام ہماری توہین بھی کرتی ہے۔دیکھنے والے یہ نہیں سمجھتے کہ پورا ملک اور پورا سرمایہ دارانہ نظام اس عورت کے پیچھے ہے اس لیے کوتاہ نظر لوگ یہی کہتے ہیں کہ دیکھو! صرف ایک عورت نے ایک مسلم کنڑی کو آگے لگایا ہوا ہے۔

آپ خود ہی دیکھ لیں کہ شمالی کوریا ایٹمی دھماکہ بھی کر چکا ہے اور لونگ رینج میزائیل بھی چلا چکا ہے پھراس کا لہجہ بھی سخت ہی ہے مگر چونکہ وہ ایک غیر مسلم ملک ہے اس لیے ہیلری کا خاوند باقاعدہ بہ نفس نفیس خود گیا ہے اور نجانے کیا معاہدہ کرنے کے بعد دو صحافی عورتوں کو رہائی دلوا بھی لایا ہے۔اندرون خانہ کیا ہوا ہوگا ؟

جو تجزیہ نگار امریکن نفسیات سے واقف ہیں ان کو سب اندازہ ہے کہ بات کس طرح طے ہوئی ہوگی اور کیا کیا کچھ لین دین بھی کیا گیا ہوگا؟ کل کلاں کو جب شمالی کوریا اسی ٹیکنالوجی کو دنیا کے سامنے لائے گا تو اپناقصور تسلیم کرنے کی بجائے امریکہ اور یورپ والے سارا الزام ہمارے ڈاکٹر قدیر خان پر لگا دیں گے کہ یہ ٹیکنالوجی پاکستان نے فروخت کی ہے ۔اسے کہتے ہیں چوری اور سینہ زوری۔

بات ہورہی تھی قوم یہود کی جو کہ رومی لشکر کو انسٹی گیٹ(Instigate) کرنے کے معاملے میں تو پیش پیش ہیں مگر وار فرنٹ پر سب سے پیچھے ہیں۔یہ ہمیشہ ہی ایسا ہی کرتے ہیں۔اس قوم کی دور رسالت ﷺ کی سازشوں کا حال پڑھ لیجیے ۔یہ اسی طرح سے دوسری اقوام کو اپنی دشمن قوم کے خلاف بڑھکاتی ہے اور پھر اپنے فریبی ہتھکنڈوں کے ذریعے سے اسے ایسا بےوقوف بھی بناتی ہے کہ وہ احمق قوم اپنی ساری کی ساری صلاحیتیں یہود کی دشمن قوم کے خلاف جنگ کی بھٹی میں جھونک دیتی ہے اور اس جنگ کے نتیجے میں خود تباہ وبرباد بھی ہو جاتی ہے ۔ اس تباہی کے بعدیہ عیار اور مکار قوم اس تباہ شدہ قوم کو چھوڑ چھاڑ کر کسی اور قوم کو تباہ و برباد کرنے کے واسطے کسی دوسری خوشحال قوم کی حلیف بن جاتی ہے۔

اب جب کہ قوم یہود نے اپنی چرب زبانی اور مکر و فریب، عیاری اور چالاکی سے یورپ اور امریکہ کے رومیوں کو ایران کے بالمقابل لا کھڑا کیا ہے اب ا گر رومی کسی مرحلے پر جنگ وجدال سے فرار حاصل کرنا بھی چاہیں گے تو بھی قوم یہود ان کو فرار حاصل نہ کرنے دے گی بلکہ دونوں کا تصادم کروائے بغیر دم نہ لے گی کیونکہ قوم یہود نے اس جنگ کی تیاری عشروںسے کر رکھی ہے اور اس بڑی جنگ کا آغاز ان کی مذہبی خواہش بھی ہے۔

امریکہ اور اس کے اتحادی یہ چاہتے ہیں کہ یہ جنگ سات منٹ سے لے کر سات گھنٹے کے دورانئے میں ختم ہوجائے۔ کیونکہ یہ جنگ جتنی جلدی اور سرعت سے مکمل ہوگی، امریکہ کا اتنا ہی بھلا ہے۔

روسی یہ چاہتے ہیں کہ یہ جنگ دو تین عشرے جاری رہے تاکہ سرمایہ دار ممالک کا بھرکس نکل جائے۔

ایرانی یہ چاہتے ہیں کہ وہ جنگ کو دس سے پندرہ یوم کے اندراندر ایران کے حق میں فیصلہ کن انداز میں ختم کر لیں۔

یہودی اور ایونجیکل عیسائی یہ چاہتے ہیں کہ اس جنگ کی وسعت میں پوری دنیا آجائے اور پھر اس جنگ کی مدت اتنی دراز ہو کہ یسوع مسیح کی آمد کے بعد وہ دنیا کے مالک بن جائیں۔

ایک سوال یہ بھی پوچھا جاتا ہے کہ یہ جنگ کب شروع ہوگی؟ گہرا تجزیہ کرنے والے کہتے ہیں کہ دس برس سے سو برس کے اندراندر یہ جنگ شروع ہو سکتی ہے۔ کچھ تو اس سے بھی لمبی مدت کا تعین کرتے ہیں۔

کچھ لوگ یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ اس جنگ کا انجام کیا ہوگا ؟

مادی اور انسانی وسائل پر بھروسہ کرنے والوں کی آراءمختلف بھی ہیں اور بعض صورتوں میں متضاد بھی ہیں۔ مگرایمان والے کہتے ہیں کہ رب کائنات اس جنگ کا فیصلہ قرآن کریم میں فرماچکے ہیں۔اس لیے قرآن مجید پڑھ لیں اور رب ارض و سمٰوٰت کے فیصلے کو خود ہی پڑھ لیں اور پھر وہ سورة الروم پڑھنے کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔

لیجیے ہم ایک مرتبہ پھر سے سورة الروم کا ہی مطالعہ کرتے ہیں

بسم اللّٰہ الرحمٰن الر حیم ا لٓمّٓ غلبت الروم فی ٓ ادنی الارض وھم من بعد غلبھم سیغلبون
فی بضع سنین ط للّٰہ الامر من قبل ومن بعد ویو مئذ یفر ح المومنون

کیوں نہ ہم اس کا تر جمہ دوبارہ سے پڑھ لیں !

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ۔ الٓمٓ [۱] (اہل ) روم مغلوب ہوگئے [۲] نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آجائیں گے[۳] چند ہی سال میں پہلے بھی اور پیچھے بھی، اللّٰہ ہی کا امر ہے اور اس روز مومن خوش ہو جائیں گے [۴]

بظاہر الفاظ سے تو یہی لگتا ہے کہ جب بھی ایرانی اور رومی آپس میں لڑیں گے ۔ فائنل راونڈ رومی ہی جیتیں گے ۔مگر یہ بات یاد رکھیے کہ رومیوں کی فتح مشروط ہے ۔اگر تو رومی اس شرط کے تقاضوں کو پورا کریں گے تو فائنل راونڈ وہی جیتیں گے ورنہ کبھی بھی نہیں۔

تو ایک مرتبہ پھر سے ہم اس کی ایک ایک آیت کا ترجمہ پڑھتے ہیں اور اس شرط کو تلاش کرتے ہیں۔

(اہل ) روم مغلوب ہوگئے [۲]
نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آجائیں گے[۳]
چند ہی سال میں پہلے بھی اور پیچھے بھی، اللّٰہ ہی کا امر ہے۔ اور اس روز مومن خوش ہو جائیں گے [۴]

جی ہاں ! یہی تو شرط ہے۔ دیکھیں ! میرے حکمت والے رب اللہ علیم و حکیم بڑے ہی نرالے ہیں ۔

بڑے بڑے فیصلوں کا اختیار مومن کے خوش ہونے سے مشروط کرتے ہیں وہی مومن جو دنیا والوں کی نظروں میں حقیر اور چھوٹے ہیں۔اسی کو تو اللہ مختار کل کا امر کہتے ہیں۔
مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا ہم مومن ہیں بھی کہ نہیں ہیں ؟ اگرہم ان چار آیات کو باربار پڑھیں تو لگتا یہی ہے کہ اگر ہم مومن ہونے کی تمام شرائط کو پورا کردیں گے تو اللہ کا امر یقینا ہمیں خوش کردے گا۔

بے شک میرا رب تو سچا ہے ۔