تحریر: روف عامر پپا بریار
امریکی میڈیا میں چند روز پہلے ایف بی ائی کی ایک رپورٹ کا خاصا چرچا ہوا۔ رپورٹ کے مطابق یہودیت کے مذہبی پیشوا اور علما انسانی اعضا کی سمگلنگ میں ملوث ہیں اور انتہاپسندانہ نظریات اور پارسائی کے ان یہودیوں کو تلموزی کہا جاتا ہے۔ تلموزی اپنے اپکو حسبی و نسبی اصل یہودی تصور کرتے ہیں اور انکا دعوٰی ہے کہ وہ ہر کام اپنی الہامی کتاب کی روشنی میں کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے خود ساختہ پاکباز تلموزی یہودی سمگلنک کے چوہدری بنے ہوئے ہیں۔
FBI نے چند روز قبل نیوجرسی سے ایک 87 سالہ ربی یہودی کو گرفتار کیا جو ایک طرف تلموزی یہودیوں کو دنیا کی عظیم ترین قوم کا درجہ دیکر شرف انسانیت کے تقدس کا لیکچر دیتا تھا تو دوسری طرف وہ انسانیت کے بخیے ادھیڑنے کا دھندہ کرتا تھا۔
ایف بی ائی نے تفتیش کا دائرہ کار امریکہ سے اسرائیل تک بڑھایا تو عقل کو مدہوش کردینے والی داستانیں منظر عام پر آئیں۔ایف بی ائی نے تلموزی یہودی سلمان ڈیوک کو نیویارک سے گرفتار کیا جو بروکلین میں مذہبی امام کے عہدے پر فائز تھا۔ ایف بی آئی اس کیس پر 2006ء سے کام کر رہی تھی۔
دوران تفتیش سلمان ڈیوک نے شام کی شہریت رکھنے والے یہودیوں کی تلموزی ٹیم کو بھی گرفتار کروایا جو بڑے عرصے سے انسانی اعضا، منی لانڈرنگ اور منشیات کی سمگلنگ کررہے تھے۔2006 میں سلمان ڈیوک کو بنک فراڈ کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ایف بی ائی اے نے ڈیوک پر پچاس ملین ڈالر کے فراڈ کا مقدمہ درج کیا جو حرف بہ حرف درست ثابت ہوا۔ عدالت نے ڈیوک کو تیس سال کی سزا سنائی۔
جیل میں سلمان ڈیوک نے انسانی اعضاوں کی سمگلنگ، منی لانڈرنگ اور غیر انسانی و غیر قانونی دھندوں میں ملوث یہودی مذہبی علما کو نیویارک اور نیوجرسی سے گرفتار کروایا۔ ایف بی ائی نے اٍس عرصہ میں انسانی اعضاؤں کی خرید فروخت کرنے والے عالمی نیٹ ورک کا سراغ لگایا۔ ایف بی ائی جرائم کی تہہ تک پہنچنے کے لئے سلمان ڈیوک سے دو سال تفتیش کرتی رہی۔ سلمان نے انسانی اعضاؤں کی سمگلنگ میں تین ملین ڈالر کمانے کا اعتراف کیا جو اس نے ایک یہودی چیریٹی تنظیم کے پاس خفیہ رکھوائے تھے۔ اس نے بتایا کہ اس کے ساتھی ایک گردہ جو کہ دس ہزار ڈالر میں خریدتے ہیں کو عالمی منڈی میں ڈیڑھ لاکھ ڈالر کا بیچا جاتا ہے اور اس کی تمام آمدنی صہیونی تنظیموں اور اسرائیل کے فروغ کیلئے صرف کیجاتی ہے۔
FBI کی ٹیم نے سلمان ڈیوک کے کارناموں اور اسکے ساتھی سمگلروں و مذہبی پیش اماموں کے دہرے چہرے کو میڈیا میں بے نقاب کیا یوں یہ کیس اب بین الا قوامی حثیت اختیار کرچکا ہے مگر ایف بی ائی کے کام میں صہیونی میڈیا روڑے اٹکا رہا ہے۔ اسرائیلی میڈیا جو پوری دنیا پر چھایا ہوا ہے نے ایف بی ائی کی کامیابیوں کو کوئی خصوصی کوریج نہیں دی تاکہ ان رپورٹس کو دبایا جاسکے۔ اچنبھے کی بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کے مقامی میڈیا خصوصاُ جیو جو ایک نامعلوم جعلی کوڑوں والی فلم طوطے کیطرح چلاتا رہا، نے بھی اس خبر کو ایک دفعہ بھی ظاہر نہیں کیا۔
اس معاملے میں وائٹ ہاوس پینٹاگون کے ارفع عہدوں پر کام کرنے والے یہودیوں اور صہیونی سرمایہ کار ساہوں کاروں کے نام عیاں ہوچکے ہیں مگر یہ طاقتور گروپ ہے جس پر کوئی ہاتھ ڈالنے کی جرات نہیں کرتا۔
یہودی امریکہ کے سرکاری و غیر سرکاری عہدوں پر چھائے ہوئے ہیں علاوہ ازیں سپرپاور کی صنعتی معاشی اور اسلحہ ساز صنعت و حرفت پر بھی یہودی مسلط ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے امریکہ میں غیر قانونی اسلحہ ساز فیکٹریوں کے انکشافات ہوئے تو پتہ چلا کہ وزارت دفاع بھی صہیونیوں کے کالے دھندے میں ملوث ہے۔ وزارت دفاع میں ایسی سرگرمیوں کی دیکھ بھال سابق نائب صدر ڈک چینی کرتے تھے۔ ڈک چینی ڈنکے کی چوٹ پر اسرائیل کے ساتھ اظہار یکجہتی کیاکرتا۔ وہ وزارت دفاع میں وہ یہودیوں کے کالے اعمال کا فرنٹ مین تھا۔
ایف بی ائی کی جاری کردہ فہرست میں چند نامور امریکی یہودیوں اور مذہبی مدرسوں کے نام بھی شامل ہیں جنہوں نے انسانیت سوزی کے ورلڈ ریکارڈ قائم کئے ہیں اور یہ سارے گرفتار شدگان میں شامل ہیں۔ ایف بی ائی نے بروکلین میں اسرائیلی یہودیوں کی سب سے بڑی مذہبی درس گاہSHARAY ZION کے چیف ربی ساول کیسن، نیویارک میں صہیونی مدرسے اوہل یعقوب کے سرخیلBEN HEEM کو ہتھکڑیاں پہنائیں۔ نیوجرسی کے مئیر کو بھی قانون کے شکنجے میں جکڑا گیا جو وہاں انسانی اعضاؤں کی سمگلنگ میں ملوث تلموزی سمگلروں کی سرپرستی کیا کرتا تھا۔ نیویارک کے بہت سے مقامی سیاستدان اور سرکاری افسران ان یہودیوں کی سرپرستی کیلئے دس ہزار سے پچیس ہزار ڈالر تک تشوت لیتے پائے گئے۔ ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ رشوت نیویارک میں کینسر کی شکل اختیار کرچکی ہے۔
23 جولائی 2009 میں ایف بی ائی نے 44 تلموزی یہودیوں کو گرفتار کیا جو انسانی اعضاوں کی سمگلنک دھڑلے سے کررہے تھے۔ لطف کی بات تو یہ ہے کہ ایسے گھناؤنے کاروبار میں کمائے گئے اربوں روپے یہودی مذہبی درس گاہوں کے اکاونٹ میں جمع ہوتے۔ رپورٹ میں ایف بی ائی نے صاف لکھا کہ ایسی پرسوز تجارت سے حاصل ہونے والی رقم اسرائیل کو منتقل کردی جاتی ہے۔
گرفتار سمگلرBIN HAAM نے تسلیم کیا کہ وہ انسانی اعضاوں اور منی لانڈرنگ سے ایک سال میں8 ملین ڈالر کی رقم تل ابیب کی سرکار کو دے چکا ہے۔عالمی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اب تک اس کاروبار سے کمائی گئی اربوں ڈالر کی دولت امریکی انتظامی کل پرزوں و یہودیت نواز سرکاری ایجنٹوں کے توسط سے اسرائیل جاچکی ہے مگر امریکی حکمرانوں میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ اسرائیل سے پوچھ گوچھ کرسکیں۔ایف بی ائی نے ثابت کردیا ہے کہ اسرائیل انسانی اعضاؤں کی خرید و فروخت کے ضمن میں روئے ارض کی سب سے بڑی و عالمی منڈی کا درجہ رکھتا ہے۔
تل ابیب یونیورسٹی میں ڈاکٹر ہر سال2500 مریضوں کو گردوں سے محروم کردیتے ہیں۔ گردے نکالنے کا انکشاف2004 میں ہوا جب اسرائیلی آرمی افیسربرازیل میں دوران سمگلنگ کرتا ہوا دھر لیا گیا۔
یہودی مذہبی عقیدے کی رو سے انسانی اعضاؤں کا کاروبار ممنوع ہے مگر تلموزی فرقے کے پیروکار یہودی ایسی تجارت کو جائز کہتے ہیں۔ سویڈن کے اخبارAFTON BLADET نے اپنے اداریے میں لکھا کہ اسرائیلی فوجی کم عمر بچوں کو اغوا کے بعد قتل کردیتے ہیں اور بعد میں انکے دل، جگر اور گردے نکال کر فروخت کئے جاتے ہیں۔
اخبار کی رپورٹ کے مطابق فلسطین اور عرب ممالک سے بڑے پیمانے پر انسانی اعضا سمگل ہوتے ہیں جنکی ذمہ داری اسرائیل پر عائد ہوتی ہے جو جیتے جاگتے عربوں کو اغوا کرکے اپنی ہوس زر کو تسکین دیتے ہیں۔ تہران ٹائمز میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق صہیونی ریاست کسی حد تک اس مذموم کاروبار میں ملوث ہونے کی تصدیق کرتی ہے۔
چند ماہ پہلے اسرائیل نے تسلیم کیا تھا کہ دس سال قبل گرفتار ہونے والے تین فلسطینی بچوں کو اسرائیلی فوجیوں نے گرفتار و ہلاک کیا تھا اور بعد میں کبیر نامی ادارے کے ڈاکٹروں نے انہیں اعضاوں سے تہی داماں کردیا۔ تلموزی یہودی اس بیہودہ نظریے کے پیروکار ہیں کہ تمام غیر یہودی درندے ہیں۔ غیر یہودی کو مارنا جنگلی جانور کو مارنے کے مترادف ہے۔ تلموزیوں نے تمام غیر یہودی بچوں کی پیدائش کو جنگلی جانوروں کی پیدائش سے تشبیہہ دے رکھی ہے۔ یہودی دنیا کے وہ سفاک لوگ ہیں جو دولت کے انبار لگانے کے لئے انسانیت کی پیٹھ پر ظلم و استبداد کے چرکے لگانے سے نہیں چوکتے۔
امریکی سرکار، مغربی میڈیا اور اسرائیلی حکومت انسانی اعضاوں کے یہودی بنارسی ٹھگ ٹائپ سمگلروں کی دستگیری و سرپرستی کرتی ہے۔ محولہ بالا رپورٹ سے یہ حقیقت حال آموختہ ہوتی ہے کہ یہودی وہ درندہ صفت بھیڑیے ہیں جو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے دنیا کا کوئی بھی سفاک ترین عمل کرسکتے ہیں۔ یہودیوں کو اپنا ہمدرد سمجھنے والے مسلمان حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ شیطانی طاقتیں چاہے وہ تلموزی یہودی ہوں یا پھر ایریل شیرون ایسے قاتل اعظم وہ اسرائیلی فوجی ہوں یا عراق و کابل میں خون آدمیت کے دریا بہانے والے امریکی فوجیوں کی شکل میں ہوں کبھی بھی انسانیت کی خیر خواہ نہیں بن سکتیں۔
آخر میں آپکو شائد یہ سنکر حیرانی ہو کہ اس کیس میں ملوث چالیس سے زائد گرفتار یہودی اسی دن ضمانت پر رہا ہوگئے جب گرفتار ہوئے تھے۔