Thursday, April 8, 2010

گھاس میں سانپ - - - - - سچ تو یہ ہے۔




بسم اللّٰہ الرحمٰن الحیم ہ


اگر کسی جگہ پر تازہ بہ تازہ گہرے سبز رنگ کی نرم نرم خوشبودار گھاس کٹی ہوئی پڑی ہو اور ایک نہایت ہی زہریلا،نہایت ہی پھرتیلا اور نہایت ہی غصیلہ سانپ جو کہ سخت تیش کے عالم میں بھی ہو، اسی گھاس کے اندر چھپا ہوا ہو اور جس جگہ اور جس مقام پر وہ سانپ موجود ہو، عین اسی جگہ پر ایک گدھا اپنا منہ مارے تو جو حشر اس گدھے کا ہونا ہے، وہی حشر ہمارے ملک کے حکمران طبقے کا ہونے والا ہے ۔

اس وقت ہمارے ملک کے حکمران طبقے کے پاس صرف ایک ہی آپشن بچی ہے ۔وہ یہ ہے کہ وہ پاکستان سے فرار ہو کر کسی بھی مغربی ملک میں چلے جائیں ۔ اسی لئے انہوں نے برسوں پہلے ہی اپنامال ودولت بیرونِ ملک منتقل کرنا شروع کر دیا تھا اور اسی لئے ہمارے ملک کے حکمران طبقات برسوں سے دونوں ہاتھوں سے ہمارے ملک کو لوٹ رہے تھے ۔

پاکستان کو لوٹنے والے طبقات، جس میں ابتدا میں تو ہمارے سیاست دان اورجرنیل ہی شامل تھے مگر پھر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو لوٹنے والوں میں ہمارے ملک کی افسر شاہی بھی شامل ہو گئی تھی اور لوٹ مار کی اس دوڑ میں سب سے آخِر میں ہمارے ملک کے وہ سرمایہ دار بھی شامل ہو گئے تھے جو کہ خود سیاست دان تھے یا پھر کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کے کرتا دھرتا تھے۔

آج صورتحال یہاں تک بگڑ چکی ہے کہ اس وقت پاکستان کی لوٹ مار کی دوڑ میں سبھی سیاست دان (حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں ہی)، افواج پاکستان کے سبھی فوجی جرنیل ، سبھی بڑے بڑے سول آفیسرز ، سبھی سیاسی سرمایہ دار اور زمیندار شامل ہو چکے ہیں ۔یوں آج ہر سیکنڈ اور ہر منٹ میں اس قدرکثیر پاکستانی سرمایہ، ہمارے وطن سے فرار ہو رہا ہے کہ کسی دور میں اس سرمائے کا ایک چوتھائی، ایک پورے مالی سال میں بھی فرار نہ ہوتا تھا ۔

دراصل ہمارے پڑوسی ملک افغانستان میں جس تیزی سے بڑی بنیادی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور جس قسم کی تبدیلیاں مستقبل قریب میں رونما ہو نے والی ہیں ۔وہ سبھی تبدیلیاں اس قسم کی ہیں کہ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں اس خطے میں بہت ساری حکومتیں غیر مستحکم ہو جائیں گی اور بہت ساری حکومتیں اپنے منطقی انجام کو پہنچیں گی، کیونکہ وہ سبھی حکومتیں غیر قدرتی اور غیرفطری ہیں اور ساتھ ہی بہت سارے غیر فطری نظام بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچیں گے۔

ان غیر فطری حکومتوں میں سے ایک حکومت ہمارے ملک کی بھی ہے اور ان غیر فطری نظاموں میں سے ایک غیر فطری نظام ہمارے ملک میں ہم پر مسلط ہے ۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو جس خطے میںپاکستان واقع ہے اس خطے کی سبھی کی سبھی حکومتیں غیر فطری ہیں۔ اگر ان ممالک کے عوام افغانستان کے مجاہدین کی طرح سے غیور، بہادر اور با شعور ہوتے تو پاکستان سمیت اس خطے کے بہت سارے غیر فطری نظام بیس بچیس سال قبل انقلاب ایران کے ساتھ ہی رخصت ہو چکے ہوتے اور ان غیر فطری نظاموں کے رخصت ہو نے کے ساتھ ہی ہمارے خطے کی سبھی غیر فطری حکومتیں بھی اپنے انجام کو پہنچ چکی ہوتیں ۔

افسوس! کہ ایسا نہ ہو سکا ۔ اگر ایسا ہو جاتا تو امریکہ اور اس کے حواری ہمارے خطے میں کبھی بھی قدم نہ رکھ سکتے تھے ۔

اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ہندوستان کے مسلم عوام نے پاکستان بنایا ہی اسی لئے تھا کہ برٹش دور کے پرانے فرسودہ، ظالمانہ اور غیر منصفانہ نظام کی جگہ پر ایک عادلانہ ،منصفانہ اور رحمدلانہ نظام قائم کیا جائے جس کی بنیاد اسلام پر ہو ۔ مگر ایسا ہو نہ سکا تھا کیونکہ جب برٹش اس ملک سے گئے تھے، تب وہ پاکستان کو ایک ایسی انتظامیہ اور فوج دے گئے تھے جو کہ اس ملک کی بجائے برٹش قوم کی وفادار تھی، اسی لئے فوجی جرنیلوں نے سول انتظامیہ کے گٹھ جوڑ سے پاکستان کی آزادی کے چند برس کے بعد ہی پاکستان کے اقتدارپر قبضہ جما لیا تھا ۔

اس وقت اگر پاکستان کے عوام شعور سے کام لیتے اور فوج کو ایوانِ اقتدار سے اٹھا کر باہر پھینک دیتے ،تو آج ہمارا ملک اس شکست و ریخت سے دوچار نہ ہوتا، جس شکست و ریخت سے ہمارا ملک اس وقت دو چار ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کو ہندوستان کے مسلم عوام نے ایک وکیل محمد علی جناح ؒکی زیر قیادت بنایا تھا، اس لئے مملکت ِپاکستان کا اقتدار عوام کے ہاتھوں میں ہی رہنا چاہیئے تھا۔

مگر ہماری فوج کے جرنیلوں نے ایسے ایسے چور دروازے تلاش کر لئے تھے اور ساتھ ہی ایسے ایسے ظالمانہ قسم کے حربے اختیار کر لئے تھے کہ اگر پاکستان کی آزادی کے پہلے چند برسوں کو نکال دیا جائے تو ان چند برسوں کو چھوڑ کر باقی کے باسٹھ برسوں میں ہمارے ملک پر کسی نہ کسی بہانے فوجی جرنیل ہی قابض رہے ہیں ۔

یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ پاکستان میں امریکہ نے فوجی جرنیلوں کی مدد سے نہ صرف مداخلت کی ہے ،بلکہ پٹھو جرنیلوں کی مدد سے پاکستان پر حکومت بھی کی ہے ۔اس وقت پاکستان پر بظاہر تو سیاست دان ہی حکومت کر رہے ہیں مگر درحقیقت امریکن پٹھو فوجی جر نیل حکومت کر رہے ہیں اور ان جرنیلوں کی مدد سے امریکہ ہمارے ملک پر حکومت کر رہا ہے۔

جب امریکہ کے صہیونیوں نے نائین الیون کا ڈرامہ رچا کر امریکن عوام کے جذبات کو بر انگیختہ کیا تھا تب سن دو ہزار ایک میں تقریباً سبھی امریکن عوام اس بات پر متفق تھے کہ افغانستان پر قابض طالبان کو نیست و نابود کر دیا جائے ۔ اس وقت کچھ امریکن اور غیر امریکن حلقوں نے امریکہ کے عوام کو یہ حقیقت بتانے کی کوشش کی تھی کہ افغانستان پر فوجی مہم جوئی مہنگی بھی ثابت ہو سکتی ہے اور لا حاصل بھی ثابت ہو سکتی ہے۔

مگر چونکہ اس وقت امریکن عوام غم و غصے کی شدید حالت میں تھے، اس لئے ان معتدل حلقوں کی کسی نے بھی نہیں سنی تھی۔ بلکہ کچھ جذباتی امریکن نے ایسے حقیقت پسند اور معتدل مزاج حلقوں کو غدار بھی کہا تھا جنہوں نے افغانستان اور عراق پر چڑھائی کی مخالفت کی تھی ۔ مگر اب امریکہ میں صورت حال بہت بدل چکی ہے ۔ کیونکہ ہر روز درجنوں کی تعداد میں مردہ اور زخمی امریکن سپاہی ا فغانستان سے امریکہ واپس لوٹ رہے ہیں اس لئے اب امریکہ کے عوام کی اکثریت اس حقیقت کو جان چکی ہے کہ افغانستان میں لڑی جانے والی لڑائی ،امریکن کبھی بھی نہیں جیت سکیں گے ۔

امریکن جرنل اس حقیقت کو اپنے دل سے تو مانتے ہیں، مگر پبلک کے سامنے ماننے سے انکاری ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے عوام کے سامنے یہ قبول کر لیا کہ امریکن افواج افغانستان میں شکست کھا چکی ہیں تو ناراض امریکن عوام سبھی فوجی جرنیلوں کو فوج سے اٹھا کر بحر اوقیانوس میں پھینک دیں گے ۔ اب جبکہ افغانستان اور عراق میں اپنے ہزاروں جوانوں کو قتل کروانے کے بعدامریکن افواج ایک ایسی کمزوری اورتھکن کا شکار ہو چکی ہیں کہ اگر امریکہ اپنی افواج کو افغانستان سے نہیں نکالتا ہے ،تو اس کے اپنے وجود کے ختم ہوجانے کا خطرہ لاحق ہو چکا ہے ۔

امریکن صدر اور امریکن افواج کے جرنیل کی اکثریت یہ حقیقت اچھی طرح سے جانتی ہے کہ امریکن افواج کو افغانستان سے نکال لینے میں ہی بہتری ہے مگر وہ ایسا کر بھی نہیں سکتے ہیں کیونکہ امریکن صہیونی حلقے ان کو ایسا کرنے نہیں دے رہے ہیں ۔ان صہیونیوں کے دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لئے امریکن عوام کی حمایت کی ضرورت ہے اور امریکن عوام کی حمایت تبھی حاصل ہو سکتی ہے۔

جب امریکن عوام کو یہ بات باور کروا دی جائے کہ سابقہ امریکن صدر جارج ڈبلیو بش نے گیارہ ستمبر کے سانحے کے بعد جس مقصد کے لئے امریکن اور اتحادی افواج افغانستان بھجوائی تھیں وہ تمام مقاصد پورے ہو چکے ہیں اور امریکہ کے سبھی دشمن نیست و نابود کئے جا چکے ہیں اور امریکن جنگ جیت چکے ہیں اور افغانستان میں ایک امریکن نواز(پٹھو) حکومت قائم ہو چکی ہے ۔

اب اس ہاری ہوئی جنگ کو جیتی ہو ئی جنگ کا تاثر دینے کے لئے امریکن افواج نے افغانستان میں مرجاہ کے مقام پر ایک جنگ جیتنے کا ڈرامہ(نورا جنگ) رچایا ہے ۔یہ ہو سکتا ہے اور یہ عین ممکن بھی ہے کہ امریکن حکومت اور جرنل اپنی افواج کے امیج کو بہتر بنانے کے لئے ایسی ہی دو چار نورا جنگیں مزید لڑیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ افغان مجاہدین گوریلہ جنگ کے ماہر ہیں اور جس قسم کی باقاعدہ اور روائتی جنگ امریکہ نے مرجاہ میں جیتنے کا دعویٰ کیا ہے،اس قسم کی باقاعدہ یا روائتی جنگ افغان مجاہدین لڑتے ہی نہیں ہیں۔

اس لئے امریکہ اگر چاہے گا تو مرجاہ میں لڑی جانے والی نورا جنگ جیسی لاتعداد جنگیں لڑ بھی سکتا ہے اور بلا مقابلہ جیت سکتا ہے مگر امریکن جرنل یہ حقیقت بھی جانتے ہیں کہ ایسی جنگیں لا حاصل ہیں کیونکہ ایسی بے حقیقت جنگوں سے امریکن جرنیل اپنی فوج کے بارے میں ،امریکن عوام اور دنیا کے بہت سارے ممالک کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنی کھوئی ہوئی عزت تو بحال کر سکتے ہیں، مگر ایک ہاری ہو ئی جنگ کبھی بھی نہیں جیت سکتے ہیں ۔

ایک نکتہ اور ہے جو کہ امریکہ کی حکومت اور افواج کو کمزور کر سکتا ہے اور اس پر بہت کم لوگوں کی نظر ہے وہ نکات امریکہ کے اندر اٹھنے والی رائٹ ونگ ایکسٹریمسٹ یا دائیں بازو کی انتہا پسند عیسائی تنظیمیں ہیں۔ کسی دور میں انہی متعصب تنظیموں نے افغانستان پر چڑھائی کی بھرپور حمایت کی تھی اور اب انہی انتہا پسند عیسائی تنظیموں نے امریکہ میں خالص مسیحی حکومت قائم کرنے کی تیاریاں شروع کی ہوئی ہیں ۔

ان انتہا پسند تنظیموں کا ایک ایجنڈا یہ بھی ہے کہ امریکہ میں جتنے بھی غیر عیسائی آباد ہیں ان سبھی غیر عیسائیوں کو امریکہ سے نکال دیا جائے ۔ایک محَتاط اندازے کے مطابق اس وقت امریکہ میں ایک ہزار کے قریب ایسی تنظیمیں یا گروپ ہیں جن کو معتدل مزاج امریکن ہیٹ گروپ(نفرت کی بنیاد پر گروہ) کہتے ہیں ۔ اگرچہ امریکہ میں انتہا پسند تنظیموں کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی پرانی امریکہ میں یورپئن اقوام کی آمد ہے ۔

جس وقت یورپ سے امریکہ آنے والے لوگوں میں سے پہلے متعصب پادری نے امریکہ کی سر زمین پر اپنا پہلا قدم رکھا تھا ، نفرت کی بنیاد پر عیسائی انتہا پسند گروہوں کی تشکیل اسی وقت سے ہی شروع ہو گئی تھی ۔

مذہبی انتہا پسند تنظیمیں امریکہ میں کبھی بھی مقبول نہیں رہی ہیں، مگر جب سے صہیونیوں نے امریکن سسٹم کو یر غمال بنایا ہے۔ تب سے ہی امریکہ میں نفرت کی بنیاد پر بننے والے تنظیموں نے مقبولیت حاصل کرنی شروع کی ہے ۔مگر پھر بھی ان کی تعداد ایک خاص حد سے آگے کبھی بھی نہیں بڑھ سکی ہے ۔ جب کبھی امریکہ میں بے روزگاری اور کساد بازاری بڑھی ہے تو امریکہ میں انتہا پسند تنظیموں میں بے روزگاری کے تناسب سے اضافہ ہوا ہے اور جب امریکہ میں خوشحالی کی لہر آئی ہے تو انتہا پسندی میں بھی کمی واقع ہوئی ہے ۔

ایک محتَاط اندازے کے مطابق پورے امریکہ میں انتہا پسند تنظیموں کی انتہائی تعداد، انتہائی کساد بازاری اور انتہائی بےروز گاری کے دوران بھی سواسو،ڈیڑھ سو کی حد کو پار نہیں کر سکی ہے ۔ جب امریکن عوام کو روز گار ملنے لگے ہیں اور اقتصادی ترقی ہونے لگی ہے تو انتہا پسند تنظیموں کی تعداد خود بخودکم ہو کر سو سے نیچے چلی گئی ہے۔ امریکن سیکیورٹی امور کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پچھلے سو برسوں کے دوران امریکہ میں انتہاپسند گروہوں کی تعداد عموماً سو کے لگ بھگ رہی ہے مگر پچھلے چند برسوں میں مختلف النوع انتہاپسند وں کی تعداد تشویش ناک حد تک بڑھ گئی ہے۔

ایک خفیہ امریکن تحقیقاتی ادارے کی رپورٹس کے مطابق ، نائین الیون کے بعد امریکہ میں عیسائی انتہا پسند تنظیموں کی تعداد دوسو سے اوپر چلی گئی تھی اور بش کے دور میں اسی سطح پر قائم رہی تھی ،مگر جب دو ہزار آٹھ میں اوبامہ امریکہ کا صدر منتخب ہوا تھا۔ تو ایک ماہ کے اندر ہی اندر عیسائی انتہا پسند تنظیموں کی تعداد دوگنی ہو گئی تھی اور جب اوبامہ نے امریکہ کے صدر کا حلف اٹھایا تھا، تب تک انتہا پسند تنظیموں کی تعداد پانچ سو کے لگ بھگ ہو چکی تھی ۔

اسی خفیہ امریکن ادارے نے جو اعداد و شمار اپنے سربراہ کو پچھلے ہفتے بھیجے ہیں ۔اس رپورٹ کے مطابق امریکہ میں مختلف النوع انتہا پسند تنظیموں کی تعداد ایک ہزار کے عدد کو پار کر چکی ہے ۔ اس وقت امریکہ کی چند ریاستوں کو چھوڑ کر اکثر ریاستوں میں بے روز گاری بھی عام ہے اور مہنگائی کا بھوت بھی ہر گھر میں ناچ رہا ہے۔

ایسے میں غصے اور رنج میں بھرے ہوئے ،بھوکے اور ننگے امریکن عوام انتہا پسند تنظیموں کی حمایت میں ہتھیار اٹھا سکتے ہیں ،یوں امریکہ میں خانہ جنگی ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو، امریکن صدر ملک میں امن و امن قائم کرنے کی خاطر عجلت میں امریکن افواج کو وطن لوٹنے کا حکم دیں گے ،اگر ایسا ہوتا ہے تو پاکستان افغانستان اور دیگر امریکہ نواز مسلم ممالک کے کٹھ پتلی حکمران طبقات اور اقتدار کے بھوکے جرنیل کیا کریں گے؟


٭ خادم الاسلام و المسلمین ٭ ڈاکٹر عصمت حیات علوی

٭ 08۔اپریل۔2010 ء ٭

No comments:

Post a Comment