تحریر: انور غازی
”اسرائیل جنگی مجرم ہے۔ غزہ پر حملے کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی۔ بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام کیا۔ اسرائیل کے جنگی جرائم کی تحقیقات کو ”ہیگ“ میں قائم انسداد جرائم کی عالمی عدالت میں پیش کرنا چاہیے تاکہ اس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاسکے۔“ یہ الفاظ ”ہیومن رائٹس کونسل“ کے ہیں جو اس نے اقوام متحدہ کی رپورٹ کی توثیق میں کہے۔ گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی تفتیشی ٹیم کے سربراہ ”رچرڈ گولڈ اسٹون“ نے اس موضوع پر تفصیلی رپورٹ پیش کی۔
اس میں اسرائیل کے جرائم سے متعلق چشم کشا انکشافات کیے گئے۔ تمام واقعات، شواہد، معلومات اور عینی شاہدین کے انٹرویوز کی روشنی میں جو نتائج نکالے گئے وہ یہ تھے کہ اسرائیل جنگی جرائم میں پوری طرح ملوث ہے۔ اس رپورٹ کے منظرعام پر آنے کے بعد 17/ اکتوبر 2009ء کو جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے رکن ممالک کا خصوصی اجلاس ہوا۔ اسرائیل، فلسطین، پاکستان، ترکی، بھارت، چین، کیوبا، روس اور نائجیریا سمیت اکثر ممالک نے شرکت کی۔ 25 ملکوں نے گولڈ اسٹون رپورٹ کی توثیق کی۔
امریکا سمیت 6 ریاستوں نے مخالفت کی جبکہ فرانس اور برطانیہ سمیت 11 ممالک غیر حاضر رہے۔ البتہ اقوام متحدہ میں برطانوی سفیر نے اتنا ضرور کہا کہ غزہ جنگ سے متعلق اقوام متحدہ کی رپورٹ اہم معلومات پر مشتمل ہے۔ اسرائیل وفلسطین دونوں کو اس پر غور کرنا چاہیے۔ دیگر کئی یورپی ممالک نے بھی رپورٹ کی حمایت کا خیال ظاہر کیا ہے۔ حماس نے اس رپورٹ کی توثیق کرنے والے ممالک کا خیرمقدم کیا ہے جبکہ اسرائیل حقائق تسلیم کرنے کے بجائے ہٹ دھرمی پر اُتر آیا ہے اور توثیق کرنے والے ممالک کو دھمکیاں دے رہا ہے۔
اور تو اور اقوام متحدہ کی تفتیشی ٹیم کے سربراہ گولڈ اسٹون کے خلاف صہیونیوں نے پروپیگنڈا شروع کردیا ہے کہ انہوں نے جانبداری سے کام لیا ہے۔ افریقہ کے یہودی سڑکوں پر نکل کر اس کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں۔ اس کے خلاف کینیڈا اور امریکا میں بھی سازشیں شروع ہوچکی ہیں۔ حالانکہ گولڈ اسٹون خود اعتدال پسند یہودی ہیں اور ان کی ماں صہیونی تحریک میں شامل تھیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صہیونی اپنے خلاف سچائی اور حقائق سننے کو بھی ذرا بھر تیار نہیں ہوتے۔
اسرائیلی راہنماؤں نے برطانیہ کو خفیہ پیغام بھجوایا ہے کہ وہ کسی بھی صورت اس رپورٹ کی حمایت نہ کرے۔ اگر برطانیہ نے توثیق کی تو پھر برطانوی جنگی جرائم بھی بے نقاب کیے جائیں گے۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ آخر کس کی پشت پناہی سے اسرائیلی راہنما برطانیہ جیسی ریاست کو بھی دھمکی آمیز پیغام بھجوارہے ہیں کہ وہ رپورٹ کی توثیق سے باز رہے۔ ادھر ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردگان نے عالمی برادری سے کہا ہے کہ وہ غزہ میں اسرائیلی جنگی جرائم کی پردہ پوشی نہ کرے۔ اسرائیل نے بے شمار جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔“
حقیقت یہی ہے کہ اسرائیل طویل عرصے سے جنگی جرائم کرتا چلا آرہا ہے۔ ہم مختصراً صہیونیوں کے جرائم کی چارج شیٹ پیش کرتے ہیں تاکہ یہ بات عیاں ہوجائے کہ جو رپورٹ پیش کی گئی ہے وہ سو فیصد حقائق پر مبنی ہے۔ اسرائیل اب تک اقوام متحدہ کی 69 قراردادوں کی دھجیاں اُڑاچکا ہے۔ اسرائیل نے جنیوا کے قوانین کو پامال کرتے ہوئے ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کو نشانہ بنایا۔ اسکول اور کالجوں پر میزائل داغے۔ کیمیاوی ہتھیار اور فاسفورس بم استعمال کیے۔ گمنام جگہوں پر شہید ہونے والے فلسطینیوں کے اجسام کی بے حرمتی کی۔ فلسطینی بچوں کو اغوا کرکے ان کے اعضا نکالے۔ قبلہ اول مسجد اقصیٰ کا تقدس پامال کیا۔
امدادی کارکنوں پر بمباری کی۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے اہلکار بھی اس ظلم سے نہ بچ سکے۔ مسلّمہ قانون ہے کہ دورانِ جنگ بچوں، بوڑھوں اور خواتین کو امان حاصل ہوگا۔ ہتھیار نہ اُٹھانے والوں پر فائرنگ اور بمباری نہیں کی جائے گی لیکن اسرائیلی درندوں نے بچوں، مریضوں، ضعیفوں حتیٰ کہ ایمبولینسوں اور فلاحی اداروں کے امدادی کارکنوں تک لہو میں نہاگئے۔
دور نہ جائیں! حالیہ غزہ پر صہیونی حملوں میں 1300 فلسطینی شہری، 437 کم عمر بچے، 110 عورتیں اور 123 بوڑھوں کو بے دردی سے شہید کیا گیا۔ شہری آبادی پر اندھا دھند گولہ باری کرکے سیکڑوں فلسطینیوں کو زخمی کیا گیا۔ جنگ کے دوران بیسیوں بے گناہوں حتیٰ کہ راہگیروں اور امدادی ورکروں کو گرفتار کرکے عقوبت خانوں میں ڈالا گیا۔
گزشتہ دنوں فلسطینی عوام کو امداد پہنچانے والی ایک امدادی کارکن نے ”رملہ جیل“ سے خط لکھا ہے۔ وہ لکھتی ہیں: ”میرا نام سنتھیا میکنیے ہے۔ میں رملہ میں اسرائیلی جیل کی ایک کوٹھڑی سے مخاطب ہوں۔ جنگ کے دوران ہم زخمیوں کے لیے ادویات پہنچانے غزہ کی طرف جارہے تھے کہ اسرائیلیوں نے ہماری گاڑی پر فائرنگ کردی۔ پھر ہمیں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ ہم دنیا کے مہذب لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے؟
ہم غزہ کے زخمیوں تک بنیادی ضروریات کی چیزیں پہنچانا چاہتے تھے لیکن اسرائیلی فوج نے یہ کہتے ہوئے گرفتار کرلیا کہ دہشت گردوں کو طبی امداد کیوں پہنچارہے ہو؟ ان فلسطینیوں کو یونہی تڑپ تڑپ کر مرنا چاہیے۔“ میں نے جرات کرتے ہوئے کہا: ”انسانیت کے ناتے ان کے لیے فرسٹ ایڈ ضروری ہے لیکن اسرائیلی فوج نے میری ایک نہ سنی اور فلسطینی زخمی عوام کو طبی امداد پہنچانے کے جرم میں مجھے 30 جون کو گرفتار کرکے رملہ کے عقوبت خانے میں ڈال دیا گیا حالانکہ میرا مشن انسانی حقوق، معاشرتی انصاف اور بلارنگ ونسل، قوم ومذہب صرف انسانیت کی خدمت ہے۔
میں سوچتی ہوں جب مجھ جیسی عورت کے ساتھ اسرائیلی فوج نے یہ ظلم کیا ہے تو عام فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ وہ کیا کیا انسانیت سوز کام کرتے ہوں گے؟“ آخر میں ”سنتھیا میکینے“ اقوام متحدہ اور امریکی صدر اوباما سے اپیل کرتی ہیں کہ وہ اسرائیلی عقوبت خانوں میں بے گناہ فلسطینی عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور گرفتار کیے گئے ہزاروں افراد کو آزاد کروائیں۔“
پس منظر کے طورپر یاد رہے اس وقت اسرائیلی جیلوں اور عقوبت خانوں میں 1500 مرد، 400 کے قریب معصوم بچے اور 210 خواتین انتہائی صعوبتیں اُٹھارہے ہیں۔ فلسطینی ”محکمہٴ اسیران“ کے ترجمان کا کہنا ہے فلسطینی قیدیوں پر نئی نئی تیار کردہ ادویات کے تجربات بھی کیے جارہے ہیں۔ بیشتر تجربات معصوم بچوں پر کیے جاتے ہیں۔ ان ادویات کے استعمال سے ایک ہزار قیدی شدید متاثر ہیں جن میں سے ایک سو پچاس کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔ عالمی ریڈ کراس کے نمایندوں تک کو اسرائیلی جیلوں کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
انسانی حقوق کی تمام تنظیموں کو اس پر آواز اُٹھانی چاہیے۔ قارئین! دوران تحریر میرے سامنے ایک تصویر ہے جس میں جیل میں شہید ہونے والے فلسطینی شہری کی تدفین کے موقع پر ان کی بیوی اور معصوم بچے زاروقطار رورہے ہیں۔ ان پھول سے بچوں کے آنسو عالمِ اسلام کے حکمرانوں کو بہت کچھ سوچنے کا پیغام دے رہے ہیں۔
اسرائیل کا ایک جرم یہودی بستیوں کی آباد کاری ہے۔ اقوام متحدہ کے قانون کے مطابق اسرائیل مزید بستیاں تعمیر نہیں کرسکتا۔
متعدد بار تعمیر روکنے کا حکم بھی دیا جاچکا ہے لیکن یہ ایک ناقابلِ تردید تاریخی حقیقت ہے کہ یہودیوں نے فلسطین کے علاقوں پر غیر قانونی طورپر قبضہ کیا۔ یہودی قیادت کو شروع میں ایسا کرنے سے روکنے کی کوئی عملی کوشش نہیں کی گئی جس کی وجہ سے اسرائیل کے حوصلے بلند ہوتے چلے گئے اور وہ فلسطین کے مزید علاقوں پر قابض ہوتا گیا۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ اسرائیل فلسطین کے ایک بڑے علاقے پر قابض ہوچکا ہے اور اس کی ناجائز توسیع کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔
یہودی بستیوں کی تعمیر کا آغاز 1947ء سے ہوا۔ اس کے بعد سے ان میں مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے حالانکہ قیام امن کے بین الاقوامی منصوبے ”روڈ میپ“ کے تحت اسرائیل نے یہودی بستیوں پر کام روکنے کا پکا وعدہ کیا تھا۔ مشرقی یروشلم، مغربی کنارہ، غزہ، گولان کی پہاڑیاں… یہ سب مقبوضہ علاقہ جات ہیں اور اسرائیل کا حصہ نہیں۔
انصاف تو ملاحظہ کیجیے! اسرائیل نے 85 فیصد پانی اپنے یہودی آباد کاروں کے لیے مخصوص کیا ہے جبکہ باقی 15 فیصد فلسطینی مسلمانوں کے لیے چھوڑا ہوا ہے۔ غربِ اردن اور غزہ میں بنی تمام یہودی بستیاں بین الاقوامی اصولوں کے تحت غیر قانونی ہیں۔ ایرئیل نامی ایک یہودی بستی میں 18 ہزار صہیونی رہائش پذیر ہیں۔ تازہ خبر کے مطابق ایک نئی یہودی بستی کا نام ”اوباما“ سے منسوب کیا جارہا ہے۔ اس کا نام ”اوباما ہیلتوب“ رکھا جائے گا۔
دنیا کے وسیع تر مفاد میں اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کو اپنی ان اداؤں پر ٹھنڈے دماغ سے غور کرنا چاہیے کہ یہ اقدام مشرقِ وسطیٰ کے لیے کیسے ثابت ہوسکتے ہیں؟ اسرائیل کا ایک بڑا جرم غیر قانونی اور ممنوع اسلحے کا بے دریغ استعمال ہے۔ قانون کے مطابق جوہری اور فاسفورس بم استعمال نہیں کرسکتا، مگر غزہ جنگ کے دوران صہیونیوں نے ایسا بارود استعمال کیا کہ بچے موم کی طرح پگھل گئے۔ اس پر ڈاکٹروں کی رپورٹیں شاہد ہیں۔
اسرائیل کا ایک جرم اس کے توسیع پسندانہ عزائم اور مشرقِ وسطیٰ میں بالادستی کا خناس ہے۔ جس کی وجہ سے کبھی وہ ایران کو دھمکیاں دیتا ہے تو کبھی شام کو۔ کبھی لبنان کو تو کبھی اردن کو۔ کبھی پاکستان کا ایٹمی پروگرام تباہ کرنے کے لیے بھارت سے گٹھ جوڑ کرتا ہے تو کبھی اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ہمسائے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرواتا ہے۔ یہی وجہ ہے اسرائیل کے پڑوسی ممالک میں سے کسی کے ساتھ خوشگوار تعلقات نہیں ہیں۔
اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم اور بڑھتے ہوئے جنگی جرائم کی وجہ سے ترکی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس کے ساتھ جنگی مشقیں نہیں کرے گا۔ امریکا، اسرائیل اور ان کے دیگر دوست ممالک کو غور کرنا چاہیے کہ ترکی جیسا ملک… جس نے یورپ کا حصہ بننے کے لیے ایک وقت میں عالم اسلام سے رابطہ توڑ لیا تھا… آج امریکا، اسرائیل اور یورپی ممالک کے غیر منصفانہ رویوں کو محسوس کررہا ہے تو اس کا واضح مطلب ہے مسلم دنیا کے حکمران اور عوام بھی ان کی خون آشام اور استعماری پالیسیوں سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔
لہٰذا اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کو پالیسی بدلنا ہوگی۔ اگر اسرائیل نے یہی روش رکھی اور اس کے جرائم یونہی بڑھتے رہے تو پھر ایک نہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ اس کی حمایت کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔ ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔
بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل
”اسرائیل جنگی مجرم ہے۔ غزہ پر حملے کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی۔ بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام کیا۔ اسرائیل کے جنگی جرائم کی تحقیقات کو ”ہیگ“ میں قائم انسداد جرائم کی عالمی عدالت میں پیش کرنا چاہیے تاکہ اس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاسکے۔“ یہ الفاظ ”ہیومن رائٹس کونسل“ کے ہیں جو اس نے اقوام متحدہ کی رپورٹ کی توثیق میں کہے۔ گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی تفتیشی ٹیم کے سربراہ ”رچرڈ گولڈ اسٹون“ نے اس موضوع پر تفصیلی رپورٹ پیش کی۔
اس میں اسرائیل کے جرائم سے متعلق چشم کشا انکشافات کیے گئے۔ تمام واقعات، شواہد، معلومات اور عینی شاہدین کے انٹرویوز کی روشنی میں جو نتائج نکالے گئے وہ یہ تھے کہ اسرائیل جنگی جرائم میں پوری طرح ملوث ہے۔ اس رپورٹ کے منظرعام پر آنے کے بعد 17/ اکتوبر 2009ء کو جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے رکن ممالک کا خصوصی اجلاس ہوا۔ اسرائیل، فلسطین، پاکستان، ترکی، بھارت، چین، کیوبا، روس اور نائجیریا سمیت اکثر ممالک نے شرکت کی۔ 25 ملکوں نے گولڈ اسٹون رپورٹ کی توثیق کی۔
امریکا سمیت 6 ریاستوں نے مخالفت کی جبکہ فرانس اور برطانیہ سمیت 11 ممالک غیر حاضر رہے۔ البتہ اقوام متحدہ میں برطانوی سفیر نے اتنا ضرور کہا کہ غزہ جنگ سے متعلق اقوام متحدہ کی رپورٹ اہم معلومات پر مشتمل ہے۔ اسرائیل وفلسطین دونوں کو اس پر غور کرنا چاہیے۔ دیگر کئی یورپی ممالک نے بھی رپورٹ کی حمایت کا خیال ظاہر کیا ہے۔ حماس نے اس رپورٹ کی توثیق کرنے والے ممالک کا خیرمقدم کیا ہے جبکہ اسرائیل حقائق تسلیم کرنے کے بجائے ہٹ دھرمی پر اُتر آیا ہے اور توثیق کرنے والے ممالک کو دھمکیاں دے رہا ہے۔
اور تو اور اقوام متحدہ کی تفتیشی ٹیم کے سربراہ گولڈ اسٹون کے خلاف صہیونیوں نے پروپیگنڈا شروع کردیا ہے کہ انہوں نے جانبداری سے کام لیا ہے۔ افریقہ کے یہودی سڑکوں پر نکل کر اس کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں۔ اس کے خلاف کینیڈا اور امریکا میں بھی سازشیں شروع ہوچکی ہیں۔ حالانکہ گولڈ اسٹون خود اعتدال پسند یہودی ہیں اور ان کی ماں صہیونی تحریک میں شامل تھیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صہیونی اپنے خلاف سچائی اور حقائق سننے کو بھی ذرا بھر تیار نہیں ہوتے۔
اسرائیلی راہنماؤں نے برطانیہ کو خفیہ پیغام بھجوایا ہے کہ وہ کسی بھی صورت اس رپورٹ کی حمایت نہ کرے۔ اگر برطانیہ نے توثیق کی تو پھر برطانوی جنگی جرائم بھی بے نقاب کیے جائیں گے۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ آخر کس کی پشت پناہی سے اسرائیلی راہنما برطانیہ جیسی ریاست کو بھی دھمکی آمیز پیغام بھجوارہے ہیں کہ وہ رپورٹ کی توثیق سے باز رہے۔ ادھر ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردگان نے عالمی برادری سے کہا ہے کہ وہ غزہ میں اسرائیلی جنگی جرائم کی پردہ پوشی نہ کرے۔ اسرائیل نے بے شمار جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔“
حقیقت یہی ہے کہ اسرائیل طویل عرصے سے جنگی جرائم کرتا چلا آرہا ہے۔ ہم مختصراً صہیونیوں کے جرائم کی چارج شیٹ پیش کرتے ہیں تاکہ یہ بات عیاں ہوجائے کہ جو رپورٹ پیش کی گئی ہے وہ سو فیصد حقائق پر مبنی ہے۔ اسرائیل اب تک اقوام متحدہ کی 69 قراردادوں کی دھجیاں اُڑاچکا ہے۔ اسرائیل نے جنیوا کے قوانین کو پامال کرتے ہوئے ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کو نشانہ بنایا۔ اسکول اور کالجوں پر میزائل داغے۔ کیمیاوی ہتھیار اور فاسفورس بم استعمال کیے۔ گمنام جگہوں پر شہید ہونے والے فلسطینیوں کے اجسام کی بے حرمتی کی۔ فلسطینی بچوں کو اغوا کرکے ان کے اعضا نکالے۔ قبلہ اول مسجد اقصیٰ کا تقدس پامال کیا۔
امدادی کارکنوں پر بمباری کی۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے اہلکار بھی اس ظلم سے نہ بچ سکے۔ مسلّمہ قانون ہے کہ دورانِ جنگ بچوں، بوڑھوں اور خواتین کو امان حاصل ہوگا۔ ہتھیار نہ اُٹھانے والوں پر فائرنگ اور بمباری نہیں کی جائے گی لیکن اسرائیلی درندوں نے بچوں، مریضوں، ضعیفوں حتیٰ کہ ایمبولینسوں اور فلاحی اداروں کے امدادی کارکنوں تک لہو میں نہاگئے۔
دور نہ جائیں! حالیہ غزہ پر صہیونی حملوں میں 1300 فلسطینی شہری، 437 کم عمر بچے، 110 عورتیں اور 123 بوڑھوں کو بے دردی سے شہید کیا گیا۔ شہری آبادی پر اندھا دھند گولہ باری کرکے سیکڑوں فلسطینیوں کو زخمی کیا گیا۔ جنگ کے دوران بیسیوں بے گناہوں حتیٰ کہ راہگیروں اور امدادی ورکروں کو گرفتار کرکے عقوبت خانوں میں ڈالا گیا۔
گزشتہ دنوں فلسطینی عوام کو امداد پہنچانے والی ایک امدادی کارکن نے ”رملہ جیل“ سے خط لکھا ہے۔ وہ لکھتی ہیں: ”میرا نام سنتھیا میکنیے ہے۔ میں رملہ میں اسرائیلی جیل کی ایک کوٹھڑی سے مخاطب ہوں۔ جنگ کے دوران ہم زخمیوں کے لیے ادویات پہنچانے غزہ کی طرف جارہے تھے کہ اسرائیلیوں نے ہماری گاڑی پر فائرنگ کردی۔ پھر ہمیں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ ہم دنیا کے مہذب لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے؟
ہم غزہ کے زخمیوں تک بنیادی ضروریات کی چیزیں پہنچانا چاہتے تھے لیکن اسرائیلی فوج نے یہ کہتے ہوئے گرفتار کرلیا کہ دہشت گردوں کو طبی امداد کیوں پہنچارہے ہو؟ ان فلسطینیوں کو یونہی تڑپ تڑپ کر مرنا چاہیے۔“ میں نے جرات کرتے ہوئے کہا: ”انسانیت کے ناتے ان کے لیے فرسٹ ایڈ ضروری ہے لیکن اسرائیلی فوج نے میری ایک نہ سنی اور فلسطینی زخمی عوام کو طبی امداد پہنچانے کے جرم میں مجھے 30 جون کو گرفتار کرکے رملہ کے عقوبت خانے میں ڈال دیا گیا حالانکہ میرا مشن انسانی حقوق، معاشرتی انصاف اور بلارنگ ونسل، قوم ومذہب صرف انسانیت کی خدمت ہے۔
میں سوچتی ہوں جب مجھ جیسی عورت کے ساتھ اسرائیلی فوج نے یہ ظلم کیا ہے تو عام فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ وہ کیا کیا انسانیت سوز کام کرتے ہوں گے؟“ آخر میں ”سنتھیا میکینے“ اقوام متحدہ اور امریکی صدر اوباما سے اپیل کرتی ہیں کہ وہ اسرائیلی عقوبت خانوں میں بے گناہ فلسطینی عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور گرفتار کیے گئے ہزاروں افراد کو آزاد کروائیں۔“
پس منظر کے طورپر یاد رہے اس وقت اسرائیلی جیلوں اور عقوبت خانوں میں 1500 مرد، 400 کے قریب معصوم بچے اور 210 خواتین انتہائی صعوبتیں اُٹھارہے ہیں۔ فلسطینی ”محکمہٴ اسیران“ کے ترجمان کا کہنا ہے فلسطینی قیدیوں پر نئی نئی تیار کردہ ادویات کے تجربات بھی کیے جارہے ہیں۔ بیشتر تجربات معصوم بچوں پر کیے جاتے ہیں۔ ان ادویات کے استعمال سے ایک ہزار قیدی شدید متاثر ہیں جن میں سے ایک سو پچاس کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔ عالمی ریڈ کراس کے نمایندوں تک کو اسرائیلی جیلوں کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
انسانی حقوق کی تمام تنظیموں کو اس پر آواز اُٹھانی چاہیے۔ قارئین! دوران تحریر میرے سامنے ایک تصویر ہے جس میں جیل میں شہید ہونے والے فلسطینی شہری کی تدفین کے موقع پر ان کی بیوی اور معصوم بچے زاروقطار رورہے ہیں۔ ان پھول سے بچوں کے آنسو عالمِ اسلام کے حکمرانوں کو بہت کچھ سوچنے کا پیغام دے رہے ہیں۔
اسرائیل کا ایک جرم یہودی بستیوں کی آباد کاری ہے۔ اقوام متحدہ کے قانون کے مطابق اسرائیل مزید بستیاں تعمیر نہیں کرسکتا۔
متعدد بار تعمیر روکنے کا حکم بھی دیا جاچکا ہے لیکن یہ ایک ناقابلِ تردید تاریخی حقیقت ہے کہ یہودیوں نے فلسطین کے علاقوں پر غیر قانونی طورپر قبضہ کیا۔ یہودی قیادت کو شروع میں ایسا کرنے سے روکنے کی کوئی عملی کوشش نہیں کی گئی جس کی وجہ سے اسرائیل کے حوصلے بلند ہوتے چلے گئے اور وہ فلسطین کے مزید علاقوں پر قابض ہوتا گیا۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ اسرائیل فلسطین کے ایک بڑے علاقے پر قابض ہوچکا ہے اور اس کی ناجائز توسیع کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔
یہودی بستیوں کی تعمیر کا آغاز 1947ء سے ہوا۔ اس کے بعد سے ان میں مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے حالانکہ قیام امن کے بین الاقوامی منصوبے ”روڈ میپ“ کے تحت اسرائیل نے یہودی بستیوں پر کام روکنے کا پکا وعدہ کیا تھا۔ مشرقی یروشلم، مغربی کنارہ، غزہ، گولان کی پہاڑیاں… یہ سب مقبوضہ علاقہ جات ہیں اور اسرائیل کا حصہ نہیں۔
انصاف تو ملاحظہ کیجیے! اسرائیل نے 85 فیصد پانی اپنے یہودی آباد کاروں کے لیے مخصوص کیا ہے جبکہ باقی 15 فیصد فلسطینی مسلمانوں کے لیے چھوڑا ہوا ہے۔ غربِ اردن اور غزہ میں بنی تمام یہودی بستیاں بین الاقوامی اصولوں کے تحت غیر قانونی ہیں۔ ایرئیل نامی ایک یہودی بستی میں 18 ہزار صہیونی رہائش پذیر ہیں۔ تازہ خبر کے مطابق ایک نئی یہودی بستی کا نام ”اوباما“ سے منسوب کیا جارہا ہے۔ اس کا نام ”اوباما ہیلتوب“ رکھا جائے گا۔
دنیا کے وسیع تر مفاد میں اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کو اپنی ان اداؤں پر ٹھنڈے دماغ سے غور کرنا چاہیے کہ یہ اقدام مشرقِ وسطیٰ کے لیے کیسے ثابت ہوسکتے ہیں؟ اسرائیل کا ایک بڑا جرم غیر قانونی اور ممنوع اسلحے کا بے دریغ استعمال ہے۔ قانون کے مطابق جوہری اور فاسفورس بم استعمال نہیں کرسکتا، مگر غزہ جنگ کے دوران صہیونیوں نے ایسا بارود استعمال کیا کہ بچے موم کی طرح پگھل گئے۔ اس پر ڈاکٹروں کی رپورٹیں شاہد ہیں۔
اسرائیل کا ایک جرم اس کے توسیع پسندانہ عزائم اور مشرقِ وسطیٰ میں بالادستی کا خناس ہے۔ جس کی وجہ سے کبھی وہ ایران کو دھمکیاں دیتا ہے تو کبھی شام کو۔ کبھی لبنان کو تو کبھی اردن کو۔ کبھی پاکستان کا ایٹمی پروگرام تباہ کرنے کے لیے بھارت سے گٹھ جوڑ کرتا ہے تو کبھی اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ہمسائے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرواتا ہے۔ یہی وجہ ہے اسرائیل کے پڑوسی ممالک میں سے کسی کے ساتھ خوشگوار تعلقات نہیں ہیں۔
اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم اور بڑھتے ہوئے جنگی جرائم کی وجہ سے ترکی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس کے ساتھ جنگی مشقیں نہیں کرے گا۔ امریکا، اسرائیل اور ان کے دیگر دوست ممالک کو غور کرنا چاہیے کہ ترکی جیسا ملک… جس نے یورپ کا حصہ بننے کے لیے ایک وقت میں عالم اسلام سے رابطہ توڑ لیا تھا… آج امریکا، اسرائیل اور یورپی ممالک کے غیر منصفانہ رویوں کو محسوس کررہا ہے تو اس کا واضح مطلب ہے مسلم دنیا کے حکمران اور عوام بھی ان کی خون آشام اور استعماری پالیسیوں سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔
لہٰذا اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کو پالیسی بدلنا ہوگی۔ اگر اسرائیل نے یہی روش رکھی اور اس کے جرائم یونہی بڑھتے رہے تو پھر ایک نہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ اس کی حمایت کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔ ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔
بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل
No comments:
Post a Comment