Friday, October 9, 2009

امریکی اشراف کی بداعمالیاں





تحریر: روف عامر پپا بریار


یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دور حاظر کی خود ساختہ سپرپاور اب نام کی عالمی طاقت رہ گئی ہے۔غربت و بے روزگاری کی شرح آسمانوں کو چھو رہی ہیں۔امریکی اشرافیہ کے جنگی جنون نے امریکہ کا معاشی دیوالیہ نکال دیا۔ امریکہ میں ہونے والے حالیہ سروے سے پتہ لگا ہے کہ صرف ترکی اور میکسیکو ہی شرح غربت کے حوالے سے امریکہ سے نیچے ہیں۔حکومت کی عاجلانہ و بچگانہ پالیسیوں کا کمال ہے کہ بنکوں کے پردھانوں کو تو تنخواہوں کے ساتھ بونس دئیے جارہے ہیں مگر عام امریکی فوڈ سٹمپ سکیموں سے استفادہ حاصل کررہے ہیں۔

امریکہ کی مالیاتی طاقت کا ایک رخ تو یہ ہے۔کسی دور میں عام امریکی شہری کے لائف سٹائل اور اطوار زندگی کے معیار پر ساری دنیا رشک کیا کرتی تھی مگر اب سب کچھ قصہ پارینہ بن چکا ہے۔امریکی قوم کی برتری کا معیار ہوا میں تحلیل ہوچکا ہے۔امریکہ کے تمام بڑے مالیاتی ادارے دیوالیہ ہوچکے۔لاحاصل جنگوں نے امریکی قوم کی زندگیوں میں صدمے و جھٹکے بھر دیے۔

امریکی معیشت کا ڈھانچہ مصنوعی تنفس پر چل رہا ہے۔امریکی پالیسی سازوں نے اپنے زمین بوس مالیاتی نظام کو نئے سروں پر استوار کرنے کے لئے جو سات سو بلین ڈالر کا جو بیل آوٹ پیکچ دیا تھا وہ ناکامی سے دوچار ہے۔ بیروزگاری کی شرح پچھلے چند ماہ میں نو فیصد تک بڑھ گئی جو امریکی تاریخ میں ایک ریکارڈ قائم کرگیا۔امریکہ کی زبوں حالی کا یہ عالم ہےECONOMIC DEVELOPMENT ORGANAIZATION نامی ادارے کے زیر اہتمام دنیا کے تیس ملکوں میں ایک سروے کروایا گیا جس کے مطابق امریکہ میں غربت کی شرح میکسیکو و ترکی سے بلند تھی۔

سیٹل ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں امیروں و غریبوں کے درمیان فرق کو یوں بیان کیا کہ امیر ترین امریکیوں کی فہرست میں دس فیصد لوگ سالانہ93000 ڈالر کماتے ہیں یہ شرح تیس ممالک میں سب سے بلند ہے مگر 90 فیصد امریکی صرف5800 ڈالر کماتے ہیں۔امیر طبقہ عام امریکیوں کے مقابلے میں چار سو گنا زیادہ کماتے ہیں۔ امیروں و غریبوں کے درمیان روز افزوں خلیج کیسے کم کی جاسکتی ہے کے متعلق مالیاتی شعبدہ گر کچھ بتانے پر تیار نہیں۔نیویارک ٹائمز نے تین اگست کو اپنے ایک اٍدارئیے میں امریکہ کی معاشی زبوں حالی کا نقشہ کچھ پیش کیا۔

نیویارک کے اٹارنی جنرل اینڈریو موکو نے انکشاف کیا ہے کہ سٹی بنک نے2008 میں5.33 بلین ڈالر بونس کے طور پر ادا کئے حالانکہ اسے27.7 بلین ڈالر کا نقصان ہوا اور اس نے حکومت سے45 بلین ڈالر حاصل کئے۔سٹی گروپ کے738 اور بنک اف امریکہ کے175 ملازمین کو بونس کے طور پر ایک بلین ڈالر کی نذر و نیاز عنایت کی۔امریکی اخبار وال سٹریٹ جنرل کے تجزئیے میں بتایا گیا ہے کہ2008 میں سٹی بنک نے انرجی ٹریڈنگ یونٹ گروپ کی شکل میں99.9 ملین ڈالر ادا کئے جو اٍس سال100 ملین ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔امریکہ کا مالیاتی ڈھانچہ119 سال پرانا ہے مگر حالیہ دیوالیہ پن نے اسکی چولیں تک ہلا دی ہیں۔

امریکہ میں بھوک و افلاس نے حکومتی نااہلیوں کا بھید کھول دیا ہے۔34 ملین امریکی حکومتی فوڈ سٹمپس سکیموں سے استفادہ حاصل کررہے ہیں۔اشیائے خوردنی کے گودام خالی ہورہے ہیں۔امریکی کی بنکنگ اشرافیہ کے اللوں تھللوں نے بنکنگ سسٹم کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں مگر ایسے ہوشربا نقصانات کے باوجود یہی رئیس زادے بونس کی شکل میں معیشت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کا کام کررہے ہیں۔حکومت نے سات سو بلین ڈالر کے بیل اوٹ پیکج کا اعلان کیا ہے مگر یہی رقم امریکی قوم کے خون پسینے سے نچوڑی جارہی ہے۔امریکی اشرافیہ ایک طرف قومی خزانے پر شب خون مار رہی ہے تو دوسری طرف واشنگٹن میں خیمہ بستیوں کے شہر اباد ہورہے ہیں۔خیمہ بستیوں میں اپنی تباہی و حکومتی نااہلیوں و جنگی جنون کے جھٹکوں کے نوحے گانے پر مجبور ہیں۔

لطف تو یہ ہے کہ ایسے بدقسمت شہریوں کے لئے ابھی تک کوئی جگہ مختص نہیں ہوچکی۔گرجا گھروں نے بے سائباں و بے خانماں امریکیوں کو دوماہ کے لئے اپنے احاطوں میں خیمے نصب کرنے کی اجازت دی تھی مگر اب گرجا گھروں کے پنڈت اپنے ہم وطن بھائیوں کے عارضی خمیوں کو اکھاڑنے کے لئے بے تاب ہیں۔واشنگٹن کے راشن ڈپو پر موجود170 امریکیوں نے اس وقت ہنگامہ کھڑا کردیا جب انتظامیہ نے اشیائے خوردنی کے خاتمے کی نوید سنائی۔ٹی وی چینل صاحب ثروت افراد سے اپیلیں کررہے ہیں کہ وہ در بدر ہونے والے ہم وطنوں کی پیٹ پوجا کے لئے راشن مہیا کریں۔کیلی فورنیا میں ریاستی بجٹ کو29 بلین ڈالر کا دھچکا لگا تو انتظامیہ نے عوام و بچوں کی میڈیکل سہولیات ختم کردیں اور یہ سلسلہ عفریت کے روپ میں تمام امریکی ریاستوں کو نگلنے کے قریب ہے۔امریکہ میں بے روزگاروں کی تعداد14 ملین تک پہنچ چکی ہے۔

ان لوگوں کے پاس نہ تو سرچھپانے کی جگہ ہے اور نہ ہی پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے دو وقت کی روٹی۔بیروزگاروں و غریبوں کے بچے دو دھ و ادویات کے لئے سسک رہے ہیں۔امریکی ابادی کا دس فیصد عیاشی کررہا ہے جبکہ بقیہ نوے فیصد کے لئے سپرپاور دوزخ کا روپ دھار چکی۔افلاطون نے کہا تھا کہ کسی ملک کی سلامتی کا اندازہ وہاں بسنے والے لوگوں کی حالت زار سے لگایا جاسکتا ہے۔پوری دنیا میں دنگے فسادوں کو جلا بخشنے والی سپرپاور کی قومی سلامتی کو افلاطون کے قول کی روشنی میں پرکھا جائے تو یہ سچائی بے نقاب ہوتی ہے کہ عراقیوں و افغانیوں کا خون ناحق بہانے ،سامراجیت کے احیا اور اغیار کی دولت لوٹنے اور تیل کی لالچ میں کابل و بغداد میں انسانیت کو وحشت و بربریت سے شکست دینے والے مجرم امریکہ کی تباہی کا وقت بہت قریب ان پہنچا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ صبح کا بھولا شام کو گھر لوٹ ائے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔اوبامہ کو رب العالمین نے موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اپنی ریاست کی سلامتی کے لئے لاحاصل جنگوں میں اربوں ڈالر جھونکنے کی بجائے یہی رقم بھوک و ننگ سے بلکنے والی امریکی قوم کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر امریکہ کو ایک نہ ایک دن قصہ ماضی کے قبرستان میں درگور ہونا پڑے گا۔



بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل

No comments:

Post a Comment