تحریر: خادم الاسلام و المسلمین ڈاکٹرعصمت حیات علوی
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
ہمارے بڑا کہا کرتے تھے کہ استاد استاد ہوتا ہے اور یہ ایک حقیقت بھی ہے اور اس حقیقت کا عملی نظارہ ہم نے اپنی عملی زندگی میں کئی مرتبہ کیا ہے ۔پچھلے دنوں امریکہ کے ایک معروف چینل کی میزبان کیٹی کیورک کو بھی اس بات کا ایسا عملی تجربہ ہوا ہے کہ اسے ساری عمر یہ اصول یاد رہے گا کہ استاد استاد ہی ہوتا ہے اور اگر وہ سیانی ہوئی تو اپنی آئندہ نسلوں کو بھی یہ نصیحت کر جائے گی کہ کسی استاد سے ماتھا نہ لگانا۔
ہوا یوں ہے کہ پچھلے مہینے یعنی کہ ستمبر میں ایک لائیو شو کے دوران کیٹی کیورک کا مہمان ایرانی صدر احمدی نژاد تھا۔جیسا کہ مغربی پریس اور میڈیا کی یہ روایت ہے کہ وہ اسلامی دنیا کے راہنماوں کی مٹی پلید کرنے کا کوئی بھی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔ کیٹی نے بھی یہی کچھ کیا تھا ۔اس نے ندا سلطان کا ذکر چھیڑ دیا۔ ندا سلطان وہی لڑکی ہے جو کہ ایرانی صدر کے دوبارہ منتخب ہونے پر الیکشن میں دھاندلی کو بنیاد بنا کر ہونے والے مظاہروں کے دوران ایرانی سیکیورٹی ایجنسی کے ہاتھوں ماری گئی تھی۔
ایرانی صدر نے ایک معقول آدمی کی طرح سے نداسلطان کی موت پر اظہار افسوس کیا تھا اور یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ سیکیورٹی والوں کاطرز عمل غلط تھا اور ان کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھاپھر احمدی نژاد نے کیٹی کو یہ بھی بتایا تھا اس سانحے میں ملوث سیکیورٹی والوں کی ملازمت ختم کردی گئی ہے اور ان کے خلاف دیگر تادیبی کاروائی بھی ہو رہی ہے ۔
اس مرحلے تک توکیٹی کا پلہ بھاری ہی تھی اور وہ ایک اسلامی مملکت کے صدر کی بے عزتی کرکے دل ہی دل میں خوش بھی ہو رہی تھی ۔ہم بھی یہ جانتے ہیں کہ جناب محمود احمدی نژاد ایک یونی ورسٹی کے پروفیسر رہے ہیں اور یہ بات کیٹی کیورک بھی جانتی تھی کہ احمدی نژاد ایران کی ایک معروف جامعہ کا استاد رہاہے مگر اس کو کسی استاد کے ہاتھ نہیں لگے تھے ۔
اب باری تھی احمدی نژاد کی ۔ انہوں نے اپنے پاس رکھی ہوئی کسی خاتون کی تصویر نکالی تھی اور اس تصویر کو کیٹی کیورک کو دکھانے کے بعد یہ پوچھا تھا کہ کیا آپ جانتی ہیں کہ یہ کس خاتون کی تصویر ہے؟ کیٹی کیورک نے تصویر کو بغور دیکھنے کے بعد اپنی لاعلمی کا اظہار کیا تھا اور یہی لمحہ تھا جب اس کی شامت آگئی تھی۔
ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے کیٹی کیورک کو بتایا تھا اور پھر یہ واضح بھی کیا تھا کہ ان کے ہاتھ میں تھامی ہوئی تصویر شہید ِحجاب ماروا علی الشربینی کی ہے جسے سرعدالت اور پولیس کی موجودگی کے باوجود ایک بھرے مجمعے کے سامنے ایک انتہاءپسند جرمن نے قتل کر دیا تھا مگر مغربی میڈیا نے یہ خبر محض اس لئے دبا دی تھی کہ اس سے مغربی لوگوں کی انتہا پسندی مذہبی جنونیت اور بے حسی منظرعام پر آتی ہے۔
اتنا بتانے کے بعد احمدی نژاد نے جی بھر کر مغربی دنیا اور اس کے میڈیاکو ذلیل کیا تھا ۔ احمدی نژاد کے اس انٹرویو کا یہ فائدہ ہوا ہے کہ جس خبر کو مغربی میڈیا جتنا چھپانا چاہتا تھا وہ اتنی ہی زیادہ کھل کر سامنے آگئی ہے کیونکہ اکتوبر کے مہینے کا آغاز ہوتے ہی جس موضوع پر سب سے زیادہ سرچ کی گئی ہے وہ شہیدِ حجاب ماروا علی الشربینی کا موضوع ہی ہے یوں امریکہ اور یورپ کی نوجوان نسل کو یہ علم ہوگیا ہے کہ شہید ِحجاب ماروا علی الشربینی کون تھی ؟
سیانے سچ ہی کہتے ہیں کہ ا ستاد استاد ہی ہوتا ہے اوراستاد سے متھا لگانے والا ہمیشہ ذلیل ہی ہوتا ہے۔
بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
ہمارے بڑا کہا کرتے تھے کہ استاد استاد ہوتا ہے اور یہ ایک حقیقت بھی ہے اور اس حقیقت کا عملی نظارہ ہم نے اپنی عملی زندگی میں کئی مرتبہ کیا ہے ۔پچھلے دنوں امریکہ کے ایک معروف چینل کی میزبان کیٹی کیورک کو بھی اس بات کا ایسا عملی تجربہ ہوا ہے کہ اسے ساری عمر یہ اصول یاد رہے گا کہ استاد استاد ہی ہوتا ہے اور اگر وہ سیانی ہوئی تو اپنی آئندہ نسلوں کو بھی یہ نصیحت کر جائے گی کہ کسی استاد سے ماتھا نہ لگانا۔
ہوا یوں ہے کہ پچھلے مہینے یعنی کہ ستمبر میں ایک لائیو شو کے دوران کیٹی کیورک کا مہمان ایرانی صدر احمدی نژاد تھا۔جیسا کہ مغربی پریس اور میڈیا کی یہ روایت ہے کہ وہ اسلامی دنیا کے راہنماوں کی مٹی پلید کرنے کا کوئی بھی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔ کیٹی نے بھی یہی کچھ کیا تھا ۔اس نے ندا سلطان کا ذکر چھیڑ دیا۔ ندا سلطان وہی لڑکی ہے جو کہ ایرانی صدر کے دوبارہ منتخب ہونے پر الیکشن میں دھاندلی کو بنیاد بنا کر ہونے والے مظاہروں کے دوران ایرانی سیکیورٹی ایجنسی کے ہاتھوں ماری گئی تھی۔
ایرانی صدر نے ایک معقول آدمی کی طرح سے نداسلطان کی موت پر اظہار افسوس کیا تھا اور یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ سیکیورٹی والوں کاطرز عمل غلط تھا اور ان کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھاپھر احمدی نژاد نے کیٹی کو یہ بھی بتایا تھا اس سانحے میں ملوث سیکیورٹی والوں کی ملازمت ختم کردی گئی ہے اور ان کے خلاف دیگر تادیبی کاروائی بھی ہو رہی ہے ۔
اس مرحلے تک توکیٹی کا پلہ بھاری ہی تھی اور وہ ایک اسلامی مملکت کے صدر کی بے عزتی کرکے دل ہی دل میں خوش بھی ہو رہی تھی ۔ہم بھی یہ جانتے ہیں کہ جناب محمود احمدی نژاد ایک یونی ورسٹی کے پروفیسر رہے ہیں اور یہ بات کیٹی کیورک بھی جانتی تھی کہ احمدی نژاد ایران کی ایک معروف جامعہ کا استاد رہاہے مگر اس کو کسی استاد کے ہاتھ نہیں لگے تھے ۔
اب باری تھی احمدی نژاد کی ۔ انہوں نے اپنے پاس رکھی ہوئی کسی خاتون کی تصویر نکالی تھی اور اس تصویر کو کیٹی کیورک کو دکھانے کے بعد یہ پوچھا تھا کہ کیا آپ جانتی ہیں کہ یہ کس خاتون کی تصویر ہے؟ کیٹی کیورک نے تصویر کو بغور دیکھنے کے بعد اپنی لاعلمی کا اظہار کیا تھا اور یہی لمحہ تھا جب اس کی شامت آگئی تھی۔
ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے کیٹی کیورک کو بتایا تھا اور پھر یہ واضح بھی کیا تھا کہ ان کے ہاتھ میں تھامی ہوئی تصویر شہید ِحجاب ماروا علی الشربینی کی ہے جسے سرعدالت اور پولیس کی موجودگی کے باوجود ایک بھرے مجمعے کے سامنے ایک انتہاءپسند جرمن نے قتل کر دیا تھا مگر مغربی میڈیا نے یہ خبر محض اس لئے دبا دی تھی کہ اس سے مغربی لوگوں کی انتہا پسندی مذہبی جنونیت اور بے حسی منظرعام پر آتی ہے۔
اتنا بتانے کے بعد احمدی نژاد نے جی بھر کر مغربی دنیا اور اس کے میڈیاکو ذلیل کیا تھا ۔ احمدی نژاد کے اس انٹرویو کا یہ فائدہ ہوا ہے کہ جس خبر کو مغربی میڈیا جتنا چھپانا چاہتا تھا وہ اتنی ہی زیادہ کھل کر سامنے آگئی ہے کیونکہ اکتوبر کے مہینے کا آغاز ہوتے ہی جس موضوع پر سب سے زیادہ سرچ کی گئی ہے وہ شہیدِ حجاب ماروا علی الشربینی کا موضوع ہی ہے یوں امریکہ اور یورپ کی نوجوان نسل کو یہ علم ہوگیا ہے کہ شہید ِحجاب ماروا علی الشربینی کون تھی ؟
سیانے سچ ہی کہتے ہیں کہ ا ستاد استاد ہی ہوتا ہے اوراستاد سے متھا لگانے والا ہمیشہ ذلیل ہی ہوتا ہے۔
بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل
No comments:
Post a Comment