تحریر: فرخ صدیقی
ڈالر کی عزت بچانے کیلئے امریکی یہودیوں کا نیا کھیل شروع
ڈالر بچانے کی یہ سرد جنگ، امریکہ چین، روس، وینزویلا اور ایران کے درمیان کھیلی جارہی ہے۔
بیجنگ - امریکہ میں صہیونی یہودیوں کے پھیلائے گئے مصنوعی معاشی طوفان کے بعد جہاں چین نے امریکی ڈالر سے جان چھڑانے کی منصوبہ بندی کر لی ہے وہیں یہودی نئی بوتل میں پرانی شراب کے مصداق “گولڈ ڈالر“ جاری کرنے کے چکر میں امریکی عوام کو دوبارہ گمراہ کرتے نظر آتے ہیں۔
بیجنگ کے معاشی نظام کے پیچھے بیٹھے افراد جہاں ایک طرف امریکہ کے قرضوں کی دھڑا دھڑ خریداری کر رہے ہیں وہیں وہ ان قرضے کے معاہدوں کی تجدید میں ڈالر کی جگہ اپنی کرنسی یوآن سے بدل کر ان قرضوں کو بیچتے بھی نظر آتے ہیں۔
سودی نظام جس کے بانی یہودی ہیں اور اس کام میں انکا کوئی ثانی نہیں، آج چین نے اس خیال کو غلط ثابت کردیا ہے اور صہیونی فیڈرل ریزرو بینک ڈالر کے اس کھیل میں نئے پتے پھینکنے کے باوجود پریشان ہے۔
چین، روس، وینزویلا اور ایران میں بیٹھے ڈالر مخالف یہ کھلاڑی جو ایکطرف ڈالر کو مٹی میں رولنا چاہتے ہیں وہیں انھوں نے اپنی کرنسی کی قدر میں کمی کرنا شروع کردی ہے جو جان بوجھ کر کمی کی جارہی ہے۔
اس کمی سے جہاں امریکی قرضوں کی ادائیگی میں آسانیاں پیدا ہو رہی ہیں وہیں ان ممالک کی ایکسپورٹ میں خاطر خواہ اضافہ ہورہا ہے اور ایسے اضافہ کا مطلب ہے مزید صنعتیں اور مزید روزگار کے مواقع۔
ڈالر کے گرد گھیرا ڈلتے دیکھ کر اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ ڈالر کا وجود خطرے میں ہے تو شائد آپ ٹھیک ہی سوچ ہے ہیں لیکن یہ یاد رکھیے کہ تقریباً ایک صدی تک اس کاغذ کو عالمی کرنسی منوانے والے یہودی بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے۔
یہودیوں کے ذاتی بینک فیڈرل ریزرو بینک جو ڈالر کا موجد بھی ہے نے نئے نام “گولڈ ڈالر“ کے نام سے نئی کرنسی کے اجراء کی تیاریاں کر لی ہیں۔ امریکی عوام کو اب یہ کہہ کر الو بنایا جارہا ہے کہ یہ گولڈ ڈالر سانے کے ان ذخائر کے برابر چھاپے جا رہے ہیں جو فیڈرل ریزرو بینک کے پاس موجود ہیں۔
1862ء سے پہلے امریکی عوام سونے کے سکے ہی استعمال کر رہے تھے، اسوقت بھی انھیں سکوں کو کومت وقت میں موجود یہودیوں نے ضبط کر کے ان کے عوض کاغذ کے ڈالر تھما دیے اور یہی کھیل نئی شکل اور اصولوں کیساتھ دوبارہ کھیلا جائیگا۔
تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ یہ گولڈ ڈالر نئی بوتل میں پرانی شراب کے مصداق ہیں جو نہ چاہتے ہوئے بھی امریکی عوام کے حلق میں دوبارہ انڈیلی جائیگی۔
ڈالر کے لٹنے کے تناظر میں یہودی یورو کو بھی متبادل کرنسی کے طور پر متعارف کروانا چاہ رہے ہیں تاکہ جو ایسے نہ پھنسے وہ ویسے پھنس جائے۔ کوئی گولڈ ڈالر لے نہ لے لیکن یورو سے بچ کر تو مشکل ہی نکل پائے گا۔
اس مسئلہ کا حل کرنے کیلئے چین ان مغربی ممالک جن کیساتھ اسکی تجارت اور لین دین عروج پر ہے، ایسے معاہدے کر رہا ہے جن کی رو سے وہ ممالک چینی کرنسی ہی میں چین کو اور آپس میں بھی چینی کرنسی ہی میں ادائیگی کرسکیں گے، جو عملی اور کاروباری طور پر ان ممالک کے لئے آسان بھی ہوگا اور منافع بخش بھی۔
اسکی ایک مثال بیلارس، انڈونیشیا اور ملائیشیا ہیں، یہ ممالک چین کیساتھ اور آپس میں ڈالر کو بیچ میں لائے بغیر چینی کرنسی میں تجارت کر رہے ہیں اور چین کیساتھ بھی۔
امریکی یہودیوں کی پوری کوشش ہے کہ ایسے تجارتی معاہدوں کو مزید پھیلنے سے روکا جائے جس کیلئے وہ سرد جنگ کیساتھ ساتھ چین کیخلاف دیگر دہشتگرد قوتوں کو بھی چین کے حالات خراب کروانے پر کام کر رہے ہیں، یغور میں مسلم کش فسادات اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جس میں قازقستانی یہودی ملوث پائے گئے۔
آنے والے چند ماہ شاید ڈالر کی موت و حیات کا فیصلہ تو نہ کر پائیں لیکن اس بات کی وضاحت ضرور کریں گے کہ آئندہ دہائی کی عالمی کرنسی بننے کا تاج کس ملک کے سر جائیگا۔
بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل
ڈالر بچانے کی یہ سرد جنگ، امریکہ چین، روس، وینزویلا اور ایران کے درمیان کھیلی جارہی ہے۔
بیجنگ - امریکہ میں صہیونی یہودیوں کے پھیلائے گئے مصنوعی معاشی طوفان کے بعد جہاں چین نے امریکی ڈالر سے جان چھڑانے کی منصوبہ بندی کر لی ہے وہیں یہودی نئی بوتل میں پرانی شراب کے مصداق “گولڈ ڈالر“ جاری کرنے کے چکر میں امریکی عوام کو دوبارہ گمراہ کرتے نظر آتے ہیں۔
بیجنگ کے معاشی نظام کے پیچھے بیٹھے افراد جہاں ایک طرف امریکہ کے قرضوں کی دھڑا دھڑ خریداری کر رہے ہیں وہیں وہ ان قرضے کے معاہدوں کی تجدید میں ڈالر کی جگہ اپنی کرنسی یوآن سے بدل کر ان قرضوں کو بیچتے بھی نظر آتے ہیں۔
سودی نظام جس کے بانی یہودی ہیں اور اس کام میں انکا کوئی ثانی نہیں، آج چین نے اس خیال کو غلط ثابت کردیا ہے اور صہیونی فیڈرل ریزرو بینک ڈالر کے اس کھیل میں نئے پتے پھینکنے کے باوجود پریشان ہے۔
چین، روس، وینزویلا اور ایران میں بیٹھے ڈالر مخالف یہ کھلاڑی جو ایکطرف ڈالر کو مٹی میں رولنا چاہتے ہیں وہیں انھوں نے اپنی کرنسی کی قدر میں کمی کرنا شروع کردی ہے جو جان بوجھ کر کمی کی جارہی ہے۔
اس کمی سے جہاں امریکی قرضوں کی ادائیگی میں آسانیاں پیدا ہو رہی ہیں وہیں ان ممالک کی ایکسپورٹ میں خاطر خواہ اضافہ ہورہا ہے اور ایسے اضافہ کا مطلب ہے مزید صنعتیں اور مزید روزگار کے مواقع۔
ڈالر کے گرد گھیرا ڈلتے دیکھ کر اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ ڈالر کا وجود خطرے میں ہے تو شائد آپ ٹھیک ہی سوچ ہے ہیں لیکن یہ یاد رکھیے کہ تقریباً ایک صدی تک اس کاغذ کو عالمی کرنسی منوانے والے یہودی بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے۔
یہودیوں کے ذاتی بینک فیڈرل ریزرو بینک جو ڈالر کا موجد بھی ہے نے نئے نام “گولڈ ڈالر“ کے نام سے نئی کرنسی کے اجراء کی تیاریاں کر لی ہیں۔ امریکی عوام کو اب یہ کہہ کر الو بنایا جارہا ہے کہ یہ گولڈ ڈالر سانے کے ان ذخائر کے برابر چھاپے جا رہے ہیں جو فیڈرل ریزرو بینک کے پاس موجود ہیں۔
1862ء سے پہلے امریکی عوام سونے کے سکے ہی استعمال کر رہے تھے، اسوقت بھی انھیں سکوں کو کومت وقت میں موجود یہودیوں نے ضبط کر کے ان کے عوض کاغذ کے ڈالر تھما دیے اور یہی کھیل نئی شکل اور اصولوں کیساتھ دوبارہ کھیلا جائیگا۔
تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ یہ گولڈ ڈالر نئی بوتل میں پرانی شراب کے مصداق ہیں جو نہ چاہتے ہوئے بھی امریکی عوام کے حلق میں دوبارہ انڈیلی جائیگی۔
ڈالر کے لٹنے کے تناظر میں یہودی یورو کو بھی متبادل کرنسی کے طور پر متعارف کروانا چاہ رہے ہیں تاکہ جو ایسے نہ پھنسے وہ ویسے پھنس جائے۔ کوئی گولڈ ڈالر لے نہ لے لیکن یورو سے بچ کر تو مشکل ہی نکل پائے گا۔
اس مسئلہ کا حل کرنے کیلئے چین ان مغربی ممالک جن کیساتھ اسکی تجارت اور لین دین عروج پر ہے، ایسے معاہدے کر رہا ہے جن کی رو سے وہ ممالک چینی کرنسی ہی میں چین کو اور آپس میں بھی چینی کرنسی ہی میں ادائیگی کرسکیں گے، جو عملی اور کاروباری طور پر ان ممالک کے لئے آسان بھی ہوگا اور منافع بخش بھی۔
اسکی ایک مثال بیلارس، انڈونیشیا اور ملائیشیا ہیں، یہ ممالک چین کیساتھ اور آپس میں ڈالر کو بیچ میں لائے بغیر چینی کرنسی میں تجارت کر رہے ہیں اور چین کیساتھ بھی۔
امریکی یہودیوں کی پوری کوشش ہے کہ ایسے تجارتی معاہدوں کو مزید پھیلنے سے روکا جائے جس کیلئے وہ سرد جنگ کیساتھ ساتھ چین کیخلاف دیگر دہشتگرد قوتوں کو بھی چین کے حالات خراب کروانے پر کام کر رہے ہیں، یغور میں مسلم کش فسادات اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جس میں قازقستانی یہودی ملوث پائے گئے۔
آنے والے چند ماہ شاید ڈالر کی موت و حیات کا فیصلہ تو نہ کر پائیں لیکن اس بات کی وضاحت ضرور کریں گے کہ آئندہ دہائی کی عالمی کرنسی بننے کا تاج کس ملک کے سر جائیگا۔
بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل
No comments:
Post a Comment