تحریر: ڈاکٹر عصمت علوی
جب میں امریکہ میں تھا تب میری رہائش ایک سرکاری ہسپتال میں تھی۔ میری ڈیوٹی خواتین کے یورالوجی وارڈ میں تھی جب کہ میرا ایک کلاس فیلو مردوں کے یورالوجی وارڈ میں متعین تھا۔
ایسا ہوتا تو نہیں ہے مگر میرا وہ کلاس فیلو ایک مریض سے بطور خاص میری ملاقات کروانے کے لئے مجھے اپنے وارڈ میں لے کر گیا تھا۔ وہ مریض انواع واقسام کی جنسی بیماریوں میں مبتلا تھا یہاں تک کہ اس کے اعضاء تناسل گل بھی چکے تھے اور اپنی شکل و صورت بھی بدل چکے تھے بلکہ اسے کینسر بھی ہو چکا تھا۔
مگر یہ کوئی خاص بات نہ تھی کیونکہ آئے دن ہما را واسطہ ایسے مریضوں سے پڑتا ہی رہتا ہے۔ بلکہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جو معاشرے جنسی آزادی کے دعوے دار ہیں وہاں پر سوزاک آتشک چلیمیڈیا (کلیمیڈیا ) اور ایڈز وغیرہ کے مریضوں کی کوئی بھی کمی نہیں ہے ۔
خاص بات تو یہ تھی کہ وہ مریض پچھلے کئی برس سے اپنی بیماری کے باعث فرائض زوجیت ادا کرنے کے قابل نہ تھا مگر پھر بھی اس کی ادھیڑ عمر بیوی کی گود میں اس کی اپنی کوکھ سے جنم لینے والا ایک یا ڈیڑھ سال کا بچہ ہمک رہاتھا۔
امریکہ جیسے ملک میں یہ بات بھی کوئی خاص بات نہ تھی کیونکہ وہاں پر کچھ جوڑے مصنوعی تخم ریزی(آرٹیفیشل انسیمی نیشن) کے ذریعے سے اپنی بیویوں کو حاملہ کروا لیتے ہیں یعنی کہ جن مردوں کے سیمن میں سپرم نہیں ہوتے ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ وہ خود تو باپ نہیں بن سکتے مگر اس کا بھی ایک حل مغرب کے آزاد منش معاشرے کے پاس ہے وہ یوں کہ ایسے مرد کسی غیر اور اجنبی مرد کے صحت مند سپرم (جنسی کیڑے) کے ذریعے سے اپنی بیوی کو حاملہ کروالیتے ہیں۔
آج سے بیس برس قبل یہ عمل اتنا زیادہ عام نہ تھا جتنا اب عام ہو چکا ہے کیونکہ مختلف طرح کے کیمیکل، کھادیں، پینٹس، ادویات اور طرح طرح کی ریڈیئشن کی زد میں آنے کے سبب ترقی یافتہ ممالک کے تقریباً بیس فیصد مرد بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں اور جیسے جیسے حضرت انسان مزید مادی ترقی کریں گے ویسے ویسے اس تعداد میں مزید اضافے کا قوی امکان ہے۔
کچھ ڈاکٹرز جو کہ مستقبل پر نظر رکھتے ہیں وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جب انسان دوسرے سیاروں (پلینیٹس) کو مسخر کر لے گا تو اس وقت وہ مختلف سیاروں کے درمیان ایسے ہی سپیس کرافٹ کا سفر کیا کرے گا جیسے کہ آج کل بہت سارے لوگ ہوائی جہاز کا سفر کیا کرتے ہیں تو اس دور کا انسان بہت ساری مضر صحت شعاعوں کی زد میں رہا کرے گا۔
تب اس دور کے پچاس فیصد مردوں کے سیمن میں سے صحت مند سپرم ڈھونڈے سے بھی نہیں ملیں گے۔
میل یورالوجی وارڈ کے مریض کی بیوی کا کیس ایسے بھی نہ تھا۔ دراصل وہ اپنے بچے کی ماں ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے بچے کی دادی بھی تھی۔
دراصل اس خاندان کا تعلق ایک گمراہ فرقہ بلکہ یوں کہیے کہ ایک گمراہ مذہب سے تھا جسے شیطان کے پجاری کہتے ہیں اس مذہب والے حصول لذت کے لئے ہر گناہ کو جائز سمجھتے ہیں۔ یعنی کہ جس عمل سے ان کو لذت حاصل ہوتی ہو اس عمل کو اس مذہب کے پیروکار برا نہیں سمجھتے ۔
دراصل ان کا پہلا سبق یا اصول یہی ہے :: شیطان کے کہے پر چلو ::
اس مریض کی بیوی بھی اپنے شوہر کی ہم مذہب اور ہم خیال ہی تھی ۔جب اس کا شوہر بیمار ہو گیا تھا تب اس نے لذت کے حصول کے لئے اپنے نوخیز بیٹے کے ساتھ ہی جنسی تعلقات قائم کر لئے تھے یوں وہ اپنے بیٹے کے بیٹے کی ماں بن گئی تھی۔
اس کے شوہر کو اپنی بیوی کی اس کرتوت پر نہ تو کوئی غصہ تھا اور نہ ہی کوئی رنج تھا بلکہ اس کے برعکس اسے اس بات پر فخر تھا کہ اس کی بیوی نے اس کی دوسری نسل کو خود ہی جنم دے کر شیطان کو خوش کر دیا ہے۔
سبھی لوگ جانتے ہیں کہ کینسر اپنی تیسری سٹیج میں بہت ہی تکلیف دہ ہو جاتا ہے یوں درد اور کرب میں مبتلا مریض کی حالت ہم ڈاکٹروں سے بھی نہیں دیکھی جاتی ۔کچھ برے لوگ اس مرحلے پر توبہ بھی کرلیتے ہیں مگر وہ شخص تو اپنے مذہب کا اتنا پختہ تھا کہ اس نے مرتے دم تک شیطان کی عبادت سے توبہ نہ کی تھی۔
یاد رہے کہ امریکہ میں بہت ساری مشہور ہستیوں کا اس مذہب سے تعلق ہے اور اس مذہب کے پیروکار ہر اخلاقی برائی کا ارتکاب کرتے ہیں چوری نشہ اور زنا تو ان لوگوں کے لئے معمولی کام ہیں وہ تو قتل کرنے اور اپنی محرمات سے زنا کرنے میں بھی دریغ نہیں کرتے۔
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ اس مریض نے میرے دوست ڈاکٹر کو ترغیب دیتے ہوئے کہا تھا کہ اپنے خاندان کی محرم عورت (ماں بہن بیٹی) سے صحبت کرنے میں جو لذت ملتی ہے ویسی لذت کسی غیر عورت سے صحبت کرنے میں نہیں ملتی۔
میرا وہ ڈاکٹر دوست ایک پختہ عقیدے کا کیتھولک ہے ۔ اس نے بہت کوشش کی ہے کہ مرنے والے کا خاندان تائب ہو جائے اور دوبارہ سے عیسائیت قبول کرلے مگر ابھی تک اس کی کوشش بار آور نہیں ہو سکی ہے۔
بلکہ پچھلے دنوں اس نے مجھے یہ اطلاع دی تھی کہ پرنس ایرک (بلیک واٹر کا ڈائریکٹر) نے آج سے اکیس برس قبل اپنی دادی کی کوکھ سے جنم لینے والے حرامی لڑکے کو اپنی کمپنی بلیک واٹر یعنی کہ زی کے ہیڈ کوارٹر میں ایک اہم پوسٹ پر رکھ لیا ہے۔
یاد رہے کہ ایرک ڈی پرنس کی تاریخ پیدائش چھ جون انیس سو انہتر بتائی جاتی ہے جس میں تین عدد چھ موجود ہیں بہت سارے پختہ عقیدے کے عیسائی تین چھ کوشیطانی عدد قرار دیتے ہیں۔
بلکہ ایک کیتھولک پاسٹر نے مجھے یہ بھی بتایا ہے کہ حقیقت میں ایرک پرنس چھ جون انیس سو چھیاسٹھ (06.06.66) کوہی پیدا ہوا ہے مگر اس کوصحیح العقیدہ کٹر کیتھولک (آرتھوڈوکس کرسچین) عیسائیوں کے ہاتھوں سے قتل کئے جانے سے بچانے کے لئے اس کے والدین نے تین سال تک ایرک پرنس کی پیدائش کو دنیا والوں کی نظروں سے چھپائے رکھا تھا ۔
اب تو سبھی پاکستانی یہ حقیقت جانتے ہیں کہ بلیک واٹر صرف انہی لوگوں کو ملازمت دیتی ہے جو کہ فطرتاً جرائم پیشہ ہوں۔ قتل و غارت اور زنا ان کا معمول اور مشغلہ ہو بلکہ بلیک واٹر تو چن چن کر ایسے لوگوں کو ملازمت کی آفر کرتی ہے جو کہ متعدد اخلاقی جرائم کا ارتکاب کرچکے ہوں اور جن کا پولیس ریکارڈ قتل اور زنا سے بھرپور ہو ۔
بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بلیک واٹر کے اکثر ملازمین نے اپنی محرمات سے زنا کا ارتکاب ضرور کیا ہوتا ہے۔ یہ بات تو اب روز روشن کی طرح سے عیاں ہو چکی ہے کہ بلیک واٹر کے ملازمین عراق اور افغانستان میں نو عمر بچوں اور بچیوں سے زنا بالجبر کا ارتکاب کرتے ہی رہتے ہیں کیونکہ ایسی خبریں متعدد بار متعدد اخبارات کی زینت بھی بن چکی ہیں ۔
میری ایک اطلاع کے مطابق صرف افغانستان میں پانچ ہزار سے زائد بچے اور بچیاں لاپتہ ہو چکی ہیں جن کی عمریں تین تین برس سے لے کر آٹھ یا نو برس تک تھیں ۔ ان سے بلیک واٹر کے کئی کئی غنڈوں نے مسلسل کئی کئی گھنٹے تک زنا بالجبر کیا گیا تھا پھرمزید پیسہ کمانے کے لئے ان کے ریپ کی ویڈیوز بھی ان غنڈوں نے خود ہی تیار کر لی تھیں اور اس کے بعد ان معصوموں کو قتل کر دیا گیا تھا۔
مجھے حیرت تو اس بات پر ہے کہ جو واقعات وقوع پذیر ہی نہیں ہوئے ہوتے ان کی ویڈیوز بھی بن جاتی ہیں اور پھر مسلسل کئی کئی دن تک کئی کئی پاکستانی اور انڈین چینلز پر چلتی بھی رہتی ہیں جیسے سوات میں طالبان نے ایک لڑکی کو کوڑے لگائے تھے یا کسی خفیہ مقام پر ایک انویسٹی گیشن سنٹر میں داڑھی والے پشتون کی پاکستانی فوجیوں نے پٹائی اور دھلائی کی تھی۔
اس مقام پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان جھوٹی ویڈیوز چلانے والے چینلز اور ان خودساختہ واقعات پر کئی کئی کالمز لکھنے والے آزاد خیال صحافیوں کو بلیک واٹر کے غنڈوں کا قتل و غارت اور دیگر جرائم کیوں کر نظر نہیں آتے؟ جن جرائم اور قتل و غارت کا ارتکاب بلیک واٹر کے کارندے آئے دن ہمارے وطن پاکستان کے شہروں میں مسلسل اور کھلے عام کئے جا رہے ہیں ۔
میں اکثر یہ سوچتا ہی رہتا ہوں اور خود سے یہ سوال بھی کرتا رہتا ہوں ۔کیا ڈک چینی(سابقہ نائب امریکن صدر) اور ایرک پرنس کی طرح سے ہمارے ملک میں بھی کچھ طبقے شیطان کے پجاری بن چکے ہیں؟
بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل
جب میں امریکہ میں تھا تب میری رہائش ایک سرکاری ہسپتال میں تھی۔ میری ڈیوٹی خواتین کے یورالوجی وارڈ میں تھی جب کہ میرا ایک کلاس فیلو مردوں کے یورالوجی وارڈ میں متعین تھا۔
ایسا ہوتا تو نہیں ہے مگر میرا وہ کلاس فیلو ایک مریض سے بطور خاص میری ملاقات کروانے کے لئے مجھے اپنے وارڈ میں لے کر گیا تھا۔ وہ مریض انواع واقسام کی جنسی بیماریوں میں مبتلا تھا یہاں تک کہ اس کے اعضاء تناسل گل بھی چکے تھے اور اپنی شکل و صورت بھی بدل چکے تھے بلکہ اسے کینسر بھی ہو چکا تھا۔
مگر یہ کوئی خاص بات نہ تھی کیونکہ آئے دن ہما را واسطہ ایسے مریضوں سے پڑتا ہی رہتا ہے۔ بلکہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جو معاشرے جنسی آزادی کے دعوے دار ہیں وہاں پر سوزاک آتشک چلیمیڈیا (کلیمیڈیا ) اور ایڈز وغیرہ کے مریضوں کی کوئی بھی کمی نہیں ہے ۔
خاص بات تو یہ تھی کہ وہ مریض پچھلے کئی برس سے اپنی بیماری کے باعث فرائض زوجیت ادا کرنے کے قابل نہ تھا مگر پھر بھی اس کی ادھیڑ عمر بیوی کی گود میں اس کی اپنی کوکھ سے جنم لینے والا ایک یا ڈیڑھ سال کا بچہ ہمک رہاتھا۔
امریکہ جیسے ملک میں یہ بات بھی کوئی خاص بات نہ تھی کیونکہ وہاں پر کچھ جوڑے مصنوعی تخم ریزی(آرٹیفیشل انسیمی نیشن) کے ذریعے سے اپنی بیویوں کو حاملہ کروا لیتے ہیں یعنی کہ جن مردوں کے سیمن میں سپرم نہیں ہوتے ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ وہ خود تو باپ نہیں بن سکتے مگر اس کا بھی ایک حل مغرب کے آزاد منش معاشرے کے پاس ہے وہ یوں کہ ایسے مرد کسی غیر اور اجنبی مرد کے صحت مند سپرم (جنسی کیڑے) کے ذریعے سے اپنی بیوی کو حاملہ کروالیتے ہیں۔
آج سے بیس برس قبل یہ عمل اتنا زیادہ عام نہ تھا جتنا اب عام ہو چکا ہے کیونکہ مختلف طرح کے کیمیکل، کھادیں، پینٹس، ادویات اور طرح طرح کی ریڈیئشن کی زد میں آنے کے سبب ترقی یافتہ ممالک کے تقریباً بیس فیصد مرد بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں اور جیسے جیسے حضرت انسان مزید مادی ترقی کریں گے ویسے ویسے اس تعداد میں مزید اضافے کا قوی امکان ہے۔
کچھ ڈاکٹرز جو کہ مستقبل پر نظر رکھتے ہیں وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جب انسان دوسرے سیاروں (پلینیٹس) کو مسخر کر لے گا تو اس وقت وہ مختلف سیاروں کے درمیان ایسے ہی سپیس کرافٹ کا سفر کیا کرے گا جیسے کہ آج کل بہت سارے لوگ ہوائی جہاز کا سفر کیا کرتے ہیں تو اس دور کا انسان بہت ساری مضر صحت شعاعوں کی زد میں رہا کرے گا۔
تب اس دور کے پچاس فیصد مردوں کے سیمن میں سے صحت مند سپرم ڈھونڈے سے بھی نہیں ملیں گے۔
میل یورالوجی وارڈ کے مریض کی بیوی کا کیس ایسے بھی نہ تھا۔ دراصل وہ اپنے بچے کی ماں ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے بچے کی دادی بھی تھی۔
دراصل اس خاندان کا تعلق ایک گمراہ فرقہ بلکہ یوں کہیے کہ ایک گمراہ مذہب سے تھا جسے شیطان کے پجاری کہتے ہیں اس مذہب والے حصول لذت کے لئے ہر گناہ کو جائز سمجھتے ہیں۔ یعنی کہ جس عمل سے ان کو لذت حاصل ہوتی ہو اس عمل کو اس مذہب کے پیروکار برا نہیں سمجھتے ۔
دراصل ان کا پہلا سبق یا اصول یہی ہے :: شیطان کے کہے پر چلو ::
اس مریض کی بیوی بھی اپنے شوہر کی ہم مذہب اور ہم خیال ہی تھی ۔جب اس کا شوہر بیمار ہو گیا تھا تب اس نے لذت کے حصول کے لئے اپنے نوخیز بیٹے کے ساتھ ہی جنسی تعلقات قائم کر لئے تھے یوں وہ اپنے بیٹے کے بیٹے کی ماں بن گئی تھی۔
اس کے شوہر کو اپنی بیوی کی اس کرتوت پر نہ تو کوئی غصہ تھا اور نہ ہی کوئی رنج تھا بلکہ اس کے برعکس اسے اس بات پر فخر تھا کہ اس کی بیوی نے اس کی دوسری نسل کو خود ہی جنم دے کر شیطان کو خوش کر دیا ہے۔
سبھی لوگ جانتے ہیں کہ کینسر اپنی تیسری سٹیج میں بہت ہی تکلیف دہ ہو جاتا ہے یوں درد اور کرب میں مبتلا مریض کی حالت ہم ڈاکٹروں سے بھی نہیں دیکھی جاتی ۔کچھ برے لوگ اس مرحلے پر توبہ بھی کرلیتے ہیں مگر وہ شخص تو اپنے مذہب کا اتنا پختہ تھا کہ اس نے مرتے دم تک شیطان کی عبادت سے توبہ نہ کی تھی۔
یاد رہے کہ امریکہ میں بہت ساری مشہور ہستیوں کا اس مذہب سے تعلق ہے اور اس مذہب کے پیروکار ہر اخلاقی برائی کا ارتکاب کرتے ہیں چوری نشہ اور زنا تو ان لوگوں کے لئے معمولی کام ہیں وہ تو قتل کرنے اور اپنی محرمات سے زنا کرنے میں بھی دریغ نہیں کرتے۔
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ اس مریض نے میرے دوست ڈاکٹر کو ترغیب دیتے ہوئے کہا تھا کہ اپنے خاندان کی محرم عورت (ماں بہن بیٹی) سے صحبت کرنے میں جو لذت ملتی ہے ویسی لذت کسی غیر عورت سے صحبت کرنے میں نہیں ملتی۔
میرا وہ ڈاکٹر دوست ایک پختہ عقیدے کا کیتھولک ہے ۔ اس نے بہت کوشش کی ہے کہ مرنے والے کا خاندان تائب ہو جائے اور دوبارہ سے عیسائیت قبول کرلے مگر ابھی تک اس کی کوشش بار آور نہیں ہو سکی ہے۔
بلکہ پچھلے دنوں اس نے مجھے یہ اطلاع دی تھی کہ پرنس ایرک (بلیک واٹر کا ڈائریکٹر) نے آج سے اکیس برس قبل اپنی دادی کی کوکھ سے جنم لینے والے حرامی لڑکے کو اپنی کمپنی بلیک واٹر یعنی کہ زی کے ہیڈ کوارٹر میں ایک اہم پوسٹ پر رکھ لیا ہے۔
یاد رہے کہ ایرک ڈی پرنس کی تاریخ پیدائش چھ جون انیس سو انہتر بتائی جاتی ہے جس میں تین عدد چھ موجود ہیں بہت سارے پختہ عقیدے کے عیسائی تین چھ کوشیطانی عدد قرار دیتے ہیں۔
بلکہ ایک کیتھولک پاسٹر نے مجھے یہ بھی بتایا ہے کہ حقیقت میں ایرک پرنس چھ جون انیس سو چھیاسٹھ (06.06.66) کوہی پیدا ہوا ہے مگر اس کوصحیح العقیدہ کٹر کیتھولک (آرتھوڈوکس کرسچین) عیسائیوں کے ہاتھوں سے قتل کئے جانے سے بچانے کے لئے اس کے والدین نے تین سال تک ایرک پرنس کی پیدائش کو دنیا والوں کی نظروں سے چھپائے رکھا تھا ۔
اب تو سبھی پاکستانی یہ حقیقت جانتے ہیں کہ بلیک واٹر صرف انہی لوگوں کو ملازمت دیتی ہے جو کہ فطرتاً جرائم پیشہ ہوں۔ قتل و غارت اور زنا ان کا معمول اور مشغلہ ہو بلکہ بلیک واٹر تو چن چن کر ایسے لوگوں کو ملازمت کی آفر کرتی ہے جو کہ متعدد اخلاقی جرائم کا ارتکاب کرچکے ہوں اور جن کا پولیس ریکارڈ قتل اور زنا سے بھرپور ہو ۔
بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بلیک واٹر کے اکثر ملازمین نے اپنی محرمات سے زنا کا ارتکاب ضرور کیا ہوتا ہے۔ یہ بات تو اب روز روشن کی طرح سے عیاں ہو چکی ہے کہ بلیک واٹر کے ملازمین عراق اور افغانستان میں نو عمر بچوں اور بچیوں سے زنا بالجبر کا ارتکاب کرتے ہی رہتے ہیں کیونکہ ایسی خبریں متعدد بار متعدد اخبارات کی زینت بھی بن چکی ہیں ۔
میری ایک اطلاع کے مطابق صرف افغانستان میں پانچ ہزار سے زائد بچے اور بچیاں لاپتہ ہو چکی ہیں جن کی عمریں تین تین برس سے لے کر آٹھ یا نو برس تک تھیں ۔ ان سے بلیک واٹر کے کئی کئی غنڈوں نے مسلسل کئی کئی گھنٹے تک زنا بالجبر کیا گیا تھا پھرمزید پیسہ کمانے کے لئے ان کے ریپ کی ویڈیوز بھی ان غنڈوں نے خود ہی تیار کر لی تھیں اور اس کے بعد ان معصوموں کو قتل کر دیا گیا تھا۔
مجھے حیرت تو اس بات پر ہے کہ جو واقعات وقوع پذیر ہی نہیں ہوئے ہوتے ان کی ویڈیوز بھی بن جاتی ہیں اور پھر مسلسل کئی کئی دن تک کئی کئی پاکستانی اور انڈین چینلز پر چلتی بھی رہتی ہیں جیسے سوات میں طالبان نے ایک لڑکی کو کوڑے لگائے تھے یا کسی خفیہ مقام پر ایک انویسٹی گیشن سنٹر میں داڑھی والے پشتون کی پاکستانی فوجیوں نے پٹائی اور دھلائی کی تھی۔
اس مقام پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان جھوٹی ویڈیوز چلانے والے چینلز اور ان خودساختہ واقعات پر کئی کئی کالمز لکھنے والے آزاد خیال صحافیوں کو بلیک واٹر کے غنڈوں کا قتل و غارت اور دیگر جرائم کیوں کر نظر نہیں آتے؟ جن جرائم اور قتل و غارت کا ارتکاب بلیک واٹر کے کارندے آئے دن ہمارے وطن پاکستان کے شہروں میں مسلسل اور کھلے عام کئے جا رہے ہیں ۔
میں اکثر یہ سوچتا ہی رہتا ہوں اور خود سے یہ سوال بھی کرتا رہتا ہوں ۔کیا ڈک چینی(سابقہ نائب امریکن صدر) اور ایرک پرنس کی طرح سے ہمارے ملک میں بھی کچھ طبقے شیطان کے پجاری بن چکے ہیں؟
بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل