تحریر: خادم الاسلام والمسلمین، ڈاکٹر عصمت حیات علوی، ہانگ کانگ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
جب سے اوبامہ انتظامیہ امریکہ میں بر سراقتدار آئی ہے ،اس دن سے پاکستان کے قبائلی علاقوں پر ڈرون طیاروں کے حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو کہ ہمارے ملک کے کچھ حلقوں کے لیے غیرمتوقع ہے۔ حالانکہ امریکی پالیسوں پر گہری نظر رکھنے والے اس اضافے کی توقع کر رہے تھے بلکہ امریکہ کی پالیسیوں کی اندرونی خبر رکھنے والے کچھ حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ آئندہ موسم بہارسے قبل پاکستان میں کئے جانے والے ڈرون حملوں میں سو فیصد تیزی آسکتی ہے اور پاکستان کے کچھ مزید علاقے بھی اس کی زد میں آسکتے ہیں۔
جب بھی پاکستان کے کسی علاقے پر کسی ڈرون کا حملہ ہوتا ہے تو پاکستانی حکومت کا کوئی نہ کوئی اہم آدمی اس حملے پر احتجاج کرتا ہے اور عوام الناس پر یہی ظاہر کرتا ہے کہ حکومت پاکستان نہ صرف اس حملے کے خلاف صریحاً خلاف ہے بلکہ یہ ڈرون حملہ اس کی لاعلمی اور اجازت کے بغیر کیا گیا ہے۔ حالانکہ سبھی باخبر حلقے یہ جانتے ہیں کہ پاکستانی انتظامیہ نہ صرف جھوٹ بول رہی ہے بلکہ عوام الناس کو بے وقوف بھی بنا رہی ہے۔ پاکستانی علاقوں پر ڈرون حملوں کا آغاز مشرف دور میں اس وقت کیا گیا تھا جب امریکن اور اتحادی افواج کو بھاری جانی نقصانات اٹھانے پڑے تھے۔ اس دور میں امریکن انٹیلی جنس اداروں کی اطلاع پر امریکن زمینی دستوں نے پاک افغان سرحد پار کرکے پاکستانی علاقوں میں کاروائیاں کی تھیں اور بھاری جانی نقصانات بھی اٹھائے تھے کیوں کہ بعض اوقات طالبان کے ٹھکانوں کی اطلاع کرنے والے لوگ بذات خود طالبان ہی ہوا کرتے تھے۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ پرویزی دور میں جب بھی امریکن پاکستان میں داخل ہوا کرتے تھے ۔ہمارے حکام کو اس کی اطلاع ہوا کرتی تھی ۔یہ الگ بات ہے کہ آج کے دور کی طرح سے اس دور میں بھی حکام یہی ڈرامہ بازی کرتے تھے کہ یہ تمام زمینی کاروائیاں ان کی لاعلمی میں کی جا رہی ہیں۔ پھر امریکن گورنمنٹ نے بھاری جانی نقصانات سے بچنے کی خاطر ڈرون طیاروں کے استعمال کا فیصلہ کرلیا تھا ۔ اس سلسلے میں سابقہ امریکن صدر بش نے ایک باقاعدہ اجلاس میں ان حملوں کی باقاعدہ منظوری دی تھی ،بلکہ ان اداروں کا تعین بھی کیا تھاجنہوں نے اس سارے آپریشن کی نگرانی کرنا تھی۔ امریکن خفیہ ادارہ سی آئی اے ان اداروں میں سے ایک ادارہ ہے جو کہ ڈرون طیاروں کی پرواز، وقت، علاقے اور ٹارگٹ کا تعین کرتے ہیں۔
جب امریکن گورنمنٹ نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ آئند ہ سے پاکستانی علاقوں میں طالبان یا اسلام پسندوں کے خلاف زمینی کاروائی کی بجائے بغیر پائلٹ کے ہوائی جہاز ڈرون استعمال کئے جائیں گے ،تب امریکن انتظامیہ نے اس وقت کے پاکستانی آمر سے باقاعدہ ایک تحریری معاہدہ کیا تھا۔ مشرف نے کچھ پابندیوں کےساتھ ان حملوں کی اجازت دے دی تھی۔ ان پابندیوں کی موجودگی میں امریکن اپنے ہاتھوں کو بندھا ہوا محسوس کرتے تھے ۔ کیونکہ ان پابندیوں میں سے ایک پابندی یہ بھی تھی کہ امریکن ڈرون حملے سے پیشتر ٹارگٹ، ٹائم اور ٹیری ٹوری کے متعلق پاکستانی حکام کو مطلع کریں گے۔ مگر اب وہی امریکن حکام مشرف کے ریٹائر ہونے کے بعد اس پر بدعہدی اور امریکہ سے غداری کا الزام لگا رہے ہیں۔
اب امریکن حکام اپنے ہاتھوں کو بندھا ہوا محسوس نہیں کرتے کیونکہ موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے چند ہفتوں کے اندر ہی اندر امریکن حکومت نے پاکستانی حکام سے ایک نیا معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے کی رو سے ڈرون طیاروں کی کاروائی پر عائد بہت ساری پابندیاں یکسر ختم کردی گئی ہیں ۔یہاں تک کہ اب امریکنوں کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ نہ صرف تمام قبائلی علاقوں میں بلکہ بلوچستان، صوبہ سرحد اور پنجاب کے جنوبی اضلاع میں بھی آزادانہ کاروائیاں کر سکتے ہیں۔ یہ جو میڈیا میں پچھلے کئی ماہ سے ایک تواتر سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پنجاب کے جنوبی اضلاع میں شدت پسندوں کے ٹھکانے ہیں یا پھر اب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ سواتی پشتونوں کے بھیس میں کچھ شدت پسند پنجاب اور سندھ کے علاقوں میں داخل ہو چکے ہیں۔ یہ سب ہماری ذہن سازی ہے۔
تاکہ کل کلاں جب امریکن ڈرون کے ذریعے سے بلوچستان کے کچھ علاقوں پر کاروائی کریں تو عوام الناس زیادہ شدید احتجاج نہ کریں بلکہ الٹا ہم ہی ایک دوسرے کو یوں سمجھائیں کہ دیکھو امریکن کتنے اچھے ہیں کہ شدت پسند تو پنجاب اور سندھ میں بھی چھپے ہوئے ہیں مگر امریکنوں نے ان پر حملہ نہیں کیا کیونکہ وہ سویلین کی جانوں کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ یوں امریکن ہمارے صوبے بلوچستان کی فضائی حدود میں اس دن کاروائی کریں گے جس دن ان کو یہ یقین ہو جائے گا کہ پاکستان کی رائے عامہ ہموار ہو چکی ہے۔ ورنہ بش حکومت کے دور میں ہونے والے ایک معاہدے کی رو سے امر یکہ پورے پاکستان کے اندر کسی بھی جگہ ،کسی بھی ٹارگٹ کو کسی بھی وقت نشانہ بنا سکتا ہے اور امریکہ کو ایسا کرنے سے صرف اور صرف عوامی مخالفت کا خوف مانع رکھے ہوئے ہے ۔
کچھ دن قبل ہی ایک امریکن تھنک ٹینک کہہ رہا تھا کہ موسم بہار سے قبل ہم اپنے آپریشنز کا پھیلاؤ بلوچستان تک بڑھا دیں گے کیونکہ اب تک آدھے پاکستانی کنونس ہو چکے ہیں کہ بلوچستان میں چھپے ہوئے شدت پسند علیٰحدگی پسند ہیں اور میں اس کی یہ بات سن کر یہ سوچ رہا تھا کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ امریکن صرف صوبہ بلوچستان تک ہی محدود رہیں گے اور اس کے بعد مزید آگے نہیں بڑھیں گے ؟
بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
جب سے اوبامہ انتظامیہ امریکہ میں بر سراقتدار آئی ہے ،اس دن سے پاکستان کے قبائلی علاقوں پر ڈرون طیاروں کے حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو کہ ہمارے ملک کے کچھ حلقوں کے لیے غیرمتوقع ہے۔ حالانکہ امریکی پالیسوں پر گہری نظر رکھنے والے اس اضافے کی توقع کر رہے تھے بلکہ امریکہ کی پالیسیوں کی اندرونی خبر رکھنے والے کچھ حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ آئندہ موسم بہارسے قبل پاکستان میں کئے جانے والے ڈرون حملوں میں سو فیصد تیزی آسکتی ہے اور پاکستان کے کچھ مزید علاقے بھی اس کی زد میں آسکتے ہیں۔
جب بھی پاکستان کے کسی علاقے پر کسی ڈرون کا حملہ ہوتا ہے تو پاکستانی حکومت کا کوئی نہ کوئی اہم آدمی اس حملے پر احتجاج کرتا ہے اور عوام الناس پر یہی ظاہر کرتا ہے کہ حکومت پاکستان نہ صرف اس حملے کے خلاف صریحاً خلاف ہے بلکہ یہ ڈرون حملہ اس کی لاعلمی اور اجازت کے بغیر کیا گیا ہے۔ حالانکہ سبھی باخبر حلقے یہ جانتے ہیں کہ پاکستانی انتظامیہ نہ صرف جھوٹ بول رہی ہے بلکہ عوام الناس کو بے وقوف بھی بنا رہی ہے۔ پاکستانی علاقوں پر ڈرون حملوں کا آغاز مشرف دور میں اس وقت کیا گیا تھا جب امریکن اور اتحادی افواج کو بھاری جانی نقصانات اٹھانے پڑے تھے۔ اس دور میں امریکن انٹیلی جنس اداروں کی اطلاع پر امریکن زمینی دستوں نے پاک افغان سرحد پار کرکے پاکستانی علاقوں میں کاروائیاں کی تھیں اور بھاری جانی نقصانات بھی اٹھائے تھے کیوں کہ بعض اوقات طالبان کے ٹھکانوں کی اطلاع کرنے والے لوگ بذات خود طالبان ہی ہوا کرتے تھے۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ پرویزی دور میں جب بھی امریکن پاکستان میں داخل ہوا کرتے تھے ۔ہمارے حکام کو اس کی اطلاع ہوا کرتی تھی ۔یہ الگ بات ہے کہ آج کے دور کی طرح سے اس دور میں بھی حکام یہی ڈرامہ بازی کرتے تھے کہ یہ تمام زمینی کاروائیاں ان کی لاعلمی میں کی جا رہی ہیں۔ پھر امریکن گورنمنٹ نے بھاری جانی نقصانات سے بچنے کی خاطر ڈرون طیاروں کے استعمال کا فیصلہ کرلیا تھا ۔ اس سلسلے میں سابقہ امریکن صدر بش نے ایک باقاعدہ اجلاس میں ان حملوں کی باقاعدہ منظوری دی تھی ،بلکہ ان اداروں کا تعین بھی کیا تھاجنہوں نے اس سارے آپریشن کی نگرانی کرنا تھی۔ امریکن خفیہ ادارہ سی آئی اے ان اداروں میں سے ایک ادارہ ہے جو کہ ڈرون طیاروں کی پرواز، وقت، علاقے اور ٹارگٹ کا تعین کرتے ہیں۔
جب امریکن گورنمنٹ نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ آئند ہ سے پاکستانی علاقوں میں طالبان یا اسلام پسندوں کے خلاف زمینی کاروائی کی بجائے بغیر پائلٹ کے ہوائی جہاز ڈرون استعمال کئے جائیں گے ،تب امریکن انتظامیہ نے اس وقت کے پاکستانی آمر سے باقاعدہ ایک تحریری معاہدہ کیا تھا۔ مشرف نے کچھ پابندیوں کےساتھ ان حملوں کی اجازت دے دی تھی۔ ان پابندیوں کی موجودگی میں امریکن اپنے ہاتھوں کو بندھا ہوا محسوس کرتے تھے ۔ کیونکہ ان پابندیوں میں سے ایک پابندی یہ بھی تھی کہ امریکن ڈرون حملے سے پیشتر ٹارگٹ، ٹائم اور ٹیری ٹوری کے متعلق پاکستانی حکام کو مطلع کریں گے۔ مگر اب وہی امریکن حکام مشرف کے ریٹائر ہونے کے بعد اس پر بدعہدی اور امریکہ سے غداری کا الزام لگا رہے ہیں۔
اب امریکن حکام اپنے ہاتھوں کو بندھا ہوا محسوس نہیں کرتے کیونکہ موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے چند ہفتوں کے اندر ہی اندر امریکن حکومت نے پاکستانی حکام سے ایک نیا معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے کی رو سے ڈرون طیاروں کی کاروائی پر عائد بہت ساری پابندیاں یکسر ختم کردی گئی ہیں ۔یہاں تک کہ اب امریکنوں کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ نہ صرف تمام قبائلی علاقوں میں بلکہ بلوچستان، صوبہ سرحد اور پنجاب کے جنوبی اضلاع میں بھی آزادانہ کاروائیاں کر سکتے ہیں۔ یہ جو میڈیا میں پچھلے کئی ماہ سے ایک تواتر سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پنجاب کے جنوبی اضلاع میں شدت پسندوں کے ٹھکانے ہیں یا پھر اب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ سواتی پشتونوں کے بھیس میں کچھ شدت پسند پنجاب اور سندھ کے علاقوں میں داخل ہو چکے ہیں۔ یہ سب ہماری ذہن سازی ہے۔
تاکہ کل کلاں جب امریکن ڈرون کے ذریعے سے بلوچستان کے کچھ علاقوں پر کاروائی کریں تو عوام الناس زیادہ شدید احتجاج نہ کریں بلکہ الٹا ہم ہی ایک دوسرے کو یوں سمجھائیں کہ دیکھو امریکن کتنے اچھے ہیں کہ شدت پسند تو پنجاب اور سندھ میں بھی چھپے ہوئے ہیں مگر امریکنوں نے ان پر حملہ نہیں کیا کیونکہ وہ سویلین کی جانوں کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ یوں امریکن ہمارے صوبے بلوچستان کی فضائی حدود میں اس دن کاروائی کریں گے جس دن ان کو یہ یقین ہو جائے گا کہ پاکستان کی رائے عامہ ہموار ہو چکی ہے۔ ورنہ بش حکومت کے دور میں ہونے والے ایک معاہدے کی رو سے امر یکہ پورے پاکستان کے اندر کسی بھی جگہ ،کسی بھی ٹارگٹ کو کسی بھی وقت نشانہ بنا سکتا ہے اور امریکہ کو ایسا کرنے سے صرف اور صرف عوامی مخالفت کا خوف مانع رکھے ہوئے ہے ۔
کچھ دن قبل ہی ایک امریکن تھنک ٹینک کہہ رہا تھا کہ موسم بہار سے قبل ہم اپنے آپریشنز کا پھیلاؤ بلوچستان تک بڑھا دیں گے کیونکہ اب تک آدھے پاکستانی کنونس ہو چکے ہیں کہ بلوچستان میں چھپے ہوئے شدت پسند علیٰحدگی پسند ہیں اور میں اس کی یہ بات سن کر یہ سوچ رہا تھا کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ امریکن صرف صوبہ بلوچستان تک ہی محدود رہیں گے اور اس کے بعد مزید آگے نہیں بڑھیں گے ؟
بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل
No comments:
Post a Comment