تحریر: خادم الاسلام و المسلمین ۔ڈاکٹر عصمت حیات علوی
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
جب بھی القاعدہ کے کسی لیڈر کا کوئی بیان سامنے آتا ہے تو دنیا کے کسی نہ کسی خطے کے مسلمین پر کوئی نہ کوئی امریکن قہر ٹوٹ پڑتا ہے پھر کفار کے چھوٹے اور بڑے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ مسلم ورلڈ کے نام نہاد بکاؤ لیڈر بھی یک زبان ہوکر یہی کہنا شروع کر دیتے کہ دہشت گرد ی کے خلاف جنگ جاری رہیگی اور ظلم کی بات تو یہ ہے کہ دہشت گردی کی کوئی واضح اور متفق تعریف ابھی تک کسی بھی بین الاقوامی ادارے یا حکومت نے طے کرنے ہی نہیں دی ہے تاکہ ریاستی دہشت گردی ان سب کی ماتحتی میں اپنی پوری قوت سے جاری وساری رہے اور دہشت گردی کے خلاف ان کی اپنی اپنی خودساختہ جنگیں بھی جاری و ساری ر ہیں۔
ظلم کی سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ اس ریاستی دہشت گردی کا شکار صرف اور صرف مسلمین ہی بنتے ہیں خواہ یہ ریاستی دہشت گردی اسرائیل کررہا ہو یا پھر پاکستان۔ انڈیا اس ریاستی دہشت گردی کامرتکب ہو رہا ہو یا پھر چین ۔ امریکہ دہشت گردی کا نام لے کر ہمیں ہلاک کر رہا ہو یا پھر روس ۔لاشیں صرف امت مسلمہ کی ہی گرتی ہیں۔ صرف مسلم بچے ہی یتیم ہوتے ہیں اور صرف مسلم خواتین ہی بے سہارا ہوتی ہیں اور صرف مسلمین کی جائدادیں ہی تباہی اور بربادی کا نشانہ بنتی ہیں ۔
جب سے اسامہ بن محمد بن لادن یعنی کہ بن لادن کا نیا پیغام منظر عام پر آیا ہے میں تو اسی وقت سے ہی لرزہ براندام ہوں کیونکہ میں یہ جانتا ہوں کہ اسامہ کے اس نئے پیغام کو بنیاد بنا کر امریکن اور یورپین صلیبی اور تلمودی (داؤدی ۔ چھ کونوں والے ستارے کے پرچم والی) افواج کسی نہ کسی مسلم خطے کو نیست و نابود کرنے کا عزم لے کر اٹھیں گی اور کسی نہ کسی مسلم آبادی کو تہس نہس کر ڈالیں گی۔
اس نئے پیغام کے آنے کے بعد میں ایک پیشن گوئی کرتا ہوں کہ امریکہ پاکستان میں ایک بہت بڑا سرچ آپریشن شروع کرے گا اور اس آپریشن کے نتیجے میں ایک مرحلے پر ہمارے اقتداراعلیٰ پر براہ راست قابض ہو ہی جائے گا کیونکہ اس بڑے اور وسیع آپریشن کی تیاریاں پچھلے ایک سال سے جاری تھیں اور اب جب کہ صہیونی اور ایونجیکل اپنی تیاری مکمل کر چکے ہیں تو انہوں نے اپنی جادو کی پٹاری سے اسامہ بن لادن کا نیا پیغام باہر نکال لیا ہے ۔
اسامہ کے ایک ایسے ہی پیغام کو سننے کے بعد بیت اللہ محسود نے اپنے امریکن دوستوں کو کہا تھا کہ میں مرنے کے بعد زندہ نہیں رہنا چاہتا اس لئے جب تم کو میری ضرورت نہ رہے تو تم مجھ کو “مار“ دینا تاکہ میں زندہ رہ سکوں۔
میرے یہ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ بیت اللہ محسود ہلاک نہیں ہوا بلکہ حقیقت میں ابھی بھی زندہ ہے یہ جو پاکستانی حکام بیت اللہ کی موت کادعویٰ کر رہے ہیں امریکن حکام کے کہنے پر کہہ رہے ہیں ان کے اپنے پاس بیت اللہ محسود کی موت کا کوئی بھی ثبوت نہیں ہے اور پھر امریکن نے بھی تو آج تک کھل کر اور واضح الفاظ میں ایک مرتبہ بھی یہ نہیں کہا ہے کہ بیت اللہ واقعی ہلاک ہو چکا ہے اگر بیت اللہ ہلاک ہو چکا ہے تو اس کی لاش کدھر ہے؟
میری ایک اطلاع کے مطابق بیت اللہ اس وقت کرزئی کے پاس موجود تھا جب اس کے سسر کے گھر پر ڈرون حملہ ہواتھا اور دوسر ی اطلاع یہ ہے کہ آج کل بیت اللہ امریکہ میں موجود ہے کل کلاں کو بیت اللہ بلیک واٹر کے کارندوں کے ہمراہ کسی ویزے اور امیگریشن کے لوازمات بغیر پاکستان آسکتا ہے اور پھر ۔۔۔ ۔
یہ تو ہوئی میری پیشن گوئی ۔اس پیشن گوئی کے سچ ثابت ہونے پر میں کیا معاوضہ چاہتا ہوں ؟
میں یہ چاہتا ہوں کہ جب صہیونی اور ایونجیکل کرسچیئن ہمارے ملک اور دیگر مسلم خطوں پر براہ راست قابض ہو جائیں تو میرے مرنے کے بعدمجھے ایک شاندار مزار میں دفن کر دیا جائے اور پھر وہ مزار بھنگیوں چرسیوں اور دین سے ناآشنا لوگوں کے حوالے کر دیا جائے۔
کیونکہ جس ملک و ملت کے دانش ور طبقات اور حکمران اپنے دشمنوں کے کارندے بن جائیں جس ملک میں ملک و ملت کے زندہ محسن تو قیدو بند میں ڈال دیے جائیں اور مرنے والے محسنین کو یکسر بھلا دیا جائے ایسے ملک کے بے عمل دین داروں اور دانش ور وں، بے غیرت ،لچے اور لعنتی اعلیٰ طبقات اور انتظامیہ والوںسے تو یہ بھنگی چرسی اور بے دین لاکھ درجے بہتر ہیں جو کہ مزار میں دفن اپنے پیر فقیر کے مزار کی حرمت اور تقدس پر آنچ نہیں آنے دیتے اور ہر دم اسے یاد بھی رکھتے ہیں وہ صرف اتنا ہی نہیں کرتے بلکہ ہر سال اپنے مرشدکی یاد میں اس کا عرس بھی مناتے ہیں۔
یہ بھنگی چرسی اور بے دین افراد لائق عزت ہیں کہ بھوکے مر جائیں گے مگر اپنے پیر فقیر کے مزار کی ایک اینٹ تو کیا اس کی قبر کی چادر کا ایک دھاگا بھی فروحت نہیں کریں گے اور اپنے پیر فقیر کی عزت پر قربان بھی ہو جائیں گے جب کہ ہمارے دانش ور سول اور فوجی قیادت اور حکمران طبقات تو بکاؤ مال ہیں کہ پیٹ بھی حلال وحرام مرغن غذاوں سے بھرا ہوا ہے اور تن پر ریشم و کم خواب کے کپڑے بھی ہیں اور اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ بڑے بڑے بنگلے اور جائدادیں بھی ان کی ملکیت ہیں مگر ان کا طمع(لالچ) اتنا زیادہ بڑھ گیا ہے کہ وہ اپنی ماں دھرتی کا سودا بھی کر چکے ہیں اور منہ سے پھوٹتے بھی نہیں ہیں۔
سیانے کہتے ہیں کہ نشہ ہر آدمی کو بے غیرت اور بے حس بنا دیتا ہے مگر میر جعفر اور میرصادق کی یہ بے غیرت اور بے حمیت اولادیں تو بے غیرتی اور بے حسی کی تمام حدیں پھلانگ گئی ہیں ان سے تو وفا کی کوئی بھی امید نہیں کی جا سکتی اگر وفا کی کوئی امید کی جاسکتی ہے تو نشئی بھنگی چرسی اور بے دین لوگوں سے کی جا سکتی ہے جن کے بدن پر پورے کپڑے نہیں ہیں اور پیٹ میں مرغن غذا ئیںبھی نہیں ہےں پھروہ کسی جائداد کے مالک بھی نہیں ہیں کیونکہ ان کی محبت بھی سچی ہوتی ہے اور ان کا عشق بھی کھرا ہوتا ہے۔
آج پاکستان کوایسے عالم فاضل دینداروں، تعلیم یافتہ دانشوروں باوردی یا بے وردی افسروں اور بےحدو حساب دولت اور جائدادوں کے مالکان سرمایہ داروں اور بڑی بڑی جاگیروں کے مالکان جیسے سیانوں کی قطعاً ضرورت نہیں ہے جو کہ بے عمل بھی ہیں اور بے حس بھی اور جن کو اپنی دھرتی ماں سے محبت و عشق بھی نہیں ہے بلکہ ایسے دیوانوں اور مستانوں کی اشد ضرورت ہے جو کہ اپنی مادروطن کی محبت اور عشق میں تمام حدوں سے گزر جائیں یہی سارے مسائل کا حل ہے اور اسی میں ہماری بقا کا راز بھی پنہاں ہے۔
بشکریہ خبریں انٹرنیشنل
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
جب بھی القاعدہ کے کسی لیڈر کا کوئی بیان سامنے آتا ہے تو دنیا کے کسی نہ کسی خطے کے مسلمین پر کوئی نہ کوئی امریکن قہر ٹوٹ پڑتا ہے پھر کفار کے چھوٹے اور بڑے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ مسلم ورلڈ کے نام نہاد بکاؤ لیڈر بھی یک زبان ہوکر یہی کہنا شروع کر دیتے کہ دہشت گرد ی کے خلاف جنگ جاری رہیگی اور ظلم کی بات تو یہ ہے کہ دہشت گردی کی کوئی واضح اور متفق تعریف ابھی تک کسی بھی بین الاقوامی ادارے یا حکومت نے طے کرنے ہی نہیں دی ہے تاکہ ریاستی دہشت گردی ان سب کی ماتحتی میں اپنی پوری قوت سے جاری وساری رہے اور دہشت گردی کے خلاف ان کی اپنی اپنی خودساختہ جنگیں بھی جاری و ساری ر ہیں۔
ظلم کی سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ اس ریاستی دہشت گردی کا شکار صرف اور صرف مسلمین ہی بنتے ہیں خواہ یہ ریاستی دہشت گردی اسرائیل کررہا ہو یا پھر پاکستان۔ انڈیا اس ریاستی دہشت گردی کامرتکب ہو رہا ہو یا پھر چین ۔ امریکہ دہشت گردی کا نام لے کر ہمیں ہلاک کر رہا ہو یا پھر روس ۔لاشیں صرف امت مسلمہ کی ہی گرتی ہیں۔ صرف مسلم بچے ہی یتیم ہوتے ہیں اور صرف مسلم خواتین ہی بے سہارا ہوتی ہیں اور صرف مسلمین کی جائدادیں ہی تباہی اور بربادی کا نشانہ بنتی ہیں ۔
جب سے اسامہ بن محمد بن لادن یعنی کہ بن لادن کا نیا پیغام منظر عام پر آیا ہے میں تو اسی وقت سے ہی لرزہ براندام ہوں کیونکہ میں یہ جانتا ہوں کہ اسامہ کے اس نئے پیغام کو بنیاد بنا کر امریکن اور یورپین صلیبی اور تلمودی (داؤدی ۔ چھ کونوں والے ستارے کے پرچم والی) افواج کسی نہ کسی مسلم خطے کو نیست و نابود کرنے کا عزم لے کر اٹھیں گی اور کسی نہ کسی مسلم آبادی کو تہس نہس کر ڈالیں گی۔
اس نئے پیغام کے آنے کے بعد میں ایک پیشن گوئی کرتا ہوں کہ امریکہ پاکستان میں ایک بہت بڑا سرچ آپریشن شروع کرے گا اور اس آپریشن کے نتیجے میں ایک مرحلے پر ہمارے اقتداراعلیٰ پر براہ راست قابض ہو ہی جائے گا کیونکہ اس بڑے اور وسیع آپریشن کی تیاریاں پچھلے ایک سال سے جاری تھیں اور اب جب کہ صہیونی اور ایونجیکل اپنی تیاری مکمل کر چکے ہیں تو انہوں نے اپنی جادو کی پٹاری سے اسامہ بن لادن کا نیا پیغام باہر نکال لیا ہے ۔
اسامہ کے ایک ایسے ہی پیغام کو سننے کے بعد بیت اللہ محسود نے اپنے امریکن دوستوں کو کہا تھا کہ میں مرنے کے بعد زندہ نہیں رہنا چاہتا اس لئے جب تم کو میری ضرورت نہ رہے تو تم مجھ کو “مار“ دینا تاکہ میں زندہ رہ سکوں۔
میرے یہ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ بیت اللہ محسود ہلاک نہیں ہوا بلکہ حقیقت میں ابھی بھی زندہ ہے یہ جو پاکستانی حکام بیت اللہ کی موت کادعویٰ کر رہے ہیں امریکن حکام کے کہنے پر کہہ رہے ہیں ان کے اپنے پاس بیت اللہ محسود کی موت کا کوئی بھی ثبوت نہیں ہے اور پھر امریکن نے بھی تو آج تک کھل کر اور واضح الفاظ میں ایک مرتبہ بھی یہ نہیں کہا ہے کہ بیت اللہ واقعی ہلاک ہو چکا ہے اگر بیت اللہ ہلاک ہو چکا ہے تو اس کی لاش کدھر ہے؟
میری ایک اطلاع کے مطابق بیت اللہ اس وقت کرزئی کے پاس موجود تھا جب اس کے سسر کے گھر پر ڈرون حملہ ہواتھا اور دوسر ی اطلاع یہ ہے کہ آج کل بیت اللہ امریکہ میں موجود ہے کل کلاں کو بیت اللہ بلیک واٹر کے کارندوں کے ہمراہ کسی ویزے اور امیگریشن کے لوازمات بغیر پاکستان آسکتا ہے اور پھر ۔۔۔ ۔
یہ تو ہوئی میری پیشن گوئی ۔اس پیشن گوئی کے سچ ثابت ہونے پر میں کیا معاوضہ چاہتا ہوں ؟
میں یہ چاہتا ہوں کہ جب صہیونی اور ایونجیکل کرسچیئن ہمارے ملک اور دیگر مسلم خطوں پر براہ راست قابض ہو جائیں تو میرے مرنے کے بعدمجھے ایک شاندار مزار میں دفن کر دیا جائے اور پھر وہ مزار بھنگیوں چرسیوں اور دین سے ناآشنا لوگوں کے حوالے کر دیا جائے۔
کیونکہ جس ملک و ملت کے دانش ور طبقات اور حکمران اپنے دشمنوں کے کارندے بن جائیں جس ملک میں ملک و ملت کے زندہ محسن تو قیدو بند میں ڈال دیے جائیں اور مرنے والے محسنین کو یکسر بھلا دیا جائے ایسے ملک کے بے عمل دین داروں اور دانش ور وں، بے غیرت ،لچے اور لعنتی اعلیٰ طبقات اور انتظامیہ والوںسے تو یہ بھنگی چرسی اور بے دین لاکھ درجے بہتر ہیں جو کہ مزار میں دفن اپنے پیر فقیر کے مزار کی حرمت اور تقدس پر آنچ نہیں آنے دیتے اور ہر دم اسے یاد بھی رکھتے ہیں وہ صرف اتنا ہی نہیں کرتے بلکہ ہر سال اپنے مرشدکی یاد میں اس کا عرس بھی مناتے ہیں۔
یہ بھنگی چرسی اور بے دین افراد لائق عزت ہیں کہ بھوکے مر جائیں گے مگر اپنے پیر فقیر کے مزار کی ایک اینٹ تو کیا اس کی قبر کی چادر کا ایک دھاگا بھی فروحت نہیں کریں گے اور اپنے پیر فقیر کی عزت پر قربان بھی ہو جائیں گے جب کہ ہمارے دانش ور سول اور فوجی قیادت اور حکمران طبقات تو بکاؤ مال ہیں کہ پیٹ بھی حلال وحرام مرغن غذاوں سے بھرا ہوا ہے اور تن پر ریشم و کم خواب کے کپڑے بھی ہیں اور اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ بڑے بڑے بنگلے اور جائدادیں بھی ان کی ملکیت ہیں مگر ان کا طمع(لالچ) اتنا زیادہ بڑھ گیا ہے کہ وہ اپنی ماں دھرتی کا سودا بھی کر چکے ہیں اور منہ سے پھوٹتے بھی نہیں ہیں۔
سیانے کہتے ہیں کہ نشہ ہر آدمی کو بے غیرت اور بے حس بنا دیتا ہے مگر میر جعفر اور میرصادق کی یہ بے غیرت اور بے حمیت اولادیں تو بے غیرتی اور بے حسی کی تمام حدیں پھلانگ گئی ہیں ان سے تو وفا کی کوئی بھی امید نہیں کی جا سکتی اگر وفا کی کوئی امید کی جاسکتی ہے تو نشئی بھنگی چرسی اور بے دین لوگوں سے کی جا سکتی ہے جن کے بدن پر پورے کپڑے نہیں ہیں اور پیٹ میں مرغن غذا ئیںبھی نہیں ہےں پھروہ کسی جائداد کے مالک بھی نہیں ہیں کیونکہ ان کی محبت بھی سچی ہوتی ہے اور ان کا عشق بھی کھرا ہوتا ہے۔
آج پاکستان کوایسے عالم فاضل دینداروں، تعلیم یافتہ دانشوروں باوردی یا بے وردی افسروں اور بےحدو حساب دولت اور جائدادوں کے مالکان سرمایہ داروں اور بڑی بڑی جاگیروں کے مالکان جیسے سیانوں کی قطعاً ضرورت نہیں ہے جو کہ بے عمل بھی ہیں اور بے حس بھی اور جن کو اپنی دھرتی ماں سے محبت و عشق بھی نہیں ہے بلکہ ایسے دیوانوں اور مستانوں کی اشد ضرورت ہے جو کہ اپنی مادروطن کی محبت اور عشق میں تمام حدوں سے گزر جائیں یہی سارے مسائل کا حل ہے اور اسی میں ہماری بقا کا راز بھی پنہاں ہے۔
بشکریہ خبریں انٹرنیشنل
No comments:
Post a Comment