تحریر: ڈاکٹر عصمت حیات علوی
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
جب سویڈن کے ایک اخبار افٹان بلا ڈٹ میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ اسرائیل کے کچھ فوجی حکام شہید فلسطینیوں کے اعضاءکی سمگلنگ میں ملوث ہیں تو انسانی اعضا کی اسمگلنگ کے بارے میں یہ اطلاع میری لئے کوئی نئی خبر نہ تھی کیونکہ میں تو آج سے بیس برس قبل ہی اس گھناونی اور گندی تجارت سے آگاہ ہو چکا ہوں مگر میں نے اس بات یا راز کا انکشاف اس لئے نہ کیا تھا کہ میری قوم کا ایک خاص ذہن بن چکا ہے کہ جس راز یا خبر کا انکشاف کوئی مسلم اور بالخصوص کوئی پاکستانی کرے تو اس خبر یا بات پر یقین مت کرو مگر جب یہی اطلاع یا خبر کوئی سفید فام قوم کا کوئی فرد دے تو اس کی بات یا خبر پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لو۔
کیونکہ ہماری قوم کی ایک خاص طرز کی ذہن سازی ہو چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہم ایسی غلامانہ ذہنیت کے مالک بن چکے ہیں کہ صرف اسی بات ،اطلاع یا خبر پر ایمان لاتے ہیں جو کہ کسی گوری قوم کے کسی فرد کے منہ سے نکلی ہوئی ہو یہی احساس کمتری ہمیں اپنی ذاتی اور قومی صلاحیتوں پر اعتماد کرنے سے محروم رکھے ہوئے ہے۔ میں ایک سادہ سی مثال دے کر اپنے موقف کو واضح کرتا ہوں ۔ جب مجھے اپنے ذاتی ذرائع سے یہ علم ہوا تھا کہ اسرائیل اور انڈیا امریکن قیادت کے ماتحت ہمارے قبائلی علاقے بشمول صوبہ سرحد جسے ہم پختون خواہ بھی کہہ سکتے ہیں اور بلوچستان کو پاکستان سے علیحدٰہ کرنا چاہتے ہیں تو میں نے مسلسل کئی ایک مضامین میں اس راز یا یہودی منصوبے کا انکشاف کیا تھا بلکہ ہاتھ سے لکھ کر اور ان کی فوٹو سٹیٹ کروانے کے بعد پاکستان کے تمام ممتاز اور مشہور اخبارات اور رسائل کو پوسٹ بھی کیا تھا مگر کسی ایک بھی اخبار نے میری اس بات پر یقین نہ کیا تھا۔
ان کے اس طرز عمل سے میرے پر دو حقیقتیں واضح ہو گئیں تھیں ، ایک تو یہ کہ ہم پاکستانی اپنے کسی مخلص بھائی کی بات پر یقین نہیں کرتے دوسری یہ کہ میری یہ اطلاع بھی درست ہی ہے کہ پاکستان کے ہر بڑے اخبار رسالے اور الیکٹر انک میڈیا کے دفاتر میں ایک یا ایک سے زائد وطن دشمن موجود ہیں جو کہ اپنے آقاوں کے خلاف لکھے جانے والے مضامین، رپورٹس اور تجزیوں کو روک لیتے ہیں یوں وہ اپنا حق غلامی بخوبی نبھائے جا رہے ہیں۔
پھر جب میں نے اسی سال سترہ فروری کو ایک مضمون بعنوان :ہم زہر کھا رہے ہیں : قلم سے لکھ کر پاکستان کے سبھی بڑے اخبارات کو بذریعہ ڈاک روانہ کیا تھا اور جب وہ بھی اشاعت پذیر نہ ہوا تھا تب تو مجھے سو فیصد یقین ہو گیا تھا کہ پاکستان کے سبھی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے بڑے بڑے اداروں میں یہودیوں کے ایجنٹ مضبوط اور محفوظ جگہیں بنا چکے ہیں۔
جن مضامین کا ذکر میں ابھی کر چکا ہوں انہی مضامین کو میں نے یہاں پر ہانگ کانگ میں بھی کچھ اہم پاکستانیوں میں خود تقسیم کیا تھا مگر اکثر نے میری بات پر یقین ہی نہ کیا تھا بلکہ ایک دو نے تو مجھے یہی کہا تھا کہ آپ ایسا مواد لکھ کر ہمیں ڈراتے ہیں اب وہی لوگ پاکستانی وزرا کے بیانات اخبارات میں چھپنے کے بعد اور ٹی وی پر ایسی ہی خبریں نشر ہونے پر یہ یقین لا رہے ہیں کہ بلوچستان میں بیرونی ممالک مداخلت کر رہے ہیں جب کہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ آج سے ایک سال قبل ہی میری ذات پر اعتماد کرکے ان حقائق کو تسلیم کر لیتے تو ہم بحیثیت ایک قوم کے کچھ پیش بندی بھی کر سکتے تھے ۔
میں نے یہ تھوڑی سی تمہید اس لیے باندھی ہے کہ میرے ہم وطن یہ حقیقت جان لیں کہ جس طرح سے ہمارے حکمران طبقات، نصف فوجی قیادت اور تمام کے تمام بے ضمیرے دانش ور طبقات ہمارے ازلی دشمن کے پاس یرغمال بن چکے ہیں اسی طرح سے ہمارے میڈیا کے بہت سارے طوطے بھی یہودیت کے پاس ہی گروی پڑے ہوئے ہیں اور وہ کسی بھی اہم خبر کو اس وقت تک روکے رکھتے ہیں جب تک اسی خبر، اطلاع یا راز کا انکشاف یورپ یا امریکہ کا کوئی باضمیر صحافی یا میڈیا نہ کر دے ۔
کبھی کبھی ہمارے ملک کے لفافہ صحافی یا طوطا راہنما کسی راز یا خبر کا انکشاف اس وقت کرتے ہیں جب ان کے یہودی آقا یہ سمجھتے ہیں کہ اس خبر کا اس وقت :لیک ہونا : ان کے مفادات کے حق میں بہتر ہی ہے تو اس وقت یہ بے ضمیرے اور ملت فروش صحافی اور قلم فروش ان :انکشافات : کو بڑی بڑی شہہ سرخیوں کے ساتھ شائع کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اب میں اصل موضوع کی طرف واپس آتا ہوں۔
انسانی اعضاءکی سمگلنگ ، انسانی سمگلنگ جسے انگلش میں ہیومن ٹریفیکنگ کہتے ہیں اور نشہ آور اشیاء کی سمگلنگ جسے ڈرگ ٹریفیکنگ بھی کہا جاتا ہے بظاہر تو ان سب کی سمگلنگ چھوٹے پیمانے پر ہوتی دکھائی دیتی ہے اور عام دیکھنے والے یہی سمجھتے ہیں کہ یہ کام چھوٹے موٹے مجرم اور ان کے ماتحت چھوٹے موٹے گروہ کررہے ہیں مگرجو لوگ ایسے غیر قانونی کاروبار میں ملوث ہوتے ہیںوہی اس دھندے کی اصلیت کے بارے میں خوب جانتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ انسانی اعضا کی سمگلنگ، انسانوں کی سمگلنگ، پورنو گرافی (ننگی فلموں) کی صنعت اور منشیات کی سمگلنگ کے پیچھے کون کونسے سنڈیکیٹ کام کر رہے ہیں۔
کون کون سی حکومتیں اور ان کی ایجنسیاں ان سے تعاون کر رہی ہیں یا ان کی پشت پناہی کر رہی ہیں اور ان کے اصل آقا کون ہیں ؟ تو صرف وہی لوگ اس سارے سسٹم کی اصلیت وسعت اور طریقہ کار سے واقف ہوتے ہیں کبھی کبھار یہی گھر کے بھیدی کسی ذاتی عناد کی بنیاد پر یا پھر ضمیر کی آواز پر لبیک کہہ کر کچھ راز اگلتے ہیں تو تب جا کر اس دنیا کے عام لوگوں پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ اس قسم کے کاروبار اور دھندے حقیقت میں کتنے منظم ہیں اور کتنے وسیع ہیں ؟
انسانی ہڈیوں کی سمگلنگ ایک پرانا اور قدیمی کاروبار ہے ۔ کب سے ہے ؟ شائد ابھی میں اس کا جواب نہ دے سکوں مگر جب میں میڈیکل کا سٹوڈنٹ تھا تب مجھ پر یہ انکشاف ہوا تھا کہ پاکستان سے ہر سال تقریباً ایک ہزار انسانی ڈھانچے یورپ سمگل ہوتے ہیں یہ انسانی ڈھانچے زیادہ تر یورپ اور امریکہ کے میڈیکل کالجز کو درکار ہوتے ہیں یا پھر کچھ مخصوص ادویات بنانے والے اور کچھ ممالک کے جادوگر بھی ان کو جادوگری میں استعمال کرتے ہیں۔
مجھے انہی دنوں یہ بھی علم ہوا تھا کہ یہ انسانی ڈھانچے زیادہ تر بچوں کے ہی ہوتے ہیں اور ان کو مسلم اور عیسائیوں کے قبرستانوں سے نکالا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام نشئی لوگ قبرستان کے ملنگوں کے تعاون سے کرتے ہیں۔ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ انسانی ڈھانچوں کی ڈیمانڈ اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ قبروں میں دفن شدہ بچوں کے ڈھانچے بھی ناکافی ثابت ہوتے ہیں تو اس بڑھی ہوئی مانگ یا ڈیمانڈ کو پورا کرنے کے لیے انسانی ہڈیوں کی سمگلنگ کرنے والے معصوم بچوں کو بھلا پھسلا کر اغوا کرتے ہیں اور پھر ان کو مارنے کے بعد ان کا انسانی ڈھانچہ تیار کرتے ہیں اور پاکستان میں موجود کسی ایجنٹ کے پاس فروخت کر دیتے ہیں۔
یوں جو ایک انسانی ڈھانچہ چند سو روپئے کے عوض کسی قبر سے چوری کیا جاتا ہے تو وہی ڈھانچہ پاکستانی ایجنٹ چند ہزار پاکستانی روپوں کے عوض لیتا ہے مگر جب یہی ڈھانچہ یورپ جا کر کسی بڑے گاہک کے پاس پہنچتا ہے تو اس انسانی ڈھانچے کی قیمت تین سے لے کر چار ہزار یورو یا برٹش پونڈ ہو جاتی ہے میں آگے بڑھنے سے قبل اپنے قارئین کو یہ بات بتا دوں کے پاکستان میں مردوں کے اثاثات کی چوری یعنی کہ کفن اور ہڈیوں کی چوری کے ضمن میں کوئی واضح یا بیّن قانون نہیں ہے ۔
میں اس سلسلے میں مذہبی حلقوں کو مورد الزام ٹھہراتا ہوں جن کو فرقہ وارنہ عصبیت پھیلانے سے فرصت ہی نہیں ہے ۔البتہ انہی سطور میں میں پاکستان کی پولیس کے انسان دوست ملازمین اور آفیسرز کی تعریف بھی کروں گا جنہوں نے ہماری طرف سے اطلاعات ملنے پر ، بے شمار مصروفیت ہونے کے باوجود بھی بر وقت، ایسے انسانیت دشمن عناصر کے خلاف متعدد مرتبہ نہ صرف کاروائی کی تھی اور ایسے مجرموں کو موثر قانون اور دفعات نہ ہونے کے باوجود بھی کسی نہ کسی اور ہی دفعہ کے تحت سزا بھی دلوائی ہے۔
انسانی سمگلنگ کی تاریخ بہت ہی قدیم ہے آدم علیہ السلام کے بعد پہلے دس قرن تک دنیا میں اسلامی نظام نافذ ہونے کے باعث امن وامان ہی رہا تھا۔ پھر شیطان نے انسانوں کو باطل نظاموں کی جانب مائل کر ہی لیا تھا اور یوں بے انصافی اورظلم کے ایسے ادوار شروع ہوگئے تھے جن ادوار میں انسانی سمگلنگ باقاعدہ حکومتی کاروبار بن گئی تھی پرانے وقتوں میں انسانوں کی تجارت یا انسانی سمگلنگ غلاموں اور کنیزوں کے حصول کے لیے کی جاتی تھی ۔غلاموں کے حصول کے لیے اکثر ایک طاقت ور قوم کسی کمزور قوم پر حملہ کر دیتی تھی اور فاتح ہونے کی صورت میں اس کے صحت مند اور توانا مردوں کو غلام بنا کر کھیتوں منڈیوں اور میدان جنگ کا ایندھن بنا دیا جاتا تھا اور معصوم بچوں اور حسین عورتوں سے جنسی مشقت لی جاتی تھی جب کہ بوڑھے اور بے کار لوگوں کو قتل کر دیا جاتا تھا ۔
اس درندگی ،بے انصافی اور بے رحمی کا خاتمہ جزیرة العرب اور ارد گرد کے دیگر علاقوں میں تو نبی اکرم ﷺ کے برسر اقتدار آنے کے بعد ہو گیا تھا اور پھر ان کے بعد ان کے خلفاء کرام کے دور میں یہ عادلانہ نظام مزید وسعت اختیار کر گیا تھا مگر دنیا کے جن خطوں اور علاقوں پر مسلمین کے قدم نہ پڑے تھے ان تمام خطوں اور علاقوں میں غلامی اور انسانی سمگلنگ کسی نہ کسی رنگ روپ یا کسی نہ کسی صورت میں آج بھی موجود ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہر سال دس لاکھ یعنی کہ ایک ملین عورتیں اور نابالغ بچے جنسی ضرورتوں کے لیے ایشا افریقہ اور لاطینی امریکہ سے ویسٹرن یورپین ممالک اور امریکہ وکینیڈا میں سمگل کئے جاتے ہیں۔ اسی انسانی سمگلنگ کا ایک ذیلی کاروبار پورنوگرافی یعنی کہ ننگی فلموں کا کاروبار بھی ہے نشے کی سمگلنگ بھی اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ انسانی سمگلنگ کی تاریخ قدیم ہے البتہ انسانی اعضاءکی سمگلنگ کی تاریخ کچھ جدید ہے۔
جب سے میڈیکل سائنس نے سرجری میں ناقابل یقین حد تک ترقی کر لی ہے تب سے انسانی اعضا کی سمگلنگ کے کاروبار کی بنیاد پڑی ہے ۔ اسلام کی روشنی پہنچنے سے قبل یورپ میں طب کے شعبے سے وابستہ افراد اخلاقیات سے مبرا ہی ہو ا کرتے تھے اور ان کا طریقہ علاج وحشیوں اور قصائیوں جیسا ہی ہوا کرتا تھا مگر جب صلیبی جنگیں ہوئیں تو عیسائی نہ صرف اسلامی اخلاقیات اور تعلیمات سے متاثر ہوئے تھے بلکہ انہوں نے مسلم محققین کی پیروی میں طب اور دیگر شعبوں میں بہت کچھ سیکھا تھا اور ان تمام علوم میں مزید تحقیق کرکے مغرب نے ان علوم کو بام عروج پر پہنچا دیا ہے مگر اب تو یوں لگتا ہے کہ یورپ اور امریکہ والے ایک بار پھر سے اسی وحشیانہ دور کی طرف مراجعت کر رہے ہیں ۔
ایک دور تھا جب یورپ اور امریکہ میں استاد اور معالج (ڈاکٹر) کی بہت عزت تھی مگر جب سے قوم یہود نے یورپ اور امریکہ کے سسٹم پر اپنا شکنجہ مضبوط کیا ہے تب سے دولت مندوں کی اہمیت میں اتنا بے جا اضافہ ہو گیا ہے کہ انسانی تہذیب اور تمدن کے دعوے دار یورپین اور امریکن بھی دولت کے حصول کے لیے جائز اور ناجائز حربے اپنانے پر مجبور ہوچکے ہیں ڈاکٹر اور معالج بھی اسی دنیا کا حصہ ہیں اس لیے ان کا بھی متاثر ہونا لازمی تھا لہذٰا وہ بھی دولت کے حصول کی خاطر اخلاقیات کادامن ہاتھ سے چھوڑ چکے ہیں۔
بلکہ اگر میں سچ لکھوں ، پھر سچ یہ تو ہے کہ ڈاکٹروں کی حالت اس موجودہ افرتفری کے دور میں سب سے زیادہ بگڑ چکی ہے کیونکہ انسانی اعضاءکو منتقل کرنے کا اصل کام تو ایک ڈاکٹر یعنی کہ ایک سرجن ہی کرتا ہے اگر و ہی یہ سوال نہ کرے کہ اس تک پہنچنے والا انسانی عضو قانونی طور سے اخلاقی ہے یا غیر اخلاقی تو پھر کون دریافت کرے گا اور کون اس اخلاقی برائی کی مزاحمت کرے گا؟
اس وقت دنیا میں جدید میڈیکل سائنس کی ترقی کے باعث انسان کی اوسط عمر میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور پھر کیمیکل اور دیگرصنعتی کثافت اور ہوائی آلودگی کے مضر اثرات ایسے عوامل ہوتے ہیں کہ بہت سارے ضروری انسانی اعضاءجلد ہی بےکار ہوجاتے ہیں ۔ قدرت نے ایسا بہترین انتظام کر چھوڑا ہے کہ ہر انسان میں بعض ضروری اعضا دو دو لگا رکھے ہیں یوں اکثر صورتوں میں ایک عام انسان ایک ہی ضروری اعضا کے سہارے ہی لمبی عمر گذار لیتا ہے ۔
مگر جو لوگ دولت مند ہیں وہ تو دنیاوی سہولتوں میں سے کچھ زیادہ ہی حصہ چاہتے ہیں وہی ان انسانی اعضا کے متلاشی ہوتے ہیں اور ان کی منہ مانگی قیمت بھی دینے کو تیار رہتے ہیں اور یہ ساری ڈیل کسی ڈاکٹر یا ہاسپٹل کی ذریعے سے ہوتی ہے ۔یورپین یونین کے قوانین اور امریکن لاز کے مطابق ڈونر یا انسانی اعضا دینے والا وہ شخص ہونا چاہئے جو کہ اعضا کے وصول کرنے والے کا قریبی اور خونی رشتہ دار ہی ہو ۔
اس کا حل امیروں اور بے ضمیرے ڈاکٹروں نے یہ نکالا ہے کہ انڈیا چین اور افریقہ میں جا کر اعضا کی تبدیلی کے آپریشن کئے جاتے ہیں جہاں پر اس قسم کے قوانین یا تو نہ پید ہیں یا پھر ناقص ہیں اور انتظامیہ بھی انتہائی رشوت خور ہے۔ اس مقام پر میں ایک ضروری وضاحت کر دوں کہ مردہ انسان کے جسم سے جو اعضاءحاصل کئے جاتے ہیں اور پھر کسی ضرورت مند انسان کو لگائے جاتے ہیں ان اعضا کی ایک طبی عمر ہوتی ہے جو کہ چند گھنٹوں یا چند یوم سے زیادہ نہیں ہوتی ۔
جیسے کہ ایک مردہ انسان کا دل اس کو وصول کرنے والے شخص کے سینے میں چھ گھنٹے سے قبل لگ جانا چاہئے اگر اس عمل میں آدھ گھنٹے کی دیر بھی ہوجائے تو دل جیسا قیمتی عضو بےکار ہو جاتا ہے اس لیے مردہ انسان کے ضروری اعضا کو جلد از جلد ان انسانوں تک پہنچ جانا چاہئے جو کہ ان کے ضرورت مند ہوتے ہیں ۔ اگرچہ جیٹ ہوائی جہاز کی ایجاد سے اس سلسلے میں خاصی سہولت میسر آئی ہے ۔ مگر اکثر یہ بھی تو ہوتا ہے کہ ایک ضرورت مند اتنا لمبا انتظار نہ کر سکتا ہو یا پھر جب کوئی ضروری اعضا کسی ہاسپٹل میں پہنچے تو متعلقہ سرجن دستیاب ہی نہ ہو؟
ہو سکتا ہے کہ وہ ہزاروں میل دور کسی کانفرنس میں شریک ہو یا پھر چین انڈیا یا پھر افریقہ کے کسی ہاسپٹل میں کسی دوسرے یا تیسرے امیر کبیر شخص کے تبدیلی اعضا کے آپریشن میں مصروف ہو ۔یہ سب کچھ لکھنے کا میرا مقصد یہ ہے کہ اس وقت مردہ انسانوں کے اعضا کی منتقلی سے جتنے بھی انسانوں کو فائدہ بہم پہنچ رہا ہے وہ ان اعضا کی تعداد کا عشر عشیر بھی نہیں ہے جو کہ زندہ انسانوں کو جان بوجھ کر مردہ کرکے غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر حاصل کئے جاتے ہیں یوں جو لوگ مردہ انسانوں کے اعضا کی تجارت کرتے ہیں وہ اس تجارت کا ہزارواں حصہ بھی نہیں کما رہے ہیں جو کہ زندہ انسانوں کو مردہ بنانے کے عمل کے ذریعے سے کماتے ہیں۔
دراصل جس تلموزی یہودی سیڈیکیٹ کی خبر سویڈن کے اخبار نے شائع کی ہے وہ تو اس لیے منظر عام پر آگئی کہ یہودی کچھ زیادہ ہی لالچ میں آگئے اور فلسطینی شہدا کے جسد مبارک سے کچھ ضروری اعضا نکال لئے اور اپنے گروہ کو بے نقاب کر والیا ہے اگر یہودی زیادہ لالچ میں نہ آتے تو شائد دنیا کو کبھی بھی یہ علم نہ ہو پاتا کہ اس مہذب دنیا کے مہذب لیڈر مردار خور ہیں یا مردوں کے بیوپاری ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ لالچی شخص لالچ میں اکثر اتنا اندھا ہوجاتا ہے کہ بعض اوقات لالچ کے زیر اثر انتہائی احمقانہ کام بھی کر گزرتا ہے ۔ اگر سویڈن کے اخبار کے حوالے سے یہ خبر عام نہ ہوتی تو میں یہ سطریں ہر گز نہ لکھ رہا ہوتا اور اب جو کچھ میں لکھنے جا رہا ہوں وہ بھی نہ لکھتا۔ مجھے علم ہے کہ میرے پاکستانی بھائی اس کو بھی ایک خیالی داستان ہی قرار دیں گے مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میں جو کچھ بھی لکھنے والا ہوں جلد یا بدیر کوئی نہ کوئی با ضمیر عیسائی صحافی بھی یہی کچھ ضرور لکھے گا ۔انشاللہ العلیم الخبیر !
آگے بڑھنے سے قبل میں ایک وضاحت اور بھی کر دوں کہ انسانوں کی سمگلنگ ہو یا پھر مردہ انسانوں کے ا عضاءکی غیر قانونی سمگلنگ ہو یا چائلڈ ریپ پورنو گرافی ہو یا نشے کی سمگلنگ ہو یا پھر زندہ انسانوں کے اجسام سے اعضا کا زبردستی حصول ہو اس میں ابتدائی اور نچلی سطح پر تو دنیا کی ہر قومیت ، نسل، مذہب اور علاقے کے لوگ شامل ہیں ۔ مگر ان تما م کے تمام کاروبار وں کی انتہا پر جو لوگ بیٹھے ہیں وہ یہودی ہی ہیں۔
یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ ساری دنیا میں سودی کاروبار قائم ہے اور رواں دواں ہے اور ہر ملک اور ہر علاقے میں بینکوں کا کام اگرچہ مقامی لوگوں نے خود ہی سنبھال رکھا ہے مگر اس کے ڈانڈے نیویارک کے سٹاک ایکسچینج سے جا کر اس طرح سے ملتے ہیں کہ سب سے زیادہ فائدہ یہودی ڈائریکٹرز کو ہی ہوتا ہے ۔ میں اسے یوں بھی لکھتا ہوں کہ نائین الیون میں جو نام اور جو چہرے دنیا کو دکھائے گئے ہیں اگر چہ وہ سبھی نام مسلم تھے اور ان سبھی کے چہرے عرب تھے مگر نائین الیون کے پیچھے اصل منصوبہ ساز اور سازشی یہودی ہی تھے جنہوں نے نائین الیون کے ڈرامے سے سب سے زیادہ فوائد حاصل کئے ہیں۔
اسی طرح سے اور اسی طرز پر انسانی سمگلنگ ، انسانی اعضا کی سمگلنگ ، انسانی اعضا کے حصول کے لیے معصوم بچوں کی تجارت اور ان کی پورنو گرافی اور منشیات کی سمگلنگ ان تمام دھندوں کو نچلی اور ابتدائی سطح پر تو ساری دنیا کے اور تمام نسلوں رنگوں مذہبوں اور علاقوں کے لوگ کرتے ہیں اور بہت ہی معمولی رقم کے عوض کرتے ہیں مگر جیسے جیسے سطح اور شرح منافع بلند تر ہوتی چلی جاتی ہے ویسے ویسے یہودیوں کا عمل دخل بھی بڑھتا چلا جاتا ہے اور یوں اس کاروبار یا دھندے کی چوٹی پر جو اشخاص بیٹھے ہوئے ہیں وہ با اثر یہودی ہی ہیں بنیادی طور پر تو اس بڑے اور وسیع کاروبار میں کئی یہودی خاندان شامل ہیں۔
مگر ان سب کے سرخیل تین آدمی ہی ہیں جن میں سے دو کا تعلق یورپ سے ہے اور ایک امریکہ کا رہائشی ہے مگر ان کا سبھی کا کاروبار پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔کیا آپ یقین کریں گے کہ ان میں سے ہر ایک شخص ہر سال سویڈن کے قومی بجٹ کی مجموعی مالیت کے برابر منافع کماتا ہے؟ اس لیے آپ دیکھیں گے کہ یہ خبر یا تو دبا دی جائے گی یا پھر اس خبر کو شائع کرنے والا صحافی یا اخبارافتان بلادط (افٹان بلاڈٹ) معافی مانگ لے گا۔
سویڈن کا فارن منسٹر کارل بلدات ( کارل بلڈٹ) فی الحال تو یہ بھول گیا ہے کہ سازشی یہودی اتنے طاقتور ہیں کہ ان کی مخالفت کرنے والا اگر یو این او کا جنرل سیکریٹری بھی ہوتو بھی یہودی اس کا طیارہ تباہ کر وا کر اسے قتل کروا سکتے ہیں یہ عجیب اتفاق کی بات ہے کہ یو این او کا مقتول جنرل سیکریٹری ڈیگ ژیلمراگنے کارل ہیمرز جولٹ بھی موجودہ فارن منسٹر کی طرح سے ایک سویڈش ایلیٹ ہی تھا۔
آپ یہ پڑھ کر حیران ہوں گے کہ انسانی اعضاءکے حصول کے لیے بچے ایسے پالے جاتے ہیں جیسے ہمارے ملک میں قربانی کے بکرے پالے جاتے ہیں اور ان بچوں کے مالکان کو ایک بچی یا بچہ بیچنے پر جو قیمت وصول ہوتی ہے وہ اس قیمت سے کہیں کم ہوتی ہے جتنی قیمت دے کر ہم شہروں کے رہنے والے پاکستانی لوگ قربانی کا ایک بکرا اپنے گھر پر لاتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی ماں باپ اتنی سستی قیمت پر اپنا ذاتی بچہ تو نہیں دے گا۔
ویسے اگر ان بچوں کے مالکان کو بھی یہ علم ہو کہ یہ بچہ انسانی اعضا کے حصول کی خاطر قتل کردیا جائے گا تو شائد کچھ افریقی اور ایشائی باشندے ان بچوں کو ہرگز فروخت نہ کریں ۔ مگر ان بچوں کے پالنے والے مالکان یہی سمجھتے ہیں کہ یہ سات یا آٹھ سالہ بچی یا بچہ کسی یورپی یا امریکی ملک سمگل کیا جائے گا اور کوئی رحم دل جوڑا اسے اڈاپٹ کر لے گا ،مگر ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ ابتدائی بیوپاری اس معصوم بچے یا بچی کو دوسرے شخص کے پاس فروخت کر دیتا ہے جو کہ کسی لوکل ڈاکٹر یا ایسے دلال کو جانتا ہوتا ہے جس کے روابط یورپ میں موجود مریضوں اور سپشیلسٹس سے ہوتے ہیں یہ یورپین یا امریکن کوئی نہ کوئی یہودی ہوتا ہے جو کہ چند ہزار یورو یا یو ایس ڈالرز دے کر کے اس بچے کی قسمت کا مالک بن جاتا ہے۔
وہی یہودی بیوپاری یا انویسٹرکسی سرجن کے ذریعے سے کسی ضرورت مند سے بھاو تاو کرتا ہے اگر تو تمام ٹسٹ کامیاب ہوجاتے ہیں اور بچے یا بچی کا بلڈ گروپ اور دوسری چیزیں بھی ریسیور(ضرورت مند) سے میچ کر جاتی ہیں تو وہ بچی یا بچہ سیلیکٹ ہو جاتا ہے اب اس یہودی کے وارے نیارے ہیں اور اس کے سر پرستوں کے بھی جنہوں نے مشکل اور مصیبت کے وقت اس کی پشت پناہی بھی کرنا ہوتی ہے اور مشکلات سے نکالنا بھی ہوتا ہے ۔
اب اگلا مرحلہ ہے اس ڈونر کو ریسیور تک پہنچانے کا ہے ۔ اس کے دو طریقے ہیں پہلا طریقہ تو یہ ہوتا ہے کہ جس شخص کو انسانی اعضا کی ضرورت ہے وہ افریقہ یا ایشاءآجائے اور ساتھ میں اپنا سرجن بھی لیتا آئے اور اسی ملک میں اس کا آپریشن کیا جائے۔ اس طرح کا طریقہ کار نہایت ہی امیر لوگ افورڈ کر سکتے ہیں دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بچی یا بچے کو اس ریسیور کے سرجن یاہاسپٹل تک پہنچا دیا جائے ۔
اس سات یا آٹھ سال کی بچی یا بچے کو اور بعض صورتوں میں بچی یا بچہ اس سے بھی کم عمر کا ہوتا ہے کیونکہ ریسیور کوئی بچی یا بچہ بھی ہو سکتا ہے۔بہرحال آپریشن سے قبل اور زندگی کی چند گنی چنی سانسیں لینے سے قبل اس معصوم بے سہارا اور بے بس بچی یا بچے کی قسمت میں ریپ بھی لکھا ہوتا ہے اور اس کی مووی بھی بنائی جاتی ہے۔
ان معصوم، بے بس اور کم عمر بچوں کا ریپ کرنے والے یہودی کوئی ٹین ایج کے لڑکے نہیں ہوتے بلکہ پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ سال کے تجربہ کار بوڑھے ہوتے ہیں جن کا روزمرہ کا کام ہی یہی ہوتا ہے کہ منظر کو زیادہ سے زیادہ درد ناک اور رئیل بنایا جائے اس لیے وہ درندوں کی طرح سے اس بچے یا بچی کی چیر پھاڑ کر تے ہیں اور یہ کام ایسے نفرت انگیز طریقے سے سرانجام دیتے ہیں کہ کوئی عام دل گردے کا شخص ان ریپ مووی کو دیکھ ہی نہیں سکتا۔
صرف عقل سے عار ی اور شقی القلب شخص ہی ان مناظر سے لطف اندوز ہو سکتا ہے یہودی نسل کے یہ بوڑھے، بد نما جنگلی جانوروں جیسا جسم اور انہی جیسی حیوانی قوت رکھنے والے تجربہ کار ریپسٹ جن کا سالہا سال کا تجربہ ہی یہی ہوتا ہے کہ ایک ریپ کے منظر کو زیادہ سے زیادہ دردناک اور دلدوز کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ جب ایک غیر یہودی بچی یا بچے سے درندوں اور شیطانوں والا یہ فعل سرانجام دے رہے ہوتے ہیں تو اس وقت ان متعصب یہودیوں کے دل و دماغ میں غیر یہودی اقوام کے خلاف نفرت کی آگ بھری ہوتی ہے اور اس وقت وہ ان معصوم ،بے بس اور نازک سی جان رکھنے والے بچو ں سے بد فعلی کا عمل انتقامی جذبے کے تحت ہی کر رہے ہوتے ہیں۔
جب ایسی بچی یا بچہ اپنے پے در پے ریپ کے بعد مقررہ دن اور مقررہ مقام پر کسی سرجن کے پاس پہنچتا ہے تو وہ بچہ یا بچی لازمی طور پر اتنا ڈرا دیا گیا ہوتا ہے کہ وہ اصل بات بیان ہی نہیں کر سکتا ۔ بالفرض محال وہ بچہ یہ سب کچھ بتا بھی دے اور ٹراسپلانٹ کرنے والا وہ سرجن اس معصوم کی زبان یا اشاروں کو سمجھتا بھی ہو تو کیا وہ بچے یا بچی کو بچا لے گا ؟ نہیں بالکل ہی نہیں۔ وہ بے ضمیرا سرجن تو خود اپنے امیر کلانٹ کی خاطر اس معصوم کی جان لینے پر تلا ہوا ہے کیونکہ ایسے تمام معصوم بچے اور بچیاں چند ضروری اعضا کے حصول کے بعد تلف (ڈسکارڈ) کر دیے جاتے ہیں۔
یوں نجانے کتنے ہی یتیم، معصوم اور بے سہارا بچیاں اور بچے ہر سال نا حق قتل کر دیئے جاتے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ یہودیوں کے کچھ انتہا پسند فرقوں کے نزدیک دوسرے تمام مذاہب کے ماننے والے اور تمام غیر یہودی نسلوں کے انسان جانوروں سے بھی بد تر ہیں اور ان انتہا پسند یہودیوں کے نزدیک غیر یہودی نسلوں سے تعلق رکھنے والے ایک انسان کا قتل ایک جانور کے قتل جیسا ہی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ بے سہارا انسانی بچے آتے کدھر سے ہیں ؟
جب بھی کسی ملک میں خانہ جنگی ہوتی ہے تو اس خانہ جنگی کے دوران بے شمار المیے جنم لیتے ہیں اور کچھ انسان دوست تنظیمیں ان المیوں کا شکار ہونے والوں کی مدد امداد پر کمر بستہ ہو جاتی ہیں ان انسان دوست تنظیموں اور اداروں کی تعداد چند ایک ہی ہوتی ہے اور ان کی کاوشیں بھی محدود ہی ہوا کرتی ہیں یوں خانہ جنگی کے دوران جو مصائب اور المیے جنم لیتے ہیں ان کا مداوا کم ہی ہو پاتا ہے۔ جب بھی کسی ملک میں کوئی خانہ جنگی یا بد امنی ہوتی ہے تو اس خانہ جنگی یا بدامنی کے پیچھے کسی نہ کسی مغربی طاقت کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔
آپ خود ہی پچھلے پچاس سال کی تاریخ کو اٹھا کر دیکھ لیں کہ پچھلے پچاس برسوں کے دوران جتنی بھی خانہ جنگیاں ہوئی ہیں وہ ایشا افریقہ یا پھر لاطینی امریکہ میں ہوئی ہیں اور ان میں سے آدھی سے زائد خانہ جنگیوں میں سی آئی اے کا ہاتھ اندھوں کو بھی صاف نظر آیا ہے ۔کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ افریقہ میں کسی نہ کسی ملک میں خانہ جنگی ہوتی ہی رہتی ہے اور اس خانہ جنگی کے دوران مغربی ممالک کبھی ایک فریق کا ساتھ دے رہے ہوتے ہیں اور اگر ان کا حلیف فریق اپنے مخالف سے صلاح صفائی پر آمادہ ہو تو یہ ظالم اس کا ساتھ چھوڑ کر دوسرے کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیتے ہیں۔
یوں ان ممالک میں خانہ جنگی کا لامتناہی سلسلہ کبھی بھی ختم نہیں ہوتا ۔کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟
دراصل بات یہ ہے کہ ان خانہ جنگیوں سے امریکہ اور اس کے حواریوں نے بے شمار فوائد حاصل کئے ہیں جو کہ ان گنت ہیں اور ان ان گنت فوائد میں سے یورپین ممالک اور امریکہ کے سرمایہ داروں بالخصوص یہودی سرمایہ داروں کو ایک فائدہ یہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ بے شمار عورتیں اور بچے بے سہارا ہوجاتے ہیں جن کا پرسان حال کوئی بھی نہیں ہوتا ۔ یہی بے سہارا بچے اور عورتیں مغربی نظام یعنی کہ سرمایہ دارانہ نظام کی بھٹی کا ایندھن یوں بنتے ہیں انسانی سمگلر ان بے سہارا عورتوں میں سے خوبصورت نوخیر اور تندرست لڑکیوں کو جہازوں میں بھر بھر کر یورپ اور امریکہ لے جاتے ہیں اور ان سے جنسی مشقت لیتے ہیں ۔
وہ بے بس اور بے سہارا عورتیں برس ہا برس کی جنسی مشقت کے بعد بھی نہ صرف قلاش ہی رہتی ہیں بلکہ ان کی غلامی کا دور بھی کبھی بھی ختم نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے بڑھاپے تک ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں بکتی ہی رہتی ہیں اور ان کی کمائی پر پلنے والے دلّے دن بدن امیر سے امیر تر ہوتے چلے جاتے ہیں یہ سارا عمل یا دھندہ ہر ملک کے سرکاری اداروں کے تعاون سے ہی چلتا ہے اور اس گھناونے دھندے سے بڑے بڑے حکومتی عہدے دار بھی منسلک ہوتے ہیں یوں اس دھندے سے وابستہ لوگ قانون کی زد میں کم ہی آتے ہیں۔ اسی طرح سے خانہ جنگی کے دوران بہت سارے بچے بھی یتیم اور بے سہارا ہو جاتے ہیں جو کہ مختلف ہاتھوں میں سے ہوتے ہوئے مختلف طرح کے پیشوں کا سستا ایندھن بن جاتے ہیں ۔
انہی بے سہارا اور بے خانماں بچوں اور بچیوں میں سے جن کی قسمت میں کچھ زیادہ ہی بد نصیبی لکھی ہوتی ہے وہ انسانی اعضاءکی تجارت کرنے والے سینڈیکیٹ کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور پھر ہوتا یہ ہے کہ ان کے جسمانی اعضاءتو کسی امیر کبیر شخص میں لگنے کے بعد جی رہے ہوتے ہیں مگر ان اعضا کا اصل مالک جی جان سے محروم ہو کر ایسا بے نشان ہو چکا ہوتا ہے کہ ڈھونڈے سے بھی اس کا نام و نشان
کہیں پر بھی نہیں ملتا ۔
میرے قارئین کو اچھی طرح سے یاد ہی ہو گا کہ سوات کے فوجی آپریشن کے اختتامی ایام میں ہماری سیکیورٹی فورسز نے دو سو کے قریب معصوم بچے برآمد کئے تھے جن کا تعلق سوات سے ہی تھا ۔ان بچوں کی برآمدگی کے بعد ہمارے ملک کی وفاقی
کا بینہ کے ایک وزیر نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ یہ بچے طالبان سے آزاد کر وائے گئے ہیں اور یہ بچے سو سائڈل بمبر بننے جارہے تھے۔
مگر میری اطلاع یہی ہے کہ یہ تمام بچے انسانی اعضا کے بیوپاریوں کے چنگل سے آزاد کروائے گئے تھے جو کہ ان کو سمگل کرنے والے تھے۔ اگر وزیر موصوف کا دعویٰ درست ہے تو اس خبر کو دوماہ سے زائد عرصہ بیت چکا ہے اس عرصے کے دوران ہمارے تفتیشی اداروں نے یہ کھوج تو لگا لیا ہوگا کہ ان بچوں کو کن طالبان نے یرغمال بنا کر رکھا ہوا تھا ؟
مجھے سو فیصد یقین ہے کہ اب وزیر موصوف کے پاس کہنے کو کچھ نہ ہوگا کیونکہ انسانی اعضا کے سمگلروں کے آقاوں کے ہاتھ بہت لمبے ہیں اس لیے اس ضمن میں کوئی بھی تفتیش روک دی گئی ہوگی۔
میرے معزز قارئین اس حقیقت سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ جب بھی کسی انسانی آبادی کو افراتفری کے عالم میں اپنے گھروں اور اپنے علاقوں کو چھوڑنا پڑتا ہے تب ایسے مواقع پر بے شمار معصوم بچے اپنے والدین سے بچھڑ جاتے ہیں اور بھولی عورتیں اغوا کر لی جاتی ہیں ۔ میری اطلاعات کے مطابق کئی سو سواتی بچے ابھی بھی اپنے گھروں کو نہیں لوٹے اور اتنی ہی تعداد میں خواتین بھی غائب ہیں۔ سب اچھا ہے کی رپورٹ دینے والے سرکاری آفیسر اور حکومتی پارٹی کے لیڈر، کیا یہ وضاحت کریں گے کہ یہ معصوم بچے اور بھولی عورتیں کدھر گئیں ؟
میرا ایک سوال اور بھی ہے۔ ہماری حکومت جن کو شدّت پسند قرار دے کر ماورائے عدالت قتل کئے جا رہی ہے اور پھر ان کے گھروں کو مسمار بھی کئے جارہی ہے ان مرنے والوں کے بے سہارا بیوی بچے کہاں پر ہیں اور ان کی کفالت کون کر رہا ہے؟
اگر تو میرے اس آرٹیکل کو پڑھ کر میرے ہم وطن یہ شعور حاصل کر لیں کہ اس ملک کے اصل مالک ہم ہی ہیں ،دنیا کے سب سے بڑے لٹیرے اور غنڈے یہودی اور ایونجیکل عیسائی نہیں ہیں اور ہم ہی نے اپنے وطن کو لٹیروں اور غنڈوں سے محفوظ رکھنا ہے اور اپنے دشمنوں سے اور ان کے ایجنٹوں سے ہم سب نے خود ہی نبٹنا ہے اور پھر میرے ہم وطن باہم متحد ہوکر اور متفق ہوکر ایک مشترکہ لائحہ عمل کو بھی اپنا لیں گے تب تو ہماری بچت ہو سکتی ہے اور اگر ہم نے ماضی کی طرح سے صرف اپنی حکومت پر تکیہ کیا تو ہمارے دشمن کا منصوبہ کچھ یوں ہے کہ پاکستان کو ایک طویل خانہ جنگی کی نذر کر دیا جائے ۔
اسی لئے جب ہماری حکومت نے امریکہ کے حکم پر سوات آپریشن شروع کیا تھا تو میرے ذہن میں یہی خدشہ موجود تھا کہ یہ ہمارے ملک کو خانہ جنگی کے حوالے کرنے کی ا بتدا ہے اور اس آپریشن کو مد نظر رکھ کر امریکن اپنے آئندہ آنے والے آپریشنز کا لائحہ عمل طے کریں گے۔ اسی لیے امریکہ اور یورپ کے بہت سارے ماہرین نے اپنے اپنے انداز میں سوات آپریشن کا گہرا تجزیہ کیا ہے اور اپنے اپنے فیلڈ کے مطابق اس سارے آپریشن کی سٹڈی بھی کی ہے ۔
اب امریکن یعنی کی یہودی ہم پاکستانی قوم کو مہنگائی کی اتنی سخت مار دیں گے کہ آئندہ جب بھی پاکستان کے کسی علاقے یا کسی شہر میں سوات کی طرح کا آپریشن کیا گیا تواس وقت تک ہم پاکستانی اتنے مفلوک الحال ہوچکے ہوں گے کہ اس برے وقت میں ایک خاندان کے لیے دوسرے پورے خاندان کی مہمان نوازی تو بہت بڑی بات ہوگی تب اس وقت ایک پورا خاندان صرف ایک فرد کی مہمان نوازی کرنے کے قابل بھی نہ ہوگا۔
تب اس معاشی بد حالی کے دور میں ہمارے یہودی آقاوں کی مرادیں بر آئیں گی پھر اس بڑے اور وسیع فوجی آپریشن کے کچھ عرصے کے بعد یہی ہوگا کہ مہاجر ین کے کیمپس مفلوک الحال لوگوں سے بھرے ہوئے ہوں گے اور ہماری مدد کرنے والا کوئی بھی نہ ہوگا مگر انسانی اعضا کے سمگلر اور طوائفوں کے بیوپاری ان کیمپس میں سودے بازی کر رہے ہوں گے جس کا حاصل یہی ہوگا کہ ایک دن ہمارے ملک کے کسی ایک شہر یا کسی ایک علاقے کی باعزت دوشیزائیں یورپ اور امریکہ میں کسی بار یا ہوٹل میں رقص کر رہی ہوں گی اور ان کا رقص دیکھنے والے اور ان سے اٹھکیلیاں کرنے والے ستر ستر سالہ بوڑھے سفید فام مردوں کے جسم میں کوئی نہ کوئی اہم عضو ایسا ضرور ہوگا جو کہ انہی دوشیزاوں کے بھائی یا بہن کے بدن سے نکالا گیا ہوگا۔
یہ تو میرا تجزیہ ہے اور مستقبل کا حال تو اللّٰہ عالم الغیب ہی بہتر جانتے ہیں۔
خادم الاسلام و المسلمین ڈاکٹر عصمت حیات علوی یکم۔ستمبر۔۹۰۰۲ء
No comments:
Post a Comment