Monday, September 14, 2009

دفاعی سودوں میں اربوں کے گھپلے




تحریر:‌ روف عامر پپا برار

پاکستان میں رشوت خوری اور ہوس زر نے اعلی سے لیکر ادنی سرکاری ملازمین تک اور بیوروکریٹوں سے لیکر جرنیلوں تک کو اپنے سحر میں یوں جکڑ دیا ہے کہ ملکی سلامتی و ریاست کی نظریارتی سرحدوں کی حفاظت کے لئے مختص ہونے والے مقدس دفاعی بجٹ میں ہیر پھیر کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جاتا۔

دفاعی سودوں میں ہونے والی اربوں روپے کی کرپشن کے ملزمان چاہے وہ سویلین ہوں یا فوجی آامر، کسی بھی صورت میں محب وطن پاکستانیوں کا اعزاز حاصل نہیں کرسکتے کیونکہ ایسی رشوت خوری دشمن کے مقابلے میں اپنی افواج کو جدید ترین جنگی سازوسامان سے محروم کرنے کا سبب ٹھہرتی ہے۔ یاد رہے جب صاحبان اختیار دفاعی معاہدوں میں سے اربوں کو نیاز سمجھ کر ہڑپ کرتے ہیں تو تب ہمیں ناقص اور دو نمبر جنگی سامان مہیا کیا جاتا ہے جسکے ساتھ میدان جنگ میں اترنا شکست حاصل کرنے کے مترادف ہے۔ایک موعقر جریدے میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق پاکستان، فرانس اور جرمنی کے درمیان بحری ابدوزوں کی خریداری پر رسہ کشی جاری ہے۔

پاکستان نیوی جرمنی سے ابدوزوں کی خرید پر دو بلین ڈالر کی ڈیل طے کرچکی ہے مگر اسلام اباد کے چند طاقتور حلقے جرمنی اور پاکستان کے معاہدے کو منسوخ کرانے کے لئے سرگرم عمل ہیں وہ زور لگارہے ہیں کہ پاکستان نیوی جرمنی کی بجائے فرانس سے آبدوزیں حاصل کرے تاکہ وہ بھی ڈیل کی کالک کو اپنے پاکباز چہروں پر مل سکیں۔ ایسی پرشور صورتحال میں جرمنی کی چانسلر انجیلا مارکیلی پریشان ہیں ۔ انہوں نے پاکستان کے ساتھ دفاعی تجارت معطل کردینے کے مغربی دباو کو مسترد کرکے نہ صرف پاک نیوی کو ابدوزیں فراہم کرنے کا اعلان کیا بلکہ مارکیلی نے پہلے ہی اٍس سودے میں پاکستان کو خصوصی رعایت سے نوزا ہے۔

پڑوسی ملک کے متعلق اٍس معاہدے کے ضمن میں جو اطلاعات سامنے ائی ہیں کے مطابق بھارت نے بھی پاک جرمن معاہدے کے خلاف زور دار سفارتی مہم جاری کی ہوئی ہے۔ جرمنی پاکستان معاہدے کے متعلق یہ تفصیل صفحہ قرطاس کی زینت بنی کہ معاہدہ اخری مراحل میں ہے۔جرمنی کے حکام اسلام اباد کی طرف سے آرڈر دیے جانے کی راہ تک رہے ہیں۔

چیف اف ارمی سٹاف پرویز کیانی نے 18 جون 2009 میں جرمنی کا دورہ کیا تو تب طرفین کو امید تھی کہ معاہدے کو حتمی شکل دے دی جائے گی مگر کیانی کے دورے میں بھی معاہدے پر پیش رفت نہ ہوسکی علاوہ ازیں پاکستان کے وزیردفاع احمد مختیار اپنے جرمن ہم منصب سے بھی ابدوزوں کی فراہمی کے لئے بات چیت کرچکے ہیں۔

پاکستان کو ابدوزیں فراہم کرنے والی جرمن فرم کے ترجمان نے بتایا کہ طرفین کے مابین معاہدے کے پچانوے فیصد حصے پر دونوں کا اتفاق رائے ہوچکا ہے۔اب سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر پاکستان اتنی زیادہ تاخیر و غفلت کا مظاہرہ کیوں کیا جارہا ہے؟فرانسیسی لابی معاہدے کے خاتمے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے تاکہ اسلام آباد فرانس کا گاہک بنے۔ انڈیا بھی یہی چاہتا ہے کہ پاکستان جرمن آبدوزوں کی بجائے فرانسیسی آبدوزیں خریدے جو کہ انڈین ٹیکنالوجی کے برابر ہیں جبکہ جرمن ان سے ایک ہاتھ آگے۔ جریدے کی رپورٹ کے مطابق صدر زرداری پاک جرمن معاہدے کے خلاف ہیں۔

پاکستان نے پی پی کے دوسرے دور میں فرانس سے تین اگسٹاb.90 ابدوزیں حاصل کیں فرانس کے موجودہ صدر سرکوزی اس دور میں جرمن کیبنٹ کے رکن تھے۔کہا جاتا ہے کہ زرداری نے بی بی کے دور میں خریدی جانے والی ابدوزوں کی ڈیل میں کئی کروڑ ڈالر وصول کئے۔زرداری اور فرانس کے صدر سرکوزی گہرے مراسم رکھتے ہیں۔ لندن سے شائع ہونے والی رپورٹBRIBES AND BOOMS میں ان پارساوں کے نام شامل ہیں جنہوں نے ڈیل سے کافی کچھ پایا۔ رپورٹ کے متن میں زرداری اور سرکوزی کا نام رشوت حاصل کرنے والے شریفوں کی فہرست میں شامل ہے۔

پاکستان میں2002 کو گیارہ فرانسیسی انجینیرز بم دھماکے میں خاکستر ہوگئے۔فرانس کے ایک جج نے زرداری پر فرانسیسیوں کے قتل کا الزام عائد کیا۔ فرانسیسی خبر رساں اٍدارےdpA کے مطابق فرنچ لوگوں نے زرداری کے دورہ فرانس پر پاکستانی وفد اور صدر کے ساتھ سرکوزی کی ملاقاتوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا یوں فرنچ صدر سرکوزی کو خاصی خفت بھی اٹھانی پڑی۔

فرانس کے ایک اور خود مختیار ادارے نے اپنے سروے کے بعد فرنچ انجینیرز کی ہلاکتوں اور رشوت سیکنڈل کے ضمن میں درج ذیل لوگوں کے نام جاری کئے۔ ایڈورڈ اس وقت وزیراعظم تھے جب1995 میں وہ صدارتی الیکشن میں شیراک کے ہاتھوں پٹ گئے تھے۔ فرنچ پولیس کے مطابق ایڈورڈ کی مہم میں رشوت خوری اور ڈیلوں سے کمائی گئی دولت کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔1995 میں شیراک تیسری مرتبہ جرمنی کے حاکم منتخب ہوئے اور شیراک انتظامیہ نے ہی پاکستان کو سابق سودے میں کمیشن کی رقم دینے سے انکار کردیا۔

چارلس ملن شیراک کے دور حاکمیت میں وزیر دفاع تھے نے کہا تھا کہ باثر پاکستانی لوگ کمیشن کی رقم کا مطالبہ کررہے تھے جسے شیراک نے مسترد کردیا۔زرداری پر الزام ہے کہ اس نے آبدوزوں کی خرید پر کئی ارب کھرے کئے۔ جرمنی کے ساتھ پاکستان کے خوشگوار تعلقات ہیں۔اگر پاکستان نے جرمنی کی بجائے فرانس سے آبدوزوں کے حصول کا پروگرام مرتب کیا تو یہ تعلقات ہوا میں تحلیل ہوسکتے ہیں۔ جرمنی روس اور جاپان کے بعد جرمنی وہ چوتھا ملک ہے جس نے پاکستان کے ساتھ اسٹریٹیجک تعلقات کا اغاز کیا تھا۔

ملکی سلامتی کو ناقابل تسخیر بنانے کے لئے پاکستان کو ایک طرف جرمن آبدوز کلاس14 کی ضرورت ہے تو دوسری طرف پاکستان جرمنی جیسے دوست ملک کے ساتھ کسی قسم کا پنگا لینے کی خواہش نہیں رکھتا۔ارباب اختیار دونوں خاکیوں اور پی پی کے حکمرانوں کو اٍس معاملے کی تہہ تک غور و فکر کرکے دفاعی خارجی پالیسیاں بنانے کے ہنگامی اقدامات کرنے چاہیں تاکہ ہماری طرف کوئی میلی انکھ اٹھا کر نہ دیکھے۔

عسکری و حکومتی لابیاں یاد رکھیں کہ اگر رقم کی لالچ میں جرمنی سے دفاعی معاہدہ ختم کیا گیا تو پھر دونوں کے درمیان پائے جانے والے برادرانہ تعلقات کی راہ میں رکاوٹیں حائل ہوسکتے ہیں جسکا سرا سر نقصان پاکستان کو ہے۔زرداری کے خلاف ہر دور کی عدلیہ نے تفتیش کی مگر انکے خلاف ایک مقدمہ بھی سچ نہ بن سکا۔زرداری کے خلاف میڈیا وار جاری ہے۔

حکومتی نابغوں کو جہاں ایک طرف آبدوزوں کے مسائل کی گھمبیرتا کو سلجھن بنانے کی طرف متوجہ ہونا چاہیے تو دوسری طرف صدر کے خلاف میڈیا وار کو روکنے کے ہنگامی اقدامات کرنے چاہیں ۔



بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل

No comments:

Post a Comment