تحریر: روف عامر پپا بریار
سنٹرل ایشیا تیل و گیس کے وسیع و عریض خذانوں کے کارن تاریخ ساز خطہ ہے اور یہاں اپنی رسائی و حاکمیت کے پھریرے لہرانے کی تاریخ بھی کافی پرانی ہے۔سلطنت عثمانیہ کے عظیم ترین جنگی جرنیل انور پاشا نے اٹھارہویں صدی میں وسیع تر اسلامی سلطنت کے قیام کے لئے آذربائیجان کے شہر باکو کو زیر کرلیا. یہ وہ عرصہ تھا جب باکو کی معدنی دولت نے استعماری طاقتوں جرمنی برطانیہ اور فرانس کو مستقبل میں سائنسی انقلاب کے پیش نظر ادھر متوجہ کیا تھا۔
انور پاشا نے1918 میں وسطی ایشیا کو فتح کرلیا۔ روس نے آرمینیائی فوج کے ساتھ ملکر انور پاشا سے بدلہ لینے کے لئے اسلامی فوجوں پر حملہ کردیا۔ ترکوں کو برفیلے طوفانوں میں جنگ لڑنے کا تجربہ نہ تھا یوں ترک مسلمان شکست کھا گئے اور انہیں انور پاشا کی جدائی کا صدمہ اٹھانا پڑا جو1922 کو جنگ میں شہید ہوئے۔
ترک فوج کا باکو پر حملہ کرنا اس گریٹ گیم کا نقطہ آغاز تھا جسے جیتنے کے لئے امریکی اور اتحادی آجکل افغانستان پر قابض ہیں۔ گریٹ گیم شیطانی صہیونیت کی وہ چال ہے جس کی رو سے یہودی امریکی فورسز کی معاونت سے سنٹرل ایشیا کے وسائل پر قابض ہونے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔
بش دور میں گریٹ گیم کا پہلا راونڈ شروع ہوا اور جب یہ ترکہ اوبامہ کے سپرد ہوا تو اس نے افغان جنگ کا نام بدل کرAF.PK رکھ دیا تاکہ افغانستان میں ہونے والی قتل و غارت کو پاکستان منتقل کیا جائے۔ صہیونی لابی نے اوبامہ کو قائل کیا کہ القاعدہ کی اپر قیادت بشمول اسامہ پاکستان میں روپوش ہے۔ اس نقطہ نظر کو ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر گراہم ایلسن کی رپورٹ سے تقویت ملتی ہے۔
پروفیسر لکھتے ہیں کہ افغانستان میں ناٹو فورسز کی پے درپے ہلاکتوں کو روکنے کے لئے امریکہ کو پاکستان کی مدد سے اسکے قبائلی علاقوں میں موجود القاعدہ کو ختم کرنے کی پالیسی اپنانی چاہیے۔
1993 میں پاکستان اور ایران کے درمیان تیل و گیس کی تجارت کا معاہدہ ہوا۔ بعد ازاں ایران نے اس منصوبے کو بھارت تک دراز کرلیا۔ واشنگٹن کی صہیونی لابی کے لئے یہ منصوبہ ipi گیس پائپ لائن ڈراونا خواب بن گیا۔ یہ منصوبہ چونکہ روس کے مفاد میں تھا اسی لئے ماسکو نے اسکی حمایت کی۔NABUCO PIPE LINE وہ منصوبہ ہے جسکے مطابق یورپی یونین بحیرہ قزوین کی گیس و توانائی کے خام مال کو روس کی بجائے دیگر ذرائع سے یورپ پہنچایا جائے۔ یہ روس کے مفاد میں تھا کہ اسے نظر انداز کرنے کی سزا کے طور پر نیبکیو پائپ لائن منصوبے کو تعطل کا نشانہ بنائے۔
یوں ماسکو نے ساری توجہ ipi کی طرف موڑ دی۔ ایشیا ٹائمز نے اگست2009 میں سنٹرل ایشیا میں بچھنے والی پائپ لائنوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ کہ وسطی ایشیا میں دہشت گردی کا نقشہ دراصل تیل کی پائپ لائنوں سے نہ بدل دیا جائے۔ روس نے وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی کے لئے امریکی و اتحادی فوجیوں کو افغانستان میں الجھانے کا ایسا اہتمام کیا کہ واشنگٹن کے سارے خواب چکنا چور ہوگئے۔
امریکہ کی آئل فرم یونی کول کے احباب طالبان کے دور میں وسطی ایشیا کے تیل کو افغانستان سے گزارنے اور پائپ لائن کے حوالے سے مذاکرات کئے تھے۔ طالبان کے انکار کے فوری بعد ہی افغانستان پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔
نائن الیون کا ڈرامہ تو دنیا کی ہمدردیاں سمیٹنے کی ایک ابلیسی چال تھی۔ روس نے اس محاز پر امریکہ کو شکست دی تو اوبامہ ٹیم کے ممبران نے کئی دوسرے ذرائع پر غور و خوض شروع کردیا۔ امریکی ایران کو ناک اوٹ کرنے کے لئے ترکمانستان پاکستان بھارت اور افغانستان کے درمیان توانائی و گیس کی ترسیل کا پروگرام بنائے بیٹھے ہیں۔ اس منصوبے کے تحت ترکمانستان کی گیس کو افغانستان اور وسطی پاکستان سے گزار کر بھارت تک لایا جائے تاکہ یورپ کا روسی تیل پر انحصار کم کیا جائے۔
اس منصوبے کو کامیاب کرانے کے لئے اوبامہ کےAF PAK منصوبے کو کامیاب کرانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔امریکہ نے ہلمند میں آپریشن خنجر بھی اسی مقصد کے لئے شروع کیا تھا۔ اس طرح روس کو ترکمانستان کے سامنے جھکانے کی خوش فہمی بھی شامل حال تھی مگر ائے بسا ارزو کہ خاک شد کے مصداق امریکہ کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
AMBO وہ امریکی منصوبہ ہے جسکے تحت بحیرہ قزوین کے تیل کو آذر بائیجان سے البانیا تک پہنچانا تھا تاکہ روس کا یورپ پر توانائی کا غلبہ ختم کیا جائے۔ امریکہambo کو کامیابی کا سہرا پہنانے کے لئے نوے کی دہائی سے اس پر اربوں خرچ کررہا ہے مگر علاقائی تنازعات اور روسی ریچھ کی دوبارہ انگڑائی نے اسے بھی ناکامی کا کفن اوڑھ دیا۔
btcp بھی صہیونیوں کا تشکیل کردہ منصوبہ ہے جسکے مطابق باکو کے تیل کو ترکی کے راستے اسرائیل کی بندرگاہ ایلات تک پہنچانا تھا مگر ترک باغیوں کی مخالفت اور روس کے ہاتھوں جارجیا کے امریکن نواز حکمرانوں کے سیاسی و عسکری زوال نے بی ٹی سی پی کو ناقابل عمل بنادیا۔
یوں نائن الیون کے فوری بعد صہیونیوں کی بداعمالیوں کے کارن گریٹ گیم کے جس کھیل کا آغاز ہوا تھا وہ بڑی حد تک روس جیت چکا ہے۔ افغانستان کی بساط پر اب امریکہ جنگ ہار چکا ہے۔ روس اور چین ہانپتے ہوئے امریکی ہاتھی کو مزید ہلکان کرکے درگور کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کے پالیسی میکرز کو دانشمندی کا مظاہرہ کرکے سارے منظر نامے کا جائزہ لیکر مستقبل کی جاندار پالیسی تشکیل دینی چاہیے۔ ہمیں اپنا احتساب بھی کرنا ہوگا کہ اگر امریکہ ذلیل و خوار ہوکر کابل سے فرار ہوگیا تو پھر ہمارا کیا بنے گا؟
انور پاشا نے1918 میں وسطی ایشیا کو فتح کرلیا۔ روس نے آرمینیائی فوج کے ساتھ ملکر انور پاشا سے بدلہ لینے کے لئے اسلامی فوجوں پر حملہ کردیا۔ ترکوں کو برفیلے طوفانوں میں جنگ لڑنے کا تجربہ نہ تھا یوں ترک مسلمان شکست کھا گئے اور انہیں انور پاشا کی جدائی کا صدمہ اٹھانا پڑا جو1922 کو جنگ میں شہید ہوئے۔
ترک فوج کا باکو پر حملہ کرنا اس گریٹ گیم کا نقطہ آغاز تھا جسے جیتنے کے لئے امریکی اور اتحادی آجکل افغانستان پر قابض ہیں۔ گریٹ گیم شیطانی صہیونیت کی وہ چال ہے جس کی رو سے یہودی امریکی فورسز کی معاونت سے سنٹرل ایشیا کے وسائل پر قابض ہونے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔
بش دور میں گریٹ گیم کا پہلا راونڈ شروع ہوا اور جب یہ ترکہ اوبامہ کے سپرد ہوا تو اس نے افغان جنگ کا نام بدل کرAF.PK رکھ دیا تاکہ افغانستان میں ہونے والی قتل و غارت کو پاکستان منتقل کیا جائے۔ صہیونی لابی نے اوبامہ کو قائل کیا کہ القاعدہ کی اپر قیادت بشمول اسامہ پاکستان میں روپوش ہے۔ اس نقطہ نظر کو ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر گراہم ایلسن کی رپورٹ سے تقویت ملتی ہے۔
پروفیسر لکھتے ہیں کہ افغانستان میں ناٹو فورسز کی پے درپے ہلاکتوں کو روکنے کے لئے امریکہ کو پاکستان کی مدد سے اسکے قبائلی علاقوں میں موجود القاعدہ کو ختم کرنے کی پالیسی اپنانی چاہیے۔
1993 میں پاکستان اور ایران کے درمیان تیل و گیس کی تجارت کا معاہدہ ہوا۔ بعد ازاں ایران نے اس منصوبے کو بھارت تک دراز کرلیا۔ واشنگٹن کی صہیونی لابی کے لئے یہ منصوبہ ipi گیس پائپ لائن ڈراونا خواب بن گیا۔ یہ منصوبہ چونکہ روس کے مفاد میں تھا اسی لئے ماسکو نے اسکی حمایت کی۔NABUCO PIPE LINE وہ منصوبہ ہے جسکے مطابق یورپی یونین بحیرہ قزوین کی گیس و توانائی کے خام مال کو روس کی بجائے دیگر ذرائع سے یورپ پہنچایا جائے۔ یہ روس کے مفاد میں تھا کہ اسے نظر انداز کرنے کی سزا کے طور پر نیبکیو پائپ لائن منصوبے کو تعطل کا نشانہ بنائے۔
یوں ماسکو نے ساری توجہ ipi کی طرف موڑ دی۔ ایشیا ٹائمز نے اگست2009 میں سنٹرل ایشیا میں بچھنے والی پائپ لائنوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ کہ وسطی ایشیا میں دہشت گردی کا نقشہ دراصل تیل کی پائپ لائنوں سے نہ بدل دیا جائے۔ روس نے وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی کے لئے امریکی و اتحادی فوجیوں کو افغانستان میں الجھانے کا ایسا اہتمام کیا کہ واشنگٹن کے سارے خواب چکنا چور ہوگئے۔
امریکہ کی آئل فرم یونی کول کے احباب طالبان کے دور میں وسطی ایشیا کے تیل کو افغانستان سے گزارنے اور پائپ لائن کے حوالے سے مذاکرات کئے تھے۔ طالبان کے انکار کے فوری بعد ہی افغانستان پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔
نائن الیون کا ڈرامہ تو دنیا کی ہمدردیاں سمیٹنے کی ایک ابلیسی چال تھی۔ روس نے اس محاز پر امریکہ کو شکست دی تو اوبامہ ٹیم کے ممبران نے کئی دوسرے ذرائع پر غور و خوض شروع کردیا۔ امریکی ایران کو ناک اوٹ کرنے کے لئے ترکمانستان پاکستان بھارت اور افغانستان کے درمیان توانائی و گیس کی ترسیل کا پروگرام بنائے بیٹھے ہیں۔ اس منصوبے کے تحت ترکمانستان کی گیس کو افغانستان اور وسطی پاکستان سے گزار کر بھارت تک لایا جائے تاکہ یورپ کا روسی تیل پر انحصار کم کیا جائے۔
اس منصوبے کو کامیاب کرانے کے لئے اوبامہ کےAF PAK منصوبے کو کامیاب کرانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔امریکہ نے ہلمند میں آپریشن خنجر بھی اسی مقصد کے لئے شروع کیا تھا۔ اس طرح روس کو ترکمانستان کے سامنے جھکانے کی خوش فہمی بھی شامل حال تھی مگر ائے بسا ارزو کہ خاک شد کے مصداق امریکہ کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
AMBO وہ امریکی منصوبہ ہے جسکے تحت بحیرہ قزوین کے تیل کو آذر بائیجان سے البانیا تک پہنچانا تھا تاکہ روس کا یورپ پر توانائی کا غلبہ ختم کیا جائے۔ امریکہambo کو کامیابی کا سہرا پہنانے کے لئے نوے کی دہائی سے اس پر اربوں خرچ کررہا ہے مگر علاقائی تنازعات اور روسی ریچھ کی دوبارہ انگڑائی نے اسے بھی ناکامی کا کفن اوڑھ دیا۔
btcp بھی صہیونیوں کا تشکیل کردہ منصوبہ ہے جسکے مطابق باکو کے تیل کو ترکی کے راستے اسرائیل کی بندرگاہ ایلات تک پہنچانا تھا مگر ترک باغیوں کی مخالفت اور روس کے ہاتھوں جارجیا کے امریکن نواز حکمرانوں کے سیاسی و عسکری زوال نے بی ٹی سی پی کو ناقابل عمل بنادیا۔
یوں نائن الیون کے فوری بعد صہیونیوں کی بداعمالیوں کے کارن گریٹ گیم کے جس کھیل کا آغاز ہوا تھا وہ بڑی حد تک روس جیت چکا ہے۔ افغانستان کی بساط پر اب امریکہ جنگ ہار چکا ہے۔ روس اور چین ہانپتے ہوئے امریکی ہاتھی کو مزید ہلکان کرکے درگور کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کے پالیسی میکرز کو دانشمندی کا مظاہرہ کرکے سارے منظر نامے کا جائزہ لیکر مستقبل کی جاندار پالیسی تشکیل دینی چاہیے۔ ہمیں اپنا احتساب بھی کرنا ہوگا کہ اگر امریکہ ذلیل و خوار ہوکر کابل سے فرار ہوگیا تو پھر ہمارا کیا بنے گا؟
No comments:
Post a Comment