تحریر: محمد حنیف مسرور
اسلام مخالف جنگوں اور معاشی بد حالی کے نتائج
کئی ریاستیں ہمسایہ ممالک میں ضم ہونے کو تیار
امریکی و مغربی ذرائع ابلاغ کی رپورٹیں
امریکہ اور اسکے حاشیہ بردار ممالک، تھنک ٹینک ادارے اور شخصیات ایک عرصہ سے
پاکستان کیخلاف ایک پراپیگنڈہ وار یا نفسیاتی مہم چلا رہے ہیں۔ مختلف رپورٹوں اور بیانات میں تواتر سے یہ پیشین گوئیاں کی جارہی ہیں کہ پاکستان معاذاللہ بس چند دن یا چند برسوں کا مہمان ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان دنیا کے دو غیر فطری ممالک ہیں۔ کبھی ایسے نقشہ جات تیار کیے جاتے ہیں جن میں ان ممالک کو دوسرے ممالک میں ضم یا مدغم ہوتے دکھایا جاتا ہے۔
آجکل پاکستان کیخلاف اس پراپیگنڈہ وار میں انتہائی شدت آچکی ہے۔ پاکستان کے کسی بھی علاقے میں تھوڑی سی بھی بے چینی پیدا ہوجائے تو تو اسے ایک خوفناک طوفان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ بے چینی بھی اسی دشمن کی اپنی پیدا کردہ ہوتی ہے۔
اس سارے قضیے میں یہ بات حیران کن ہے کہ ان کافر طاقتوں خصوصاً امریکہ کو اپنی ناک کے عین نیچے دیکھنا گوارا نہیں ہے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ امریکہ آئندہ برسوں یا 2025ء تک ٹوٹ جائیگا یا اسکی ریاستیں بکھر کر الگ ہوجائیں گی، یونائیٹڈ سٹیٹس میں یونائیٹڈ تو کیا امریکہ کا لفظ بھی نہیں بچے گا تو اس بات کو ایک دیوانے کی بڑ سے زیادہ نہیں سمجھا جائیگا۔
حقیقت یہ ہے کہ روس کے ٹوٹنے سے ایک دن پہلے تک بھی لوگوں کو یہ یقین نہ تھا کہ روس ٹوٹ جائیگا۔ وہ سوچتے تھے کہ اگر روس ٹوٹا بھی تو اسے ابھی کئی سو سال لگیں گے اور مستقبل قریب میں اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے۔
لیکن پھر دنیا نے دیکھا کہ ہفتوں مہینوں میں ہی روس کا نقشہ بدل گیا۔ اسکی کوکھ سے چودہ مسلم ریاستوں نے جنم لیا اور یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلک (USSR) میں صرف R یعنی روس یا رشیا رہ گیا۔
آج یہاں ہم حقائق پیش کرکے دنیا کو امریکہ میں تیزی سے ہونیوالی شکست و ریخت کا آئینہ دکھائیں گے۔
یہ بھی خیال رہے کہ ہم یہاں امریکہ کی تازہ معاشی بدحالی کے حوالے سے رپورٹیں پیش نہیں کر رہے۔ اگرچہ کہ یہ بدحالی بھی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اربن انسٹیٹیوٹ کی تازہ رپورٹ کیمطابق امریکہ میں عورتوں اور بچوں سمیت 35لاکھ شہری سڑکوں پر سوتے ہیں۔ رپورٹ کیمطابق امریکہ میں 35لاکھ شہری بے گھر ہیں۔ ان میں ساڑھے تیرہ لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔ صرف نیویارک میں 37ہزار افراد جن میں 16 ہزار بچے بھی شامل ہیں، روزانہ مارکیٹوں کے چھجوں کے نیچے سونے پر مجبور ہیں۔ اس سے پہلے امریکہ کی انتہائی دگرگوں معاشی صورتحال کے بارے میں یہ رپورٹیں منظر عام پر آچکی ہیں کہ کس طرح امریکہ کے برے بڑے بینک دیوالیہ ہوچکے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔
لیکن اس تمام خطرناک معاشی صورتحال سے قطع نظر آئیے دیکھیں کہ سیاسی طور پر امریکی ریاستوں میں کیسی خوفناک صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ دنیا کیلئے (اگرچہ کسی ملک کی تباہی کیلئے یہی واحد عنصر کافی ہوتا ہے جیسا کہ روس کیساتھ ہوا) یہ بات کس قدر حیرتناک ہوگی کہ ایک جانب امریکہ دنیا بھر میں مختلف اقوام اور ممالک کی آزادی چھیننے کیلئ فوجی کاروائیوں میں ملوث ہے تو دوسری جانب خود امریکہ میں ایسے درجنوں گروپ اور جماعتیں قائم ہوچکی ہیں جو امریکہ سے اپنی ریاستوں کی مکمل آزادی کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ اس سلسلے مین کئی جماعتوں نے امریکی وفاقی حکومت کے غیر معمولی اختیارات کے خاتمے اور امریکی ریاستوں کی مکمل آزادی اور علیحدگی کا حق دینے کیلئے قانون سازی کا مطالبہ کیا ہے۔
ان تنظیموں کا مؤقف یہ ہے کہ امریکہ کی وفاقی حکومت انکی ریاست سے جو ٹیکس وصول کرتی ہے اسکا بہت ہی کم حصہ ریاست کی فلاح و بہبود پر خرچ کرتی ہے جبکہ امریکی حکومت امریکی عوام کے ٹیکسوں کی آمدنی سے دنیا کے مختلف حصوں میں جو بھی فوجی کاروائیاں کررہی ہے اس کا بوجھ ٹیکسوں کی شکل میں امریکی عوام پر ہے اور انھیں شدید معاشی و اقتصادی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ایک امریکی مصنف جیرڈ ڈائمنڈ نے اپنی کتاب (The Collaps زوال) میں امریکہ میں علیحدگی پسند رحجانات کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اامریکہ میں سیاسی ٹوٹ پھوٹ شروع ہو گئی ہے اور امریکہ آئندہ پانچ سے دس سالوں میں سوویت یونین کی طرح بکھر جائیگا۔ جیرڈ ڈائمنڈ نے اسکی چار بڑی وجوہ بیان کی ہیں جن میں سرفہرست اقتصادی وجوہات ہیں۔ جیرڈ ڈائمنڈ کا کہنا ہے کہ امریکہ اقتصادی طور پر کھوکھلا ہوچکا ہے اور اسکی معیشت مندی کا شکار ہے۔ اسکی سرحدیں وسیع ہوچکی ہیں اور وہ اپنی ریاستی حدود میں مزید توسیع کیلئے وہی غلطیاں دہرا رہا ہے جو اس سے پہلے تباہ ہونیوالی سلطنتوں نے کیں۔
امریکی حکومت دنیا بھر میں ہونیوالی فوجی کاروائیوں میں ملوث ہے اور اسکے بجٹ کا ایک بڑا حصہ فوجی اخراجات پر مشتمل ہے۔ امریکی عوام شدید اقتصادی مشکلات کا شکار ہیں۔ انھیں ناانصافی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سمیت بدترین اقتصادی پریشانی کا سامنا ہے۔ لیکن ایلیٹ کلاس یعنی طبقہ اشرافیہ کو انکی کوئی پرواہ نہیں۔
امریکی سکالر اور کئی کتب کے مصنف کرک پیٹرک سیل نے اپنی کتاب
The Collapse of American Empire
پیٹرک سیل نے لکھا کہ اسوقت امریکی اداروں کا شمار دنیا کے انتہائی بدعنوان اداروں میں ہوتا ہے۔ عوام انصاف کے حصول کیلئے ترس رہے ہیں اور ساری دنیا کو انسانی حقوق کا درس پڑھانے والا امریکہ خود اپنے عوام کے بنیادی حقوق غصب کرنے کیلئے قانون سازی کررہا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ امریکہ کی صنعتی ترقی نمائشی ہے کیونکہ اسکی مجموعی قومی پیداوار میں صنعت کا حصہ صرف 13 فیصد ہے۔ امریکہ کو 13 ارب ڈالر کے خسارے کا سامنا ہے۔ اب وہ چین سے 83 ارب ڈالر کا قرض مانگ رہا ہے تاکہ اسکی ادائیگیوں کا توازن بہتر ہوسکے۔ دوسری جانب امریکی وفاقی بجت کو 700ارب ڈالر کے خسارے کا سامنا ہے۔ امریکہ جو ساری دنیا کو قرضہ دیتا تھا اب خود 10کھرب ڈالر کا مقروض ہے۔
کرک پیٹرک نے لکھا ہے کہ امریکہ پر دنیا بھر میں فوجی کاروائیوں کے اخراجات کا ایسا بوجھ ہے جو اسے تباہ کرنے کیلئے کافی ہے۔ اسوقت 4لاکھ 46 ہزار فوجی دنیا بھر میں 725 فوجی اڈوں پر تعینات ہیں اور یہ فوجی ادے دنیا کے 38ممالک میں واقع ہیں۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے امریکی بحری بیڑوں کی تعداد ایک درجن سے کم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی عوام کی پریشانیوں اور مشکلات میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے اور اسکے نتیجہ میں اب امریکی دانشور اور سکالر یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ کیا امریکہ دنیا بھر میں جو جنگیں لڑ رہا ہے کیا وہ اسکی سلامتی کیلئے ضروری ہیں بھی یا نہیں۔
چنانچہ گزشتہ دنوں دو امریکی اداروں زوگبی اور مڈل بری انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام مختلف امریکی ریاستوں میں یہ سروے کیا گیا کہ کیا امریکی ریاستوں کو وفاق سے الگ ہوجانا چاہیئے۔ سروے کے نےائج کیمطابق 22 فیصد رائے دہندگان نے رائے دی کہ ہر امریکی ریاست کو امریکہ سے علیحدگی کا حق حاصل ہے اور اگر وفاقی حکومت عوامی مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی تو پھر ہر ریاست کو اپنے عوام کی فلاح و بہبود اور اقتصادی بہتری کیلئے وفاق سے علیحدہ ہوجانا چاہیئے۔
کرک پیٹر کا کہنا ہے کہ اس موضوع پر ہرسال سروے ہوتا ہے اور گزشتہ سال کے دوران امریکہ سے علیحدگی کے حق میں رائے دہندگان کے تناسب میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
انھوں نے لکھا ہے کہ 1990ء کے عشرے میں صرف 5فیصد امریکی علیحدگی کے حامی تھے لیکن اب انکا تناسب بڑھ کر 22فیصد یعنی چار گنا تک ہو چکا ہے۔ کرک پیٹرک سیل کا کہنا ہے کہ قانونی طور پر صرف تین امریکی ریاستوں رہوڈز آئی لینڈ، نیویارک اور ورجینیا کو امریکی وفاق سے علیحدگی کا حق حاصل ہے۔ امریکی وفاق کی اہم ترین دستاویز یعنی دسویں ترمیم میں امریکہ میں شامل ہونیوالی ریاستوں کے علیحدہ ہونے کے بارے میں کوئی تذکرہ شامل نہیں ہے۔
جب جنوبی ریاستوں نے انیسویں صدی میں امریکہ سے علیحدہ ہونیکی کوشش کی تو یہ مسئلہ امریکی کانگریس میں اٹھا اور کانگریس نے علیحدگی پر پابندی لگا دی۔ لیکن امریکی آئینی ماہرین کانگریس کی اسی قرارداد کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ کانگریس اگر علیحدگی پر پابندی لگا سکتی ہے تو علیحدگی کی اجازت بھی دے سکتی ہے۔
کرک پیٹرک سیل کا کہنا ہے کہ اگر کوئی بھی امریکی ریاست مثال کے طور پر کیلیفورنیا وفاق سے الگ ہونیکی کوشش کرتی ہے تو کیا امریکی فوج اس ریاست کے عوام پر اسی طرح گولیاں چلا سکتی ہے جسطرح اس نے فلوجہ یا بغداد کے بے گناہ شہریوں پر چلائیں، یا جسطرح اس نے ویت نام اور افغانستان میں عام شہریوں کا قتل عام کیا۔
اسوقت کم از کم 17 امریکی ریاستیں ایسی ہیں جو وفاق کو ٹیکس ادا کرتی ہیں لیکن اس سے کہیں کم ان پر خرچ کیا جاتا ہے اور انھیں ریاستوں میں علیحدگی کے شدید جذبات موجود ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کیلیفورنیا امریکہ سے الگ ہوجاتا ہے تو اسکی ٹیکسوں کی آمدنی میں 232فیصد کا اضافہ ہوجائیگا۔
کرک پیٹرک نے اہنی کتاب میں ان تنظیموں کے نام بھی شائع کیے ہیں جو اپنی ریاستوں میں امریکہ سے علیحدگی کی مہم برے زور و شور سے چلا رہے ہیں۔ ان تمام جمعتوں، تنظیموں اور گروپس کی اپنی ویب سائیٹس بھی ہیں اور یہ گروپس اپنے رسائل، اخبارات اور ٹی وی چینل بھی چلاتے ہیں۔
ان میں سب سے بڑا گروپ امریکن سیکسیشن پراجیکٹ ہے جو آزاد الاسکا اور آزاد کیلیفورنیا کی مہم چلا رہا ہے۔ دوسرا بڑا گروپ مڈل بری انسٹیٹیوٹ ہے جو 2004ء میں نیویارک میں قائم ہوا اور اسکا مطالبہ ہے کہ اقوام متحدہ امریکہ کی 51 ریاستوں کو الگ الگ خودمختار ریاست تسلیم کرے اور انھیں رکنیت بھی دے۔ گروپ کا مطالبہ ہے کہ تمام امریکی ریاستوں کی علیحدگی کا حق آئینی طور پر تسلیم کیا جائے۔ تیسرا گروپ سویس کنفیڈریشن گروپ 2006ء میں قائم ہوا اور اسکا مطالبہ ہے کہ امریکہ کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بجائے ایک کنفیڈریشن قرار دیا جائے۔
مختلف ریاستوں کی علیحدگی پسند تنظیمیں
الاباما لیگ آف ساؤتھ سٹیٹ نامی تنظیم الاباما ریاست کی امریکہ سے علیحدگی کیلئے جدو جہد کررہی ہے۔
الاسکا انڈیپنڈنس پارٹ ریاست الاسکا کی آزادی کیلئے جدوجہد کررہی ہے۔ کیلیفورنیا کی آزادی کیلئے دو جماعتیں کام کررہی ہیں۔ ان میں ایک جماعت کیلیفورنیا ریپبلک ہے۔ اس جماعت پر امریکی حکومت نے پابندی لگا رکھی ہے۔ دوسری تنظیم کا نام کیلیفورنیز فار انڈیپنڈنس ہے۔ کساوڈیا کی آزادی کیلئے کام کرنیوالی ایک جماعت کا نام کساوڈیا انڈیپنڈنس پراجیکٹ ہے۔ یہ تین ریاستوں واشنگٹن، اوریگان اور برٹش کولمبیا کی آزادی کیلئے کام کر رہی ہے۔
جارجیا کی آزادی کیلئے تین گروپ کام کر رہے ہیں۔ ان میں جارجیا لیگ آف دی ساؤتھ، سدرن پارٹی آف جارجیا اور ڈکسی براڈکاسٹنگ شامل ہیں۔ ریاست ہوائی کی آزادی کیلئے پانچ گروپس کام کر رہے ہیں۔ ان میں فری ہوائی، ہوائی کنگڈوم، ہوائی نیشن، کالاہوئی ہوائی اور انسٹیٹیوٹ آف ہوائین افیرز شامل ہیں۔ لوزیانہ کی آزادی کیلئے کام کرنے والی تنظیم کا نام لوزیانہ لیگ آف دی ساؤتھ ہے۔ ریاست “مین“ کی آزادی کیلئے دو تنظیمیں کام کررہی ہیں جن میں فری مین اور سیکنڈ مین شامل ہیں۔
اسکے علاوہ جن امریکی ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں شروع ہو چکی ہیں، انکے نام یہ ہیں:
نیو انگلینڈ
نووا کاڈیا
لبرٹی
نیو ہیمپشائر
لانگ ائی لینڈ نیویارک
نارتھ کیرولینا
اوہائیو
پنسلوانیا
پورتو ریکو
ساؤتھ کنفڈریٹ ریجن
ساؤتھ کیرولینا
ٹیکساس
ورمونٹ
منی سوٹا
وسکنسن
مشی گن
حال ہی میں امور خارجہ کے ایک روسی سکالر آئی گورپینارن نے یہ پیشین گوئی کی ہے کہ امریکہ جلد ہی ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیگا۔ اس نئے عالمی منظر نامے کے بعد روس اور چین نئے عالمی لیڈر کے طور پر سامنے آئینگے۔
روسی وزارت دفاع کے خارجی معاملات کیلئے قائم ڈپلومیٹک اکیڈمی کے ڈین “آئی گور“ کے مطابق امریکہ کے حالات یکدم بہت زیادہ خراب ہونا شروع ہوجائینگے اور خانہ جنگی کی نوبت آ جائے گی۔ آئی گور کی حالیہ پیشین گوئی نے دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی ہے۔
معروف امریکی جریدے، وال سٹریٹ جرنل کو حال ہی میں دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ وہ امریکیوں کو ناپسند نہیں کرتے لیکن حقیقت بڑی تلخ ہے اور وہ یہی ہے کہ امریکہ کی بطور ایک فیڈرل ریاست صورتحال خراب ہوتی چلی جارہی ہے۔
آئی گور کیمطابق امریکہ 6نئی ریاستوں میں تبدیل ہوجائیگا جو مختلف ممالک کی دست نگر ہونگی۔ ان ریاستوں کے خدوخال کے بارے میں آئی گور کا خیال ہے کہ پہلی ریاست جمہوریہ کیلیفورنیا ہوگی جو چین کا حصہ یا اسکی دست نگر ہوگی۔ یہ ریاست کیلیفورنیا، واشنگٹن، ایریگن، نویڈا، ایریزونا اور اوہائیو پر مشتمل ہوگی۔
دوسری ریاست ٹیکساس ریپبلک کہلائے گی جوکہ ٹیکساس، نیو میکسیکو، اوکلاہوما، لوزیانہ، آرکنساس، مسی سپی، الاباما، چارجیا، اور فلوریڈا پر مشتمل ہوگی اور یہ روس کا حصہ یا اسکے ماتحت ہوگی۔
تیسری ریاست اٹلانٹک امریکہ کہلائے گیاور یہ ریاست یورپی یونین میں شمولیت اختیار کرسکتی ہے۔ یہ ریاست شمال مشرقی امریکہ، کنٹکی اور شمالی و جنوبی کیرولیناپر مشتمل ہوگی۔
آئی گور کیمطابق چوتھی ریاست شمالی وسطی امریکی ریاست ہے۔ یہ ریاست کینیڈا کا حصہ یا اسکے ماتحت کام کریگی۔ اس ریاست میں مڈ ویسٹ، مونتانا، یومنگ اور کلوراڈو شامل ہونگے۔
پانچویں ریاست الاسکا ہوگی جو کہ باضابطہ روس کے کنٹرول میں کام کریگی۔
چھٹی ریاست ہوائی چین یا جاپان کا حصہ ہوسکتی ہے۔
روسی سکالر آئی گور نے اپنی یہ پیشین گوئی حال ہی میں ماسکو میں اپنے ایک لیکچر کے دوران دہرائی۔ انھوں نے کہا کہ وہ یہ سارا عمل 2010ء تک ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ آئی گور کا کہنا ہے کہ وہ بذات خود امریکہ کے ٹوٹنے کیخلاف ہیں لیکن ایسا ہوتا صاف دکھائی دے رہا ہے۔
امریکہ کے بارے میں ایسی پیشین گوئیوں کا منظر عام پر آنا کوئی نئی بات نہیں۔ کئی عالمی تجزیہ نگار ایسی پیشین گوئیاں یا تجزیات کا اظہار کرچکے ہیں۔ آئی گور کی یہ پیشین گوئیاں ایسے وقت میں سامنے ائی ہیں جبکہ امریکہ میں انتخابات کے بعد نئے صدر اوبامہ حکومت سنبھال چکے ہیں۔ اور امریکی معیشت بھی شدید مندی کا شکار ہے۔ بینکنگ اور ہاؤسنگ کے شعبے بری طرح انحطاط کا شکار ہیں۔ کئی بڑے بینکوں اور مالیاتی اداروں کا دیوالیہ نکل چکا ہے۔ عراق جنگ نے امریکی معیشت کا بھرکس نکال دیا ہے۔ لیکن اب عراق سے اوبامہ فوجیں نکالنے کا عندیہ تو دے چکے ہیں لیکن انکا ابھی افغانستان سے نکلنے کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا۔ اور اسی لئے آئی گور یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان ہی امریکی افواج کا قبرستان ثابت ہوگا۔اور یہیں سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے توتنے کی بنیاد پڑیگی۔
مشہور مصنف محترم انور اقبال اپنے ایک مضمون، جسکا عنوان ہے
“2025ء تک امریکی عہد کا سورج غروب ہوچکا ہوگا“
میں لکھتے ہیں کہ امریکی حکومت کے ایک تحقیقی ادارے (نیشنل انٹیلیجنس کونسل) کی رپورٹ کیمطابق2025ء تک امریکہ دنیا کی سپر پاور کے طور پر نہیں رہ سکے گا بلکہ اسکی جگہ روس اور چین جیسے ممالک لے لینگے۔
غرضیکہ یہ امریکی اور مغربی رپورٹیں ہیں جو یہ چیخ چیخ کر بتا رہی ہیں آئندہ چند سالوں میں امریکہ سیاسی و معاشی طور پر زبردست ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونیوالا ہے۔ امریکہ کی تباہی کا آغاز تو اسی دن ہوگیا تھا جب اس نے مسلم دنیا کیخلاف صلیبی جنگ کا غیر اعلانیہ آغاز کیا تھا۔
نئے امریکی صدر اور صہیونی کٹھ پتلی اوبامہ نے اگرچہ عراق سے کچھ توبہ کرلی ہے اور وہاں سے افواج نکالنے کا عندیہ دیا ہے تاہم وہ افغانستان سے ابھی نکلنے کو ابھی تیار نہیں بلکہ اب امریکہ پاکستان پر حملے کیلئے بے چین ہے۔ اسکے لئے وہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان میں ایسے حالات پیدا کررہا ہے کہ جن کی آڑ میں وہ پہلے تو پاکستان کو بری طرح غیر مستحکم کریگ اور پھر عدم استحکام اور بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کا بہانہ بنا کر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کی کوشش کریگا لیکن امریکہ کا یہ خواب انشاء اللہ ایک خواب ہی رہیگا۔
جو ملک افغانستان جیسے ایک چھوٹے اور پسماندہ ملک پر قبضہ نہیں کرسکا وہ پاکستان جیسے ایک ایٹمی ملک پر کیسے قابض ہوگا۔
دراصل امریکہ کی پاکستان پر موجودہ یلغار اسلئے ہے کہ وہ خود اب چراغ سحری ہے اور جسطرح چراغ کا اپنے آخری دموں پر بھبھوکا بظاہر کچھ زیادہ ہوتا ہے لیکن اسکے بعد اسکی ہمیشہ کیلئے موت ہوتی ہے۔۔ یہی صورتحال امریکہ کی بن چکی ہے ۔ امریکی حکومت کو نوشتہ دیوار سامنے نظر آچکا ہے اور اب وہ اپنے آخری ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔
امریکہ کی اس قریب المرگ حالت کے بارے میں فی الحال کوئی بھی یقین کرنے کو تیار نہیں، نہ تو مسلمان اور نہ خود امریکی شہری۔
لیکن جس کو اپنا شک دور کرنا ہو تو امریکہ ہی کی ایک بڑی مالیاتی کمپنی کے سابق چیف ماہر معاشیات انتھونی کیری ڈاکس کا درج ذیل یہ بیان پڑھ لے جو کہ انٹرنیٹ کے ایک بلاگ
debtredutionformula.com
انتھونی لکھتے ہیں کہ: “عام امریکی اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں کہ کہ امریکی حکومت ایک مالی بحران میں داخل ہوچکی ہے۔ غالباً اسکی وجہ یہ ہے کہ عام شہری سچ نہیں سننا چاہتے ہ وہ اپنی لاعلمی سے لطف اندوز ہوتے ہیں یا پھر ایسا بھی ممکن ہے کہ جذبہ حب الوطنی سے انکی ذہن سازی ایسی کردی گئی ہے کہ امریکی معیشت ہمیشہ قوی رہیگی اور امریکہ عظمت کی ان بلندیوں تک پہنچ گیا ہے جہاں سے پستی ممکن نہیں۔ موجودہ امریکی مالی بحران کے نتیجے میں اجتماعی امریکی نفسیات کو متاثر کرنے میں کئی عوامل زیر گردش ہیں۔ عوام کا بیشتر طبقہ اس خوش فہمی میں ہے کہ آخر کار “خوش فہمی“ ہی انکا مقدر ہے۔ تاہم یہ صاف عیاں ہورہا ہے کہ ہم ایسے انجام تک پہنچ چکے ہیں اور قیامت ٹوٹنے والی پے“ 25 ریاستوں میں علیحدگی کے رحجانات میں کئی گنا اضافہ میں لکھا کہ میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن جس تیزی سے اقتصادی حالات خراب ہورہے ہیں، لوگ زیادہ دن کھیل تماشے میں نہیں لگے رہیں گے۔ پر پڑھا جاسکتا ہے: 2000ء کے بعد سے یورو کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قدر 30فیصد تک گرچکی ہے۔ اس وجہ سے لوگوں کا اعتبار امریکی ڈالر سے اٹھ گیا ہے اور انھوں نے امریکہ میں سرمایہ کاری کرنی چھوڑ دی ہے۔ اب وہ دن دور نہیں جب تیل پیدا کرنیوالے ممالک امریکی ڈالر میں قیمت وصول کرنے کی بجائے یورو یا چینی یوآن میں کاروبار شروع کردینگے۔
بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل
کئی ریاستیں ہمسایہ ممالک میں ضم ہونے کو تیار
امریکی و مغربی ذرائع ابلاغ کی رپورٹیں
امریکہ اور اسکے حاشیہ بردار ممالک، تھنک ٹینک ادارے اور شخصیات ایک عرصہ سے
پاکستان کیخلاف ایک پراپیگنڈہ وار یا نفسیاتی مہم چلا رہے ہیں۔ مختلف رپورٹوں اور بیانات میں تواتر سے یہ پیشین گوئیاں کی جارہی ہیں کہ پاکستان معاذاللہ بس چند دن یا چند برسوں کا مہمان ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان دنیا کے دو غیر فطری ممالک ہیں۔ کبھی ایسے نقشہ جات تیار کیے جاتے ہیں جن میں ان ممالک کو دوسرے ممالک میں ضم یا مدغم ہوتے دکھایا جاتا ہے۔
آجکل پاکستان کیخلاف اس پراپیگنڈہ وار میں انتہائی شدت آچکی ہے۔ پاکستان کے کسی بھی علاقے میں تھوڑی سی بھی بے چینی پیدا ہوجائے تو تو اسے ایک خوفناک طوفان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ بے چینی بھی اسی دشمن کی اپنی پیدا کردہ ہوتی ہے۔
اس سارے قضیے میں یہ بات حیران کن ہے کہ ان کافر طاقتوں خصوصاً امریکہ کو اپنی ناک کے عین نیچے دیکھنا گوارا نہیں ہے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ امریکہ آئندہ برسوں یا 2025ء تک ٹوٹ جائیگا یا اسکی ریاستیں بکھر کر الگ ہوجائیں گی، یونائیٹڈ سٹیٹس میں یونائیٹڈ تو کیا امریکہ کا لفظ بھی نہیں بچے گا تو اس بات کو ایک دیوانے کی بڑ سے زیادہ نہیں سمجھا جائیگا۔
حقیقت یہ ہے کہ روس کے ٹوٹنے سے ایک دن پہلے تک بھی لوگوں کو یہ یقین نہ تھا کہ روس ٹوٹ جائیگا۔ وہ سوچتے تھے کہ اگر روس ٹوٹا بھی تو اسے ابھی کئی سو سال لگیں گے اور مستقبل قریب میں اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے۔
لیکن پھر دنیا نے دیکھا کہ ہفتوں مہینوں میں ہی روس کا نقشہ بدل گیا۔ اسکی کوکھ سے چودہ مسلم ریاستوں نے جنم لیا اور یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلک (USSR) میں صرف R یعنی روس یا رشیا رہ گیا۔
آج یہاں ہم حقائق پیش کرکے دنیا کو امریکہ میں تیزی سے ہونیوالی شکست و ریخت کا آئینہ دکھائیں گے۔
یہ بھی خیال رہے کہ ہم یہاں امریکہ کی تازہ معاشی بدحالی کے حوالے سے رپورٹیں پیش نہیں کر رہے۔ اگرچہ کہ یہ بدحالی بھی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اربن انسٹیٹیوٹ کی تازہ رپورٹ کیمطابق امریکہ میں عورتوں اور بچوں سمیت 35لاکھ شہری سڑکوں پر سوتے ہیں۔ رپورٹ کیمطابق امریکہ میں 35لاکھ شہری بے گھر ہیں۔ ان میں ساڑھے تیرہ لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔ صرف نیویارک میں 37ہزار افراد جن میں 16 ہزار بچے بھی شامل ہیں، روزانہ مارکیٹوں کے چھجوں کے نیچے سونے پر مجبور ہیں۔ اس سے پہلے امریکہ کی انتہائی دگرگوں معاشی صورتحال کے بارے میں یہ رپورٹیں منظر عام پر آچکی ہیں کہ کس طرح امریکہ کے برے بڑے بینک دیوالیہ ہوچکے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔
لیکن اس تمام خطرناک معاشی صورتحال سے قطع نظر آئیے دیکھیں کہ سیاسی طور پر امریکی ریاستوں میں کیسی خوفناک صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ دنیا کیلئے (اگرچہ کسی ملک کی تباہی کیلئے یہی واحد عنصر کافی ہوتا ہے جیسا کہ روس کیساتھ ہوا) یہ بات کس قدر حیرتناک ہوگی کہ ایک جانب امریکہ دنیا بھر میں مختلف اقوام اور ممالک کی آزادی چھیننے کیلئ فوجی کاروائیوں میں ملوث ہے تو دوسری جانب خود امریکہ میں ایسے درجنوں گروپ اور جماعتیں قائم ہوچکی ہیں جو امریکہ سے اپنی ریاستوں کی مکمل آزادی کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ اس سلسلے مین کئی جماعتوں نے امریکی وفاقی حکومت کے غیر معمولی اختیارات کے خاتمے اور امریکی ریاستوں کی مکمل آزادی اور علیحدگی کا حق دینے کیلئے قانون سازی کا مطالبہ کیا ہے۔
ان تنظیموں کا مؤقف یہ ہے کہ امریکہ کی وفاقی حکومت انکی ریاست سے جو ٹیکس وصول کرتی ہے اسکا بہت ہی کم حصہ ریاست کی فلاح و بہبود پر خرچ کرتی ہے جبکہ امریکی حکومت امریکی عوام کے ٹیکسوں کی آمدنی سے دنیا کے مختلف حصوں میں جو بھی فوجی کاروائیاں کررہی ہے اس کا بوجھ ٹیکسوں کی شکل میں امریکی عوام پر ہے اور انھیں شدید معاشی و اقتصادی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ایک امریکی مصنف جیرڈ ڈائمنڈ نے اپنی کتاب (The Collaps زوال) میں امریکہ میں علیحدگی پسند رحجانات کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اامریکہ میں سیاسی ٹوٹ پھوٹ شروع ہو گئی ہے اور امریکہ آئندہ پانچ سے دس سالوں میں سوویت یونین کی طرح بکھر جائیگا۔ جیرڈ ڈائمنڈ نے اسکی چار بڑی وجوہ بیان کی ہیں جن میں سرفہرست اقتصادی وجوہات ہیں۔ جیرڈ ڈائمنڈ کا کہنا ہے کہ امریکہ اقتصادی طور پر کھوکھلا ہوچکا ہے اور اسکی معیشت مندی کا شکار ہے۔ اسکی سرحدیں وسیع ہوچکی ہیں اور وہ اپنی ریاستی حدود میں مزید توسیع کیلئے وہی غلطیاں دہرا رہا ہے جو اس سے پہلے تباہ ہونیوالی سلطنتوں نے کیں۔
امریکی حکومت دنیا بھر میں ہونیوالی فوجی کاروائیوں میں ملوث ہے اور اسکے بجٹ کا ایک بڑا حصہ فوجی اخراجات پر مشتمل ہے۔ امریکی عوام شدید اقتصادی مشکلات کا شکار ہیں۔ انھیں ناانصافی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سمیت بدترین اقتصادی پریشانی کا سامنا ہے۔ لیکن ایلیٹ کلاس یعنی طبقہ اشرافیہ کو انکی کوئی پرواہ نہیں۔
امریکی سکالر اور کئی کتب کے مصنف کرک پیٹرک سیل نے اپنی کتاب
The Collapse of American Empire
پیٹرک سیل نے لکھا کہ اسوقت امریکی اداروں کا شمار دنیا کے انتہائی بدعنوان اداروں میں ہوتا ہے۔ عوام انصاف کے حصول کیلئے ترس رہے ہیں اور ساری دنیا کو انسانی حقوق کا درس پڑھانے والا امریکہ خود اپنے عوام کے بنیادی حقوق غصب کرنے کیلئے قانون سازی کررہا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ امریکہ کی صنعتی ترقی نمائشی ہے کیونکہ اسکی مجموعی قومی پیداوار میں صنعت کا حصہ صرف 13 فیصد ہے۔ امریکہ کو 13 ارب ڈالر کے خسارے کا سامنا ہے۔ اب وہ چین سے 83 ارب ڈالر کا قرض مانگ رہا ہے تاکہ اسکی ادائیگیوں کا توازن بہتر ہوسکے۔ دوسری جانب امریکی وفاقی بجت کو 700ارب ڈالر کے خسارے کا سامنا ہے۔ امریکہ جو ساری دنیا کو قرضہ دیتا تھا اب خود 10کھرب ڈالر کا مقروض ہے۔
کرک پیٹرک نے لکھا ہے کہ امریکہ پر دنیا بھر میں فوجی کاروائیوں کے اخراجات کا ایسا بوجھ ہے جو اسے تباہ کرنے کیلئے کافی ہے۔ اسوقت 4لاکھ 46 ہزار فوجی دنیا بھر میں 725 فوجی اڈوں پر تعینات ہیں اور یہ فوجی ادے دنیا کے 38ممالک میں واقع ہیں۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے امریکی بحری بیڑوں کی تعداد ایک درجن سے کم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی عوام کی پریشانیوں اور مشکلات میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے اور اسکے نتیجہ میں اب امریکی دانشور اور سکالر یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ کیا امریکہ دنیا بھر میں جو جنگیں لڑ رہا ہے کیا وہ اسکی سلامتی کیلئے ضروری ہیں بھی یا نہیں۔
چنانچہ گزشتہ دنوں دو امریکی اداروں زوگبی اور مڈل بری انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام مختلف امریکی ریاستوں میں یہ سروے کیا گیا کہ کیا امریکی ریاستوں کو وفاق سے الگ ہوجانا چاہیئے۔ سروے کے نےائج کیمطابق 22 فیصد رائے دہندگان نے رائے دی کہ ہر امریکی ریاست کو امریکہ سے علیحدگی کا حق حاصل ہے اور اگر وفاقی حکومت عوامی مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی تو پھر ہر ریاست کو اپنے عوام کی فلاح و بہبود اور اقتصادی بہتری کیلئے وفاق سے علیحدہ ہوجانا چاہیئے۔
کرک پیٹر کا کہنا ہے کہ اس موضوع پر ہرسال سروے ہوتا ہے اور گزشتہ سال کے دوران امریکہ سے علیحدگی کے حق میں رائے دہندگان کے تناسب میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
انھوں نے لکھا ہے کہ 1990ء کے عشرے میں صرف 5فیصد امریکی علیحدگی کے حامی تھے لیکن اب انکا تناسب بڑھ کر 22فیصد یعنی چار گنا تک ہو چکا ہے۔ کرک پیٹرک سیل کا کہنا ہے کہ قانونی طور پر صرف تین امریکی ریاستوں رہوڈز آئی لینڈ، نیویارک اور ورجینیا کو امریکی وفاق سے علیحدگی کا حق حاصل ہے۔ امریکی وفاق کی اہم ترین دستاویز یعنی دسویں ترمیم میں امریکہ میں شامل ہونیوالی ریاستوں کے علیحدہ ہونے کے بارے میں کوئی تذکرہ شامل نہیں ہے۔
جب جنوبی ریاستوں نے انیسویں صدی میں امریکہ سے علیحدہ ہونیکی کوشش کی تو یہ مسئلہ امریکی کانگریس میں اٹھا اور کانگریس نے علیحدگی پر پابندی لگا دی۔ لیکن امریکی آئینی ماہرین کانگریس کی اسی قرارداد کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ کانگریس اگر علیحدگی پر پابندی لگا سکتی ہے تو علیحدگی کی اجازت بھی دے سکتی ہے۔
کرک پیٹرک سیل کا کہنا ہے کہ اگر کوئی بھی امریکی ریاست مثال کے طور پر کیلیفورنیا وفاق سے الگ ہونیکی کوشش کرتی ہے تو کیا امریکی فوج اس ریاست کے عوام پر اسی طرح گولیاں چلا سکتی ہے جسطرح اس نے فلوجہ یا بغداد کے بے گناہ شہریوں پر چلائیں، یا جسطرح اس نے ویت نام اور افغانستان میں عام شہریوں کا قتل عام کیا۔
اسوقت کم از کم 17 امریکی ریاستیں ایسی ہیں جو وفاق کو ٹیکس ادا کرتی ہیں لیکن اس سے کہیں کم ان پر خرچ کیا جاتا ہے اور انھیں ریاستوں میں علیحدگی کے شدید جذبات موجود ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کیلیفورنیا امریکہ سے الگ ہوجاتا ہے تو اسکی ٹیکسوں کی آمدنی میں 232فیصد کا اضافہ ہوجائیگا۔
کرک پیٹرک نے اہنی کتاب میں ان تنظیموں کے نام بھی شائع کیے ہیں جو اپنی ریاستوں میں امریکہ سے علیحدگی کی مہم برے زور و شور سے چلا رہے ہیں۔ ان تمام جمعتوں، تنظیموں اور گروپس کی اپنی ویب سائیٹس بھی ہیں اور یہ گروپس اپنے رسائل، اخبارات اور ٹی وی چینل بھی چلاتے ہیں۔
ان میں سب سے بڑا گروپ امریکن سیکسیشن پراجیکٹ ہے جو آزاد الاسکا اور آزاد کیلیفورنیا کی مہم چلا رہا ہے۔ دوسرا بڑا گروپ مڈل بری انسٹیٹیوٹ ہے جو 2004ء میں نیویارک میں قائم ہوا اور اسکا مطالبہ ہے کہ اقوام متحدہ امریکہ کی 51 ریاستوں کو الگ الگ خودمختار ریاست تسلیم کرے اور انھیں رکنیت بھی دے۔ گروپ کا مطالبہ ہے کہ تمام امریکی ریاستوں کی علیحدگی کا حق آئینی طور پر تسلیم کیا جائے۔ تیسرا گروپ سویس کنفیڈریشن گروپ 2006ء میں قائم ہوا اور اسکا مطالبہ ہے کہ امریکہ کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بجائے ایک کنفیڈریشن قرار دیا جائے۔
مختلف ریاستوں کی علیحدگی پسند تنظیمیں
الاباما لیگ آف ساؤتھ سٹیٹ نامی تنظیم الاباما ریاست کی امریکہ سے علیحدگی کیلئے جدو جہد کررہی ہے۔
الاسکا انڈیپنڈنس پارٹ ریاست الاسکا کی آزادی کیلئے جدوجہد کررہی ہے۔ کیلیفورنیا کی آزادی کیلئے دو جماعتیں کام کررہی ہیں۔ ان میں ایک جماعت کیلیفورنیا ریپبلک ہے۔ اس جماعت پر امریکی حکومت نے پابندی لگا رکھی ہے۔ دوسری تنظیم کا نام کیلیفورنیز فار انڈیپنڈنس ہے۔ کساوڈیا کی آزادی کیلئے کام کرنیوالی ایک جماعت کا نام کساوڈیا انڈیپنڈنس پراجیکٹ ہے۔ یہ تین ریاستوں واشنگٹن، اوریگان اور برٹش کولمبیا کی آزادی کیلئے کام کر رہی ہے۔
جارجیا کی آزادی کیلئے تین گروپ کام کر رہے ہیں۔ ان میں جارجیا لیگ آف دی ساؤتھ، سدرن پارٹی آف جارجیا اور ڈکسی براڈکاسٹنگ شامل ہیں۔ ریاست ہوائی کی آزادی کیلئے پانچ گروپس کام کر رہے ہیں۔ ان میں فری ہوائی، ہوائی کنگڈوم، ہوائی نیشن، کالاہوئی ہوائی اور انسٹیٹیوٹ آف ہوائین افیرز شامل ہیں۔ لوزیانہ کی آزادی کیلئے کام کرنے والی تنظیم کا نام لوزیانہ لیگ آف دی ساؤتھ ہے۔ ریاست “مین“ کی آزادی کیلئے دو تنظیمیں کام کررہی ہیں جن میں فری مین اور سیکنڈ مین شامل ہیں۔
اسکے علاوہ جن امریکی ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں شروع ہو چکی ہیں، انکے نام یہ ہیں:
نیو انگلینڈ
نووا کاڈیا
لبرٹی
نیو ہیمپشائر
لانگ ائی لینڈ نیویارک
نارتھ کیرولینا
اوہائیو
پنسلوانیا
پورتو ریکو
ساؤتھ کنفڈریٹ ریجن
ساؤتھ کیرولینا
ٹیکساس
ورمونٹ
منی سوٹا
وسکنسن
مشی گن
حال ہی میں امور خارجہ کے ایک روسی سکالر آئی گورپینارن نے یہ پیشین گوئی کی ہے کہ امریکہ جلد ہی ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیگا۔ اس نئے عالمی منظر نامے کے بعد روس اور چین نئے عالمی لیڈر کے طور پر سامنے آئینگے۔
روسی وزارت دفاع کے خارجی معاملات کیلئے قائم ڈپلومیٹک اکیڈمی کے ڈین “آئی گور“ کے مطابق امریکہ کے حالات یکدم بہت زیادہ خراب ہونا شروع ہوجائینگے اور خانہ جنگی کی نوبت آ جائے گی۔ آئی گور کی حالیہ پیشین گوئی نے دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی ہے۔
معروف امریکی جریدے، وال سٹریٹ جرنل کو حال ہی میں دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ وہ امریکیوں کو ناپسند نہیں کرتے لیکن حقیقت بڑی تلخ ہے اور وہ یہی ہے کہ امریکہ کی بطور ایک فیڈرل ریاست صورتحال خراب ہوتی چلی جارہی ہے۔
آئی گور کیمطابق امریکہ 6نئی ریاستوں میں تبدیل ہوجائیگا جو مختلف ممالک کی دست نگر ہونگی۔ ان ریاستوں کے خدوخال کے بارے میں آئی گور کا خیال ہے کہ پہلی ریاست جمہوریہ کیلیفورنیا ہوگی جو چین کا حصہ یا اسکی دست نگر ہوگی۔ یہ ریاست کیلیفورنیا، واشنگٹن، ایریگن، نویڈا، ایریزونا اور اوہائیو پر مشتمل ہوگی۔
دوسری ریاست ٹیکساس ریپبلک کہلائے گی جوکہ ٹیکساس، نیو میکسیکو، اوکلاہوما، لوزیانہ، آرکنساس، مسی سپی، الاباما، چارجیا، اور فلوریڈا پر مشتمل ہوگی اور یہ روس کا حصہ یا اسکے ماتحت ہوگی۔
تیسری ریاست اٹلانٹک امریکہ کہلائے گیاور یہ ریاست یورپی یونین میں شمولیت اختیار کرسکتی ہے۔ یہ ریاست شمال مشرقی امریکہ، کنٹکی اور شمالی و جنوبی کیرولیناپر مشتمل ہوگی۔
آئی گور کیمطابق چوتھی ریاست شمالی وسطی امریکی ریاست ہے۔ یہ ریاست کینیڈا کا حصہ یا اسکے ماتحت کام کریگی۔ اس ریاست میں مڈ ویسٹ، مونتانا، یومنگ اور کلوراڈو شامل ہونگے۔
پانچویں ریاست الاسکا ہوگی جو کہ باضابطہ روس کے کنٹرول میں کام کریگی۔
چھٹی ریاست ہوائی چین یا جاپان کا حصہ ہوسکتی ہے۔
روسی سکالر آئی گور نے اپنی یہ پیشین گوئی حال ہی میں ماسکو میں اپنے ایک لیکچر کے دوران دہرائی۔ انھوں نے کہا کہ وہ یہ سارا عمل 2010ء تک ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ آئی گور کا کہنا ہے کہ وہ بذات خود امریکہ کے ٹوٹنے کیخلاف ہیں لیکن ایسا ہوتا صاف دکھائی دے رہا ہے۔
امریکہ کے بارے میں ایسی پیشین گوئیوں کا منظر عام پر آنا کوئی نئی بات نہیں۔ کئی عالمی تجزیہ نگار ایسی پیشین گوئیاں یا تجزیات کا اظہار کرچکے ہیں۔ آئی گور کی یہ پیشین گوئیاں ایسے وقت میں سامنے ائی ہیں جبکہ امریکہ میں انتخابات کے بعد نئے صدر اوبامہ حکومت سنبھال چکے ہیں۔ اور امریکی معیشت بھی شدید مندی کا شکار ہے۔ بینکنگ اور ہاؤسنگ کے شعبے بری طرح انحطاط کا شکار ہیں۔ کئی بڑے بینکوں اور مالیاتی اداروں کا دیوالیہ نکل چکا ہے۔ عراق جنگ نے امریکی معیشت کا بھرکس نکال دیا ہے۔ لیکن اب عراق سے اوبامہ فوجیں نکالنے کا عندیہ تو دے چکے ہیں لیکن انکا ابھی افغانستان سے نکلنے کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا۔ اور اسی لئے آئی گور یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان ہی امریکی افواج کا قبرستان ثابت ہوگا۔اور یہیں سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے توتنے کی بنیاد پڑیگی۔
مشہور مصنف محترم انور اقبال اپنے ایک مضمون، جسکا عنوان ہے
“2025ء تک امریکی عہد کا سورج غروب ہوچکا ہوگا“
میں لکھتے ہیں کہ امریکی حکومت کے ایک تحقیقی ادارے (نیشنل انٹیلیجنس کونسل) کی رپورٹ کیمطابق2025ء تک امریکہ دنیا کی سپر پاور کے طور پر نہیں رہ سکے گا بلکہ اسکی جگہ روس اور چین جیسے ممالک لے لینگے۔
غرضیکہ یہ امریکی اور مغربی رپورٹیں ہیں جو یہ چیخ چیخ کر بتا رہی ہیں آئندہ چند سالوں میں امریکہ سیاسی و معاشی طور پر زبردست ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونیوالا ہے۔ امریکہ کی تباہی کا آغاز تو اسی دن ہوگیا تھا جب اس نے مسلم دنیا کیخلاف صلیبی جنگ کا غیر اعلانیہ آغاز کیا تھا۔
نئے امریکی صدر اور صہیونی کٹھ پتلی اوبامہ نے اگرچہ عراق سے کچھ توبہ کرلی ہے اور وہاں سے افواج نکالنے کا عندیہ دیا ہے تاہم وہ افغانستان سے ابھی نکلنے کو ابھی تیار نہیں بلکہ اب امریکہ پاکستان پر حملے کیلئے بے چین ہے۔ اسکے لئے وہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان میں ایسے حالات پیدا کررہا ہے کہ جن کی آڑ میں وہ پہلے تو پاکستان کو بری طرح غیر مستحکم کریگ اور پھر عدم استحکام اور بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کا بہانہ بنا کر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کی کوشش کریگا لیکن امریکہ کا یہ خواب انشاء اللہ ایک خواب ہی رہیگا۔
جو ملک افغانستان جیسے ایک چھوٹے اور پسماندہ ملک پر قبضہ نہیں کرسکا وہ پاکستان جیسے ایک ایٹمی ملک پر کیسے قابض ہوگا۔
دراصل امریکہ کی پاکستان پر موجودہ یلغار اسلئے ہے کہ وہ خود اب چراغ سحری ہے اور جسطرح چراغ کا اپنے آخری دموں پر بھبھوکا بظاہر کچھ زیادہ ہوتا ہے لیکن اسکے بعد اسکی ہمیشہ کیلئے موت ہوتی ہے۔۔ یہی صورتحال امریکہ کی بن چکی ہے ۔ امریکی حکومت کو نوشتہ دیوار سامنے نظر آچکا ہے اور اب وہ اپنے آخری ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔
امریکہ کی اس قریب المرگ حالت کے بارے میں فی الحال کوئی بھی یقین کرنے کو تیار نہیں، نہ تو مسلمان اور نہ خود امریکی شہری۔
لیکن جس کو اپنا شک دور کرنا ہو تو امریکہ ہی کی ایک بڑی مالیاتی کمپنی کے سابق چیف ماہر معاشیات انتھونی کیری ڈاکس کا درج ذیل یہ بیان پڑھ لے جو کہ انٹرنیٹ کے ایک بلاگ
debtredutionformula.com
انتھونی لکھتے ہیں کہ: “عام امریکی اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں کہ کہ امریکی حکومت ایک مالی بحران میں داخل ہوچکی ہے۔ غالباً اسکی وجہ یہ ہے کہ عام شہری سچ نہیں سننا چاہتے ہ وہ اپنی لاعلمی سے لطف اندوز ہوتے ہیں یا پھر ایسا بھی ممکن ہے کہ جذبہ حب الوطنی سے انکی ذہن سازی ایسی کردی گئی ہے کہ امریکی معیشت ہمیشہ قوی رہیگی اور امریکہ عظمت کی ان بلندیوں تک پہنچ گیا ہے جہاں سے پستی ممکن نہیں۔ موجودہ امریکی مالی بحران کے نتیجے میں اجتماعی امریکی نفسیات کو متاثر کرنے میں کئی عوامل زیر گردش ہیں۔ عوام کا بیشتر طبقہ اس خوش فہمی میں ہے کہ آخر کار “خوش فہمی“ ہی انکا مقدر ہے۔ تاہم یہ صاف عیاں ہورہا ہے کہ ہم ایسے انجام تک پہنچ چکے ہیں اور قیامت ٹوٹنے والی پے“ 25 ریاستوں میں علیحدگی کے رحجانات میں کئی گنا اضافہ میں لکھا کہ میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن جس تیزی سے اقتصادی حالات خراب ہورہے ہیں، لوگ زیادہ دن کھیل تماشے میں نہیں لگے رہیں گے۔ پر پڑھا جاسکتا ہے: 2000ء کے بعد سے یورو کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قدر 30فیصد تک گرچکی ہے۔ اس وجہ سے لوگوں کا اعتبار امریکی ڈالر سے اٹھ گیا ہے اور انھوں نے امریکہ میں سرمایہ کاری کرنی چھوڑ دی ہے۔ اب وہ دن دور نہیں جب تیل پیدا کرنیوالے ممالک امریکی ڈالر میں قیمت وصول کرنے کی بجائے یورو یا چینی یوآن میں کاروبار شروع کردینگے۔
بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل