تحریر: ابو ظفرعادل اعظمی
نئی دہلی کے جامعہ نگر علاقے میں واقع سیمی کامرکز ی دفتر گندگی سے بھرا پڑا ہے۔ ہر طرف گندے چیتھڑے اورٹوٹے شیشے بکھرے پڑے ہیں۔ پوری عمارت سے آنے والی سڑی ہوئی بدبو کبھی کبھی برداشت سے باہر ہوجاتی ہے۔ اہل محلہ کو کوڑا پھینکنے کے لے شاید اب ایسی جگہ مشکل ہی سے میسر آئے۔
باہری کمرے کی چھت کے کونے سے قطرے قطرے ٹپکنے والا پانی کبھی کبھی میرا راستہ روک لیتا ہے۔ افکار کے آفس آنے کے لئے روز آنہ میںجب ادھر سے گزرتا ہوں تو اکثر مجھے پانی ٹپکتے ہی ملتا ہے۔ ہفتوں پہلے بارش بند ہونے کے بعد بھی نہ جانے یہ پانی کی بوندیں کہاںسے آتی ہیں؟پانی کا اس طرح مسلسل ٹپکنا مجھے سیمی کا بابری مسجد والا وہ پوسٹر یاد دلاتا ہے جوابھی چند دنوں پہلے سیمی کے تعلق سے مواد ڈھونڈنے کے وقت مجھے انٹرنیٹ پرنظر آیاتھا ۔
یہ پوسٹر میڈیا میںبھی کافی دنوں موضوع بحث بنا رہا ۔جس میں بابری مسجد کی علامتی آنکھ سے آنسو ٹپکتے دکھایا گیا ہے۔ نہ جانے مجھے کیوں پانی کے یہ قطرے کچھ ایسے ہی محسوس ہوتے ہیں۔ لیکن بابری مسجد کی شہادت کے بعد اس کے لئے رونے والوں کے آنسو کا اب نوٹس کون لے۔
سیمی کے تعلق سے کچھ لکھتے وقت میرا دل موہوم خطرات کی آماجگاہ بنا رہا۔کافی دن اسی ادھیڑ بن میں گزر گئے ۔کیوں کہ میں جانتاہوں اور مجھے اس کا استحضار بھی ہے کہ میں بھی ایک مسلمان ہوں اور اس وقت کسی بھی مسلمان پر کسی ممنوعہ تنظیم کے نام کی مہر لگانا بہت آسان ہے۔ پہلے سیمی کا ممبر بننا اتنا آسان نہ تھا لیکن اس وقت یہ عمل انتہائی آسان اور کم وقت طلب ہے۔
ستمبر2001سے پہلے سیمی اس کے لئے کافی سخت شرائط رکھتی تھی۔ تنظیمی دستور میں بہت سارے بنیادی سوالات ہیں۔ مطالعے کی ایک لمبی فہرست ہے۔ چال چلن اور اخلاقیات کی مثبت رپورٹ بھی جس کے لئے ضروری ہے۔ سرگرمی اور وقت کی پابندی کا خاص تذکرہ ہے لیکن اب یہ سارے شرائط ختم ہوگئے۔ سیمی کارکن بنانے کی ذمہ داری اب حکومت اور پولیس نے لی ہے۔ جو ان کی نظر میں چڑھ گیا وہ چاہے سیمی کا پورا نام نہ جانتا ہو وہ سیمی کا ممبر ضرور کہلائے گا۔
سیمی اپنے ارکان کے ناموں کا اعلان اپنے ترجمان میں کرتی تھی لیکن اب یہ اعلان حکومت کے ذریعہ عدالتوں میں فائل کئی جانے والی چارج شیٹ اور حلف ناموں میں ہوتا ہے۔ معاملہ اب یہاں تک پہنچا ہے کہ جن بچوں کی عمر ستمبر 2001میں 10 ,9 سال رہی ہوگی اب ان کو بھی حکومت نے سیمی کا ممبر بنالیا ہے۔ اگر یہ سلسلہ دراز ہوا تو 2001کے بعد پیدا ہونے والے بچے بھی آئندہ چند سالوں بعد آسانی سے اس ’رکنیت‘ کے اہل قرار پائیں گے۔
کسی کے خون کو حلال کرنے کا اس سے بہتر طریقہ شاید کوئی نہیں ہے۔ لیکن پورے ملک میں سیمی کے ساتھ ہوئی حق تلفی اور پھر قطرہ قطرہ ٹپکنے والے ’ آنسو‘ میرا سکون چھین لیتے ہیں۔ اور اس کشمکش میں حق کی پاسداری میری پیشہ وارانہ ذہنیت پر حاوی ہوتی نظر آتی ہے۔
سیمی کے مرکزی دفتر سے گزرتے ہوئے بارہا مجھے یہ خیال آیا کہ کوئی ایسی تنظیم جس کا ہندستان کے دل میں مرکزی دفتر ہو ،ریاستی دارالحکومتوں اور مختلف شہروں میں اس کے ذیلی دفاتر ہوں۔ اس کے عہدیداران پریس کانفرنس کرتے ہوں ، بیانات دیتے ہوں، اس کا مختلف زبانوں میں سرکار سے منظور ی شدہ ترجمان نکلتا ہو، جس میں وہ اپنے نو منتخب عہدیداران اور ارکان کی فہرست شائع کرتی ہو، اپنی سرگرمیوں کی کوریج دیتی ہو کیا اسلحہ بھی اٹھاسکتی ہے ؟اور اسی ملک کے خلاف جس کی منظوری سے وہ یہ سب کام کررہی ہے ۔
مجھے اس کا جواب ہمیشہ نفی ہی میں ملا۔ اس کالم کو لکھنے کے لئے میں نے بارہا غور کیا، مختلف سیاسی و سماجی شخصیتوں سے گفتگو کی، قانونی امور کے ماہرین سے ملاقات کی ، چارج شیٹوں کی مدد سے حکومتی موقف کا مطالعہ کیا ،ڈر ے اور سہمے ہوئے بعض سیمی کے ارکان سے بھی گفت وشنید کی ، میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ آخر کوئی تنظیم جو صرف طلبہ تک محدود ہو اور تقریبا 25سال تک اس کے خلاف دہشت گردی کا ایک بھی معاملہ درج نہ ہوا ہو ، اس کی ساری سرگرمیوں، تقریروں، تحرویروں اور جلسے جلوسوں پر منحصر ہو، پابندی کے بعد ہتھیار کیسے اٹھا سکتی ہے۔
یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ جو تنظیم مسلسل 8سال سے عدالت کی چوکھٹ پر انصاف کی آس لگائے بیٹھی ہو۔ اس کے وکیل پوری تیاری سے ٹربیونل کے ساتھ پورے ملک گھومتے پھریں، ذیلی عدالتوں سے لے کر ہائی کورٹ، سپریم کورٹ میں پیش ہوں اور وہ پھر دھماکہ بھی کرے۔ عدالت میں تاریخ سے ایک دن قبل یا پھر اسی دن۔
پابندی سے قبل دو تین سال سیمی بہت زیادہ موضوع بحث رہی، لیکن اس کی پورے ملک کی ایک مہینے کی تمام تر سرگرمیاں اس کے ترجمان اسلامک موومنٹ میں دو یا تین صفحے سے زیادہ جگہ نہیں گھیر پاتی تھیں۔
بعض ایسے شمارے بھی نظروں سے گزرے ہیں جس میں کسی پروگرام کے ایک دو فوٹو دے کر صفحہ میک اپ کیا گیا ہے لیکن پابندی کے بعد ہی سے اسی تنظیم کی سرگرمیاں آخر اتنی زیادہ کیسے بڑھ سکتی ہیں کہ اس کے لئے حکومت کو چار، پانچ سو صفحات پر مشتمل عدالت میں حلف نامہ پیش کرنا پڑے ۔ سیمی کے تعلق سے ناانصافیوں کا تسلسل پولیس انتظامیہ ، حکومت، عدالت اور میڈیا تک ہی محیط نہیں ہے بلکہ اس کی ضرب ان لوگوں پربھی پڑتی ہے جوخودکو سیکولر اور تعصب سے پاک بتاتے ہوئے نہیں تھکتے ہیں۔
ستائیس ستمبر 2001ءکو فجر کی نماز سے پہلے پہلے پورے اتر دیش اور ملک کے دیگر کچھ شہروں میں سیمی کے درجنوں کارکن گرفتار کئے جاچکے تھے اور متعدد دفاتر کو سیل کردیا گیا تھا ۔ گرفتار شدگان میں زیادہ تر لوگ ایسے تھے جن کے بارے میں ان کے اقرباء کا کہنا ہے کہ ان کا سیمی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ کچھ ایسے لوگ بھی اس آفت ناگہانی کا شکار ہوئے جن کی عمریں سیمی سے ریٹائرمنٹ کی عمر (30سال) کے دوگنے سے بھی زیادہ تھیں۔
اعظم گڑھ کے ایک گاوں کے 65سالہ بزرگ کو اس الزام میں گرفتار کر لیا گیا کہ وہ بازار میں اسامہ بن لادن زندہ باد کا نعرہ لگا رہے تھے۔ پورے یوپی میں درج مقدمات کی چارج شیٹ پر ایک نظر ڈالنے ہی سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ساری کہانیاں ایک ہی ماسٹر پلان سے ماخوذ ہیں۔ صرف کہانی کے کردار ، مقامات اور بعض جگہ اوقات کا فرق ہے۔
دفعات بھی کچھ حذف و اضافے کے ساتھ مشترک ہی ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ پابندی کا اعلان 27ستمبر کو شام 4بجے ہو الیکن سیمی کے نام پر پورے ملک کے درجنوں مسلمان صبح سے پہلے پہلے لاک اپ میں تھے لیکن پولیس کی کہانی میں ان سب کو دوپہر یا شام میں کہیں پوسٹر لگانے، اشتعال انگیز تقریر کرنے یا نعرہ لگانے کا الزام لگاتے ہوئے پکڑنے کی بات کہی گئی۔ کسی تنظیم کو ممنوعہ قرار دئیے جانے کے بعد اگر کوئی فرد اس نام پر کوئی کام کرتا ہے تو اصولا وہ قابل مواخذہ ہوگا لیکن پورے ملک میں پابندی کے اعلان سے قبل ہی سیمی کے نا پر گرفتاریوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔
قانونی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ انسداد غیر قانونی سرگرمی قانون1967، جس کے تحت سیمی پر پابندی عائدکی گئی کے مطابق کسی بھی تنظیم پر پابندی لگانے کے بعد نوٹیفکیشن کی کاپی اس تنظیم کے مرکزی دفتر پر، نمایاں مقام پر چسپاں کرنا، مرکزی دفتر کے اہلکار کو سونپنا، یا نوٹیفکیشن کے مواد کا اس تنظیم کی سرگرمیوں کے علاقوں میں لاوڈاسپیکر سے اعلان کرنا ضروری ہے۔
سیمی کے اس وقت کے صدر جناب شاہد بدر کا کہنا ہے کہ ہمیں 27ستمبر 2001کی شام کو ٹی وی پر نشر خبر کے ذریعہ معلوم ہوا کہ ہم پرپابندی لگا دی گئی ہے۔ جب کہ پورے ملک میں ہمارے سارے دفاتر کے فون صبح ہی سے کاٹ دئیے گئے تھے۔ اترپردیش سمیت مختلف ریاستوں میں رات ہی میں گرفتاریاں عمل میں آچکی تھیں۔ شاہد بدر مزید بتاتے ہیں کہ 27ستمبر کو رات 12بجکر 40منٹ پر پولیس سیمی کے مرکزی آفس میں گالیاں دیتی ہوئی دروازہ توڑ کر داخل ہوئی اور ہمیں گرفتار کرلیا۔ ہمیں اس وقت تک کسی بھی طرح کا کوئی نوٹیفکیشن نہیں دیا گیا۔
سیمی پر پابندی کے ان آٹھ سالوں میں عوام کے سامنے زیادہ تر وہی باتیں آسکی ہیں جنھیں حکومت نے لانا چاہا۔ نام نہاد آزاد اور غیر جانب دار میڈیا بھی اس معاملے میں حکومت کی اطلاعات کو من وعن نقل کرنا ہی بہتر سمجھتارہا۔ عموما ایسا ہوا ہے کہ جب بھی سیمی کے نام پر کوئی گرفتاری ہوتی ہے، میڈیا اس کو بطورخاص کور کرتا دکھائی دیتاہے۔ عدالتوں میں ان کی پیشی ،پولیس حراست میں اقبال جرم وغیرہ کی کہانی بھی نمایاں مقام حاصل کرتی ہے۔
لیکن جب کچھ دنوں بعد عدالت اسے بری کردیتی ہے تو یہ خبر ان کے لئے کوئی اہمیت نہیںرکھتی۔سیمی کے نام پر سب سے زیادہ واویلا مہاراشٹر میں مچایا گیا، جہاں مسلسل کئی برسوں سے کانگریس بر سر اقتدار ہے ۔ سیمی پر پابندی لگنے کے بعد سال 2002میں گھاٹ کوپر میں ایک بس میں بم دھماکہ ہوا۔ ممبئی پولیس نے اسے سیمی کی کارروائی قرار دیتے ہوئے 16لوگوں کو پوٹا کے تحت ملزم بنایا جس میں ڈاکٹر متین اور ثاقب ناچن وغیرہ کو کلیدی ملزم کے طور پر پیش کیا گیا۔
ثاقب ناچن و دیگر 8لوگوں کو اس مقدمے میں پولیس نے 2003میں گرفتار کیا لیکن سال بھر کے اندر ہی اپریل 2004ءمیں ان کو ڈسچارج کردیا گیا اور پھر بقیہ ملزمین بھی بعد میں عدالت کے ذریعہ بری ہوگئے۔ لیکن اس معاملے کو ستمبر 2003میں سیمی پر دوبارہ پابندی لگانے کے لئے حکومت نے اہم مقدمے کے طور پر پیش کیا۔ اسی طرح مارچ 2003میں ملنڈ، ولے پارلے اور ممبئی سینٹرل کے بم دھماکوں میں بھی 16لوگ گرفتار کئے گئے۔اس میں بھی ثاقب ناچن کو کلیدی ملزم بنایا گیا ۔
یہ معاملہ بھی پوٹا کے تحت درج کیا گیا لیکن تقریباً دو سال بعد 2005ءمیں استغاثہ نے عدالت میں ثاقب ناچن سمیت کئی ملزمین کے بارے میں تحریر لکھ کر دی کہ ان لوگوں کا بم بنانے، رکھنے یا سازش کرنے سے براہ راست تعلق نہیں تھا۔ لیکن یہ معاملہ ابھی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
مغربی بنگال، جہاں ایک عرصہ سے خود کو فرقہ پرستی سے کوسوں دور بتانے والی پارٹی برسر اقتدار ہے، میں سیمی کے نام پر کم ڈرامے نہیں ہوئے ہیں۔ یٰسین کبیر نامی 58سالہ بزرگ کو دیگر 5لوگوں کے ساتھ مالدہ ضلع میں ستمبر2001کو گرفتار کیا گیا تھا، ان پرسیمی کا پوسٹر لگانے، اشتعال انگریز تقریریں کرنے اور نعرے لگانے کا الزام تھا۔ یٰسین کبیر کا دو سال بعد جیل ہی میں انتقال ہوگیا اور 4سال بعد سیشن کورٹ نے بقیہ4لوگوں کو بری کردیا اور ایک ملزم کو 2سال کی سزا سنائی جب کہ پانچوں ملزمین 4سال جیل میں گزار چکے تھے۔
مغربی بنگال کے ضلع مرشد آباد میں پولیس نے سیمی کے نام پر دیگر 18لوگوں کے ساتھ 75سالہ مولانا اشرف الحق نامی ایک عالم دین کو گرفتار کیا ان پر بھی پوسٹر چسپاں کرنے اور نعرے بازی کا الزام ہے ۔
مرشد آباد کے برہمپور میں واقع مولن نامی ہوٹل کے مالک ابو القاسم (65سال) کو بھی پولیس نے حراست میں لے لیالیکن بعد میں عدالت نے انھیں ڈسچارج کردیا۔ ان پر الزام تھا کہ 2001میں سیمی کے صدر شاہد بدر ایک کانفرنس کے سلسلے میں جب مرشد آباد آئے تھے تو انھیں کےہوٹل میں ٹھہرے تھے۔
اسلامک یوتھ مومنٹ نامی مقامی تنظیم نے 15 اگست 2006ءکو ”ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کا رول“ کے عنوان پر کیرلہ کے شہر پانجی کولم میں ایک سیمینار رکھا۔ حکومت نے اسے سیمی کی خفیہ میٹنگ بتا کر 5لوگوں کے خلاف مقدمہ قائم کیا ۔جب کہ پروگرام درمیان شہر میں واقع ، ہیپّی آڈیٹوریم میںمنعقد ہوا تھا ۔ آڈیٹوریم میں 500لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔ گرفتار شدگان دو مہینے سے زائد عرصہ جیل میں گزارنے کے بعد ضمانت پر رہا کر دیے گئے۔ اس مقدمے میں ابھی تک چارج شیٹ نہیں داخل ہوسکی ہے لیکن 2008ءمیں اور 10لوگوں کو اسی مقدمے میں گرفتار کرلئے گئے۔
مدھیہ پردیش پولیس کا الزام ہے کہ صفدر ناگوری نے کیرلہ کے کوٹیم ضلع کے واگھمن علاقے میں دہشت گردانہ ٹریننگ کیمپ کا انعقاد کیا تھا۔ پولیس کے مطابق سیمی کے لوگوں نے یہاں ہتھیاروں کی ٹریننگ لی اور تیراکی بھی سیکھی۔ لیکن یہ ایک سیاحتی مقام ہے یہاں ہتھیاروں کی ٹریننگ کیسے ممکن ہے اور یہاں کوئی ندی یا سوئمنگ پول بھی نہیں تو تیراکی کیسے سیکھی جاسکتی ہے۔
مدھیہ پردیش میں بھی پولیس نے کیمپ چلانے کا الزام لگایا ہے لیکن انگریزی پندرہ روزہ ’دی ملی گزٹ ‘کے ایڈیٹر ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں کا کہنا ہے کہ ہم نے جب اپنے نمائندے کو رپورٹنگ کے لئے وہاں بھیجا تو گاوں والوں نے بتایا کہ ”پولیس نے یہ یہاں خود دو دن قبل بم رکھا تھا۔“
سیمی کے نام پر دہلی پولیس نے یسین پٹیل سمیت دو لوگوں کو مئی 2002ءمیں گرفتار کیاگیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی دیوار پر اشتعال انگیز پوسٹر چپکار ہے تھے۔افکار ملی سے بات کرتے ہوئے یسین پٹیل نے بتایا کہ ان کو ایک رات پہلے ہی گرفتار کیا جاچکا ہے۔ ان کی اہلیہ نے جب دہلی ہائی کورٹ میں ’ہیبس کارپس‘ کی عرضی دائر کی تب پولیس نے جامعہ ملیہ کی دیوار پر پوسٹر چپکانے کی فرضی کہانی گڑھی۔ پولیس نے جسے پوسٹر ثابت کرنے کی کوشش کی وہ ایک اسٹیکر تھا جس کو سیمی نے 1996ءمیں شائع کیا تھا۔
پولیس نے اس کو کمپیوٹر کے ذریعہ بڑا کرکے پوسٹر کے طور پیش کیا۔ گواہ کے نام پر صرف پولیس والے تھے پولیس نے عدالت میں کہا کہ دوپہر سے شام تک کوئی گواہ نہ مل سکا ، استغاثہ نے عدالت میں یہ بھی کہا کہ لوگ اس طرح دہشت گردانہ معاملے میں گواہی سے ڈرتے ہیں۔
فہرست نہیں پیش کرنا چاہتے۔ مبین اختر نے کہا کہ اگر ایسا ہوگیا ہوتا تو ایسے لوگ جو سیمی کو جانتے بھی نہیں ان کو اس طرح جھوٹے مقدمات میں پھنساناپولیس کے لئے انتہائی مشکل ہوتا ۔ لیکن حکومت کی نیت مسلم نوجوانوں کے تئیں صاف نہیں ہے اس لئے کہیں پٹاخہ بھی پھوٹتا ہے تو سیمی ہی کانام آتا ہے۔ کوئی بھی مسلمان کسی بھی جرم میں پکڑا جائے تو اسے سیمی سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ سیمی پر لگے الزامات کے تعلق سے پوچھے جانے پر مبین اختر نے کہا کہ الزام کی حیثیت محض افواہ کی ہے۔ جب تک کہ اس کی باضابطہ تصدیق نہ ہوجائے۔
سن 2001میں سیمی پر پہلی پابندی پر کانگریس نے بھی این ڈی اے حکومت پر نشانہ سادھا تھا۔ لیکن جب وہ خود اقتدار میں آئی تو اس سے بھی آگے بڑھ گئی۔ لیکن کانگریس کے تحت انٹی کمیونل فورم کے صدر امریش مصرا کا مانناکہ سیمی پر پابندی قطعاً غلط ہے۔ انہوںنے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ کانگریس کے اندر فرقہ پرستی پائی جاتی ہے۔ نئی یوپی اے گورنمنٹ کے وزیر برائے اقلیتی امور سلمان خورشید سپریم کورٹ میں سیمی کے وکیل رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں ایک سماجی تنظیم کے پروگرام نے انہوں نے برملا اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ سیمی پر پابندی کی مخالفت میں عدالت میں بحیثیت وکیل کھڑے ہوئے تھے اور وہ پارٹی کے اس موقف کو درست نہیں سمجھتے۔
تہلکہ کے ایڈیٹر اِن لارج اجیت ساہی سیمی پرپابندی کے تعلق سے عدالت اور قانون کے سوال پر پریشان سے ہوجاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اب عدالتوں سے انصاف کی توقع فضول ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ انصاف ہندومسلم سب کے لئے ایک بنیادی ضرورت ہے۔ اگر یہاں انصاف ختم ہوگیا تو یہ ملک ٹوٹ جائے گا۔
پولیس اور عدلیہ کے علاوہ جمہوریت کے چوتھے ستون میڈیا نے بھی کم گل نہیں کھلائے ہیں۔ کسی فرد یا تنظیم پر جرم ثابت ہوئے بغیر مجرم گرداننے اور اسے مختلف مجرمانہ نام دینے کا جوچلن جدید میڈیا نے اختیار کیا ہے وہ کسی المیہ سے کم نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیمی کے شوشے کو ایشو بنانے اور پھر اس پر ہنگامہ کھڑا کرنے میں میڈیا کا کلیدی رول رہاہے۔ کسی جمہوری ملک میں کسی تنظیم پر پابندی لگا کر اس کے منھ کو بندکرنے کے بعد اس کے اوپر حکومت پولیس اور میڈیا کی الزامات کی یلغار، جمہوری اقدار کے منافی ہے ۔
ایڈوکیٹ مبین اختر کا کہنا ہے کہ جس طرح مقدمات کی سماعت ہورہی اس طرح پہلے پابندی کا مقدمہ فائنل ہونے میں کم از کم دس سال لگیں گے۔ کیا حقوق انسانی کیلئے سرگرم تنظیموں کیلئے یہ معاملہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ واقعہ یہ ہے کہ سیمی کے تعلق سے ہورہی حقوق انسانی کی حق تلفی کی یہ چند مثالیں ںہیں بلکہ پورے ملک میں اس نام پر کسی بھی مسلم نوجوان کے خون کو حلال کرلینا پولیس اور ایجنسیوں کیلئے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
نوٹ: مضمون نگار دہلی میں ماہنامہ افکار ملی کے خصوصی نمائندہ ہیں۔
بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل
نئی دہلی کے جامعہ نگر علاقے میں واقع سیمی کامرکز ی دفتر گندگی سے بھرا پڑا ہے۔ ہر طرف گندے چیتھڑے اورٹوٹے شیشے بکھرے پڑے ہیں۔ پوری عمارت سے آنے والی سڑی ہوئی بدبو کبھی کبھی برداشت سے باہر ہوجاتی ہے۔ اہل محلہ کو کوڑا پھینکنے کے لے شاید اب ایسی جگہ مشکل ہی سے میسر آئے۔
باہری کمرے کی چھت کے کونے سے قطرے قطرے ٹپکنے والا پانی کبھی کبھی میرا راستہ روک لیتا ہے۔ افکار کے آفس آنے کے لئے روز آنہ میںجب ادھر سے گزرتا ہوں تو اکثر مجھے پانی ٹپکتے ہی ملتا ہے۔ ہفتوں پہلے بارش بند ہونے کے بعد بھی نہ جانے یہ پانی کی بوندیں کہاںسے آتی ہیں؟پانی کا اس طرح مسلسل ٹپکنا مجھے سیمی کا بابری مسجد والا وہ پوسٹر یاد دلاتا ہے جوابھی چند دنوں پہلے سیمی کے تعلق سے مواد ڈھونڈنے کے وقت مجھے انٹرنیٹ پرنظر آیاتھا ۔
یہ پوسٹر میڈیا میںبھی کافی دنوں موضوع بحث بنا رہا ۔جس میں بابری مسجد کی علامتی آنکھ سے آنسو ٹپکتے دکھایا گیا ہے۔ نہ جانے مجھے کیوں پانی کے یہ قطرے کچھ ایسے ہی محسوس ہوتے ہیں۔ لیکن بابری مسجد کی شہادت کے بعد اس کے لئے رونے والوں کے آنسو کا اب نوٹس کون لے۔
سیمی کے تعلق سے کچھ لکھتے وقت میرا دل موہوم خطرات کی آماجگاہ بنا رہا۔کافی دن اسی ادھیڑ بن میں گزر گئے ۔کیوں کہ میں جانتاہوں اور مجھے اس کا استحضار بھی ہے کہ میں بھی ایک مسلمان ہوں اور اس وقت کسی بھی مسلمان پر کسی ممنوعہ تنظیم کے نام کی مہر لگانا بہت آسان ہے۔ پہلے سیمی کا ممبر بننا اتنا آسان نہ تھا لیکن اس وقت یہ عمل انتہائی آسان اور کم وقت طلب ہے۔
ستمبر2001سے پہلے سیمی اس کے لئے کافی سخت شرائط رکھتی تھی۔ تنظیمی دستور میں بہت سارے بنیادی سوالات ہیں۔ مطالعے کی ایک لمبی فہرست ہے۔ چال چلن اور اخلاقیات کی مثبت رپورٹ بھی جس کے لئے ضروری ہے۔ سرگرمی اور وقت کی پابندی کا خاص تذکرہ ہے لیکن اب یہ سارے شرائط ختم ہوگئے۔ سیمی کارکن بنانے کی ذمہ داری اب حکومت اور پولیس نے لی ہے۔ جو ان کی نظر میں چڑھ گیا وہ چاہے سیمی کا پورا نام نہ جانتا ہو وہ سیمی کا ممبر ضرور کہلائے گا۔
سیمی اپنے ارکان کے ناموں کا اعلان اپنے ترجمان میں کرتی تھی لیکن اب یہ اعلان حکومت کے ذریعہ عدالتوں میں فائل کئی جانے والی چارج شیٹ اور حلف ناموں میں ہوتا ہے۔ معاملہ اب یہاں تک پہنچا ہے کہ جن بچوں کی عمر ستمبر 2001میں 10 ,9 سال رہی ہوگی اب ان کو بھی حکومت نے سیمی کا ممبر بنالیا ہے۔ اگر یہ سلسلہ دراز ہوا تو 2001کے بعد پیدا ہونے والے بچے بھی آئندہ چند سالوں بعد آسانی سے اس ’رکنیت‘ کے اہل قرار پائیں گے۔
کسی کے خون کو حلال کرنے کا اس سے بہتر طریقہ شاید کوئی نہیں ہے۔ لیکن پورے ملک میں سیمی کے ساتھ ہوئی حق تلفی اور پھر قطرہ قطرہ ٹپکنے والے ’ آنسو‘ میرا سکون چھین لیتے ہیں۔ اور اس کشمکش میں حق کی پاسداری میری پیشہ وارانہ ذہنیت پر حاوی ہوتی نظر آتی ہے۔
سیمی کے مرکزی دفتر سے گزرتے ہوئے بارہا مجھے یہ خیال آیا کہ کوئی ایسی تنظیم جس کا ہندستان کے دل میں مرکزی دفتر ہو ،ریاستی دارالحکومتوں اور مختلف شہروں میں اس کے ذیلی دفاتر ہوں۔ اس کے عہدیداران پریس کانفرنس کرتے ہوں ، بیانات دیتے ہوں، اس کا مختلف زبانوں میں سرکار سے منظور ی شدہ ترجمان نکلتا ہو، جس میں وہ اپنے نو منتخب عہدیداران اور ارکان کی فہرست شائع کرتی ہو، اپنی سرگرمیوں کی کوریج دیتی ہو کیا اسلحہ بھی اٹھاسکتی ہے ؟اور اسی ملک کے خلاف جس کی منظوری سے وہ یہ سب کام کررہی ہے ۔
مجھے اس کا جواب ہمیشہ نفی ہی میں ملا۔ اس کالم کو لکھنے کے لئے میں نے بارہا غور کیا، مختلف سیاسی و سماجی شخصیتوں سے گفتگو کی، قانونی امور کے ماہرین سے ملاقات کی ، چارج شیٹوں کی مدد سے حکومتی موقف کا مطالعہ کیا ،ڈر ے اور سہمے ہوئے بعض سیمی کے ارکان سے بھی گفت وشنید کی ، میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ آخر کوئی تنظیم جو صرف طلبہ تک محدود ہو اور تقریبا 25سال تک اس کے خلاف دہشت گردی کا ایک بھی معاملہ درج نہ ہوا ہو ، اس کی ساری سرگرمیوں، تقریروں، تحرویروں اور جلسے جلوسوں پر منحصر ہو، پابندی کے بعد ہتھیار کیسے اٹھا سکتی ہے۔
یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ جو تنظیم مسلسل 8سال سے عدالت کی چوکھٹ پر انصاف کی آس لگائے بیٹھی ہو۔ اس کے وکیل پوری تیاری سے ٹربیونل کے ساتھ پورے ملک گھومتے پھریں، ذیلی عدالتوں سے لے کر ہائی کورٹ، سپریم کورٹ میں پیش ہوں اور وہ پھر دھماکہ بھی کرے۔ عدالت میں تاریخ سے ایک دن قبل یا پھر اسی دن۔
پابندی سے قبل دو تین سال سیمی بہت زیادہ موضوع بحث رہی، لیکن اس کی پورے ملک کی ایک مہینے کی تمام تر سرگرمیاں اس کے ترجمان اسلامک موومنٹ میں دو یا تین صفحے سے زیادہ جگہ نہیں گھیر پاتی تھیں۔
بعض ایسے شمارے بھی نظروں سے گزرے ہیں جس میں کسی پروگرام کے ایک دو فوٹو دے کر صفحہ میک اپ کیا گیا ہے لیکن پابندی کے بعد ہی سے اسی تنظیم کی سرگرمیاں آخر اتنی زیادہ کیسے بڑھ سکتی ہیں کہ اس کے لئے حکومت کو چار، پانچ سو صفحات پر مشتمل عدالت میں حلف نامہ پیش کرنا پڑے ۔ سیمی کے تعلق سے ناانصافیوں کا تسلسل پولیس انتظامیہ ، حکومت، عدالت اور میڈیا تک ہی محیط نہیں ہے بلکہ اس کی ضرب ان لوگوں پربھی پڑتی ہے جوخودکو سیکولر اور تعصب سے پاک بتاتے ہوئے نہیں تھکتے ہیں۔
ستائیس ستمبر 2001ءکو فجر کی نماز سے پہلے پہلے پورے اتر دیش اور ملک کے دیگر کچھ شہروں میں سیمی کے درجنوں کارکن گرفتار کئے جاچکے تھے اور متعدد دفاتر کو سیل کردیا گیا تھا ۔ گرفتار شدگان میں زیادہ تر لوگ ایسے تھے جن کے بارے میں ان کے اقرباء کا کہنا ہے کہ ان کا سیمی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ کچھ ایسے لوگ بھی اس آفت ناگہانی کا شکار ہوئے جن کی عمریں سیمی سے ریٹائرمنٹ کی عمر (30سال) کے دوگنے سے بھی زیادہ تھیں۔
اعظم گڑھ کے ایک گاوں کے 65سالہ بزرگ کو اس الزام میں گرفتار کر لیا گیا کہ وہ بازار میں اسامہ بن لادن زندہ باد کا نعرہ لگا رہے تھے۔ پورے یوپی میں درج مقدمات کی چارج شیٹ پر ایک نظر ڈالنے ہی سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ساری کہانیاں ایک ہی ماسٹر پلان سے ماخوذ ہیں۔ صرف کہانی کے کردار ، مقامات اور بعض جگہ اوقات کا فرق ہے۔
دفعات بھی کچھ حذف و اضافے کے ساتھ مشترک ہی ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ پابندی کا اعلان 27ستمبر کو شام 4بجے ہو الیکن سیمی کے نام پر پورے ملک کے درجنوں مسلمان صبح سے پہلے پہلے لاک اپ میں تھے لیکن پولیس کی کہانی میں ان سب کو دوپہر یا شام میں کہیں پوسٹر لگانے، اشتعال انگیز تقریر کرنے یا نعرہ لگانے کا الزام لگاتے ہوئے پکڑنے کی بات کہی گئی۔ کسی تنظیم کو ممنوعہ قرار دئیے جانے کے بعد اگر کوئی فرد اس نام پر کوئی کام کرتا ہے تو اصولا وہ قابل مواخذہ ہوگا لیکن پورے ملک میں پابندی کے اعلان سے قبل ہی سیمی کے نا پر گرفتاریوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔
قانونی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ انسداد غیر قانونی سرگرمی قانون1967، جس کے تحت سیمی پر پابندی عائدکی گئی کے مطابق کسی بھی تنظیم پر پابندی لگانے کے بعد نوٹیفکیشن کی کاپی اس تنظیم کے مرکزی دفتر پر، نمایاں مقام پر چسپاں کرنا، مرکزی دفتر کے اہلکار کو سونپنا، یا نوٹیفکیشن کے مواد کا اس تنظیم کی سرگرمیوں کے علاقوں میں لاوڈاسپیکر سے اعلان کرنا ضروری ہے۔
سیمی کے اس وقت کے صدر جناب شاہد بدر کا کہنا ہے کہ ہمیں 27ستمبر 2001کی شام کو ٹی وی پر نشر خبر کے ذریعہ معلوم ہوا کہ ہم پرپابندی لگا دی گئی ہے۔ جب کہ پورے ملک میں ہمارے سارے دفاتر کے فون صبح ہی سے کاٹ دئیے گئے تھے۔ اترپردیش سمیت مختلف ریاستوں میں رات ہی میں گرفتاریاں عمل میں آچکی تھیں۔ شاہد بدر مزید بتاتے ہیں کہ 27ستمبر کو رات 12بجکر 40منٹ پر پولیس سیمی کے مرکزی آفس میں گالیاں دیتی ہوئی دروازہ توڑ کر داخل ہوئی اور ہمیں گرفتار کرلیا۔ ہمیں اس وقت تک کسی بھی طرح کا کوئی نوٹیفکیشن نہیں دیا گیا۔
سیمی پر پابندی کے ان آٹھ سالوں میں عوام کے سامنے زیادہ تر وہی باتیں آسکی ہیں جنھیں حکومت نے لانا چاہا۔ نام نہاد آزاد اور غیر جانب دار میڈیا بھی اس معاملے میں حکومت کی اطلاعات کو من وعن نقل کرنا ہی بہتر سمجھتارہا۔ عموما ایسا ہوا ہے کہ جب بھی سیمی کے نام پر کوئی گرفتاری ہوتی ہے، میڈیا اس کو بطورخاص کور کرتا دکھائی دیتاہے۔ عدالتوں میں ان کی پیشی ،پولیس حراست میں اقبال جرم وغیرہ کی کہانی بھی نمایاں مقام حاصل کرتی ہے۔
لیکن جب کچھ دنوں بعد عدالت اسے بری کردیتی ہے تو یہ خبر ان کے لئے کوئی اہمیت نہیںرکھتی۔سیمی کے نام پر سب سے زیادہ واویلا مہاراشٹر میں مچایا گیا، جہاں مسلسل کئی برسوں سے کانگریس بر سر اقتدار ہے ۔ سیمی پر پابندی لگنے کے بعد سال 2002میں گھاٹ کوپر میں ایک بس میں بم دھماکہ ہوا۔ ممبئی پولیس نے اسے سیمی کی کارروائی قرار دیتے ہوئے 16لوگوں کو پوٹا کے تحت ملزم بنایا جس میں ڈاکٹر متین اور ثاقب ناچن وغیرہ کو کلیدی ملزم کے طور پر پیش کیا گیا۔
ثاقب ناچن و دیگر 8لوگوں کو اس مقدمے میں پولیس نے 2003میں گرفتار کیا لیکن سال بھر کے اندر ہی اپریل 2004ءمیں ان کو ڈسچارج کردیا گیا اور پھر بقیہ ملزمین بھی بعد میں عدالت کے ذریعہ بری ہوگئے۔ لیکن اس معاملے کو ستمبر 2003میں سیمی پر دوبارہ پابندی لگانے کے لئے حکومت نے اہم مقدمے کے طور پر پیش کیا۔ اسی طرح مارچ 2003میں ملنڈ، ولے پارلے اور ممبئی سینٹرل کے بم دھماکوں میں بھی 16لوگ گرفتار کئے گئے۔اس میں بھی ثاقب ناچن کو کلیدی ملزم بنایا گیا ۔
یہ معاملہ بھی پوٹا کے تحت درج کیا گیا لیکن تقریباً دو سال بعد 2005ءمیں استغاثہ نے عدالت میں ثاقب ناچن سمیت کئی ملزمین کے بارے میں تحریر لکھ کر دی کہ ان لوگوں کا بم بنانے، رکھنے یا سازش کرنے سے براہ راست تعلق نہیں تھا۔ لیکن یہ معاملہ ابھی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
مغربی بنگال، جہاں ایک عرصہ سے خود کو فرقہ پرستی سے کوسوں دور بتانے والی پارٹی برسر اقتدار ہے، میں سیمی کے نام پر کم ڈرامے نہیں ہوئے ہیں۔ یٰسین کبیر نامی 58سالہ بزرگ کو دیگر 5لوگوں کے ساتھ مالدہ ضلع میں ستمبر2001کو گرفتار کیا گیا تھا، ان پرسیمی کا پوسٹر لگانے، اشتعال انگریز تقریریں کرنے اور نعرے لگانے کا الزام تھا۔ یٰسین کبیر کا دو سال بعد جیل ہی میں انتقال ہوگیا اور 4سال بعد سیشن کورٹ نے بقیہ4لوگوں کو بری کردیا اور ایک ملزم کو 2سال کی سزا سنائی جب کہ پانچوں ملزمین 4سال جیل میں گزار چکے تھے۔
مغربی بنگال کے ضلع مرشد آباد میں پولیس نے سیمی کے نام پر دیگر 18لوگوں کے ساتھ 75سالہ مولانا اشرف الحق نامی ایک عالم دین کو گرفتار کیا ان پر بھی پوسٹر چسپاں کرنے اور نعرے بازی کا الزام ہے ۔
مرشد آباد کے برہمپور میں واقع مولن نامی ہوٹل کے مالک ابو القاسم (65سال) کو بھی پولیس نے حراست میں لے لیالیکن بعد میں عدالت نے انھیں ڈسچارج کردیا۔ ان پر الزام تھا کہ 2001میں سیمی کے صدر شاہد بدر ایک کانفرنس کے سلسلے میں جب مرشد آباد آئے تھے تو انھیں کےہوٹل میں ٹھہرے تھے۔
اسلامک یوتھ مومنٹ نامی مقامی تنظیم نے 15 اگست 2006ءکو ”ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کا رول“ کے عنوان پر کیرلہ کے شہر پانجی کولم میں ایک سیمینار رکھا۔ حکومت نے اسے سیمی کی خفیہ میٹنگ بتا کر 5لوگوں کے خلاف مقدمہ قائم کیا ۔جب کہ پروگرام درمیان شہر میں واقع ، ہیپّی آڈیٹوریم میںمنعقد ہوا تھا ۔ آڈیٹوریم میں 500لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔ گرفتار شدگان دو مہینے سے زائد عرصہ جیل میں گزارنے کے بعد ضمانت پر رہا کر دیے گئے۔ اس مقدمے میں ابھی تک چارج شیٹ نہیں داخل ہوسکی ہے لیکن 2008ءمیں اور 10لوگوں کو اسی مقدمے میں گرفتار کرلئے گئے۔
مدھیہ پردیش پولیس کا الزام ہے کہ صفدر ناگوری نے کیرلہ کے کوٹیم ضلع کے واگھمن علاقے میں دہشت گردانہ ٹریننگ کیمپ کا انعقاد کیا تھا۔ پولیس کے مطابق سیمی کے لوگوں نے یہاں ہتھیاروں کی ٹریننگ لی اور تیراکی بھی سیکھی۔ لیکن یہ ایک سیاحتی مقام ہے یہاں ہتھیاروں کی ٹریننگ کیسے ممکن ہے اور یہاں کوئی ندی یا سوئمنگ پول بھی نہیں تو تیراکی کیسے سیکھی جاسکتی ہے۔
مدھیہ پردیش میں بھی پولیس نے کیمپ چلانے کا الزام لگایا ہے لیکن انگریزی پندرہ روزہ ’دی ملی گزٹ ‘کے ایڈیٹر ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں کا کہنا ہے کہ ہم نے جب اپنے نمائندے کو رپورٹنگ کے لئے وہاں بھیجا تو گاوں والوں نے بتایا کہ ”پولیس نے یہ یہاں خود دو دن قبل بم رکھا تھا۔“
سیمی کے نام پر دہلی پولیس نے یسین پٹیل سمیت دو لوگوں کو مئی 2002ءمیں گرفتار کیاگیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی دیوار پر اشتعال انگیز پوسٹر چپکار ہے تھے۔افکار ملی سے بات کرتے ہوئے یسین پٹیل نے بتایا کہ ان کو ایک رات پہلے ہی گرفتار کیا جاچکا ہے۔ ان کی اہلیہ نے جب دہلی ہائی کورٹ میں ’ہیبس کارپس‘ کی عرضی دائر کی تب پولیس نے جامعہ ملیہ کی دیوار پر پوسٹر چپکانے کی فرضی کہانی گڑھی۔ پولیس نے جسے پوسٹر ثابت کرنے کی کوشش کی وہ ایک اسٹیکر تھا جس کو سیمی نے 1996ءمیں شائع کیا تھا۔
پولیس نے اس کو کمپیوٹر کے ذریعہ بڑا کرکے پوسٹر کے طور پیش کیا۔ گواہ کے نام پر صرف پولیس والے تھے پولیس نے عدالت میں کہا کہ دوپہر سے شام تک کوئی گواہ نہ مل سکا ، استغاثہ نے عدالت میں یہ بھی کہا کہ لوگ اس طرح دہشت گردانہ معاملے میں گواہی سے ڈرتے ہیں۔
فہرست نہیں پیش کرنا چاہتے۔ مبین اختر نے کہا کہ اگر ایسا ہوگیا ہوتا تو ایسے لوگ جو سیمی کو جانتے بھی نہیں ان کو اس طرح جھوٹے مقدمات میں پھنساناپولیس کے لئے انتہائی مشکل ہوتا ۔ لیکن حکومت کی نیت مسلم نوجوانوں کے تئیں صاف نہیں ہے اس لئے کہیں پٹاخہ بھی پھوٹتا ہے تو سیمی ہی کانام آتا ہے۔ کوئی بھی مسلمان کسی بھی جرم میں پکڑا جائے تو اسے سیمی سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ سیمی پر لگے الزامات کے تعلق سے پوچھے جانے پر مبین اختر نے کہا کہ الزام کی حیثیت محض افواہ کی ہے۔ جب تک کہ اس کی باضابطہ تصدیق نہ ہوجائے۔
سن 2001میں سیمی پر پہلی پابندی پر کانگریس نے بھی این ڈی اے حکومت پر نشانہ سادھا تھا۔ لیکن جب وہ خود اقتدار میں آئی تو اس سے بھی آگے بڑھ گئی۔ لیکن کانگریس کے تحت انٹی کمیونل فورم کے صدر امریش مصرا کا مانناکہ سیمی پر پابندی قطعاً غلط ہے۔ انہوںنے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ کانگریس کے اندر فرقہ پرستی پائی جاتی ہے۔ نئی یوپی اے گورنمنٹ کے وزیر برائے اقلیتی امور سلمان خورشید سپریم کورٹ میں سیمی کے وکیل رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں ایک سماجی تنظیم کے پروگرام نے انہوں نے برملا اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ سیمی پر پابندی کی مخالفت میں عدالت میں بحیثیت وکیل کھڑے ہوئے تھے اور وہ پارٹی کے اس موقف کو درست نہیں سمجھتے۔
تہلکہ کے ایڈیٹر اِن لارج اجیت ساہی سیمی پرپابندی کے تعلق سے عدالت اور قانون کے سوال پر پریشان سے ہوجاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اب عدالتوں سے انصاف کی توقع فضول ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ انصاف ہندومسلم سب کے لئے ایک بنیادی ضرورت ہے۔ اگر یہاں انصاف ختم ہوگیا تو یہ ملک ٹوٹ جائے گا۔
پولیس اور عدلیہ کے علاوہ جمہوریت کے چوتھے ستون میڈیا نے بھی کم گل نہیں کھلائے ہیں۔ کسی فرد یا تنظیم پر جرم ثابت ہوئے بغیر مجرم گرداننے اور اسے مختلف مجرمانہ نام دینے کا جوچلن جدید میڈیا نے اختیار کیا ہے وہ کسی المیہ سے کم نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیمی کے شوشے کو ایشو بنانے اور پھر اس پر ہنگامہ کھڑا کرنے میں میڈیا کا کلیدی رول رہاہے۔ کسی جمہوری ملک میں کسی تنظیم پر پابندی لگا کر اس کے منھ کو بندکرنے کے بعد اس کے اوپر حکومت پولیس اور میڈیا کی الزامات کی یلغار، جمہوری اقدار کے منافی ہے ۔
ایڈوکیٹ مبین اختر کا کہنا ہے کہ جس طرح مقدمات کی سماعت ہورہی اس طرح پہلے پابندی کا مقدمہ فائنل ہونے میں کم از کم دس سال لگیں گے۔ کیا حقوق انسانی کیلئے سرگرم تنظیموں کیلئے یہ معاملہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ واقعہ یہ ہے کہ سیمی کے تعلق سے ہورہی حقوق انسانی کی حق تلفی کی یہ چند مثالیں ںہیں بلکہ پورے ملک میں اس نام پر کسی بھی مسلم نوجوان کے خون کو حلال کرلینا پولیس اور ایجنسیوں کیلئے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
نوٹ: مضمون نگار دہلی میں ماہنامہ افکار ملی کے خصوصی نمائندہ ہیں۔
بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل
No comments:
Post a Comment