بھارتی ریاست مہاراشٹر کی پولیس فورس کے سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس ایس ایم مشرف کی کتاب ”کرکرے کا قتل کس نے کیا؟ بھارت میں دہشت گردی کا اصل چہرہ“ اس وقت بھارتی انٹیلی جنس بیورو، ذرائع ابلاغ اور عوام میں بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق مصنف نے اپنی کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ شروع کے اسباق میں انہوں نے ملک میں پھیلی اس برہمن ذہنیت کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے جن کی وجہ سے اس وقت ملک کی سلامتی کو خطرہ ہے اور جس کی جڑیں اب ملک کی خفیہ ایجنسی انٹیلی جنس بیورو میں اندر تک پھیل چکی ہیں۔
مصنف کے مطابق اس ذہنیت کے لوگوں نے ملک کی علاقائی زبان کے میڈیا پر قبضہ کر رکھا ہے۔ مصنف نے مہاراشٹر میں ہونے والے بم دھماکوں کے لئے ایسی ہی برہمن ذہنیت اور انتہا پسند نظریات رکھنے والی تنظیموں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جو بم دھماکے کرکے مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے اور پورے ملک میں مسلم مخالف لہر پیدا کرنے کا مقصد حاصل کر رہے ہیں اور اس میں ان کی معاونت آئی بی کا پورا کیڈر کر رہاہے۔
ہیمنت کرکرے جنہوں نے مالیگاوٴں بم دھماکے کے الزام میں گرفتار سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر، کرنل پروہت، سوامی دیا نند پانڈے سمیت گیارہ ملزمان کو گرفتار کیا تھا اور ان کے بارے میں عدالت میں داخل کی گئی فرد جرم کے مطابق یہ تمام افراد اپنی تنظیم ابھینو بھارت ، جن جاگرن سمیتی اور دیگر ہندو سخت گیر تنظیموں کے بینر تلے ایک ہندو راشٹر بنانے کی کوشش میں تھے، جس کے لئے انہوں نے نیپال کے سابق راجہ سے مذاکرات کیے تھے۔
مصنف کا موٴقف ہے کہ 1994ء بم دھماکا ،کوئمبتور بم دھماکا اور قندھار طیارہ ہائی جیک کیس ایسے واقعات ہیں جن میں مسلمانوں کو بدنام کیا جا سکتا تھا۔ ان کے مطابق 1994ء میں بم دھماکے بابری مسجد انہدام کے بعد ہوئے۔ فرقہ وارانہ فسادات کے بدلے کے طور پر چند مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے افراد نے کرائے تھے اور کوئمبتور دھماکے کو بھی وہ اسی زمرے میں رکھتے ہیں البتہ قندھار طیارہ ہائی جیک کو وہ دہشت گرد کارروائی قرار دیتے ہیں۔
اس کے علاوہ مصنف نے ملک میں ہوئے دیگر بم دھماکوں کو اسی برہمن واد ذہنیت کی تنظیموں کا کارنامہ قرار دیا جسے ہیمنت کرکرے نے بے نقاب کرنے کی جرأت کی تھی۔ مصنف نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت اور گجرات فسادات کے بعد جب ان برہمن ذہینت رکھنے والوں کو ان کا مقصد حاصل نہیں ہوا تو انہوں نے پھر مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لئے ایک طرف ملک میں کئی مقامات پر بم دھماکے کرانے شروع کیے تو دوسری جانب ہر ہفتے اخبارات میں آئی بی کے حوالے سے خبریں شائع ہونے لگیں کہ مختلف مسلم تنظیمیں اب دہلی ممبئی اور ملک کے بیشتر خفیہ ٹھکانوں پر حملے کرنے والے ہیں۔
یہاں مصنف نے ایک خبر کی مثال دی جس میں امریکا کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ القاعدہ ممبئی اور دہلی پر حملے کرنے والی ہے۔ دوسرے روز امریکہ نے اس خبر سے انکار کیا تھا۔ کتاب میں کہا گیا ہے کہ 2000ء سے اب تک ملک میں ہونے والے بم دھماکے انہی برہمن خیالات کی حامل تنظیموں نے کرائے ہیں۔ اس میں انہوں نے ناندیڑ بم دھماکہ، ٹرین بم دھماکہ، اجمیر شریف بم دھماکہ، مالیگاوٴں بم دھماکے اور احمد آباد بم دھماکوں کی مثال دیتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ کام کس طرح ان برہمن ذہنیت کی تنظیموں نے کیا ہے۔
مصنف نے اسی پس منظر میں ممبئی حملوں میں ہیمنت کرکرے کے قتل پر شک و شبہ ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے چند سوالات اٹھائے ہیں اور دعوی کیا ہے کہ اگر یہ جھوٹ ہیں تو حکومت اس کی تفتیش کرے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ جب بھی کہیں بم دھماکہ ہوتا ہے ، ایجنسیاں فوراً بغیر ثبوت کے رٹے رٹائے انداز میں مسلم تنظیموں کا نام لینا شروع کر دیتی ہیں۔ آئی بی پولیس تفتیش میں بلاوجہ مداخلت کرتی ہے۔
انہوں نے 11 جولائی 2006ء کے ٹرین بم دھماکوں کی مثال دی کہ جب مبینہ طور پر بے قصور افراد کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس افسران پر دباوٴ ڈالا جانے لگا تو ایک انسپکٹر ونود بھٹ نے خود کشی کر لی ۔
ان کا کہنا ہے کہ شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے۔ مسلمانوں کو فرضی پولیس مقابلوں میں ہلاک کرنے سے قبل اس شخص سے ڈائری لکھوائی جاتی ہے، نقشے بنوائے جاتے ہیں، کسی ساتھی کو فون کروایا جاتا ہے وغیر وغیرہ۔ مشرف کے مطابق یہ برہمن نواز تنظیمیں آر ایس ایس سے زیادہ خطرناک ہیں۔ مشرف نے کے پی ایس رگھوونشی کی سربراہی میں مہاراشٹر کی انسداد دہشت گردی عملہ، اترپردیش کی ایس ٹی ایف، دہلی پولیس کی اسپیشل سیل سمیت جموں کشمیر پولیس کے کچھ حصے کی کارکردگی پر شک و شبہات ظاہر کئے ہیں۔
مصنف نے شروع سے ہی اپنی کتاب میں ملک کی انتہائی اہم خفیہ ایجنسی انٹیلی جنس بیورو کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگائے ہیں کہ اس ایجنسی میں برہمن واد کیڈر ہے جو ملک کو اور حکومت کو مسلمانوں کے خلاف گمراہ کرتا آیا ہے۔ اس کی جڑیں اس حد تک پھیلی ہیں کہ جو سیکولر افسران ہیں ان کی آواز دبا دی جاتی ہے اور کبھی تو انہیں پتہ تک نہیں لگتا کہ آخر حقیقی معنوں میں کیا ہو رہا ہے۔
ذرائع کا دعوی ہے کہ اصل حملہ آور صرف ہوٹل تاج ، ہوٹل ٹرائیڈینٹ ، کیفے لیوپولڈ، اور ناریمان ہاوٴس تک محدود تھے۔ ان حملوں کا فائدہ اٹھا کر ایک منصوبے کے تحت کرکرے کو رنگ بھون کی گلی میں قتل کیا گیا۔ مصنف نے اسی پس منظر میں ممبئی حملوں میں ہیمنت کرکرے کے قتل پر شک و شبہ ظاہر کیا ہے۔
بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل
برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق مصنف نے اپنی کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ شروع کے اسباق میں انہوں نے ملک میں پھیلی اس برہمن ذہنیت کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے جن کی وجہ سے اس وقت ملک کی سلامتی کو خطرہ ہے اور جس کی جڑیں اب ملک کی خفیہ ایجنسی انٹیلی جنس بیورو میں اندر تک پھیل چکی ہیں۔
مصنف کے مطابق اس ذہنیت کے لوگوں نے ملک کی علاقائی زبان کے میڈیا پر قبضہ کر رکھا ہے۔ مصنف نے مہاراشٹر میں ہونے والے بم دھماکوں کے لئے ایسی ہی برہمن ذہنیت اور انتہا پسند نظریات رکھنے والی تنظیموں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جو بم دھماکے کرکے مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے اور پورے ملک میں مسلم مخالف لہر پیدا کرنے کا مقصد حاصل کر رہے ہیں اور اس میں ان کی معاونت آئی بی کا پورا کیڈر کر رہاہے۔
ہیمنت کرکرے جنہوں نے مالیگاوٴں بم دھماکے کے الزام میں گرفتار سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر، کرنل پروہت، سوامی دیا نند پانڈے سمیت گیارہ ملزمان کو گرفتار کیا تھا اور ان کے بارے میں عدالت میں داخل کی گئی فرد جرم کے مطابق یہ تمام افراد اپنی تنظیم ابھینو بھارت ، جن جاگرن سمیتی اور دیگر ہندو سخت گیر تنظیموں کے بینر تلے ایک ہندو راشٹر بنانے کی کوشش میں تھے، جس کے لئے انہوں نے نیپال کے سابق راجہ سے مذاکرات کیے تھے۔
مصنف کا موٴقف ہے کہ 1994ء بم دھماکا ،کوئمبتور بم دھماکا اور قندھار طیارہ ہائی جیک کیس ایسے واقعات ہیں جن میں مسلمانوں کو بدنام کیا جا سکتا تھا۔ ان کے مطابق 1994ء میں بم دھماکے بابری مسجد انہدام کے بعد ہوئے۔ فرقہ وارانہ فسادات کے بدلے کے طور پر چند مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے افراد نے کرائے تھے اور کوئمبتور دھماکے کو بھی وہ اسی زمرے میں رکھتے ہیں البتہ قندھار طیارہ ہائی جیک کو وہ دہشت گرد کارروائی قرار دیتے ہیں۔
اس کے علاوہ مصنف نے ملک میں ہوئے دیگر بم دھماکوں کو اسی برہمن واد ذہنیت کی تنظیموں کا کارنامہ قرار دیا جسے ہیمنت کرکرے نے بے نقاب کرنے کی جرأت کی تھی۔ مصنف نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت اور گجرات فسادات کے بعد جب ان برہمن ذہینت رکھنے والوں کو ان کا مقصد حاصل نہیں ہوا تو انہوں نے پھر مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لئے ایک طرف ملک میں کئی مقامات پر بم دھماکے کرانے شروع کیے تو دوسری جانب ہر ہفتے اخبارات میں آئی بی کے حوالے سے خبریں شائع ہونے لگیں کہ مختلف مسلم تنظیمیں اب دہلی ممبئی اور ملک کے بیشتر خفیہ ٹھکانوں پر حملے کرنے والے ہیں۔
یہاں مصنف نے ایک خبر کی مثال دی جس میں امریکا کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ القاعدہ ممبئی اور دہلی پر حملے کرنے والی ہے۔ دوسرے روز امریکہ نے اس خبر سے انکار کیا تھا۔ کتاب میں کہا گیا ہے کہ 2000ء سے اب تک ملک میں ہونے والے بم دھماکے انہی برہمن خیالات کی حامل تنظیموں نے کرائے ہیں۔ اس میں انہوں نے ناندیڑ بم دھماکہ، ٹرین بم دھماکہ، اجمیر شریف بم دھماکہ، مالیگاوٴں بم دھماکے اور احمد آباد بم دھماکوں کی مثال دیتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ کام کس طرح ان برہمن ذہنیت کی تنظیموں نے کیا ہے۔
مصنف نے اسی پس منظر میں ممبئی حملوں میں ہیمنت کرکرے کے قتل پر شک و شبہ ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے چند سوالات اٹھائے ہیں اور دعوی کیا ہے کہ اگر یہ جھوٹ ہیں تو حکومت اس کی تفتیش کرے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ جب بھی کہیں بم دھماکہ ہوتا ہے ، ایجنسیاں فوراً بغیر ثبوت کے رٹے رٹائے انداز میں مسلم تنظیموں کا نام لینا شروع کر دیتی ہیں۔ آئی بی پولیس تفتیش میں بلاوجہ مداخلت کرتی ہے۔
انہوں نے 11 جولائی 2006ء کے ٹرین بم دھماکوں کی مثال دی کہ جب مبینہ طور پر بے قصور افراد کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس افسران پر دباوٴ ڈالا جانے لگا تو ایک انسپکٹر ونود بھٹ نے خود کشی کر لی ۔
ان کا کہنا ہے کہ شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے۔ مسلمانوں کو فرضی پولیس مقابلوں میں ہلاک کرنے سے قبل اس شخص سے ڈائری لکھوائی جاتی ہے، نقشے بنوائے جاتے ہیں، کسی ساتھی کو فون کروایا جاتا ہے وغیر وغیرہ۔ مشرف کے مطابق یہ برہمن نواز تنظیمیں آر ایس ایس سے زیادہ خطرناک ہیں۔ مشرف نے کے پی ایس رگھوونشی کی سربراہی میں مہاراشٹر کی انسداد دہشت گردی عملہ، اترپردیش کی ایس ٹی ایف، دہلی پولیس کی اسپیشل سیل سمیت جموں کشمیر پولیس کے کچھ حصے کی کارکردگی پر شک و شبہات ظاہر کئے ہیں۔
مصنف نے شروع سے ہی اپنی کتاب میں ملک کی انتہائی اہم خفیہ ایجنسی انٹیلی جنس بیورو کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگائے ہیں کہ اس ایجنسی میں برہمن واد کیڈر ہے جو ملک کو اور حکومت کو مسلمانوں کے خلاف گمراہ کرتا آیا ہے۔ اس کی جڑیں اس حد تک پھیلی ہیں کہ جو سیکولر افسران ہیں ان کی آواز دبا دی جاتی ہے اور کبھی تو انہیں پتہ تک نہیں لگتا کہ آخر حقیقی معنوں میں کیا ہو رہا ہے۔
ذرائع کا دعوی ہے کہ اصل حملہ آور صرف ہوٹل تاج ، ہوٹل ٹرائیڈینٹ ، کیفے لیوپولڈ، اور ناریمان ہاوٴس تک محدود تھے۔ ان حملوں کا فائدہ اٹھا کر ایک منصوبے کے تحت کرکرے کو رنگ بھون کی گلی میں قتل کیا گیا۔ مصنف نے اسی پس منظر میں ممبئی حملوں میں ہیمنت کرکرے کے قتل پر شک و شبہ ظاہر کیا ہے۔
بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل
No comments:
Post a Comment