تحریر: روف عامر پپا بریار
عالمی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ مستقبل میں وہ ریاست عالمی قیادت کا تاج پہننے میں سرفراز ہوگی جس کے پاس انرجی تیل و گیس کے وسیع ذخائر ہونگے۔
انہی زائچوں و مشاہدوں کے پیش نظر امریکہ سنٹرل ایشیا سے لیکر افریقہ تک انرجی کے انبوہ رکھنے والے علاقوں پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔ امریکہ سوڈان کے لا محدود معدنی خزانوں کو اپنے پنجہ استبداد میں مقید کرنے کے لئے پرجوش نظر اتا ہے۔
امریکہ اور برطانیہ نے اپنے زاتی مفادات کے لئے سوڈان میں ہمیشہ خانہ جنگی و نسلی تصادم کو انگیخت دی۔ چھ سالہ جنگی دور میں تین لاکھ سے زائد لوگ مارے گئے جبکہ دارفر کے دو ملین لوگ بے سائباں بن گئے۔
امریکہ نے سوڈان میں مداخلت کی تاویلات کے تناظر میں نئی پالیسی تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے ۔واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق سوڈان کی نوزائیدہ امریکی پالیسی یواین او میں امریکی سفیر سوسائن رائس اور خصوصی معاون سکاٹ کریشن اوپن کریں گی۔
صدر عمر البشیر سامراج مخالف افکار کے رسیا ہیں یوں وہ امریکہ و مغرب کے نزدیک انتہائی ناپسندیدگی کا درجہ رکھتے ہیں کیونکہ وہ دیگر مسلم ممالک کی طرح وائٹ ہاوس کے خوشہ چین بننے اور و مرغان دست اموز والا کردار ادا کرنے سے انکاری ہیں۔
وہ 1989سے صدر کے عہدے پر کام کررہے ہیں۔عالمی عدالت انصاف نے عمر حسن البشیر کے وارنٹ گرفتاری جاری کررکھے ہیں۔ ان پر دارفر میں غیر عرب باشندوں کے قتل عام کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ سوڈانی صدر نے 2005 میں ایک معاہدے پر دستخط کئے جس سے وہاں دس سالہ خانہ جنگی کا اختتام ہوا۔
دس لاکھ افراد نسلی تصادم کے عفریت کا لقمہ اجل بن گئے۔ سوڈان نے اپنے دریافت یافتہ ذخائر سے فوائد حاصل کرنے کا کام انتہائی تاخیر سے شروع کیا۔
یوں تو سوڈان میں 1959 میں تیل و گیس نکالنے کی ابتدائی کوششیں شروع تھیں۔ستر کی دہائی میں امریکی کمپنی چوران کو تیل و گیس کے ذخائر کی تلاش کا ٹھیکہ دیا گیا مگر 1990 میں یہ کمپنی اپنا کام ادھورا چھوڑ کر واپس چلی گئی۔
اور 1996 میں سوڈانی حکومت نے ملائشیا چین کے تعاون سے اپنی پیدوار بڑھانے اور نئے ذخائر تلاش کرنے کی مہم کا اغاز کیا۔ اس عرصہ میں تیل کی پیدوار بڑھتی رہی اور اٍس سال تیل کی پیدوار میں اضافہ250 بلین بیرل کے ہندسوں کو کراس کرگیا۔ 1882میں برطانیہ نے مصر پر قبضہ کیا تو سوڈان بھی انکی عملداری میں آگیا۔ برطانیہ نے سوڈان کو دو حصوں شمالی مسلم سوڈان اور جنوب میں مسیحی سوڈان میں منقسم کردیا۔ 1955 میں مصری و سوڈانی قوم پرستوں نے برطانیہ سے اپنی آزادی تسلیم کروالی اور شمالی و جنوبی سوڈان کو ایک پرچم تلے ضم کرنے کا اعلان بھی ہوا مگر برطانیہ نے دونوں حصوں میں نفاق کے ایسے زہریلے بیج کاشت کئے کہ آج تک دونوں کی وحدت کا خواب پورا نہ ہوسکا۔
حکومت نے ایک طرف تیل کو بحیرہ احمر تک پہنچانے کے لئے پائپ لائنیں تعمیر کیں تو دوسری طرف ملک میں پانچ کرنے والی ائل ریفائنریاں قائم کی گئیں۔ خرطوم آئل ریفائنری کے قیام نے پوری دنیا میں تیل و گیس کی تجارت سے منسلک انٹرنیشنل کمپنیوں کو اپنی طرف راغب کیا۔
یوں دنیا کی پیٹروکیمیکل انڈسٹری کے لئے سوڈان نعمت مترقبہ ثابت ہوا۔ تیل و گیس کے علاوہ سوڈانی دھرتی نے نایاب قسم کی معدنیات سونا چاندی چپسم کاپر سلیکون اور دیگر کے وسیع خزانوں کو اپنی کوکھ میں چھپا رکھا ہے۔
سوڈان وسعت و عرض کے میدان میں براعظم اور عربستان کا سب سے بڑا اور دنیا کا دسواں بڑا ملک ہے۔سوڈان کی ابادی 2007 کی مردم شماری کے مطابق چار کروڑ کے لگ بھگ ہے۔یہاں کی ستر فیصد ابادی مسلمان جبکہ تیس فیصد روحوں کی پوجا پاٹ کرنے والے عیسائی ہیں۔
انہی غیر مسلم عیسائیوں نے امریکی و اسرائیلی شہ پر ریاست کے سکون کو تباہ و برباد کررکھا ہے۔یہ کمیونٹی جنوبی سوڈان کی آزادی کے لئے عسکریت پسندی کا پرچم تھامے ہوئے ہے۔باغیوں کو یہود و ہنود کی عسکری شیطانی و مالی سپورٹ دستیاب ہے۔
سوڈان میں مختلف ادوار میں طرفین کے درمیان خانہ جنگی کا میدان سجتا رہا۔یوں لاکھوں لوگ اور ہزاروں بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ایک سروے کے مطاق بیس سالوں میں 40 ہزار سوڈانی موت کی سرخ چادر میں لپیٹے گئے جبکہ 20 لاکھ دربدر ہوگئے۔
اس وقت دارفر کا تنازہ شدت اختیار کرچکا ہے۔ باغی گروپوں کا موقف ہے کہ حکومت و صدر عمرحسن البشیر سیاہ فام افریقیوں کے مقابلے میں عرب نژاد باشندوں کو ہر قسم کی سہولیات مہیا کرتے ہیں جبکہ انکے حقوق غصب ہوچکے۔امریکہ نے دارفر کے مسئلہ پر صدر پر غیر مسلم عیسائیوں کی نسلی کشی کا الزام عائد کیا ہے۔
اس پر مستزاد یہ کہ یواین او نے حسن ظن سے کام لیتے ہوئے نسلی کشی کے مقدمے کو بنیاد بنا کر صدر کے خلاف وارنٹ جاری کئے ہیں۔ عالمی عدالت انصاف کے وکیل لیوس مورینو نے مغرب کے اشارے پر انصاف کش عدلیہ میں صدر کے خلاف چارج شیٹ پیش کی تھی کہ دارفر میں افریقی النسل آبادی کی نسل کشی، گینگ ریپ اور مخالفین کو علاقہ بدر کرنے کے جنگی جرائم میں عمر البشیر پر مقدمہ چلایا جائے۔
صدر نے عدلیہ کی دریدہ دہنی پر کہا تھا کہ وہ عدالت کے دائرہ کار میں نہیں آتے کیونکہ وہ ممبر نہیں ہیں۔ عرب خطے کے تمام حکمرانوں نے عمر البشیر کی پشت بانی کرکے اسے ولولہ تازہ عطا کیا۔ سوڈان نے متعدد مرتبہ افریقی ممالک میں جاری فسادوں رنجشوں اور نفرتوں کے خاتمے کے لئے پل کا کردار ادا کیا۔
انہوں نے طرفین کے درمیان بات چیت کی محفلیں منعقد کیں مگر مغربی میڈیا انکے مثبت کاموں کو بھی توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے۔
مغربی ایجنسیاں و صہیونی لابیاں دارفر میں جاری تصادم کی پشت پناہی کرتی ہے۔ باغیوں اور جنگجو گروپوں کو اسلحہ و ڈالر دیے جاتے ہیں تاکہ ریاست کا امن ہمیشہ خون بہاتا رہے۔ مغربی ممالک اور اسرائیل اپنے خونخوار عالمی دیو کی سرکردگی میں یہاں افراتفری دہشت گردی اور بغاوتوں کو پروان چڑھا کر عراق کی طرح معدنی وسائل کو اپنی دسترس میں لانا چاہتا ہے۔
تیل کی ڈکیٹی کے لئے بڑے ملکوں میں جاری گریٹ گیم کا ایک میدان سوڈان بھی ہے۔ معدنی دولت کے ساتھ ساتھ یہ خطہ جنگی نقطہ نظر سے اہمیت کا حامل ہے۔ سوڈان کو اپنا مطیع بنانے کے لئے امریکہ ایتھوپیا کو استعمال کرتا ہے۔
ایک دہائی 1990 تا2001تک امریکی اایجنسیاں ایتھوپیا کے چار ہزار سے زائد فوجیوں کو خصوصی کمانڈو تربیت دے چکے ہیں۔ ایتھوپیا کو دفاع اور اسلحہ خریدنے کی مد میں اربوں ڈالر عنائت کئے جاچکے ہیں۔ امریکہ سوڈان کے مسئلہ پر دوہری چال چل رہا ہے۔ چین و روس نے سوڈان میں کھربوں کی سرمایہ کاری کی ہے اور یہی نقطہ اوبامہ کو قبول نہیں۔
امریکہ نے چین اور روس کے عزائم کے توڑ کے لئے اپنی پالیسی میں جوہری تبدیلی کی ہے۔علاقائی امور پر اتھارٹی سمجھے جانیوالے افریقی دانشوروں کا کہنا ہے کہ امریکی پالیسی میں نرمی کا مطلب چین اور روس کو سوڈان سے نکالنے کی چال ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سوڈان میں روس کی زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کے پیچھے چینی قیادت کی یہ سوچ کارفرماہے کہ خطے میں امریکہ کو زیر کرنے کے لئے روس کی موجودگی لازمی ہے کیونکہ عراق و کابل میں بے پناہ جنگی و مالی اور اخلاقی و جانی نقصانات کے بعد امریکہ میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ روس کے ساتھ پیچا لڑا سکے۔
سوڈان کی صورتحال کے تناظر میں روئے ارض کے تمام مسلمانوں اور حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ صدر حسن عمر البشیر کا ساتھ دیں اور تمام مسلم ریاستیں او ائی سی اور عرب لیگ یواین او میں عالمی عدالت انصاف کے غیر منصفانہ و مشرقانہ فیصلے کے خلاف آواز حق بلند کریں۔
بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل
No comments:
Post a Comment