Monday, November 2, 2009

ڈرو ن طیارہ کیو ں اور کیسے ایجاد ہوا - - - - - سچ تو یہ ہے۔




تحریر: ڈاکٹر عصمت حیات علوی




بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے دوران کروڑوں انسان مرے تھے اور ان میں زیادہ بڑی تعداد سفید فام لوگوں کی ہی تھی۔جب دوسری جنگ عظیم کا اختتام ہوا تھا تب یورپ اور امریکہ کے سفید فام لیڈر سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اگر تیسری جنگ عظیم بھی یورپ میں ہی لڑی گئی تو یورپ کی اکانومی مکمل طور پر تباہ ہو جائے گی اور سفید فام نسل کے معدوم ہوجانے کے امکانات یقینا بڑھ جائیں گے ۔

ساری صورت حال پر غورخوض کرنے کے بعد یورپین اور امریکن لیڈرز نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جنگیں تو آئندہ بھی لڑی ہی جائیں گی مگر ایشیا اور افریقہ میں اور یہ کہ ان جنگوں میں سفید فام اس طرح سے حصہ لیں گے کہ ان کا جانی نقصان کم سے کم ہو۔ ایک آپشن یہ بھی رکھا گیا تھا کہ سفید فام آئندہ ہونی والی کسی بھی جنگ میں حصہ نہ لیں، مگر اس کایہ منفی پہلو سامنے آیا تھا کہ اگر آئندہ ہونے والی جنگوں میں سفید فام اقوام نے حصہ نہ لیا تو اس دنیا کی قیادت ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔

اس لیے فیصلہ یہی کیا گیا تھا کہ سفید فام اقوام اپنی عالمی برتری اور قیادت کو برقرار رکھنے کی خاطر نہ صرف ہر جنگ میں حصہ لیں گی بلکہ ایشیا اور افریقہ میں جنگی جنون کو ہوا بھی دیں گی تاکہ ان کی اسلحہ کی فیکٹریاں رواں دواں رہیں اور ساتھ ہی ساتھ وہ ایسی نئی ایجادات بھی کر یں گی۔ جن کی بدولت سفید فام اقوام کا جانی نقصان کم سے کم ہو۔ جنگ عظیم دوم کے فوراً بعد فرانس ویت نام کی جنگ میں الجھ گیا تھا، جب ویت کانگ نے فرانس کی بری طرح سے پٹائی کی تھی تب فر انس تو بھاگ نکلا تھا۔

مگر اس کے نکلنے سے قبل ہی امریکہ اس زعم میں ویت نام کی جنگ میں کود پڑا تھا کہ میں اپنی لیٹسٹ وار ٹیکنالوجی کی مدد سے کیمونسٹ ویتنامیوں کو چند ماہ میں ہی عبرتناک شکست دے دوں گا مگر امریکہ کے ساتھ ستم یہ ہوا تھا کہ جس جنگ میں اس نے اس امید پر اپنا پاوں پھنسایا تھا کہ چند ماہ کے بعد وہ فتح یاب ہو جائے گا تو پھروہ ویت نام کا آقا بن کر وہیں پر پکے ڈیرے بھی ڈال دے گا ۔ مگر خلاف توقع اس کو ویت نام کی جنگ سے عشروں کے بعد چھٹکارا حاصل ہوا تھا اور وہ بھی عبرت ناک شکست کی ذلت سہہ کراور ہزاروں امریکیوں کی جانیں گنوا دینے کے بعد ۔

جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے دور سے لے کر ویتنام کے میدانِ جنگ سے بھاگ نکلنے تک کے عرصے کے دوران امریکہ نے سپیس ٹیکنالوجی میں اچھی خاصی پیش رفت کر لی تھی۔ آج سے پورے چالیس سال قبل جب پہلے انسان نے چاند کی سر زمین پر اپنا پہلا قدم رکھا تھا تو اس کے پیچھے ایسی مہارت یا الیکٹرانک ٹیکنالوجی تھی جو کہ ریموٹ کنٹرولڈ تھی۔ یعنی کہ اس امریکن سپیس کرافٹ میں زیادہ تر فنکشن ایسے تھے۔ جو کہ زمین پر واقع سٹیشن میں بیٹھے ہوئے انجینئرز اور ٹیکنیشن ماڈرن الیٹرانکس آلات کی مدد سے کنٹرول کر رہے تھے۔

کچھ ایسے فنکشنز بھی تھے جو کہ امریکن سپیس کرافٹ اپالو میں بیٹھے ہوئے خلاباز یعنی اسٹراناٹس کنٹرول کر سکتے تھے۔یوں جب امریکن خلابازوں نے خلائی کار چاند کی سطح پر اتاری تھی تو وہ ان کے اختیار میں تھی اور اسی طرح سے جب پہلے انسان نیل آرمسٹرانگ نے چاند کی سطح پر پہلا انسانی قدم رکھا تھا تب بھی اس کے سپیس سوٹ میں لگے ہوئے بہت سارے فنکشنز اپالو خلائی جہاز کے اندر بیٹھا ہوا دوسرا خلا باز کنٹرول کر رہا تھا ۔ امریکہ تو یہ چاہتا تھا کہ یہ خلائی مشن امریکہ کی سالگرہ یعنی کہ چار جولائی کو چاند کی سطح پر انجام پائے مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اس لیے چند دن کی دیری ہو گئی تھی۔

مگر پھر بھی اس خلائی مشن کی کامیابی پوری دنیا کے لیے حیران کن تھی اور امریکہ کے لیے خلائی دوڑ میں فتح کاایک سمبل تھی اور خلائی ریس کے دوسرے شریک روس پر واضح برتری تھی۔اس شاندار کامیابی پر امریکن پھولے نہ سماتے تھے۔ مگر نیل آرمسٹرانگ نہ تو مغرور ہوا تھا اور نہ ہی اپنے آپے سے باہر ہوا تھا۔ اگر وہ شخص چاہتا تو اپنی شہرت کے بل پر آٹو گراف دے دے کر اور جگہ جگہ لیکچر دے کر ایک ایک دن میں لاکھوں امریکن ڈالرز اکٹھے کر سکتا تھا مگر اس نے کسر نفسی اور عاجزی سے کام لیا تھا اور یہ کہتے ہوئے گوشہء گمنامی اختیار کر لی کہ میں اکیلا اس مشن کی کامیابی کا سہر ا اپنے سر نہیں باندھوں گا۔

کیونکہ اس واحد مشن کی کامیابی کے پیچھے لاکھوں امریکن سٹیزنز کی برسوں کی محنت اورہزاروں سائنس دانوں کی عرق ریز ی اور طویل رت جگوں کا پھل ہے۔ حالانکہ نیل آرمسٹرانگ کے بعد اس سے بہت ہی چھوٹے اور کم اہم سپیس مشن پر جانے والے خلابازوں نے کروڑوں ڈالرز کمائے ہیں۔

آج امریکہ اگر ایک سپر پاور ہے تو نیل آرمسٹرانگ جیسے مخلص اور محنتی امریکنوں کی بدولت ہے ۔جو کہ اپنی قوم کو بہت کچھ دے کر بھی آپے سے باہر نہیں ہوتے ۔ہمارے پاکستانی لیڈروں کی طرح سے نہیں ہیںکہ ہر ہر کارنامے کی کامیابی کا سہرا اپنے سروں پر باندھتے پھریں ۔آپ کسی بھی روز کے کسی بھی اخبار کو اٹھا کر دیکھ لیں ۔کسی نہ کسی پاکستانی لیڈر کا ایسا گمراہ کن بیان چھپا ہوتا ہے کہ۔ پوری قوم نے بھوک پیاس اور غربت کو کاٹ کر جس گول یا مقصد کو اجتماعی طور پر حاصل کیا ہوتا ہے اس مشترکہ کامیابی کا سارا کریڈٹ وہ ایک فرد واحد یا وہ ایک سیاسی جماعت لینا چاہتی ہے ۔

اسے کہتے ہیں امانت میں خیانت ۔ مگر سابقہ امریکن صدر بش اس امانت میں خیانت کا مرتکب نہیں ہوا ۔حالانکہ اس واحد شخص نے اپنے آٹھ سال کے دور صدارت کے دور ان امریکہ کودنیا کی دوسری اقوام سے دوسوسال آگے پہنچا دیا ہے۔آپ خود ہی دیکھ لیں کہ اوبامہ کے حلف کے بعد وہ زیادہ نمایاں ہونے کی کوشش نہیں کر رہا ہے۔ ہم پاکستانی عوام اور کالم نگار بش کو ناکام صدر گردانتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اگر بش ناکام ہوتا تو اوبامہ اس پر تنقید کرتا اور اس کی ساری کی ساری پالیسیوں سے کنارہ کشی کرتا مگر اوبامہ تو بش کی ایک ایک پالیسی پر قدم بہ قدم یوں آگے بڑھ رہا ہے جیسے کہ بش ڈیموکریٹ تھا یا پھر اوبامہ خود ریپبلیکن ہے۔

افغانی اورپاکستانی علاقوں پربغیر پائلٹ کے ریموٹ کنٹرولڈ ڈرون طیاروں کے حملوں کا فیصلہ بش انتظامیہ نے ہی کیا تھا اور یہ فیصلہ نائین الیون سے قبل ہی ہو گیا تھا۔سن دوہزار صفر صفر میں ہی بش انتظامیہ نے ساٹھ کے قریب پریڈیٹر طیارے حاصل کر لیے تھے۔یاد رہے کہ کلنٹن دور میں سکڈ مزائیل داغے جانے سے کئی سال قبل ہی امریکہ نے ازبکستان سے ایک معاہدہ کیا تھا ۔جس کا واحد مقصد ا زبکستان سے ڈرون طیاروں کی پروازیں تھا ۔مگر بعد کے تجربات نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ ازبکستان کے سرد موسم میں ڈرون طیارے کامیاب پرواز نہیں کر سکتے کیونکہ سرد موسم کے باعث ڈرون کا سسٹم کامیابی سے کام نہیں کر سکتا تھا۔ یوں کئی ڈرون موسم کے ستم کی نذر ہو گئے تھے۔

متبادل کے طور پر پاکستانی حکومت کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے ملک میں ڈرون طیاروں کوپرواز کرنے کے لیے اڈے فراہم کرے۔ ابتدا میں چین کی حکومت نے اس کی مخالفت کی تھی مگر جب چین کو گوادر کا ٹھیکہ دے دیا گیا تھا اور چند دوسرے پراجیکٹ بھی ۔ تو چین نے ان اڈوں کے قیام کی مخالفت ترک کر دی تھی ۔ بہرحال امریکہ نائین الیون سے قبل ہی بلوچستان میں تین مقامات پر اپنے اڈے قائم کر چکا تھا جہاں سے اگست دوہزار ایک 2001ء میں پہلی کامیاب پرواز بھی کی گئی تھی جن چند محب وطن بلوچ سرداروں نے ان اڈوں کی مخالفت بھی تھی مگر ان کو کسی نہ کسی بہانے سے ٹھکانے لگا دیا گیا تھا۔

ہماری حکومتیں تو اتنی جھوٹی ہیں کہ وہ تو آج بھی یہی کہیں گی کہ ڈرون طیارے سمندر میں کھڑے ہوئے امریکن بحری بیڑے سے پرواز کرتے ہیں۔میرے علم کی حد تک ہمارے صوبے بلوچستان میں اب بھی تین مقامات ایسے ہیں جہاں سے ڈرون طیارے پرواز کرتے ہیں۔

ڈرون طیارے پاکستان اور افغانستان پر استعمال ہونے سے قبل انیس سو پچانوے کے لگ بھگ بوسنیا ،سربیا،عراق اور پھر یمن پر استعمال کئے گئے تھے۔جس وقت نائین الیون کا وقوعہ ہو رہا تھا اس وقت ڈرون طیاروں میں نصب کیمروں کی مدد سے امریکن اسامہ بن لادن اور اس کے قریبی ساتھیوں پر اپنی نظر رکھے ہوئے تھے۔ کیونکہ وہ اسامہ پر جھوٹا الزام عائد کرنے سے پہلے یہ پورا یقین کرلینا چاہتے تھے کہ وہ حملے کے وقت پر زندہ اور صحیح سلامت ہو۔

یاد رہے کہ اس وقت افغانستان میں سورج غروب ہو نے کا وقت قریب تھا اور اسامہ اپنے ساتھیوں سمیت صلوٰة مغرب کی تیاری کر رہا تھا۔ سی آئی اے کے ایک سینئیر آفیسر کے مطابق انہوں نے دوہزار چار میں ڈرون کے ایک حملے میں اسامہ بن لادن کو اس کے متعدد ساتھیوں سمیت مار ڈالا ہے ۔جبکہ اسامہ کے ساتھی یہ کہتے ہیں کہ اسامہ زندہ ہے۔

ڈرون صرف ایک طیارہ نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک مکمل اور مربوط نظام ہوتا ہے ۔جس میں ایک زمینی سٹیشن ہوتا ہے۔ جہاں سے سٹیلائٹ کے ذریعے سے زمینی عملے کے پچپن یا ساٹھ افراد اسے کنٹرول کرتے ہیں۔پاکستان ،افغانستان ،ایران اور عراق پر جو ڈرون پرواز کرتے ہیں ان کا کنٹرولنگ سٹیشن امریکہ کے ایک مشہور صحرا نوادا میں واقع ہے اور ان پروازوں کو سی آئی اے دو مزید ایجنسیوں کے ساتھ مل کر کنٹرول کرتی ہے۔

بالعموم چار یا زیادہ ڈرون طیارے بیک وقت پرواز اکھٹی کرتے ہیں۔ مگر ایک دوسرے سے خاصے فاصلے پر ہونے کے باعث زمین پر موجود لوگوں کوصرف ایک ہی نظر آتا ہے۔

آج کل پریڈیٹر (Predator)کی بجائے جو طیارے زیادہ مستعمل اور کامیاب ہیں ان کو ریپر (Reaper) کہتے ہیں اور ان کو پریڈیٹر پر یہ برتری حاصل ہے کہ یہ سرد موسم میں بھی کام کرسکتے ہیں اور ان پر کیمروں کے ساتھ ساتھ ہتھیار بھی نصب ہوسکتے ہیں۔ ان کا سائنسی یا ٹیکنیکل نام میڈیم ایلٹیٹیوڈ لانگ اینڈ یورینس یا میل (MALE) ہے ۔

Medium Altitude Long Endurance) ۔ بغیر پائلٹ کے طیاروں کے تجربات سی آئی اے نے اسی 80ء کی دہائی میں شروع کردیے تھے اور ان تجربات کی بنیاد وہی سپیس الیکٹرانکس ٹیکنالوجی تھی جس ٹیکنالوجی کو امریکہ نے اپنے تما م کے تمام سپیس مشن ز میں استعمال کیا تھااور جس ریموٹ ٹیکنالوجی کی مدد سے پہلے انسان نے چاند پر اپنا پہلا قدم رکھا تھا۔

مگر سی آئی اے کو اس سلسلے میں زیادہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی تھی۔ اسی دوران سی آئی اے کو یہ علم ہوا تھا کہ اسرائیل کی فضائیہ کے چیف ڈیزائنر ابراہام کرم کے ڈیزائن کردہ بغیر پائلٹ کے جہاز زیادہ کامیاب ہیں تو انہوں نے اسرائیلی حکومت سے سودا بازی شروع کر دی تھی پھر اسرائیل کی حکومت نے اواکس طیاروں کی ٹیکنالوجی کے عوض ابراہام کرم کو امریکہ جانے کی اجازت دے دی تھی ۔

موجودہ ریپر(ڈرون) اسی کے ڈیزائن کردہ ہیں اور ان کو ایک امریکن فرم جنرل اٹامکس ایروناٹیکل سسٹم انکارپوریٹڈ بناتی ہے جو کہ ایک یہودی فرم ہی ہے۔اس کا چارسلنڈر انجن روٹیکس نو سوچودہ ایف ہوتا ہے۔ جس کی قوت پندرہ ہارس پاور ہوتی ہے۔ اس کی لمبائی ستائیس فٹ ہوتی ہے اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ پروں کا پھیلاو جسے ہم پاکستانی چوڑائی کہتے ہیں لمبا ئی سے زیادہ یعنی کہ تقریباً دوگنی ہوتی ہے۔

اگر یہ زمین پر کھڑا ہوتو ایک جوان مرد کے قد کے برابر آتا ہے اور اس وقت اس کا وزن ایک ہزار ایک سو گیارہ پونڈ ہوتا ہے مگر اڑان کے دوران اس کا وزن دوہزار دوسو باون پونڈ ہوتا ہے ۔ یہ عموماً پچیس ہزار فیٹ سے لے کر تیس ہزار فیٹ کی بلندی پر اسی اور ایک سو تیس میل فی گھنٹہ کی رفتار پر پرواز کر سکتا ہے۔ اس پر سے داغا جانے والا میزائل چالیس اور چوالیس میل دور موجود ہدف کو ہٹ کر سکتا ہے۔ اس میں زیادہ سے زیادہ چھ سو چھیاسٹھ پونڈ فیول ڈالا جا سکتا ہے جس کی مدد سے یہ چار سو چوالیس میل تک طے کر سکتا ہے۔

اس وقت تک امریکن فضائیہ کے پاس دوسو کے قریب ڈرون موجود ہیں۔ جلد ہی ان کی تعداد دوگنی ہو جائے گی۔ تب امریکہ اپنی کاروائیوں کا رقبہ بھی بڑ ھا دے گا اور حملوں کا تواتر بھی۔



بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل

No comments:

Post a Comment