تحریر: ڈاکٹر ساجد خاکوانی
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوبیٹوں، حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت اسحق علیہ السلام کو منصب نبوت سے سرفراز کیا گیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پہلے بیٹے حضرت اسمئیل علیہ السلام سے عرب اقوام نے جنم لیا اور دوسرے بیٹے حضرت اسحق علیہ السلام کے فرزند ارجمند جو اﷲ تعالی کے بڑے ہی برگزیدہ نبی ہوئے اور قرآن مجیدمیں انکا متعددبار تذکرہ کیا، انکا نام حضرت یعقوب علیہ السلام تھا۔
انہیں اﷲ تعالی نے ’’اسرائیل‘‘کا لقب عطا کیا جوعبرانی زبان کا لفظ ہے اور اسکا مطلب’’اﷲ تعالی کا بندہ‘‘ہے۔عربی میں ’’بن‘‘بیٹے کو کہتے ہیں اور ’’بنی‘‘ اسکی جمع ہے۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے جن سے انکی نسل چلی ان بیٹوں کو اور انکی نسل کو قرآن نے ’’بنی اسرائیل‘‘یعنی اولاد یعقوب علیہ السلام سے یاد کیا ہے۔
’’یہودہ‘‘نامی لڑکاحضرت یعقوب علیہ السلام کا چوتھا بیٹا تھا جس کے ہاں اولاد نرینہ بہت تھی۔ بنی اسرائیل کا ہر دوسرا تیسرا نوجوان ’’یہودہ‘‘کا بیٹا یا پوتا ہوتا تھاجس وجہ سے اس قبیلے کو ’’یہودی‘‘کہا جاجانے لگاجو آج تک مروج ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ اقتدار میں یہ قبیلہ اپنے آبائی علاقے سے مصر منتقل ہوا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بعد چار سو تیس سالوں تک ان پر تاریخ کی بدترین غلامی مسلط رہی اور مصر کے مقامی لوگوں نے انہیں اپنی غلامی کی زنجیڑوں میں جکڑے رکھا۔
انکا ہر حکمران فرعون کہلاتا تھا۔فرعونوں اور فرعونوں نے ان بنی اسرائیل پر بے پناہ تشدد کیا یہاں تک کہ حضرت موسٰی علیہ السلام کی قیادت میں ان لوگوں نے مصر سے ہجرت کی اور صحرائے سینا میں آن وارد ہوئے۔
ﷲ تعالی کے نبی حضرت موسٰی علیہ السلام نے انہیں قتال کرنے کا حکم دیا، قتال سے انکار پر چالیس سال تک صحرا نوردی ان کا مقدر بنی رہی یہاں تک کہ وہ ساری نسل ختم ہو گئی جس نے قتال سے انکار کیا تھا۔نئی نسل نے طالوت کی قیادت میں قتال کیا اور انہیں تمدنی زندگی نصیب ہوئی۔
طالوت کی فوج میں حضرت داؤدعلیہ السلام بھی شامل تھے۔ طالوت کی نرینہ اولاد نہ تھی اس نے وعدہ کیا جو اسکے دشمن ’’جالوت‘‘ کو قتل کرے گاوہ اپنی بیٹی اس سے بیاہ دے گا۔ چنانچہ یہ سعادت حضرت داؤد علیہ السلام کے حصے میں آئی۔ طالوت کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام حکمران بنے اور اپنے زمانے کے بڑے ہی شاندار حکمران بنے۔
لوہے کی ٹیکنالوجی کاآغاز آپ کے زمانے میں ہی ہوا۔ آپ کا اقتدار، فوج، خزانہ اور رعب داب کا قرآن نے بھی ذکر کیاہے۔ کم و بیش تین براعظموں پر آپکی حکومت تھی اورآپ پرآسمانی کتاب’’زبور‘‘ بھی نازل ہوئی۔
آپ علیہ السلام کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام بھی بنی اسرائیل میں سے تھے جنہیں اﷲ تعالی نے دیگر مخلوقات پر بھی اقتدار عطا کیا تھا۔حضرت سلیمان علیہ السلام کا بیٹا ’’رجعام‘‘جب تخت نشین ہوا تو سلطنت اسکے قابومیں نہ آسکی اور ریاست دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔
اس زمانے میں ایک حصے کا نام اسرائیل اور دوسرے کا نام یہودیہ تھا۔ ان کے درمیان اگرچہ لڑائیاں بھی رہیں لیکن جلد ہی صلح صفائی ہو گئی۔
یہودی آج تک یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ مشرق وسطی پر انکا حق ہے،اور اسکی وجہ انکے نزدیک کچھ یوں ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ﷲ تعالی نے مشرق وسطی کا علاقہ دیاتھا۔ انکے ایک بیٹے سے یہودی ہیں اور دوسرے سے عرب اقوام۔ یہود ی یہ کہتے ہیں کہ اس بنیاد پر آدھے مشرق وسطی پرعربوں کا حق ہے اور بقیہ آدھے پر یہود کا۔ لیکن یہ موقف اس لیے غلط ہے کہ اﷲ تعالی نے خلافت ارضی کسی نسلی تفوق کی بنیاد پر عطا نہیں کی تھی۔
یہ خالصتاً تقوٰی پر بنیاد کرتی ہے،اگر یہود اتنے ہی عزیز ہوتے تو ختم نبوت آل اسماعیل میں کیوں واقع ہوتی اور قرآن مجید جیسی شاندار کتاب مکہ اور مدینہ کی بجائے فلسطین و یروشلم میں کیوں نہ نازل ہوتی؟ یہ ایک ابدی حقیقت ہے کہ اﷲ تعالی کو نسلوں اور علاقوں سے زیادہ متقی و پرہیزگارلوگوں سے پیار ہے اور یہی لوگ ہی اﷲ تعالی کے برگزیدہ ہیں خواہ کسی نسل۔ رنگ اورعلاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہود آج تک اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ محسن انسانیت ﷺ ﷲ تعالی کے سچے نبی ہیں،قرآن نے ان کی اس بات یوں تبصرہ کیا ہے کہ ’’اے نبی یہ (اہل کتاب) آپ کو یوں پہچانتے ہیں جیسے اپنے سگے بیٹوں کو‘‘، لیکن محض نسلی تفرق کی بنیاد پر جانتے ہوئے بھی ماننے سے گریزاں ہیں۔
یہودیوں کے تین قبائل محسن انسانیت کی تلاش میں ہی یثرب کے مقام پر آکر آباد ہوئے تھے کیونکہ گزشتہ کتب میں یہی لکھا تھا کہ یثرب کے مقام پر محسن انسانیت اپنی ریاست بنائیں گے۔ لیکن جب وہ نبی آن پہنچے تو یہود محض اس وجہ سے ان پر ایمان نہ لائے کہ ﷲ تعالی نے ان کی بعثت بنی اسرائیل کی بجائے بنی اسماعیل میں کیوںکردی،
حالانکہ یہ خالصتاً اللہ سبحان و تعالیٰ کا فیصلہ تھا۔
اگرچہ محسن انسانیت ﷺ نے یہود کو حجاز میں رہنے کی اجازت دے دی تھی لیکن اس بدعہد قوم کی مسلسل ریشہ دوانیوں کے باعث اﷲ تعالی کے نبی ﷺ نے مدینہ سے نکال باہر کیا لیکن وہاں بھی ان کی سازشیں کم نہ ہوئیں تو آپ وصیت فرما گئے کہ ان یہود کو جزیرۃ العرب سے نکال دیا جائے۔
چنانچہ حضرت عمرؓ نے انہیں وہاں سے نکال دیا تھا۔اس سے قبل بھی کم و بیش ایک صدی قبل مسیح سے یہ لوگ اپنے وطن سے دور دربدر کی ٹھوکریں کھاتے چلے آرہے ہیں اوریوں گزشتہ صدی کے نصف اول تک یہ لوگ دوہزارسال سے غریب الدیار تھے۔
گزشتہ صدی ہی میں یورپ کے حکمرانوں نے انکا بے دریغ قتل عام کیاجس کے باعث انکی نسل ختم ہوتی نظر آرہی تھی لیکن اﷲ تعالی نے عبرت کے اس نشان کوشاید قیامت تک باقی رکھنا ہے،چنانچہ نہ جانے کن کن مصالح کے تحت قدرت نے انہیں عارضی طور پر اسرائیل کی پناہ گاہ عطا کی تاکہ انکی نسل ختم ہونے سے بچ جائے۔
اسرائیل کا قیام صریحاً ایک ناجائز اور زیادتی پرمبنی عالمی پردھان منتریوں کا مکروہ فعل ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی ہمارے مکان کے ایک حصے پر زبردستی قبضہ جمالے اور پھر کہے کہ مجھے اپنا پڑوسی مان لو اور میرے حقوق ادا کرو۔
گزشتہ صدی کے اوائل میں جب سلطنت عثمانیہ اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی تویہودیوں نے سلطان کواسکا سارا قرضہ اتارنے اور اس سے مزید تر رقم دینے کی پیشکش کی صرف اس شرط پر کہ انہیں فلسطین میں رہنے کی جگہ دے دی جائے۔
سلطان کا عثمانی خون جوش مار گیا،اس نے اپنا زوال قبول کر لیا لیکن یہ ذلت آمیز رقم لینے سے انکار کر دیا۔یورپ نے ہمیشہ کی طرح بڑی آسانی سے مسلمانوں کے اندر سے ہی ایسے غدارتلاش کر لیے جو ان کی سازشوں کوعملی جامہ پہنانے کے لیے تیار تھے اوردوسری جنگ عظیم کے فوراً بعدفلسطین کاایک علاقہ یہودیوں کو دے دیا گیا۔
اسرائیل کا قیام نہ صرف امت مسلمہ کے لیے بلکہ عالمی امن کے لیے بھی ایک سلگتا ہوا مسئلہ اور رستہ ہوا زخم ہے۔ اسرائیل نے مشرق وسطی سمیت پوری دنیا میں اپنے جاسوسی اور دہشت گردی کے مراکزقائم کررکھے ہیں۔
پوری دنیا کی معیشیت اس سختی کے ساتھ یہودیوں کے ہاتھ میں ہے کہ کوئی معجزہ یا کوئی خونریز انقلاب ہی اس عالمی معیشیت کو پنجہ یہود سے آزاد کرا سکتاہے۔
کم و بیش پوری دنیا میں پیدا ہونے والا ہربچہ انکا مقروض اورپوری دنیا کے باسی کسی نہ کسی طرح اس سود خوربرادری کے ہاتھوں مقروض ہیں۔
عالمی میڈیا بھی کسی طرح بھی ان کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ نہیں اور ایک سوچے سمجھے طریقے سے فرضی خبریں اورجھوٹی افواہیں اس سرعت کے ساتھ پوری دنیا میں چند گھنٹوں کے اندر اندرپھیلا دی جاتی ہیں کہ حقیقت ان میں دور دور تک نظر ہی نہیں آتی۔
فلسطینیوں کو اﷲ تعالی ہمت دے کہ وہ آج تک ان کا مقابلہ کر رہے ہیں،انکی چوتھی نسل ہے کہ یہود کے سامنے آہنی دیوار بن کر کھڑے ہیں ،آئے روز یہ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ فلسطینی نوجوان پتھروں سے اسرائیلی ٹینکوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔
اسرائیلی طیارے جب چاہیں فلسطینیوں کی بستیوں پر اندھا دھند بمباری کرتے ہیں ،اسرائیلی فوج آئے دن فلسطینیوں پر سیدھی گولیاں چلاتی ہے لیکن گزشتہ پون صدی کی قربانیاں فلسطینیوں کی ہمت واستقلال اور استقامت میں کوئی لرزش پیدا نہیں کر سکی۔اگرچہ فلسطینیوں کے
ایک گروہ نے مغرب کے رنگ میں رنگ کریہودیوں سے مذاکرات کے ذریعے امن کی بھیک مانگنا شروع کر رکھی ہے،لیکن اب انہیں احساس ہوتاچلا جا رہا ہے کہ یہود کو برابری کی سطح پر لانا کتنانقصان دہ ہے۔
کیونکہ ﷲ تعالی نے واضع طور پر فیصلہ دے دیا ہے کہ یہود و نصارٰی تمہارے دوست نہیں ہو سکتے اور ﷲ تعالی کے رسول نے انکے خلاف قتال کیا ہے اور قرآن نے حکم دیا کہ ان سے لڑو یہاں تک کہ یہ چھوٹے ہو کر رہیں۔
فلسطینیوں کاپوری انسانیت پر عالم طور پر احسان ہے اور امت مسلمہ پر خاص طور احسان ہے کہ وہ عالمی امن کے دشمنوں کے ساتھ ایک طویل اور تاریخ ساز جنگ لڑ رہے ہیں۔پوری دنیا بھی ان فلسطینیوں کے ہاتھ مظبوط کر سکتی ہے اپنی جان اور اپنے مال کے ذریعے بھی لیکن یہ شاید مشکل ہو تب یہود کی مصنوعات کے استعمال کو ختم کر کے یہود کا قلع قمع آسانی سے کیاجاسکتا ہے۔
ﷲ کرے کہ وہ دن آئے کہ امت مسلمہ کے حکمران امت کے دوست اور دشمن کی پہچان کریں اور اپنے اقتدارکی بجائے امت کے وسیع تر مفاد میں سخت سے سخت فیصلے کر جائیں اگرچہ انہیں کیسی ہی قربانی دینی پڑے تاکہ عالم انسانیت ان استحصالی کرداروں سے نجات پا سکے۔
بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل