Tuesday, November 24, 2009

تاریخ یہود اور مسئلہ فلسطین





تحریر: ڈاکٹر ساجد خاکوانی



بسم اﷲ الرحمن الرحیم

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوبیٹوں، حضرت اسم
اعیل علیہ السلام اور حضرت اسحق علیہ السلام کو منصب نبوت سے سرفراز کیا گیا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پہلے بیٹے حضرت اسمئیل علیہ السلام سے عرب اقوام نے جنم لیا اور دوسرے بیٹے حضرت اسحق علیہ السلام کے فرزند ارجمند جو اﷲ تعالی کے بڑے ہی برگزیدہ نبی ہوئے اور قرآن مجیدمیں انکا متعددبار تذکرہ کیا، انکا نام حضرت یعقوب علیہ السلام تھا۔

انہیں اﷲ تعالی نے ’’اسرائیل‘‘کا لقب عطا کیا جوعبرانی زبان کا لفظ ہے اور اسکا مطلب’’اﷲ تعالی کا بندہ‘‘ہے۔عربی میں ’’بن‘‘بیٹے کو کہتے ہیں اور ’’بنی‘‘ اسکی جمع ہے۔

حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے جن سے انکی نسل چلی ان بیٹوں کو اور انکی نسل کو قرآن نے ’’بنی اسرائیل‘‘یعنی اولاد یعقوب علیہ السلام سے یاد کیا ہے۔

’’یہودہ‘‘نامی لڑکاحضرت یعقوب علیہ السلام کا چوتھا بیٹا تھا جس کے ہاں اولاد نرینہ بہت تھی۔ بنی اسرائیل کا ہر دوسرا تیسرا نوجوان ’’یہودہ‘‘کا بیٹا یا پوتا ہوتا تھاجس وجہ سے اس قبیلے کو ’’یہودی‘‘کہا جاجانے لگاجو آج تک مروج ہے۔

حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ اقتدار میں یہ قبیلہ اپنے آبائی علاقے سے مصر منتقل ہوا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بعد چار سو تیس سالوں تک ان پر تاریخ کی بدترین غلامی مسلط رہی اور مصر کے مقامی لوگوں نے انہیں اپنی غلامی کی زنجیڑوں میں جکڑے رکھا۔

انکا ہر حکمران فرعون کہلاتا تھا۔فرعونوں اور فرعونوں نے ان بنی اسرائیل پر بے پناہ تشدد کیا یہاں تک کہ حضرت موسٰی علیہ السلام کی قیادت میں ان لوگوں نے مصر سے ہجرت کی اور صحرائے سینا میں آن وارد ہوئے۔

ﷲ تعالی کے نبی حضرت موسٰی علیہ السلام نے انہیں قتال کرنے کا حکم دیا، قتال سے انکار پر چالیس سال تک صحرا نوردی ان کا مقدر بنی رہی یہاں تک کہ وہ ساری نسل ختم ہو گئی جس نے قتال سے انکار کیا تھا۔نئی نسل نے طالوت کی قیادت میں قتال کیا اور انہیں تمدنی زندگی نصیب ہوئی۔

طالوت کی فوج میں حضرت داؤدعلیہ السلام بھی شامل تھے۔ طالوت کی نرینہ اولاد نہ تھی اس نے وعدہ کیا جو اسکے دشمن ’’جالوت‘‘ کو قتل کرے گاوہ اپنی بیٹی اس سے بیاہ دے گا۔ چنانچہ یہ سعادت حضرت داؤد علیہ السلام کے حصے میں آئی۔ طالوت کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام حکمران بنے اور اپنے زمانے کے بڑے ہی شاندار حکمران بنے۔

لوہے کی ٹیکنالوجی کاآغاز آپ کے زمانے میں ہی ہوا۔ آپ کا اقتدار، فوج، خزانہ اور رعب داب کا قرآن نے بھی ذکر کیاہے۔ کم و بیش تین براعظموں پر آپکی حکومت تھی اورآپ پرآسمانی کتاب’’زبور‘‘ بھی نازل ہوئی۔

آپ علیہ السلام کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام بھی بنی اسرائیل میں سے تھے جنہیں اﷲ تعالی نے دیگر مخلوقات پر بھی اقتدار عطا کیا تھا۔حضرت سلیمان علیہ السلام کا بیٹا ’’رجعام‘‘جب تخت نشین ہوا تو سلطنت اسکے قابومیں نہ آسکی اور ریاست دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔

اس زمانے میں ایک حصے کا نام اسرائیل اور دوسرے کا نام یہودیہ تھا۔ ان کے درمیان اگرچہ لڑائیاں بھی رہیں لیکن جلد ہی صلح صفائی ہو گئی۔

یہودی آج تک یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ مشرق وسطی پر انکا حق ہے،اور اسکی وجہ انکے نزدیک کچھ یوں ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ﷲ تعالی نے مشرق وسطی کا علاقہ دیاتھا۔ انکے ایک بیٹے سے یہودی ہیں اور دوسرے سے عرب اقوام۔ یہود ی یہ کہتے ہیں کہ اس بنیاد پر آدھے مشرق وسطی پرعربوں کا حق ہے اور بقیہ آدھے پر یہود کا۔ لیکن یہ موقف اس لیے غلط ہے کہ اﷲ تعالی نے خلافت ارضی کسی نسلی تفوق کی بنیاد پر عطا نہیں کی تھی۔

یہ خالصتاً تقوٰی پر بنیاد کرتی ہے،اگر یہود اتنے ہی عزیز ہوتے تو ختم نبوت آل اسماعیل میں کیوں واقع ہوتی اور قرآن مجید جیسی شاندار کتاب مکہ اور مدینہ کی بجائے فلسطین و یروشلم میں کیوں نہ نازل ہوتی؟ یہ ایک ابدی حقیقت ہے کہ اﷲ تعالی کو نسلوں اور علاقوں سے زیادہ متقی و پرہیزگارلوگوں سے پیار ہے اور یہی لوگ ہی اﷲ تعالی کے برگزیدہ ہیں خواہ کسی نسل۔ رنگ اورعلاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔

یہود آج تک اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ محسن انسانیت ﷺ ﷲ تعالی کے سچے نبی ہیں،قرآن نے ان کی اس بات یوں تبصرہ کیا ہے کہ ’’اے نبی یہ (اہل کتاب) آپ کو یوں پہچانتے ہیں جیسے اپنے سگے بیٹوں کو‘‘، لیکن محض نسلی تفرق کی بنیاد پر جانتے ہوئے بھی ماننے سے گریزاں ہیں۔

یہودیوں کے تین قبائل محسن انسانیت کی تلاش میں ہی یثرب کے مقام پر آکر آباد ہوئے تھے کیونکہ گزشتہ کتب میں یہی لکھا تھا کہ یثرب کے مقام پر محسن انسانیت اپنی ریاست بنائیں گے۔ لیکن جب وہ نبی آن پہنچے تو یہود محض اس وجہ سے ان پر ایمان نہ لائے کہ ﷲ تعالی نے ان کی بعثت بنی اسرائیل کی بجائے بنی اسماعیل میں کیوںکردی،

حالانکہ یہ خالصتاً اللہ سبحان و تعالیٰ کا فیصلہ تھا۔

اگرچہ محسن انسانیت ﷺ نے یہود کو حجاز میں رہنے کی اجازت دے دی تھی لیکن اس بدعہد قوم کی مسلسل ریشہ دوانیوں کے باعث اﷲ تعالی کے نبی ﷺ نے مدینہ سے نکال باہر کیا لیکن وہاں بھی ان کی سازشیں کم نہ ہوئیں تو آپ وصیت فرما گئے کہ ان یہود کو جزیرۃ العرب سے نکال دیا جائے۔

چنانچہ حضرت عمرؓ نے انہیں وہاں سے نکال دیا تھا۔اس سے قبل بھی کم و بیش ایک صدی قبل مسیح سے یہ لوگ اپنے وطن سے دور دربدر کی ٹھوکریں کھاتے چلے آرہے ہیں اوریوں گزشتہ صدی کے نصف اول تک یہ لوگ دوہزارسال سے غریب الدیار تھے۔

گزشتہ صدی ہی میں یورپ کے حکمرانوں نے انکا بے دریغ قتل عام کیاجس کے باعث انکی نسل ختم ہوتی نظر آرہی تھی لیکن اﷲ تعالی نے عبرت کے اس نشان کوشاید قیامت تک باقی رکھنا ہے،چنانچہ نہ جانے کن کن مصالح کے تحت قدرت نے انہیں عارضی طور پر اسرائیل کی پناہ گاہ عطا کی تاکہ انکی نسل ختم ہونے سے بچ جائے۔

اسرائیل کا قیام صریحاً ایک ناجائز اور زیادتی پرمبنی عالمی پردھان منتریوں کا مکروہ فعل ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی ہمارے مکان کے ایک حصے پر زبردستی قبضہ جمالے اور پھر کہے کہ مجھے اپنا پڑوسی مان لو اور میرے حقوق ادا کرو۔

گزشتہ صدی کے اوائل میں جب سلطنت عثمانیہ اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی تویہودیوں نے سلطان کواسکا سارا قرضہ اتارنے اور اس سے مزید تر رقم دینے کی پیشکش کی صرف اس شرط پر کہ انہیں فلسطین میں رہنے کی جگہ دے دی جائے۔

سلطان کا عثمانی خون جوش مار گیا،اس نے اپنا زوال قبول کر لیا لیکن یہ ذلت آمیز رقم لینے سے انکار کر دیا۔یورپ نے ہمیشہ کی طرح بڑی آسانی سے مسلمانوں کے اندر سے ہی ایسے غدارتلاش کر لیے جو ان کی سازشوں کوعملی جامہ پہنانے کے لیے تیار تھے اوردوسری جنگ عظیم کے فوراً بعدفلسطین کاایک علاقہ یہودیوں کو دے دیا گیا۔

اسرائیل کا قیام نہ صرف امت مسلمہ کے لیے بلکہ عالمی امن کے لیے بھی ایک سلگتا ہوا مسئلہ اور رستہ ہوا زخم ہے۔ اسرائیل نے مشرق وسطی سمیت پوری دنیا میں اپنے جاسوسی اور دہشت گردی کے مراکزقائم کررکھے ہیں۔

پوری دنیا کی معیشیت اس سختی کے ساتھ یہودیوں کے ہاتھ میں ہے کہ کوئی معجزہ یا کوئی خونریز انقلاب ہی اس عالمی معیشیت کو پنجہ یہود سے آزاد کرا سکتاہے۔

کم و بیش پوری دنیا میں پیدا ہونے والا ہربچہ انکا مقروض اورپوری دنیا کے باسی کسی نہ کسی طرح اس سود خوربرادری کے ہاتھوں مقروض ہیں۔

عالمی میڈیا بھی کسی طرح بھی ان کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ نہیں اور ایک سوچے سمجھے طریقے سے فرضی خبریں اورجھوٹی افواہیں اس سرعت کے ساتھ پوری دنیا میں چند گھنٹوں کے اندر اندرپھیلا دی جاتی ہیں کہ حقیقت ان میں دور دور تک نظر ہی نہیں آتی۔

فلسطینیوں کو اﷲ تعالی ہمت دے کہ وہ آج تک ان کا مقابلہ کر رہے ہیں،انکی چوتھی نسل ہے کہ یہود کے سامنے آہنی دیوار بن کر کھڑے ہیں ،آئے روز یہ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ فلسطینی نوجوان پتھروں سے اسرائیلی ٹینکوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔

اسرائیلی طیارے جب چاہیں فلسطینیوں کی بستیوں پر اندھا دھند بمباری کرتے ہیں ،اسرائیلی فوج آئے دن فلسطینیوں پر سیدھی گولیاں چلاتی ہے لیکن گزشتہ پون صدی کی قربانیاں فلسطینیوں کی ہمت واستقلال اور استقامت میں کوئی لرزش پیدا نہیں کر سکی۔اگرچہ فلسطینیوں کے

ایک گروہ نے مغرب کے رنگ میں رنگ کریہودیوں سے مذاکرات کے ذریعے امن کی بھیک مانگنا شروع کر رکھی ہے،لیکن اب انہیں احساس ہوتاچلا جا رہا ہے کہ یہود کو برابری کی سطح پر لانا کتنانقصان دہ ہے۔

کیونکہ ﷲ تعالی نے واضع طور پر فیصلہ دے دیا ہے کہ یہود و نصارٰی تمہارے دوست نہیں ہو سکتے اور ﷲ تعالی کے رسول نے انکے خلاف قتال کیا ہے اور قرآن نے حکم دیا کہ ان سے لڑو یہاں تک کہ یہ چھوٹے ہو کر رہیں۔

فلسطینیوں کاپوری انسانیت پر عالم طور پر احسان ہے اور امت مسلمہ پر خاص طور احسان ہے کہ وہ عالمی امن کے دشمنوں کے ساتھ ایک طویل اور تاریخ ساز جنگ لڑ رہے ہیں۔پوری دنیا بھی ان فلسطینیوں کے ہاتھ مظبوط کر سکتی ہے اپنی جان اور اپنے مال کے ذریعے بھی لیکن یہ شاید مشکل ہو تب یہود کی مصنوعات کے استعمال کو ختم کر کے یہود کا قلع قمع آسانی سے کیاجاسکتا ہے۔

ﷲ کرے کہ وہ دن آئے کہ امت مسلمہ کے حکمران امت کے دوست اور دشمن کی پہچان کریں اور اپنے اقتدارکی بجائے امت کے وسیع تر مفاد میں سخت سے سخت فیصلے کر جائیں اگرچہ انہیں کیسی ہی قربانی دینی پڑے تاکہ عالم انسانیت ان استحصالی کرداروں سے نجات پا سکے۔



بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل

Thursday, November 12, 2009

سیمی پر پابندی کے آٹھ سال




تحریر: ابو ظفرعادل اعظمی


نئی دہلی کے جامعہ نگر علاقے میں واقع سیمی کامرکز ی دفتر گندگی سے بھرا پڑا ہے۔ ہر طرف گندے چیتھڑے اورٹوٹے شیشے بکھرے پڑے ہیں۔ پوری عمارت سے آنے والی سڑی ہوئی بدبو کبھی کبھی برداشت سے باہر ہوجاتی ہے۔ اہل محلہ کو کوڑا پھینکنے کے لے شاید اب ایسی جگہ مشکل ہی سے میسر آئے۔

باہری کمرے کی چھت کے کونے سے قطرے قطرے ٹپکنے والا پانی کبھی کبھی میرا راستہ روک لیتا ہے۔ افکار کے آفس آنے کے لئے روز آنہ میںجب ادھر سے گزرتا ہوں تو اکثر مجھے پانی ٹپکتے ہی ملتا ہے۔ ہفتوں پہلے بارش بند ہونے کے بعد بھی نہ جانے یہ پانی کی بوندیں کہاںسے آتی ہیں؟پانی کا اس طرح مسلسل ٹپکنا مجھے سیمی کا بابری مسجد والا وہ پوسٹر یاد دلاتا ہے جوابھی چند دنوں پہلے سیمی کے تعلق سے مواد ڈ
ھونڈنے کے وقت مجھے انٹرنیٹ پرنظر آیاتھا ۔

یہ پوسٹر میڈیا میںبھی کافی دنوں موضوع بحث بنا رہا ۔جس میں بابری مسجد کی علامتی آنکھ سے آنسو ٹپکتے دکھایا گیا ہے۔ نہ جانے مجھے کیوں پانی کے یہ قطرے کچھ ایسے ہی محسوس ہوتے ہیں۔ لیکن بابری مسجد کی شہادت کے بعد اس کے لئے رونے والوں کے آنسو کا اب نوٹس کون لے۔

سیمی کے تعلق سے کچھ لکھتے وقت میرا دل موہوم خطرات کی آماجگاہ بنا رہا۔کافی دن اسی ادھیڑ بن میں گزر گئے ۔کیوں کہ میں جانتاہوں اور مجھے اس کا استحضار بھی ہے کہ میں بھی ایک مسلمان ہوں اور اس وقت کسی بھی مسلمان پر کسی ممنوعہ تنظیم کے نام کی مہر لگانا بہت آسان ہے۔ پہلے سیمی کا ممبر بننا اتنا آسان نہ تھا لیکن اس وقت یہ عمل انتہائی آسان اور کم وقت طلب ہے۔

ستمبر2001سے پہلے سیمی اس کے لئے کافی سخت شرائط رکھتی تھی۔ تنظیمی دستور میں بہت سارے بنیادی سوالات ہیں۔ مطالعے کی ایک لمبی فہرست ہے۔ چال چلن اور اخلاقیات کی مثبت رپورٹ بھی جس کے لئے ضروری ہے۔ سرگرمی اور وقت کی پابندی کا خاص تذکرہ ہے لیکن اب یہ سارے شرائط ختم ہوگئے۔ سیمی کارکن بنانے کی ذمہ داری اب حکومت اور پولیس نے لی ہے۔ جو ان کی نظر میں چڑھ گیا وہ چاہے سیمی کا پورا نام نہ جانتا ہو وہ سیمی کا ممبر ضرور کہلائے گا۔

سیمی اپنے ارکان کے ناموں کا اعلان اپنے ترجمان میں کرتی تھی لیکن اب یہ اعلان حکومت کے ذریعہ عدالتوں میں فائل کئی جانے والی چارج شیٹ اور حلف ناموں میں ہوتا ہے۔ معاملہ اب یہاں تک پہنچا ہے کہ جن بچوں کی عمر ستمبر 2001میں 10 ,9 سال رہی ہوگی اب ان کو بھی حکومت نے سیمی کا ممبر بنالیا ہے۔ اگر یہ سلسلہ دراز ہوا تو 2001کے بعد پیدا ہونے والے بچے بھی آئندہ چند سالوں بعد آسانی سے اس ’رکنیت‘ کے اہل قرار پائیں گے۔

کسی کے خون کو حلال کرنے کا اس سے بہتر طریقہ شاید کوئی نہیں ہے۔ لیکن پورے ملک میں سیمی کے ساتھ ہوئی حق تلفی اور پھر قطرہ قطرہ ٹپکنے والے ’ آنسو‘ میرا سکون چھین لیتے ہیں۔ اور اس کشمکش میں حق کی پاسداری میری پیشہ وارانہ ذہنیت پر حاوی ہوتی نظر آتی ہے۔

سیمی کے مرکزی دفتر سے گزرتے ہوئے بارہا مجھے یہ خیال آیا کہ کوئی ایسی تنظیم جس کا ہندستان کے دل میں مرکزی دفتر ہو ،ریاستی دارالحکومتوں اور مختلف شہروں میں اس کے ذیلی دفاتر ہوں۔ اس کے عہدیداران پریس کانفرنس کرتے ہوں ، بیانات دیتے ہوں، اس کا مختلف زبانوں میں سرکار سے منظور ی شدہ ترجمان نکلتا ہو، جس میں وہ اپنے نو منتخب عہدیداران اور ارکان کی فہرست شائع کرتی ہو، اپنی سرگرمیوں کی کوریج دیتی ہو کیا اسلحہ بھی اٹھاسکتی ہے ؟اور اسی ملک کے خلاف جس کی منظوری سے وہ یہ سب کام کررہی ہے ۔

مجھے اس کا جواب ہمیشہ نفی ہی میں ملا۔ اس کالم کو لکھنے کے لئے میں نے بارہا غور کیا، مختلف سیاسی و سماجی شخصیتوں سے گفتگو کی، قانونی امور کے ماہرین سے ملاقات کی ، چارج شیٹوں کی مدد سے حکومتی موقف کا مطالعہ کیا ،ڈر ے اور سہمے ہوئے بعض سیمی کے ارکان سے بھی گفت وشنید کی ، میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ آخر کوئی تنظیم جو صرف طلبہ تک محدود ہو اور تقریبا 25سال تک اس کے خلاف دہشت گردی کا ایک بھی معاملہ درج نہ ہوا ہو ، اس کی ساری سرگرمیوں، تقریروں، تحرویروں اور جلسے جلوسوں پر منحصر ہو، پابندی کے بعد ہتھیار کیسے اٹھا سکتی ہے۔

یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ جو تنظیم مسلسل 8سال سے عدالت کی چوکھٹ پر انصاف کی آس لگائے بیٹھی ہو۔ اس کے وکیل پوری تیاری سے ٹربیونل کے ساتھ پورے ملک گھومتے پھریں، ذیلی عدالتوں سے لے کر ہائی کورٹ، سپریم کورٹ میں پیش ہوں اور وہ پھر دھماکہ بھی کرے۔ عدالت میں تاریخ سے ایک دن قبل یا پھر اسی دن۔

پابندی سے قبل دو تین سال سیمی بہت زیادہ موضوع بحث رہی، لیکن اس کی پورے ملک کی ایک مہینے کی تمام تر سرگرمیاں اس کے ترجمان اسلامک موومنٹ میں دو یا تین صفحے سے زیادہ جگہ نہیں گھیر پاتی تھیں۔

بعض ایسے شمارے بھی نظروں سے گزرے ہیں جس میں کسی پروگرام کے ایک دو فوٹو دے کر صفحہ میک اپ کیا گیا ہے لیکن پابندی کے بعد ہی سے اسی تنظیم کی سرگرمیاں آخر اتنی زیادہ کیسے بڑھ سکتی ہیں کہ اس کے لئے حکومت کو چار، پانچ سو صفحات پر مشتمل عدالت میں حلف نامہ پیش کرنا پڑے ۔ سیمی کے تعلق سے ناانصافیوں کا تسلسل پولیس انتظامیہ ، حکومت، عدالت اور میڈیا تک ہی محیط نہیں ہے بلکہ اس کی ضرب ان لوگوں پربھی پڑتی ہے جوخودکو سیکولر اور تعصب سے پاک بتاتے ہوئے نہیں تھکتے ہیں۔

ستائیس ستمبر 2001ءکو فجر کی نماز سے پہلے پہلے پورے اتر دیش اور ملک کے دیگر کچھ شہروں میں سیمی کے درجنوں کارکن گرفتار کئے جاچکے تھے اور متعدد دفاتر کو سیل کردیا گیا تھا ۔ گرفتار شدگان میں زیادہ تر لوگ ایسے تھے جن کے بارے میں ان کے اقرباء کا کہنا ہے کہ ان کا سیمی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ کچھ ایسے لوگ بھی اس آفت ناگہانی کا شکار ہوئے جن کی عمریں سیمی سے ریٹائرمنٹ کی عمر (30سال) کے دوگنے سے بھی زیادہ تھیں۔

اعظم گڑھ کے ایک گاوں کے 65سالہ بزرگ کو اس الزام میں گرفتار کر لیا گیا کہ وہ بازار میں اسامہ بن لادن زندہ باد کا نعرہ لگا رہے تھے۔ پورے یوپی میں درج مقدمات کی چارج شیٹ پر ایک نظر ڈالنے ہی سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ساری کہانیاں ایک ہی ماسٹر پلان سے ماخوذ ہیں۔ صرف کہانی کے کردار ، مقامات اور بعض جگہ اوقات کا فرق ہے۔

دفعات بھی کچھ حذف و اضافے کے ساتھ مشترک ہی ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ پابندی کا اعلان 27ستمبر کو شام 4بجے ہو الیکن سیمی کے نام پر پورے ملک کے درجنوں مسلمان صبح سے پہلے پہلے لاک اپ میں تھے لیکن پولیس کی کہانی میں ان سب کو دوپہر یا شام میں کہیں پوسٹر لگانے، اشتعال انگیز تقریر کرنے یا نعرہ لگانے کا الزام لگاتے ہوئے پکڑنے کی بات کہی گئی۔ کسی تنظیم کو ممنوعہ قرار دئیے جانے کے بعد اگر کوئی فرد اس نام پر کوئی کام کرتا ہے تو اصولا وہ قابل مواخذہ ہوگا لیکن پورے ملک میں پابندی کے اعلان سے قبل ہی سیمی کے نا پر گرفتاریوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔

قانونی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ انسداد غیر قانونی سرگرمی قانون1967، جس کے تحت سیمی پر پابندی عائدکی گئی کے مطابق کسی بھی تنظیم پر پابندی لگانے کے بعد نوٹیفکیشن کی کاپی اس تنظیم کے مرکزی دفتر پر، نمایاں مقام پر چسپاں کرنا، مرکزی دفتر کے اہلکار کو سونپنا، یا نوٹیفکیشن کے مواد کا اس تنظیم کی سرگرمیوں کے علاقوں میں لاوڈاسپیکر سے اعلان کرنا ضروری ہے۔

سیمی کے اس وقت کے صدر جناب شاہد بدر کا کہنا ہے کہ ہمیں 27ستمبر 2001کی شام کو ٹی وی پر نشر خبر کے ذریعہ معلوم ہوا کہ ہم پرپابندی لگا دی گئی ہے۔ جب کہ پورے ملک میں ہمارے سارے دفاتر کے فون صبح ہی سے کاٹ دئیے گئے تھے۔ اترپردیش سمیت مختلف ریاستوں میں رات ہی میں گرفتاریاں عمل میں آچکی تھیں۔ شاہد بدر مزید بتاتے ہیں کہ 27ستمبر کو رات 12بجکر 40منٹ پر پولیس سیمی کے مرکزی آفس میں گالیاں دیتی ہوئی دروازہ توڑ کر داخل ہوئی اور ہمیں گرفتار کرلیا۔ ہمیں اس وقت تک کسی بھی طرح کا کوئی نوٹیفکیشن نہیں دیا گیا۔

سیمی پر پابندی کے ان آٹھ سالوں میں عوام کے سامنے زیادہ تر وہی باتیں آسکی ہیں جنھیں حکومت نے لانا چاہا۔ نام نہاد آزاد اور غیر جانب دار میڈیا بھی اس معاملے میں حکومت کی اطلاعات کو من وعن نقل کرنا ہی بہتر سمجھتارہا۔ عموما ایسا ہوا ہے کہ جب بھی سیمی کے نام پر کوئی گرفتاری ہوتی ہے، میڈیا اس کو بطورخاص کور کرتا دکھائی دیتاہے۔ عدالتوں میں ان کی پیشی ،پولیس حراست میں اقبال جرم وغیرہ کی کہانی بھی نمایاں مقام حاصل کرتی ہے۔

لیکن جب کچھ دنوں بعد عدالت اسے بری کردیتی ہے تو یہ خبر ان کے لئے کوئی اہمیت نہیںرکھتی۔سیمی کے نام پر سب سے زیادہ واویلا مہاراشٹر میں مچایا گیا، جہاں مسلسل کئی برسوں سے کانگریس بر سر اقتدار ہے ۔ سیمی پر پابندی لگنے کے بعد سال 2002میں گھاٹ کوپر میں ایک بس میں بم دھماکہ ہوا۔ ممبئی پولیس نے اسے سیمی کی کارروائی قرار دیتے ہوئے 16لوگوں کو پوٹا کے تحت ملزم بنایا جس میں ڈاکٹر متین اور ثاقب ناچن وغیرہ کو کلیدی ملزم کے طور پر پیش کیا گیا۔

ثاقب ناچن و دیگر 8لوگوں کو اس مقدمے میں پولیس نے 2003میں گرفتار کیا لیکن سال بھر کے اندر ہی اپریل 2004ءمیں ان کو ڈسچارج کردیا گیا اور پھر بقیہ ملزمین بھی بعد میں عدالت کے ذریعہ بری ہوگئے۔ لیکن اس معاملے کو ستمبر 2003میں سیمی پر دوبارہ پابندی لگانے کے لئے حکومت نے اہم مقدمے کے طور پر پیش کیا۔ اسی طرح مارچ 2003میں ملنڈ، ولے پارلے اور ممبئی سینٹرل کے بم دھماکوں میں بھی 16لوگ گرفتار کئے گئے۔اس میں بھی ثاقب ناچن کو کلیدی ملزم بنایا گیا ۔

یہ معاملہ بھی پوٹا کے تحت درج کیا گیا لیکن تقریباً دو سال بعد 2005ءمیں استغاثہ نے عدالت میں ثاقب ناچن سمیت کئی ملزمین کے بارے میں تحریر لکھ کر دی کہ ان لوگوں کا بم بنانے، رکھنے یا سازش کرنے سے براہ راست تعلق نہیں تھا۔ لیکن یہ معاملہ ابھی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔

مغربی بنگال، جہاں ایک عرصہ سے خود کو فرقہ پرستی سے کوسوں دور بتانے والی پارٹی برسر اقتدار ہے، میں سیمی کے نام پر کم ڈرامے نہیں ہوئے ہیں۔ یٰسین کبیر نامی 58سالہ بزرگ کو دیگر 5لوگوں کے ساتھ مالدہ ضلع میں ستمبر2001کو گرفتار کیا گیا تھا، ان پرسیمی کا پوسٹر لگانے، اشتعال انگریز تقریریں کرنے اور نعرے لگانے کا الزام تھا۔ یٰسین کبیر کا دو سال بعد جیل ہی میں انتقال ہوگیا اور 4سال بعد سیشن کورٹ نے بقیہ4لوگوں کو بری کردیا اور ایک ملزم کو 2سال کی سزا سنائی جب کہ پانچوں ملزمین 4سال جیل میں گزار چکے تھے۔

مغربی بنگال کے ضلع مرشد آباد میں پولیس نے سیمی کے نام پر دیگر 18لوگوں کے ساتھ 75سالہ مولانا اشرف الحق نامی ایک عالم دین کو گرفتار کیا ان پر بھی پوسٹر چسپاں کرنے اور نعرے بازی کا الزام ہے ۔

مرشد آباد کے برہمپور میں واقع مولن نامی ہوٹل کے مالک ابو القاسم (65سال) کو بھی پولیس نے حراست میں لے لیالیکن بعد میں عدالت نے انھیں ڈسچارج کردیا۔ ان پر الزام تھا کہ 2001میں سیمی کے صدر شاہد بدر ایک کانفرنس کے سلسلے میں جب مرشد آباد آئے تھے تو انھیں کےہوٹل میں ٹھہرے تھے۔

اسلامک یوتھ مومنٹ نامی مقامی تنظیم نے 15 اگست 2006ءکو ”ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کا رول“ کے عنوان پر کیرلہ کے شہر پانجی کولم میں ایک سیمینار رکھا۔ حکومت نے اسے سیمی کی خفیہ میٹنگ بتا کر 5لوگوں کے خلاف مقدمہ قائم کیا ۔جب کہ پروگرام درمیان شہر میں واقع ، ہیپّی آڈیٹوریم میںمنعقد ہوا تھا ۔ آڈیٹوریم میں 500لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔ گرفتار شدگان دو مہینے سے زائد عرصہ جیل میں گزارنے کے بعد ضمانت پر رہا کر دیے گئے۔ اس مقدمے میں ابھی تک چارج شیٹ نہیں داخل ہوسکی ہے لیکن 2008ءمیں اور 10لوگوں کو اسی مقدمے میں گرفتار کرلئے گئے۔

مدھیہ پردیش پولیس کا الزام ہے کہ صفدر ناگوری نے کیرلہ کے کوٹیم ضلع کے واگھمن علاقے میں دہشت گردانہ ٹریننگ کیمپ کا انعقاد کیا تھا۔ پولیس کے مطابق سیمی کے لوگوں نے یہاں ہتھیاروں کی ٹریننگ لی اور تیراکی بھی سیکھی۔ لیکن یہ ایک سیاحتی مقام ہے یہاں ہتھیاروں کی ٹریننگ کیسے ممکن ہے اور یہاں کوئی ندی یا سوئمنگ پول بھی نہیں تو تیراکی کیسے سیکھی جاسکتی ہے۔

مدھیہ پردیش میں بھی پولیس نے کیمپ چلانے کا الزام لگایا ہے لیکن انگریزی پندرہ روزہ ’دی ملی گزٹ ‘کے ایڈیٹر ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں کا کہنا ہے کہ ہم نے جب اپنے نمائندے کو رپورٹنگ کے لئے وہاں بھیجا تو گاوں والوں نے بتایا کہ ”پولیس نے یہ یہاں خود دو دن قبل بم رکھا تھا۔“

سیمی کے نام پر دہلی پولیس نے یسین پٹیل سمیت دو لوگوں کو مئی 2002ءمیں گرفتار کیاگیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی دیوار پر اشتعال انگیز پوسٹر چپکار ہے تھے۔افکار ملی سے بات کرتے ہوئے یسین پٹیل نے بتایا کہ ان کو ایک رات پہلے ہی گرفتار کیا جاچکا ہے۔ ان کی اہلیہ نے جب دہلی ہائی کورٹ میں ’ہیبس کارپس‘ کی عرضی دائر کی تب پولیس نے جامعہ ملیہ کی دیوار پر پوسٹر چپکانے کی فرضی کہانی گڑھی۔ پولیس نے جسے پوسٹر ثابت کرنے کی کوشش کی وہ ایک اسٹیکر تھا جس کو سیمی نے 1996ءمیں شائع کیا تھا۔

پولیس نے اس کو کمپیوٹر کے ذریعہ بڑا کرکے پوسٹر کے طور پیش کیا۔ گواہ کے نام پر صرف پولیس والے تھے پولیس نے عدالت میں کہا کہ دوپہر سے شام تک کوئی گواہ نہ مل سکا ، استغاثہ نے عدالت میں یہ بھی کہا کہ لوگ اس طرح دہشت گردانہ معاملے میں گواہی سے ڈرتے ہیں۔

فہرست نہیں پیش کرنا چاہتے۔ مبین اختر نے کہا کہ اگر ایسا ہوگیا ہوتا تو ایسے لوگ جو سیمی کو جانتے بھی نہیں ان کو اس طرح جھوٹے مقدمات میں پھنساناپولیس کے لئے انتہائی مشکل ہوتا ۔ لیکن حکومت کی نیت مسلم نوجوانوں کے تئیں صاف نہیں ہے اس لئے کہیں پٹاخہ بھی پھوٹتا ہے تو سیمی ہی کانام آتا ہے۔ کوئی بھی مسلمان کسی بھی جرم میں پکڑا جائے تو اسے سیمی سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ سیمی پر لگے الزامات کے تعلق سے پوچھے جانے پر مبین اختر نے کہا کہ الزام کی حیثیت محض افواہ کی ہے۔ جب تک کہ اس کی باضابطہ تصدیق نہ ہوجائے۔

سن 2001میں سیمی پر پہلی پابندی پر کانگریس نے بھی این ڈی اے حکومت پر نشانہ سادھا تھا۔ لیکن جب وہ خود اقتدار میں آئی تو اس سے بھی آگے بڑھ گئی۔ لیکن کانگریس کے تحت انٹی کمیونل فورم کے صدر امریش مصرا کا مانناکہ سیمی پر پابندی قطعاً غلط ہے۔ انہوںنے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ کانگریس کے اندر فرقہ پرستی پائی جاتی ہے۔ نئی یوپی اے گورنمنٹ کے وزیر برائے اقلیتی امور سلمان خورشید سپریم کورٹ میں سیمی کے وکیل رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں ایک سماجی تنظیم کے پروگرام نے انہوں نے برملا اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ سیمی پر پابندی کی مخالفت میں عدالت میں بحیثیت وکیل کھڑے ہوئے تھے اور وہ پارٹی کے اس موقف کو درست نہیں سمجھتے۔

تہلکہ کے ایڈیٹر اِن لارج اجیت ساہی سیمی پرپابندی کے تعلق سے عدالت اور قانون کے سوال پر پریشان سے ہوجاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اب عدالتوں سے انصاف کی توقع فضول ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ انصاف ہندومسلم سب کے لئے ایک بنیادی ضرورت ہے۔ اگر یہاں انصاف ختم ہوگیا تو یہ ملک ٹوٹ جائے گا۔

پولیس اور عدلیہ کے علاوہ جمہوریت کے چوتھے ستون میڈیا نے بھی کم گل نہیں کھلائے ہیں۔ کسی فرد یا تنظیم پر جرم ثابت ہوئے بغیر مجرم گرداننے اور اسے مختلف مجرمانہ نام دینے کا جوچلن جدید میڈیا نے اختیار کیا ہے وہ کسی المیہ سے کم نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیمی کے شوشے کو ایشو بنانے اور پھر اس پر ہنگامہ کھڑا کرنے میں میڈیا کا کلیدی رول رہاہے۔ کسی جمہوری ملک میں کسی تنظیم پر پابندی لگا کر اس کے منھ کو بندکرنے کے بعد اس کے اوپر حکومت پولیس اور میڈیا کی الزامات کی یلغار، جمہوری اقدار کے منافی ہے ۔

ایڈوکیٹ مبین اختر کا کہنا ہے کہ جس طرح مقدمات کی سماعت ہورہی اس طرح پہلے پابندی کا مقدمہ فائنل ہونے میں کم از کم دس سال لگیں گے۔ کیا حقوق انسانی کیلئے سرگرم تنظیموں کیلئے یہ معاملہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ واقعہ یہ ہے کہ سیمی کے تعلق سے ہورہی حقوق انسانی کی حق تلفی کی یہ چند مثالیں ںہیں بلکہ پورے ملک میں اس نام پر کسی بھی مسلم نوجوان کے خون کو حلال کرلینا پولیس اور ایجنسیوں کیلئے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔


نوٹ: مضمون نگار دہلی میں ماہنامہ افکار ملی کے خصوصی نمائندہ ہیں۔



بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل

Saturday, November 7, 2009

کرکرے کا قتل کس نے کیا،دہشتگردی کا اصل چہرہ





بھارتی ریاست مہاراشٹر کی پولیس فورس کے سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس ایس ایم مشرف کی کتاب ”کرکرے کا قتل کس نے کیا؟ بھارت میں دہشت گردی کا اصل چہرہ“ اس وقت بھارتی انٹیلی جنس بیورو، ذرائع ابلاغ اور عوام میں بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق مصنف نے اپنی کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ شروع کے اسباق میں انہوں نے ملک میں پھیلی اس برہمن ذہنیت کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے جن کی وجہ سے اس وقت ملک کی سلامتی کو خطرہ ہے اور جس کی جڑیں اب ملک کی خفیہ ایجنسی انٹیلی جنس بیورو میں اندر تک پھیل چکی ہیں۔

مصنف کے مطابق اس ذہنیت کے لوگوں نے ملک کی علاقائی زبان کے میڈیا پر قبضہ کر رکھا ہے۔ مصنف نے مہاراشٹر میں ہونے والے بم دھماکوں کے لئے ایسی ہی برہمن ذہنیت اور انتہا پسند نظریات رکھنے والی تنظیموں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جو بم دھماکے کرکے مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے اور پورے ملک میں مسلم مخالف لہر پیدا کرنے کا مقصد حاصل کر رہے ہیں اور اس میں ان کی معاونت آئی بی کا پورا کیڈر کر رہاہے۔

ہیمنت کرکرے جنہوں نے مالیگاوٴں بم دھماکے کے الزام میں گرفتار سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر، کرنل پروہت، سوامی دیا نند پانڈے سمیت گیارہ ملزمان کو گرفتار کیا تھا اور ان کے بارے میں عدالت میں داخل کی گئی فرد جرم کے مطابق یہ تمام افراد اپنی تنظیم ابھینو بھارت ، جن جاگرن سمیتی اور دیگر ہندو سخت گیر تنظیموں کے بینر تلے ایک ہندو راشٹر بنانے کی کوشش میں تھے، جس کے لئے انہوں نے نیپال کے سابق راجہ سے مذاکرات کیے تھے۔

مصنف کا موٴقف ہے کہ 1994ء بم دھماکا ،کوئمبتور بم دھماکا اور قندھار طیارہ ہائی جیک کیس ایسے واقعات ہیں جن میں مسلمانوں کو بدنام کیا جا سکتا تھا۔ ان کے مطابق 1994ء میں بم دھماکے بابری مسجد انہدام کے بعد ہوئے۔ فرقہ وارانہ فسادات کے بدلے کے طور پر چند مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے افراد نے کرائے تھے اور کوئمبتور دھماکے کو بھی وہ اسی زمرے میں رکھتے ہیں البتہ قندھار طیارہ ہائی جیک کو وہ دہشت گرد کارروائی قرار دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ مصنف نے ملک میں ہوئے دیگر بم دھماکوں کو اسی برہمن واد ذہنیت کی تنظیموں کا کارنامہ قرار دیا جسے ہیمنت کرکرے نے بے نقاب کرنے کی جرأت کی تھی۔ مصنف نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت اور گجرات فسادات کے بعد جب ان برہمن ذہینت رکھنے والوں کو ان کا مقصد حاصل نہیں ہوا تو انہوں نے پھر مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لئے ایک طرف ملک میں کئی مقامات پر بم دھماکے کرانے شروع کیے تو دوسری جانب ہر ہفتے اخبارات میں آئی بی کے حوالے سے خبریں شائع ہونے لگیں کہ مختلف مسلم تنظیمیں اب دہلی ممبئی اور ملک کے بیشتر خفیہ ٹھکانوں پر حملے کرنے والے ہیں۔

یہاں مصنف نے ایک خبر کی مثال دی جس میں امریکا کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ القاعدہ ممبئی اور دہلی پر حملے کرنے والی ہے۔ دوسرے روز امریکہ نے اس خبر سے انکار کیا تھا۔ کتاب میں کہا گیا ہے کہ 2000ء سے اب تک ملک میں ہونے والے بم دھماکے انہی برہمن خیالات کی حامل تنظیموں نے کرائے ہیں۔ اس میں انہوں نے ناندیڑ بم دھماکہ، ٹرین بم دھماکہ، اجمیر شریف بم دھماکہ، مالیگاوٴں بم دھماکے اور احمد آباد بم دھماکوں کی مثال دیتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ کام کس طرح ان برہمن ذہنیت کی تنظیموں نے کیا ہے۔

مصنف نے اسی پس منظر میں ممبئی حملوں میں ہیمنت کرکرے کے قتل پر شک و شبہ ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے چند سوالات اٹھائے ہیں اور دعوی کیا ہے کہ اگر یہ جھوٹ ہیں تو حکومت اس کی تفتیش کرے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ جب بھی کہیں بم دھماکہ ہوتا ہے ، ایجنسیاں فوراً بغیر ثبوت کے رٹے رٹائے انداز میں مسلم تنظیموں کا نام لینا شروع کر دیتی ہیں۔ آئی بی پولیس تفتیش میں بلاوجہ مداخلت کرتی ہے۔

انہوں نے 11 جولائی 2006ء کے ٹرین بم دھماکوں کی مثال دی کہ جب مبینہ طور پر بے قصور افراد کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس افسران پر دباوٴ ڈالا جانے لگا تو ایک انسپکٹر ونود بھٹ نے خود کشی کر لی ۔

ان کا کہنا ہے کہ شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے۔ مسلمانوں کو فرضی پولیس مقابلوں میں ہلاک کرنے سے قبل اس شخص سے ڈائری لکھوائی جاتی ہے، نقشے بنوائے جاتے ہیں، کسی ساتھی کو فون کروایا جاتا ہے وغیر وغیرہ۔ مشرف کے مطابق یہ برہمن نواز تنظیمیں آر ایس ایس سے زیادہ خطرناک ہیں۔ مشرف نے کے پی ایس رگھوونشی کی سربراہی میں مہاراشٹر کی انسداد دہشت گردی عملہ، اترپردیش کی ایس ٹی ایف، دہلی پولیس کی اسپیشل سیل سمیت جموں کشمیر پولیس کے کچھ حصے کی کارکردگی پر شک و شبہات ظاہر کئے ہیں۔

مصنف نے شروع سے ہی اپنی کتاب میں ملک کی انتہائی اہم خفیہ ایجنسی انٹیلی جنس بیورو کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگائے ہیں کہ اس ایجنسی میں برہمن واد کیڈر ہے جو ملک کو اور حکومت کو مسلمانوں کے خلاف گمراہ کرتا آیا ہے۔ اس کی جڑیں اس حد تک پھیلی ہیں کہ جو سیکولر افسران ہیں ان کی آواز دبا دی جاتی ہے اور کبھی تو انہیں پتہ تک نہیں لگتا کہ آخر حقیقی معنوں میں کیا ہو رہا ہے۔

ذرائع کا دعوی ہے کہ اصل حملہ آور صرف ہوٹل تاج ، ہوٹل ٹرائیڈینٹ ، کیفے لیوپولڈ، اور ناریمان ہاوٴس تک محدود تھے۔ ان حملوں کا فائدہ اٹھا کر ایک منصوبے کے تحت کرکرے کو رنگ بھون کی گلی میں قتل کیا گیا۔ مصنف نے اسی پس منظر میں ممبئی حملوں میں ہیمنت کرکرے کے قتل پر شک و شبہ ظاہر کیا ہے۔



بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل

Tuesday, November 3, 2009

سوڈان میں امریکی و صہیونی مکرکرنیاں



تحریر: روف عامر پپا بریار


عالمی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ مستقبل میں وہ ریاست عالمی قیادت کا تاج پہننے میں سرفراز ہوگی جس کے پاس انرجی تیل و گیس کے وسیع ذخائر ہونگے۔

انہی زائچوں و مشاہدوں کے پیش نظر امریکہ سنٹرل ایشیا سے لیکر افریقہ تک انرجی کے انبوہ رکھنے والے علاقوں پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔ امریکہ سوڈان کے لا محدود معدنی خزانوں کو اپنے پنجہ استبداد میں مقید کرنے کے لئے پرجوش نظر اتا ہے۔

امریکہ اور برطانیہ نے اپنے زاتی مفادات کے لئے سوڈان میں ہمیشہ خانہ جنگی و نسلی تصادم کو انگیخت دی۔ چھ سالہ جنگی دور میں تین لاکھ سے زائد لوگ مارے گئے جبکہ دارفر کے دو ملین لوگ بے سائباں بن گئے۔

امریکہ نے سوڈان میں مداخلت کی تاویلات کے تناظر میں نئی پالیسی تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے ۔واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق سوڈان کی نوزائیدہ امریکی پالیسی یواین او میں امریکی سفیر سوسائن رائس اور خصوصی معاون سکاٹ کریشن اوپن کریں گی۔

صدر عمر البشیر سامراج مخالف افکار کے رسیا ہیں یوں وہ امریکہ و مغرب کے نزدیک انتہائی ناپسندیدگی کا درجہ رکھتے ہیں کیونکہ وہ دیگر مسلم ممالک کی طرح وائٹ ہاوس کے خوشہ چین بننے اور و مرغان دست اموز والا کردار ادا کرنے سے انکاری ہیں۔

وہ 1989سے صدر کے عہدے پر کام کررہے ہیں۔عالمی عدالت انصاف نے عمر حسن البشیر کے وارنٹ گرفتاری جاری کررکھے ہیں۔ ان پر دارفر میں غیر عرب باشندوں کے قتل عام کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ سوڈانی صدر نے 2005 میں ایک معاہدے پر دستخط کئے جس سے وہاں دس سالہ خانہ جنگی کا اختتام ہوا۔

دس لاکھ افراد نسلی تصادم کے عفریت کا لقمہ اجل بن گئے۔ سوڈان نے اپنے دریافت یافتہ ذخائر سے فوائد حاصل کرنے کا کام انتہائی تاخیر سے شروع کیا۔

یوں تو سوڈان میں 1959 میں تیل و گیس نکالنے کی ابتدائی کوششیں شروع تھیں۔ستر کی دہائی میں امریکی کمپنی چوران کو تیل و گیس کے ذخائر کی تلاش کا ٹھیکہ دیا گیا مگر 1990 میں یہ کمپنی اپنا کام ادھورا چھوڑ کر واپس چلی گئی۔

اور 1996 میں سوڈانی حکومت نے ملائشیا چین کے تعاون سے اپنی پیدوار بڑھانے اور نئے ذخائر تلاش کرنے کی مہم کا اغاز کیا۔ اس عرصہ میں تیل کی پیدوار بڑھتی رہی اور اٍس سال تیل کی پیدوار میں اضافہ250 بلین بیرل کے ہندسوں کو کراس کرگیا۔ 1882میں برطانیہ نے مصر پر قبضہ کیا تو سوڈان بھی انکی عملداری میں آگیا۔ برطانیہ نے سوڈان کو دو حصوں شمالی مسلم سوڈان اور جنوب میں مسیحی سوڈان میں منقسم کردیا۔ 1955 میں مصری و سوڈانی قوم پرستوں نے برطانیہ سے اپنی آزادی تسلیم کروالی اور شمالی و جنوبی سوڈان کو ایک پرچم تلے ضم کرنے کا اعلان بھی ہوا مگر برطانیہ نے دونوں حصوں میں نفاق کے ایسے زہریلے بیج کاشت کئے کہ آج تک دونوں کی وحدت کا خواب پورا نہ ہوسکا۔

حکومت نے ایک طرف تیل کو بحیرہ احمر تک پہنچانے کے لئے پائپ لائنیں تعمیر کیں تو دوسری طرف ملک میں پانچ کرنے والی ائل ریفائنریاں قائم کی گئیں۔ خرطوم آئل ریفائنری کے قیام نے پوری دنیا میں تیل و گیس کی تجارت سے منسلک انٹرنیشنل کمپنیوں کو اپنی طرف راغب کیا۔

یوں دنیا کی پیٹروکیمیکل انڈسٹری کے لئے سوڈان نعمت مترقبہ ثابت ہوا۔ تیل و گیس کے علاوہ سوڈانی دھرتی نے نایاب قسم کی معدنیات سونا چاندی چپسم کاپر سلیکون اور دیگر کے وسیع خزانوں کو اپنی کوکھ میں چھپا رکھا ہے۔

سوڈان وسعت و عرض کے میدان میں براعظم اور عربستان کا سب سے بڑا اور دنیا کا دسواں بڑا ملک ہے۔سوڈان کی ابادی 2007 کی مردم شماری کے مطابق چار کروڑ کے لگ بھگ ہے۔یہاں کی ستر فیصد ابادی مسلمان جبکہ تیس فیصد روحوں کی پوجا پاٹ کرنے والے عیسائی ہیں۔

انہی غیر مسلم عیسائیوں نے امریکی و اسرائیلی شہ پر ریاست کے سکون کو تباہ و برباد کررکھا ہے۔یہ کمیونٹی جنوبی سوڈان کی آزادی کے لئے عسکریت پسندی کا پرچم تھامے ہوئے ہے۔باغیوں کو یہود و ہنود کی عسکری شیطانی و مالی سپورٹ دستیاب ہے۔

سوڈان میں مختلف ادوار میں طرفین کے درمیان خانہ جنگی کا میدان سجتا رہا۔یوں لاکھوں لوگ اور ہزاروں بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ایک سروے کے مطاق بیس سالوں میں 40 ہزار سوڈانی موت کی سرخ چادر میں لپیٹے گئے جبکہ 20 لاکھ دربدر ہوگئے۔

اس وقت دارفر کا تنازہ شدت اختیار کرچکا ہے۔ باغی گروپوں کا موقف ہے کہ حکومت و صدر عمرحسن البشیر سیاہ فام افریقیوں کے مقابلے میں عرب نژاد باشندوں کو ہر قسم کی سہولیات مہیا کرتے ہیں جبکہ انکے حقوق غصب ہوچکے۔امریکہ نے دارفر کے مسئلہ پر صدر پر غیر مسلم عیسائیوں کی نسلی کشی کا الزام عائد کیا ہے۔

اس پر مستزاد یہ کہ یواین او نے حسن ظن سے کام لیتے ہوئے نسلی کشی کے مقدمے کو بنیاد بنا کر صدر کے خلاف وارنٹ جاری کئے ہیں۔ عالمی عدالت انصاف کے وکیل لیوس مورینو نے مغرب کے اشارے پر انصاف کش عدلیہ میں صدر کے خلاف چارج شیٹ پیش کی تھی کہ دارفر میں افریقی النسل آبادی کی نسل کشی، گینگ ریپ اور مخالفین کو علاقہ بدر کرنے کے جنگی جرائم میں عمر البشیر پر مقدمہ چلایا جائے۔

صدر نے عدلیہ کی دریدہ دہنی پر کہا تھا کہ وہ عدالت کے دائرہ کار میں نہیں آتے کیونکہ وہ ممبر نہیں ہیں۔ عرب خطے کے تمام حکمرانوں نے عمر البشیر کی پشت بانی کرکے اسے ولولہ تازہ عطا کیا۔ سوڈان نے متعدد مرتبہ افریقی ممالک میں جاری فسادوں رنجشوں اور نفرتوں کے خاتمے کے لئے پل کا کردار ادا کیا۔

انہوں نے طرفین کے درمیان بات چیت کی محفلیں منعقد کیں مگر مغربی میڈیا انکے مثبت کاموں کو بھی توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے۔

مغربی ایجنسیاں و صہیونی لابیاں دارفر میں جاری تصادم کی پشت پناہی کرتی ہے۔ باغیوں اور جنگجو گروپوں کو اسلحہ و ڈالر دیے جاتے ہیں تاکہ ریاست کا امن ہمیشہ خون بہاتا رہے۔ مغربی ممالک اور اسرائیل اپنے خونخوار عالمی دیو کی سرکردگی میں یہاں افراتفری دہشت گردی اور بغاوتوں کو پروان چڑھا کر عراق کی طرح معدنی وسائل کو اپنی دسترس میں لانا چاہتا ہے۔

تیل کی ڈکیٹی کے لئے بڑے ملکوں میں جاری گریٹ گیم کا ایک میدان سوڈان بھی ہے۔ معدنی دولت کے ساتھ ساتھ یہ خطہ جنگی نقطہ نظر سے اہمیت کا حامل ہے۔ سوڈان کو اپنا مطیع بنانے کے لئے امریکہ ایتھوپیا کو استعمال کرتا ہے۔

ایک دہائی 1990 تا2001تک امریکی اایجنسیاں ایتھوپیا کے چار ہزار سے زائد فوجیوں کو خصوصی کمانڈو تربیت دے چکے ہیں۔ ایتھوپیا کو دفاع اور اسلحہ خریدنے کی مد میں اربوں ڈالر عنائت کئے جاچکے ہیں۔ امریکہ سوڈان کے مسئلہ پر دوہری چال چل رہا ہے۔ چین و روس نے سوڈان میں کھربوں کی سرمایہ کاری کی ہے اور یہی نقطہ اوبامہ کو قبول نہیں۔

امریکہ نے چین اور روس کے عزائم کے توڑ کے لئے اپنی پالیسی میں جوہری تبدیلی کی ہے۔علاقائی امور پر اتھارٹی سمجھے جانیوالے افریقی دانشوروں کا کہنا ہے کہ امریکی پالیسی میں نرمی کا مطلب چین اور روس کو سوڈان سے نکالنے کی چال ہے۔

کہا جاتا ہے کہ سوڈان میں روس کی زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کے پیچھے چینی قیادت کی یہ سوچ کارفرماہے کہ خطے میں امریکہ کو زیر کرنے کے لئے روس کی موجودگی لازمی ہے کیونکہ عراق و کابل میں بے پناہ جنگی و مالی اور اخلاقی و جانی نقصانات کے بعد امریکہ میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ روس کے ساتھ پیچا لڑا سکے۔

سوڈان کی صورتحال کے تناظر میں روئے ارض کے تمام مسلمانوں اور حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ صدر حسن عمر البشیر کا ساتھ دیں اور تمام مسلم ریاستیں او ائی سی اور عرب لیگ یواین او میں عالمی عدالت انصاف کے غیر منصفانہ و مشرقانہ فیصلے کے خلاف آواز حق بلند کریں۔


بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل

Monday, November 2, 2009

ڈرو ن طیارہ کیو ں اور کیسے ایجاد ہوا - - - - - سچ تو یہ ہے۔




تحریر: ڈاکٹر عصمت حیات علوی




بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے دوران کروڑوں انسان مرے تھے اور ان میں زیادہ بڑی تعداد سفید فام لوگوں کی ہی تھی۔جب دوسری جنگ عظیم کا اختتام ہوا تھا تب یورپ اور امریکہ کے سفید فام لیڈر سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اگر تیسری جنگ عظیم بھی یورپ میں ہی لڑی گئی تو یورپ کی اکانومی مکمل طور پر تباہ ہو جائے گی اور سفید فام نسل کے معدوم ہوجانے کے امکانات یقینا بڑھ جائیں گے ۔

ساری صورت حال پر غورخوض کرنے کے بعد یورپین اور امریکن لیڈرز نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جنگیں تو آئندہ بھی لڑی ہی جائیں گی مگر ایشیا اور افریقہ میں اور یہ کہ ان جنگوں میں سفید فام اس طرح سے حصہ لیں گے کہ ان کا جانی نقصان کم سے کم ہو۔ ایک آپشن یہ بھی رکھا گیا تھا کہ سفید فام آئندہ ہونی والی کسی بھی جنگ میں حصہ نہ لیں، مگر اس کایہ منفی پہلو سامنے آیا تھا کہ اگر آئندہ ہونے والی جنگوں میں سفید فام اقوام نے حصہ نہ لیا تو اس دنیا کی قیادت ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔

اس لیے فیصلہ یہی کیا گیا تھا کہ سفید فام اقوام اپنی عالمی برتری اور قیادت کو برقرار رکھنے کی خاطر نہ صرف ہر جنگ میں حصہ لیں گی بلکہ ایشیا اور افریقہ میں جنگی جنون کو ہوا بھی دیں گی تاکہ ان کی اسلحہ کی فیکٹریاں رواں دواں رہیں اور ساتھ ہی ساتھ وہ ایسی نئی ایجادات بھی کر یں گی۔ جن کی بدولت سفید فام اقوام کا جانی نقصان کم سے کم ہو۔ جنگ عظیم دوم کے فوراً بعد فرانس ویت نام کی جنگ میں الجھ گیا تھا، جب ویت کانگ نے فرانس کی بری طرح سے پٹائی کی تھی تب فر انس تو بھاگ نکلا تھا۔

مگر اس کے نکلنے سے قبل ہی امریکہ اس زعم میں ویت نام کی جنگ میں کود پڑا تھا کہ میں اپنی لیٹسٹ وار ٹیکنالوجی کی مدد سے کیمونسٹ ویتنامیوں کو چند ماہ میں ہی عبرتناک شکست دے دوں گا مگر امریکہ کے ساتھ ستم یہ ہوا تھا کہ جس جنگ میں اس نے اس امید پر اپنا پاوں پھنسایا تھا کہ چند ماہ کے بعد وہ فتح یاب ہو جائے گا تو پھروہ ویت نام کا آقا بن کر وہیں پر پکے ڈیرے بھی ڈال دے گا ۔ مگر خلاف توقع اس کو ویت نام کی جنگ سے عشروں کے بعد چھٹکارا حاصل ہوا تھا اور وہ بھی عبرت ناک شکست کی ذلت سہہ کراور ہزاروں امریکیوں کی جانیں گنوا دینے کے بعد ۔

جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے دور سے لے کر ویتنام کے میدانِ جنگ سے بھاگ نکلنے تک کے عرصے کے دوران امریکہ نے سپیس ٹیکنالوجی میں اچھی خاصی پیش رفت کر لی تھی۔ آج سے پورے چالیس سال قبل جب پہلے انسان نے چاند کی سر زمین پر اپنا پہلا قدم رکھا تھا تو اس کے پیچھے ایسی مہارت یا الیکٹرانک ٹیکنالوجی تھی جو کہ ریموٹ کنٹرولڈ تھی۔ یعنی کہ اس امریکن سپیس کرافٹ میں زیادہ تر فنکشن ایسے تھے۔ جو کہ زمین پر واقع سٹیشن میں بیٹھے ہوئے انجینئرز اور ٹیکنیشن ماڈرن الیٹرانکس آلات کی مدد سے کنٹرول کر رہے تھے۔

کچھ ایسے فنکشنز بھی تھے جو کہ امریکن سپیس کرافٹ اپالو میں بیٹھے ہوئے خلاباز یعنی اسٹراناٹس کنٹرول کر سکتے تھے۔یوں جب امریکن خلابازوں نے خلائی کار چاند کی سطح پر اتاری تھی تو وہ ان کے اختیار میں تھی اور اسی طرح سے جب پہلے انسان نیل آرمسٹرانگ نے چاند کی سطح پر پہلا انسانی قدم رکھا تھا تب بھی اس کے سپیس سوٹ میں لگے ہوئے بہت سارے فنکشنز اپالو خلائی جہاز کے اندر بیٹھا ہوا دوسرا خلا باز کنٹرول کر رہا تھا ۔ امریکہ تو یہ چاہتا تھا کہ یہ خلائی مشن امریکہ کی سالگرہ یعنی کہ چار جولائی کو چاند کی سطح پر انجام پائے مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اس لیے چند دن کی دیری ہو گئی تھی۔

مگر پھر بھی اس خلائی مشن کی کامیابی پوری دنیا کے لیے حیران کن تھی اور امریکہ کے لیے خلائی دوڑ میں فتح کاایک سمبل تھی اور خلائی ریس کے دوسرے شریک روس پر واضح برتری تھی۔اس شاندار کامیابی پر امریکن پھولے نہ سماتے تھے۔ مگر نیل آرمسٹرانگ نہ تو مغرور ہوا تھا اور نہ ہی اپنے آپے سے باہر ہوا تھا۔ اگر وہ شخص چاہتا تو اپنی شہرت کے بل پر آٹو گراف دے دے کر اور جگہ جگہ لیکچر دے کر ایک ایک دن میں لاکھوں امریکن ڈالرز اکٹھے کر سکتا تھا مگر اس نے کسر نفسی اور عاجزی سے کام لیا تھا اور یہ کہتے ہوئے گوشہء گمنامی اختیار کر لی کہ میں اکیلا اس مشن کی کامیابی کا سہر ا اپنے سر نہیں باندھوں گا۔

کیونکہ اس واحد مشن کی کامیابی کے پیچھے لاکھوں امریکن سٹیزنز کی برسوں کی محنت اورہزاروں سائنس دانوں کی عرق ریز ی اور طویل رت جگوں کا پھل ہے۔ حالانکہ نیل آرمسٹرانگ کے بعد اس سے بہت ہی چھوٹے اور کم اہم سپیس مشن پر جانے والے خلابازوں نے کروڑوں ڈالرز کمائے ہیں۔

آج امریکہ اگر ایک سپر پاور ہے تو نیل آرمسٹرانگ جیسے مخلص اور محنتی امریکنوں کی بدولت ہے ۔جو کہ اپنی قوم کو بہت کچھ دے کر بھی آپے سے باہر نہیں ہوتے ۔ہمارے پاکستانی لیڈروں کی طرح سے نہیں ہیںکہ ہر ہر کارنامے کی کامیابی کا سہرا اپنے سروں پر باندھتے پھریں ۔آپ کسی بھی روز کے کسی بھی اخبار کو اٹھا کر دیکھ لیں ۔کسی نہ کسی پاکستانی لیڈر کا ایسا گمراہ کن بیان چھپا ہوتا ہے کہ۔ پوری قوم نے بھوک پیاس اور غربت کو کاٹ کر جس گول یا مقصد کو اجتماعی طور پر حاصل کیا ہوتا ہے اس مشترکہ کامیابی کا سارا کریڈٹ وہ ایک فرد واحد یا وہ ایک سیاسی جماعت لینا چاہتی ہے ۔

اسے کہتے ہیں امانت میں خیانت ۔ مگر سابقہ امریکن صدر بش اس امانت میں خیانت کا مرتکب نہیں ہوا ۔حالانکہ اس واحد شخص نے اپنے آٹھ سال کے دور صدارت کے دور ان امریکہ کودنیا کی دوسری اقوام سے دوسوسال آگے پہنچا دیا ہے۔آپ خود ہی دیکھ لیں کہ اوبامہ کے حلف کے بعد وہ زیادہ نمایاں ہونے کی کوشش نہیں کر رہا ہے۔ ہم پاکستانی عوام اور کالم نگار بش کو ناکام صدر گردانتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اگر بش ناکام ہوتا تو اوبامہ اس پر تنقید کرتا اور اس کی ساری کی ساری پالیسیوں سے کنارہ کشی کرتا مگر اوبامہ تو بش کی ایک ایک پالیسی پر قدم بہ قدم یوں آگے بڑھ رہا ہے جیسے کہ بش ڈیموکریٹ تھا یا پھر اوبامہ خود ریپبلیکن ہے۔

افغانی اورپاکستانی علاقوں پربغیر پائلٹ کے ریموٹ کنٹرولڈ ڈرون طیاروں کے حملوں کا فیصلہ بش انتظامیہ نے ہی کیا تھا اور یہ فیصلہ نائین الیون سے قبل ہی ہو گیا تھا۔سن دوہزار صفر صفر میں ہی بش انتظامیہ نے ساٹھ کے قریب پریڈیٹر طیارے حاصل کر لیے تھے۔یاد رہے کہ کلنٹن دور میں سکڈ مزائیل داغے جانے سے کئی سال قبل ہی امریکہ نے ازبکستان سے ایک معاہدہ کیا تھا ۔جس کا واحد مقصد ا زبکستان سے ڈرون طیاروں کی پروازیں تھا ۔مگر بعد کے تجربات نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ ازبکستان کے سرد موسم میں ڈرون طیارے کامیاب پرواز نہیں کر سکتے کیونکہ سرد موسم کے باعث ڈرون کا سسٹم کامیابی سے کام نہیں کر سکتا تھا۔ یوں کئی ڈرون موسم کے ستم کی نذر ہو گئے تھے۔

متبادل کے طور پر پاکستانی حکومت کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے ملک میں ڈرون طیاروں کوپرواز کرنے کے لیے اڈے فراہم کرے۔ ابتدا میں چین کی حکومت نے اس کی مخالفت کی تھی مگر جب چین کو گوادر کا ٹھیکہ دے دیا گیا تھا اور چند دوسرے پراجیکٹ بھی ۔ تو چین نے ان اڈوں کے قیام کی مخالفت ترک کر دی تھی ۔ بہرحال امریکہ نائین الیون سے قبل ہی بلوچستان میں تین مقامات پر اپنے اڈے قائم کر چکا تھا جہاں سے اگست دوہزار ایک 2001ء میں پہلی کامیاب پرواز بھی کی گئی تھی جن چند محب وطن بلوچ سرداروں نے ان اڈوں کی مخالفت بھی تھی مگر ان کو کسی نہ کسی بہانے سے ٹھکانے لگا دیا گیا تھا۔

ہماری حکومتیں تو اتنی جھوٹی ہیں کہ وہ تو آج بھی یہی کہیں گی کہ ڈرون طیارے سمندر میں کھڑے ہوئے امریکن بحری بیڑے سے پرواز کرتے ہیں۔میرے علم کی حد تک ہمارے صوبے بلوچستان میں اب بھی تین مقامات ایسے ہیں جہاں سے ڈرون طیارے پرواز کرتے ہیں۔

ڈرون طیارے پاکستان اور افغانستان پر استعمال ہونے سے قبل انیس سو پچانوے کے لگ بھگ بوسنیا ،سربیا،عراق اور پھر یمن پر استعمال کئے گئے تھے۔جس وقت نائین الیون کا وقوعہ ہو رہا تھا اس وقت ڈرون طیاروں میں نصب کیمروں کی مدد سے امریکن اسامہ بن لادن اور اس کے قریبی ساتھیوں پر اپنی نظر رکھے ہوئے تھے۔ کیونکہ وہ اسامہ پر جھوٹا الزام عائد کرنے سے پہلے یہ پورا یقین کرلینا چاہتے تھے کہ وہ حملے کے وقت پر زندہ اور صحیح سلامت ہو۔

یاد رہے کہ اس وقت افغانستان میں سورج غروب ہو نے کا وقت قریب تھا اور اسامہ اپنے ساتھیوں سمیت صلوٰة مغرب کی تیاری کر رہا تھا۔ سی آئی اے کے ایک سینئیر آفیسر کے مطابق انہوں نے دوہزار چار میں ڈرون کے ایک حملے میں اسامہ بن لادن کو اس کے متعدد ساتھیوں سمیت مار ڈالا ہے ۔جبکہ اسامہ کے ساتھی یہ کہتے ہیں کہ اسامہ زندہ ہے۔

ڈرون صرف ایک طیارہ نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک مکمل اور مربوط نظام ہوتا ہے ۔جس میں ایک زمینی سٹیشن ہوتا ہے۔ جہاں سے سٹیلائٹ کے ذریعے سے زمینی عملے کے پچپن یا ساٹھ افراد اسے کنٹرول کرتے ہیں۔پاکستان ،افغانستان ،ایران اور عراق پر جو ڈرون پرواز کرتے ہیں ان کا کنٹرولنگ سٹیشن امریکہ کے ایک مشہور صحرا نوادا میں واقع ہے اور ان پروازوں کو سی آئی اے دو مزید ایجنسیوں کے ساتھ مل کر کنٹرول کرتی ہے۔

بالعموم چار یا زیادہ ڈرون طیارے بیک وقت پرواز اکھٹی کرتے ہیں۔ مگر ایک دوسرے سے خاصے فاصلے پر ہونے کے باعث زمین پر موجود لوگوں کوصرف ایک ہی نظر آتا ہے۔

آج کل پریڈیٹر (Predator)کی بجائے جو طیارے زیادہ مستعمل اور کامیاب ہیں ان کو ریپر (Reaper) کہتے ہیں اور ان کو پریڈیٹر پر یہ برتری حاصل ہے کہ یہ سرد موسم میں بھی کام کرسکتے ہیں اور ان پر کیمروں کے ساتھ ساتھ ہتھیار بھی نصب ہوسکتے ہیں۔ ان کا سائنسی یا ٹیکنیکل نام میڈیم ایلٹیٹیوڈ لانگ اینڈ یورینس یا میل (MALE) ہے ۔

Medium Altitude Long Endurance) ۔ بغیر پائلٹ کے طیاروں کے تجربات سی آئی اے نے اسی 80ء کی دہائی میں شروع کردیے تھے اور ان تجربات کی بنیاد وہی سپیس الیکٹرانکس ٹیکنالوجی تھی جس ٹیکنالوجی کو امریکہ نے اپنے تما م کے تمام سپیس مشن ز میں استعمال کیا تھااور جس ریموٹ ٹیکنالوجی کی مدد سے پہلے انسان نے چاند پر اپنا پہلا قدم رکھا تھا۔

مگر سی آئی اے کو اس سلسلے میں زیادہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی تھی۔ اسی دوران سی آئی اے کو یہ علم ہوا تھا کہ اسرائیل کی فضائیہ کے چیف ڈیزائنر ابراہام کرم کے ڈیزائن کردہ بغیر پائلٹ کے جہاز زیادہ کامیاب ہیں تو انہوں نے اسرائیلی حکومت سے سودا بازی شروع کر دی تھی پھر اسرائیل کی حکومت نے اواکس طیاروں کی ٹیکنالوجی کے عوض ابراہام کرم کو امریکہ جانے کی اجازت دے دی تھی ۔

موجودہ ریپر(ڈرون) اسی کے ڈیزائن کردہ ہیں اور ان کو ایک امریکن فرم جنرل اٹامکس ایروناٹیکل سسٹم انکارپوریٹڈ بناتی ہے جو کہ ایک یہودی فرم ہی ہے۔اس کا چارسلنڈر انجن روٹیکس نو سوچودہ ایف ہوتا ہے۔ جس کی قوت پندرہ ہارس پاور ہوتی ہے۔ اس کی لمبائی ستائیس فٹ ہوتی ہے اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ پروں کا پھیلاو جسے ہم پاکستانی چوڑائی کہتے ہیں لمبا ئی سے زیادہ یعنی کہ تقریباً دوگنی ہوتی ہے۔

اگر یہ زمین پر کھڑا ہوتو ایک جوان مرد کے قد کے برابر آتا ہے اور اس وقت اس کا وزن ایک ہزار ایک سو گیارہ پونڈ ہوتا ہے مگر اڑان کے دوران اس کا وزن دوہزار دوسو باون پونڈ ہوتا ہے ۔ یہ عموماً پچیس ہزار فیٹ سے لے کر تیس ہزار فیٹ کی بلندی پر اسی اور ایک سو تیس میل فی گھنٹہ کی رفتار پر پرواز کر سکتا ہے۔ اس پر سے داغا جانے والا میزائل چالیس اور چوالیس میل دور موجود ہدف کو ہٹ کر سکتا ہے۔ اس میں زیادہ سے زیادہ چھ سو چھیاسٹھ پونڈ فیول ڈالا جا سکتا ہے جس کی مدد سے یہ چار سو چوالیس میل تک طے کر سکتا ہے۔

اس وقت تک امریکن فضائیہ کے پاس دوسو کے قریب ڈرون موجود ہیں۔ جلد ہی ان کی تعداد دوگنی ہو جائے گی۔ تب امریکہ اپنی کاروائیوں کا رقبہ بھی بڑ ھا دے گا اور حملوں کا تواتر بھی۔



بشکریہ: خبریں انٹرنیشنل